شیخ الاسلام کے خطابات 2024ء: اخوت و محبت ایمان کی بنیاد

ڈاکٹر فرح ناز، صدر منہاج القرآن ویمن لیگ، قسط نمبر 10

(زیرِنظر مضمون گذشتہ آرٹیکل کی آخری قسط ہے)

شیخ الاسلام کے خطابات 2024ء کے انسانی زندگی پر اثرات کے ضمن میں پچھلے دو حصوں میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا اپنی زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوتا وہ بلند حوصلہ اور قناعت پسند ہوتا ہے اور قانون کا پابند ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا کے وجود پر ایمان رکھنے والا کبھی تنگ نظر نہیں ہوسکتا وہ بلا امتیاز و رنگ و نسل پوری انسانیت کی بھلائی کی فکر کرتا ہے۔ عجز و انکساری کا مرقع ہوتا ہے ۔ اس آخری حصہ میں انسانی زندگی پر ہونے والے اثرات کو مزید اجاگر کیا جائے گا کہ کس طرح ایک خدا کو ماننے والا اخوت و مساوات کا خوگر ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام نے پوری دنیا کے لیے پیغام محبت دیتے ہوئے فرمایا کہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے کی بجائے ایک خدا کے ہو جاؤ۔

1۔ ایک خدا کو ماننا اخوت و مساوات پیدا کرتا ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے خطابات 2024ء سے دینی زندگی کے حوالے سے یہ اثر مرتب ہوتا ہے کہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے۔ اُس کے ماننے والے عربی ہوں یا عجمی، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے۔ گویا اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے، یعنی ایک رب کا ماننے والا، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین کا پیرو کار ہوتا ہے ۔ وہ اپنے جیسے دوسرے مسلمان بھائی کو ساتھ بیٹھ کر فخر محسوس کرتا ہے۔ وہ سب مسلمانوں کے لیے بھلائی اور خیر خواہی اور مساوات کا پیکر ہوتا ہے۔

ایک خدا کے وجود کا ماننے والا اخوت و مساوات کا علمبردار ہوتا ہے۔ وہ فرمان باری تعالیٰ کے مطابق پوری امت مسلمہ کو جسد واحد اور ایک گردانتا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان رنگ ونسل اور زبان و لباس کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں کرتا، اگر فرق کرتا ہے تو بس ان کے تقوی اور پرہیزگاری کے اعتبار سے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ.

(الحجرات، 49: 13)

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو،

مذہب اسلام کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے۔ اسی رشتہ اخوت کی وجہ سےہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے بھلائی و خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ اخوت و مساوات سے معاشرے میں امن و سکون کا دور دورہ ہوتا ہے۔ خدا کے وجود پر ایمان اخوت و مساوات پر مبنی ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاتا ہے جس میں مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن کر ایک دوسرے کے لیے محبت و شفقت، ہمدردی و غمگساری، خیرخواہی و بھلائی اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں ۔

خدا کے وجود کو ماننے کے احساس سے روح کو تازگی عطا ہوتی ہے اور طبیعت میں نورانیت اور مزاج میں شگفتگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ خدا کے ایک ہونے کا عقید ہ ہے جس نے ظلم و انصاف، سخاوت و بخل، غیرت مندی اور بے غیرتی، شرم و حیا اور بے حیائی، نیکی اور بدی، اعلیٰ اور ادنیٰ اقدار کی تمیز سکھائی ہے۔

2۔ اعتکاف 2024ءشیخ الاسلام کے خطابات سے پیغام محبت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے اپنے ان خطابات میں پوری انسانیت کے لئے پیغام محبت دیا جن کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ بندہ مومن کا دل اللہ رب العزت کی دو انگلیوں کے درمیان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ.

(مسلم، الصحىح، كتاب القدر، باب تصريف الله تعالى القلوب كيف شاء، 4: 2045، الرقم: 2654. ترمذي، السنن، كتاب القدر، باب ما جاء أن القلوب بين إصبعي الرحمن، 4: 448، الرقم: 2140)

’’بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے وہ سب ایک ہی دل ہو اور وہ جیسے چاہتا ہے ان کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے‘‘۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے دل سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے مابین ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کے دلوں میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری ہی دراصل اللہ کی اطاعت اور عبادت کرنا ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ اس ارشاد گرامی میں یہ دعا مانگی:

اللهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ.

(مسلم، الصحىح، كتاب القدر، باب تصريف الله تعالى القلوب كيف شاء، 4: 2045، الرقم: 2654)

’’اے اللہ! دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے‘‘۔

اعتکاف 2024 شیخ الاسلام کے خطابات کا پیغام محبت یہ ہے کہ اس بارگاہ کی طرف جھک جاؤ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہو جاؤَ، اس کی جانب متوجہ رہو ۔ جگہ جگہ جا کر ماتھا رگڑنے سے بچیں، دنیا داروں اور ظالم و جابر کے سامنے جانے سے باز رہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پہلے دن کے خطاب میں اپنا پیغام محبت دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سال اعتکاف میں ہماری یہ حاضری اللہ کی معرفت حاصل کرنے، اللہ کے ساتھ اپنا تعلق محبت جوڑنے اور اللہ کے ساتھ اپنا تعلق بندگی مضبوط کرنے کے لیے ہے۔ آپ نے نوجوان نسل کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’میری چھ راتوں کی نشستوں کے خصوصی موضوع کے مخاطب میرے بیٹے اور بیٹیاں یعنی وہ نوجوان نسل ہے جو راہ حق سے بھٹک رہے ہیں ان کے اس فکری دکھ درد میں شریک ہو کر انہیں بکھر جانے او ربھٹک جانے سے بچانے کے لیے ان خطابات کے ذریعہ انہیں واپس بلا رہا ہوں۔ یہ میرا اُن سے پیار اور میری محبت ہے۔ یہ نوجوان نسل میرے آقا ﷺ کی امت کے بچے بچیاں ہیں جو ہمارا مستقبل ہے‘‘۔

(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: خطاب نمبر: Ca-12، يكم اپریل 2024ء)

اسی طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے فرمایا کہ ہمارے دل مانند عرش ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان میں دنیاوی طلب و حرص کے بجائے مولا سے لو لگانے کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے ۔ آپ نے فرمایا:

’’اگر قلب کو ہوا و ہوس سے نکال لیں تو یہی قلب ایک لمحے میں عرش بن سکتا ہے۔ شہر اعتکاف کے شب و روز دین و ایمان کو مضبوط و مستحکم کرکے اللہ کی معرفت اور چاہت و محبت کا طریق سیکھنے اور اس سے شوق و لو لگا کی باتیں سننے کی لذت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ محبت و معرفت باری تعالی کی جو لذت يہاں سے ملتی ہے اسے اپنی زندگی میں جاری کرکے اس پر عمل پیرا ہوں۔ اپنا رویہ اور زندگی بھر کا پورا طور طریقہ قائم اسی لذت و محبت پریوں استوار کریں کہ پھر کوئی لمحہ رضا الہٰی کے خلاف نہ گزرے۔ کوئی عمل اللہ کے امر و نہی کے خلاف نہ ہو۔ اسی کے نتیجہ میں اللہ پاک ہمیں کرم اور لطف و انعام سے نوازے گا‘‘۔

(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: خطاب نمبر: Ca-15 ،4 اپریل 2024ء)

پھر آپ نے فرمایا:

’’جو اللہ کی تابعداری میں آجاتے ہیں ان کو مولا اپنی لذت محبت و عشق عطا کرتا ہے اور جن کو وہ اپنی محبت اور تعلق کی لذت دے دے پھر ان کی کیفیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ میرے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں آپ بھی اس ذات لایزال سے لو لگا کر اسی سے عشق و محبت او ر قرب کا ایسا تعلق پیدا کرو جو تمہیں اپنے دل و جان اور رگ و ریشے میں محسوس ہو اور اسی سے تمہیں لذت و سرور کی کیفیات نصیب ہوں‘‘۔

(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: خطاب نمبر: Ca-16 ،5 اپریل 2024ء)

لوگ اپنے کاموں کے لیے جتنے چکر دفتروں کے لگاتے ہیں۔ اگر رب تعالیٰ کو پکاریں تو وہ جلدی کرم فرما دیں۔ لوگ اپنا کام نکلوانے کے لیے دوستوں اور افسروں کے دروازوں پر جا کر بیٹھتے ہیں اور ان کی خوشامد کرتے ہیں۔ اس سے اگر چوتھائی وقت بھی مسجد و مصلیٰ کو دیں تو رب تعالیٰ جلدہی آسانی پیدا کر دے گا۔

اللہ کے دروازے پر دستک دو کیونکہ جو اللہ پر ایمان لائیں اور پھر جم جائیں تو ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.

(فصلت، 41: 30)

’’بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘۔

اللہ کی ربوبیت پر جب انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ’’رَبَّی الله‘‘ میرا رب اللہ ہے تو اُسے نہ کوئی خوف کھاتا ہے اور نہ اسے کسی حزن کا کھٹکا ہوتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے اذن سے ہو رہا ہے۔ تو ضروری ہے کہ ہم اپنے رب پر بھروسہ کر کے اپنے جملہ معاملات کو اس کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی بھی اپنے ایسے بندو ں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اپنی سوچ کے حوالے کیا ہے۔ نتیجتاً ہم نفسیاتی مریض بن گئے۔ اسی لئے ہم ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہیں۔ اگر ہم اللہ کے دوست بن جائیں تو وہ اپنے دوستوں کو نور عطا کرتا ہے۔ فرمایا:

اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

(البقرة، 2: 257)

’’اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے‘‘۔

جو لوگ یہ مان جائیں جو کچھ وہ رہا ہے اس کے اذن سے ہو رہا ہے۔ اس کائنات کو چلانے والا وہ سمیع و بصیر ہے۔ اہل ایمان کا ولی، پشت پناہ، مددگار اور حمایتی اللہ ہے تو وہ در در کی ٹھوکریں نہیں کھاتا۔

جسے یقین ہو جائے کہ اللہ میرا دوست و مدد گار اور محافظ و حمایتی ہے کیا اس کو کسی اور کا کوئی خوف یا ڈر ہوگا؟ یقیناً نہیں ہوگا۔

مثال کے طور پر کسی علاقے میں ایک غریب کسان اور ایک بڑا چوہدری ہو۔ اُس غریب کسان کو ہر وقت اندیشہ توہوگا کہ کوئی میری بھینس یا میرا بیل کھول کر نہ لے جائے۔ لیکن اب اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ وہ جو بڑا چوہدری ہے وہ اس کا دوست ہے اب اس کے مال کو کوئی خوف ہوگا؟ اس کی بھینس کو کوئی ہاتھ ڈالے گا؟ اس کو کوئی اندیشہ ہوگا؟ ’’نہیں‘‘

کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ وہاں کا چوہدری یا جاگیر دار اس کا دوست ہے کوئی اس کے خلاف اقدام نہیں کرسکتا۔ اس دنیا میں یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

اگر کسی کو یقین ہو کہ اللہ میرا مددگار ہے، وہ ہر وقت میرے ساتھ ہے تو پھر اسے کسی اور کا کوئی خوف نہیں ہوگا کیونکہ کوئی شے اس سے بالا تر اور کوئی قوت اس سے زیادہ طاقتور نہیں ہے۔

یہی وہ بات ہے جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی جو ایک طرح سے ایمان کا حاصل اور لب لباب ہے کہ دیکھو اچھی طرح اس بات کو ذہن نشین کر لو کہ اگر تمام انسان مل کر بھی تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں نہیں پہنچا سکتے مگر جو کچھ اللہ نے لکھ دیا ہو۔ اور تمام انسان مل کر تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہیں نہیں پہنچا سکتے مگر وہ شے جو اللہ نے طے کر لی ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ اگر ساری دنیا کے انسان مل کر کسی بندہ کو کوئی نفع یا نقصان یا دکھ یا آرام پہنچانا چاہیں تب بھی اللہ کے حکم اور اس کے فیصلے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:

يَا غُلامُ، إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا، احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ، فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، فَقَدْ رُفِعَتِ الْأَقْلامُ، وَجَفَّتِ الْكُتُبُ، فَلَوْ جَاءَتِ الْأُمَّةُ يَنْفَعُونَكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ، لَمَا اسْتَطَاعَتْ، وَلَو أَرَادَتْ أَنْ تَضُرَّكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ لَكَ، مَا اسْتَطَاعَتْ.

(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 303، الرقم: 2763)

اے لڑکے! میں تجھے چند (مفید) باتیں بتاتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر (یعنی اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل نہ ہو) وہ تیری حفاظت کرے گا۔ تو اللہ کے احکام کی حفاظت کر، تو اسے اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو کسی چیز کو مانگنا چاہے تو بس اللہ سے مانگ ۔ جب تو مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے مدد مانگ۔ یاد رکھ ساری دنیا جمع ہو کر بھی تجھے فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ تجھے کسی بات کا فائدہ اور نفع نہیں دے سکتی، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کر رکھا ہے۔ اور اگر سارے لوگ مل کر تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے سوائے اس نقصان کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کر رکھا ہو۔

اب ذرا یہ سوچئیے اگر اس حدیث مبارکہ پر ہمارا اعتقاد ہو تو کیا ہمیں یہ خوف لاحق ہوسکتا ہے کہ فلاں مجھے نقصان نہ پہنچا دےیا میری رپورٹ خراب نہ کر دے یا میری انکریمنٹ نہ رکوا دے، یہ میرا یہ نہ بگاڑ دے یا میرا فلاں نقصان نہ کر دے۔

اس کا ڈر، اس کا خوف اس کی خوشامد یہ سب کچھ انسان کیوں کرتا ہے؟ جب یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں میرا کوئی نفع ہے۔ اس کے ہاتھ میں میرے لئے کوئی ضرر ہے۔ یہ مجھے کوئی گزند پہنچا سکتا ہے۔ یہ میرا کوئی کام بنا سکتا ہے یا یہ میری کوئی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

لا حول ولا قوة اس کلمہ پر اگر دل ٹک جائے تو یہی وہ بات ہے جو اہل سنت والجماعت کا عقیدہے۔

اس کائنات میں نہ کوئی فاعل حقیقی ہے نہ کوئی موثر حقیقی ہے سوائے اللہ کے۔ ابن الحاج نے لکھا ہے :

لَا فَاعِلَ عَلَى الْحَقِيقَةِ إلَّا اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى.

(ابن الحاج، المدخل، 4: 119)

’’ کسی شے میں کوئی تاثیر نہیں اگر اللہ نہ چاہے‘‘۔

پانی ڈبو نہیں سکتا اگر اللہ نہ چاہے، آگ جلا نہیں سکتی اگر اللہ نہ چاہے زہر ہلاک نہیں کرسکتا اگر اللہ نہ چاہے۔ اسی طرح دواءسے شفا ملتی ہے مگر اللہ کی مشیت سے۔

جب کوئی چیز اللہ کے اذن کے بغیر فائدہ نہیں دے سکتی تو تم در در پر جبیں رسائی کیوں کرتے ہو؟

الغرض جب جیب میں پیسے نہ ہوں تب بھی یہ یقین کہ اللہ ہے اور دل میں اطمینان ہے تو یہ اللہ پر ایمان ہے۔

3۔ ایک خدا کو ماننے والا ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے خطابات 2024ء سے ہماری زندگی پر یہ اثر مرتب ہوتا ہے کہ جو بند ۂ خدا تنگی و سختی اور مصائب وآلام میں مبتلا ہوا اور اس نے صبر و عزیمت کے ساتھ سخت حالات کو برداشت کیا تو اسے کامیابی و کامرانی اور عزت و و خوشحالی کی نعمتِ عظمی حاصل ہوگی۔ اس لئے کہ عزتیں اور ذلتیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہیں ۔ وہ رب تعالیٰ ہی بندے کو صحت، عمر اور رزق میں برکت عطا فرماتا ہے۔ اُسی نے اپنے پاک کلام میں بندوں کویہ تعلیم دی:

وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ ؕ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.

(آل عمران، 3: 26)

’’اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے‘‘۔

عقیدہ توحید انسان کے اندر انقلاب پیدا کرتا ہے۔ توحید یہ ہے کہ بندہ صدق دل سے اقرار کرے کہ اے اللہ !میں تیرا بندہ ہوں اور تو میرا مالک ہے۔ اس سے بندے کے اندر خدا خوفی اور جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بندہ ہر حال میں صابر وشاکر اور مطمئن رہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ.

(مسلم، الصحيح، كتاب الزهد والرقائق، باب المؤمن أمره كله خير، 4: 2295، الرقم: 2999)

بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لئے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔

یعنی مومن ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔ اگر اللہ مصیبت دے تو صبر کر کے فائدہ لے لیتا ہے۔ اور اب نعمت دے تو شکر کے کے فائدہ لے لیتا ہے۔

مومن یہ یقین اور انشراح رکھتا ہے کہ جو میرے حق میں تھا میر ےاللہ نے دے دیا جو میرے لیے بہتر تھا مجھے مل گیا۔ اس کی زندگی مطمئن گزرتی ہے۔

جو انسان اپنی زندگی میں مطمئن رہنا چاتا ہے تو ان خطابات کو سن کر خدا کے وجود پر اپنے یقین کو پختہ کرے اور پھر اس کے ثمرکو سمجھے اگر وہ چاہتا ہے کہ میری زندگی خوشحال ہو اور میں خوشی کے ساتھ وقت گزاروں تو وہ شیخ الاسلام کے ان خطابات کو بار بار سنے۔

اللہ رب العزت کے وجودکو مان کر جو انسان یہ سوچ لے کہ جو اس کے لئے بہتر ہے اس کے رب نے عطا کیا ہے۔ اس یقین کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان نہ حسد کرے گا نہ دوسرے کی نعمت دیکھ کر اس کے دل میں خیال پیدا ہو گا کیونکہ وہ رب کی تقسیم پر راضی برضا ہو گا۔ رب کو ماننے والا شکوہ شکایت نہیں کرتا۔ دنیا میں دکھ سکھ اور خوشی و ناخوشی سے انسان کی زندگی کسی وقت بھی خالی نہیں رہتی اس لیے ان بندگانِ خدا کے قلوب بھی صبر و شکر کی کیفیات سے ہمہ دم معمور رہتے ہیں۔ اگر شکوہ ہو بھی تو صرف اللہ کی بارگاہ رحمت میں ہو۔ قرآن پاک میں حضرت ایوبؑ کی مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے:

وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚ.

(الأنبیاء، 21: 83)

’’اور ایوب (علیہ السلام کا قصّہ یاد کریں) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف چھو رہی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر مہربان ہے‘‘۔

جو یہ کہتے ہیں کہ یہ میرے رب کا فیصلہ ہے وہ اپنی زندگی میں مطمئن رہتے ہیں۔ وہ اس یقین کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں کہ جس طرح اللہ نے چاہا میں نے اپنا بچپن اور جوانی گزاری۔ جو اللہ نے میرے لئے پسند کیا وہ والدین، وہ بہن بھائی او روہ رشتہ دار، گھر، خاندان مجھے عطا فرمایا۔

مومن خوشی و شادمانی اور رنج و الم کے حال میں شکر و صبر کے ساتھ کامیاب زندگی گزارتا ہے اور مطمئن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود اور عقیدۂ توحید پر پختہ ایمان رکھنے والا کسی کی مال و دولت دیکھ کرمرعوب نہیں ہوتا، کسی کی بڑی گاڑی اسے پریشان نہیں کرتی اور کسی کا بڑا بنگلہ اس کی طبیعت پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔

اللہ تعالیٰ کے وجود کو ماننے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو آخرت کی زندگی پر یقین ہو جاتا ہے۔ انسان ساری محنت آخرت کے لیے کرتا ہے۔ اللہ کے وجود کو ماننے کا عقیدہ انسان کو اللہ کی راہ میں نکلنے کا شوق پیدا کرتا ہے۔

حرفِ آخر

شیخ الاسلام کے ان خطابات کے ذریعے جو بھی خیر کی بات اور خیر کے پہلو عیاں ہو رہے ہیں انہیں سمجھنے اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

دوسروں کو یہ باتیں بتانے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جو علم بھی ہم نے حاصل کیا ہے اس پر سب سے پہلا حق فیملی کا ہے کیونکہ جن لوگوں کا ہمارے مال پر پہلا حق ہے انہی کا ہمارے علم پر بھی پہلا حق ہے۔ اگر کسی کا انتقال ہو تو مال جس آرڈر میں تقسیم کیا جائے گا علم تقسیم کرنے کی فکر بھی وہاں سے شروع ہونی چاہیے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بندگی کا حق ادا کرنے اس کے تقاضے نبھانے کی جدوجہد کی کوشش کی توفیق دے اس احساس کے ساتھ کہ بندگی کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ مگر اس ذمہ داری کے ساتھ کہ اس کی کوشش مجھے پوری کرنی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کے زندگی کے امتحان آسان کر دے اور ہمیں نفسیاتی شفایابی عطا فرمائے۔ ہمیں وہ ایمان اور یقین عطا کرے جو ہمارے جسمانی وجود کے ہر خلیے پر اپنا ایک اثر پیدا کرے۔

ہمارے اندر وہ یقین پیدا ہو کہ ہمارے جسمانی وجود کے اندر بھی پیدا ہونے والے مسائل اس یقین کی برکت سے حل ہوں اور ہمارے نفسیاتی وجود اور مزاجی بناوٹ کے اندر بھی ایک بڑی خیر پیدا ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں وہ ذوق عطا کرے جو محبت کا ذوق ہے، اللہ تعالی ہمیں فراست کی نظر اور حکمت عطا کرے اور جو لوگ دنیا میں اچھا کام کر رہے ہیں ا ن سے محبت سے تعلق، ان سے استفادہ اور ا ن کے لئے خیر کی دعا کرنے کی ہمیں توفیق دے۔ خیر کا کام کرنے والوں کی کوششیں کامیاب ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین اور اساتذہ کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے اور ہماری اولادوں کو ہمارے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔

معزز قارئین! ان خطابات سے جو سیکھا ہے اس پرلازمی تجربہ کریں۔ جوابدہی کی عملی مشق اور اپنی فیملی و اپنے ساتھیوں اور اپنے حلقہ احباب سے ضرور شیئر کیجئے گا کہ یہ یقین باٹنا ایک بڑا کار خیر اور ہمارے حق میں صدقہ جاریہ ہے۔

اختتامی گذارشات

حضور سیدی شیخ الاسلام کے خطابات 2024ء میں تمام اہل ایمان اور نبی نوع انسان کے لئے اللہ پر ایمان اور یقین کو قائم رکھنے کی روشن دلیلیں موجود ہیں۔ میں نے بطور طالب علم ان خطابات سے چند مضامین اخذ کرکے قارئین کے لیے ان پر آرٹیکلز مرتب کرنے کی جسارت کی ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جن کے دلوں میں اللہ رب العزت پر ایمان موجود ہے وہ ان سیریز کے ذریعے اپنے مقاصد بندگی کی تکمیل اور اپنے ذوق بندگی کے تحفظ کی کوشش کرتے رہیں، اور جن کے دل میں تشکیک و ابہام پیدا ہو رہا ہے وہ فوری طور پر شعوری کوشش کرکے اپنی سوچوں کے بے لگام دھارے کو اپنی ایمانی گرفت میں لے آئیں۔ وہ لوگ جن کا انسانی بھائی چارے پر ایمان ہے وہ نیک نیتی کے ساتھ متحد ہو کر آنے والی نسلوں کے لئے ان خطابات سے رہنمائی لے کر ان کے ایمان بچانے کی کوشش کریں۔

بلاشبہ شیخ الاسلام کے یہ خطابات اس ذات حق کے نام ہیں جس نے تمام انسانوں کو تخلیق کیا اور کل بنی نوع انسانی کو حقوق وواجبات اور عزت و شرافت میں برابر پیدا فرمایا اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ اس کی زمین کو آباد کرسکیں نیز خیر و بھلائی، پیار و محبت، عقیدہ و یقین اور امن و سلامتی کر فروغ دے سکیں۔

خطبات 2024ء کی یہ سیریز اس تصور آزادی اور انسانی حریت و حرمت کے نام ہیں جو رب کریم نے ہر بشر کو ودیعت کر رکھی ہے۔

راقمہ کی ان خطابات پر چنے گئے کچھ الفاظ اور تحریر کی جانے والی چند سطریں اس شخصیت (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی) کے نام ہیں جو مشرق و مغرب میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے دین حق کی رہنمائی کا عظیم فریضہ سر انجام دیں رہے ہیں۔

خطابات کی یہ سیریز مشرق و مغرب اور شمال و جنوب اور ہر اس شخص کے درمیان رمز و علامت بن سکتی ہیں جس کا یہ ایمان ہو کہ اللہ رب العزت موجود ہے اور اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور وہی ہمارا خالق و مالک ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کو جان سکیں، آپس میں تعاون کرسکیں اور آپس میں محبت کرنے والے بھائیوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔

ہم اُمید کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام نے ان خطابات کے ذریعے عقیدۂ توحید کا جس انداز میں پرچار کیا اگر اِن کا یہ پیغام محبت پوری دنیا میں پھیل جائے تو کم از کم ہم عقیدہ لوگوں کے مابین ایسی امن و سلامتی کی ایسی فضا قائم ہو کہ تمام لوگ اس عقیدۂ توحید کے سائے میں خوشی خوشی مطمئن اور پُر یقین زندگی گزار سکیں۔