حضور نبی اکرم ﷺ سے تعلق ہی اللہ سے تعلق ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰهُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ.

(آل عمران، 31)

(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرما دیں ایمان والوں سے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو اور اللہ سے محبت چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ سے محبت کا تعلق قائم رکھنا چاہتے ہو فاتبعونی تو میری اتباع میں آجاؤ میری پیروی کرو یحببکم اللہ نتیجۃ اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔ وہ تمہارے سارے گناہ معاف فرما دے گا۔

اس آیت کریمہ کی روشنی میں آج ہم جس موضوع کو بیان کرنا اور سمجھنا چاہتے ہیں اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ وہ موضوع تین لفظوں پر مشتمل ہے۔

1. پہلا لفظ ہے "علم" یعنی جاننا

2. اور دوسرا لفظ ہے "معرفت "یعنی شناخت یا پہچاننا

3. اور تیسرا لفظ ہے "تعلق "

یہ آیت کریمہ جس کے چند الفاظ میں نے تلاوت کیے۔ یہ مضمون تعلق کو بیان کرتی ہے۔ کس کو بیان کرتی ہے؟ تعلق کے مضمون کو بیان کرتی ہے۔ اب توجہ سے ان تین چیزوں کا باہمی ربط سمجھیں۔ علم کہتے ہیں جاننے کو کوئی حقیقت ہے ،کوئی مسئلہ ہے، کوئی معاملہ ہے، اس کو جاننا علم کہلاتا ہے۔ اس کے بعد ایک تصور ہے جس کو ہم شناخت کہتے ہیں۔ پہچاننا تو علم اور شناخت میں فرق ہے۔ پھر تیسرا درجہ ہے تعلق کا نسبت رکھنا تو تعلق اور شناخت میں بھی فرق ہے۔ اس بات کو میں ایک مثال سے شروع کرتا ہوں۔

آپ یوں سمجھیں کہ پاکستان کے 10 کروڑ یا گیارہ کروڑ افراد ہیں۔ چھوٹے نہ سمجھ بچوں کو چھوڑ کر جتنے عاقل، بالغ لوگ ہیں۔ ان سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس وقت پاکستان کا صدر کون ہے؟ ابھی ایک مثال سے سمجھا رہا ہوں تو آپ کو علم ہے یا نہیں کہ صدر کون ہے؟ فلاں شخص صدر ہے اس کا علم کم و بیش ہر شخص کو ہے۔ جو پڑھا لکھا ہے اس کو بھی علم ہے جو ان پڑھ ہے اس کو بھی علم ہے۔ مختلف طریقوں سے مگر یہ کہ جانتا ہر کوئی ہے جاننے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں مثلا آپ ایک مکان کو دیکھیں کہ بنا ہوا تو مکان کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی مستری اور معمار اور بنانے والا کاریگر بھی ہے۔ اس کے بغیر مکان خودبخود نہیں بنا تو مکان کو دیکھا اور آپ مکان کے بنانے والے کو اس حد تک جان گئے کہ کوئی اچھا کاریگر ہے۔ مکان کو اچھی شکل میں دیکھیں صاف ستھرا ہے۔ آباد ہے تو آپ اس کو دیکھ کر جان گئے علم ہو گیا کہ کوئی اچھا گھرانہ اس مکان میں رہتا ہے۔

آپ دیکھیں کسی جگہ سے دھواں اٹھ رہا ہے دھویں کو اٹھتا دیکھ کر آپ جان جائیں گے کہ یہاں آگ جل رہی ہے یا جلتی رہی ہے۔ علم ہو گیا نا؟ تو علم کی کئی صورتیں ہیں۔ علم میں ایک علم ہوتا ہے جو دلائل سے، قرائن سے،شواہد سے اور مختلف ذریعوں سےحاصل ہوتا ہے مگر ضروری نہیں جو علم ہوا وہ من اور دل کے اوپر بھی وارد ہو۔ یہ ضروری نہیں۔ اس کا فرق آپ یوں سمجھیں کہ آپ میں سے اور ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ ہم نے مرنا ہے۔ اور یہ بھی جانتا ہے ہر شخص کہ کچھ خبر نہیں کہ شام ہی کو موت آ جائے۔ کل کا دن زندگی ہو گی یا نہیں ہو گی۔ اس حد تک یقین ہے کہ یہ بھی پتہ نہیں کہ پل کے بعد موت آ جائے۔ موت حق ہے اور ہم نے مرنا ہے علم ہے۔ یقین ہے مگر یہ جاننے کے باوجود جو شخص یہ جانتا ہے کہ میں نے مرنا ہے وہ یہ جان کر ڈاکے بھی کر رہا ہے۔ چوریاں بھی کر رہا ہے۔ ظلم اور نا انصافی بھی کر رہا ہے۔ بدیانتی بھی کر رہا ہے۔ جھوٹ بھی بول رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو یہ علم تو ہے یقین بھی ہے کہ میں نے مرنا ہے مگر وہ علم صرف زبان تک ہے ابھی اس کے دل پر وارد نہیں ہوا۔ اگر یہ علم اور یقین دل پر روح پر وارد ہو جاتا تو وہ کوئی ایسا کام نہ کرتا جس کام کے نتیجے میں اسے اللہ کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا۔

اب اس کی مثال لیں۔ عدالت ایک شخص کو فیصلہ سنا دیتی ہے سزائے موت اور علان کر دیتی ہے کہ ٹھیک تین دن بعد صبح سات بجے اس شخص کو پھانسی چڑھا دیا جائے گا۔ عدالت فیصلہ سنا دیتی ہے اب اس کو بھی علم ہو گیا کہ تین دن بعد میں نے مر جانا ہے اور پھانسی چڑھ جانا ہے۔ تو جس کو عدالت نے فیصلہ سنا دیا کہ تین دن بعد اس کو پھانسی ہے اب وہ جو درمیان کے دو تین بچ گئے اس میں بھی وہ ڈاکے مارے گا؟ بولیے چوریاں کرے گا شراب خانے جائے گا بدکاری کرے گا جھوٹ بولے گا؟ اس کا تو کھانا پینا ہی چھوٹ جائیگا. تسبیح اس کے ہاتھ سے نکلے گی؟ مصلے سےاٹھنے کو جی نہیں کرے گا رات دن روئے گا سجدہ ریزیاں کرے گا متقی بن جائے گا عبادت گزار بن جائے گا. تین رات بچ گئی تو چلو تینوں راتوں کی تہجد بھی نہیں چھوڑے گا۔ کھانا پینا بھی چھوٹ گیا اب بتائیے دونوں علموں میں فرق کیا ہے؟ عدالت کا فیصلہ سننے سے پہلے بھی اسے یقین تھا کہ مرنا ہے اور تین دن تو کیا یہ بھی پتہ تھا ممکن ہے اج شام ہی کو مر جاؤں۔ اس اتنا جاننے کے باوجود اس کا کھانا پینا نہیں چھوٹا تھا اور اس کی حالت نہیں بدلی تھی۔ اب اس کو عدالت کے ذریعے اس کا علم ہوا کہ تین دن بعد مرنا ہے اب اس کا کھانا پینا بھی چھوٹ گیا اس کی حالت بھی بدل گئی۔ جانتا پہلے بھی تھا جانتا اب بھی ہیں مگر دونوں جاننے میں ممکن ہے تیسرا دن آئے اس کی سزا معاف ہو جائے پھانسی ناچڑھے بچ جائے وہ تو جدا معاملہ ہے۔ مگر جانتا پہلے بھی تھا مرنا جانتا ابھی بھی ہے مگر پہلے جاننے نے اس کی چوری اور ڈاکہ بھی نہ چھوڑایا۔ اس دوسرے جاننے نے اس کا کھانا پینا بھی چھوڑایا دیا۔

فرق کیا ہے؟ پہلا جاننا صرف عقل تک تھا دوسرا جاننا روح میں اتر گیا۔ دل میں اتر گیا۔ پہلا جاننا فقط عقل اور زبان پر تھا۔ دوسرا جاننا اس کے من پر بیت گیا۔ تو گویا پہلا جاننا قال تھا زبان سے کہنا، دوسرا جاننا اس کا حال بن گیا۔ تو علم جب تک قال رہے زباں پر رہے اس سے انسان کی زندگی نہیں بدلتی اور علم جب حال بن جائے وہ پوری کی پوری زندگی میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ علماء کا علم قال ہوتا ہے علماء کا علم قال ہوتا ہے اس لیے نہ وہ خود بدلتے ہیں اورنہ اگلوں کو بدل سکتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ مگر عاشقوں کا عارفوں کا اور رب کے ولیوں کا علم حال ہوتا ہے۔ اس سے وہ خود بھی بدل جاتے ہیں اور جس پر نگاہ کرتے ہیں وہ بھی بدل جاتا ہے۔

علم کے مورد اور وارد ہونے کی جگہ مختلف ہوتی ہے جس کا علم عقل پر وارد ہوتا ہے اس کی زندگی نہیں بدلتی اور جس کا علم قلب پر وارد ہوتا ہے اس کی زندگی کے سارے رنگ بدل جاتے ہیں۔ مگر یہ سارا کچھ جاننے تک ہے بولیے سارا کچھ جاننے تک ہے۔ میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جانناہر ایک کو حاصل ہو سکتا ہے مگر پہچاننا کسی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔ اگلی بات یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جانتے تو بہت سے ہیں مگر پہچانتا کوئی کوئی ہے۔ وہ مثال سمجھا رہا تھا سارا پاکستان جانتا ہے کہ صدر غلام اسحاق خان ہے اگر وہ صدر اپنی سرکاری گاڑی کے بغیر پولیس اور پروٹوکول کے بغیر تنہا یہاں آپ کی بازار میں آجائے۔ رش ہو منڈی لگی ہوئی ہو برمارہو ہزارہا افراد جمع ہوں اس رش میں آپ اپنے سادہ لباس میں آجائے شلوار قمیض پہن کر ساتھ کوئی پروٹوکول کوئی پولیس کا افسر کوئی فوج کا افسر کوئی سرکاری ایجنسی موجود نہ ہو اچانک منڈی میں آجائے دکان سے سودا خریدنے کے لئے تو بتائیے کتنے لوگ پہچان لیں گے؟ بو لیے کتنے اندازا مشکل سے اگر سو میں سے کتنے پہچان لیں گے؟تو میں یعنی حویلی لکھا والے اور حجرہ والے، حجرہ شاہ مقیم والے اور دیپالپور والے اور بصیر پور شریف والے یعنی ان پورے علاقوں کے لوگ ان کی متفقہ رائے یہ ہے کہ کیا کہہ رہے ہیں سو میں سے پانچ پہچان لیں گے یا چلو بڑی رائے ہیں تو 10 پہچان لیں گے یہ آخری حد سو میں سے پانچ پہچان لیں گے اور ایسی جگہ بھی ہیں جہاں سو میں سے پانچ بھی نہیں اگر وہاں دس ہزار آدمی پھر رہا ہے تو جس سے پوچھیں تمہارے پاکستان کا ملک کا صدر کون ہے؟ جانتا تو ہر کوئی ہے جانتا تو ہر کوئی ہے کہ غلام اسحاق خان ہے۔ مگر پہچانتا کوئی کوئی ہے۔ علم ہرایک کو ہے مگر معرفت معرفت پہچان کو کہتے ہیں کسے کہتے ہیں؟ پہچان . معرفت کتنوں کو ہے۔ ؟

چند ایک کو ہے اور اگر کوئی جان پہچان والے مطلب یہ جاننے والے تو سارے تھے مگر پہچاننے والے ان میں کوئی کوئی تھے اور اگر کوئی پہچاننے والا پہچان لے اور وہ بتا دے کہ صدر پاکستان آگئے ہیں۔ پھر ہر کوئی پہچان لے پھر ہر کوئی پہچان لے گا۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ رب کو بھی یہ تو انسانی زندگی کے حالات ہیں انسانی زندگی کے حالات ہیں۔ وہ شخص جو صبح و شام ٹی وی پے نظر آتا ہے اور انسانوں جیسا انسان ہے دیکھا بھی جاتا ہے اور کم و بیش ہر کوئی ٹی وی کے ذریعے، اخبار کے ذریعے دیکھتا ہے جو دکھائی دیتا ہے اس کو بھی ہر کوئی نہیں پہچانتا اور جب انسانی زندگی سے اوپر چلے جاتے ہیں رب کی بارگاہ میں وہ تو دکھائی بھی نہیں دیتا۔ وہ تو دکھائی دینے والا نہیں ہے۔ جس کو کسی نے دیکھا نہیں اس کو کتنے پہچان لیں گے؟ جانتا ہر کوئی ہے اللہ ربنا اللہ ہمارا رب ہے. ہر شخص پڑھتا ہے لا الہ الا اللہ، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر شخص کہتا ہے ہر شخص کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے۔ وہی ہمارا خالق وہی مالک، وہی معبود، وہی رازق، وہی قادرمطلق، وہی عالم الغیب والشہادة۔ ذات اور صفات کے ساتھ جانتا ہر کوئی ہے اپنے اپنے علم کے رتبے کے مطابق مگر اس کی پہچان کسی کو نہیں۔ اس کی پہچان کسی کو نہیں۔ تو پہچان والے کی طرف اس لیے جاتے ہیں اپنے حبیب کو اپنی پہچان عطا کی اور زمین پر بیھجا فرمایا حبیب لا الہ الا اللہ یہ ایک دعوی ہے۔ میری ذات کی نسبت جان تو لینگے مگر پہچان کسی کو نہ ہوگی محمد الرسول اللہ آئے اور پہچاننے والے نے فرمایا لوگوں میں پہچانتا ہوں وہ رب ہے۔

تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان نے ہر ایک کو رب کی پہچان کرادی اور قرآن مجید نے کہا۔

اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا.

الفرقان: 59

(وہ) رحمان ہے، (اے معرفتِ حق کے طالب!) تو اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ (بے خبر اس کا حال نہیں جانتے)

رحمت والا رب ہے رحمان ہے خدائے رحمان ہے اوراگر اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہو پہچاننا چاہتے ہو اس کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو۔ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا تو جاؤ کیسی باخبر سے پوچھو کیا؟ کسی باخبر سے پوچھو. یوں نہیں فرمایا جس نے کتابیں پڑھی ہیں اس کے پاس جا کے پوچھو وہ تو خود ابھی کتابوں کے چکر سے باہر نہیں نکلا اسے تو پہچان کی راہ بھی ابھی معلوم نہیں پہچان کر ائے گا کیا؟

نہیں فرمایا کسی علم والے کے پاس جاکر پوچھو نہیں فرمایا علم ہونا اور بات ہے۔ خبر ہونا اور بات ہے۔ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا کسی خبر والے سے پوچھو۔ اور فرمایا:

فَسۡـَٔلُوۡۤا اَهۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَاتَعۡلَمُوۡنَ.

النخل: 43

سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔

اگر تم نہیں جانتے تو ذکر والے سے پوچھو ذکر والوں سے پوچھو علم جن کا حال بن گیا ہے رب کو جاننا جن کی ہر وقت کی یاد بن گیا ہے ان سے پوچھو۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہے مگر یاد نہیں بولیے نا جانتے ہیں کہ اللہ ہے مگر یاد بھولے ہوئے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے اللہ والوں میں اہل اللہ میں اور ہم میں فرق اتنا ہے کہ ہم جان کر بھولے ہوئے ہیں اور ان کی جان پہچان میں بدل گئی جو پہچان لیتا ہے وہ بھولتا نہیں ہے۔ جو پہچان لیتا ہے وہ بھولتا نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا:

وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ.

(الکھف: 28)

(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں)۔

جن لوگوں نے رب کو پہچان لیا اور رب کو جاننا ان کی یاد بن گیا ہے اور صبح و شام وہ رب کے عشق میں غرق اور رب کی یاد کے طالب اور رب کے مکھڑے کے طالب رہتے ہیں اور اللہ کے سوا باقی ہر شے کو بھول گئے ہیں۔ بندے اگر میری یاد چاہیے تو یاد والوں کے پاس بیٹھا کرو۔

جانتا ہر کوئی ہے مگر پہچانتا کوئی کوئی ہے اس لیے لوگوں کو حکم ہے کہ پہچان والوں کے پاس جایا کرو۔ بعض اوقات ذہنوں میں خیال آتا ہے نا ذہنوں میں خیال آتا ہے کہ اہل اللہ کے پاس اللہ ہر ایک کا رب ہے مگر خاص خاص کے پاس کیوں جایا جائے؟ خیال آتا ہے نہ کہ بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کیوں جایا جائے؟ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کیوں جایا جائے؟ خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کیوں جائیں؟ شہنشاہ بغداد کے پاس کیوں جائیں؟ حضرت شاہ مقیم رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کیوں جائیں؟ حضرت داؤد بندگی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کیوں جائیں؟ حضرت شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کیوں جائیں؟

جب وہ ہر ایک کا رب ہے تو ادھر کیوں جائیں تو بس اتنا ایک نقطہ ہے ہر ایک کارب ہے جانتا ہر کوئی ہے مگر پہچانتا کوئی کوئی ہے تو کسی پہچان والے کے پاس جائیں گے تو وہ شناخت کرا دے گا۔ تو وہ شناخت کرا دے گا۔

اب اگلی بات آپ نے یہ فیصلہ صادر کردیا کہ ہمارے ہاں اگر منڈی میں صدر پاکستان آ جائیں تو ہزاروں میں کوئی دس پندرہ بیس جان لیں گے سو میں پانچ جان لیں گے اتنی پہچان ہوگئی تو سو میں سے اتنے لوگوں کو پہچان ہوئی تو اب یہ بتائیے جتنے لوگوں نے پہچان لیا۔ پہچان تو لیا کیا ان کا تعلق بھی ہے؟ جنہوں نے تو پہچانا نہیں وہ تو ایک قسم ہوگئے. جنہوں نے نہیں پہچانا وہ تو ایک قسم ہوگئے اور وہ ہزارہا ہوگئے. ان میں سے چند ایک نکلے جنہوں نے پہچانا اب اگلی بات جنہوں نے پہچانا تو کیا ان میں کوئی ہے جو ہاتھ پکڑ کر کوئی بات بھی کر لے۔ وہ کہیں گے کہ جی آپ پہچانتے ہیں ہاتھ پکڑ کے بات تو کریں وہ کہیں گے پہچانتا تو ہوں مگر تعلق نہیں ہے۔ کیا کہے گا پہچانتا تو ہو مگر تعلق نہیں ہے۔

جس طرح جان سے پہچان اوپر کی چیز ہے اسی طرح پہچان سے تعلق اور اوپر کی چیز ہے۔ سب جاننے والوں میں کوئی کوئی پہچاننے والا ہوتا ہے اور سب پہچاننے والوں میں کوئی کوئی تعلق والا ہوتا ہے۔ تو جان سے پہچان بہتر ہے۔ تو جان سے جاننے سے پہچاننا بہتر ہے مگر پہچان سے تعلق بہتر ہے۔ پہچان سے تعلق بہتر ہے۔ آپ بات نہیں کر سکتے اس لیے کہ تعلق نہیں ہے اب جہاں تعلق ہے تو وہ بھی سن لے تو پہچان والوں سے تعلق والے ہیں کچھ اور جو تعلق ہے اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اب تعلق کی حقیقت یہ ہے کہ سمجھیں کہ اسی ایک ہی مثال کو آگے بڑھاتا ہوں تا کہ ساری باتیں اسی مثال کے اندر آ جائیں۔ اب وہ صدر پاکستان کہیں گاؤں میں رہنے والے ہیں کسی اپنے آبائی گاؤں میں آ کے رہے ہیں کچھ عرصہ رہے ہیں وہاں ان کا ایک آبائی حجام ہے۔ وہ آ کے صدر ایک جگہ بیٹھے ہیں باہر دن کا ٹائم ہے جمعہ کا وقت ہے ملاقاتی بھی آئے ہوئے ہیں پہچان والے آئے ہوئے ہیں۔ M N A (ایم این اے) بھی ا کے بیٹھے ہیں۔ M P A (ایم پی اے) بیٹھے ہیں. باہر وزیر بھی بیٹھے ہیں مشیر بھی بیٹھے ہیں ایک قطار لگی ہوئی ہے وزیروں کی مشیروں کی صغیروں کی نمائندگان کی۔ صبح سات بجے سے ا کے بیٹھے ہیں۔ دس بج گئے تین گھنٹے گزر گئے مگر اندر جانے کی ہمت کسی کو نہیں۔ بھئی آپ لوگ کیوں بیٹھے ہیں۔ صدر صاحب سے ملنے آئے ہیں۔ وزیر بھی ہیں مشیر بھی ہیں نمائندے بھی ہیں۔ سب کچھ ہیں۔ مگر تین گھنٹے سے باہربیٹھے ہیں۔ اندر کیوں نہیں جاتے۔ بھئی تعلق ایسا نہیں ہے کہ اندرچلے جائیں۔

