اولاد کی خواہش ایک فطری جذبہ ہے۔ کوئی گھر ایسا نہیں جہاں اولاد کی چاہت، خواہش، تمنا اور آرزو موجود نہ ہو ۔ اولاد کے دم سے ہی گھر میں خیرو برکت اور رونق رہتی ہے۔ اگر اولاد نہ ہو تو گھر بے رونق اور سُونے رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اولاد کی پرورش اور تربیت ایک نہایت ہی صبر آزما کام ہے۔ اس کے لیے بے پناہ صبر و تحمل، ایثار و قربانی، دل سوزی، نرمی، رحمت و محبت اور ہمہ وقت شفقت بھری نگرانی درکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اولاد کی زبردست محبت پیدا فرماکر اور اس کی پرورش کا نہایت ہی زور در داعیہ دے کر اس نہایت کٹھن اور مشکل فریضے کو انتہائی خوشگوار، آسان اور دل پسند مشغلہ بنادیا ہے۔ پرورش اور تربیت کے دوران طرح طرح کی مشکلیں برداشت کرتے ہوئے والدین اکتاتے نہیں بلکہ ان مشقتوں میں دل کی ٹھنڈک اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ انھیں ایسا روحانی سرور و اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ پرورش کی صعوبتوں کا احساس بھی باقی نہیں رہتا۔ جب اولاد کے چہرے پر نظر پڑتی ہے تو فخرو مسرت سے جھوم اٹھتے ہیں کیونکہ یہ اولاد ان کے اپنے ہی جسم اور جان کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
مرکزی کردار:
بچے کی تربیت میں بنیادی اور مرکزی کردار والدین کا ہوتا ہے اس کی سیرت سازی کے سلسلے میں والدین کو جو بنیادی اور محوری اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوتی۔ بچہ جب دنیا میں آتا ہ ے تو وہ ایک سادہ کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ والدین جو چاہیں اس کاغذ پر نقش کرسکتے ہیں۔ اس حقیقت کی خبر خود اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
فِطْرَتَ اللهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا.
(الروم، 30: 30)
’’اللہ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)۔‘‘
حدیث پاک کے مطابق نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی،نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘
ان احکامات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت و نشوونما میں والدین بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بہترین تربیت کرکے اس کو کامیاب و با اخلاق انسان بنادیتے ہیں یا غلط تربیت کرکے یا تربیت سے غفلت برت کر اس کی کج روی اور بداخلاقی کا سبب بنتے ہیں۔ امام غزالیؒ اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بچہ والدین کے پاس امانت ہے اس کا پاکیزہ دل ایک قیمتی جوہر ہے، اگر بچے کو بھلائی کا عادی بنایا جائے اور اچھی تعلیم دی جائے تو بچہ اسی نہج پر پروان چڑھتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ اگر بچے کو بری باتوں کو عادی بنایا جائے یا اس کی تربیت سے غفلت برتی جائے اور اسے جانوروں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو بدبختی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔‘‘
اگر بچے کو ماں باپ کی توجہ و نگہداشت، ان کی سرپرستی و راہنمائی حاصل نہ ہو تو کا بگڑ جانا یقینی بات ہے۔ اگر والدین خود بگڑ ے ہوئے ہوں تو ان کی گود میں پرورش پانے والا بچہ کیسے نیک اور بااخلاق ہوسکتا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ آج کے اس پرفتن دور میں بہترین مائیں تیار کرنے کی ہمہ جہت کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین کے لیے بہترین تربیتی پروگرامز کا انعقادکیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کو گھر گھر پہنچانے کے لیے تحریکی بہنیں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں تاکہ معاشرے میں اچھی اور تربیت یافتہ خواتین کو تیار کیا جاسکے اور وہ اس نور سے اپنے بچوں کو بھی منور کریں اور معاشرے کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوں۔
ماں باپ کی تربیتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔
حضرت علی المرتضیٰؓ کی روایت ہے کہ:
اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھلائی کی تعلیم دو اور ان کی تربیت کرو۔ ان احکامات سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ہمہ جہتی تربیت کے فرائض خلوص و لگن کے ساتھ انجام دیں ان کے اندر مختلف خوبیوں کو پروان چڑھائیں، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلابخشیں، ان میں کوئی کجی اور سطحیت پیدا نہ ہونے دیں ان کے اندر وسعت قلبی، صداقت و دیانت، صبرو استقامت، ایثار و قربانی ہمدردی و غمگساری، تواضع و انکساری، مہمان نوازی اور فیاضی کی صفات پیدا کریں۔ گالم گلوچ، لعن طعن، غیبت و چغل خوری، کذب و حیلہ سازی، مکرو فریب دہی، خوف و بزدلی، تکبر و تعلی، بخیلی و تنگ دلی، رزالت و کمینگی جیسے رزائل کی ہوا بھی نہ لگنے دیں۔ تاکہ وہ معاشرے کے ذمہ دار شہری اور اچھے انسان بنیں اس کوشش میں باپ سے زیادہ ماں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
شعوری نشوونما کا پہلا مرحلہ اور ماں کا کردار:
جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو یہ دنیا اسے غیر مانوس اور عجیب محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہاں آنے سے پہلے وہ جس دنیا میں تھا وہاں نہ روشنی تھی، نہ ہوا، نہ آوازیں تھیں نہ شوروغل اور ہنگامہ اور نہ ہی اس کے نرم و نازک جسم کو چھونے والا کوئی ہاتھ ہے لیکن جیسے ہی وہ اس دنیا میں آیا سب کچھ بدل گیا۔ بچے کے لیے اس اچانک اور غیر معمولی تبدیلی کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اسے ماں جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے جس کی گود میں آکر بچہ تمام اندیشوں اور خطروں سے خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔ ماں کی گود کے حفاظتی حصار میں رہتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ اردگرد کی چیزوں سے مانوس ہوجاتا ہے۔ ماں مقررہ وقت پر اسے دودھ پلاتی ہے، اس کے کپڑے بدلتی ہے، اس کو نہلاتی اور صاف ستھرا رکھتی ہے اور گرمی و سردی کے اثرات سے بچانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ چنانچہ گھر کے افراد میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بچہ جس ہستی سے مانوس ہوتا ہے وہ ماں ہوتی ہے۔ وہ ماں کی آغوش میں سکون پاتا ہے، ماں جب اسے گود میں لیتی ہے تو جلد سوجاتا ہے اور اگر گود سے الگ کرے تو دوبارہ گود میں آجاتا ہے کیونکہ وہ ماں کو اپنا محافظ سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ محفوظ پناہ گاہ اس سے کسی وقت بھی جدا نہ ہو۔
بچے کی شعوری نشوونما کا ثانوی مرحلہ اور ماں کا تربیتی کردار:
مشہور کہاوت ہے کہ ماں کی آغوش پہلا مدرسہ ہے۔ ماں کی گود میں بچے کے دل و دماغ پر جو نقوش ثبت ہوتے ہیں۔ وہ بہت گہرے اور دیر پا ہوتے ہیں۔ ماں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوجاتی جب بچہ دودھ پینا چھوڑ دے۔ اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا شروع کردے بلکہ اس موقع پر تو ماں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بچے کی بننے یا بگڑنے کا آغاز عمر کے اسی حصے سے ہوتا ہے۔ ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت بچے کی عادات و اطوار پر نظر رکھے۔ جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی تربیت کا بھی بھرپور اہتمام کرے۔ ازدواجی تعلقات اور گھر کے ماحول کو نہایت خوشگوار اور پاکیزہ بنائے رکھے۔ جس طرح کم دھوپ سے پھول مرجھا جاتا ہے اور زیادہ دھوپ سے جھلس جاتا ہے اسی طرح بچے کو محبت کی کمی افسردہ دلی اور احساس کمتری میں مبتلا کردیتی ہے اور بے جا لاڈ پیار اس کو بگاڑ کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ اس لیے ماں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ بچے کے ساتھ محبت اور پیار کا بھرپور معاملہ کرتے ہوئے بے جا لاڈ و پیار سے پرہیز بھی کرے تاکہ بچے کے کردار میں خرابیاں پیدا نہ ہوں۔
احساس ذمہ داری پیدا کرنا اور کردار سازی:
بچہ جب کچھ بڑا ہوجائے تو اسے ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔ اسے کام میں ہاتھ بٹانے کے مواقع مہیا کرنا، دلچسپ مشاغل اور اچھے ہم عمر ساتھی فراہم کرنا، خوشی و غمی کی تقریبات میں شریک کرنا ماں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جب بچہ تعلیمی ادارے میں جانا شروع کردے تو اس کی تعلیمی مصروفیات پر نظر رکھنا، اس کی ہدایت و رہنمائی کرنا بھی ماں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بچے کے جسم کو توانا و تندرست اور دل و دماغ کو قوی و طاقتور بنانے کا نازک فرض بھی بڑی حد تک ماں پر عائد ہوتا ہے تاکہ وہ بڑا ہوکر عمل کی دنیا میں نہایت عزم و استقامت سے اپنے فرائض انجام دے سکے۔ جب بچہ آسان اور عام فہم نصیحت کو سمجھنے کے قابل ہوجائے تو ماں کو چاہیے کہ وہ حسب موقع دل نشیں انداز میں بچے کے کردار کو اچھی نصیحتوں کے ذریعے سنوارنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلے میں دلچسپ کہانیوں اور تاریخی واقعات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بہت سی عظیم ہستیوں کو اعلیٰ مقام ماں کی بہترین تربیت کے نتیجے میں حاصل ہوا۔ اسی لیے نپولین نے کہا تھا کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
بچے کے جسم کو توانا و تندرست اور دل و دماغ کو قوی و طاقتور بنانے کا نازک فرض بھی بڑی حد تک ماں پر عائد ہوتا ہے تاکہ وہ بڑا ہوکر عمل کی دنیا میں نہایت عزم و استقامت سے اپنے فرائض انجام دے سکے۔ جب بچہ آسان اور عام فہم نصیحت کو سمجھنے کے قابل ہوجائے تو ماں کو چاہیے کہ وہ حسب موقع دل نشیں انداز میں بچے کے کردار کو اچھی نصیحتوں کے ذریعے سنوارنے کی کوشش کرے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ آج کے اس پرفتن دور میں بہترین مائیں تیار کرنے کی ہمہ جہت کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین کے لیے بہترین تربیتی پروگرامز کا انعقادکیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کو گھر گھر پہنچانے کے لیے تحریکی بہنیں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں تاکہ معاشرے میں اچھی اور تربیت یافتہ خواتین کو تیار کیا جاسکے اور وہ اس نور سے اپنے بچوں کو بھی منور کریں اور معاشرے کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوں۔