ڈاکٹر زیب النساء سرویا

انسان اشرف المخلوقات ہے۔ خالق کائنات نے اسے بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ محبت کے لطیف جذبہ سے بھی نوازا ہے لیکن ساتھ ہی اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ دنیا اور اس کی موجودات سے محبت کو کسی صورت بھی اللہ اور اس کے محبوب رسول خاتم النبین ﷺ کی محبت پر غالب نہ آنے دیا جائے تو ایمان کی سلامتی ہے۔

انسان اگر اس جذبہ محبت کو خلوص و وفاداری سے پروان چڑھائے تو قلب کو رجوع الی اللہ رکھے تو وہ مظہر یاد محبوب حقیقی بن جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت اسے علائق دنیوی اور افراد زمانہ سے بے نیاز کردیتی ہے۔ وہ مادی نفع و نقصان اور عقل و خرد کے فیصلوں کو نظر انداز کرکے آل اولاد اور تمام خونی رشتوں سے رغبت کم کرکے اپنے خالق و مالک حقیقی کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور اس کے تمام احکامات کو بلا چون و چرا ماننے لگتا ہے۔ مومن کا اللہ سے عشق اسے دنیا و ماسوا سے بیگانہ بنادیتا ہے اور مومن قلب میں عشق کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ بندہ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے رجوع الی اللہ کرتا ہے تو جواب ملتا ہے اگرتم عشق کے تقاضوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہو تو اللہ کے گھر حج کے لیے آئو۔

حج اور اس کے مناسک شعائر اللہ ہیں۔ ان کی تعظیم اور ادب عبادت سے تعبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسلؑ کے ان واقعات حیات کو چن چن کر بنی نوع انسان کے سامنے رکھا ہے جو محبت، قربانی اور وفا کی ذیل میں ابدی معیار کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ سیرت پاک میں آگ میں ڈالنے جانے کا واقعہ پہلا امتحان تھا۔ اقبال نے اسے عشق سے تعبیر کیا ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

بیٹے کو اہلیہ حضرت ہاجرہؑ کے ساتھ بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنا دوسرا امتحان تھا۔ اس وقت ابھی مکہ میں کعبہ کی تعمیر عمل میں نہ آئی تھی۔ پھر باپ ابراہیمؑ نے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر کعبہ کی بنیادیں اٹھائیں۔ تیسرا امتحان اس بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا تھا۔ باپ بیٹا اس امتحان میں بھی کامیاب ٹھہرے۔ حضرت اسماعیلؑ کا اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا جذبہ قربانی کی تاریخ میں بے مثل ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں توحید کے علمبردار ان پیغمبروں کی سیرت اور تعلیمات پر کئی پراثر شعر کہے ہیں جو ان واقعات کی طرف اشارے کرتے ہیں۔

ہر کہ در اقلیم لا آباد شد
فارغ از بند زن و اولاد شد

می کند از ماسوا قطع نظر
می نہد سا طور برحلق پسر

ترجمہ: جو کوئی توحید کی ولایت میں آباد ہوتا ہے وہ زن و اولاد کے بندھن سے آزاد ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص غیر اللہ سے لاتعلق ہوجاتا ہے پھر وہ بیٹے کی گردن پر بھی چھری رکھ دیتا ہے۔ ایک اور مقام پر کہتے ہیں:

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آداب فرزندی

اللہ کریم کو اپنے بندوں کی ادائیں اتنی پسند آئیں کہ انہوں نے ان کا اتباع تا قیامت واجب قرار دے دیا۔ تاریخ کے مطابق اللہ کے پہلے گھر کو حضرت آدمؑ نے مکہ میں تعمیر کیا اور یہ مقام رشد و ہدایت ٹھہرا۔ طوفان نوح کے وقت کعبہ اللہ آسمان پر اٹھالیا گیا اور روئے زمین پر اس کے آثار باقی نہ رہے۔ پھر دوبارہ حضرت خلیل اللہ ؑنے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ کعبہ تعمیر کیا۔ اس تعمیر کی بنیاد موحد اعظم حضرت ابراہیمؑ نے خلوص اور محبت سے اٹھائی تھی۔ اس گھر کی تعمیر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ وہ جہان والوں کو اس گھر کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ قرآن و حدیث میں اس دعوت ابراہیمی کا ذکر ملتا ہے۔

