احوالِ مصطفی ﷺ بزبانِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

سعدیہ کریم

امہات المومنین میں حضرت عائشہ صدیقہؓ منفرد مقام و مرتبہ رکھتی ہیں آپ پیغمبر اسلام علیہ السلام کی تنہا کنواری بیوی تھیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ نکاح سے پہلے آپؐ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز آپ ﷺ کے سامنے پیش کررہا ہے۔ پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ ﷺ کی بیوی ہیں۔ آپ ﷺ نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہؓ کی تصویر تھی۔

حضرت عائشہؓ اور آپؐ کی خانگی زندگی ہمیشہ لطف و محبت اور باہمی ہمدردی اور خلوص کا نمونہ رہی۔ آپؐ حضرت عائشہؓ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ جب باقی ازواج نے اس محبت پر شکوہ کیا تو آپؐ نے فرمایا: ام سلمیٰ مجھے عائشہ کے معاملے میں دق نہ کرو کیونکہ عائشہ کے علاوہ اور کسی بیوی کے لحاف میں مجھ پر وحی نزل نہیں ہوتی۔ حضرت عمرؓ اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہؓ کو سمجھایا کرتے تھے کہ عائشہ کی نقل نہ کیا کرو وہ تو حضور ﷺ کی محبوب ہیں۔

حضرت عمر ابن العاصؓ نے ایک مرتبہ آپؐ سے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ آپؐ دنیا میں کس کو سب سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا عائشہ کو عرض کی گئی کہ مردوں کی نسبت سوال ہے آپؐ نے جواب دیا عائشہؓ کے باپ کو۔

حضرت عائشہؓ بھی رسول اللہ ﷺ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ آج بھی ان کی محبت خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہم احوال مصطفی ﷺ کو حضرت عائشہؓ کی زبان مبارک سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی محبت و عقیدت کے تناظر میں احوال مصطفی ﷺ ہم پر ظاہر ہوں۔

بنو ہاشم کے برگزیدہ ہونے کا تذکرہ:

خوش نصیب خاندان بنو ہاشم کے چنیدہ اور برگزیدہ ہونے کا ذکر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ایک حدیث میں یوں ملتا ہے کہ:

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل امین علیہ السلام نے مجھے کہا کہ میں نے مشرق و مغرب چھان مارے ہیں لیکن محمد مصطفی ﷺ سے اعلیٰ و افضل کسی کو نہیں پایا۔ اسی طرح زمین کا چپہ چپہ کھنگال ڈالا ہے لیکن کسی خاندان کو بنی ہاشم سے افضل نہیں پایا۔

وحی کی ابتداء کے بارے میں قول حضرت عائشہ صدیقہؓ:

حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی۔ آپ ﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی سفیدی کی طرح نمودار ہوتا پھر آپ ﷺ کو خلوت نشینی سے محبت ہوگئی آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور کئی رات و دن عبادت میں گزارتے۔ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جایا کرتے حتی کہ آپ ﷺ کے پاس حق آگیا۔ غار میں ہی فرشتہ سورہ العلق کی ابتدائی آیات لے کر حاضر ہوگیا۔

نزول وحی کی کیفیت:

حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر ٹھنڈی صبح میں وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ کی جبین مبارک پر پسینہ آجاتا۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشامؓ نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ آپؐ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ کبھی گھنٹی کی گونج دار آواز کی طرح آتی ہے اور یہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے پھر وحی منقطع ہوجاتی ہے اور میں اسے محفوظ کرچکا ہوتا ہوں، کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے وہ جو کچھ کہتا ہے میں اسے محفوظ کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سخت سردی کے دنوں میں نزول وحی کے بعد آپ ﷺ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔

سفر ہجرت کے بیان میں:

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضور اکرم ﷺ کے لیے بہترین زادِ راہ تیار کیا توشہ دان چمڑے کے تھیلے میں رکھا پھر دونوںجبل ثور کے ایک غار میں چلے گئے وہاں تین راتیں ٹھہرے رہے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہجرت سے پہلے آپ ﷺ ہر روز صبح و شام میرے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس تشریف لاتے تھے اور ہجرت کے سفر سے متعلق گفتگو فرماتے۔

حضورؐ کے دست اقدس سے پیدا ہونے والی خوشبو کا بیان:

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کے دست اقدس ہمیشہ معطر رہتے جو لوگ حضور ﷺ کے ساتھ مصافحہ کرتے تو وہ کئی کئی دن تک دست اقدس کی خوشبو کی سرشاری کو محسوس کرتے رہتے تھے۔

کوثر و تسنیم سے متعلق حضرت عائشہؓ کا بیان:

حضور اکرم ﷺ کو جنت میں ایک خاص نہر کوثر عطا کی گئی ہے یہ نہر میدان محشر میں واقع ایک حوض میں گرتی ہے جسے حوض کوثر کہتے ہیں۔ اس نہر کے پانی کی یہ خصوصیت ہے کہ جو اس کو پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔ اس نہر کے بارے میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کوثر ایک نہر ہے جو حضور ﷺ کو عطا کی جائے گی۔ اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتی ہوں گے اور نہر کے جام آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے۔

طہارت فضلات مصطفی ﷺ کا بیان:

حضور اکرم ﷺ کا جسم اطہر اتنا لطیف اور پاکیزہ تھا کہ اس پر کسی ہلکی سی کثافت یا میل کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ ظاہر کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے جسم مبارک سے خارج ہونے والے فضلات مبارکہ بھی پاکیزہ و طاہر تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللہ جب آپ بیت الخلا سے واپس تشریف لاتے ہیں اور میں اندر جاتی ہوں تو مجھے وہاں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ میں وہاں صرف خوشبو کی مہکار پاتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام اہل جنت کی ارواح کی مانند بنائے گئے ہیں ان سے جو کچھ بھی خارج ہوتا ہے زمین اسے نگل لیتی ہے۔

ستر مبارکِ مصطفی ﷺ کا بیان:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی حضور اکرم ﷺ کا ستر نہ دیکھا۔

حضور اکرم ﷺ کا اندھیرے میں دیکھنے کا بیان:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اندھیرے میں بھی اس طرح دیکھتے جس طرح روشنی میں ایک نجاشی کا جنازہ آپ کے پیش نظر کیا گیا حالانکہ آپ ﷺ حبشہ میں نہ تھے آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسی طرح جب قریش نے آپ ﷺ سے بیت المقدس کے بارے میں پوچھا تو آپ کے سامنے بیت المقدس کو پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے اس کی توصیف فرمائی۔

ظلم کرنے اور ظلم کا بدلہ لینے کے بیان میں:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو کبھی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے محرمات کی بے حرمتی نہ کرے اور کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہ مارا۔ سوائے اس صورت میں کہ آپ ﷺ جہاد فی سبیل اللہ فرمارہے ہوں۔ آپ ﷺ نے نہ کبھی کسی خادم کو مارا اور نہ کسی بیوی کو۔

آپؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نہ فحش گو تھے اور نہ عمداً فحش بات کہتے اور نہ بازاروں میں چلا چلا کر باتیں کرتے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے بلکہ برائی کرنے والے کو معاف کردیتے اور اس سے درگزر فرماتے۔

اخلاق کریمہ کے بیان میں:

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ اخلاق میں حضور اکرم ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص نہ تھا اور آپ ﷺ کے صحابہ یا گھر والوں میں سے کوئی بھی حضورؐ کو بلاتا تو آپؐ ہمیشہ لبیک ہی فرماتے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ میں ایک دفعہ ایسے اونٹ پر سوار ہوئی جو سخت مزاج تھا اس کو آگے پیچھے کرتی تاکہ وہ سدھر جائے تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا عائشہؓ نرمی اختیار کرو۔

حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں کہ رسول اکرم ﷺ حضرت خدیجہؓ کا اکثر ذکر فرماتے جب بھی بکری ذبح فرماتے تو حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کی طرف ہدیہ بھیجتے۔

ایک مرتبہ کسی نے حضرت عائشہؓ سے حضور اکرم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ حضور اکرم ﷺ کا خلق سارا قرآن ہی تو ہے۔

اہل خانہ کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے مشفقانہ رویے کے بیان میں:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ اپنے کپڑوں کو صاف فرماتے۔ اپنی بکری کا دودھ دوہنے اور اپنے کپڑوں میں پیوند لگائے۔ اپنی نعلین گانٹھتے گھر کی صفائی کرتے۔ اونٹ کی نکیل ڈالتے اس کو چارہ ڈالتے خادم کے ساتھ کھانا تناول فرماتے۔ خادمہ کے ساتھ آٹا گوندھواتے اور بازار سے اپنا سامان خود لاتے۔

آپؓ فرماتی ہیں کہ جب بھی حضور اکرم ﷺ کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنے کو کہا گیا تو آپ ﷺ نے جب تک اس میں گناہ نہ ہو آسان کو اختیار کیا اور اگر اس میں گناہ ہو تو اس سے بچتے تھے۔ آپ ﷺ ہمیشہ آسانی کو اختیار کرنے کا حکم دیتے تھے۔

باتیں کرنے کے بیان میں:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ اس طرح باتیں کرتے تھے کہ اگر شمار کرنے والا شمار کرنا چاہے تو کرسکتا تھا۔ آپؐ ہمیشہ عطر اور عمدہ خوشبو کو پسند فرماتے اور اکثر استعمال فرمایا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی ان کے استعمال کی تلقین فرماتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی مروت میں تھا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں پھونکنے سے منع فرماتے۔ اپنے سامنے جو موجود ہو اس میں سے کھانے کا حکم دیا۔ مسواک کرنے اور انگلیوں کے جوڑوں کو صاف کرنے کا حکم دیتے۔

زہد و تقویٰ کے بیان میں:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے کبھی بھی تین دن متواتر شکم سیر ہوکر گیہوں کی روٹی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وصال فرمایا۔ آپ ﷺ کے ترکہ میں نہ دینار تھے۔ نہ درہم اور نہ بکری تھی نہ اونٹ۔

آپؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے میرے گھر میں اس حال میں وصال فرمایا کہ کوئی چیز ایسی نہ تھی جو کوئی جگر والا کھاتا صرف ایک طاقچہ میں کچھ جَو تھے حالانکہ حضور ﷺ نے مجھے بتایا تھا کہ مجھے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ مکہ کے میدان کو میرے لیے سونا کردیا جائے لیکن میں نے عرض کیا کہ نہیں اے میرے رب! ایک دن میں بھوکا رہوں اور ایک دن کھاؤں جس دن میں بھوکا رہوں اس دن تیری بارگاہ میں مناجات کروں اور تجھ سے دعا مانگوں اور جس دن کھاؤں اس دن تیری حمد کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔

آپؓ فرماتی ہیںکہ ہم آل محمد ﷺ کا یہ حال تھا کہ ایک ایک مہینہ گھر میں آگ روشن نہ ہوتی تھی صرف کھجور اور پانی پر گزارہ ہوتا تھا۔ آپ ﷺ جس بستر پر آرام فرماتے تھے چمڑے کا ہونا جس میں کھجور کے ریشے بھرے ہوئے تھے۔

آپؓ فرماتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ کا شکم مبارک کبھی بھی نہ بھرا ہوتا آپ ﷺ کبھی اس بات کا شکوہ نہ فرماتے۔ آپؐ کو فاقہ زیادہ پسند تھا۔ بلاشبہ آپؐ ساری رات بھوکے رہتے مگر یہ بھوک اگلے دن کے روزے کو نہ روکتی۔ اگر آپ ﷺ چاہتے تو روئے زمین کے خزانے، پھل، میوے اور فراخ زندگی اپنے رب سے مانگ لیتے اور جب میں آپ ﷺ کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی تو آپؐ کی اس حالت اور بھوک کو دیکھ کر رو پڑتی تھی۔

اور میں عرض کرتی میں آپ ﷺ پر قربان اگر آپ ﷺ دنیا میں سے اتنی غذا لے لیا کریں جو آپؐ کی بھوک کے لیے کافی ہوں تو کیا مضائقہ ہے تو آپ ﷺ فرماتے اے عائشہ! مجھے دنیا سے کیا سروکار میرے بھائی رسولوں نے اس سے زیادہ شدائد و مصائب پر صبر کیا ہے۔ وہ اسی حال میں اپنے رب کے پاس پہنچ گئے تو رب نے انہیں بہترین ٹھکانہ دیا اور بہترین جزا عطا فرمائی۔ میں حیا کرتا ہوں کہ اگر دنیا میں خوشحال رہوں تو کل ان سے کم درجہ میں رہوں مجھے اس سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں کہ میں اپنے بھائیوں اور دوستوں (رسولوں) کے ساتھ جاملوں۔ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ایک مہینہ بھی قیام نہ فرمایا کہ آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔

حاصل کلام:

حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہ شرف حاصل رہا کہ نکاح کے بعد وہ تمام وقت حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ حضور ﷺ کا وصال بھی ان کی گود میں ہوا اور آپؓ کے حجرے میں ہی تدفین ہوئی۔ آپؐ کے تمام احوال پر شاہد تھیں۔ آپ ﷺ کی زندگی کے بے شمار گوشے ایسے ہیں جن کے متعلق صراحت سے بیان فرماتی تھیں۔ امت تک آپ ﷺ کے احوال کو پہنچانے میں حضرت عائشہؓ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے نبی کی محبت اور ان کا ادب نصیب فرمائے اور حضرت عائشہ صدیقہؓطیبہ طاہرہ کی سیرت پاک کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین