روزہ کردار کی تشکیل کرتا ہے

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روزہ کیا ہے:

روزے کا معنی

روزے کے لیے عربی زبان میں لفظ ’’صوم‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ جس کا معنی ہے کسی فعل سے ارادی طور پر رک جانا اور اس سے باز رہنا یعنی کسی فعل کو جان بوجھ کر ارادۃً نہ کرنا ہی روزہ کہلاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ روزے میں کسی فعل، افعال سے رکا جاتا ہے۔ روزے میں کچھ چیزوں سے لازمی رکا جاتا ہے اور کچھ سے استحبابی طور پر رکا جاتا ہے۔

وہ لازمی چیزیں کون سی ہیں جن سے رکا جاتا ہے، ان سے رکے بغیر روزہ، روزہ نہیں ہوتا وہ شریعت اسلامی نے تین مقرر کی ہیں۔ جن کو مفطرات صوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

امام قرطبی جن کو تفسیر احکام القرآن میں بڑی شہرت حاصل ہے وہ روزے کا معنی الامساک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الامساک عن المفطرات مع اقتران النیۃ به من طلوع الفجر الی غروب الشمس.

(تفسیر القرطبی، 2: 273)

’’طلوع فجر سے غروب آفتا ب تک روزے کی نیت کے ساتھ ہر قسم کے مضطرات (ای الامساک عن الاکل والشرب والجماع) کھانے پینے، نفسانی خواہشات (عمل زوجیت) سے رک جانا ہی روزہ کہلاتا ہے۔ ‘‘

اب ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کیا یہ اعمال جائز نہیں ہیں بالکل جائز ہیں روزے کی حالت کے علاوہ جائز ہیں۔ روزے کی حالت میں جائز نہیں ہیں۔

گویا شریعت اسلامی نے ہمیں روزے کی حالت سے تین چیزوں سے لازمی اور وجوبی طور پر منع کردیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کیا روزے دار کو کچھ اور چیزوں سے بھی منع کیا گیا ہے۔ جی ہاں حدیث مبارکہ میں ایک روزے دار کو ان تمام چیزوں سے منع کیا گیا ہے جو اس کو روزے میں رب کی قربت سے دوری کی طرف لے جائیں، کسی کو اذیت دینا، گالی گلوچ کرنا، جھوٹ بولنا، حقوق العباد کا استحصال کرنا دوسروں سے حسن سلوک سے پیش نہ آنا۔ ان ساری اخلاق باختہ چیزوں سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بے شمار روزے دار ایسے ہیں جن کو روزے سے سوائے پیاس اور رات کے جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آپ کے کلمات عالیہ یہ ہیں:

کم من صائم لیس له من صیامه الا الظماء وکم من قائم لیس له من قیامه الالسهر.

(مسند احمد بن حنبل، 2: 441)، (سنن الدارمی، 2: 302)

’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو اپنے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا۔ ‘‘

گویا روزہ ایک کردار کی تشکیل کرتا ہے۔ ایسا کردار جو اللہ کا اطاعت گزار ہے مخلوق خدا کا نفع رساں ہیں، جس کا وجود معاشرے کے لیے خیر کا باعث ہے اور اس وجود میں جو برائی اور شر تھا روزے کے عمل کے ذریعے اس کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ روزہ گویا ایک اجتماعی تربیت کا وہ نظام ہے جو باری تعالیٰ اسلامی معاشرے کے افراد کو میسر کرتا ہے روزے کے عمل کے ذریعے انسانی نفوس کے فتنہ و شر، فساد و بغاوت اور سرکشی و نافرمانی کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔

اب تک ہم نے یہ جانا کہ روزے کو روزہ کیوں کہا جاتا ہے۔ اب ہم اس طرف آتے ہیں، روزوں کے اس مہینے رمضان کو، رمضان کیوں کہا جاتا ہےا ور اس کا معنی کیا ہے۔

رمضان کا پہلا معنی

رمضان، ’’رمض الصائم‘‘ سے ہے جس کا معنی ہے روزے دار کے پیٹ کی گرمی یقیناً روزہ رکھنے معدے میں بھوک کی وجہ سے گرمی و حدت پیدا ہوجاتی ہے۔ پیاس لگتی ہے، بھوک ستاتی ہے، جسم پانی اور کھانے کا تقاضا کرتا ہے مگر اس کو ایک مقررہ وقت تک یہ حلال چیزیں محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے فراہم نہیں کی جاتیں۔ انسانی پیٹ کے اکل و شرب کے ان تقاضوں کو برداشت کرنے سے انسان کے اندر تحمل و برداشت کے اوصاف کا اضافہ ہوتا ہے۔ گویا روزے کے ذریعے انسان کے اندر تحمل و برداشت کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔

رمضان کا دوسرا معنی

رمضان ایسا ماہ ہے جو مختلف اعمال صالحہ کے ذریعے گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو رمضان کہتے ہیں۔ گویا یہ مہینہ انسان کے گناہوں کو جلانے والا مہینہ ہے۔ یہ انسان کو پاک کرتا ہے اور اسے گناہوں سے بچاتا ہے اور اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف لے کر آتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے پہلے عشرے کو رحمت دوسرے عشرے کو گناہوں سے مغفرت اور تیسرے عشرے کو دوزخ سے نجات قرار دیا ہے۔

رمضان گناہوں کو جلاتا ہے اور گناہوں سے مغفرت کا سبب بنتا ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عن ابی هریرة قال قال رسول اللہ ﷺ من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(صحیح بخاری، 1: 10)، (کتاب الایمان، حدیث: 38)

’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ‘‘

اس حدیث مبارکہ میں یہ الفاظ قابل توجہ ہیں غفرلہ ماتقدم من ذنبہ اس کے گذشتہ پہلے، پچھلے سارے گناہ اس ماہ رمضان میں معاف کردیئے جاتے ہیں۔ گویا رمضان گناہوں سے معافی کا سبب بنتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ نے اہل ایمان کو یہ خوشخبری دی کہ رمضان تمہارے ماتقدمن ذنب پہلے گناہوں کی مغفرت کی خوشخبری دیتا ہے۔ تمہیں گناہوں سے پاک و طاہر ہونے کی بشارت دیتا ہے۔ لیکن ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے مغفرت ذنب کے بعد انسان کی کیفیت و حالت کیا ہوتی ہے۔

اس مضمون کو رسول اللہ ﷺ نے ایک دوسری حدیث مبارکہ میں بیان فرمایا جس کو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ روایت کرتے ہیں:

حدثنی عبدالرحمٰن بن عوف عن رسول الله ﷺ قال من قام رمضان ایمانا واحتسابا خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه.

(سنن النسائی، 1: 308)، (کتاب الصیام، رقم حدیث 2208)

’’حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے۔ جس طرح وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ ‘‘

یہ رمضان کی فضیلت ہے کہ انسان کو گناہوں سے اس طرح پاک کردیتا ہے جس طرح وہ پیدا ہوتے ہوئے پاک اور صاف ہوتا ہے۔ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے اس کے جسم پر کوئی گناہ نہیں ہوتا، اس کا جسم پاک ہے، ابھی اسے گناہوں سے آلودہ نہیں کیا گیا، وہ معصوم ہے۔ گویا رمضان بھی انسان کو پاک کرتا ہےا ور گناہوں سے محفوظ کرتا ہے اور رب کے قریب لاتا ہے۔

روزہ اور رمضان کا معنی جان لینے کے بعد اب ہم اس طرف آتے ہیں۔ آج کا ایک نوجوان ایک انسان سوچتا ہے کہ وہ اس گرمی کے موسم میں روزہ نہ رکھے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کے گھر والے روزہ رکھ رہے ہیں۔ والدین یہ عمل کررہے ہیں۔ اس کے لیے روزہ رکھنا کیوں کر ضروری ہے۔

آیئے قرآن سے روزے کے حوالے سے اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔ قرآن حکیم میں باری تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ہر عاقل و بالغ مسلمان اور مرد و عورت اور بوڑھے و جوان، تندرست و صحت مند کو حکم دیتے ہوئے فرمارہا ہے:

یا ایھا الذین امنوا

اے مسلمان کہلوانے والو! اے مردوں اور عورتوں اے بوڑھے لوگوں اے نوجواں، اے کلمہ پڑھنے والو، اے محمد ﷺ کے امتی کہلوانے والو تم سب کو میں یایھا الذین امنوا کہہ رہا ہوں اور تم سے براہ راست آج کے دور میں بھی اس قرآن کے ذریعے مخاطب ہورہا ہوں۔ میری بات سنو۔ میری بات کو مانو میرے حکم پر چلو۔ مولا تیرا کیا حکم ہے۔ فرمایا حکم یہ ہے کہ کتب علیکم الصیام۔ تم سب پر میں نے روزہ فرض کیا ہے؟ باری تعالیٰ کیا سب پر روزہ فرض ہے۔ فرمایا ہاں سب پر فرض ہے سوائے اس کے جو تم میں سے مریض ہو، مسافر ہو۔

پس تم سب میرے حکم کے پابند ہو اور روزہ رکھو اور میں نے روزہ تم سے ہر شخص پر فرض کردیا ہے جو اس ماہ مقدس کو اپنی زندگی میں پالیتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ.

(البقرة، 2: 185)

’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پالے تو وہ اس کے ضرور روزے رکھے۔‘‘

اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کیوں ہم کو پیاسا اور بھوکا رکھنا چاہتا ہے تو اللہ الصمد بے نیاز ہے۔ ہماری بھوک اور ہماری پیاس سے تم کو کیا غرض ہے۔ ہم کیوں بھوکے رہیں اور ہم اس گرمی کے مہینے میں پیاسے کیوں رہیں تو ہم کو بھوکا اور پیاسا نہ رکھے۔

فرمایا مجھے تمہاری بھوک اور پیاس سے غرض نہیں۔ یہ عمل سارے کا سارا تمہارے ہی فائدے کے لیے ہے۔

اور وہ فائدہ کیا ہے لعلکم تتقون تاکہ تم صاحب کردار بن جاؤ، تاکہ تم عظیم انسان بن جاؤ، تاکہ تم صالح بن جاؤ، تاکہ تم نیک اور پرہیزگار بن جاؤ، تاکہ تم تقویٰ والے بن جاؤ، تاکہ تم ہر برائی سے بچنے والے اور مولا کو پانے والے بن جاؤ، تاکہ تم کو اپنی زندگی کا مقصد حاصل ہوجائے تاکہ تم راہ تقویٰ کے مسافر بن کر اللہ کا قرب اور اس کی معرفت پانے والے بن جاؤ اور میں نے تم کو اسی لیے یہ زندگی دی ہے تمہارے پاس زندگی میری نعمت ہے اور یہ نعمت اس لیے دی ہے کہ تم میری معرفت حاصل کرو۔

اس لیے تو میرا اعلان ہے:

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون.

میں نے تو تم کو اپنی معرفت و عبادت کے لیے زندگی دی ہے۔ میری اس نعمت کی قدر کرو اور میرے کہے ہوئے کو مانو اسی میں تمہاری فلاح ہے۔

فرمایا یہ روزہ صرف تم پر ہی فرض نہیں کیا تم سے پہلے لوگوں کو بھی اسی راہ پر میں نے چلایا ہے اور ان پر بھی روزہ فرض کیا ہے۔

کما کتب علی الذین من قبلکم

یہ روزے تو تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔

اللہ کی یہی سنت رہی ہے اور اس کا یہی طریق ہے۔

ولن تجد لسنۃ الله تبدیلا.

مولا تیرے احکام کو جان لینے کے بعد ہم نے مان لیا تیرے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہیں اور روزہ رکھنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ تیرے حکم کو اپنانے کا عہد کرتے ہیں مگر مولا ہم انسان ہیں۔ حرص و لالچ بھی ہمارے نفوس میں ہے۔ مولا اگر ہم تیرے حکم پر عمل کریں، روزے رکھیں تو تیری بارگاہ سے کیا کیا اجرو انعامات ملیں گے، ثواب کیا ہوگا۔ فرمایا یہ جاننے کے لیے میرے رسول ﷺ کی بارگاہ میں جاؤ وہ تم کو سب کچھ بتادے گا۔ اسی لیے میں نے تم کو حکم دیا ہے:

وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا

یارسول اللہ ﷺ ہم اللہ کے حکم پر آپ کے پاس آگئے۔ یارسول اللہ ﷺ ہمیں اللہ کے حکم پر روزہ رکھنے سے کیا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟

پہلا فائدہ: روزے کے ذریعے تمہارے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے

1. عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، 38)

2. حدثنی عبدالرحمن بن عوف عن رسول الله ﷺ قال من قام رمضان ایمانا و احتسابا خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه.

(سنن النسائی، کتاب الصیام، 1: 308)

دوسرا فائدہ: روزہ، روزے دار کیلیے جہنم کی آگ سے بچنے کیلیے ڈھال ہے

الصوم جنۃ من النار کجنۃ احدکم من القتال.

(سنن النسائی، کتاب الصیام، 1: 311)

حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی سے بچنے کے لیے ڈھال ہو۔

اس حدیث مبارکہ میں جنۃ کے الفاظ آئے ہیں۔ جن کا معنی ہے وقایۃ اور ستر بچانے والی، چھپانے والی۔ امام ابن عبدالبر لکھتے ہیں روزہ ڈھال کیسے بنتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ روزہ انسان کو موذی شہوات سے باز رکھتا ہے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں جنۃ کا معنی ہے روزہ گناہوں اور آگ سے حفاظت کا سبب بنتا ہے۔ گویا روزہ انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے اور آگ سے بچاتا ہے۔ امام ابن عربی فرماتے ہیں جہنم کو شہوات نے گھیرا ہے جو آدمی شہوات سے بچے گا وہ جہنم کی آگ سے بچے گا۔

الصیام جنۃ ابن حبان اور مسند احمد کی روایت میں ہے جب میت کو دفن کیا جاتا ہے تو نماز اس کے لیے دائیں طرف آجاتی ہے روزہ بائیں طرف قرآن سر کی جانب اور صدقہ پاؤں کی طرف آجاتا ہے۔ گویا روزہ روزے دار کی حفاظت کرے گا اور اسے دوزخ سے بچائے گا۔

تیسرا فائدہ: روزے کے فوائد صرف روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں

حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزے دار کو ایک خوشی دنیا میں ہر روز افطار کے وقت عطا کی جاتی ہے اور دوسری خوشی اسے آخرت میں عطا کی جائے گی۔ جب باری تعالیٰ اسے اپنا جلوہ حق کرائے گا۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:

للصائم فرحتان بفرحھما اذا افطر فرح واذا لقی ربه فرح بصومه.

(صحیح بخاری، کتاب الصوم، 1: 255، رقم حدیث 1805)

’’روزے دار کو دو خوشیاں عطا کی جاتی ہیں ایک خوشی اس وقت عطا کی جاتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اس کو اس وقت عطا کی جائے گی جب رب صرف روزے دار کو اپنا دیدار عطا کرے گا۔ ‘‘

یقیناً ہم افطار کے وقت جو خوشی پاتے ہیں اور جس خوشی کو اپنے پورے وجود میں محسوس کرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے لیکن ایک ایسی خوشی ہے جس پر لفظ خوشی کا کامل اطلاق ہوتا ہے اور وہ خوشی کا معنی افطار کی خوشی اور اس کے ماحول سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔

اور دوسری خوشی وہ ہے جو قیامت کے دن باری تعالیٰ صرف روزے دارو کو عطا کرے گا اور وہ خوشی اس کے حسن مطلق کا دیدار ہے اور اہل ایمان کے نزدیک اس خوشی سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں اور دیدار الہٰیہ کی لذت سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں۔ اسی لیے جنتی لوگ قیامت میں جنت کو پاکر بھی اللہ کی بارگاہ میں فریاد کریں گے۔ مولا وہ خوشی جو تیری راہ میں جان دیتے وقت تیرے حسن مطلق کی دید کی صورت میں حاصل ہوئی تھی وہ دوبارہ عطا کر، وہ خوشی تیری اس جنت میں نہیں پاتے۔ غرضیکہ دیدار الہٰیہ سب سے بڑی خوشی ہے خوش نصیب ہیں روزے دار جو اس خوشی کو پاتے ہیں۔

چوتھا فائدہ: روزے کا اجرو ثواب: روزے کا بے حدو بے حساب ثواب

اگرکوئی یہ سوال کرے کہ ہم جس قدر نیک اعمال بجا لاتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ والدین اور عزیز و اقارب سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں عبادات کو بجا لاتے ہیں روزہ رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کا ثواب کیا ہے۔ اس کا جواب رسول اللہ ﷺ کے ذریعے باری تعالیٰ یوں دیتا ہے:

عن ابی هریرۃ قال قال رسول الله ﷺ کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ الی ماشاء یقول الله تعالیٰ الا الصوم فانه لی وانا اجزی به.

(سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ماجاء فی فضل الصیام، 119، رقم حدیث 1638)

’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ ‘‘

ہر نیک عمل پر کتنا ثواب ملتا ہے اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا الی سبع مائۃ ’’جس نے بھی ایک نیک عمل کو بجا لایا اسے دس نیکیوں کا ثواب دیا جائے گا۔ ‘‘

اس آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر نیک عمل کا ثواب دس نیکیوں سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی ایک نیک عمل پر دس نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔ ایک روزے پر کم از کم دس روزوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور نیک اعمال پر زیادہ سے زیادہ ثواب کتنا عطا کیا جائے گا تو اس کے لیے ارشاد فرمایا:

الی سبع مائۃ ایک نیکی پر سات نیکیوں کے برابر بھی ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کس ایک نیکی پر سات سو نیکیوں کے برابر ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ کم از کم ثواب دس نیکیاں تو ہر کسی کو عطا کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ثواب جس کو وہ چاہتا ہے اسے عطا کردیتا ہے۔ تو گویا یہ بات سمجھ میں آئی ہے بعض اعمال اور بعض نیکیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ثواب سات سو گنا تک دیا جاتا ہے مگر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا عمل ہے جس پر ثواب سات سو سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔

اس کا جواب اس حدیث مبارکہ میں دیا گیا ہے وہ عمل روزے کا ہے جس میں باری تعالیٰ یوں فرماتا ہے کہ

الصوم لی وانا اجزی به.

روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا ثواب دینے والا ہوں سوال یہ ہے کہ کتنا ثواب مولا تو عطا کرے گا؟ تو اس کا جواب باری تعالیٰ نے یوں دیا وہ روزے میرے لیے ہے جتنی میری مشیت چاہے گی بے حدو بے حساب ثواب عطا کروں گا۔ اب سوال یہ ہے روزے کو دیگر عبادات سے امتیاز کیوں حاصل ہے؟ نماز، حج، زکوٰۃ کی نسبت روزے میں ثواب زیادہ کیوں ہے؟

روزے کا ثواب زیادہ ہونے کی وجوہات

1. روزہ ایک مخفی عبادت ہے اور اسے اللہ ہی جانتا ہے کسی اور کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا جبکہ دیگر عبادات کو جانا جاسکتا ہے۔

2. روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کا نقصان ہوتا ہے بھوک، پیاس اور دیگر خواہشات نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دیگر عبادات میں ایسا نہیں ہوتا۔

3. روزہ ریاکاری سے پاک ہے اور یہ صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ یہ خالص عبادت ہے۔

4. روزہ قیامت کے دن بھی انسان کا ساتھ دے رہا ہوگا روزے کے ذریعے گناہوں کی تلافی نہیں ہوگی۔

5. الصوم لی وانا اجزی بہ بعض عرفاء اور علماء نے یہ معنی بیان کیا جو میری خاطر کھانے پینے اور دیگر خواہشات سے رکا تو اس کو میں خود جزا دیتا ہوں یا اس کی جزا میں خود ہوں۔

جیسے ایک حدیث قدسی میں فرمایا گیا:

من کان للہ کان اللہ له.

جو اللہ کے لیے ہوجاتا ہے اللہ اس کے لیے ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا جو اللہ کے لیے رکا اس کے لیے جزا میں خود ہوجاتا ہوں۔

خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے لیے جزا وہ ذات خود ہوجائے اور جس کو رب مل جائے اسے دنیا کی ہر نعمت مل جاتی ہے۔ جب نعمت والا مل گیا تو اسے گویا ہر نعمت مل گئی۔

پانچواں فائدہ: روزے دار کے منہ کی بو کا اللہ کے ہاں کستوری سے بھی بہتر ہونا

روزے کی وجہ سے معدہ خالی ہوتا ہے، اس وجہ سے منہ میں ایک بو پیدا ہوتی ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عن ابی هریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ والذی نفس محمد بیده لخلوف فم الصائم اطیب عندالله یوم القیامۃ من ریح المسک.

(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، رقم الحدیث: 1151)

’’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے ہاں قیامت کے دن کستوری کی خوشبو سے بھی بہتر ہوگی۔ ‘‘

حاضرین گرامی قدر! خوشبو کا استعمال سنت رسول ﷺ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خوشبو استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے خوشبو کی وجہ سے میلان طبع بڑھ جاتا ہے جہاں اس خوشبو کی وجہ سے انسان کے اپنے اندر ایک کیفیت پر سکون پیدا ہوتی ہے وہاں دوسرے ملنے والوں کو بھی اس خوشبو کی وجہ سےراحت ملتی ہے اور نماز میں بطور خاص ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑا ہونے میں دل میں بیزاری پیدا نہیں ہوتی بلکہ باہمی محبت ہوتی ہے اور اخوت کو فروغ ملتا ہے اور انسان کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسی لیے حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے امتیوں کو خوشخبری دی ہے کہ حالت روزہ میں تمہارے منہ کی بو بھی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے۔ اللہ کے ہاں تمہارے منہ سے آنے والی بو دنیا کی ہر خوشبو سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسی لیے اپنی اس خوش قسمتی پر رشک کرو۔

ائمہ نے ریح المسک سے کیا مراد لیا ہے۔ امام نووی کے ہاں اس کا ثواب زیادہ ہے جبکہ قاضی عیاض کے ہاں یہ ہے باری تعالیٰ قیامت کے دن بہترین خوشبو عطا کرے گا۔

چھٹا فائدہ

رمضان کا آنا درحقیقت اللہ کی رحمتوں کا آنا ہے، اس مہینے میں اللہ کی شان مغفرت پہلے سے بڑھ جاتی ہے رحمتوں کا نزول بے پایاں ہونے لگتا ہے، نیکی و تقویٰ کا ماحول ہر سو قائم کیا جاتا ہے انسان نیکی کی طرف مائل اور بدی سے اعراض کرنے لگتاہے۔ برائی کی تمام قوتوں کو حتی کہ ابلیس کو بھی اس مہینے میں پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ یوں نیکی کے لیے ماحول موافق اور بدی کے لیے ناموافق ہوجاتاہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:

عن ابی هریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا دخل شهر رمضان فتحت ابواب الجنۃ وغلقت ابواب جهنم وسلسلت الشیاطین.

(صحیح بخاری، کتاب الصوم، 1: 255، رقم الحدیث: 1800)

’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب رمضان کا مقدس مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ ‘‘

اس حدیث مبارکہ میں تین کلمات انتہائی قابل توجہ ہیں۔

پہلا کلمہ فتحت ابواب الجنۃ۔ جن کے دروازے رمضان المبارک میں کھول دیئے جاتےہیں۔ اس سے کیا مراد ہے یاد رکھیں اس سے مراد یہ ہے باری تعالیٰ اس مہینے میں اپنی مخلوق پر بے پایاں رحمت کا نزول کرتا ہے اور اس رحمت الہٰیہ کی وجہ سے رمضان میں نیک اعمال زیادہ سے زیادہ کیے جاتے ہیں۔ رحمت حق ماحول کو سازگار بناتی ہے۔ رکاوٹوں اور زحمتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے رمضان المبارک آتے ہی مساجد اللہ کے بندوں سے بھر جاتی ہیں۔ لوگ کثرت کے ساتھ اس ماہ مقدس میں عبادات بجا لاتے ہیں۔ قرآن حکیم کی تلاوت بہت زیادہ کی جاتی ہے صدقہ و خیرات کا عمل جاری ہوتا ہے۔ زکوٰۃ و صدقات دیئے جاتے ہیں۔ دینے والے بہت زیادہ سخی دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک الید العلیا خیر من یدالسفلی کا پیکر بنے نظر آتا ہے۔

وغفلت ابواب جہنم کا مفہوم

جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اس سے مراد یہ ہے اس ماہ میں روزہ دار کو ایسے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جس کی وجہ سے جنت کا مالک بنتا ہے اور قدم بقدم اسے جہنم سے بچایا جاتا ہے۔ اس مہینے انسان جنتی اعمال کو بجا لارہا ہوتاہے۔ جہنمی اعمال سے خود کو بجا رہا ہوتا ہے۔ انسان خود کو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے روکتا ہے اور اپنے نفس کو ان سے باز رکھتا ہے اور اس مہینے میں باری تعالیٰ کثرت کے ساتھ جہنم کا مستحق بننے والوں کو معاف کرتا ہےا ور ان سے درگزر کرتا ہے۔ گویا اس مہینے میں جہنم والے، جہنم سے آزادی پاتے ہیں۔ گویا ساراماحول جنت کا منظر پیش کرتا ہے۔

اور سلسلت الشیاطین شیاطن کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ اس لیے ان کا کام ہی برائی پر اکسانا ہے۔ اس لیے قرآن میں بیان فرمایا:

یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس.

