پرنسپل الفرغانہ انسٹیٹیوٹ منہاج القرآن مانچسٹر۔ یوکے
عالمی امن آج جس قدر خطرات سے دوچار ہے قبل ازیں معلوم تاریخ میں اسے اتنا خطرہ کبھی بھی نہیں رہا۔ پچھلی صدی کے نصف اول میں دو عالمی جنگیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے وقوع پذیر ہوئیں۔ دوسرا نصف تیسری عالمی جنگ کے خطرے سے لبریز رہا تاہم تباہی کے جوہتھیار ہم نے بنالئے ہیں فی الوقت تو وہی ہمیں تباہی اور جنگ سے روکے ہوئے ہیں۔ کب تک روکے رکھیں گے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بقول استاذی محترم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ’’انسانیت پچھلے دوسو سال سے تباہی کے جس دہانے پر کھڑی ہے چار ہزار سال کی معلوم تاریخ میں اتنا بڑا خطرہ کبھی نہیں پیدا ہوا‘‘۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امن عالم کو یہ خطرات کیوں لاحق ہیں؟ اس لئے کہ امن کی فکری بنیادیں بڑی کھوکھلی کر دی گئی ہیں یا یوں کہیں کہ امن کی معاصر فکری کاوش اتنی بودی، ناپائیدار اور غیر مستحکم ہے کہ وہ امن عالم کی مضبوط عمارت کا وزن برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ جو لوگ امن کی معاصر فکر کے داعی ہیں وہ امن کے طالب ہی نہیں۔ ان کا مفاد جنگ سے پورا ہوتا ہے۔ وہ جنگ کو مختلف نام دے کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جو حقیقتاً امن کے طالب یا ضرورت مند ہیں وہ امن کے لئے فکری و نظریاتی راہنمائی سے محروم ہیں۔ با الفاظ دگر عالمی امن کو تہہ و بالا کرنے والوں کے پاس فکری عملی اور عسکری و سیاسی قوت وافر ہے جبکہ امن کے خواہاں بے یار و مددگار محض بدامنی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ وہ محض دفاعی پوزیشن اپنائے ہوئے ہیں اور باطل کی فکری و عسکری یلغار کے رد عمل میں محض تحریک اور نظریہ پیدا کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بیسویں صدی کے آخر نصف سے اب تک ہمیں ایسی مستحکم نظریاتی اور عملی بنیاد کی ضرورت تھی جو جنگ کی کوشش کرنے والوں کے رد عمل میں معرض وجود میں نہ آئی ہو بلکہ جو حقیقی، اصلی اور قابل عمل ہو۔
الحمدللہ جونہی یہ ضرورت پیدا ہوئی (پچھلی صدی کا آخری نصف) اسی وقت اللہ جل مجدہ نے اپنے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اس ضرورت کو پورا فرما دیا۔ بیسویں صدی کے آخری نصف کے پہلے سال کے ابتدائی مہینوں (19 فروری) میں ہی وہ نابغہ روزگار شخصیت دنیا میں تشریف لے آئی جس نے امن عالم کے لئے اشد ضروری، جاندار، متوازن، مستحکم اور عملی و فکری بنیاد بڑے خوبصورت طریقے سے آنے والے سالوں میں خود پیش بھی فرمائی اور منہاج القرآن کی صورت میں قائم بھی فرمائی۔
اس نگارش میں میری حقیر کوشش صرف اتنی سی ہے کہ امن عالم کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور منہاج القرآن کی فکری کاوش اور عملی کردار کو بیان کر سکوں جو انہوں نے مغرب میں بالعموم اور برطانیہ میں بالخصوص ادا فرمایا۔
قیام امن اور عالم مغرب کا دوہرا معیار
یاد رہے کہ عالم مغرب میں بالعموم اور برطانیہ میں بالخصوص جو تھنک ٹینک امن و جنگ کے راستے متعین کرتے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں حکومتی اور غیر حکومتی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں بعض قدامت پرست (Conservatives) مفکرین کا نظریہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور اس کی اقدار کو سب سے بڑا خطرہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب اکٹھی نہیں چل سکتیں، دونوں کا ٹکراؤ ضروری ہے۔ دونوں میں سے ایک باقی رہ سکتی ہے، دونوں ایک ہی سطح، قوت اور طاقت کے ساتھ متوازی طور پر نہیں چل سکتیں۔
تہذیبوں کے متشددانہ تصادم کا یہ نظریہ بعض مسلمانوں کی مزاحمتی تحریکوں اور ان کی شدت پسندی کا رد عمل ہے۔ اس بحث کی تفصیلات میں جائے بغیر ایک بات واضح ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے اسی نظریئے کا رد عمل بھی شدت پسندی پر ہی منتج ہوگا۔ عملاً یہی ہو رہا ہے اور مقتدر حلقے عوام کی اکثریت کے جذبات کا خیال کئے بغیر اسی کو ہوا دے رہے ہیں۔
بعض شدت پسند مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ اسلامی تہذیب بہت سی جہات میں مغربی تہذیب سے متصادم ہے۔ (وجہ اور عدم وجہ سے قطع نظر یہ متصادم رہیں گی)۔
یہ وہ فکری مغالطہ ہے جس نے عالمی امن کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو اس منفی فکر کے داعی ہیں وہی امن عالم کے بڑے دعویدار بنے بیٹھے ہیں اور جنہیں رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے ان کا حال یہ ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی ’’عطار‘‘ کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
امید کی آواز
یہ وہ حالات ہیں جن پر ہر سو مایوسی، ناامیدی، بدنظمی، انتشاری خیالی اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے مگر ان حالات میں ایک متوازن آواز ہمیں سنائی دے رہی ہے جو ہزاروں خطابات کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کر ہی ہے کہ
’’مغرب نے اسلام سمجھا بہت غلط ہے اور مسلمانوں نے اسلام کو پیش بہت غلط کیا ہے‘‘۔
Islam the most Misunderstood in the west, the most Misrepresented by the Muslim.
ہمارے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بلا مبالغہ آسٹریلیا سے لندن تک، نیویارک سے مانچسٹر اور جنوبی افریقہ سے ناروے تک ہر وقت، ہر جگہ درج بالا صدا ببانگ دہل بلند کی ہے۔ بے شمار حوالہ جات میرے سامنے ہیں مگر میں صرف الفرغانہ انسٹی ٹیوٹ منہاج القرآن مانچسٹر کے زیر اہتمام 30 اگست 2008ء کو ہونے والے خطاب
Peace, Integration and Human Rights in the light of Quran and sunnah
کے حوالے پر ہی اکتفا کروں گا۔ جس میں آپ نے تصادم کے طرز فکر کو بہت بڑی Misunderstanding اور اس فکر کے رد عمل کو تاریخ کی سب سے بڑی اور خطرناک Misrepresentation قرار دیا۔ اس خطاب کی 400 سے زائد کاپیاں برطانوی وزیراعظم سے لیکر ممبرز پارلیمنٹ تک اور اعلیٰ حکومتی اور غیر حکومتی بااثر افراد تک پہنچائی گئیں اور اس کی بہت مثبت Feedback موصول ہوئی ہے۔ (الفرغانہ انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ www.farghan.org پر ساڑھے تین گھنٹے کا یہ انگلش خطاب سنا جا سکتا ہے)
ایک طرف آپ نے عالم مغرب اور یورپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ تصادم کی فکری بنیاد پر اسلام کو غلط سمجھ رہے ہیں اور دوسری طرف بحیثیت عالمی داعی امن بعض نادان مسلمانوں کے اس مرض کی نشاندہی کی کہ وہ اسلام کو غلط پیش کر رہے ہیں۔
الحمدللہ اس سال میری اس مصطفوی مشن اور شیخ الاسلام کے ساتھ وابستگی کی ربع صدی مکمل ہوگئی ہے۔ (اللہ تعالیٰ اس مشن اور نسبت پر قائم رکھے، اسی پر موت عطا فرمائے اور اسی پر حشر نشر فرمائے۔ آمین) میں نے ان 25 سالوں میں اپنے قائد کے بنیادی فکری تصورات کو تبدیل ہوتے ہوئے اس لئے نہیں دیکھا کہ آپ کی فکری راہنمائی کی نسبت صاحب گنبد خضریٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، نبی رحمت وامن سے جڑی ہوئی ہے۔ جو تصورات وہاں سے فیض یافتہ ہوں وہ راست، متوازن، مستحکم اور صدیوں کے لئے بصیرت افزوں کیوں نہ ہونگے؟
شیخ الاسلام نے اپنی راست فکر کے بنیادی ستون کے طور پر مغرب کو سمجھایا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو دشمن، خطرہ اور مسئلہ نہ سمجھے۔ اسلام مسئلہ نہیں بلکہ مسئلے کا حل ہے اور مسلمانوں کو ساری زندگی یہ سمجھاتے گزار دی کہ اسلام کو تماشہ نہ بناؤ، وہ چیز اسلام کے طور پر پیش نہ کرو جو اسلام نہیں۔ (ہماری مذہبی جماعتوں سے لے کر بیشتر مزاحمتی تحریکوں تک نظر دوڑائیں، خود سمجھ آجائے گی کہ ان کے پیش نظر اسلام ہے یا مفادات)
شیخ الاسلام کی راست فکری اور بصیرت
مجھے اب تک یاد ہے کہ غالباً بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر جب مرکزی سیکرٹریٹ میں 27 جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی کی گئی تو شیخ الاسلام نے محترمہ بے نظیر بھٹو (مرحومہ) کے بولے جانے والے جملے (جس میں محترمہ نے ’’بنیاد پرست Fundamentalist کا لفظ استعمال کیا) کی تصحیح کرتے ہوئے ’’انتہا پسند‘‘ Extremists کی اصطلاح استعمال فرمائی اور اس کی بڑی شرح و بسط کے ساتھ وضاحت کی۔ یہ اصطلاح ابھی مغرب میں بھی عام نہیں ہوئی تھی۔ جس اصطلاح کا استعمال میرے قائد نے آج سے ایک دہائی پہلے فرمایا وہ 2006ء میں برطانیہ میں سرکاری طور پر استعمال ہونے لگی۔
موجودہ تناظر میں عالمی امن کو لاحق خطرے کو بیان کرنے کے لئے ابتداًء جو اصطلاح عام ہوئی وہ Fundamentalist یعنی ’’بنیاد پرست‘‘ کی تھی۔ 9/11 کے بعد یہ سیدھی Terrorism (دہشت گردی) میں بدل گئی اور عالمی میڈیا صبح و شام صرف مسلمانوں پر یہ اصطلاح چسپاں کرتا چلا گیا۔ بعد ازاں نام نہاد عالمی امن کو لاحق خطرات کی آڑ میں اس کو ختم کرنے کے لئے War on Terror شروع کی گئی۔ اگر قارئین شیخ الاسلام کے تحریری و تقریری لٹریچر کا اور آپ کے افکار کا تحقیقی جائزہ لیں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ان کا کل تحریری و تقریری سرمایہ ہر طرح کے غیر فطری اور شدت پسندانہ رویئے سے پاک ہے۔ آپ نے مذکورہ تینوں اصطلاحیں نہ صرف استعمال کرنے سے گریز فرمایا بلکہ ان کا معنی متعین کرنے کی بھی بات نہیں کی کیونکہ آپ کے نزدیک یہ شروع سے ہی War on Terror نہیں بلکہ War on Islam تھی اور آج حقائق نے یہ ثابت کر دیا ہے۔