حج کا آغاز بعثت نبوی سے تقریباً تین ہزار سال قبل ہوا اور آپ ﷺ کی آمد تک کسی نہ کسی صورت جاری رہا۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ تحریف ہوگئی اور کئی غلط رسوم مروج ہوگئیں۔ آپ ﷺ نے بعثت کے بعد ان تمام قبیح رسوم کا خاتمہ کیا۔ 10 ہجری کا حجۃ الوداع کی عظیم مثال دنیا کے سامنے ہے۔

حج اسلام کا پانچواں اہم رکن ہے۔ اس کے لغوی معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں حج سے مراد وہ جامع عبادت ہے جس میں مسلمان بیت اللہ پہنچ کر کچھ مخصوص عبادات اور اعمال بجا لاتاہے۔ حج میں چونکہ مسلمان بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے۔ اس لیے اسے حج کہتے ہیں۔ حج فرض عبادت ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً.

(آل عمران، 3: 97)

’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ‘‘

حج 9 ہجری میں فرض ہوا۔ حضرت علیؓ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی حج کی فرضیت کا اعلان اسی وقت ہوا تھا۔ (جامع ترمذی، کتاب الحج) اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے اسی مفہوم کی ایک اور روایت ہے:

یا ایها الناس قد فرض علیکم الحج فحجوا.

’’اے لوگو تم پر حج فرض کیا گیا ہے، پس حج ادا کرو ۔ ‘‘

استطاعت ہونے کے باوجود حج نہ کرنا کافرانہ روش ہے۔ جامع ترمذی میں ہے۔

عن علی قال قال رسول الله ﷺ من ملک زادا وراحلة تبلغه الی بیت الله و لمیحج فلا یموت یهودیا او نصرانیا.

’’جس شخص کے پاس حج کا ضروری سامان موجود ہو اور سواری مہیا ہو جو اس کو خانہ خدا تک پہنچاسکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر‘‘۔

یعنی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے والے یہو دو نصاریٰ کی طرح ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے استطاعت رکھنے والوں پر حج فرض کردیا ہے۔ حج کی اسی غیر معمولی اہمیت کے باعث حضرت محمد ﷺ نے مختلف انداز سے اس کی ترغیب دی ہے۔ ابن ماجہ میں ہے:

الحاج والعمار وفد الله ان دعوه اجابهم وان استغفروه غفرلهم.

’’حج اور عمرہ کرنے والے خدا کے مہمان ہیں وہ اللہ سے دعا کریں تو ان کی دعائیں قبول فرمائے اور اس سے مغفرت چاہیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ‘‘

بخاری و مسلم شریف میں ہے: حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ ایک شخص میدان عرفات میں حضور نبی کریم ﷺ کے بالکل قریب ہی اپنی سواری پر تھا کہ یکا یک گرا اور انتقال کرگیا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کو غسل دے کر احرام ہی میں دفن کردو۔ یہ قیامت کے روز تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ اس کا سر اور چہرہ کھلا رہنے دو۔

ترمذی و نسائی میں ہے: حج اور عمرہ پے بہ پے کیا کرو، کیونکہ حج اور عمرہ دونوں ہی فقر و احتیاج اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کی میل کچیل کو صاف کرکے دور کردیتی ہے، حج مبرور کا اجر و صلہ تو بس جنت ہی ہے۔ حج کرنے والے کا مسلمان، عاقل، بالغ، صاحب استطاعت، آزاد اور جسمانی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہے۔ یعنی اسے کوئی ایسی بیماری نہ ہو جس میں سفر کرنا ممکن نہ ہو۔ لہذا لنگڑے، اپاہج، نابینا اور زیادہ بوڑھے شخص پر خود حج کرنا واجب نہیں۔ البتہ دوسری تمام شرائط موجود ہوں تو دوسرے سے حج کراسکتاہے۔ خاتون کے حج پر جانے کے لیے محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ محرم عاقل، بالغ دین دار اور قابل اعتماد شخص ہو۔ حالت عدت میں عورت پر حج واجب نہیں۔ حج کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ سارے ارکان مقررہ ایام، مقررہ اوقات اور مقررہ مقامات میں اداکرے۔ حج کرنے والے کا مفسدات سے بچنا اور حج کے تمام ارکان و فرائض بجا لانا فرض ہے بصورت دیگر حج صحیح نہ ہوگا۔

جس شخص پر حج فرض ہوجائے اسے چاہیے کہ وہ اسی سال کرلے۔ بلاوجہ تاخیر کرنا اور ہر سال اگلے سال پر ڈالنا جائز نہیں۔ فریضہ حج اداکرنے سے قبل اگر والدین ضعیف ہوں یا معذور اور حج کرنے والے کی مدد کے محتاج ہوں تو ان سے شرعاً اجازت لینا ضروری ہے۔ ایسے ہی مقروض یا ضامن کا متعلقہ افراد سے اجازت لیے بغیر حج کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ حرام سے کمائے مال سے حج کرنا حرام ہے۔ حج کرنے والا اگر خود حج پر نہ جانے کے قابل رہے تو وہ کسی دوسرے شخص کو اپنے مصارف سے حج کراسکتا ہے۔ اس کو حج بدل کہتے ہیں۔

حج کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ میقات پر پہنچ کر احرام باندھ لے۔ مختلف ممالک کے رہنے والوں اور مسلمان ممالک کی طرف سے آنے والوں کے لیے پانچ میقات ذوالحلیقہ، ذات عرق، جحفہ، قرن المنازل اور یلملم مقرر کیے گئے ہیں۔ اہل پاکستان یلملم کے مقام سے احرام باندھتے ہیں۔ احرام باندھے بغیر مقام میقات سے آگے نکل جانا مکروہ تحریمی ہے۔ احرام باندھنا، وقوف عرفات اور طواف زیارت کرنا فرائض حج میں داخل ہے۔ احرام باندھنے سے قبل غسل کرنا سنت موکدہ ہے۔ نابالغ بچوں کے لیے بھی غسل کرنا مسنون ہے اور خواتین اگر حالت حیض و نفاس میں ہوں تو بھی غسل کرنا مسنون ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں تیمم کرنا ضروری نہیں۔ احرام کے لیے غسل سے قبل بال بنوانا، ناخن کتروانا اور سفید چادر باندھنا اور خوشبو لگانا مستحب ہے۔ احرام باندھ لینے کے بعد کئی کام ممنوع ہوجاتے ہیں ان ممنوعہ کاموں سے بچنا ضروری ہے۔ احرام باندھتے ہی زائر تلبیہ پڑھتا ہے۔

لبیک، اللهم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمة لک والملک لاشریک لک.

(بخاری و مسلم)

’’میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، (تیری پکار پر) تیرے حضور حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، یہ حقیقت ہے کہ حمدو شکر کا مستحق تو ہی ہے، احسان وانعام تیرا ہی ہے، اقتدار تیرا ہی حق ہے، تیرے اقتدار میں کوئی شریک نہیں۔ ‘‘

تلبیہ بلند آواز سے پڑھنا ضروری ہے، گفتگو کرنا منع ہے ہاں سلام کا جواب دینے کی اجازت ہے لیکن تلبیہ پڑھنے والے کو سلام کرنے سے گریز کرنا چاہیے تلبیہ کے بعد درود شریف پڑھنا مستحب ہے پھر دعا پڑھی جاتی ہے۔ تلبیہ دراصل اللہ تعالیٰ کی منادی اور پکار کا جواب ہے۔ تلبیہ کہنے والا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ اے اللہ میں تیری محبت میں دیوانہ وار سب کچھ چھوڑ کر حاضر ہوں۔ تیرے احسان اور توفیق سے تیری توحید کا اقرار کرتا ہوں۔