ان کا کام لوگوں کو دوزخی بنانا ہے۔ باری تعالیٰ ان کے شر سے اس مہینے میں لوگوں کے ایمان کو محفوظ کرتا ہے۔ ان شیاطین کی سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں اور انسان راہ ہدایت پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔

لیکن یہاں سوال یہ ہے جب شیاطین کو قید کردیا جاتا تو پھر بھی معاشرے میں برائی نظر کیوں آتی ہے۔ یاد رکھیں شیطان، برائی کا خارجی سطح پر بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اندرونی سطح پر انسان کا نفس بھی برائی کی طرف آمادہ کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور سبب ہے، وہ شریر نفوس جو سالہال سال سے شیطان کی آماجگاہ بن چکے ہیں اور شیطان ان نفوس میں مکمل طور پر سرایت کرچکا ہوتا ہے تو ایسے نفوس شیطان کو جکڑ دینے کے باوجود برائی سے باز نہیں آتے ان کا علاج صرف توبہ میں ہے۔

سلسلطت الشیاطین کا معنی یہ بھی کیا گیا ہے ان کے سردار کو جکڑ دیا جاتا ہے بقیہ اس کی ذریت چھوٹے موٹے شیاطین کو قید نہیں کیا جاتا۔ یوں وہ شر پھیلاتے رہتے ہیں۔ ایک یہ بھی معنی کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس ماحول کی وجہ سے روزہ دار نیکیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ شیطانی وساوس اور شیطانی شر سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

امام زرکشی فرماتے ہیں رمضان میں رحمت جنت کے دروازوں کا کھلنا اور دوزخ کے دروازوں کا بند ہونا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے جو شخص رمضان المبارک میں فوت ہوجائے اور وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہوا ہو تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہے۔

شیاطین کے جکڑنے کا مقصد

باری تعالیٰ نے چاہا اگر کوئی انسان یہ شکایت کرے کہ مولا نیکی کے لیے ماحول موافق نہیں ہے۔ اس لیے شیاطین نیکی کی طرف راغب نہیں ہونے دیتے تو باری تعالیٰ نے مکلفین کے اس عذر کو بھی رمضان میں ختم کردیا کہ وہ شیاطین جو تم کو نیکی سے روکتے ہیں ان کو جکڑ دیا گیا ہے۔ اے انسان اب تو اپنے رب کی طرف راغب ہو اور نیک اور صالح بندہ بن جا اور اپنی پہچان و شناخت اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کو بنالو۔

ساتواں فائدہ

جنت اللہ کی نعمتوں کا مقام ہے، جنت میں دخول انسان کی بہت بڑی خوش بختی ہے، قیامت کے دن اس جنت میں داخلے کے مختلف ابواب اور دروازے ہوں گے۔ ان میں ایک دروازہ ایسا ہوگا جس میں صرف اور صرف روزے دار ہی گزر سکیں گے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عن سهل بن سعد قال قال رسول الله ﷺ ان فی الجنۃ بابا یقال له الریان یدخل منه الصائمون یوم القیامۃ لا یدخل منه احد غیرهم.

(صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب الریان الصائمین، 1: 254، ، رقم حدیث: 179)

’’حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے روز قیامت صرف روزے دار ہی اس دروازے سے داخل ہوں گے کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہ ہوسکے گا۔‘‘

ریان جنت کا وہ دروازہ ہے جس کے آس پاس باغات اور سرسبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں اور اس کے قریب کثیر نہریں بھی جاری ہیں۔ گویا قیامت کے دن باری تعالیٰ روزے دار کے لیے جنت میں استقبال کا اہتمام کرائے گا۔ روزے داروں کو ایک خاص راستے اور دروازے سے داخل کیا جائے گا۔ جس میں سے داخلے کے لیے کسی اور کو اجازت نہ ہوگی۔ اس لیے روزے داروں سے رب کا وعدہ ہے الصوم لی وانا اجزی روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دینے والا ہوں۔ وہ جیسے جیسے چاہے گا روزے داروں کو نوازتا جائے گا اور عطا کرتا جائے گا۔ اس لیے کہ وہی مالک حقیقی ہے اور وہی جزا دینے والا ہے۔

حفاظت نزول قرآن اور ہماری ذمہ داری

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ.