آپ کی راست فکری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ابتداء ہی سے مسئلے کی جڑ تک پہنچ چکے تھے اور آپ نے اپنے Thesis کی بنیاد اس پر رکھی کہ Terrorism علامت ہے مرض نہیں۔ جب مرض کا علاج نہیں ہوگا تو دہشت گردی (علامت) کا اظہار کسی نہ کسی صورت میں ہوتا رہے گا۔ یہ مرض عالمی استعماری قوتوں کی ظلم پروری اور ان کی طرف سے روا رکھی جانے والی ناانصافی پر مبنی جنگی حکمت عملیاں ہیں۔ اس وقت استعماری قوتوں کی یہی منافقت عراق، افغانستان، فلسطین اور کشمیر میں روا رکھے جانے والے مظالم کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بات بڑی سادہ ہے جو سب کو معلوم ہے کہ ان ممالک میں کس نے جنگ چھیڑی ہے اور کون مظلوم ہے؟ مگر طاقت کا جادو ہے جو مظلوم کو ظالم بناکر پیش کر رہا ہے۔
اصل مرض تو واقعتا انتہاء پسندی ہی ہے جو عالمی امن کے لئے خطرہ ہے۔ لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس انتہا پسندی کا موجب ہے کون؟ ظالم یا مظلوم؟ اس پس منظر میں آپ نے آج سے 15 سال قبل نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے اپنے خطبات جمعہ کی تین چار نشستوں میں سرد جنگ کے بعد استعماری قوتوں کی آئندہ حکمت عملی اور اس کے عزائم کو طشت ازبام کیا۔ ابھی یہ اصطلاحیں محدود حلقوں میں استعمال ہورہی تھیں لیکن آپ نے تحقیق کر کے دنیا کو بتایا کہ ’’دہشت گردی‘‘ ’’انتہاء پسندی‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ جیسی اصطلاحیں نہ مسلمانوں کی طرف سے متعارف کی گئیں اور نہ ان پر چسپاں ہو سکتی ہیں البتہ ان کا موجد بھی امریکہ ہے اور انہوں نے خود یہ اصطلاحیں گذشتہ صدی میں اپنے ان مزاحمتی لوگوں کے لئے استعمال کی تھیں جو لبرل اور سیکولر نظریات رکھنے والے قائدین کے لئے خطرات پیدا کررہے تھے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے شیخ الاسلام کا مختصر کتابچہ نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام اشاعت اول1994ء)
آپ نے 2006ء میں حکومت برطانیہ کے اعلیٰ سطحی پالیسی سازوں کو کئی میٹنگز میں واضح کیا کہ Terrorism اور War on Terror مسئلہ اور مسئلے کا حل نہیں۔
میں نے بذات خود ڈیفنس اکیڈمی یوکے میں شیخ الاسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے اس مسئلے پر آپ کی دی ہوئی بریفنگ کو حکومت برطانیہ اور وزارت عظمیٰ کے مشیروں کے تھنک ٹینک تک پہنچایا۔ حکومت برطانیہ نے 2006ء سے اس اصطلاح کے استعمال سے عملاً تو گریز کیا مگر باقاعدہ سرکاری اعلان برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے حالیہ دورہ بھارت کے دوران ممبئی میں 15 جنوری 2009ء کو یہ کہہ کر کیا کہ ’’اس اصطلاح کا استعمال غلط اور گمراہ کن تھا‘‘۔
انتہاء پسندوں کو سمجھنے، ان کو Expose کرنے اور ان سے دوری اختیار کرنے کا جو عمل حکومت برطانیہ نے 2006/07 میں شروع کیا شیخ الاسلام نے اس خطرے کو ایک دہائی سے سمجھ کر اس کا عملی قلع قمع کرنا شروع کر دیا۔ جب حکومت برطانیہ دانستہ یا نادانستہ انتہاء پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کی پشت پناہی کر رہی تھی، شیخ الاسلام عالمی داعی امن کے طور پر ان سازشوں کے خلاف علمی و فکری، نظریاتی و تحقیقی اور عملی جہاد کر رہے تھے۔ یہ اس جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ ان گروہوں میں پھوٹ پڑی اور وہ اپنی ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ختم ہوگئے۔ صاحبان نظر ان گروہوں کو خوب جانتے ہیں یہاں صرف اشارہ مقصود ہے۔
برطانیہ کا بہت بڑا تھنک ٹینک (Policy Exchange (px جس نتیجے پر 2007ء میں پہنچا اور حکومت کو مشورہ دیا کہ انتہاء پسندی کا رویہ رکھنے والے گروہوں کی سرپرستی ختم کی جائے اور ان سے دوری اختیار کی جائے شیخ الاسلام ایسے گروہوں کو راہ راست پر لانے کی اور معصوم نوجوانوں کو ان کے خطرے سے بچانے کی جدوجہد کا آغاز 18 سال پہلے کر چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں آج بھی سر اونچا کر کے نوجوانوں کی خدمت کرنے والی واحد اسلامی تحریک منہاج القرآن ہی ہے۔
جب 1997ء میں مسلم کونسل آف بریٹن (MCB) کا قیام عمل میں آیا اور بعد ازاں 2002ء میں اس کی قیادت نے منہاج القرآن برطانیہ سے رابطہ کیا کہ منہاج القرآن MCB کا حصہ بنے تو میرے قائد کی نور بصیرت نے بہت آگے کے مناظر دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’اسلامی اور انسانی کاز کے لئے مدد و تعاون ضرور ہوگا مگر ہم کسی غیر اسلامی اور غیر انسانی سرگرمی کا حصہ نہیں بن سکتے‘‘۔ حکومت نے ایم سی بی کی مکمل سرپرستی کی اور ان کی پالیسی کو ہی مسلمانوں کی پالیسی قرار دیا پھر بھی 7 جولائی 2005ء کو لندن میں بم دھماکے ہوگئے۔ الزام سارا مسلمانوں پر آیا، ایم سی بی دھماکے روکنے اور مسلمانوں کا دفاع کرنے میں کوئی کردار ادا نہ کر سکی۔ اس نازک اور حساس موقع پر سب سے مثبت کردار منہاج القرآن نے ہی ادا کیا۔ برطانوی تھنک ٹینک ایم سی بی کے پیچھے بھی پڑ گئے، جن حقائق کا ادراک انہوں نے یکم جولائی 2006ء کو اپنی تفصیلی رپورٹ
When Progressives Treat with Reactionaries میں کیا اور حکومت نے ان گروپوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ شیخ الاسلام ان گروپوں کی طرف سے اسلام کی Misrepresentation اور مغرب کی Misunderstanding، 1994/95 سے واضح کرتے چلے آرہے تھے۔
یہ بھی شیخ الاسلام کی عالمی امن کے لئے کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ برطانوی تھنک ٹینک (Policy Exchange (px)) نے 29 اکتوبر 2007ء کو ایک رپورٹ شائع کی، BBC نے اس کا تنقیدی جائزہ بھی لیا۔ رپورٹ کا عنوان تھا:
"The Hijacking of British Islam"
’’برطانوی اسلام کا اغوا‘‘