ترمذی میں ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بھی کوئی مسلمان لبیک کی صدا لگاتا ہے تو اس کے ساتھ وہ ساری چیزیں لبیک پکار اٹھتی ہیں جو اس کے دائیں بائیں موجود ہیں، خواہ وہ پتھر ہو، درخت اورمٹی کے ڈھیلے ہی ہوں۔ یہاں تک کہ یہ زمین ادھر سے بھی ختم ہوجاتی ہے اور ادھر سے بھی یعنی یہ سلسلہ پوری زمین میں پھیل جاتا ہے۔

وقوف حج کا اہم رکن ہے زائر حج کے دوران تین مقامات پر وقوف کرتا ہے، سب سے اہم وقوف عرفات ہے۔ عرفہ کے دن میدان عرفات میں لاکھوں انسان ایک ہی جیسا لباس پہنے اپنے خدا کے حضور عجزو نیاز کی تصویر بنے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ایمان افروز منظر میدان حشر کی یاد تازہ کرتاہے۔ وقوف عرفات کے بغیر حج نہیں ہوتا وقوف عرفات کا وقت مومن کی زندگی کے لیے سب سے قیمتی متاع ہوتا ہے۔ وقوف عرفات میں قیام و دعا کرنے والوں کے لیے بخشش کی خوشخبری ہے۔ لہذا حج کرنے والوں پر لازم ہے کہ دعا خصوصی طریقے سے کریں اور مسلسل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں۔

بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح اہم عبادت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نماز میں گفتگو نہیں کرسکتے۔ جب کہ طواف کے دوران گفتگو کرسکتے ہیں۔ ترمذی و نسائی کی حدیث میں ہے کہ جو شخص طواف کے دوران کوئی بات کرے تو اس کو چاہیے کہ منہ سے اچھی بات ہی نکالے۔ زائر طواف کے دوران استلام کرتا ہے یعنی حجر اسود کو بغیر آواز کے بوسہ دیتا ہے۔ رکن یمانی کو چھوتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کر پائے تو کسی چھڑی کو حجر اسود سے مس کرکے بوسہ لے سکتا ہے۔ اگر یہ بھی دشوار ہو تو دونوں ہاتھوں کی ہھتیلیاں حجر اسود کی طرف کرکے ہاتھ کانوں تک اٹھالے اور پھر اپنے ہاتھوں کو بوسہ دے اور دعا کرے۔ رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جو ہر اس بندے کی دعا پر آمین کہتے ہیں جو اس کے پاس دعا کرتا ہے۔

طواف کی چھ قسمیں طواف زیارت، طوف قدوم، طواف وداع، طواف عمرہ، طواف نذر اور طواف نفلی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ طواف میں رمل اور اضطباع ضروری ہے یہ دونوں اعمال طاقت اور قوت کے مظہر ہیں۔