(الحجر، 15: 9)

’’بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ گویا اس آیت میں دو چیزوں کی بات کی گئی ہے۔ ایک نزول قرآن کی اور دوسری حفاظت قرآن کی۔

اب سوال یہ ہےیہ قرآن کس پر نازل ہوا قرآن نے اس کا جواب خود دے دیا کہ یہ قرآن ہم نے رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا۔

دو طرح کے الفاظ قرآن کے نزول کے لیے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا علیک آپ پر نازل کیا ہےا ور الیک آپ کی طرف نازل کیا ہے۔ علیک میں صرف ذات رسول آجاتی ہے اور الیک میں امت کی بھی رعایت کی ہے۔ اس عمومی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا:

و امنوا بما نزل علیٰ محمد.

اے لوگو ہم نے اس قرآن کو محمد ﷺ پر نازل کیا ہے۔ اس لیے تم اس قرآن کو بھی مانو اور محمد ﷺ کو بھی مانو۔ اس لیے یہ دونوں تمہارے رب کی طرف سے ہیں وھوالحق من ربہم۔

یہ دونوں تمہارے رب کی طرف سے حق اور سچ ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ مولا تو نے اس قرآن کو کب نازل کیا۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّـآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ.

(الدخان، 44: 3)

’’بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے۔‘‘

پھر سوال کیا مولا وہ مبارک رات کون سی ہے فرمایا:

انا انزلناه فی لیلۃ القدر.

’’ہم نے اس قرآن کو قدر کی رات میں نازل کیا ہے جو ہزار مہینوں سے نزول قرآن کی وجہ سے افضل رات ٹھہری ہے۔‘‘

مولا ہم مان گئے تو قرآن کو نازل کیا ہے اور لیلۃ القدر کو نازل کیا ہے مگر باری تعالیٰ اتنا زمانہ گزر گیا ہے کیا یہ وہی قرآن ہے جو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔ فرمایا ہاں۔

وانا له لحافظون.

اس کی حفاظت کرنے والے ہم ہیں۔

ہم نے اس قرآن کو محفوظ کردیا ہے تاکہ تم اس سے ہدایت پاؤ اس کی حفاظت صرف اور صرف تمہاری ہدایت کے لیے ہے۔ باری تعالیٰ ہم اس سے ہدایت کیسے پائیں فرمایا رسول ﷺ کی طرف آؤ۔ ہم نے تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کو اس کی ہدایت واضح کرنے کی ذمہ داری تفویض کردی ہے۔

یٰٓاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ.

(المائدۃ، 5: 67)

’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

رسول اللہ ﷺ نے تیبن قرآن کیسے کہا قرآن کو کیسے سکھایا اور امت کو قرآن کس طرح پڑھایا۔ ارشاد فرمایا:

یتلوا علیهم ایته ویزکیهم ویعلمهم الکتاب والحکمۃ.

یہ رسول تمہارے اوپر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے۔

ان آیات کے ذریعے تمہارا تزکیہ نفس کرتا ہے۔ تمہیں قرآن اور سنت کی تعلیم دیتا ہے۔

ویعلم الکتاب یہ رسول تمہیں قرآن سکھاتا ہے۔

حاضرین گرامی فیض آج بھی جاری ہے سوال یہ ہے ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے ہر دور اپنی امت کی راہنمائی کی ہے۔

انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم به فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ و سنۃ نبیه.

قرآن سے تمسک ہی ہماری کامیابی ہے۔ یہ قرآن ہمارے لیے رحمت ہے یہ قرآن ہمارے لیے ہدایت ہے۔ یہ قرآن ہمارے لیے نصیحت ہے۔ یہ قرآن ہماری انفرادی زندگیوں کے لیے اور اجتماعی زندگیوں کی راہنمائی ہے۔ یہ قرآن شفا ہی شفا ہے۔ یہ قرآن ہمارے بشارت و خوشخبری ہے۔ یہ قرآن رسول اللہ ﷺ کا زندہ معجزہ ہے۔ یہ قرآن رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر کھلی دلیل ہے۔ یہ قرآن اسلام کے سچا دین ہونے پر کھلی نشانی ہے۔ آؤ اس قرآن سے متمسک ہوجائیں۔ اس میں ہماری عزت ہے اس میں ہماری فلاح ہے اور اسی میں ہماری نجات ہے۔ اس لیے بقول اقبال:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر