رابعہ فاطمہ

عبادات دو قسم کی ہوتی ہیں۔ بدنی جیسے نماز، روزہ وغیرہ اور مالی جیسے زکوٰۃ وغیرہ۔

حج ایک ایسی عبادت ہے جو دونوں طرح کی عبادتوں کا مجموعہ ہے اس میں انسان جسمانی مشقت کے ساتھ اپنا مال بھی خرچ کرتا ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ فرض ہیں ایسے ہی حج بھی فرض ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فِیْهِ اٰیٰتٌ م بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ ج وَمَنْ دَخَلَهٗ کَانَ اٰمِنًا ط وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ.

(آل عمران، 3: 97)

’’اس میں کھلی نشانیاں ہیں (ان میں سے ایک) ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے قیام ہے، اور جو اس میں داخل ہوگیا امان پا گیا، اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اور جو (اس کا) منکر ہو تو بے شک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘

لیکن اس کے ساتھ استطاعت کی بھی شرط رکھی گئی ہے تاکہ جو اس کام کو پورا کرسکتا ہے وہی کرے تاکہ جو بیمار ہیں یا جن کو مالی طور پر مشکلات کا سامنا ہے یا پھر برے حالات سفر کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ اسے اس وقت تک موخر کرسکتے ہیں جب تک استطاعت والی شرط پوری نہ ہوجائے کیونکہ اسلام دین فطرت اور آسان دین ہے اللہ رب العزت فرماتا ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ.

(البقرة، 2: 185)

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے ۔‘‘

اسی طرح آقاؑ ارشاد فرماتے ہیں بخاری شریف کی حدیث نمبر39 ہے:

ان الدین یسر.

بے شک دین آسان ہے۔

یعنی اسلام کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَا یُکَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.

(البقرة، 2: 286)

’’الله کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘

اللہ کریم یا آقا کریم ﷺ کی طرف سے جو اوامر ونواہی ہمیں دیئے گئے ہیں ان میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں جو نہ صرف ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائیاں لاتی ہیں بلکہ آخرت میں کامیابی کی ضمانت بھی ہیں۔ انہیں احکامات میں ایک حکم حج کی ادائیگی کا بھی ہے۔

حج بظاہر ایک فریضہ ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا سفر ہے جو اپنی ذات سے اللہ رب العالمین کی طرف سفر ہے یہ ایک تربیتی سفر بھی ہے اور سفر عشق بھی ہے۔

حج کے مناسک کی ادائیگی میں ایک راز یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو انقطاع نفس کرکے اللہ رب العزت کی محبت کے سفر میں ڈبو دیتا ہے اور اللہ کی ذات سے ایسا تعلق بنا دیتا ہے کہ انسان کی اپنی مرضی ہی نہیں رہتی بلکہ اللہ کی مرضی/ مشیت ہی اس کی مرضی و رضا ہوجاتی ہے۔ حج ابتداء سے لے کر انتہا تک قدم قدم یہ اللہ کے محبوب و مکرم بندوں کی اداؤں کو اداکرنے کا نام بھی ہے۔ گویا حاجی زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں:

میں فرض محبت ادا کررہا ہوں
کسی کی ادا کو اداکررہا ہوں

اس میں کہیں پر خلیل اللہ کی آزمائشوں میں کامیابی اور دعاؤں کے ثمرات نظر آتے ہیں۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.

(البقرة، 2: 129)

’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘

اس میں کہیں پر ذبیح اللہ کی وفاؤں اور فرمانبرداری کے مظاہر نظر آتے ہیں۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی ط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَاللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.

(الصافات، 37: 102)

’’پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام ) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اگر الله نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میںسے پائیں گے۔‘‘

کہیں پر حبیب اللہ کی اداؤں کو ادا کرنے کے مواقع میسر آتے ہیں ہر طرف مصطفی ﷺ کی ادا کردہ تکبیر بلند ہوتی ہے۔

لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک گویا حج گھر سے لے کر بیت اللہ تک منیٰ سے لے کر عرفات و مزدلفہ تک صفا و مروہ سے لے کر رمی و جمرات تک حرم مکہ سے لے کر مدینہ طیبہ کی گلیوں تک سوز و جنوں کے نظارے اور عشق و مستی کے چمکارے نظر آتے ہیں۔ حج ادب و تعظیم اور عشق و معرفت کا عملی نمونہ ہے۔ اس میں ایسی ایسی حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں کہ رب کائنات کے نظام تربیت سے عقل حیران رہ جاتی ہیں۔ حج کے دوران تمام کام خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کام ہی کیوںنہ ہو رب کریم کی عنایتوں اور حکمتوں سے پُر ہے۔ ہر ہر قدم میں حکمتیں اور تربیت کا سامان موجود ہے سب کا احاطہ ممکن نہیں اس لیے چند اہم کاموں میں پوشیدہ حکمتوں کا تذکرہ کرکے ان سے فیض یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