سعی کرنا، مزدلفہ میں وقوف کرنا، رمی کرنا، طواف قدوم کرنا، طواف وداع کرنا، حلق یا تقصیر، قربانی، مغرب اور عشا کی نماز پڑھنا اور رمی قربانی اور حلق و تقصیر میں ترتیب کا لحاظ رکھنا حج کے واجبات میں شامل ہے۔ حج کرنے کے تین طریقے افراد، قرن اور تمتع ہیں۔ ان میں سے حج تمتع کا طریقہ نسبتاً آسان ہے۔ زائرین احرام باندھنے کے بعد مسجد حرام میں حاضری دیتے ہیں۔ خواتین حرم میں کسی بھی رنگ کے سلے ہوئے کپڑے پہن سکتی ہیں۔ ان کا احرام یہ ہے کہ وہ چہرہ کھلا رکھیں اور ہاتھوں میں دستانے نہ پہنیں، تلبیہ پڑھیں، حیض و نفاس کی حالت میں بھی حج کے تمام اعمال سرانجام دیں سوائے طواف بیت اللہ اور سعی صفا و مروہ کے۔ طواف عمرہ اور سعی کرتے ہیں پھر مقام ابراہیم پہ خشوع و خضوع کے ساتھ دو نفل نماز شکر اداکرتے ہیں پھر ملتزم پر حاضری دیتے ہیں۔ بعد ازاں زمزم پر آکر بیت اللہ کی طرف رخ کرکے بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں اطمینان سے آب زم زم پیتے ہیں اور سعی کے بعد مطاف میں دوگانہ شکر ادا کرنے کے بعد حلق یا قصر کرتے ہیں یعنی مرد بال منڈوالیتے ہیں اور عورتیں سر کے کسی حصے سے بقدر ایک انگلی کاٹ لیتی ہیں عمرہ کے بعد مکہ میں قیام ہوتا ہے۔ زائرین خدا کے گھر کی زیارت سے آنکھوں کو روشنی اور دلوں کو قرار دیتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور کثرت سے تسبییح، تکبیر و تہلیل اور طواف کرتے ہیں۔ 7 ذوالحجہ یوم الزینہ ہے اس دن زائرین بال اور خط وغیرہ بنواتے ہیں۔ غسل کرتے ہیں، نماز ظہر کے بعد امام صاحب کا خطبہ سنتے ہیں۔ 8 ذوالحجہ کو منیٰ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے ہیں اور رورو کر اللہ سے دارین کی بھلائی اور سعادت کی دعائیں کرتے ہیں۔ منیٰ میں پہنچنے کے بعد مسجد خیف میں نماز ظہر باجماعت اداکرتے ہیں۔ 9 ذوالحجہ کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرنا ہوتی ہیں۔ زائرین کو چاہیے کہ ہمہ وقت تلاوت قرآن، تسبیح اور دعائوں میں وقت گزاریں۔

9 ذوالحجہ کو عرفات میں وقوف ہوتا ہے۔ عرفات کا میدان دراصل حشر کا نمونہ ہے۔ میدان عرفات میں لاکھوں افراد ایک ہی طرح کا لباس پہنے عجز سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہ منظر زائرین کی حیات میں خوش گوار تبدیلی لاتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ نماز ظہر اور عصر کے بعد سورج ڈھلنے تک زائرین عبادت اور دعا میں مصروف رہتے ہیں پھر مزدلفہ کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ یہاں وہ مغرب اور عشاکی دو نمازیں ملا کرپڑھتے ہیں اور رات بھر مزدلفہ میں عبادت الہٰی میں مصروف رہتے ہیں۔ اگلے روز صبح سویرے 10ذوالحجہ تک تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے ہیں۔ توبہ استغفار کرتے ہیں اور جمرہ عقبہ میں رمی کے لیے چھوٹی چھوٹی کنکریاں چنتے ہیں۔ 10 ذوالحجہ کا دن زائرین حرم کا مصروف ترین دن ہوتا ہے۔ اس روز وہ جمرہ عقبہ کی رمی، پھر قربانی، پھر حلق یا قصر اور پھر ہمت ہو تو طواف زیارت کرتے ہیں۔

حج کی ادائیگی کے بعد زائرین مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہیں اور طواف وداع کرتے ہیں۔ مدینہ منورہ میں حاضری حج کا رکن نہیں لیکن مدینہ کی غیر معمولی عظمت و فضیلت، مسجد نبوی میں نماز کا ثواب اور دربار نبوی ﷺ میں حاضری کا شوق زائر کو مدینہ لے جاتا ہے۔ امت کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ سفر کرکے بیت اللہ پہنچے اور پھر دربارنبوی ﷺ میں درود و سلام کے تحفے پیش کرے۔ روضہ اقدس کی زیارت کرے اور چالیس وقت کی نمازیں بغیر فوت کیے پڑھ کر جہنم کی آگ اور عذاب سے برات حاصل کرلے۔ مسند احمد اور الترغیب میں فرمان نبوی ﷺ ہے:

جس شخص نے میری اس مسجد میں مسلسل چالیس وقت کی نمازیں اس طرح پڑھیں کہ درمیان میں کوئی نماز فوت نہیں ہوئی تو اس کے لیے جہنم کی آگ اور ہر عذاب سے برات لکھ دی جائے گی اور اسی طرح نفاق سے برات لکھ دی جائے گی۔ نیز فرمایا میرے گھر اورمیرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر حوض کوثر پر ہے۔

علم الفقہ جلد پنجم میں ہے: جس شخص نے میری وفات کے بعدمیری زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی اور جس نے میری قبر کی زیارت کی۔ اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی اور میری امت کا جو شخص میری زیارت کرنے کی سعادت اور طاقت رکھنے کے باوجود میری زیارت نہ کرے تو اس کا عذر، عذر نہیں۔

گو روضہ اقدس کی زیارت واجب ہے۔ احادیث سے یہ معلوم ہوجاتا ہے جس شخص نے حج کیا اور میری زیارت کو نہ آیا، اس نے مجھ پر ظلم کیا ایک اور حدیث میں ہے جس نے استطاعت کے باوجود میری زیارت نہ کی اس کا کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ علما نے روضہ اقدس کی زیارت کو واجب قرار دیا ہے۔ صحابہ کرامؓ، تابعین اور دوسرے اسلاف روضہ مبارک کی زیارت کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔

زائرین جب حج کا ارادہ کرلیں تو انتہائی فکر اور اہتمام سے اس مبارک سفر کی تیاری کریں کہ وہ اللہ کے مہمان بننے جارہے ہیں۔ حج کی دعائیں یاد کریں حج کی عظمت اور فضیلت جانیں کہ حج صرف اور صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی بھلائی کی نیت سے ہو۔ دکھاوا، غرور، دینی شہرت، دنیوی فوائد سے حج جیسی عبادت کو پاک رکھیں۔ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر سچے دل سے اللہ کے حضور تمام گناہوں کی توبہ کریں اور عزم کریں کہ آئندہ کبھی گناہ کے قریب نہ جائیں گے۔ اگر کسی کی حق تلفی کی ہو تو اس سے معافی مانگ لیں۔ اگر کسی کا قرضہ واجب ہو تو اسے اداکریں۔ بندوں کا حق ادا کرنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے اور حج کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے۔ لہذا زائر کو حقوق العباد کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

حج طیب مال سے ہو کہ اللہ نہ تو حرام مال قبول کرتا ہے نہ حرام مال کے ذریعے کی ہوئی عبادت قبول کرتاہے۔ زائرین کو چاہیے کہ سفر پر نکلنے سے قبل اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کے لیے وصیت کریں۔ سفر پر روانگی سے قبل مسجد میں دو رکعت نماز تحیۃ السفر ادا کریں۔ پھر سفر کی مسنون دعا پڑھیں۔ دوران سفر زبان پر قابو رکھیں اور اس کے صحیح استعمال پر توجہ دیں۔ لا یعنی گفتگو سے گریز کریں۔ سفر میں نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔ لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ شہوانی عمل، شہوانی گفتگو اور فسوق سے اور بلا وجہ کی بحث و تکرا رسے بچیں۔ حج بیت اللہ سے واپسی پر زائرین کو چاہیے کہ وہ حج مبرور کی سعادت حاصل کرکے لوٹیں۔ حج کے لیے جائیں تو اس پختہ عزم کے ساتھ کہ وہ اللہ کے مخلص بندے ہی بن کر لوٹیں گے۔ صرف دنیا کی خاطر حج کرنے والوں کے لیے آخرت میں اس سے کچھ حصہ نہیں ہے۔