دینی تعلیمات کی روشنی میں سادگی کے تصور کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا انتہائی اہم ہے۔ سادگی کے تصور کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا دین کی اصل روح کے مطابق جینے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ سادگی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے لباس یا ظاہری شکل کو اس حد تک تبدیل کر لیں کہ وہ موجودہ نسل کے لیے غیر موزوں یا ناقابل قبول ہو جائے۔ اس کے برعکس سادگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اتنی اعتدال پسندی اختیار کریں کہ ہم اپنے معاشرتی اور ثقافتی ماحول سے ہم آہنگ رہیں۔ اس سے نہ صرف ہماری شخصیت میں نکھار آتا ہے، بلکہ دین کی تعلیمات کی حقیقی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ سادگی کو اپنانے سے ہم معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں اور دین کو صحیح انداز میں سمجھ کر ایک مضبوط، جائز اور قابل عمل راستہ اختیار کرتے ہیں، جو ہمارے اور معاشرتی ترقی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں مذہبی طبقات کے رہن سہن کا روایتی مذہبی تصور کہ دین اور دیندار بس غربت اور غریبی میں ہی رہے، نے سوسائٹی میں دین کی قبولیت میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔ اس روایتی تصور نے دین کو ہمارے خطے کے اہل ثروت لوگوں میں قابل قبول نہیں رہنے دیا۔ اس تصور نے دیندار کو اتنا احقر، غریب، کسم پرسی، معاشرے سے ہٹ کر کوئی اور مخلوق بنا لیاہے جس کے مطابق گویا دین سے متعلق لوگوں کو دنیا سے الگ تھلک ہو کر محتاج اور دست نگر ہونا چائیے۔ جس کسی دینی شخصیت نے اگر اپنی صلاحتوں کی بنا پر جائز طریقے سے حلال مال کمایا،ہماری سوسائٹی اسکو کرپٹ مشہور کرنے کی ذمہ داری ادا کرنا اپنا اہم فریضہ سمجھتی ہے۔ یہ مشہور کرنا کہ یہ نذرانوں سے بنا یہ محبین اور عاشقین کے تحائف اور چندوں سے بنا اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ ہمارے ائمہ کرام میں سے اما م اعظم امام ابو حنیفہ کے کاروبار سے سب واقف ہیں۔ بلکہ بہت سے ائمہ کے القابات ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں کے بجائے ان کے کاروبار کی نسبت سے مشہور ہیں۔ عصر حاضر میں J. اور دیگر برینڈ بھی اسی طرض مشہور ہیں۔ لہذا کسی مسلم دینی شخصیت کو محض دین کی خدمت کی بنا پر مورد الزام ٹھہرانا ہرگز معقول بات نہیں۔
حقیقی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں باوقار لباس اور عمدہ رہن سہن اختیار کرنا ہر گز سادگی کے تصور کے خلاف نہیں ہے۔ سورہ اعراف میں ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
(اعراف، 32/7)
’’ فرما دیجیے: اللہ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجیے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لیے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لیے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی زینتوں اور نعمتوں کو حرام کرنا کوئی جائز بات نہیں۔ اللہ کی طرف سے ہر وہ چیز جو جائز ہو، اس کا استعمال کرنا انسان کی فطرت کے مطابق ہے۔ تاہم، اس کا استعمال اعتدال کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ دنیا کی لذتیں انسان کو اس حد تک نہ بہکا لیں کہ وہ اپنی آخرت اور دین کو نظرانداز کر دے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ کرنے والے افراد اپنے ظاہر میں بھی ہر لحاظ سے بارعب، پر کشش اور قابل قبول ہوں تاکہ لوگ ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر دین کی طرف راغب ہوں۔ لہٰذا زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنے لباس اور رہن سہن کو باوقار بنانا چاہیے تاکہ دین کو ہر دور کی ہر سطح اور ہر سوسائٹی کے لئے قابل قبول اور محبوب بنایا جاسکے۔
اللہ نے دنیا میں جو نعمتیں اور آرائشیں انسانوں کے لیے تخلیق کی ہیں، وہ دراصل ایمان والوں کے لیے ہیں۔ ان کے استعمال سے انسان کی زندگی میں خوبصورتی، رونق اور خوشبو آتی ہے، اچھا لباس، زیورات، خوشبو اور دیگر دنیوی راحتوں اور نعمتوں کا استعمال کسی صورت حرام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی حکمت سے انسانوں کے لیے پیدا کیا تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو بہتر، خوشحال اور متوازن بنا سکیں۔
