اداریہ: محنت کش معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہیں

چیف ایڈیٹر

محنت کش معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہیں

اسلام کے معاشی اور اقتصادی نظام کا مقصود ایک فلاحی معاشرہ قائم کرنا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے معاشرے کے ہر فرد کو بنیادی ضروریات کا حق عطا کر کے اسلامی معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاحی معاشرہ قرار دیا جس میں کسی بھی فرد کو بنیادی ضروریات اور عمومی سہولیات کے حق سے محروم نہیں کیاجا سکتا۔ اسلام نے سوسائٹی کے کمزور طبقات کے معاشی حقوق کا بطور خاص تحفظ کیا ہے۔ خواتین کا شمار صنف نازک میں ہوتا ہے۔ قدرت نے عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ قوت و توانائی عطا کی ہے لیکن دوسری طرف وراثت میں حق دار بنا کر اسلام نے خواتین کے معاشی حقوق کا تحفظ کیا۔ یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن مزدوروں کے حقو ق کے لئے بڑے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، مزدوروں کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے، ریاست بڑے بڑے اعلانات کرتی ہے مگر جیسے ہی یہ دن گزر جاتا ہے مزدورں کے حقوق کا بیانیہ قصہ پارینہ بن جاتا ہے بالخصوص خواتین استحصالی رویوں کا مردوں کی نسبت زیادہ شکار بنتی ہیں۔

پچھلے دس سال سے ہوم بیسڈ ورکر خواتین کے حقوق اور انہیں مناسب معاوضے دلوانے کے لئے ایوانوں کے اندر اور باہر مباحثہ عام ہوا، ہر طبقہ فکر نے اس بات پر زور دیا کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی رجسٹریشن ہونی چاہیے اور انہیں ان کی محنت کا پورا معاوضہ ملنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ ہوم بیسڈ ورکر کے ساتھ پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لئے ایسے قوانین تشکیل دئیے جائیں جنہیں نافذ کیا جا سکے مگر اعلانات اور بیانات تو بہت خوبصورت جاری ہوتے رہتے ہیں مگر عملاً گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو نہ تو پورا معاوضہ میسر آتا ہے اور نہ ہی عزت نفس کا تحفظ اُنہیں حاصل ہوتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی کم عمر بچیوں کی حالت زار تو ناگفتہ بہ ہے۔ ان بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے کی عمر گھروں میں کام کاج کرتے گزر جاتی ہے، انہیں تشدد اور ہراسانی کے واقعات کا بھی سامنا رہتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ایسے واقعات میں ملوث طاقتور افراد سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہر شخص جو گھر میں کسی سے خدمت لینا چاہتا ہے تو اُسے تمام حقوق و فرائض کے ساتھ اس طرح کی تقرریاں عمل میں لانے کی اجازت ہونی چاہیے اور ہر ہوم بیسڈ ورکر خاتون وزارت محنت کے پاس رجسٹرڈ ہونی چاہئیں اور ریاست کو ایسے ورکرز کی قانونی سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ کوئی شخص بھی اُن کا استحصال نہ کر سکے۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں اس ضمن میں ازسرنو قانون سازی ہونی چاہیے۔

یکم مئی صرف مزدوروں کے حقوق کی بات نہیں بلکہ یہ ہر اس شخص کے لئے ایک پیغام ہے جو محنت سے اپنی زندگی سنوارتا ہے۔ محنت کی کوئی چھوٹی یا بڑی شکل نہیں ہوتی، محنت ہر شکل میں قابل عزت ہے۔ یہ دن ہمیں ایک عظیم سبق دیتا ہے کہ محنت وہ جوہر ہے جو انسان کو عزت و قار اور کامیابیاں عطا کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے متحد ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ذمہ داران جس قسم کے جذبات یکم مئی کے دن رکھتے ہیں، اگر یہی جذبات سالہا سال ہمارے اعمال و افعال کا حصہ بن جائیں تو پاکستان میں کوئی شخص بھی بھوک اور فاقوں کی وجہ سے جان نہیں گنوائے گا۔