دین اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی بنیاد علم پر رکھی گئی ہے۔ اسلام میں یقین محکم کی کنجی سے تفکر اور تجسس کے وہ ہزار در کھل سکتے ہیں جس سے خالق اور اس کی بنائی ہوئی کائنات کے اسرار و رموز کا ادراک ممکن ہے۔ اللہ رب العزت جو علمِ کامل کا منبع، ظاہر و پنہاں سے آگاہ اور ماضی اور مستقبل کا خبیر و بصیر ہے۔ اس نے انسان کو سماعت، بصارت اور تفکر کی قوتیں عطا کرتے ہوئے نیابت کے اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو علم الاسماء کے اعزاز سے نوازا جو تمام انسانوں کے اولین معلم ہیں۔ اسی عطیہ علم کی بدولت انسان تمام مخلوقات سے افضل قرار پایا۔ اور نیابت الہٰی کا حقدار ٹھہرا۔ قرآن حکیم میں اسی حقیقت کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰٓؤُلَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. قَـالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ.
’’ اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بے شک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو خود تعلیم دی اور اولین معلم کے درجے پر فائز فرمایا۔ علمی برتری کی وجہ سے حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر برتری حاصل ہوئی۔ اللہ رب العزت زمین پر اپنے نائب انسان کو کتابِ حکمت کے ذریعے بار بار غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ فطرت کے مطالعہ پر زور دیتا ہے جو خالق کی قدرت کی مظہر ہے۔ قرآن حکیم میں صراحت سے انسان کو تدبر اور غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
سورہ الجاثیہ میں ارشاد ربانی ہے:
وَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ.
(الجاثیة، 45: 13)
’’ اور اُس نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے، بے شک اس میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
سورہ الزمر میں اہل علم اور علم نہ رکھنے والے کا موازنہ کیا گیا ہے:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.
(الزمر، 39: 9)
’’ فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘
اسلام میں علم کی افادیت اور بنیادی حیثیت کا ادراک پہلی وحی کی درج ذیل آیات مبارکہ سے ہوتا ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ.
(العلق، 96: 1تا 5)
’’ (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
ان آیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام جس طرح دین ہدایت ہے اسی طرح دینِ علم ہے اور دین تعلیم و تعلّم بھی ہے کہ دین کا آغاز ہی حکم ’’اقراء‘‘ یعنی ’’پڑھ‘‘ سے ہوتا ہے۔ جملہ انسانی علوم کے پھیلاؤ میں ’’قلم‘‘ کو جو اہمیت و عظمت حاصل ہے اس پر بھی مہر تصدیق ثبت کردی گئی ہے۔
اسلام میں تحصیلِ علم اساسِ حیات ہے۔ اسلام علم کی جتنی توقیر اور تقدیس کرتا ہے دنیا کا کوئی دوسرا نظام فکر علم کو اس قدر اہمیت نہیں دیتا۔ چنانچہ منصبِ خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کے لیے اسلام نے انسان کا تعلق تعلیم اور تعلم سے قائم کردیا ہے۔ اسلامی افکار کی روشنی میں اسرار و رموزِ کائنات پر تدبر و تفکر کرنے اور اسلامی اقدار و اخلاق کی تعلیم و تربیت کے پیشِ نظر نبی آخرالزماں نے حصولِ علم ہر مسلمان مردو عورت کا دینی فریضہ قرار دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جنابِ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’حصولِ علم ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
نبی کریم ﷺ کی بہت سی احادیث علم کی فضیلت و اہمیت کا احاطہ کرتی ہیں۔ مثلاً
تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔
علم مسلمان کا دوست ہے عقل اس کی رہنما ہے اور عمل اس کی قیمت ہے۔ (بیہقی)
جو شخص علم کی جستجو میں کسی راہ کا مسافر ہو، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کردیتے ہیں۔ (صحیح مسلم)
جو شخص تحصیل علم کی غرض سے گھر سے باہر نکل کھڑا ہوتا ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب حاصل کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ واپس اپنے گھر نہ لوٹ آئے۔ (جامع ترمذی)
فرشتے طالبِ علم کی راہ میں اپنے پر بچھادیتے ہیں۔ اس درجہ اس کی توقیر کرتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد)
اس شخص کی مثال جو علم سیکھتا ہے پھر لوگوں کو نہیں سکھاتا اس شخص کی طرح ہے جو خزانہ جمع کرتا ہے پھر اس میں خرچ نہیں کرتا۔ (طبرانی)
اس علم سے اللہ کی پناہ مانگو جو نفع نہ دے۔ (سنن ابن ماجہ)
نبی کریم ﷺ کی ایک مقبول دعا ہے:
’’اے اللہ میں تجھ سے علم نافع اور رزق طیب اور عمل مقبول کی استدعا کرتا ہوں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
فی الواقع دنیا میں تعلیم کی عظیم الشان تحریک کا آغاز کرتے ہوئے حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنا تعارف معلم کی حیثیت سے کرایا اور فرمایا: انما بعثت معلما۔ ’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے علما اور معلمین کو انبیا کا وارث قرار دیا۔ آپ کا فرمان ہے:
’’علما نبیوں کے وارث ہیں۔ انبیا کا ورثہ درہم و دینار نہیں ہوتے۔ ان کا ورثہ علم ہے جس کا وارث انہوں نے علما کو بنایا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی۔ سنن ابی داؤد)
گویا انبیا کے بعد اصلاح معاشرت اور استحکامِ دین کی ذمہ داری علما اور معلمین کے لیے مخصوص ہے۔ معلمِ اخلاق اور مربی انسانیت ہونے کے ناطے معلمین معاشرے کے بہترین افراد سمجھے جاتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے جابجا مسندِ علم و دانش سے وابستہ افراد کی عظمت کو بیان فرمایا ہے۔ فروگِ علم و اشاعتِ تعلیم میں کوشاں طالبِ علم و معلم دونوں کو اجرو ثواب کی نوید دی ہے۔ آپ کی حدیث مبارکہ ہے۔
تعلیم کے اجرو ثواب میں طالب علم اور استاد دونوں شریک ہیں۔ (ابن ماجہ)
جہاد علم میں استاد کے بلند درجات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا: بھلائی کے سکھانے والے استاد کے حق میں کائنات کی ہر شے دعا کرتی ہے۔ (جامع ترمذی)
حضرت محمد ﷺ معلم انسانیت تھے۔ مکہ میں دار ارقم اسلام کا پہلا مدرسہ اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ریاست مدینہ کی اہم ترین تعلیم گاہ تھی۔ جہاں ہر وقت ذکرو درس کا سلسلہ جاری رہتا۔ ایک مرتبہ آپ مسجد نبوی کے صحن میں تشریف لائے تو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف حلقہ ذکر اور دوسری طرف حلقہ درس و تدریس اس میں شریک ہوں گے۔ اسی طرح آپؐ رات کے تھوڑے سے حصے میں تعلیم دینے کو شبِ زندہ دارانہ عبادت سے افضل قرار دیتے ہیں۔
آپ کی معلمانہ حکمت جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے معلمانہ کام کی روح محبت اور خیر خواہی سے عبارت تھی۔ آپ حکمت تعلیم کے پیش نظر شہری اور دیہاتی کی ذہنی استعداد کے مطابق تعلیم دیتے۔ آپ کا اصول تھا کہ مختصر تعلیمی خطاب فرماتے تاکہ لوگ اکتاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ اصول تکرار سے آپ نے بارہا کام لیا۔ اہم بات کو ذہن نشین کرانے کے لیے تین بار دہراتے کبھی سوال سے گفتگو کا آغاز کرتے مثلاً خطبہ حجۃ الوداع کے آغاز میں مجمع سے دریافت کیا۔ یہ کون سا شہر ہے؟ یہ کون سا مہینہ ہے؟ یہ کون سا دن ہے؟
کبھی ایسے مناظر بیان کرتے جس میں حیرت کا عنصر ہو مثلاً جب آسمان پھٹ جائے گا۔ جب تارے جھڑ جائیں گے۔ دریا کناروں سے باہر نکل کر آپس میں مل جائیں گے۔ اسی طرح آپ تشبیہ اور استعارے سے بھی کام لیتے۔ مثلاً:
تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے اگر تم اس میں کوئی کثافت دیکھو تو اسے صاف کردو۔ (جامع ترمذی)
حضور ﷺ نے کار تعلیم کے لیے مختلف دائرے مقرر فرما رکھے تھے۔ مثلاً:
ایک مجلسِ درس میں عمومی تعلیم دی جاتی۔
دوسری مجلس میں معیاری علما اور قائدین کو تیار کیا جاتا۔
تیسری مجلس میں خواتین کو تعلیم دی جاتی۔ اس کام کے لیے حضرت عائشہؓ کو بھی مامور فرمایا گیا گیا۔
چوتھی مجلس انفرادی توجہ سے تعلیم و تربیت کے لیے تھی۔
پانچویں مجلس وفود سے ملاقات اور تعلیم دینا مقصود تھا۔
آپ نے ہر قسم کے مفید علوم و فنون سیکھنے کی طرف توجہ دلائی مثلاً صحتِ زبان کا اہتمام، فن کتابت کی ہدایت، عبرانی زبان اور تورات کے علم پر متوجہ کرنا۔ عسکری اور دفاعی نظام کی مضبوطی کے لیے نئے تجربات کرنے اور طبی تعلیم کی طرف مومنین کو راغب کرنا۔
ہجرت مدینہ کے وقت پڑھے لکھے مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ چنانچہ غزوہ بدر میں قریش کے خواندہ قیدیوں سے یہ قرار داد طے کی گئی کہ اگر وہ دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں تو ان کو رہائی مل جائے گی۔ تعلیم کے معاوضے میں قیدیوں کی رہائی تاریخِ عالم کا منفرد واقعہ ہے۔ اس سے اسلام کی نگاہ میں اشاعتِ علم کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے بطور معلم جس طرح امت کی تعلیم و تربیت فرمائی اس کا اعجاز تھا کہ عرب کے صحرا نشین دنیا جہاں کے معلم اور ہادی بن گئے۔ ریگستانِ عرب میں علم و فضل، اخلاق و آداب، تہذیب و شائستگی اور تمدن و ثقافت کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت کا فریضہ ٹھہرا، ہر مسجد مدرسہ بنی یا اس سے ایک مدرسہ منسلک کردیا گیا۔ خود مسجد نبوی میں درسگاہ صفہ موجود تھی جو دارالاقامت کا کام بھی دیتی۔ یہاں قرآن و سنت کے ہمہ گیر نصاب کے علاوہ فقہ، تقسیم ترکہ کی ریاضی، طب، علم ہیت، علم انساب اور علم تجوید قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہاں کے تربیت یافتہ صحابی قبائلی وفود کے ساتھ بطور معلم روانہ کیے جاتے جس کے ذریعے پورے عرب میں علم نافع کو پھیلایا جانے لگا۔
ساتویں صدی عیسوی میں اسلام عرب سے نکل کر شام، ایران، مصر، افریقہ، ایشیائے کوچک، اسپین، ترکستان، چین اور ہندوستان کی سرحد تک پھیل گیا۔ عربوں نے اہل روم، اہل ایران اور اہل ہند سے جو جواہر علم حاصل کیے ان میں قابلِ قدر اضافے کیے اور دنیا میں علم کے امام بن گئے۔
مسلمانوں کے نظامِ تعلیم نے عظیم المرتبت مفکر، فلسفی، سائنس دان، ادیب اور شاعر پیدا کیے۔ علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ میں الکندی، فارابی، ابن رشد، ابن سینا اور البیرونی جیسے مشاہیر اور معلمین نے فلسفہ و سائنس کی دنیا اور علمی حلقوں میں ایک بلند مقام حاصل کیا۔
تاریخِ عالم پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اور اصلاحی تحریکیں اور انقلاباتِ زمانہ استاد ہی کی مرہون منت ہیں۔ یونانی تہذیب کا عروج ہو یا فرانس کا انقلاب، اصلاح کلیسا کی تحریک ہو یا اسلامی تہذیب و تمدن کا شاندار ماضی سب ہی میں استاد کا کردار نمایاں ہے۔ اسلام نے معلم کو روحانی باپ اور ملت کے معمار کا درجہ عطا کیا ہے۔
یقیناً استاد کو معمارِ ملت کا درجہ حاصل ہے۔ وطن عزیز کے بڑھتے ہوئے معاشی، معاشرتی، اخلاقی و سیاسی مسائل اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث نوجوانوں کی بے راہ روی اور گمراہی نے والدین کے بعد استاد کی ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیا ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ استاد نوجوانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کرے۔ انھیں جاہلیت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائے اور علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرکے ملک و قوم کی گرانبار ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کے قابل بنائے۔ مگر یہ سب کچھ کرنے کے لیے استاد کو اپنے دائرہ کار میں بہت متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ وقت نے اس کے چیلنجز کو بہت بڑھادیا ہے۔ اسے اپنی ذات میں وہ اعلیٰ اوصاف پیدا کرکے اس بلند مقام پر فائز کرنا ہے جہاں طلبہ اسے اپنا روحانی باپ تسلیم کرتے ہوئے اس کے دیئے ہوئے علم و ہنر کو حرزِ جاں بنائیں۔ ہر نوجوان کو زندگی میں رول ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر استاد علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے پدرانہ شفقت، محبت و خلوص کا پیکر بن جائے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا اہتمام بھی کرے تو وہ طلبہ کے لیے بہترین رول ماڈل بن سکتا ہے۔ طلبہ کی شخصیت سازی کو بطور مشن اپناکر اُن کی زندگیوں کو صحیح ڈگر پر ڈال سکتا ہے۔ تعلیمی عمل کو بامقصد بناتے ہوئے نوجوانوں کے شعور کو بیدار، ادراک کو تیز کرکے انھیں خودشناسی کی دولت سے مالا مال کرسکتا ہے اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بناسکتا ہے۔ انہی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بدولت اسلام معلم کو انبیا کا وارث قرار دیتا ہے اور قابلِ صد احترام مقام سے نوازتا ہے۔