ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

عائشہ مبشر

امجد صاحب کی فیملی ایک عام لوئر مڈل کلاس فیملی تھی۔ میاں بیوی اور 5 بچوں پر مشتمل 7 نفوس کی فیملی کراچی شہر کے ایک گنجان آباد علاقے لیاقت آباد میں ایک 3کمروں کے چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی۔ امجد صاحب بنک میں ملازم تھے اوران کی زوجہ خالصتاً گھریلو خاتون تھیں جنہیں صبح سے شام گھر داری سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔ امجد صاحب کی تنخواہ اتنی تھی کہ بمشکل گزارہ ہوپاتا۔ دو بڑے بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی یکے بعد دیگرے فورتھ ائیر اور تھرڈ ائیر کے سٹوڈنٹ تھے۔ ردا تیسرے نمبر پر تھی میں ایک ماہ قبل ہی اس نے میٹرک اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تھا۔ خواہش تو تھی کہ شہر کے اچھے کالج میں داخلہ ہو مگر والد صاحب کی محدود آمدن نے اس کی اجازت نہیں دی لہذا انہوں نے اسے گھر سے قریب واقعہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخل کروا دیا۔ دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی بالترتیب 8th اور 9th کلاس میں پڑھتے تھے۔ ردا درمیان میں ہونے کی وجہ سے عموماً ماں باپ اور بہن بھائیوں کی بے توجہی کا شکار رہتی تھی۔ اب وہ عمر کے اس حصے میں تھی جب خود شناسی کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے اور اگر بروقت توجہ نہ ملے تو خود پسندی کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ گھر میں جب کوئی اہمیت نہ ملتی تو رداتخیلات کی دنیا میں پناہ لیتی اس کے کچے ذہن میں جانے کہاں سے تصوراتی کہانیاں جنم لیتیں اور وہ ان کہانیوں میں خود کو ایک خود اعتماد، حاضر جواب اور مرکز نگاہ ردا کے روپ میں دیکھتی تھی۔ مگر جب حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتی تو ایک نظر انداز ڈرا سہما وجود نظر آتا۔ صلاحیتیں ہونے کے باوجودماں باپ اور بہن بھائی کی بے توجہی نے اس کی شخصیت میں ایک خلا پید اکردیا تھا۔ ایک دن شام میں چھت پر کپڑے ڈالنے گئی تو نیلے آسمان پر تیرتے بادلوں نے اسے مسحور کردیا اور اپنے گرد وپیش سے ماورا آسمان کو تکنے لگی اسے لگا وہ ایک پرندہ ہے جو نیلے آسمان کی وسعتوں میں کھلی ہوا میں پر پھیلا کر اڑنا چاہتا ہے یکدم اسے احساس ہوا کہ کوئی اسے مستقل دیکھ رہا ہے اس احساس نے یکدم ردا کو بے چین کردیا جسے کوئی بھولے سے بھی نہیں دیکھتا تھا آج کوئی اسے ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہا تھا۔ ردا گھبرا کر چھت سے نیچے بھاگ آئی اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا آخری سیڑھی سے اترتے ہوئے وہ گرنے سے بال بال بچی۔ ماں کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی وہ ڈانٹنے لگیں کہ اتنی دیر سے چھت پر کیاکر رہی تھی جاؤ جاکر اپنا ہوم ورک مکمل کرو۔ ردا اور گھبرا کر غڑاپ سے کمرے میں غائب ہو گئی۔ پڑھائی سے یکدم دل اچاٹ ہو گیا بار بار چھت کا منظر اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتا۔ اگلے روز کالج سے واپسی پر ردا ٹھٹھک گئی چھت پر ٹکٹکی باندھ نے والا اب گلی کے کونے پر کھڑا مسکرا کے گھور رہا تھا جب ردا قریب سے گزری تو اس نے لپک کر کاغذ کا ایک رقعہ اس پر اچھال دیا جو ردا کی چادر کے پھیلاؤ میں الجھ گیا ردا کو اور تو کچھ سمجھ نہیں آئی اس نے گھبرا کر رقعہ ہاتھ میں دبوچ لیا اور بھاگ کر گھر میں داخل ہو گئی۔ ردا خوف کے مارے دھیرے دھیرے کانپ رہی تھی کاغذ کا رقعہ اس کی مٹھی میں اسے کسی بچھو کی مانند ڈنک مار رہا تھا۔ کمرے میں پہنچتے ہی اس نے رقعہ دور پھینک دیا، مگر کچھ ہی دیر میں کوئی دیکھ نہ لے اس خوف سے واپس اٹھا لیا اور کتاب میں چھپا لیا سوچا کہ کالج میں پھاڑ کر پھینک دے گی۔ اگلے دن کالج میں کافی گہما گہمی تھی کالج کا مینا بازار آنے والا تھا اور اس اس سے پہلے انٹر کالجییٹ بین الکلیاتی مقابلہ تھا۔ مس حمیرا ردا کی کلاس ٹیچر اور ڈیبیٹ سوسائٹی کی ہیڈ تھیں طبعاً نرم مزاج اور خوش اخلاق خاتون تھیں اور اپنی طالبات سے خصوصی لگاؤ رکھتی تھیں اپنی کلاس کی سٹوڈنٹس کو بین الکلیاتی تقریری مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے تیار کر رہی تھیں اور ابھی تک تین طالبات نے تقریری مقابلہ میں حصہ لینے کی حامی بھری تھی۔ کالج میں داخلے کے پہلے ہی دن سے ردا مس حمیرا کی توجہ کا مرکز تھی وہ کافی دن سے نوٹس کر رہی تھیں کہ ردا ایک ذہین طالبہ ہے مگر خود اعتمادی سے محروم ہے۔ مس حمیرا ایسی طالبات کو خصوصی توجہ اور شفقت دیا کرتی تھیں حالانکہ 75 طالبات کی کلاس میں موجودگی میں ہر کسی کو توجہ دینا ناممکن امر تھا مگر مس حمیرا اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ ہر طالبہ ملک پاکستان کے روشن مستقبل کی اہم کڑی ہے اگر ایک کڑی بھی کمزور رہ گئی تو پاکستان کے روشن مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں اور تاخیر ہوجائے گی۔ انہیں آج ردا پہلے کی نسبت اور زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ مس حمیرا نے اسے آواز دی تو وہ ایسے بوکھلا گئی جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ مس حمیرا اس کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہوگئیں، انہوں نے ردا کو پیار سے اپنے پاس بلایا اور کلاس کے بعد سٹاف روم میں ملنے کو کہا۔ ردا ڈرتے ڈرتے مس حمیرا کے پاس چلی گئی اور انہیں تکنے لگی مس حمیرا نے اسے انتہائی شفقت سے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ پہلے تو مس حمیرا نے کلاس میں اسکی کارکردگی کی خوب تعریف کی اور اس کی شخصیت کو بھی سراہا کہ وہ باوقار، باحیا اور مہذب ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ذہین اور تعلیمی مضامین میں بےحد اچھی ہے ان کے جملوں نے ردا کے اعصاب پر چھائے تناؤ کے گمبھیر بادلوں میں روشنی کی ایک کرن پیدا کردی۔ مس حمیر اسے پیار سے سمجھانے لگیں کہ دیکھیں ردا بیٹا آپ پڑھائی میں بہت اچھی ہیں اور آپ کی نثر نگاری بھی عمدہ ہے۔ آپ اس تقریری مقابلے میں حصہ لیں میں آپ کی بھرپور مدد کروں گی انہوں نے مزید کہا کہ ردا بیٹے زندگی میں بعض دفعہ ہمیں غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے، مشکل لمحات بطور انسان ہماری آزمائش ہوتے ہیں ہم خود کو جتنا مرضی کمزور اور اکیلا سمجھیں مگر اللہ رب العزت جو" شہ رگ سے بھی قریب ہے"اور 70 ماؤں سے بڑھ کر ہمیں پیار کرتا ہے ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ مس حمیرا کے حوصلہ افزاء جملوں نے اس کے خوف کو بالکل ختم کردایا اور اس کے اندر جیسے ایک روشنی بھر دی۔ وہ اعتماد سے بولی" ٹیچر میں انشاء اللہ آپ کی ہدایات پر مکمل عمل کروں گی اور تقریری مقابلہ میں بھی حصہ لازمی لوں گی۔ مس حمیرا نے اسے بتایا کی تقریری مقابلے کا موضوع"اے جذبہ دل گر میں چاہوں" بہت اچھا موضوع ہے جس میں ردا اپنے عزم و ارادہ کو بصورت الفاظ سب تک پہنچا سکتی ہے۔ کالج سے واپسی پر ردا گویا ایک نئی ردا تھی اسے لگا وہ بھی اہم ہے اور سب سے خوبصورت احساس تو اپنے رب کی نگہبانی اورنظر میں ہونے کا تھا اس کے قدموں کی لڑکھڑاہٹ مضبوطی میں بدل چکی تھی۔ وہ پھر گلی کے کونے پر منتظر کھڑا تھا مگر اب ردا پہلے والی ردا نہیں تھی اسنے کل والا رقعہ ہاتھ میں تھام لیا اور ا سکے سامنے پرزہ پرزہ کردیا اور نہایت اعتماد سے بولی اللہ نے ہمیں ایک ہی زندگی دی ہے اسے کس طرح گزارنا ہے ہمارا عمل اس کی وضاحت کرتا ہے اور جب لوٹ کر اس رب کی بارگاہ میں ہی جانا ہے تو بہتر ہے کہ ایسے گمراہی کے کاموں کے بجائے اپنا وقت خیر کے کاموں میںصرف کریں۔ اپنی بات مکمل کر کے وہ اعتماد سے آگے بڑھ گئی۔ اگلے دن ردا تقریر لکھ کر مس حمیرا کے پاس لے آئی۔ مس حمیرا نے تقریر پڑھی چند ایک جگہ جملوں اورالفاظ کی تصحیح کی اور ردا کو اسے باآواز بلند پڑھنے کو کہا۔ رداتھوڑی دیر جھجکی مگر ٹیچر کی حوصلہ افزائی پر اس نے ایک بار فٹا ٖفٹ تقریر پڑھ دی۔ مس حمیرا نے اسے تقریر کے اتار چڑھاؤ اور جملوں کے درمیان ٹھہراؤ کا طریقہ کار سمجھایا۔ الغرض مقررہ دن جب ردا سٹیج پر آئی تو مس حمیرا کی توجہ اور مستقل محنت کی وجہ سے ردا نے بہترین تقریر کی اور پروگرام کے اختتام پر جب نتائج کا علان ہوا تو ردا نے دوسری پوزیشن حاصل کی اس اچانک جیت نے ردا کی شخصی خود اعتمادی کو مزید بڑھا دیا۔

یہ مختصر سی کہانی لکھنے کا مقصد محض قصہ گوئی نہیں بلکہ آپ سب کی توجہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہمارے بچوں کا دور بلوغت کی طرف دلوانا ہے جس سے کم وبیشتر ہر تیسرا گھر دوچار ہے۔ پر امن و پرمسرت خاندان پر امن معاشرے کی تعمیر کا ضامن ہے۔ اور ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ یہ وہ دو اہم ترین مقاصد ہیں جو ہم کب سے پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔ مادیت پرستی اور نفسا نفسی کے دور میں زمیں پر ہی حشر کا سمان ہوا لگتا ہے۔ ہمارے گھروں میں بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے بچے اور بچیاں بہت سے جسمانی نفسیاتی اور جذباتی مزاج اور اتار چڑحاؤ کا شکار رہتے ہیں اور ماں باپ اپنی مصروفیات میں ان کو توجہ نہیں دے پاتے۔ یہ خیال رکھنا کہ آپ کے بچے کو آپ کے وقت اور توجہ کی ضرورت محض بچپن تک ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں ذیادہ بلو غت کی عمر میں ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے اس کے چیلنجز میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے آپ کے گھروں میں آپ کی اولاد کو صبح شام اپنے نرغے میں لینے کہ لئے سرگرم عمل ہیں۔ زرا آپ کی توجہ چوکی تو ان کے اس تبدیلی کے مشکل وقت میں آپ کی جگہ کوئی بھی ایسا فرد یا میڈیم لے سکتا ہے جس کا مطمع نظر محض اپنی مطلب براری ہوگا جو آپ کے اور اپ کی اولاد کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ہر ردا کو مس حمیرا نہیں ملتیں بلکہ وہ اکثر گلی کے کونے پر، سوشل میڈیا کی کسی ایپ گمراہی کو گلے لگا لیتی ہیں۔ لہذا یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ اس عمر کی علامات اور اس عمر میں ہونے والی تبدیلیوں کو کیسے احسن طریقے سے ڈیل کیا جاسکتا ہے۔ بلوغت کا احساس ہر ایک کے لئے مختلف ہوتا ہے اور یہ عمل بتدریج ہوتا ہے۔ یہ ابتدائی تبدیلیاں عام طور پر آنکھ سے نظر نہیں آتیں کیوں کہ یہ ہارمونز کے ذریعے واقع ہوتی ہیں۔ بلوغت کے لئے سب کے لئے کوئی خاص عمر مقرر نہیں ہوتی۔ یہ ہر فرد کے لئے اُس کے جسمانی نظام کے مطابق عمل میں آتی ہے۔ لڑکیوں میں بلوغت کا آغاز 8 سے 17 سال کی عمر اور لڑکوں میں 10 سے 18 سال کی عمر کے دوران ہوتا ہے۔ جسمانی تبدیلیوں سے تو عمومی طور پر والدین آگاہ بھی کر دیتے ہیں اور عمومی تربیت بھی کر دیتے ہیں۔ مگر دور بلوغت میں نوجوان بچے بچیوں میں خود شناسی اور خود پسندی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں بار بار آئینہ دیکھنا، اپنے لئے تعریفی نظروں اور جملوں کا منتطر رہنا عام بات ہوتی ہے۔ بلوغت کے دوران جسم نئے ہارمونز سے ہم آہنگی پیدا کر رہا ہوتا ہے تو خیالات میں اُلجھن پیدا ہوسکتی ہے یا جذبات میں ایسی شدّت آسکتی ہے جِس کا اِس سے پہلے کبھی تجربہ نہیں ہُوا تھا۔ اس صورتحال میں والدین ہی وہ واحد مضبوط سہارا ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی شخصیت مضبوط بنیادوں پر تعمیر کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ اہم باتوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

