اسلام دین متین ہے جو انسانیت کی رشد و ہدایت کا ذریعہ اور مکمل نظام حیات ہے۔ اسلامی تعلیمات میں فلاحی و سماجی معاشرہ کی تشکیل میں مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی شراکت دار بنایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ.
(آل عمران: 110)
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو،‘‘
تحرک جمود کی ضد ہے چنانچہ تحریک اور ضد کا کسی بھی حوالے یا کسی بھی پہلو سے آپسی رشتہ نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت جس بہترین قوم یا افراد معاشرہ کو امر بالمعروف کا حکم دینے اور نہی عن المنکر سے باز رکھنے کی جدوجہد کا درس دیتا ہے اس میں مرد و خواتین کو بلا امتیاز شریک کرتا ہے۔ معاشرے پر طاری فکری و نظریاتی اور شعوری جمود کو توڑ کر تحرک دینا تحاریک کا نصب العین ہوتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی میں مرد و خواتین کا برابر کردار شامل ہوتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر دور میں ہر تحریک اور جدوجہد میں نصب العین کے حصول کے لئے خواتین کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر ہم فروغ اسلام کی تحریک میں خواتین کے کردار کی عملی جھلک دیکھنا چاہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست مدینہ کے قیام سے لے کر چہار دانگ عالم میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں مسلم خواتین نے اپنی ہمت و جرأت کا لوہا منوایا۔ عرب معاشرے میں جہالت و گمراہی اور شرک و بت پرستی کے خلاف جدوجہد میں سب سے پہلے نبی مکرم ﷺ کی ڈھارس بندھانے سے لے کر اسلام کے ابتدائی دس سالوں تک اپنے مال و دولت اور تمام سرمایہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والی خاتون ام المومینین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔ اعلان نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں کل 55 افراد نے اسلام قبول کیا جن میں 9 خواتین شامل تھیں۔ تقریبا آٹھ برس مکہ مکرمہ میں کفار و مشرکین کے ظلم و ستم کے خلاف سینہ سپر ہونے کے بعد جن 83 افراد نے نبی مکرمﷺ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی ان میں 18 خواتین شامل تھیں۔ دین اسلام کے خدمات سرانجام دینے سے لے کر جان کا نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش کرنے والے خواتین کی تعداد بھی کثیر ہے۔ الغرض اسلامی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے مزین ہے۔
اجتماعی تحریکی و تنظیمی زندگی میں عورتوں کی شرکت کو اہمیت دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماں کی گود اولاد کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ لہٰذا اولاد کی تربیت جس منہج پہ کی جائے گی مستقبل میں اسی کے ثمرات سمیٹے جائیں گے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے فروغ و احیاء، قیام امن، اصلاح معاشرہ، اور نئی نسل سمیت نوجوانات ملت اسلامیہ کا تعلق محبت و عشق رسول ﷺ سے جوڑنے کے لئے 05 جنوری 1988ء کو خواتین کی سرخیل تنظیم منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی۔ دورہ حاضر میں منہاج القرآن ویمن لیگ کردار سیدہ زہرہ سلام اللہ علیہا، جرآت سیدہ زینب اور حکمت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہھن کی امین ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و ناموس کے تحفظ کیلئے امت کو منہاج القرآن ویمن لیگ کا پلیٹ فارم عطا کیا ہے اور انہیں حوصلہ اور عزم عطا کرکے ان میں انقلاب کا شعور بیدار کیا ہے۔ اس تنظیم کا مقصد خالصتاً اللہ رب العزت اور اس کے حبیب مکرم ﷺ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرتے ہوئے تعلق باللہ اور تعلق بالرسول میں پختگی، اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد، اصلاح احوال امت، خواتین کے حقوق کا تحفظ، انسانی حقوق کی ادائیگی کے شعور کی بیداری، خواتین کی عملی و عملی، فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی اور انقلابی تربیت کا مؤثر اہتمام کرنا ہے۔
جدید و قدیم تعلیم و تربیت کے حسین امتزاج سے مزین منہاج القرآن ویمن لیگ کی خواتین مصطفوی انقلاب کا ہراول دستہ ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے اپنے شاندار تنظیمی اور تحریکی کردار کی بدولت گزشتہ تین دہائیوں کے دوران یہ ثابت کیا ہے کہ یہ اسلامی دنیا میں 30 سے زائد ممالک میں فلاحی و اصلاحی اعتبار سے اپنا باضابطہ نیٹ ورک قائم کرنے والی خواتین کی سب سے بڑی نمائندہ تحریک ہے۔ تعلق باللہ اور محبت رسولﷺ کی پختگی کا فروغ ہو یا دینی و قومی فریضہ کی ادائیگی، سماجی و معاشرتی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد ہو یا معاشرے میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کا سفر، مجالس علم و فکر ہوں یا فنی و تکنیکی مہارتوں کی عملی مشق منہاج القرآن ویمن لیگ نے ہر میدان میں خود کو منوایا ہے۔ دنیا بھر میں قائم منہاج القرآن ویمن لیگ کی تنظیمات سے منسلک بے لوث اور جرأت مند خواتین کی تعمیر و فلاح انسانیت کی کاوشیں بلاشبہ قابل صد افتخار ہیں۔
تحریکی و تنظیمی ذمہ داریوں کو سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک پیغام پہنچانے کے حوالے سے منہاج القرآن ویمن لیگ کی صدر ڈاکٹر غزالہ حسن قادری نے اپنے تربیتی لیکچرز میں بارہا خواتین کو فکر ذات سے نکل کر فکر امت کا درس دیا ہے جو بلاشبہ نہایت فکر انگیز اور زندگی بدل دینے والا نقطہ نظر ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت موجودہ مادیت پرست افراد معاشرہ کو ہے۔ تحریکی نظم خواتین میں صالحیت و پاکیزگی، ایثار و قربانی، ہمدردی و مہربانی اور خدمت خلق کے جذبے کی آبیاری کرتا ہے اور فکری و نظریاتی بالیدگی کا ذریعہ بنتے ہوئے سوچ و فکر اور زاویہ نگاہ کو نئی انقلابی راہوں سے متعارف کرواتا ہے۔
عصر حاضر میں منہاج القرآن ویمن لیگ کا پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے میں احیائے دین کو نئے رنگ و اسلوب کے ساتھ جدید نسلوں تک پہنچانا نہایت احسن عمل ہے۔ توقیر و تکریم نسواں کے لئے عملی جدوجہد اور خواتین کی عظمت رفتہ کی بحالی منہاج القرآن ویمن لیگ کا نصب العین ہے۔ اس پلیٹ فارم نے خواتین کو پرامن عوامی جمہوری انقلاب سے آشنا کیا اور انہیں ایک منظم و مربوط فورم مہیا کیا نیز اس فورم کی بدولت خواتین کو درپیش قدیم و جدید مسائل اور چیلنجز سے نبردآزما ہونے سے بھی روشناس کروایا۔ خواتین کی ترقی اور سالمیت کی راہ میں حائل معاشرتی و سیاسی، سماجی و قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، قانون ساز اور پالیسی ساز اداروں میں شامل ہوں۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مردوں کے شانہ بشانہ مواقع حاصل کریں اور عالمی سطح پر ملک و قوم کو درپیش مسائل اور بحران کے حل میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش جاری رکھیں۔ اسی ضرورت کے پیش نظر منہاج القرآن ویمن لیگ نے اپنے ذیلی شعبہ جات کے تحت متعدد و مفید پراجیکٹس معاشرے میں شروع کیے ہیں۔ خواتین میں شعوری و فکری اور عملی و روحانی انقلاب پیدا کرنے کے لئے شعبہ دعوت و تربیت، دختران اسلام، ایگرز، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ (سسٹرز) اور شعبہ امور اطفال قائم کیا ہے۔ خواتین اور بچوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لئے الہدایہ کیمپس، فیملی حلقہ درود و فکر اور دیگر مذہبی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے وطن عزیز پاکستان سے فتنہ دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے ہزاروں خواتین نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دی گئی ہدایات کی روشنی میں قیام امن کے لئے علمی و عملی کاوشیں کیں۔ ان خواتین نے معاشرے میں خواتین کو سامراجی طاقتوں کی پھیلائی گئی بدگمانیوں، شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے عملی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تالیف کردہ اسلامی امن نصاب نے مشعل راہ کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ بالخصوص نوجوان نسل کو اسلام کا امن پسند چہرہ دکھانے اور اسلام دشمن عناصر کا چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے متعدد امن کورسز، تعلیمی ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کروائے گئے۔
عصر حاضر میں بھی خواتین کو وہی حقوق حاصل ہیں جو آج سے 1500 سال قبل حاصل تھے اور اسلام کے عطا کردہ یہ حقوق تاقیامت خواتین کو حاصل رہیں گے۔ اسلام خواتین کو چارد اور چار دیواری میں قید رکھنے کی بجائے انہیں مردوں کے شانہ بشانہ فرائض کی انجام دہی کا حق دیتا ہے۔ معاشرتی ظلم و جبر کے خلاف آواز حق بلند کرنا، اور فرسودہ و ظالمانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا خواتین پر بھی اسی قدر فرض ہے جس قدر مردوں پر فرض ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ سے منسلک خواتین آج احکام شریعہ کی پابندی کے ساتھ معاشرے کا اہم ستون بن چکی ہیں۔ بلاشبہ خواتین معاشرتی فلاح و بہبود کے ساتھ تنظیمی و تحریکی زندگی میں نہایت اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے معاشرے کا نہایت اہم رکن ہیں اور کسی بھی تحریک و تنظیم میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