اس رپورٹ میں ہر مسجد اور سنٹر میں موجود تحریری و تقریری لٹریچر کا جائزہ پیش کیا گیا اور منہاج القرآن کے کسی سنٹر میں بھی تھنک ٹینک کے نمائندوں کو ایک سطر بھی ’’انتہاء پسندی‘‘ پر نہ مل سکی۔ حالانکہ کتب و کیسٹس اور DVD's کی شکل میں سب سے زیادہ لٹریچر ہمارے سنٹرز پر ہے۔ میں نے خود رپورٹ دیکھی ہے اور منہاج القرآن کا ذکر اس کالم میں ہے جس میں کوئی مواد انتہاء پسندی پر نہیں پایا گیا۔
مسلم کونسل آف بریٹن (MCB) سے حکومتی وزراء اور حکومت کی 2006ء میں دوری کے بعد صورت حال اور بھی دلچسپ رہی وہ یہ کہ حکومت نے اپنی سرپرستی میں صوفی مسلم کونسل (SMC) کی بنیاد رکھوائی۔ پھر شیخ الاسلام سے اعلیٰ سطحی میٹنگز اور رابطے ہوئے۔ آپ نے مسئلے کا واضح حل بھی بتایا اور مثبت کام میں منہاج القرآن برطانیہ کے تعاون کا یقین بھی دلایا مگر ہر سرخ و سفید کو آنکھیں بند کرکے قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ صوفی مسلم کونسل (SMC) کا قیام دراصل مسئلے کے حل کے لئے کم اور MCB کے توڑ اور ردعمل کے طور پر زیادہ تھا اس لئے ہمارے جہاں دیدہ قائد اور تحریک اس کا حصہ نہ بنے۔ مجھے 80ء کی دہائی کے وسط میں آپ کی (جب میں منہاج القرآن میں طالب علم تھا اور آپ نے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے لندن میں ایک دفعہ فرمایا جب یہ لوگ یعنی ہم چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے) فرمائی ہوئی ایک بات بڑی شدت سے یاد آئی۔ وہ یہ قول تھا اسے آپ بھی بغور ملاحظہ کریں۔
’’رد عمل کے طور پر پیدا ہونے والا عقیدہ، فکر اور عمل کبھی راست نہیں ہوسکتے‘‘۔
میں آخر میں وہی بات دہرا کر بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ ’’ہم محض دفاعی پوزیشن اپنائے ہوئے ہیں۔ غلط، غیر متوازن، باطل اور ناحق فکری یلغار کے رد عمل میں حرکت، تحریک اور نظریہ پیدا کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کا مرض ہمیں لاحق ہے اور اس مرض کا علاج شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادی کے فکرو عمل میں مضمر ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں امن عالم کے لئے اپنے قائد کی راست فکر کا نمائندہ بن کر خدمت اسلام کی توفیق عطا فرمائے۔
میرا طاہر
ولایت کا امیں رشک ملائک میرا طاہر ہے
وفا سیرت حیاء فطرت چلن سے صاف ظاہر ہے
مشن ان کا ہے قرآنی ہے سر پہ ظل جیلانی
حریصِ شرح قرآنی شغف سے صاف ظاہر ہے
رضائے مصطفی(ص) مقصد ثنائے مصطفی(ص) ہر دم
ہے قربِ مصطفی(ص) حاصل عطائے خاص ظاہر ہے
جہاں بھر میں جو چھیڑا ہے ترانہ اک درودوں کا
ملا ہے رنگ بوصیری کرم سے صاف ظاہر ہے
تلاطم علم کے کتنے ہیں دل میں موجزن ان کے
زمانہ کیا سمجھ پائے یہ اس کے بس سے باہر ہے
مدلل بھی محقق بھی مفصل ہیں بیان ان کے
معارف منتظر ان کے عقائد کا یہ ماہر ہے
کہیں سعدی کہیں جامی کہیں اقبال کا پَر تو
کہیں رومی سی دانائی سخن سے صاف ظاہر ہے
جو صحبت میں چلا آئے کثافت دل کی دھلوائے
منور آپ کی مجلس معطر ہے مطہر ہے
نظر جس دل پہ آجائے نبی(ص) کا عشق پا جائے
دیوانے چار سو پھیلے کمال ذات ظاہر ہے
منیر(ص) ان پہ نچھاور ہو زمانہ وار دے ان پہ
عطائے شاہ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ محمد(ص) کا مظاہر ہے
(محمد ارشد منیر نقشبندی۔ لندن)