حج رزق حلال کمانے اور کھانے کی تعلیم دیتا ہے:

حاجی ابھی حج شروع بھی نہیں کرتا کہ اس تربیت شروع ہوجاتی ہے کہ بدن کے اندر خوراک اور بدن کے اوپر لباس حلال کا ہو یعنی رزق حلال کی ترغیب دی جارہی ہے۔ حلال لباس و غذا ہوگی تو حج قبول ہوگا ورنہ منہ پر واپس ماردیا جائے گا۔ نہ صرف اپنے لیے رزق حلال کا بندوبست کرے بلکہ اپنے اہل و عیال کے لیے بھی رزق حلال اتنا چھوڑ کر جائے کہ وہ اس کی عدم موجودگی میں اپنا گزر بسرکرسکیں اور وہ بھی کسی دوسرے کا محتاج ہوئے بغیر اپنے اہل و عیال کے لیے آسانیاں پیدا کرنا حلال ذرائع سے انہیں اچھی زندگی دینا اس کی ترکیب بنائی جارہی ہے۔

حج سادہ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے:

لباس احرام سے زندگی میں سادگی کی طرف چلنے کی طرف راغب کیا جارہا ہے۔ بلکہ قیامت کے دن کی بھی تیاری کروانی جارہی ہے کہ احرام کفن میت سے مشابہ ہے قدرت یہ سکھا رہی ہے کہ پہلے میری بارگاہ میں آنے کا خالص نیت سے ارادہ کرو پھر ظاہری زیب و زینت کے بجائے لباس تقویٰ پر کاربند ہوجاؤ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ.

(الاعراف، 7: 26)

’’اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔ ‘‘

حج مکارم اخلاق اپنانے کی تعلیم دیتا ہے:

حاجی کو نہ صرف ظاہری پاکیزگی کی تربیت دی جارہی ہے بلکہ اس کے باطن کو روشن و اجلا کیا جارہاہے۔ اسلام تو ویسے بھی اعلیٰ اخلاق اپنانے کا حکم دیتا ہے لیکن حج میں تو اور زیادہ اہتمام کا حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ج فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَارَفَثَ وَلَافُسُوْقَ وَ لَاجِدَالَ فِی الْحَجِّ.

’’حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعدہ اور عشرئہ ذی الحجہ) تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے۔‘‘

(البقرة، 2: 197)

اچھے اخلاق اپنانے اور اپنے نفس اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دی جارہی ہے تاکہ روحانیت پیدا ہو قربت الہٰی کی چاشنی و حلاوت پید اہو اس طرح دوران حج حلال جانور کا شکارکرنے کی بھی ممانعت ہے تاکہ انسانی حقوق کا ادراک ہونے کے ساتھ دیگر جانداروں کے حقوق کا بھی احترام کیا جائے۔

قربانی درس ایثار دیتی ہے:

قربانی ہمارے اندر دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اپنے نفس امارہ کے سرکش جانور کو اللہ کے ڈر سے مار ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے۔ قربانی ایثار پیدا کرتی ہے بانٹ کر کھانے کی عادت ڈالتی ہے۔

حج عشق کی سیڑھی ہے:

  • حج عشق الہٰی و محبوبان الہٰی تک پہنچنے اور ان کی قربت حاصل کرنے کی سیڑھی ہے حج میں وہ بھی مناسک و ارکان اداکیے جاتے ہیں۔ وہ محبت و عشق الہٰی کے ساتھ ساتھ اللہ کے برگزیدہ بندوں سے الفت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
  • کعبہ مقدسہ کا طواف ہمیں سکھاتا ہے کہ محبوب کے در سے ہٹنا نہیں اسی کے اردگرد آس پاس ہی رہنا ہے یہی مدار ہے یہیں سے حق ملے گا۔
  • طواف میں رمل حبیب اللہ کی اداؤں کو یادکرنے کا نام ہے۔ملتزم کے پاس دعائیں مانگنا اور مقام ابراہیم پر نوافل پڑھنا خلیل اللہ کو یاد کرنے کا نام ہے۔
  • صفا مروہ کی سعی کرنا حضرت اماں ہاجرہ سلام اللہ علیہا کی تڑپ کو یاد کرنے کا نام ہے زمزم پینا سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے قدموں کو یاد کرنے کا نام ہے۔
  • حجر اسود کو بوسہ دینامحبوب خدا محمدمصطفی ﷺ کے حسین ترین لبوں کو یاد کرنے کا نام ہے۔ پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں:

لباں سرخ اکھاں کے لال یمن
چٹے دند موتیاں دیاں من لڑیاں

  • میدان عرفان و منیٰ و مزدلفہ سیدنا آدمؑ اور سیدہ اماں حواؑ کی یاد دلاتا ہے۔
  • قربان سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری و اطاعت گزاری کو یاد کرنے کا نام ہے۔ سرمنڈوانا اس منظر کی یاد دلاتاہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آقا کریمؑ اپنی والیل زلفیں منڈوارہے تھے کہ صحابہ کرامؓ ایک بھی موئے مبارک کو زمین پر نہ گرنے دیتے بلکہ اپنے اپنے ہاتھوں سے تھام کر اپنے سروں پر تاج شاہی سمجھ کر سجالیتے۔
  • رمی جمرات سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شیطان کو نیک کاموں میں رکاوٹ بننے سے روکا اس کے سامنے ڈٹ گئے اور احکام الہٰی بجا لائے یہ اسی یاد کو تازہ کرنے کا نام ہے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دشمن خدا سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور احکام الہٰی کو پورا کرنا ہے اس کی چالوں میں نہیں آنا۔ غرضیکہ حج ایک مکمل تربیتی پیکج ہے زندگی گزارنے کے لیے۔

اللہ تعالیٰ حج کے ذریعے ہمیں یہ سکھانا چاہتا ہے کہ ان بندوں کے راستے کو اپنا لو ان سے والہانہ عشق کرلو دنیا تو دنیا آخرت بھی سنور جائے گی۔

حج سراپا عشق ہے اللہ اور اس کے محبوب بندوں سے اسی طرح حج کے بعد حاجی مدینہ شریف کی زیارت کو جاتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے حاجیوں آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو۔

مدینہ شریف کی زیارت آقاؑ کے اس شہر طیبہ میں گزارے حسین ترین لمحوں اورمحبوب کی اداؤں کو یاد کرنے کا نام ہے وہاں پر گنبد خضریٰ تا قیامت جگمگاتا رہے گا کیونکہ وہ عاشقوں کا چین و سکون ہے۔

گنبد خضریٰ خدا تجھ کو سلامت رکھے
دیکھ لیتے ہیں تجھے پیاس بجھا لیتے ہیں
مکہ شریف سراپا جلال ہے
عاشقوں کی قرار گاہ ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں مکہ مکرمہ مرکز عبادت جبکہ مدینہ منورہ مرکزمحبت ہے۔

  • حج عالمگیر وحدت ملی کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اسلام ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی بات کرتا ہے اس کی عبادات کو دیکھ لیں یا معاملات کو اتحاد ہر صور برقرار رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس میں سب حاجیوں نے ایک جیسا لباس پہنچا ہوتاہے کوئی کالا ہو یا گورا لمبا ہو یا چھوٹا دنیاوی عہدے میں بڑا ہو یا چھوٹا کسی بھی ملک سے ہو سب برابر ہیں۔ ایک وقت میں لاکھوں لوگ ایک جیسا لباس ایک جیسے افعال ایک جیسے حالات میں ہوتے ہیں۔ ایک امام کی اقتداء میں نماز و حج ادا کرتے ہیں۔ اس سے یگانگت و اتفاق پیدا ہوتاہے سب اپنے رشتہ داروں سے کٹ کر جن لوگوں کو جانتے بھی نہیں ان کے ساتھ مل کر ایک جگہ قیام کرنا عبادات کرنا کھانا پینا محبت و الفت پیدا کرتا ہے۔

اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں پھر چاہے وہ حاکم ہو محکوم ہو عام ہو خاص ہو۔ سب برابر ہیں۔ سب سے عظیم وہی ہوگا جو تقویٰ میں سب سے پختہ ہوگا۔ تمام مسلمان ایک گھر کی مانند ہیں سب مل کر مضبوط و پائیدار دیواریں بناتے ہیں۔ اسلام اتفاق کا دین ہے رحمت و محبت کا دین ہے یہ جوڑتا ہے توڑتانہیں اللہ تعالیٰ جس طرح حاجیوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔ حج کے ذریعے ویسے ہی یہ ساری چیزیں ہمیں اپنی تمام زندگی میں بھی اپنانی ہوتی ہیں تاکہ مسلمان معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر دوبارہ ابھرے جیسے آقاؑ کی ظاہری حیات طیبہ میں صحابہ کرامؓ کی زندگیاں تھیں۔

اللہ پاک ہمیں بھی اپنے محبوب بندوں کا عشق اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم سب کو آقا علیہ السلام کی آل طیبہ کے صدقے حج بیت اللہ کی باادب و مقبول حج کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین