روح کا موضوع انسانی دنیا میں اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود قدیم ہے۔ انسانوں کی دنیا میں دو طرح کا علم ہے۔ ایک عقلی علم (وہ علم جو انسان کی عقل تک محدود ہے) اور دوسرا غیر عقلی علم (وحی الہیٰ کا علم جو انبیاءکے وسیلہ سے ہم تک پہنچتا ہے)۔ قرآن حکیم کے علم کے مطابق یہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔علامہ غلام احمد پرویز نے اپنے تبویب القرآن میں اس طرح لکھا ہے کہ ’’خلق و امر دونوں خدا کے لئے ہیں۔‘‘ جس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ امر وہ مرحلہ ہے جب کائنات ابھی وجود میں نہیں آئی تھی تو اس مرحلہ میں تخلیق کی جانے والی شے کی (Direction) متعین کی جاتی ہیں۔ اور جب کائنات عدم سے وجود میں آ گئی تو وہ تمام اشیاء خلق ہونا شروع ہوگئیں۔روح کا تعلق بھی عالم امر سے ہے۔
( پرویز، غلام احمد (1999)، تبویب القرآن، لاہور، طلوع اسلام ٹرسٹ، ج: 2، ص: 156)
روح القدس (جبرئیل امین) اور انسان کے متعلق بھی فرمایا کہفَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ.
(سورة الحجر، 15: 29)
’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا‘‘۔
روح کے بارے میں بے شمار تصورات ہیں کوئی بھی انسان روح کی ماہیت کو نہیں سمجھ سکتا۔ قدیم تصورات کے مطابق روح کو مادے کی لطیف شکل سمجھا جاتا تھا جو کہ انسان کے عقلی علم کی قیاس آرائی ہے۔ لہٰذا قرآن پاک میں اللّه فرماتا ہے کہ
وَ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا.
(سورة بنی اسراءیل، 17: 85)
’’اور یہ (کفّار) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے‘‘۔
مندرجہ بالا آیت میں اللہ فرما رہا ہے روح رب کا امر ہے اور انسان اس کی ماہیت کو نہیں جان سکتا کیونکہ انسان کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔
کچھ لوگ روح کو توانائی بھی سمجھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ توانائی مادے کی ضد ہے۔ لیکن یہ بھی تصور باطل ہے۔ روح اس توانائی کے تصور سے کوسوں دور ہے۔ توانائی مادے کی پیداوار ہے اور اسی سے مادیت پسند یہ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ نفس مادے کی پیداوار ہے جو کہ ایک باطل نظریہ ہے۔ روح کے بعد نفس ہے. اگر ہم قرآن پاک پر غور کریں تو یہ حقیقت افشاں ہو گی کہ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا ہے اور پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔ جب روح اس جسم میں پھونک دی جاتی ہے تو یہ روح نفس کی حالت میں آ جاتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ قرآن پاک نے نفس کی تین حالتیں بیان فرمائی ہیں:
نفس اماراه، نفس لوامہ، نفس مطمئنہ
قرآن پاک میں تینوں کا ذکر اس طرح ہے.جس کا مفہوم قرآن میں کچھ اس طرح درج ہے:
نفس اماره
وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
(سورة يوسف، 12: 53)
’’اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے حیوانی جذبات اُسے برائی کے لئے اکساتے رہتے ہیں۔ اس سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جس پر خدا رحم کرے۔ وہی‘ اس قسم کی لغزشوں سے محفوظ رکھنے والا اور مرحمت کرنے والا ہے۔
نفس لوامہ
وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِؕ.
(سورة القیامۃ، 75: 2)
اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی۔
خدا کا قانون مکافات ایک حقیقتِ ثابتہ ہے۔ انسان کا ہر عمل ایک نتیجہ برآمد کرتا ہے‘ خواہ وہ اس دنیا میں اس کے سامنے آجائے‘ خواہ مرنے کے بعد۔
نفس مطمئنہ
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ.