یہ حسین و جمیل چیزیں صرف دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں تاکہ وہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی میں سکون، خوشی اور توازن پیدا کر سکیں۔ تاہم ان چیزوں کی محبت میں اس حد تک غرق نہ ہو جائیں کہ دنیا کی فانی آرائشوں کے پیچھے آخرت کی حقیقت اور اہمیت بھلا دیں۔ دین کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر چیز میں اعتدال اور توازن اختیار کرے، تاکہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارے۔
لہٰذا لباس اور رہن سہن کی عمدگی کو حرام کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ سب ایمان والوں کے لیے اللہ کی طرف سے ایک انعام ہیں، جنہیں ان کی فطرت کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ ان چیزوں کا صحیح اور معتدل استعمال انسان کی زندگی کو بہتر بناتا ہے اور اللہ کی رضا کی جانب رہنمائی کرتا ہے، بشرطیکہ ان کا استعمال تقدیر کے مطابق ہو، اور انسان کا دل اللہ کی طرف مائل رہے۔
اسلاف کی عمدہ رہن سہن اور قیمتی لباس
ہمارے اسلاف نے جن کے شب و روز خدمت دین میں گزرتے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا قال اللہ و قال الرسول تھا اور رہتی دنیا تک جن کی تقلید و اتباع ہوتی رہے گی وہ بھی عمدہ رہن سہن اپناتے اور اچھا لباس زیب تن کرتے تھے۔ غربت اور کسمپرسی کی حالت کو دیندار سے نتھی کرنا کسی طرح بھی دینی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ معاشرہ کے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ رزق حلال کمائے اور اور ضروریات پر خرچ بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا اظہار بھی جائز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠
(الضحی، 11/93)
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔‘‘
حضور علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ
(مسند احمد بن حنبل، حديث نمبر: 7759)
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو نعمت عطا کرے تو اسراف ومبالغہ کے بغیر اس کا اظہار جائز ہے۔ شرط یہ ہے کہ مقصود اظہارِ نعمت اور شکر گزاری ہو ناکہ تکبر۔ تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ ہمارے اسلاف عباد ت کے لئے عمدہ اور قیمتی لباس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ آپ توعمدہ کپڑے پہن لیتے تھے۔ آپ نے چارہزار درہم کا ایک مہنگا اور عمدہ لباس خرید کر رکھا ہوا تھا۔ ماہ رمضان المبارک کی جس رات لیلۃُ القدر کا گمان ہوتا تو خصوصیّت کے ساتھ اسی لباس کوپہنتے اور پوری رات ذکر و عبادت میں گزار دیتے تھے۔(ابن ابی الدنیا، التهجدو قیام اللیل، ص372، الرقم/333)
امام ذھبی ؒ لکھتے ہیں: حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ بن علی ابن طالب سردیوں میں پچاس دینار کا کپڑا خرید کر لباس بناتے اور پھر گرمیوں میں اس کو صدقہ کر دیتے گرمیوں میں مصری کپڑوں میں سے خرید کر لباس بناتے۔
(الذهبي، سير أعلام النبلاء، 4/398)
سیرت نگاروں نے امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قیمتی لباس کا ذکر کیا ہے جس کی قیمت 1500 درہم تھی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت میں آتا ہے کہ آپ حدیث کی تعلیم کے دوان عمدہ اور قیمتی لباس زیب تن کرتے تھے۔
اسی طرح پہلے زمانے میں ہمارے ائمہ سادگی کے باوجود وقت کے تقاضوں کے مطابق بہتر لباس اور عمدہ رہائش کا انتظام کرتے تاکہ دین کا وقار قائم رہے۔ ان کے اس عمل پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اب جبکہ زمانہ بدل چکا ہے سائنس کی ترقی کی بدولت لوگوں کو ہر آسائش میسر ہے لوگ اپنی رہائش کے ساتھ ساتھ مساجدوں کی تعمیرات پر بھی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ حرمین شریفین اور دنیا کی دیگر بہت سی مساجد اس کی مثال ہیں۔
’’ فرما دیجیے: اللہ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجیے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لیے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لیے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ کرنے والے افراد اپنے ظاہر میں بھی ہر لحاظ سے بارعب، پر کشش اور قابل قبول ہوں تاکہ لوگ ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر دین کی طرف راغب ہوں۔ لہٰذا زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنے لباس اور رہن سہن کو باوقار بنانا چاہیے تاکہ دین کو ہر دور کی ہر سطح اور ہر سوسائٹی کے لئے قابل قبول اور محبوب بنایا جاسکے۔
ضروریات زندگی کی تقسیم
ہماری ضروریات تین سطحوں پر مشتمل ہیں:
۱۔ بنیادی ضروریات(Basic Needs):
یہ ضروریات ہیں جو زندگی کی بقاء کے لیے لازمی ہیں، جیسے کھانا، پینا اور صحت کی سہولتیں۔
۲۔ عملی ضروریات(Functional Needs):
یہ ضروریات وہ ہیں جو زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہیں، جیسے تعلیم، روزگار اور معاشی استحکام۔
حسی ضروریات(Aesthetic Needs):
یہ وہ چیزیں ہیں جو جمالیاتی سکون اور خوشی دیتی ہیں، جیسے خوبصورت لباس، خوشبو اور فنون۔
رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں ضروریات میں توازن برقرار رکھا۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہمیں ان ضروریات کو حکمت اور برکت کے ساتھ پورا کرنے کی رہنمائی دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب خوشبو کو پسند کرتے تھے تو وہ محض ایک basic need یا fundamental need نہیں تھی، بلکہ ایک aesthetic need تھی۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ دین میں صرف ضروریاتِ زندگی ہی نہیں، بلکہ زندگی کی ہرسطح پر خوبصورتی، عمدگی، سلیقے اور شائستگی کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ دین انسان کو ایک خوبصورت اور متوازن زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے، جہاں ذاتی اورسماجی زندگی میں سلیقہ، شائستگی اور ذوق کی اہمیت ہو تاکہ وہ اللہ کی رضا کی طرف قدم بڑھا سکے۔
دشمنانِ اسلام کا دین بے زاری کا منصوبہ
دشمنانِ اسلام کا ایک بنیادی منصوبہ یہ ہے کہ دین اور دیندار کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ آج کا نوجوان دین سے بے زار ہو جائے اور اسے دنیاوی زندگی میں بے معنی اور irrelevant لگنے لگے۔ اس کے لیے وہ دین کے نمائندگان، دینی رہنماؤں اور علما کو ایک خاص انداز میں پیش کرتے ہیں، جو انتہائی کسمپرسی اور مفلسی کی حالت میں ہوں، تاکہ نئی نسل یہ تاثر لے کہ دین کا یا دورِ حاضر سے کوئی تعلق نہیں۔
دینی رہنماؤں کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہم کس طرح اپنے کردار اور طرزِ زندگی کے ذریعے نوجوان نسل کو دین کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ دنیاوی حشمت اور عزت کا ہونا آج کے دور میں نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کی اہمیت بھی بڑھ چکی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں دین کے نمائندگان کی جو تصویر ہمارے معاشرے میں سامنے آئی، وہ ایک غمگین حقیقت ہے۔ وہ حافظ جی یا مولوی صاحب، جن کے پاس دو وقت کا کھانا محلے کے گھروں سے اکٹھا ہوتا تھا، جن کے تن پر چند کپڑے اور زندگی کی تمام تر ضروریات عطیات پر منحصر تھیں، ان کی معاشی تنگی نے دین کی تصویر کو اس طرح پیش کیا کہ نئی نسل نہ صرف دین سے دور ہوئی بلکہ اس کے بارے میں نفرت اور بیزاری کا بھی شکار ہوگئی۔
حاصل بحث
حاصلِ بحث یہ ہے کہ کیا دین کے نمائندگان کی تصویر دنیاوی شان و شوکت اور کامیابی سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے؟ کیا وہ افراد جو معاشی اور سماجی طور پر خوشحال ہیں، دین کی صحیح نمائندگی نہیں کر سکتے؟ مرعوبیت کے اس دور میں ہمیں یہ سوال سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم دین کے حسن، جمال اور باوقار طرزِ زندگی کو کس طرح اپنائیں، تاکہ نوجوان نسل نہ صرف دین کو سچائی کا راستہ سمجھے، بلکہ اسے ایک قابلِ فخر اور باوقار طرزِ زندگی کے طور پر اپنائے۔
دنیاوی عزت اور کامیابی کو رد نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ہمیں ان دونوں کو دین کی روح اور پیغامات کے ساتھ ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم دین کی اصل حقیقت کو اس طرح پیش کریں کہ وہ نہ صرف دلوں میں اُترے، بلکہ ایک خوشحال، باعزت اور فطری زندگی کا حصہ بن جائے۔ جب نوجوان نسل دین کے نمائندوں کو باوقار، خوشحال اور کامیاب دیکھے گی تو وہ خود بھی دین سے جڑنے اور اس کی تعلیمات کو اپنانے میں فخر محسوس کرے گی۔ نتیجتاً دین نہ صرف ان کے دلوں میں جگہ بنائے گا، بلکہ ایک عملی اور قابلِ فخر زندگی کا حصہ بن جائے گا۔