(ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن)
تاریخ انسانی نے بے شمار ایسی شخصیات کا مشاہدہ کیا ہے جنہوں نے انقلابی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔ انقلابی تحریک ہمیشہ کسی زوال یافتہ قوم میں ہی شروع ہوتی ہے۔ مثبت انقلاب کا مقصد قوم کو زوال و اِنحطاط سے نکال کر عروج کے راستے پر گامزن کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دائمی حاکمیت صرف اﷲ تعالی کی ہے۔ دنیاکی ہر قوم کی تاریخ میں عروج و زوال کے مراحل آتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت ہوئی تو معاشرہ تاریکی، جہالت، لاقانونیت، جبر و استبداد کا شکارتھا۔ اُلوہی حکمت سے معمور عملی، نبوی تدبّر و تفکر اور آپ کے جانثار صحابہ کی جہد مسلسل نے تاریخ انسانیت کو ایسے انقلاب سے ہمکنار کیا جو لازوال اور انمٹ ہے۔ نیز یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو چہار دانگ عالم کے لیے مینارہ رُشد و ہدایت ہے۔
سفرِ عروج و زوال
اسلام کا سفر عروج، جس کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی، اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء راشدین نے کاملاً اور بعد ازاں امت مسلمہ کے علماء و مفکرین، صوفیاء و مبلغین، فقہاء و مجددین اور سلاطین و مجاہدین نے اپنے اپنے عہد اور میادین میں جاری و ساری رکھا۔ انہوں نے دنیائے انسانیت کو Dark Ages سے نکال کر جدید سائنسی ترقی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ پھر تاریخ کا پہیہ چلا اور مسلمان آہستہ آہستہ اپنی کوتاہیوں، غلط حکمت عملیوں۔۔۔ باہم افتراق و انتشار، مصلحت کوشی۔۔۔ عیش پسندی، جہاد و اجتہاد سے کنارہ کشی۔۔۔ اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین مصطفوی سے دوری کی وجہ سے زوال کا شکار ہو گئے۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط میں برصغیر پاک و ہند میں اسلامی سیاسی عروج کی علامت ’’مغلیہ سلطنت‘‘ اور بیسویں صدی کے شروع میں عالمی سطح پر اسلام کی سیاسی قوت کی علامت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کا خاتمہ ہوگیا۔ اگرچہ اُس دور میں بہت سارے مفکرین اور تحریکوں نے ملت اسلامیہ کو سہارا دینے کی کوشش کی مگر وقت کے دھارے کا رخ تبدیل نہ ہوسکا اور درجنوں مسلم ممالک آزاد ہونے کے باوجود اُمت سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی حوالے سے زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی ہی چلی گئی۔
موجودہ صورت حال
اس پس منظر میں موجودہ دور، امت کے زوال کا دور ہے۔۔۔ مسلمانوں کا اجتماعی تشخص نہ ہونے کے برابر ہے۔۔۔ اتحاد و اتفاق کی جگہ فرقہ واریت نے لے لی ہے۔۔۔ امت کا ملی تشخص بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔۔۔ ہماری اقدار و روایات پامال ہوتی چلی جا رہی ہیں۔۔۔ بعض مقامات پر دین ومذہب پر عمل رسومات کی حد تک بھی باقی نہیں رہا۔۔۔ اسلامی ممالک میں حکمرانوں کا عوام کے ساتھ کوئی واسطہ ہے نہ اسلام کے ساتھ کوئی رشتہ۔۔۔ ہر طرف خوف و ہراس ہے، بے یقینی ہے، مایوسی ہے اور خون آشام مناظر ہیں۔ اس زوال و انحطاط سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نظر نہیں آ رہی۔ ان مایوس کن حالات میں ہر صاحب درد مسلمان کادل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے مگر اسے راستہ نظر نہیں آتا۔ وہ جس طرف بھی روشنی دیکھ کر جاتا ہے قریب پہنچنے پر محض سراب سے سامنا ہوتا ہے۔
ہمارا ردّ عمل
ایسے دور میں مسلمانوں میں سے بعض نے شکست خوردگی کو اپنا لیا۔ حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور سمجھنے لگے کہ باہر جو کچھ بھی ہوتا ہے ہوتا رہے، ہمیں اپنا ایمان بچانے کی فکر کرنا چاہیے۔ جہاں تک ہو سکے دعوت و تبلیغ کا عمل جاری رکھا جائے۔ دور جدید میں نظامِ اسلام کی عملیت اورنتیجہ خیزی پر ایسے لوگوں کا یقین تقریباً ختم ہو گیا۔ اس سوچ نے اسلام کو مکمل دین کے بجائے ایک روایتی مذہب میں تبدیل کر دیا۔ یہ سوچ بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ باطل طاقتیں جب جہاز کی رفتار سے سفر کر رہی ہوں تو اُن کا مقابلہ سائیکل سوار اہلِ خیر کیسے کرسکتے ہیں؟
دوسری طرف کچھ لوگوں نے اعلائے کلمۃ اﷲ کا نعرہ بلند کیا، غلبہ دین حق کی بحالی کی بات کی، اسلام کی سیاسی قوت کی ضرورت کو محسوس کیا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ مغرب کی تہذیب عصر حاضر پر غلبہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ دنیا کی معیشت پر یورو، ڈالر اورپونڈ کا تسلط ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ساری کی ساری مغربی تہذیب اسلام کی دشمن ہے، لہٰذا جہاد وقت کی ضرورت ہے اور یہ کہ امت کا احیاء مغرب کو نیست و نابود کرنے ہی سے ممکن ہے اس لیے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا جانا چاہیے۔
حقیقی تصور جہاد اور ہماری سوچ
جہاد بلاشبہ فرض ہے اور اسلامی تاریخ جہادی معرکوں سے بھری پڑی ہے لیکن موجودہ صورتحال ماضی کے ان معرکوں سے یکسر مختلف ہے۔ مدافعانہ قوت کو تیار رکھنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے مگر اس قوت میں صرف ’’تلوار‘‘ ہی شامل نہیں اس وقت اسلام پر سب سے بڑا حملہ یہ ہو رہا ہے کہ اس کے تصورات اور تعلیمات کو دہشت گردی کا روپ دیا جا رہا ہے اور ثبوت کے طور پر ان لوگوں کی سرگرمیوں کو پیش کیا جا رہا ہے جو بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلا رہے ہیں حتی کہ وہ مسلم اور غیر مسلم کی تمیز بھی نہیں کرتے۔ گویا اس فکر پر گامزن لوگ جہاد اور قتال میں فرق بھول گئے، اسلام کی شرائطِ جہاد ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں، جہاد کے آداب و لوازمات سے وہ بے خبر رہے، نتیجتاً اسلام کا جہاد جیسا اہم ترین نظریہ اور ادارہ انتہا پسندی سے شروع ہو کر دہشت گردی سے گزرتے ہوئے خود کش حملوں تک پہنچ گیا۔ فوجی و سول شہریوں کا فرق مٹ گیا، سفارتی آداب کا احترام ختم ہو گیا، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے بارے میں نرم دلی تک نہ رہی۔
نتیجتاً وہ دین جو سلامتی اور امن کا پروگرام لے کر آیا۔۔۔ محبت کا مشن لے کر آیا۔۔۔ بقائے باہمی کا منشور لے کرآیا۔۔۔ احترام انسانی کا دستور لے کر آیا۔۔۔ دنیا اس کو نفرت، دہشت، انتہا پسندی، قتل و غارت گری اور خود کش حملوں کی علامت قرار دینے لگی۔
شیخ الاسلام کا منفرد و ممتاز قدم
یہ ہیں وہ حالات جو پوری امت کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کو بھی درپیش تھے۔ قائدِ تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے ان حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا خمیر انقلاب سے اٹھا تھا، ان کے والد گرامی نے ان کو شروع ہی سے خدمت دین کے لئے تیار کیا تھا۔ ان کے مطالعہ قرآن نے ان کو یہ یقین دیا کہ اسلام کا مقدّر بے بسی اور ذلت نہیں بلکہ عروج و تمکنت ہے۔ سیرتِ طیبہ کے مطالعہ نے ان کو یہ ایمان دیا جو شاہراہ انقلاب کی طرف جاتا ہے۔ جس کی منزل احیاے اسلام اور اقامت دین ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد کے بغیر اسلام کے وجود کو قائم رکھنا ناممکن ہے اور حالات کے رخ کا دھارا بدلے بغیر دنیا میں کامیابی ممکن نہیں۔ محض دعوت وتبلیغ سے معاشرے کے حالات تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ اقامت دین کی جدوجہد ناگزیر ہے۔
اقامتِ دین سے مرادامنِ عالم کا قیام
بعض انتہا پسند طبقا ت نے اقامتِ دین سے مراد دنیا سے تمام ادیان کا خاتمہ لے لیا ہے اور ساری کی ساری انسانیت کو مسلمان بنانا اور دنیا سے غیر مسلموں کا خاتمہ سمجھ لیا ہے۔ یہی تصور ان کی گمراہی کا باعث بن گیا۔ فی الواقع یہ تصور دین فطرت کے بھی خلاف تھا۔ یہ لوگ اور تحریکیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نزدیک اس طرح کے انتہاء پسندانہ خیالات کی گنجائش نہیں۔ ان کے ہاں اقامت اسلام کا مقصد امن عالم کا قیام ہے۔
وہ اسلام کو دینِ امن سمجھتے ہیں۔۔۔ دینِ محبت گردانتے ہیں۔۔۔ بقاے باہمی، تحمل و برداشت، احترامِ آدمیت، حرمتِ جانِ انسانی کو وہ بنیادی اسلامی شعائر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دعوتی حکمت عملی سے وہ کام کر دکھایا جو ناممکن نظر آتا تھا۔ انہوں نے انقلابیت اور امن پسندی کو ایک جگہ جمع کر دیا اور دنیا بھر میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو اسلام کا عروج دیکھنا چاہتی ہے۔ اقامت دین جس کی منزل ہے، تجدید دین جس کا راستہ ہے، احیاے دین جس کا مشن ہے لیکن ان کی یہ تحریک دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کلیتاً پاک ہے۔ وہ چاہتے ہے کہ اسلام کے دامن سے دہشت گردی کا داغ دھل جائے اور مسلمان تلوار کی بجائے دلیل، منطق اور صلاحیت سے غیر مسلم دنیا کو متاثر کریں۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اسلامی طرز زندگی، تہذیبی شناخت اور حیات بخش تعلیمات اپنا اثر دکھائے بغیر رہیں۔
اس تحریک کے نزدیک نفرت و تعصب پر مبنی نظریات کفر سے کم نہیں اور بے گناہ انسانیت کا قتل ظلمِ عظیم ہے۔ اس کے نزدیک احیاے اسلام کی منزل فی زمانہ نفرت و تصادم سے نہیں بلکہ محبت و رواداری سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ شیخ الاسلام کا یہ کارنامہ ایسے ہی تھا جیسے آگ اور پانی کو ایک جگہ جمع کر دینا۔ انہوں نے اسلام کا امن و محبت اور رواداری پر مبنی پیغام دنیا تک پہنچایا۔ اسلام پر فکری اور نظریاتی محاذوں پر ہونے والے حملوں کا جواب غصے اورجلال سے نہیں بلکہ علم اور دلیل کی زبان میں دیا۔
شیخ الاسلام کی بصیرت و دور اندیشی
ابھی 9/11 کا حادثہ وقوع پذیر نہیں ہوا تھا لیکن نیو ورلڈ آرڈر کے تانے بانے میں آپ اس سازش کو دیکھ رہے تھے کہ اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ذریعے بدنام کرنے کی عالمی سازش زوروں پر ہے۔ وہ 1999ء میں اوسلو ناروے میں عالمی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے :
"So this is just mention of what is the significance of peace in Islam. Islam, from the very beginning to its end, is peace and nothing else. Anything detrimental to peace, anything damaging to peace, anything conflicting to peace, anything contradictory to peace, it has no, absolutely no, concern with Islamic teachings. And whosoever may be, if he has any kind of terroristic character, extremistic character, any character detrimental to the welfare of humanity, any character detrimental to the global peace, any character detrimental to the societal peace of mankind, that is absolutely anti-Islam to our faith." (International Peace Conference, Oslo, Norway, 13 August)
’’یہ اسلام میں امن کی اہمیت کا بیان ہے۔ اسلام تو اوّل تا آخر امن ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ جو چیز بھی امن کے لیے نقصان دہ، امن سے متصادم اور امن کی مخالف ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی، انتہا پسندی، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو، وہ ہمارے عقیدے میں مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ ‘‘
اس سے بھی بہت پہلے 1993ء میں اسلام کو درپیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے انقلابی کارکنوں کو یہ نعرہ دے رہے تھے کہ
’’ انقلاب صرف خونی نہیں ہوتا بلکہ شعوری اور نظریاتی انقلاب زیادہ پائیدار اور دیرپا ہوتا ہے لہذا اس انقلاب کے لیے شعور ضروری ہے اور شعور کی بیداری کے لیے علم کا فروغ اور جہالت کا خاتمہ ضروری ہے۔ لہٰذا جہالت کے خاتمے کی جدوجہد کرتے ہوئے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں لیکن وہ تعلیمی ادارے روایتی مدارس نہیں ہونے چاہییں بلکہ جدید تعلیمی نصاب کے حامل ادارے ہوں‘‘
کیونکہ ایک طرف وہ دیکھ رہے تھے کہ دنیاوی علوم میں مہارت کے بغیر ترقی کا خواب ایک دیوانے کی بڑ ہی ہو سکتی ہے اور دوسری طرف ان کی نظر جہاں بیں دیکھ رہی تھی کہ مستقبل قریب میں کس طرح مدارس کو دہشت گردی کے مراکز کے طور پر مشہور کیا جائے گا۔ اس لئے آپ نے دیگر تعلیمی اداروں کے علاوہ کالج آف شریعہ کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا تاکہ یہ روایتی مذہبی رنگ کی بجائے معاصر دینی تقاضوں کا حامل ادارہ بن سکے۔ ان کے اس تعلیمی منصوبہ کی وجہ سے منہاج القرآن وہ واحد دینی و تجدیدی تحریک ہے جس نے 572 تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک قائم کیا اور ملک و قوم کو ایک باقاعدہ چارٹرڈ یونیورسٹی دی۔
تحریک کی فکری و نظریاتی بنیاد
تحریک کے آغاز میں ہی شیخ الاسلام نے محسوس کر لیا تھا کہ انقلابی تحریک کو میانہ روی پر قائم رکھنا آسان نہیں۔ انہوں نے تاریخ میں متعدد دینی انقلابی تحریکوں کو بتدریج انتہا پسندی تک پہنچتے دیکھا تھا۔ انہوں نے ان کمزوریوں کا بھی تعین کر لیا تھا جو کسی انقلابی تحریک کو انتہا پسندی تک پہنچا دیتی ہیں۔ اگرچہ روحانیت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو والد گرامی سے ورثہ میں ملا تھا مگر فکری سطح پر بھی وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ادب و تعظیم رسالت کا جذبہ وہ قوت ہے جو کبھی انتہا پسندی کی طرف نہیں جانے دیتا کیونکہ محبت اور نفرت ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ روحانیت و تصوف وہ طرزعمل اور طریقہ تربیت ہے جو انسانیت سے محبت کے درس پر مبنی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی تحریک کی فکری و نظریاتی بنیاد ہی درج ذیل تین عناصر پر رکھی :
- احیاء و اقامت دین
- تصوف و روحانیت
- عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ یہی وہ تین عناصر تھے جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو ناقابل تسخیر بھی بنا دیا تھا اور ساتھ ہی محبت و امن کا عظیم داعی بھی۔ وہ جہاں جاتے لوگ ان کی قوت و دہشت سے نہیں بلکہ اخلاق و کردار کو دیکھ کر مسلمان ہوتے جاتے۔ لیکن جدید دنیائے اسلام اور موجودہ دور زوال میں ڈاکٹر طاہر القادری ہی وہ دینی رہنماہیں جنہوں نے کسی ایک تنظیم و تحریک اور مذہبی دعوت پر مبنی جدوجہد میں ان تین عناصر کو جمع کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب 9/11 کے بعد ساری مذہبی قیادت ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی ہمدرد بنی ہوئی تھی، جہاد کے نعرے لگ رہے تھے اور دنیا سے امریکہ کے خاتمے کے دعوے ہو رہے تھے توشیخ الاسلام پاکستان کے وہ واحد قائد تھے جو آئندہ خون آشام خطرات کو بھانپ کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اس رحجان اور اس آواز کو اسلام کے خلاف سازش کا حصہ قرار دے رہے تھے۔ جب بے گناہ شہریوں، معصوم بچوں، بے بس عورتوں کی تمیز کے بغیر قتل و غارت گری کو جہاد کا نام دیا جا رہا تھا، تو وہ اس کو فساد قرار دے رہے تھے۔ اس وقت لوگوں کو آپ کا یہ انتباہ شاید عجیب لگا ہو مگر اب سب اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ اس سارے معاملے میں نقصان مسلمانوں کا ہوا ہے۔ اس حقیقت کا اقرار برطانوی پارلیمنٹ بھی کیے بغیر نہ رہ سکی۔ برطا نوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز کی ڈیفنس کمیٹی نے اپنے سیشن 2002-2003 کی چھٹی رپورٹ میں شیخ الاسلام کی فروغ امن کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کا مضمون ’’بین المذاہب رواداری اور عالمی امن کے قیام کیلئے شیخ الاسلام کی عہد ساز کاوشیں‘‘
فرانسیسی اسکالر کا اعتراف
اسی طرح تصوّف و روحانیت کے نظریہ اور احیاء و اقامت اسلام کی فکر کو ایک جگہ جمع کرنے پر ایک فرانسیسی یونیورسٹی کی اسکالر الیکس فلپین (Alix pilippon) نے اعتراف کیا :
"Dr. Qadri has reclaimed spirituality as the specific stamp of Islam and as the true representative of the subcontinent's cultural ethos, he is therefore very defensive. As far as Sufism is concerned, Mahfil-e-Sama (spiritual recitations) including qawwali, music and dhikr recitation are regularly held in the headquarters in Lahore.
Although critical of some ritualistic aspects of the cult of the saints, the members of MUQ do perform ziyarat, tomb visitation, which is, to them, the granite foundation of the beliefs of the Ahl-e-Sunnah. The values of peace, love, tolerance and brotherhood, identified as Sufi, are promoted as universal references informing the ideology and the modes of action of the organization. The great Sufis are perceived as role models and mysticism as a tool to be used for the ethical reformation of the people in order to bring peace, harmony, and humanism in society.
The ideological system of MUQ has been established on the basis of a critical approach to Islamism in its relation with Sufism. It shows an awareness of the fact Sufism has been excluded from the symbolic resources of Islam by many Islamists. It also acknowledges the corruption within some Sufi practices and the necessity to come out from traditional institutions and evolve a modern form of organization. It is critical of the doctrines and actions of extremism and has taken into account the way this category of Islamists has shaped western opinion on Islam. In other words, it has rationalized the terms of the heated ongoing debate about Islam, modernity, and the West and tried to evolve a suitable alternative evolving Sufism as a cultural, ethical, intellectual and political resource for the Muslim world." (ISLAM Review, 17/spring 2006)
’’ڈاکٹر قادری صاحب برصغیر کے اخلاقی کلچر کے حقیقی نمائندہ کے طور پر روحانیات کو اسلام کی مخصوص علامت سمجھتے ہیں۔ لہذا تصوّف کے حوالے سے وہ مدافعتی رویہّ رکھتے ہیں۔ لاہور میں انکے مرکز پر محافل سماع اور محافل ذکر بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ تصوّف کے چند روایتی پہلوؤں پر ناقدانہ رائے کے باوجود تحریک منہاج القرآن کے اراکین صوفیاء کے مزارات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ وہ اسے اہل سنت کے اعتقاد کی پختہ بنیاد قرار دیتے ہیں۔ امن، محبت، برداشت اور بھائی چارے جیسی اقدار کو تصوّف کی بنیادی علامات قرار دیتے ہوئے ان کا عالمی سطح پر پرچار منہاج القرآن کے نظریہ اور طریقہ کار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں معاشرے میں افراد کی اخلاقی اصلاح، امن، ہم آہنگی اور احترام انسانیت لانے کے لیے عظیم صوفیاء مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ روحانیت اس کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
اسلام اورتصوّف کے باہمی تعلق کے حوالے سے منہاج القرآن کا نظریاتی نظام ناقدانہ اپروچ پر تشکیل دیا گیا ہے۔ وہ اس حقیقت سے آگہی رکھتا ہے کہ اسلام پسندوں نے تصوّف کو اسلام کے علامتی ذرائع سے الگ کر دیا ہے۔ وہ بعض بے عمل متصوفین کے چند اعمال کی کرپشن کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور روایتی خانقاہوں سے نکل کر جدید تنظیمی نیٹ ورک کی ضرورت کو بھی بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی انتہا پسندگروہ کی فکر اور اقدامات پر ان کا انداز ناقدانہ ہے اور ان کے خیال میں اسی قسم کے اسلام پسندوں نے اسلام کے بارے میں مغرب کی رائے کو تبدیل کیا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے اسلام، جدیدیت اور مغرب کے حوالے سے موجودہ جاری بحث کے نکات کو عقلی توجیہہ دی ہے اور دنیاے اسلام کی ثقافتی، اخلاقی، فکری و سیاسی اصلاح کے لیے انہوں نے تصوّف کو موزوں ترین متبادل کے طور پر متعارف کروایا ہے۔‘‘
بین المسالک ہم آہنگی کے پیامبر
جس وقت تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت ملک میں فرقہ واریت کا دور دورہ تھا۔ دینی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں بھی فرقہ کی بنیاد پر قائم تھیں۔ شرک و بدعت، گستاخی و بے ادبی اور کفر و فسق کے فتوے عام تھے۔ مسلمان آپس میں نفرت و عداوت کا شکار تھے۔ ایسے میں آپ نے تحریک کی بنیاد رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ منہاج القرآن کسی فرقہ کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے لیے قائم کی جا رہی ہے اور اس کے دروازے سارے مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں اور آپ نے اُمت کو مشترک نکات پر زور دینے اور اختلافات کو نظر انداز کرنے کی فکر دی۔ امتِمسلمہ کو فرقہ واریت کے عذاب سے نکال کراتحاد واتفاق اور تحمل و برداشت کی راہ پر گامزن کرنے میں بھی آپ کے خطابات و تصانیف نے اہم کردار ادا کیا۔
بین المذاہب رواداری کے علمبردار
چند سال قبل بعض شر پسند قوتوں کی شرارت سے پاکستان میں جب مسلم مسیحی فسادات اٹھ کھڑے ہوئے تو شیخ الاسلام مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم (MCDF) کا قیام عمل میں لائے اور مرکزی سیکرٹریٹ پر کرسمس کی تقریب کا آغاز کر کے دنیا کو اسلام میں برداشت، تحمل اور بردباری کا ایک ایسا رخ دکھایا جو اس سے پہلے نظروں سے اوجھل تھا۔ اس وقت ڈاکٹر طاہر القادری چونکہ پاکستانی سیاست میں سرگرم تھے اس لیے کچھ لوگوں نے اس کو سیاسی اقدام قرار دیا مگر بعدازاں اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ اور پاکستان عوامی تحریک (PAT) کی عملی انتخابی سیاست سے علیحدگی کے باوجود ہر سال مرکزی سیکرٹریٹ پر کرسمس کی تقریب جاری رکھنا ڈاکٹر طاہر القادری کے اس عزم کا مظہر ہے کہ اسلام کو اس وقت پوری دنیا میں دشمنوں کی نہیں، بہی خواہوں اور دوستوں کی ضرورت ہے اور تہذیبی تصادم اسلام کے لیے فائدہ مند ہے نہ انسانیت کے لیے۔
آج سے8 سال قبل کے اُ ن کے اس اقدام کوعالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ دنیا بھر میں صرف منہاج القرآن کی ہی تنظیمات نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور پاکستان میں بھی یہ سلسلہ فروغ پذیر ہوا۔ اس سال کرسمس کے موقع پر اخبارات میں بے شمار مسلم تنظیموں، جماعتوں اور سیاسی قیادتوں (جن میں مذہبی و دینی رہنما و جماعتیں بھی شامل ہیں) کی کرسمس کیک کاٹنے کی خبریں اور تصادیر شائع ہوئیں۔
یہ وہ پس منظر تھا جس میں پاکستان کی مسیحی تنظیموں نے پہلے اُن کو Christ of Earth کا لقب دیا۔۔۔ اور بعد ازاں مسیحوں کی نمائندہ تنظیم NCIDE نے آپ کو ’’امن ایوارڈ‘‘ بھی دیا۔۔۔ اسی طرح برطانوی فارن آفس اور یورپی یونین نے مل کر استنبول میں مسلم آف یورپ کانفرنس کا اہتمام کیا جس کا مقصد یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے چیلنجز اور مسائل کو زیر بحث لانا تھا۔ توپوری دنیاے اسلام کے جید علماء اور امریکہ و یورپ کی یونی ورسٹیز کے ساٹھ سے زائد پروفیسرز میں سے جس شخصیت کا انتخاب بطور Key Note Speaker کیا گیا تھا وہ ڈاکٹر طاہر القادری ہی تھے۔
بین المسالک اور بین المذاہب رواداری کے اسی جذبے کا ثمر ہے کہ منہاج القرآن دنیائے اسلام کی سب سے زیادہ نیٹ ورک رکھنے والی، 100 سے زیادہ ممالک میں وجود رکھنے والی، پچاس ممالک میں اسلامک سنٹرز رکھنے والی اور دنیا بھر میں ممبران، رفقاء، وابستگان اور محبان کی Millions میں تعداد رکھنے والی واحد تنظیم ہے۔ اس ساری مقبولیت اور نیٹ ورک کے باوجود اِس پُرآشوب دور میں احیاے اسلام کی فکر پر سودے بازی کیے بغیر کسی بھی تصادم، انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوئی بلکہ امن و محبت، رواداری، بقاے باہمی اور تحمل و برداشت کے رویوں کو پروان چڑھانے والی تحریک کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو عالمی سفیر امن کہا جائے تو یہ بالکل مبالغہ نہیں ہوگا۔