1۔ اولاد کی ابتدائی تربیت میں ماں کا کردار کلیدی ہوتا ہے مگر بلوغت کی عمر میں پہنچنے پر بیٹیوں کے لئے والدہ اور بیٹوں کے لئے والد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کتنا ہی مصروف ہیں روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچوں کے ساتھ وقت ضرورگزاریں۔

2۔ جب بچے لڑکپن کی سرحدوں کو پار کر کے نوجوانی کی سرحد پر قدم رکھیں تو یہ وقت ماں باپ سے زیادہ ان کا دوست بننے کا ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا تعلق استوار کریں کہ وہ سب سے بڑھ کر آپ پر اعتماد کریں اور اپنی کامیابیوں کی طرح اپنی ناکامیاں بھی کھلے دل سے آپ کے ساتھ شئیر کرسکیں۔

3۔ جوانی میں متضاد جنس کی جانب متوجہ ہونا فطری ہے لہٰذا بچپن سے ہی ان کا آئیڈیل ایسی ہستیوں کو بنائیں جن کی جوانیاں پاک و مطہر اور با مقصد تھیں۔

4۔ بچوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ انہیں ممتا کے پیار و شفقت سے کبھی محروم نہ کریں ان کی پیشانی پر بوسہ دینا کوئی اچھا کام کرنے پر ان کے ہاتھوں کو چومنا کبھی نہ چھوڑیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ہم انہیں جسمانی طور پر خود سے دور کر دیتے ہیں۔ بے شک بچپن کی طرح گود میں لینا سینے سے لگانا ممکن نہیں مگر پیشانی پر بوسہ دینا ہاتھ چومنا بالوں کو سہلانا ایک بے حد سکون آور عمل ہے جو ان کی بہت سی پریشا نیوں او ر ڈپریشن کا مداوا کرسکتا ہے۔

5۔ ماں باپ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود کو دودرجدید کی تمام نئی دریافتوں اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رکھیں تاکہ بچوں کو آپ سے بات چیت کرنے میںکوئی مشکل نہ ہو اور آپ بھی غیر محسوس طریقہ سے ان کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرسکیں۔

6۔ آپ کے بیٹا یا بیٹی جب نیا لباس پہنیں بے شک رنگ یا ڈیزائن آپ کی پسند کا نہ بھی ہوتو ان کی مبالغہ آمیز تعریف ضرور کریں جیسے ماشااللہ آپ آج بہت الگ لگ رہے ہو، یا آپ پر یہ سٹائل بہت سوٹ کر رہا ہے۔ اس ہیر سٹائل میں تو آپ بے حد خوبصورت لگ رہے ہو وغیرہ وغیرہ

7۔ اپنے بچوں کے مسائل سنتے وقت اپنے تجربے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے چیلنجز کو بھی سامنے رکھیں اگر آپ گھریلو خاتون ہیں تو باہر اپنے تعلیمی اداروں میں انہیں کس صورتحال کا سامنا ہے وہ آپ کے علم میں نہیں لہٰذا ان کے دوست بنیں ناصح نہیں۔

8۔ جب بھی آپ کی نوجوان اولاد آپ سے اپنا مسئلہ بیان کرے تو ہو سکتا ہے وہ آپ کے لئے بے حد سرسری ہو مگر ان کے لئے بے حد گمبھیر ہو اس صورتحال میں بات سنتے وقت اپنے چہرے کے تاثرات ان کے انداز بیان کے مطابق رکھیں انہیں ہر گز یہ محسوس نہ ہونے دیں کہ آپ نے ان کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

9۔ مسئلہ کا ھل دیتے وقت ناصحانہ کے بجائے مشاورتی انداز اپنائیں اپنے تجربوں سے زیادہ مقدس نفوس کی حیات طیبہ سے حوالے دیں۔ کیونکہ ان کے اعمال صالحہ کے باعث ان کا ذکر باعث برکت و سکون ہوگا۔

10۔ اگر خدانخواستہ آپ کے بچے کو ئی بہت بڑی غلطی کر بیٹھیں توبے شک یہ آپ کے لئے آزمائش کا باعث ہے مگر ان کے لئے ذیادہ بڑی آزمائش ہے اس صورتحال میں ان کو کبھی رد نہ کریں بلکہ انتہائی دانشمندی سے ان کی غلطی کی اصلاح کی بہترین صورت پرقرآن و حدیث سے رہنمائی لیں۔ اور احساس جرم سے نکلنے کے لئے انہیں وقت دیں اور اس دوران طعن تشنیع سے سختی سے اجتناب کریں نہ ہی غلطی کا بار بار ذکر کریں۔ بلکہ کوشش کریں کہ انہیں مثبت مصروفیت دیں جس کے باعث انہیں ماضی کی تکلیف دہ سوچوں سے نجات ملے۔

11۔ گھر کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں بچوں سے مشاورت کریں تاکہ نہ صرف انہیں رائے دینا اور اپنی رائے کا تجزیہ کرنا ٰآئے بلکہ انہیں اپنی اہمیت کا بھی احساس ہو اس طرح ان کا اپنے گھر اور اپنے گھر کے افراد سے رشتہ مضبوط ہوگا۔

12۔ 12 سے 25 سال کی عمر تک کے بچوں کو اپنے عمومی معاملات پر خود فیصلہ کرنے دیں اور اپنی رائے ان پر ہر گز زبر دستی نہ تھوپیں آپ ان کےآجر نہیں بلکہ ماں باپ ہیں ہماری بچوں میں سب سے بڑی خامی مضبوط قوت فیصلہ کا نہ ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ اعتماد و یقین سے کہا گیا جھوٹ بھہی انہیں سچ لگتا ہے۔ انہیں فیصلہ کرنے کا جزوی اختیار دینا اور مشاورتی اور غیر محسوس انداز میں درست فیصلہ کرنے میں ان کی مدد ضرور کریں جیسے "بیٹے میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو اس کے یہ فائدے ہیں" یا"اگر یوں نہیں یوں کرلیں تو نقصان کم ہوگا" وغیرہ وغیرہ۔ بچوں کے فیصلوں کے غلط نتائج آنے کی صورت میں ایک جملہ سے سختی سے پرہیز کریںکہ دیکھا، میں نے تو پہلے ہی کہا تھا"۔ اس کی جگہ اگر یہ کہیںکوئی بات نہیں بیٹے ایسا ہو جاتا ہیہم کوئی اور لائحہ عمل اپنا کر دوبارہ کوشش کر لیتے ہیں۔

معزز قارئین ماں اور باپ بننا کو ئی عام بات نہیں ایک عظیم ذمہ داری ہے آپ کے بچے کو آپ کی جتنی ضرورت شیر خوارگی میں ہے اس سے کہیں ذٰیا دہ ضرورت آپ کے ساتھ کی اپنے جوانی کے ایام میں ہے۔ لہٰذا اپنی تربیت و تزکیہ کو ہر لمحہ جاری رکھیں کیونکہ آپ کی اولاد آپ کی شخصیت کا آئینہ ہے جیسا آپ خودکو ڈھالیں گے وہ ویسے ہی نظر آئیں گے۔ آپ کی اولا دصرف آپ کا ہی نہیں بلکہ آپ کے ملک او ر اللہ کے دین کا بھی سرمایہ اور مستقبل ہے۔ آپ کی تربیت اور آپ کا وقت جو آپ اڑھائی سال سے لیکر 25 سال کی عمر تک اپنے بچوں کو دیتے ہیں وہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس کے لئے مثل مشہور ہے کہ "جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوگا"۔ یا پھر "جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے"۔ موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بد تر ہوتی معاشی صورتحال ایک بہت بڑا چیلنج ہے نوجوان نسل میں بڑھتا ڈپریشن، خود کشیوں اور جرائم کی طرف رغبت کا رحجان ایک ایسی مسلسل جنگ ہے کہ ہم اس سے لڑیں گے نہیں تو اس کا شکار ہو جائیں گے۔ پھر دعا زہرہ، نمرہ، دینارجیسے کیسز منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ہماری دعاہے کہ اللہ رب العزت ہمیں ہمارے دل، دماغ کی آنکھیں کھلی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نسلوں کی ظاہر و باطن کے تمام فتنوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین