اداریہ: حقوق نسواں، فکر اقبال کی روشنی میں

چیف ایڈیٹر ماہنامہ دختران اسلام

اسلام اور مشاہیر اسلام نے خواتین کی عزت و تقریم اور حقوق و فرائض کے باب میں جو واضحیت دی ہے کسی اور ضابط حیات میں موجود نہیں، اسلام نے حقوقِ نسواں کے باب میں عورت اور مرد دونوں کے لیے حصول علم کو یکساں واجب قرار دیا، اور خواتین کو وراثت میں حصہ دار بنا کر اس کی باوقار معاشی کفالت اور سکیورٹی کا بندوبست کیا، اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں وہی اقوام ترقی کی منازل طے کر پائیں جن کے ذمہ داران نے سوسائٹی کے ہر فرد کو ترقی کے یکساں مواقع مہیا کیے، علم ہی وہ واحد قوت ہے جس کے ذریعے غلامی کے اندھیروں سے نجات ملی اور اس ضمن میں شعور کی روشنی عطا کرنے میں حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مفکر اور فلسفی بھی تھے، جنہوں نے اپنی شاعری اور خطبات کے ذریعے مسلمانوں میں خودی، خودداری اور بیداری کی روح پھونکی۔ ان کی فکری بصیرت نے برصغیر میں آزادی کی جدوجہد کو نہ صرف تقویت بخشی بلکہ اسلامی معاشرت کے بنیادی اصولوں کی جانب بھی ایک نئی راہ متعین کی۔آپ کے منظوم و غیر منظوم افکار و نظریات میں خواتین شامل رہی ہیں۔

اقبالؒ کے فلسفے میں تصورِ خودی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ انسان کو اپنی ذات کا شعور حاصل کرنے، اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ایک بلند تر مقصد کے لیے کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک خودی کا مطلب غرور یا تکبر نہیں بلکہ اپنی اصل پہچان، وقار اور عزتِ نفس کو سمجھنا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جو قومیں اپنی خودی کو بھول جاتی ہیں، وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں، اور جو اپنی پہچان کو مستحکم کر لیتی ہیں، وہی دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔اقبالؒ کے تصور خود کے پرچار و احیا میں بطور ماں خاتون کا کلیدی کردار ہے۔تصور خودی نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کے لیے بھی یکساں طور پر اہم ہے۔ علامہ اقبال ؒعورت کو ایک مضبوط، باوقار اور فعال شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں، جو نسلوں کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ عورت کو محض ایک سماجی اکائی نہیں سمجھتے بلکہ اسے قوم کی معمار اور تہذیب کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خواتین کی ترقی محض معاشی خودمختاری یا ظاہری آزادی میں نہیں بلکہ ان کی تعلیمی، فکری اور اخلاقی بلندی میں مضمر ہے۔

اقبالؒ عورت کی شخصیت کو محض روایتی دائرے میں محدود کرنے کے قائل نہیں تھے، بلکہ وہ اسے ایسا مقام دینا چاہتے تھے جہاں وہ اپنی شناخت، عزت اور خودداری کے ساتھ معاشرتی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکے۔ ان کی شاعری اور خیالات میں بارہا اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ اگر عورت خودی کے اصولوں کو اپنائے اور اپنی فکری بلندی پر توجہ دے، تو وہ ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ وہ مغربی معاشرت کے اس پہلو کے سخت مخالف تھے جہاں عورت کو محض تفریح اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس کے ساتھ وہ اس قدامت پسند رویے کو بھی مسترد کرتے تھے جو عورت کو گھریلو ذمہ داریوں تک محدود رکھتا ہے۔

اقبالؒ کی نظر میں عورت کی اصل طاقت اس کی خودشناسی، عزتِ نفس اور تعلیمی قابلیت میں ہے۔ وہ عورت کی آزادی کو اس کے سماجی، مذہبی اور تہذیبی اصولوں کے مطابق دیکھتے ہیں، نہ کہ مغربی تقلید میں۔ ان کے نزدیک ایک ایسی مسلم خاتون جو جدید تعلیم سے آراستہ ہو، اپنی تہذیب و تمدن کو سمجھتی ہو اور اپنی خودی کو پہچانتی ہو، وہی حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔

آج کے جدید دور میں، جب عورتوں کو مساوات کے نام پر تجارتی اور تشہیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری جانب کئی معاشروں میں خواتین کو بنیادی حقوق سے محروم بھی رکھا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں علامہ اقبالؒ کا پیغام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ وہ ایک ایسا متوازن راستہ تجویز کرتے ہیں، جہاں عورت اپنی عزت، وقار اور اسلامی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق، عورت کی اصل پہچان اس کی فکری خود مختاری اور کردار کی مضبوطی میں ہے، نہ کہ کسی خارجی نعرے یا مصنوعی مساوات میں۔اقبالؒ کی تعلیمات آج بھی ایک مشعلِ راہ ہیں۔ اگر ہم ان کے فلسفے کو سمجھیں اور خواتین کو وہ مقام دیں جو اسلام اور اقبالؒ کی فکر نے ان کے لیے متعین کیا ہے، تو ہم ایک ایسی معاشرت تشکیل دے سکتے ہیں جہاں عزت، ترقی اور وقار ساتھ ساتھ چلیں۔ ان کے نزدیک کامیاب قوموں کی بنیاد صرف مردوں کی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ ان خواتین کی فکری مضبوطی پر بھی ہے جو نسلوں کی تربیت کرتی ہیں اور نئی فکری جہات کو متعین کرتی ہیں۔

اقبالؒ کا پیغام ہر دور کے لیے ہے، اور آج کے دور میں تو اس کی اہمیت دوچند ہو چکی ہے۔ اگر ہم واقعی ایک مضبوط، خوددار اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں نہ صرف مردوں بلکہ خواتین میں بھی خودی اور خودداری کے جذبات کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ ہم دنیا کے سامنے ایک باوقار اور خودمختار قوم کے طور پر ابھر سکیں۔