(سورة الفجر، 89: 27)
اے اطمینان پا جانے والے نفس۔
روح کی حقیقت:
روح کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے اور عقل اس کی کیفیات سے عاجز ہے۔ جب یہودیوں کے کہنے پر کفار قریش نے نضر بن حارث کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ وہ نبی کریم ﷺ سے روح کے متعلق دریافت کریں تو اللہ تعالی نےحضور اقدس ﷺ کو یہ بات ثابت کر نے کو فرمایا :
وَ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ؕ
(سورة بنی اسراءیل، 17: 85)
’’اور یہ (کفّار) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں‘‘۔
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ.
(سورة بنی اسراءیل، 17: 85)
’’فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے‘‘۔
روح سے متعلق نبی کریم ﷺ کا خود فرمان ہے:
الارواح جنود مجندۃ فما تعارف منھا ائتلف وما تناکر منھا اختلف.
(بخاری محمد بن اسماعیل، (س ن)، صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، بيروت لبنان، دارالمعرفه، رقم الحدیث 3334)
’’ارواح ایک جمع شدہ لشکر ہیں اُن میں جو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں وہ محبت سے ملے ہوئے ہیں اور جو ایک دوسرے سے نا واقف ہیں وہ مختلف ہیں‘‘۔
سید علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں روح سے متعلق دو گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ اُن میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ
الروح ھو الحیوۃ یحی بہ الجسد.
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)، کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 440)
’’روح وہ زندگی ہے جس سے جسم زندہ رہتا ہے‘‘۔
اور دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ
ھو غیر الحیوۃ ولا یوجد الحیوۃ الا معھا کما لا یوجس الروح الا مع الجسد وان لا یوجد احدھما دون الاخر کاللم و العلم بھا لانھما شیئان لا.
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)، کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 440)
’’روح بلا حیات ایک جوہر ہے جس کے بغیر زندگی کا وجود رواں نہیں ہوتا جیسے روح بغیر جسم کے معتدل نہیں ہوتی اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اگر وجود نہ ہوتا تو احساس بھی معدوم ہوتا جیسے درد اور درد کا علم تو جسم اور روح دونوں ایسی چیزیں ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں‘‘۔
پھر جمہور کا مؤقف بیان کرتے ہوئے جمہور مشائخ اور اہل سنت کا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روح عینی جوہر ہے نہ کہ وصفی۔ اجرائے عادت اللہ کے موافق ضفات کو پیدا کرتی ہے اور حیات انسان کی صفت ہے اور اسی وجہ سے اُسے زندہ جانا جاتا ہے لیکن روح اللہ تعالی کے امر سے انسانی جسم میں ودیعت ہوتی ہے۔
حضرت ابو بکر واسطی نے روح کے بارے میں جو بیان کیا ہے اُس کے مطابق روح دس مقامات پر قائم ہے۔
1 ۔ اول خطاکاروں کی روحیں ہیں جو ظلمت کدہ عذاب میں مقید ہیں وہ نہیں جانتیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا۔
2۔ دوسرے نیکو کار، پارسا اور زاہدوں کی روحیں ہیں جو آسمانوں میں اپنے اعمال کے بدلے میں خوشی و مسرت سے رہ رہی ہیں اور الله تعالٰی کی اطاعت میں مسرور ہیں۔
3۔ تیسری ارواح مریدان ہیں جو چوتھے آسمان میں صدق اعمال کی لذات کے ساتھ ملائکہ کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
4۔ چوتھے نمبر پر اُن لوگوں کی روحیں ہیں جو اہل منن سے ہیں وہ عرف کی قنادیل میں رہتی ہیں اور اُن کی غذا رحمت اور اُن کا پینا لطف اور قربت الہٰی ہے۔
5۔ پانچویں نمبر پر اہل وفا کی روحیں ہیں جو حجاب صفا و مقام اصطفیٰ میں با عیش و ترب ہیں۔
6۔ چھٹے نمبر پر شہدا ءکی ارواح ہیں جو بہشت کے اجسام میں ریاض خلد میں ہیں وہ جہاں چاہیں سیر کریں اُن کے لئے وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں۔
7۔ ساتویں نمبر پر مشتاقان کی ارواح ہیں جو پردہ انوار و صفات میں بساط ادب پر مقیم ہیں۔
8۔ آٹھویں نمبر پر ارواح عرفان ہیں جو کوشک قدس میں شب و روز کلام الہیٰ سننے میں محو ہیں اور وہ اپنا مقام بہشت اور دنیا دونوں دیکھتے ہیں۔
9۔ نویں نمبر پر دوستانِ خاص کی ارواح ہیں جو مشاہدہ جمال اور مقام کشف میں مستغرق ہیں اور وہ جمال و جمیل کے سوا کسی کو نہیں جانتیں یعنی محبوب کے جلوے کے سوا کسی سے نیاز مندی نہیں رکھتیں۔
10۔ دسویں نمبر پو درویشوں کی روحیں ہیں جو مقام فنا میں مقرب ہیں اُن کے اوصاف متبدل اور اُن کے حال متغیر ہیں۔
نفس کی حقیقت:
کشف المحجوب میں حقیقت نفس کے ضمن میں سید علی بن عثمان ؒ بیان کرتے ہیں کہ نفس کے لغوی معنی کسی شے کے وجود کے ہیں یا ذات اور حقیقت کے معنی میں مروج ہے۔ حتی کی علماء اس کا معنوی استعمال متضاد معنی میں کرتے ہیں۔
با اعتبار عرف ایک گروہ نفس بمعنی روح لیتا ہے۔ اور ایک گروہ کے نزدیک نفس بمعنی مروت ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک نفس بمعنی جسد و جسم ہے، ایک گروہ نفس کو خون کے معنی میں استعمال کرتا ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک مذکورہ معنیٰ میں سے کوئی بھی درست نہیں ہے بلکہ اُ ن کی نفس کے بارے میں تحقیق کے مطابق " متبع شر " اور" قائد سوء" کا نام نفس ہے۔ ایک جماعت کے مطابق نفس ایسی شے ہے جو انسان کے دل میں رکھی گئی ہے اور وہ انسان کے اندر روح کی مثل لازم ہے اور ایک جماعت کے مطابق نفس ایسی صفت کا نام ہے جو قلب انسانی میں مثل حیات موجود ہے۔ نفس کی حقیقت کو پہچاننا اللہ تعالی کی معرفت کی کنجی ہے۔ یعنی جس نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے وہ آئینے کی مثل شفاف ہو جاتا ہے جس پر دیدارِ الہی کی کرنیں منکشف ہو کر انسانی وجود کو پُر نور کر دیتی ہیں اور بندہ بے اختیار واحدانیت کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔
لیکن محققین صوفیاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نفس سے مراد وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان میں اخلاق رزیلہ اور افعال خبیثہ کے ارادے پیدا ہوں چنانچہ نفس کی مخالفت میں عبادت کا راز مضمر ہے جو کہ انسان کی نجات کا باعث ہے اور نفس کی موافقت انسان کی ہلاکت ہے۔
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)، کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 354)
نفس کی مخالفت اور مذمت کر نے والوں کے لئے قرآن مجید میں خوشخبری ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
وَ نَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیۙ. فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰیؕ.
(سورۃ النازعات، 79: 40،41)
" جنہوں نے نفس کی خواہشات کو روکے رکھا تو اُن کا ٹھکانہ جنت ہے۔ "
سید علی ہجویریؒ کشف المحجوب میں نفس کے بارے میں حضرت ذولنون مصری کا قول نقل کرتے ہیں :
اشد الحجاب رویۃ النفس و تد بیرھا.
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)، کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری)، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 361)
" بندے کاسخت ترین حجاب نفس کو دیکھنا ہے اور اُن کی تدبیر کا اتباع ہے۔ "
اس لئےکہ نفس کی پیروی کرنا حق تعالی کی مخالفت ہے اورر مخالفتِ حق تمام حجا بوں کاسر چشمہ ہے۔
خواہشات نفس کی حقیقت
انسان کی زندگی میں نفس اور خواہشات کا بہت اہم کردار ہے اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کو متحرک اور فعال رکھنے اور علم و فن میں کمال کی جانب گامزن کر نے کے لئے اُس کے وجود میں کچھ محرکات رکھے ہیں اور انسان کی تمام ارادی اور غیرارادی حرکات اور مادی و معنوی ترقی انہی محرکات کی مرہون منت ہے۔ یہ محرکات چھ قسم کے ہیں پہلا فطرت، دوسرا عقل، تیسرا ارادہ، چوتھا ضمیر، پانچواں قلب و صدر اور چھٹا اور اہم محرک ہویٰ ہے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیۙ.
(سورۃ النازعات، 79: 40،41)
"اور جس نے اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف رکھا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا تو پس اُس کا ٹھکانہ جنت ہے۔"
خواہشات نفس سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :
احذرو اھوائکم کما تحذرون اعدائکم فلیس شی ء اعدی للرجال من اتباع اھوائھم و حصائد السنتھم.
(مجلسی، محمد باقر، (س ن)، بحار الانوار، دارلکتب الاسلامیہ، ج 47، ص 82)
’’تم اپنی خواہشات سے اُسی طرح ڈرتے رہا کرو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو، کیونکہ انسان کے لئے خواہشات کی پیروی اور زبان کے نتائج سے بڑا کوئی دشمن نہیں ہے‘‘۔
حضرت علی المرتضی سے مروی ہے کہ:
اخوف ما اخاف علی امتی اتباع الھوی و طول الامل.
(البیہقی، ابی بکر احمد بن الحسین، (2017ء)، شعب الایمان، کراچی، دار الاشاعت، ج 13، ص 172)
’’ مجھے تمہارے بارے میں سب سے ذیادہ دو چیزوں کا خوف رہتا ہے خواہشات نفس کی پیروی اور طویل اُمید کا ہونا‘‘۔
سید علی ہجویری خواہشات نفس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے دو گروہوں کے مؤقف کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک گروہ کے نزدیک خواہش نفس کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے اور دوسرے گروہ کے نزدیک خواہش اُس ارادے کا نام ہے جو نفس میں مدبر اور متصرف ہو، جیسے عقل روح سے اور ہر وہ روح جس میں عقل سے کوئی قوہ نہ ہو وہ ناقص ہے اور ہر وہ نقص کہ اس میں ہویٰ کا کوئی قوہ نہ ہو وہ بھی ناقص ہے۔ تو نقصِ روح قربت ہے اور نقصِ نفس عین قربت، اور ہمیشہ ہر بندہ کے لئے عقل اور ہویٰ کی طرف سے دعوت رہتی ہے۔ لیکن جو عقل کی دعوت کا پیرو ہو وہ ایمان حاصل کر لیتا ہے اور جو ہویٰ کی دعوت قبول کر لے وہ گمراہی اور کفر پر ہو گیا۔ تو ہویٰ واصلین کے لئے حجاب ہے مخنثوں، نا مردوں کے حق میں ان کا ملجا و ماوی ہے۔
کشف المحجوب میں سید علی ہجویری نے ہویٰ کی دو قسمیں بیان کی ہیں :
ایک ہوائے لذت و شہوات
دوسری ہوائے جاہ خلق و ریاست
وہ شخص جو خواہشات لذات و شہوات کا پیرو کار ہوتا ہے وہ شغل خرابات کے لئے شراب خوری اور قمار بازی جیسے افعال میں ملوث رہتا ہے اور اُس سے مخلوق ہر قسم کے فتنہ کی طرف سے مامون رہتی ہے اور جو شخص خواہشات جاہ و ریاست کا پیروکار ہوتا ہے وہ دیر میں عجلت نشینی کرتا ہے۔ اس قسم میں فتنہ خلق لازمی امر ہوتا ہے کہ خود کو راہ ہدایت سے گمراہ کر نے کے ساتھ ساتھ مخلوق کو بھی گمراہی کے راستے کی طرف بلاتا ہے۔
جس شخص کی تما م حرکات حرص و ہوس اور خواہشات کی عین تابع ہوں خواہ وہ انسان آ سمان پر ہی کیوں نہ پرواز کر رہا ہو تو وہ قرب الہٰي سے بعید اور محروم رہے گا اور جو شخص خواہشات نفس سے اعراض کرتا ہو وہ اگرچہ بت خانے میں ہی کیوں نہ ہو قرب الہی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
حضرت ابراہیم خواص ؒ فرماتے ہیں کہ میں سنا کہ روم میں ایک راہب ہے جو ستر سال سے رہبانیت میں گرجا گر کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ تعجب ہے کہ رہبانیت کی انتہائی مدت چالیس سال ہے یہ کس لئے ستر سال سے اس گرجہ میں پڑا ہوا ہے۔ میں نے اس سے ملنے کا ارادہ کیا۔ جب اس کے پاس پہنچا تو اس نے دریچہ کھول کر مجھ سے کہا :’’ ابراہیم مجھے معلوم ہے جس غرض سے تم میرے پاس تشریف لائے ہو۔ میں ستر سال سے ادھر رہبانیت کے لئے نہیں بیٹھا ہوں بلکہ میرے پاس ایک کتا ہے جو حرص و ہویٰ سے شوریدہ ہے۔ میں یہاں اس لئے بیٹھا ہوں کہ اس کتے کی نگہبانی کروں اور اس کے شر سے لوگوں کو دور رکھوں۔ ورنہ میں وہ نہیں جو تمہارا اتنا بڑا انتظار اپنے اوپر آنے دیتا۔‘‘
جب میں نے اس سے یہ بات سنی تو میں نے بارگاہ الہی میں عرض کی کہ اے میرے رب تو قادر مطلق ہے کہ اس راہب کو اس کی عین گمراہی میں طریقِ ثواب اور راہ راست عطا فرمائے۔ راہب مجھے کہنے لگا ابراہیم کب تک لوگوں کو ڈھونڈو گے جاؤ اور اپنی آپ کو تلاش کرو اور جب اپنے آپ کو پالو تو اُس کی نگرانی کرنا کیونکہ ہر روز خواہش کا کتا تین سو ساٹھ بار لباس الوہیت پہن کر انسان کو گمراہی کی طرف بلاتا ہے۔
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)، کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری)، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 375)
حضرے ذالنون مصریؒ سے ایک حقائت منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کو ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھا میں نے اُس سے پوچھا یہ درجہ کس عمل کے بدلے میں پایا ہے تو وہ کہنے لگا میں نے حرص و ہوس کے راستے پر قدم نہیں رکھا اس لئے تو ہوا میں اُڑ رہا ہوں۔ محمد بن فضل بلخی فر ماتے ہیں کہ مجھے اُس شخص پر تعجب ہے جو خواہشات کی پیروی کر کے جمال الہی حاصل کر رہا ہو۔ اگر وہ طالب جمیل حقیقی ہے تو اپنا قدم ہوا پر کیوں نہیں رکھتا کہ وہ مقصد تک پہنچے اور دیدارِ یار حاصل کرے اور نفس کی جو ظاہری صفت ہے وہ شہوت ہے اور شہوت ایسی قوت کا نام ہے جو تمام اجزائے جسم میں پراگندہ ہے اورتمام ہواس بھی اسی کے ساتھ ہیں اور انسان ان کی نگہبانی پر مکلف ہے اسی وجہ سے انسان ہر حس سے سر زد ہونے والے فعل کے ساتھ مسؤل ہے۔
آنکھ کی شہوت دیکھنا، کان کی شہوت سننا، جسم کی شہوت چھونا، دل کی شہوت سوچنا ہے تو ایک طالب حقیقی کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی شہوات پر نگہبان اور حاکم ہو اور دن رات اُس کی نگرانی میں گزارے تاکہ وہ خواہشات جو ہواس سے پیدا ہوتی ہیں وہ خود بخود منقطع ہو جائیں اور اپنے ر ب سے دعا کرتا رہے کہ وہ تجھے ایسے صفت پر قائم رکھے کہ خواہشات کے ارادے اور وسوسے تیرے قلب باطن سے مدفون ہو جائیں۔ اس لئے جو شخص شہوت و ہویٰ کی دلدل میں پھنس گیا وہ تما م وصال و جمال سے محجوب ہو گیا اور جو ان سے بچ نکلا وہ وصال حقیقی اور جمال یار کو پا گیا۔
مجاہدہ نفس:
مجاہدہ نفس کے معنی ہیں کہ نفس کو ایسے تمام افعال کی طرف راغب کر نے کی پوری کوشش اور طاقت صرف کر نا جن میں دنیا اور آخرت دونوں کا فائدہ ہو بایں طور پر نفس کو اللہ تعالی کے اوامر کی پیروی کر نے اور اُس کی نواہی سے اجتناب کر نے پر آمادہ کر نا۔ مجاہدہ نفس کو باطنی جہاد بھی کہا جاتا ہے۔ نفس کے جہاد کے چار درجات ومراتب ہیں۔ پہلا درجہ ہدایت و رہنمائی اور دین حق سیکھنے کے لئے مجاہدہ کر نا، دوسرا درجہ تحصیل علم کے بعد اُس پر عمل کر نے میں مجاہدہ کر نا، تیسرا درجہ حق کی طرف دعوت دینے میں مجاہدہ کر نا اور چوتھا درجہ دعوت حق کے راستے میں پیش آنے والی مصائب ومشکلات اور مشقتوں اور مخلوق کی طرف سے دی جانے والی اذیت کو برداشت کر نے پر مجاہدہ کر نا۔ قر آن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
(سورۃ العنکبوت، 29: 69)
"اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں"۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
المجاھد من جاھد نفسہ فی اللہِ.
( اوزاعی، محمد بن سلامہ القضاعی ابو عبد اللہ، (1985ء)، مسند الشہاب، مصر، مکتبہ نور، ج 1، رقم الحدیث 183)
" مجاہد وہ ہے جس نے اللہ تعالی کی راہ میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کیا"۔
داتا گنج بخش نفس کی بحث سے متعلق یوں بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا سب چیزیں درست ہیں لیکن حقیقت معنی اس کے خلاف ہے۔
ایک جماعت کہتی ہے: من طلب وجد "جو طلب کرتا ہے وہ پالیتا ہے۔
"دوسری جماعت کہتی ہے من وجد طلب "جو پا لیتا ہے وہ طالب ہو جاتا ہے"۔
کسی جگہ ہر پانا طلب کا سبب ہے اور کسی جگہ پر طلب کر نا سبب پانے کا کہا جاتا ہے گویا ایک کے نزدیک مجاہدہ کر نے کے بعد مشاہدہ ہوتا ہے اور دوسرے کے نزدیک مشاہدہ کے بعد مجاہدہ ہوتا ہے ان سب باتوں کی حقیقت یہ ہے کہ مجاہدہ، میں مشاہدہ اطاعت کی توفیق سے ہے اور وہ محض عطا الٰہی ہے تو جب حصول اطاعت اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر محال ہے پھر توفیق بھی اطاعت کے بغیر محال ہو گی جب مشاہدہ بغیر مجاہدہ کے موجود نہیں ہے تو بغیر مجاہدہ کے مشاہدہ بھی محال ہو گا۔ جو حجت جماعت سہل نے پیش کی ہے کہ مجاہدہ کو سبب مشاہدہ نہیں مانتا وہ جملہ انبیاءے کرام و کتب و احکام شریعت کا منکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تکلیف کا دارمدار مجاہدہ پر رکھتی ہے لیکن بہتر تو یہ تھا کہ وہ تکلیف کا دارمدار ہدایت حق پر رکھتی۔
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)، کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری)، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 343)