باہر بیٹھے ہیں صدر صاحب جب باہر آئیں گے تو ملاقات ہو جائے گی باہر بیٹھے ہیں۔ اتنے میں ایک آدمی ٹوٹی ہوئی سائیکل پر آتا ہے۔ اب یہ مثال بالکل آپ کے دہی آبادی کے حساب سے دے رہا ہوں۔ دہی آبادی کے قصبوں اور دیہاتی زندگی کے مطابق دے رہا ہوں۔ ایک سائیکل والا آگیا چمڑے کی ایک لٹکائی ہوئی پرانے قسم کی ایک بیگ، دھوتی پہنی ہوئی ہے۔ عجیب حالت ہے۔ پرانا بیگ بہن کر سائیکل کے اوپر بیٹھ کر آیا اور سیدھا اندر۔ وہ لوگ سب حیران کہ وزیر بھی یہاں بیٹھے ہیں مشیر بھی یہاں بیٹھے ہیں۔

( ایم پی اے) سب یہاں بیٹھے ہیں۔ بلدیہ کے چیئرمین بھی یہی باہر بیٹھے ہیں۔ اندر جانا کسی کو نہیں مل رہا یہ کون ہے جو سائیکل پر آیا نہ اس کے پاس کار نہ کوٹھی والا عام میلے سے کپڑے پھٹے ہوئے پرانا سا ایک چمڑے کا بیگ سائیکل کھڑا کیا اور سیدھا بیل دی اور اندر سے کوئی ملازم نکلا اور اندر لے گیا۔ پوچھتے ہیں یہ کون ہے کہتے ہیں کہ یہ صدر صاحب کا حجام ہے تو جہاں وزیر اور مشیر بھی اندر نہیں جا سکے تو وہاں حجام اندر چلا گیا حجام اندر کیا چیز لے گئی پہچان لے گی یا تعلق لے گیا۔ اس کا تعلق تھا اس تعلق نے یہ نہیں دیکھا کہ حجام ہے یا وزیر ہے تعلق اندر چلا گیا تعلق تھا اندر چلا گیا سیدھا اندر چلا گیا۔ تو جاننا ایک جگہ رک جاتا ہے۔ پہچان آگے تک لے جاتی ہے۔ پھر ایک مقام آتا ہے جہاں پہچان رک جاتی ہےتعلق اس سے آگے لے جاتا ہے۔ تعلق اس سے آگے۔

پھر تعلق کے بھی درجے ہیں تعلق کے بھی درجے ہیں۔ معراج کی رات ہے سیدنا جبرائیل امین کو بھیجا ہمارے حبیب کو بلا لاؤ۔ جبرائیل امین کو بھیجا ہمارے حبیب کو بلا لائیں۔ سواری بھیجی جبرائیل امین کو بھیجا ساتھ لے کے گئے۔ آسمانوں تک پہنچے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ جب سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جب آقا آگے بڑھے تو سیدنا جبرائیل امین وہیں رک گئے۔ وہ بھیجے گئے تھے تو تعلق تھا خالی پہچان نہ تھی ایک تعلق تھا حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو لانے کے لیے بھیجا گیا۔ نمائندہ بنا کر مگر بتا رہا ہوں تعلق کے بھی درجے ہیں تعلق تھا لینے کے لیے بھیجا مگر سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے تو رک گئے۔ آقا آگے بڑھنے لگے پوچھا جبرائیل آپ آگے نہیں آتے آگے لامکان میں جا رہے ہیں۔ عالم انوار آئے گا اللہ کے اسماء کے انوار کا عالم آئے گا۔

صفات الہی کا عالم آئے گا۔ پھر ذات الہیہ کا عالم آئے گا۔ قرب کی تجلیات آئیں گی۔ پھر قرب دنا آئے گا۔ پھر قرب تدلہ آئے گا۔ پھر مقام کعبہ قوسین آئے گا۔ پھر آغوش او ادنی آئے گی۔ بڑے مرحلے آگے ہیں۔ جبرائیل آپ یہیں رک گئے آگے کیوں نہیں آتے۔ فرمایا حضور میرا تعلق بس اتنا ہی تھا بس اس سے آگے نہیں جا سکتا۔ میرے تعلق کی طاقت اتنی ہی تھی آگے آپ ہی جا سکتے ہیں۔ آگے آپ ہی جا سکتے ہیں۔ تو تعلق کے بھی درجے ہیں۔

اب پھر اسی مثال کی طرف آجائیں حجام اندر چلا گیا صدر صاحب ناراض ہوئے بھائی تمہارا آٹھ بجے کا ٹائم تھا تم دس بجے آ پہنچے۔ دو گھنٹےسے انتظار میں بیٹھا ہوں ذرا فرق کا موازنہ کر لیں۔ باہر مشیر وزیریم این اے ایم پی اے تین گھنٹے سے وہ انتظار میں ہیں۔

اندر صدر پاکستان حجام کے انتظار میں ہیں۔ کوئی بات پلے پڑ رہی ہے کہ نہیں پڑ رہی۔ خالی ہنس رہے ہیں یا سمجھ آ رہی ہے بات۔ سمجھ کتنی دیر تک رہے گی نماز جمعہ تک یا اس کے بعد بھی رہے گی؟

صدر نے کہا بھائی میں دو گھنٹے سے تمہارے انتظار میں ہوں تم اتنا لیٹ کیوں آئے تو معلوم یہ ہوا کہ جہاں پہچان ہوتی ہے صرف وہاں آدمی منتظر ہوتا ہے اور جہاں پہچان تعلق میں بدل جاتی ہے وہاں بڑا بھی ہو وہ منتظر ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا بھی ہو تو منتظر ہو جاتا ہے۔ یہ تعلق تعلق کی بات ہے وہ اندر حجام کا منتظر ہے یہ باہر صدر کے منتظر ہیں۔ صدر ان کے لیے منتظر ہیں اور اپنے تعلق والے کے لئے منتظر ہے۔ انتظار کر رہا ہے۔

