سعدیہ کریم

نبی کریم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو اہل مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ ہم جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح مناتے تھے تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ نے تمھارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمھارے لیے مقرر کردیئے ہیں۔

1۔ عیدالفطر

2۔ عیدالاضحیٰ

اس طرح ان دو عیدوں کی ابتدا ہوئی دو ہجری میں آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو پہلی مرتبہ عید کی نماز پڑھائی۔ اب اگر دینی اور اسلامی روایات پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عیدالفط ر رمضان المبارک کے مہینے کے خاتمہ کی علامت ہے۔ اقوام عالم میں مسلمان عید کا تہوار بڑے مذہبی و دینی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ رمضان المبارک کی رحمتیں، برکتیں اور مغفرتیں حاصل کرنے کے بعد امت مسلمہ کو بونس کے طور پر عید کا تحفہ دیا گیا ہے اور اس عید کے دن کی خوشی منانا مستحب کا درجہ رکھتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے عیدین کی رات میں طلب ثواب کے لیے قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)

حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ

’’جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرلے اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ذوالحج کی آٹھویں، نویں اور دسویں رات، چوتھی عیدالفطر کی رات اور پانچویں شعبان المعظم کی پندرہویں رات جیسے شب برات۔‘‘

عید کا مفہوم اور وجہ تسمیہ

عید کا لغوی مفہوم ہے ’’لوٹنا‘‘۔ اس نام کی وجہ تسمیہ اس دن کا ہر سال پلٹ کر آتا ہے۔ رمضان المبارک کی جسمانی و روحانی ریاضت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی روحانی پاکیزگی اور خوشی کے ’’عود‘‘ کر آنے کی وجہ سے بھی اس دن کو عید کہا جاتا ہے۔ یہ ایک عظیم اور تاریخی دن ہے۔

عیدالفطر کی حقیقت اور فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

عید رقص و سرود یا موج مستی کا نام نہیں بلکہ ہمارے دین میں عید کی بنیاد روح کی لطافت، تصفیہ قلب، تزکیہ نفس، طہارت، ایثار و ہمدردی، محبت و مودت، اتحاد و اتفاق اور خشوع و خضوع پر رکھی گئی ہے یعنی عید کا دن کوئی علامتی خوشی اور رسم و رواج کا دن نہیں بلکہ ایک دینی، مذہبی اور پاکیزہ تہہوار ہے۔ رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادتوں کے بدلے اور انعام کا دن ہے۔ عیدالفطر کی رات کو ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ اور عیدالفطر کے دن کو ’’یوم الجوائز‘‘ یعنی انعامات اور بدلے کا دن کہا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ

’’بے شک ہرقوم کے لیے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہماری عید کا دن ہے۔‘‘

عیدالفطر کے دن اللہ تعالیٰ فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتا ہے اور روزہ داروں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ چنانچہ لوگ عید کی نماز پڑھ کر عید گاہ سے بخشے بخشائے گھر واپس آتے ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ

’’عیدالفطر کی مبارک رات کو ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی انعام کی رات۔ عید کے دن صبح کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو زمین پر بھیجتا ہے۔ وہ زمین کی سب گلیوں اور راستوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کو صدائیں لگاتے ہیں کہ اے امت محمد ﷺ ! اس رب کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطاکرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے گناہ معاف کرنے والا ہے۔ پھر اللہ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم آج کے دن نماز عید کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمھاری بھلائی فرماؤں گا۔ میری عزت کی قسم جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمھارے گناہوں کی پردہ پوشی کروں گا۔ میری عزت وجلال کی قسم میں تمھیں حد سے بڑھنے والوں کے ساتھ رسوا نہیں کروں گا پس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘(الترغیب والترہیب)

اس حدیث مبارکہ سے عیدالفطر کی فضیلت ہے کہ اس دن رب کی رحمت جوش پر ہوتی ہے او ر ہر مانگنے والے کو عطا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ

’’عید والے دن جب لوگ عید گاہ میں صف بستہ رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ اے فرشتو! ذرا یہ بتاؤ کہ محنت سے کام کرنے والے مزدور کا معاوضہ کیا ہونا چاہیے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں یااللہ! معاوضہ یہ ہے کہ اس مزدور کی پوری مزدوری اسے دے دی جائے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے فرشتو! گواہ رہو میں اپنے نیک بندوں کو رمضان کے روزے اور راتوں کی نمازوں کے بدلے اپنی خوشنودی اور مغفرت سے مالا مال کرتا ہوں۔ یہ سن کر فرشتے خوش ہوتے ہیں اور امت کو بشارت دیتے ہیں۔‘‘ (تذکرۃ الواعظین)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ

’’عیدالفطر کی صبح حضرت جبرائیل اللہ کے حکم سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ان کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوتے ہیں سب کے ہاتھوں میں جھنڈیاں ہوتی ہیں۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام دائیں اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف ہوتے ہیں۔ یہ فرشتے عرش کے نیچے آتے ہیں جہاں نور کی قندیلیں آویزاں ہیں اور انبیاء و صلحا اور شہدا کی ارواح قیام پذیر ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان ایک نہایت نورانی قندیل ہے جس کی روشنی چاند اور سورج کی روشنی پر بھی غالب ہے۔ اس قندیل کی چوڑائی ستر ہزار برس کی راہ ہے اور لمبائی کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے، حضرت جبرائیل اس فوج کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اللہ تعالیٰ کا درود و سلام پیش کرتے ہیں اور بادب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ ان کی آمد کا مقصد پوچھتے ہیں کہ کیا قیامت برپا ہوگئی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ابھی نہیں، آج تو عید کا دن ہے اور رحمت الہٰی اپنے جوش پر ہے۔ آج رمضان کے روزے رکھنے والے، تسبیح و تراویح پڑھنے والے، فقراء و مساکین کو صدقہ دینے والوں کو اجر عظیم لنے کا دن ہے۔ سب لوگ عید گاہ میں نماز عید کے لیے جمع ہوں گے۔ یارسو ل اللہ ﷺ یہ تمام فرشتے اور نیک ارواح آپ ﷺ کی خدمت میں التجا کرتے ہیں کہ آپ ﷺ دنیا کی طرف تشریف لے چلیں تاکہ ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلیں اور دنیا میں اپنے متعلقین کو دیکھ آئیں نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے پاک روحو! اگر تمھارا یہی ارادہ ہے تو میرے ساتھ چلو۔ نبی کریم ﷺ اپنی امت کو دیکھنے کے لیے دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ اس مبارک جلوش کا زمین پر نزول ہوتا ہے جب نماز عید ختم ہوتی ہے تو سب ارواح واپس چلی جاتی ہیں جو شخص محتاجوں اورمساکین کو کھانا اور صدقہ و خیرات دے کر اس کا ثواب اپنے مرحومین کو ایصال کرتا ہے تو اس کے مرحومین خوش ہوجاتے ہیں اور اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔‘‘

عید کے آداب

عید مسلمانوں کا مذہبی و دینی تہوار ہے جس کی اہمیت و فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس دن کے مخصوص آداب و شرائط ہیں جن کا جاننا ضروری ہے عید کے چند آداب درج ذیل ہیں:

1۔ نماز عید کے لیے جانے سے پہلے غسل کرنا۔

2۔ نماز عید کے لیے جانے سے پہلے کچھ نہ کچھ کھانا۔

3۔ عید کے دن تکبیریں کہنا۔

4۔ عید کی مبارکباد دینا۔

5۔ عید کے لیے اچھا لباس پہننا اور زیب و زینت کرنا۔

6۔ نماز عید کے لیے آنے جانے میں راستہ بدلنا۔

عید کے مسنون اعمال

عید کے مسنون اعمال میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:

1۔ شریعت کے مطابق زیب و زینت کرنا۔

2۔ غسل کرنا۔

3۔ مسواک کرنا۔

4۔ عمدہ کپڑے پہننا ۔ 5۔ خوشبو لگانا۔

6۔ عید گاہ جانے سے پہلے میٹھی چیز کھانا۔

7۔ نماز عید سے پہلے صدقہ فطر دے دینا۔

8۔ عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنا۔

9۔ ایک راستے سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔

10۔ پیدل چل کے جانا۔

11۔ تکبیرات پڑھتے ہوئے جانا۔

عید کے دن صدقہ فطر نکالنا

اسلام ایک عالمگیر دین ہے جس میں نوع انسانی کے ہر طبقے کی عزت و احترام، محبت و مودت اور رواداری کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ

’’عید کے دن غریبوں کی مالی مدد کرو۔‘‘

اسی لیے ہر صاحب نصاب شخص پر اپنے اور اپنے زیر کفالت لوگوں کی طرف سے عید کے دن فطرانہ ادا کرنا واجب ہے۔ صدقہ فطر رمضان کے دوران بھی دیا جاسکتاہے اور اگرکسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو عید کے بعد بھی دیا جاسکتا ہے لیکن عیدالفطر کے دن سورج نکلنے کے بعد نماز سے پہلے فطرانہ ادا کرنا۔ زیادہ پسندیدہ ہے صدقہ فطر چار قسم کی چیزوں سے دیا جاسکتا ہے۔

گیہوں، جو، کھجور اور کشمش میں صدقہ فطر دینا واجب ہے۔ پونے دو کلو گندم/ گیہوں اور باقی تینوں میں ساڑھے تین کلو فی کس کے حساب سے فطرانہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس مقدار کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔ قیمت یا رقم دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

فطرانہ کا مقصد

غریبوں اور محتاجوں کی دلجوئی اور حاجت روائی کرنا ہے تاکہ وہ بھی عید کی خوشی بہترین انداز میں مناسکیں۔ اسی لیے صاحب ثروت اور صاحب حیثیت لوگوں پر اس کی قیمت کا اندازہ الگ الگ ان کی معاشی حالت کے حساب سے ہوگا۔ صاحب حیثیت اور متمول لوگ کھجور اور کشمش وغیرہ کی قیمتوں کے ذریعے فطرانہ ادا کریں تاکہ غریبوں اورمحتاجوں کا فائدہ ہوسکے۔

صدقہ فطر صرف صاحب حیثیت اور صاحب ثروت پر فرض نہیں ہے بلکہ فقیر اور غیر صاحبِ نصاب لوگوں کو بھی ان کی استعداد کے مطابق صدقہ فطر نکالنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ صدقہ فطر 2 ہجری میں فرض ہوا۔ صدقہ فطر عورت پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں نہ بچوں کی طرف سے اور نہ ماں باپ شوہر کی طرف سے۔

صدقہ فطر دینے کی فضیلت

نبی کریم ﷺ نے عید کے دن ضرورت مندوں، محتاجوں اور بیواؤں کو اس خوشی میں شریک کرنے کے لیے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ صدقہ فطر ادا کرنے کے تین فائدے ہیں۔

1۔ روزوں کا قبول ہونا

2۔ موت کی سختی سے محفوظ ہونا

3۔ عذاب قبر سے امن پانا

ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’اے مومنو! صدقہ فطر کو اپنا توشہ کرو اور جنت کو آراستہ کرو۔ صدقہ فطر دینے والے کے تمام روزے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور تمام گناہ بخش دیتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد فرشتے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن براق پر سوار کرکے جنت میں بھیجا جائے گا۔‘‘

یہ بھی حدیث میں ہے کہ

’’صدقہ فطر دینے والے کو ہر دانے کے بدلے جنت میں ایک گھر دیا جاتا ہے اور ایک حور عطا کی جاتی ہے۔‘‘

حضرت سعید ابن جبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’یوم فطر کا اکرام کیا کرو اور معاصی و ضرر سے بچا کرو۔‘‘

نبی کریم ﷺ یوم عیدالفطر منایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ عید کے دن آپ ﷺ کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا جب آپ ﷺ عید گاہ جانے لگے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا آج آپ ﷺ کی کسی بیوی نے گھر میں بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’یہ وہ وقت ہے کہ مجھ پر اتمام نعمت ۔۔۔۔ وہ ساعت ہے کہ مجھ پر فقر کا اطلاق پورا ہوا غم غمگین نہ ہو۔‘‘

حضرت عائشہؓ نے فرمایا میں ا س سے خوش ہوں مگر آج کے دن جو فقرا بیوائیں اور یتیم آپ ﷺ کے کاشانہ اقدس میں آئیں گے مجھے ان سے شرمندگی محسوس ہوگی۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ہمیں اور انھیں اللہ تعالیٰ دے گا۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ عیدگاہ تشریف لے گئے اور نماز عید ادا کی۔ جب واپس گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ ﷺ کے دروازے سے فقراء کھانے لیے جارہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے آپ ﷺ کو دیکھ کر فرمایا کہ اپنے صحابہ کرامؓ کو بلالیجئے وہ بھی آکر کھانا کھالیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ حضرت عثمانؓ نے 10 اونٹ آٹے کے، دس اونٹ روغن، دس اونٹ شہد سو بکریاں اور پانچ سو دینار بھیجے ہیں۔ آپ ﷺ نے جوش شفقت اور رحمت سے فرمایا اے اللہ عثمان بن عفان پر حساب آسان کردے۔ اسی وقت حضرت جبرائیلؑ نے حاضر ہوکر فرمایا کہ آپ ﷺ کی دعا کو اللہ نے حضرت عثمانؓ کے حق میں پورا فرمالیا ہے ان سے روز قیامت حساب نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو کوئی عید کے دن بیوہ کو ہانڈی چڑھوادے۔اللہ تعالیٰ اس سے ایک برس کا حساب نہیں لے گا۔

نماز عید کے واجب ہونے کی شرائط

1۔ کسی بڑے شہر، گاؤں میں مقیم ہونا۔

2۔ صحت مند ہونا ضروری ہے بیمار پر نماز عید فرض نہیں۔

3۔ آزاد ہونا 4۔ مرد ہونا 5۔ بالغ ہونا

6۔ عاقل ہونا کیونکہ مجنون پر کوئی عبادت لازم نہیں۔

7۔ بینا ہونا کیونکہ نابینا بھی غیر مکلف ہے۔

8۔ چلنے پر قاد ر ہونا، اپاہج اور پیر کٹے لوگ مستثنٰی ہیں۔

9۔ سخت بارش اور کیچڑ وغیرہ نہ ہونا۔

10۔ مسجد جانے میں کسی دشمن کا خوف نہ ہونا۔

عید والے دن عید کی نماز پڑھنا مندرجہ بالا باتوں سے مشروط کیا گیا ہے اگر یہ شرائط پوری ہوں تو نماز عید لازمی ادا کرنی چاہیے۔

حاصل کلام

عیدالفطر مسلمانوں کا انتہائی اہم تہوار اور خوشی وانعام کا دن ہے جو رمضان المبارک کے اجر کے طور پر عطا کیا جاتا ہے۔ اس دن کو خاص روحانیت و نورانیت عطا کی جاتی ہے تاکہ لوگ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ اور اہل بیتؓ کے افراد بھی اس دن کو اہتمام سے مناتے تھے۔ مسلمانوں کو اس دن کو اہتمام سے منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس دن اللہ کی حمدوثناء کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عید کے دن ایک دوسرے سے ملنا اور ایک دوسرے کو عید کی مبارک دینا مستحب عمل ہے۔ صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ

’’اللہ تمھارے اور ہمارے اعمال قبول فرمائے۔‘‘