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں

اب یہ ساری باتیں بلا تشبیہ اور بلا مثال ہیں کیوں کہ ایک مثال کے ساتھ کئی نقطے دائیں بائیں سے سمجھانے ہیں۔ ادھر انتظار ہو رہا ہے ادھر انتظار کیا جارہا ہے۔

سیدنا موسی علیہ السلام کو فرمایا خواہش ہوئی مولا کبھی اپنا کلام سناتا۔ کبھی تیری آواز کانوں میں پڑتی۔ تیری وحی آتی ہے کبھی آواز بھی سنتے ہیں فرمایا موسی طور پر آ جانا موسی علیہ السلام تیس راتیں انتظار کروایا۔ حضرت موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر بلا لیا کتنی راتیں ؟ تیس راتیں انتظار کرایا۔

جب تیس راتیں مکمل ہوگئی خواہش کی فرمایا موسی اب دس راتیں اور انتظار کر چالیس راتیں انتظار کرایا۔ فرمایا:

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ

(الاعراف: 143)

اور جب موسٰی (علیہ السلام) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا۔

اور جب چالیس راتیں پوری ہوگی اور چالیس دنوں کا انتظار پورا ہوگیا اتنا انتظار کرایا چالیس دن اس کے بعد کلام کیا اس کے بعد پھر آواز محبوب حقیقی کی حضرت موسی کے کانوں میں پڑی۔ وہ جب آواز حبیب کی رس گل گی۔ اس کا لذت کلام جب نصیب ہوا تو طبیعت مچل اٹھی۔ عرض کیا مولا اگر اتنا کرم کیا ہے کہ مجھ سے کلام فرما لیا ہے تو ذرا ایک لمحے کیلئے پردہ بھی ہٹا دے۔ اگر لذت کلام دی ہے۔ حلاوت گفتگو دی ہے۔ شرف ہم کلامی دیا ہے تم مولا ذرا پردہ بھی ہٹا لے۔ تیرے حسن کا جلوہ بھی نصیب ہو جائے۔ اس پر جواب آیا لن ترانی

رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ.

(الاعراف: 143)

اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں، ارشاد ہوا: تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکوگے۔

ایک نظر دکھا دے فرمایا لن ترانی نہیں دیکھ سکتا تو بس تعلق یہی تک تھا تعلق یہی تک تھا۔ انتظار ہوا چالیس راتوں کے انتظار کے بعد فقط لذت کلام سے نوازا گیا۔ گفتگو سے نوازا گیا۔ جب پردہ ہٹا کر جلوہ حسن دکھانے کی بات کی۔ فرمایا نہیں موسیٰ بس بات اتنی ہے لن ترانی تو نہیں دیکھ سکتا تو نہیں دیکھ سکتا۔ ایک حد پر جا کر رک گئے نا۔ یہ تھے منتظر اور حبیب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ منتظر بنایا تھا انہیں فرمایا تھا موسی آ جانا طور پر حاضر ہو گئے۔ چالیس دن انتظار کروایا پھر کلام کیا اور دیدار پھر بھی عطا نہ ہوا۔ ادھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹے ہیں ادھر بلوا بیھجا اور بلانے کے طریقے ہوتے ہیں آپ اگر کسی کی دعوت کریں گھر تو تعلق کے درجے بتا رہا ہوں۔ کہ جس سے تعلق ہو اسی کو بلوا بھیجتے ہیں نا یا غیر کو بلوا بھیجتے ہیں۔ تو ایک تعلق والا ایسا ہوتا ہے کہ آپ کارڈ بھیج دیتے ہیں کہ ہمارے گھر آپ کی دعوت ہے فلاں دن تشریف لے آئیں۔ بس کارڈ دیا دعوت بھیج دی آنے والا آجاتا ہے۔ کرتے ہیں نا اور جہاں زیادہ تعلق ہو جہاں زیادہ تعلق ہو وہاں دعوت بھی بھیجتے ہیں ساتھ سواری بھی بھیجتے ہیں گاڑی بھی بھیجتے ہیں کار بھیج دیتے ہیں کہ یہ کار بھی ہے آجائیں۔ اعزاز ہوتا ہے اکرام ہوتا ہے علاقہ ہو دیہاتی تو گھوڑی بھیج دیتے ہیں۔

اچھی قسم کی گھوڑی، گھوڑی بھیجی ہے آ جائیں اس سے اعزاز ہو جاتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ تعلق اونچے درجے کا ہے اور اس سے اونچا تعلق ہو اور آخری حد ہو تعلق کی تو دعوت بھی بھیجتے ہیں۔ سواری بھی بھیجتے ہیں۔ ساتھ ایک نمائندہ بھی بھیجتے ہیں۔ بڑا معزز نمائندہ بھیجتے ہیں بھیجتے ہیں نا؟ جس کی دعوت ہو اگر آپ کو کوئی آپ کا یہاں بڑا آپ کا کوئی بڑا وڈیرہ علاقے کا بلا بیھجے، ساتھ سواری بھیجے ، ساتھ اپنا بیٹا بھی بھیج دے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ آپ تین دن محلے والوں سے بات ہی نہیں کریں گے۔ تین دن تک بات نہیں کریں گے۔ فلاں نے بلابھیجا ساتھ بیٹا بھی بھیجا کار بھی بھیجی۔ بڑا تعلق ہو تو آدمی دعوت بھیجتا ہے سواری بھیجتاہے نمائندہ بھیجتاہے۔ یہ تعلق پروٹوکول کی آخری حد ہے۔ پروٹوکول کی عزت افزائی کی آخری حد ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے بھی تعلق ہے بلوا بھیجا اے موسی طور پر آجانا چالیس راتیں انتظار کروایا اس کے بعد کلام کیا اور جب دیدار کی طلب ہوئی طلب ہوئی دیدار کی۔ عرض کیا گیا فرمایا نہیں موسیٰ یہ تیری سکت سے نہیں۔ یہ تیری طاقت سے باہر ہے۔

اور ادھر صرف دعوت نہیں بھیجی کہ میرے مصطفیﷺ آ جانا ایسا نہیں کیا۔ براق کی سواری بھیجی۔ براق کی سواری بھیجی۔ اور خالی براق کی سواری نہیں بھیجی بلکہ اپنی پوری کائنات نور آسمانوں کی کائنات کا سب سے بڑا عظیم نمائندہ سیدنا جبرائیل امین کو بھی بھیجا۔ سیدنا جبرائیل امین کو بھیجا کہ جا کر لے آنا۔ لینے گئے دعوت بھیجی سواری بھیجی جبرائیل امین کو نمائندہ بنا کر بھیجا۔ سب کچھ کیا مگر جب بیان کرنے کا وقت آیا کہ کیسے آئے تو وہاں یہ نہیں فرمایا کہ جبرائیل لے آیا فرمایا میں خود لے گیا۔

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِهٖ لَیۡلًا.

(السراء: 1)

وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو لے گئی۔

پاک ہے وہ ذات جو خود اپنے بندے کو لے گئی۔ جو خود اپنے بندے کو لے گئی۔ تو تعلق کے درجے ہوئے نا۔ فرمان میں یہ ہے کہ خود لے گیا یہ درجات تعلق ہو تے۔ بعض کے انداز بعض میں لاڈ بھی آ جاتے ہیں۔ نہیں دیکھا کرتے کہ یہ حجام ہے یا غریب ہے یا امیر ہے۔ نہیں دیکھتے جہاں تعلق ہوتا ہے کہ کپڑے اچھے ہیں یا پھٹے ہوئے ہیں۔ کنگھی کی ہوئی ہے یا بال بکھرے ہوئے ہیں۔ نہلایا ہوا ہے یا گرد آلود ہے۔ جہاں تعلق ہوتا ہے فرمایا:

میری امت میں کئی ایسے لوگ ہیں جن کے بال بکھرے ہوں گے کپڑے پھٹے ہوں گے بال منتشر گردآلود ہوں گے مگر رب سے تعلق یہ ہوگا کہ اللہ کے بھروسے قسم اٹھا دیں گے رب ان کا کام کرکے رہتا ہے۔ ارے پہچان والوں کے پاس اس لیے جاتے ہیں کہ رب کی پہچان کرادیں اور اللہ کے جس بندے کا تعلق ہو اس تعلق والے کے پاس جاؤ۔ قیامت کا دن ہوگا رب ذوالجلال اس کی رحمت جوش پر ہوگی جو نہی رب کا بندہ سامنے آئے گا حکم ہوگا فرشتوں یہ تو ساری ساری رات میری خاطر مصلے پر کھڑا رہتا تھا۔ ساری رات سجدوں میں میری محبت میں آنسو بہاتا رہتا تھا۔ اس نے پوری دنیا کو میری خاطر ناراض کر دیا تھا۔ ساری زندگی میری ریاضت کرتا رہا مجاہدہ کرتا رہا ، میری عبادت کرتا رہا، میرے عشق کی آگ اس کے سینے میں جلتی رہی، آج قیامت کے دن آیا ہے ہٹا لو ترازو اس سے حساب کتاب کیا لینا۔ جنت میں لے جاؤ۔ اس نے ساری زندگی ہمارے نام کر دی اس کا جینا مرنا ہمارے لئے ہو گیا تھا۔ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام:162) کا پیکر بن گیا تھا۔

"فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے"

اس نے ساری زندگی ہمارے نام کر دی اسے ہماری محبت اور عبادت کے سوا کچھ سوجھتا نہ تھا۔ یہ ہماری توحید کے سمندر میں غرق تھا۔ اس سے حساب کیا لو گے اسے جنت میں لے جاؤ۔ فرشتے آئیں گے آؤ تمہیں جنت میں لے جائیں۔ وہ رک جائے گا۔ کہے گا نہیں مولا تعلق کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی جس طرح تو میرے تعلق کی بنا پر بغیر حساب کتاب کے مجھے جنت میں بھیچ رہا ہے کئی ہزاروں میرے تعلق والے بھی تو ہیں۔ ہائے ہائے وہ بھی تو ہیں جنہوں نے مجھ سے بیعت کر رکھی تھی۔ وہ بھی تو ہیں جو میرے لئے جان دے دیتے تھے وہ بھی تو ہیں جو میرے لئے قربان ہوتے تھے۔ میرے نیک حکم کی تعمیل کرتے تھے نیک راہ پر میرے ساتھ چلتے تھے۔ میرے شانہ بشانہ چلتے تھے۔ وہ میرے تعلق والے بھی تو ہیں۔

آج انہیں اس مصیبت میں چھوڑ کر خود تنہا جنت میں چلا جاؤں میرا تعلق گوارا نہیں کرتا یا ان کو بھی میرے ساتھ بھیج یا میں بھی نہیں جاتا۔ حکم ہوگا فرشتوں جب اس کا تعلق اتنا ہے تو اگے اس سے تعلق والوں کو بھی ساتھ لے جاؤ اور یہ بات یہ بات محض کہانی نہیں ہے۔ صحیح بخاری اٹھا کے دیکھ لو۔ صحاح ستہ کی کتابیں حدیث کی بخاری مسلم اٹھا کے دیکھیں اور کتب حدیث بھری پڑی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں ستر ہزار لوگ ایسے ہونگے کتنے صحابہ کرام سے فرمایا حدیث صحیح ہے ستر ہزار افراد ایسے ہونگے جنہیں بغیر حساب و کتاب کے بخش دیا جائے گا اور فرمایا ان ستر ہزار افراد میں سے ہر ہر شخص ایسا ہوگا کہ ایک ایک شخص کے ساتھ پھر سترستر ہزار لوگ جائیں گے۔ ایک ایک شخص کے ساتھ پھرستر ہزار جائیں گے اس لیے کہتے ہیں کہ اچھوں کی سنگت اختیار کر لو اچھوں کی۔ اولیاء اللہ کا طریقہ یہ تھا پرانے زمانے کے اولیاء کا طریقہ یہ تھا کہ جب کسی سے دوستی بناتے نا دوستی اور کسی کی مجلس میں بیٹھتے، دوستی اور تعلق بناتے، پیار کسی سے شروع کرتے تو وہ فرماتے بھائی دوستی کسی سےبنانے سے پہلے یہ سوچا کرو کہ اس کی دوستی قیامت کے دن بھی کام آئے گی یا نہیں؟ اگر اس کی دوستی قیامت کے دن کام آئے تو پھر دوست بنا لو اگر قیامت کے دن کام کی نہیں پھر یہاں بھی کام کی نہیں۔ اپنے رشتوں کے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو اپنے دوستیاں ،اپنی محبتیں، اپنے تعلقات کو ، اپنے رشتے، اپنی نسبتیں ہرایک کا احیاء لئے پھرتے ہو۔ اگر نہیں رہا ہماری زندگی میں احیاء تو رب کا نہیں رہا۔

ہر بڑے کا حیا ہے مگر سارے بڑوں کے بڑے کا حیا نہیں رہا. ہر امیر کا حیا ہے مگر سب امیروں کے امیر کا حیا نہیں رہا ہر طاقتور کا حیا ہے. مگر کائنات کے سارے طاقتوروں کے طاقتور کا حیا نہیں رہا. ہر ایک سے دوستی ہے مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے رب سے دوستی نہیں ہے. اگر دوستی رب سے اور رب کے حبیب سے ہو جاتی تو دنیا کی ساری دوستیاں ان کی دوستیوں پر قربان ہو جاتیں۔ سارے تعلق رب کے تعلق پر قربان ہو جاتے. ساری نسبتیں رب کی نسبت اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت پر قربان ہو جاتیں۔ تو تعلق جہاں ہوتا ہے اس کے فیض پھر دوسروں کو بھی پہنچتے ہیں۔ دوسروں کو بھی پہنچتے ہیں اور پھر تعلق میں عالم کیا ہے کروڑکروڑ روپیہ صدر کی سیکورٹی پر خرچ ہوتا ہے کروڑوں روپے لاکھوں روپے حفاظت پر خرچ ہوتے ہیں. انٹیلی جنس ہے ایجنسیز ہیں کیمرے ہیں ٹی وی ہیں گارڈ ہیں مختلف قسموں کے سیٹ ہیں۔ .

لاکھوں کروڑوں روپے صدر کی حفاظت پر خرچ ہوتا ہے. اور اب حجامت کا وقت آگیا شیو کر رہا ہے حجام صدر کی گردن اوپر اور تیز دھاری والا استرا گردن کے اوپر لکھا ہوا ہے۔ استرا شاہرگ پر ہے۔ وہ سارے کے سارے گن مین تک رہے ہیں اور وہ استعفی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس گردن کے بچانے کی خاطر لاکھوں روپے خرچ کر رہے ہیں اسی آپ کی گردن کے بچانے کے لئے آپ نے یہی گردن اس کے استرے کے نیچے دے دی۔ کیا سکیورٹی رہ گئی؟ کیا سکیورٹی رہ گئی. جس ایک گردن کو بچانے پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں وہ گردن استرے کے نیچے پڑی ہے. اب فرق کیا ہے؟ استرا یوں چلے تو سلامتی ہے اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر چلے تو خیر ہے تو تھوڑا سا دائیں سے بائیں تو بھیڑا ہی پار ختم۔ یہ کیوں کر دیا ایسا کروڑوں روپے جس گردن کی سلامتی پر خرچ ہو رہے ہیں وہ استرے کے سپرد کیوں کر دی؟ کیونکہ یہاں تعلق ہے اور جہاں تعلق ہوتا ہے وہاں اعتماد ہوتا ہے۔ جہاں تعلق ہوتا ہے وہاں اعتماد ہوتا ہے۔ اس لئے اولیاء اللہ کو فرمایا

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَ لَاهُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ.

یونس: 62

خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔

ان کا چونکہ تعلق ہے ان کا اللہ پر اعتماد ہوتا ہے. اللہ کی طرف سے انہیں آگ میں پھینکنے کا بھی امر ہو جائے اور آگ میں پھینک دیے جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے آگ میں پھینک دیا آگ میں۔ سیدنا جبرائیل علیہ السلام حاضر ہو گئے سلام کیا اور کہا سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے حضرت ھل لک حاجتا۔ اگر آپ کی کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے میں حاضر ہوں حکم دے تو پھونک مارو تو نمرود کی آگ بجھ جائے نمرود کی آگ بجھا دو؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا نہیں ضرورت نہیں تجھ سے سوال کی ضرورت نہیں۔ پھر سیدنا جبرائیل امین نے دوسرا سوال کیا عرض کیا کہ حضور اگر مجھ سے نہیں سوال کی حاجت تو اللہ سے سوال کرلیں۔ اللہ سے سوال کر لیں۔ فرمانے لگے اس سے سوال کروں جو میرے حال کو مجھ سے بہتر جانتا ہے۔ اس سے سوال کروں جو میرے حال کو مجھ سے بہتر جانتا ہے۔ تو بجائے سوال کے اس کے جاننے پر قناعت کی ہے۔ جہاں تعلق ہے وہاں بھروسے کا یہ عالم ہے کہ کھڑے آگ میں ہیں مگر پتہ ہے کہ اگر اسے بچانا مقصود ہے تو آگ جلا نہیں سکتی حکم ہوتا ہے

قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰهِیۡمَ.

الانبیاء: 69

ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔

آگ گلزار ہو جاتی ہے۔ تعلق سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ بنیادی چیز آپ سمجھ گئے کہ جان سے پہچان اچھی اور پہچان سے تعلق اچھا اب سوال پیدا ہوگا کہ اس رب سے وہ تعلق پیدا کیسے ہو؟ رب سے وہ تعلق پیدا کیسے ہو؟ جاننے سے پہچان اچھی ہوگئی اور پہچان سے تعلق اچھا ہوگیا۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہو گیا کہ اس رب سے تعلق پیدا کیسے ہو؟

اس کا جواب سن لیں قرآن مجید اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر گواہ ہے۔ رب سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہو تو ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ اس کے حبیب سے تعلق پیدا کر لو۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق پیدا ہو گیا تو یہی خدا سے تعلق ہوگا۔ اللہ سے تعلق چاہتے ہو تو حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی ذات پاک سے تعلق پیدا کرلو۔ اللہ سے تعلق الگ کوئی شے نہیں ہے سن لیں اچھی طرح سمجھ لیں ذہن نشین کر لیں دلیل کی بات سمجھنے والے دلائل کی رو سے سمجھ لیں محبت کی بات سمجھنے والے محبت کی رو سے جان لیں۔ عقل کی راہ سے جانے والے اس بات کو عقل پر تو لیں اور دل کی راہ سے جاننے والے دل میں اس بات کو سمو لیں۔ اللہ سے تعلق الگ کسی اور شے کا نام نہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک سے تعلق ہی اللہ سے تعلق کہلاتا ہے۔ تعلق با المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تعلق خدا ہے۔ تعلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تعلق خدا ہے۔ رسول خدا نہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم خدا نہیں اور خدا رسول نہیں مگر تعلق دونوں کا جدا نہیں۔

نسبت ایک، تعلق ایک، ربط ایک، جو خدا سے تعلق چاہے کسی اور در سے تعلق الہی نہیں ملے گا کسی اور راہ سے اللہ کے تعلق کی خیرات نہیں ملے گی جہاں جاؤ گے ٹوکھریں کھاؤ گے رب سے تعلق چاہتے ہو تو در مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کرلو۔ اب قرآن مجید کی زبان سے اس بات کو سمجھتے ہیں وہ آیت کریمہ جو میں نے ابتدا میں پڑھی۔ اب وہ آیت ہماری گفتگو کا مرکز بن گئی اب اس آیت کا موضوع ا پہنچا فرمایا کہ جو خدا سے تعلق چاہتے ہو تو مصطفی سے تعلق جوڑ لو۔

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰهُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ.

آل عمران: 31

(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے

میرے محبوب اعلان کردو لوگ میرے تعلق کے متلاشی ہیں۔ میری محبت کے متلاشی ہیں۔ مجھ سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں۔ مجھ سے نسبت جوڑنا چاہتے ہیں۔ میری محبت کی خیرات چاہتے ہیں۔ میرے حبیب انہیں بتا دو کہیں بھی پھرو زمانہ چھان مارو، در در کی خاک چھان مارو سجدے کرو اور رکوع کرو نماز پڑھو روزے رکھو مجاہدہ کرو تو جو چاہو کرو جب میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق نہیں جڑتا رب نہیں مل سکتا۔

رب سے تعلق نہیں بن سکتا اعلان کردیں میرے حبیب اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ اگر اللہ سے محبت والا تعلق چاہتے ہو محبت والا تعلق چاہتے ہو تو فَاتَّبِعُوۡنِیۡ میری پیروی والا تعلق اختیار کر لو۔ اگر میری اتباع والا تعلق حاصل کر لو تو رب کی محبت والا تعلق مل جائے گا۔ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰهُ میرے نقش قدم پر چلو۔ میرے قدموں کے نشان تلاش کرو۔ میری اتباع کرو اور اتباع میں کیا ہے؟ میرے قدموں کے نشان دیکھو جن راہوں سے گزرتا جاؤں تم بھی اس راہ کی خاک سر پہ ڈال لو۔ اس راہ کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناؤ۔ میرے قدموں کے نشان دیکھو جہاں جہاں میرے تلوے لگے بس انہی راہوں پے گزرتے چلے جاؤ۔

میری زندگی بھی عجیب ہے
میری بندگی بھی عجیب ہے
جہاں مل گیا تیرا نقش پا
وہی میں نے کعبہ بنا لیا

اور مجھے ہوش کیا تھی رکوع کی مجھے کیا خبر تھی سجود کی
تیرے نقش پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں

جدھر میں چلو تم اسی کو راہ بنا لو۔ میری پیروی کرو رب مل جائے گا۔ تو اللہ سے محبت کا تعلق چاہو تو میری پیروی کا تعلق اختیار کر لو. مولا کیا اسی تعلق کے لیے شرط ہے؟ باقی اور کوئی تعلق ایسا بھی ہے جو تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر سیدھا مل جائے۔

مصطفی کا اطاعت خدا کی اطاعت:

باری تعالیٰ کیا کوئی ایسا تعلق بھی ہے جس میں تیرے حبیب کے در پر نہ جانا پڑے سیدھا تیرے گھر آئیں اور سیدھا مل جائے۔ فرمایا نہیں۔

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ

(النسا: 80)

جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔

مولا اگر تیری اطاعت کرنی ہو تیری حکم کو ماننا ہو تو پھر کیا کریں۔ کیا اس میں بھی رسول کے تعلق کو واسطہ بنائیں یا سیدھا آجائیں فرمایا نہیں میری اطاعت بھی کرنا چاہتے ہو تو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو جو میرے رسول کی اطاعت کرے وہی میرا مطیع بن جائے گا۔

مولا کوئی اور صورت بھی ہے تیری مغفرت تیری بارگاہ سے چاہیں تیری بارگاہ سے مغفرت چاہیں بخشش چاہیں اس تعلق کے لیے سیدھا تیرے پاس آجائیں؟ فرمایا اس کے لئے بھی نہیں۔

وَ لَوۡ اَنَّهُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡکَ.

النساء: 64

اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے

وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور میری مغفرت اور بخشش کے طالب ہوں تو انہیں کہہ دو کہ میرے پیارے مغفرت بھی چاہتے ہو تو سیدھا نہ آئیں تیرے در پر آئیں تیرے پاس آئیں اور تیری بارگاہ میں آکر رب سے بخشش مانگیں۔ خواہ تیرے پاس آنا سنت کی پیروی کے طریقے پر ہو۔ خواہ تیرے پاس آنا تیری محبت کے طریق پر ہو۔ خواہ تیرے پاس آنا اتباعتا ہو محبتا ہو خواہ اطاعتا ہو خواہ نصرتا ہو خواہ توسل ہو خواہ شفاعتا ہو۔ جیسے بھی ہو محبوب مگر تیرا دامن تھامے تو میرا لڑ ہاتھ میں آئے گا۔

رسول کی بیعت خدا کی بیعت:

مولا تجھ سے عہد کرنا چاہتے ہیں بیعت کرنا عہد کرنا چاہتے ہیں تجھ سے کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ تیری بیعت ہو جائے اللہ کی بیعت ہو جائے۔ یعنی اللہ سے عہد ہو جائے فرمایا ہاں اس کا بھی راستہ یہ ہے کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرو۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ

الفتح: 10

(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں،

یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ

(الفتح: 10)

ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔

مصطفی کا ادب خدا کا ادب:

باری تعالیٰ آپ کو ادب کرنا چاہتے ہیں تو کیا ادب ایسا ہو سکتا ہے کہ تیرے رسول کا ادب نہ کریں اور تیرا ادب ہو جائے فرمایا نہیں۔

لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖ.

الحجرات: 1

اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو .

قربانی کا دن تھا قربانی کا عید الاضحی کا حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ابھی قربانی نہیں دی تھی ابھی اپنا بکرا ذبح نہیں کیا۔ بعض صحابہ کرام نے حضور علیہ السلام سے پہلے اپنے قربانی کرلی۔ قربانی دے کر مسجد آئے عید گاہ میں پتہ چلا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی نہیں کی بعضوں نے پہلے کرلی ہے باری تعالی نے فرمایا اے جبرائیل جا کے بتا دو کہ یہ بے ادبی ہے۔ قربانی اللہ کے لیے ہے قربانی اللہ کی بارگاہ میں نیاز ہے عبادت ہے۔ فرمایا اگر میری عبادت بھی میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کرلو تو وہ بھی قبول نہیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کوئی عمل نہ کیا کرو۔ تو قربانی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی سے پہلے کی تھی یا اللہ کی قربانی سے پہلے کی تھی۔ اللہ قربانی دیتا ہے؟ تو اللہ نے تو نہ قربانی دی نہ دینی تھی۔ قربانی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دی گئی۔ تو فرمایا جاتا نہ کہ لا تقدموا بین یدی رسول کہا جاتا نہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قربانی نہ دو لیکن پہل رسول صلی اللہ وسلم پر کی مگر اللہ نے نام اپنا لیا جو چونکہ رسول کا تعلق ہی خدا کا تعلق ہے۔