اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات میں احسن، ارفع و اعلی پیدا کیا اور تمام مخلوقات میں اشرف المخلوق ہونے کا شرف بخشا۔ کائنات میں انسان کو کسی مقصد کے تحت بھیجا اُسی مقصد کے حصول کے لئے انسان اپنی پیدائش سے لے کر مرنے تک کی زندگی بسر کرتا ہے۔ دنیا میں انسان سے جو بھی اعمال و افعال سر زد ہوتے ہیں وہی اُس کی شخصیت کا حصہ ہوتے ہیں اگر وہ اچھے افعال سر انجام دے گا تو اُس کی شخصیت اچھی ہو گی اور اگر وہ بُرے اعمال کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائے گا تو اُس کی شخصیت بھی اُسی طرز کی ہو گی۔ اللہ رب ا لعزت نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کے ساتھ ساتھ اُس کو زندگی گزارنے کے اُصول و قواعد اور آداب بھی بتائے اور سکھائے ہیں۔ یہ تو اللہ راب العزت کا فضل و احسان ہے کہ اُس نے انسان کو عقل کے ذریعے غوروفکر کر نے کی صلاحیت عطا کی ہے تاکہ انسان اگر کبھی بھول جائے تو غورو فکر کے ذریعے صحیح راستے کی پہچان کر سکے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِۚ
(سورۃ البلد، 90: 10)
"اورہم نے اُسے خیر و شر کے دو نمایاں راستے بھی دکھا دئیے۔ "
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے نہ وہ بول سکتا ہےاور نہ وہ چل سکتا ہے اس صورت میں اللہ تعالی نے اُس کی پرورش والدین کے زریعے کی کہ وہ شیر خوارگی کی عمر سے نکل کر عہد طفولیت اور بچپن سے ہوتا ہوا جوانی کی طرف بڑھتا ہے اور بڑھاپے میں داخل ہو کر اپنے مقررہ وقت پر اس دنیائے فا نی سے رخصت ہو جاتا ہے۔ چند سالہ زندگی میں انسان اس دنیا کی رنگینیوں کو دیکھتا ہے کہ چرند پرند مٹی، آگ، ہوا، پانی، شجر و حجر وغیرہ کسی نہ کسی صورت میں اللہ تعالی نے انسان کی خدمت کے لئے پیدا کئے ہیں۔ ظاہری دنیا کی زندگی میں انسان مختلف اور بے شمار واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے، لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے، اُس کی غمی اور خوشی میں شریک ہو تا ہے۔ لوگوں کے نزدیک اُس کی پہچان کا ایک معیار بن جا تا ہے اور وہی معیار اُس کی شخصیت کی پہچان بنتا ہے۔ ہر انسان کو اللہ تعالی نے دیکھنے کے لئے آنکھیں، بولنے کے لئے منہ، سننے کے لئے کان، چلنے کے لئے ٹانگیں اور غوروفکر کرنے کے لئے عقل اور دیگر جسمانی اعضاء عطا کئے ہیں تاکہ وہ ان کی صحیح پہچان کر سکے اور یہ پہچان اُس وقت ہی ممکن ہو گی جب وہ اپنی شخصیت کی نشو نما شریعت کے اُصولوں کے مطابق کرے گا۔ اگر انسان خلاف شرع اُصول وضوابط کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائے گا تو سراسر خواہشات نفس کی پیروی کرنے والا ہوگا۔
برصغير پاک و هند ميں اشاعت اسلام کے سلسلے ميں جن اولياء نے مثالي کردار ادا کيا ان ميں سے ايک مثالي کردار سيد مخدوم داتا علي هجويري ؒ کا نام سر فهرست هے اور ان کي معرکة الآراء کشف المحجوب نے بھي بني نوع انسان کي اصلاح ِ احوال اور شخصيت کي تعمير و تشکيل ميں بهت اهم کردار ادا کيا هے۔ آپؒ نے اصلاح معاشره اور بهترين شخصيت کي تعمير و تشکيل کے پيش نظر افرادِ معاشره کو اخوتِ اسلاميه، امن و سلامتي، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار هونا، اسلام کي اخلاقي تعليمات، جودو سخ، شخصي کردار کي تشکيل،آدابِ زندگي، خاموشي و گفتگو کے آداب و فوائد و نقصانات وغيره پر کار بند رهنے کي تلقين کتاب ميں جا بجا طور پر فرمائي هے۔ انسانيت کي اصلاح اور کردار کي تعمير و فلاح انبيائے کرام کے پيغام کا اولين مقصد رها هے اصلاح و تعمير کا کام حکمت و تدبير، وعظ و نصيحت، اثر خيز اور قائل کر دينے والے دلائل اور خلقِ خدا کي خدمت کے طفيل هي ممکن هے۔ آپؒ نے اصلاح ِ معاشره اور شخصيت کي تربيت و اصلاح کا بيڑا اٹھايا اور اس کاوش ميں اهم کردار ادا کيا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کو پیدا کیا اور اس کی ہدایت کے لئے رسول اور نبی بھیجے اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد یہ ذمہ علما ءکو سونپا گیا تاکہ انسان ہدایت کا راستہ اختیار کر کے بہترین خصوصیات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائے، جس سے اس کی شخصیت کی تعمیر ہو دین و دنیا میں اس کا بہترین تشخص قائم ہو۔ اس ذمہ داری کو سر انجام دیتے ہوئے سید علی بن عثمانؒ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں انسان کی کردار سازی اور تعمیر شخصیت کے لئے کچھ مناہج بیان کئے ہیں۔
حصولِ علم
علم کے ذریعے آدمی ایمان اور یقین کی دنیا آباد کرتا ہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم دکھاتا ہے بوڑھوں کو اچھا، دشمن کو دوست، بیگانوں کو اپنا اور دنیا میں بد امنی کی کجی امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، تاکید و ترغیب اسلام کے اندر جس بلیغ، احسن اور دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ تعلیم و تربیت اس دین برحق کا جز لا ینفک ہے۔ غرض یہ کہ اس حد تک علم حاصل کرنا ضروری ہے جس سے حوائج شریعہ پورے ہو سکیں جیسے علم نجوم اس کا اتنا جاننا ضروری ہے کہ جس سے رات دن کے اوقات اور صوم و صلوۃ کا وقت معلوم ہو سکے، علم طب اس قدر ضروری ہے جس سے انسان کی صحت کی حفاظت ہو سکے اور علم ریاضی اُتنا ہی ضروری ہے جس سے علم فرائض آسانی سے سمجھا جا سکے اور اسی طرح دیگر علوم بھی اور وہ علم جس کا اخروی منافع کے ساتھ کوئی نہ ہو اُس کی مذمت اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں فرمائی ہے :
وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ
(سورۃ البقرہ، 2: 102)
’’اور وہ اُن علوم کو سیکھتے ہیں جو اُنہیں ( اعتقادات و مبہمات میں ) نقصان پہنچاتے ہیں اور اُن کے لئے نفع بخش نہیں ہوتے۔
1۔ سید علی ہجویریؒ حاتم اصم کا قول نقل کرتے ہیں کہ حاتم اسم نے فرمایا میں نے چار علم اختیار کئے اور دنیا کے تمام علوم سے آزاد ہوں۔
2۔ پہلا علم یہ کہ میرا رزق جتنا میرے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے وہ کم یا زیادہ نہیں ہو سکتا اس وجہ سے میں زیادہ کی تلاش سے غنی ہوں۔
3۔ دوسرا علم یہ ہے کہ مجھ پر اللہ تعالی کے ایسے حقوق ہیں جو میرے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ادا کر سکتا تو میں اُن حقوق کی ادائیگی میں مشغول ہو گیا ہوں۔
4۔ اور تیسرا علم یہ ہے کہ ایک شے میری طالب ہے جسے موت کہتے ہیں اور اُس بھاگنا ناممکن ہے اس لئے میں ہر وقت اُس کے لئے تیار رہتا ہوں۔
چوتھاعلم یہ ہے کہ اللہ رب العزت ہر لمحہ مجھے دیکھنے والا ہے تو میں اُس سے شرماتا ہوں اور تمام نا پسندیدہ اعمال سے اجتناب کرتا ہوں اور ہر اُس فعل سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں جس کی وجہ سے قیامت کے دن شرمندہ ہونا پڑے۔
حضرت ابن معاذ فرماتے ہیں :
اجتنب صحبۃ ثلاثۃ اصناف من الناس، العلماء الغافلین والفقرا ءالمداھنین والمتصوفۃ الجاھلین
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 97)
’’ تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرو غافل و بے عمل علما ءاور حق سے زبان بند کروانے فقرا ءاور جاہل صوفیاءسے۔ ‘‘
معرفتِ الہیٰ
اللہ کا وجود اس کائنات کی ایک واضح اور مبین حقیقت ہے اس دنیا کے نباتات، حیوانات، جمادات، چرند، پرند، حتی کے انسان اپنے ظاہر و باطن سے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ خود بخود وجود میں نہیں آئے بلکہ اُنہیں کسی نے پیدا کیا ہے چنانچہ ہر شے کا اپنے رب سے پہلا رشتہ خالق اور مخلوق کا ہے۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے تو اُس کا اللہ تعالی کے ساتھ تعارف دو بنیادوں پر ہے۔ ایک بنیاد داخلی اور دوسری خارجی ہے۔ داخلی طور پرہر انسا ن کی فطرت میں اللہ تعالی نے اپنے وجود اور توحید کے تصور کو پنہاں کر دیا ہے جس کا اشارہ عہد الست سے بھی ملتا ہے چنانچہ جب انسان اپنے باطن میں جھانکتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک خالق و مالک ہستی کو محسوس کرتا ہے اور دوسری جانب جب انسان خارجی ماحول میں اپنی نگاہ دوڑاتا ہے تو اس کائنات کی ہم آہنگی، رنگینی، نظام ربوبیت اور نظم و استحکام یہ ماننے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کوئی تو ایسی بر ترو بالا ہستی موجود ہے جو اس کائنات کو تخلیق کر کے اپنی تدابیر کے ساتھ چلا رہی ہے۔ اپنے خالق کو انسان اُس دن سے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے جس دن سے اُس کی تخلیق ہوئی ہےالبتہ انسان اپنے محدود علم کی بنا پر اللہ تعالی کی ذات و صفات کا مکمل طور پر احاطہ نہیں کرسکتا لیکن اُس کی معرفت کی پہچان جاری ہے۔
سید علی ہجویری نے کشف المحجوب میں معرفت کی دو اقسام بیان کی ہیں۔
• معرفت علمی
• معرفت حالی
معرفت علمی تما م نیکیوں کی جڑ ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں حاصل ہوتی ہیں اور بندے کے لئے معرفت میں اہم ترین چیز یہ ہے کہ وہ اوقات احوال میں اللہ تعالی کو دنیا و آخرت میں پہچانے۔ معرفت حال کو علت بھی سمجھا جاتا ہے اور وہ علت عقل ہے۔ جو کچھ عقل ثابت کرتی ہے معرفت اُس کی نفی کرتی ہے عقل کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ استدلال کے ذریعے معرفت حاصل کرے اس لئے جہاں پر عقل ثابت ہو جائے وہاں معرفت کی نفی ہو جائے گی۔ معرفت دراصل حیات قلب کا نام ہے جس کا بنیادی مقصد اللہ تعالی کے ساتھ جڑ جانا اور اللہ تعالی کے سوا سے اعراض برتنا اور یہ درجہ انسان کو حق تعالی کی معرفت سے ہی نصیب ہوتا ہے۔ جسے معرفت حق نصیب نہ ہو وہ ذلیل اور بے قدر ہے۔
سید علی ہجویری ؒنے کشف المحجوب میں حضرت شبلی ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :
حقیقۃ المعرفۃ العجز عن معرفۃ اللہ
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 454)
’’حقیقت معرفت یہ ہے کہ معرفت حق سے بندہ خود کو عاجز سمجھے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کو پیدا کیا اور اس کی ہدایت کے لئے رسول اور نبی بھیجے اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد یہ ذمہ علما ءکو سونپا گیا تاکہ انسان ہدایت کا راستہ اختیار کر کے بہترین خصوصیات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائے، جس سے اس کی شخصیت کی تعمیر ہو دین و دنیا میں اس کا بہترین تشخص قائم ہو۔ اس ذمہ داری کو سر انجام دیتے ہوئے سید علی بن عثمانؒ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں انسان کی کردار سازی اور تعمیر شخصیت کے لئے کچھ مناہج بیان کئے ہیں۔
نظام شخصیت کی تعمیر کا اؤلین منہج معرفت الہی ٰہے جس نے اللہ کو پہچان لیا وہ باقی سب چیزوں سے بے نیاز ہو گیا اور تمام قسم کی غير الله کي عبادتوں کے بیان سے گونگا اور بہرا ہو گیا، اپنے سب اوصاف سے فانی ہو گیا۔
توحید
توحید کی حقیقت یہ کہ کسی ایک کہ ہونے پر یقین کیاجائے۔ جب اللہ اپنی ذات و صفات میں ایک اور لاثانی ہے اور اپنے تمام تر افعال میں بے مثل ہے تو وہی ایک ہے۔ موحدوں نے اسے اسی صفت پر جانا ہے اور عقل نے اس کا نام ’’توحید‘‘ رکھا ہے۔
سید علی بن عثمانؒ نے کشف لمحجوب میں توحید کی تین اقسام بیان کی ہیں۔
توحید حق :توحید حق وہ توحید ہےجو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے اُس نے اپنی ذات کے یگانہ ہونے کی تصدیق کی اور اُسے (اللہ تعالیٰ) اپنی واحدانیت کا علم بھی ہے۔
توحید خلق کے لئے : اور یہ حکم تعالی ہر بندے کے لئے ہے تو اس بنا پر بندے کے دل میں علم وحدانیت اور یقين وحدانیت ہونا لازمی ہے۔
توحید خلقت کی حق کے لئے : اس کا مطلب اللہ تعالی کے واحد ہونے کو جاننا، پہچاننا اور یقین کرنا۔
سید علی بن عثمان ؒ فرماتے ہیں کہ توحید حق سے بندے کو اسرار حاصل ہوتے ہیں۔ خود کو راہ راست پر لانے اور راہ سلوک کا مسافر بننے کے لئے ضروری ہے کہ وحدہ لاشریک کو دل سے تسلیم کیا جائے اور زبان سے اقرار کیا جائے۔ اُصول توحید میں سے ایک اُصول ہجرت وطن ہے جس کا معنی معلوفات نفس، آرام گاہ دل، قرار گاہ طبیعت اور رسوم دنیا سے نا واقف رہنا اور وحدہ لاشریک کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے۔
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 465)
ایمان
ایمان کے لئے دو بنیادی چیزیں ہیں ایک اصل اور دوسری فرع۔ ایمان کی اصل تصدیق بالقلب ہے اور اُس کی فرع اوامر و نواہی ہیں۔ محدثین کو ہاں ایمان کے تین اجزا ءہیں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کا نام ایمان ہے۔ کامل ایمان تو حقیقتا یہی ہے، اگر کوئی شخص بے عمل ہے تو اُس کا ایمان ناقص ہے۔ پہلے دو اجزا ءایمان کا بنیادی حصہ ہیں اور اعمال اُس کی حقیقت میں نہیں ہیں اگرچہ کمال ایمان اعمال صالحہ ہی سے وجود میں آتا ہے۔
(محدث دہلوی عبد الحق، ( س ن )، ایمان کیا ہے ؟، ( مترجم محمد انظر شاہ )، لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص 83)
فقہا ء، صوفیا ءاور علما ءاقرا باللسان اور تصدیق بالجنان کے قائل ہیں۔ سید علی بن عثمان ؒ نے ایمان کو تعمیر شخصیت کا منہج قرار دیا اور فرمایا کہ جب بندہ رب تعالٰی کو پہچان لیتا ہے تو رب کے حکم کی عظمت بڑھ جاتی ہےاور مطیع اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس سے طاعت کا رنج اٹھا لیا جاتا ہے اور اُسے اطاعت گزاری کی توفیق بغیر رنج کے دے دی جاتی ہے۔
اگر انسان اپنی شخصیت کوسنوارنا چاہتاہے تو اُسے ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کرنے سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ضروریات دین سے مراد اللہ تعالی توحید اور اُس کی صفات پر ایمان لانا، فرشتوں، آسمانی کتابوں، رسولوں، آخرت، تقدیر اچھی اور بری تقدیر، موت کے بعد زندہ اُٹھائے جانے پر ایمان لانا، نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کہ فرضیت کا قائل ہونا اور تمام امور شر اور فرائض اسلام کی عدم ادائیگی کی حرمت کا قائل ہونا وغیرہ۔
(تفتازانی مسعود بن عمر بن عبد اللہ الشہیر سعد الدین، (2014ء)، شرح المقاصد، عالم کتب، ج 3، ص 420)
طہارت و پاکیزگی
طہارت و پاکیزگی کا خوبصورت عمل نماز ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے جسم، جگہ اور لباس کا پاک ہونا ضروری ہے تو نماز کے توسط سے انسان بدن کی نجاستوں سے پاک رہتا ہے۔ کشف المحجوب میں طہارت کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ باطنی طہارت اور ظاہری طہارت۔ باطنی طہارت کا تعلق دل کے پاک کرنے سے ہے۔ دل کی پاکیزگی کے بغیر معرفت حاصل نہیں ہوتی۔ اور دل کی طہارت کے لئے آب توحید کی ضرورت ہے جس میں اعتقاد متذبذب اور مشکوک نہ ہو۔ اور ظاہری طہارت کے لئے پانی کا طاہر و مطہر ہونا ضروری ہونا ضروری ہے وہ پانی مستعمل اور مقید نہ ہو۔ چنانچہ صوفیا کرام ہمیشہ ظاہری طہارت کے پابند رہتے اور اپنا باطن توحید سے بھر پور رکھتے تھے۔ انسان جس قدر طہارت و پاکیزگی کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتا ہے اُس کی شخصیت اُتنی ہی مؤثر، دلکش اور ہر دلعزیز بن جاتی ہے۔ سید علی ہجویری نے کشف المحجوب میں ظاہری اور باطنی کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظاہری اور باطنی طہارت میں موافقت ہونی چاہیے۔
• جب ہاتھ دھوئے تو اُس کے ساتھ ہی دل کو دنیا کی محبت سے پاک کر لے۔
• استنجاکرے تو جسطرح تو جس طرح ظاہری نجاست سے پاکی حا صل کی ویسے ہی باطن کو غیر کی دوستی پاک کر لے۔
• ناک میں پانی ڈالتے وقت نفسانی خواہشات کو بھی اپنے اوپر حرام کر لے۔
• جب منہ دھوئے تو ساتھ ہی تمام خواہشات نفسانی کی چیزوں سے منہ پھیر لے اور حق کی طرف متوجہ ہو۔
• جب ہاتھوں کو کہنیوں تک صاف کرے تو اپنے تمام نصیبوں سے عليحدہ ہو جائے۔
• سرکا مسح کرتے وقت اپنے تمام تر کام اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔
• پاؤں دھوئے تو یہ نیت کر لے کہ تمام مناہی راہوں پر چلنے سے باز رہوں گا۔
حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب میرے دل میں دنیا کا اندیشہ گزرتا ہے تو میں طہارت کر لیتا ہوں اور جب اندیشہ عاقبت گزرتا ہے تو غسل کر لیتا ہوں اس لئے کہ دنیا محدث ہے اور اس کا اندیشہ حدث ہے اور عقبی محل غیبت و آرام ہے اور اس کا اندیشہ جنابت ہے تو حدث سے طہارت واجب ہے اور جنابت سے غسل۔
توبہ و استغفار
طالبان حق کا پہلا مقام توبہ ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا
(سورۃ التحریم 8:66)
’’ اے ایمان والو1 اللہ تعالی کے حضور توبۃ النصوح کرو۔ ‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ما من شئی احب الی اللہ من شاب تائب الی اللہ تعالی
(الجرجانی، ابو احمد عبد اللہ بن عدی، ( س ن )، الکامل فی ضعفاء الرجال، دالفکر، ج 4، رقم الحدیث 1439
’’ اللہ تعالی کے نزدیک جوان کی توبہ سے ذیادہ کوئی عمل محبوب نہیں ہے۔ ‘‘
سید علی بن عثمانؒ توبہ کی تعریف یوں کی ہے کہ توبہ کے لغوی معنی رجوع کرنے کے ہیں اور اصطلاحی طور پر بندہ اللہ تعالی کے حکم کی خلاف ورزی سے خائف ہو تو یہ اصل توبہ ہے۔ مزید آپ نے توبہ کے تین مقام بیان کئے ہیں۔
• پہلا تائب ( گناہوں سے اطاعت کی طرف)۔
• دوسرا عاجز (اعمال کی غفلت سے اسکی یاد کی طرف رجوع)
• تیسرا اواب (اللہ کا دھیان اور حضوری نہ رہنے پر توبہ)
اس لئے کہ توبہ عام مومنوں کا مقام ہے اور وہ ارتکاب کبائر سے ہوتی ہے اور عنابت خالص اولیا ء اور مقربان خاص کا مقام ہے اور اواب انبیا ء و مرسلین کا مقام ہے۔ شخصیت کو سنوارنے کے لئے توبہ ایک بہترین راستہ ہے کہ جب بندہ اپنے احوال اور افعال پر غوروفکر کرتا اور اُس پر نادم ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے حضور توبہ کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالی اُس پر توبہ کے اسباب کو آسان کر دیتا ہے اور اُسے اطاعت کی حلاوت عطا فرماتا ہے۔
سید علی ہجویری ؒنے توبہ سے متعلق حضرت ذوالنون مصری کا قول نقل کیا ہے
توبۃ العوام من ذنوب، توبہ الخواص من الغفلۃ
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 480)
’’ عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور خواص کی غفلت سے۔ ‘‘
علم کے ذریعے آدمی ایمان اور یقین کی دنیا آباد کرتا ہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم دکھاتا ہے بوڑھوں کو اچھا، دشمن کو دوست، بیگانوں کو اپنا اور دنیا میں بد امنی کی کجی امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، تاکید و ترغیب اسلام کے اندر جس بلیغ، احسن اور دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ تعلیم و تربیت اس دین برحق کا جز لا ینفک ہے
کشف المحجوب کے مطابق توبہ و استغفار کے ذریعے بندے پر جو حجاب اُٹھتا ہے وہ نماز ہے۔ پنجگانہ نماز اور اُن کے اوقات کار کی پابندی میں انسان کی تعمیر شخصیت کا مختصر مگر جامع عنصر پایا جاتا ہے۔ بنده جب نماز کو وقت پر ادا کرتا ہے، اُس میں داخل ہونے سے پہلے اُس کی تمام شرائط کو پورا کرتا ہے اول نجاست ظاہری سے طہارت اور باطن شہوت سے طہارت، کپڑ ے کا ظاہری نجاست سے پاک ہونا اور باطنی طور پر حرام سے پاک ہونا، تیسری ظاہری طور پر حادثات اور آفات سے جگہ کا پاک ہونا اور باطن میں فتنہ و فساد اور گناہ سے، چوتھے ظاہری طور پر قبلہ روح ہونا اور باطنی طور پر عرش کی طرف متوجہ ہونا، پانچویں قیام ظاہر میں بحالت استطاعت اور قیام باطن باغ قربت میں بشرط یہ کہ ظاہر شریعت سے وقت میں داخل ہو اور باطن درجہ حقیقت میں ہو، چھٹے خلوص نیت کے ساتھ جناب حق میں متوجہ ہونا، ساتویں ہیبت و فنا کے مقام میں تکبیر تحریمہ کہنا اور محلے وصل میں قرا ءت کرنا، اور رکوع کو خشوع کے ساتھ اور سجدہ کو عاجزی کے ساتھ اور تشہد کو فنا کی صفت سے پورا کرنا۔
تو جب بندہ نماز کو اس طرح ادا کرتا ہے جیسا کہ ادا کر نے کا حق ہے اُس کی شخصیت کی تعمیر کے جملہ مناہج پورے ہو جاتے ہیں تو یوں اُس کی شخصیت ایک متوازن شخصیت بن جاتی ہے۔
محبت الہیٰ
سید علی بن عثمانؒ فرماتے ہیں کہ محبت الہی بندے کے لئے یہ ہے کہ اللہ تعالی بندے پر اپنی نعمتوں کی فراوانی فرمائے اور اُسے دنیا و آخرت میں بے حساب ثواب عطا فرمائے اور عذاب سے محفوظ رکھے اور اُس کی انتہا یہ ہے کہ وہ بندے کو معصیت سے معصوم رکھے اور اُس کے احوال بلند اور مقام اعلی کر دے ایسا اُسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب انسان اپنے بہترین کردار کے لئے راہ راست پر چلے اور اللہ تعالی کی محبت سے سوا تمام محبتوں سے اُس کا دل غنی ہو جائے۔
حضرت شبلی ؒ محبت کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
سمیت المحبۃ لانھا تمحو من القلب ما سوی المحبوب
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 490)
’’محبت کا نام محبت اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ دلوں سے محبوب کےسوا سب کچھ مٹا دیتی ہے۔ ‘‘
حضرت عمرو بن عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے محبت کے باب میں یوں لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے دل کو جسم سے سات ہزار سال پہلے پیدا فرمایا اور مقام قرب میں رکھا اور جانوں کو دلوں سے سات ہزار سال پہلے پیدا فرما کر درجہ وصل میں رکھا اور ہر روز تین سو ساٹھ بار اُن پر ظہور جمال فرمایا اور کلمہ محبت سنایا اور تین سو ساٹھ، طائف اُنس اُس پر منکشف کئے یہاں تک کہ کائنات پر نگاہ کر کہ فیصلہ کیا کہ اپنے سے ذیادہ کسی کو اس کا اہل نہ پایا تو اُس میں فخر اور غرور پیدا ہوا تو اللہ تعالی نے ان کا امتحان فرمایا سر کو جان میں مقید کی، جان کو دل میں، اور دل کو تن میں رکھ کر عقل سے مرکب کیا پھر انبیائے کرام مبعوث فرمائے اور احکامات بھیجے تو ہر ایک اپنے اپنے مکان میں اُسی کا متلاشی ہوا۔ اللہ تعالی نے اُنہیں نماز کاحکم دیا تاکہ جسم نماز میں، دل محبت میں، جان قربت میں اور سر وصل میں ہو۔ (ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 490)
توحید کی حقیقت یہ کہ کسی ایک کہ ہونے پر یقین کیاجائے۔ جب اللہ اپنی ذات و صفات میں ایک اور لاثانی ہے اور اپنے تمام تر افعال میں بے مثل ہے تو وہی ایک ہے۔
محبت الہی کہ ذریعے بندے پر جو حجاب کھلتا ہے وہ زکوۃ ہے اور زکوۃ فرائض ایمان میں سے ایک ہے اور واجب ہے۔ زکوۃ صاحب نصاب شخص پر ایک سال کی مدت گزر جانے کے بعد واجب ہوتی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالی کے ساتھ محبت کرتا ہے تو وہ بخوشی اُسی کے دئیے ہوئے مال میں سے اُسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ خرچ زکوۃ کی صورت میں ہو یا صدقات و خیرات کی صورت میں۔
جودو سخا
جودوسخا کے معنی یہ ہیں کہ مناسب موقعوں پر انسان اپنادل اور اپنے ہاتھ کھلے رکھے اور جو مادی و معنوی مسائل اور امکانات اُس کے اختیار میں ہیں اُن کو صرف اپنی ہی ذات تک محدود نہ رکھے بلکہ اُس کے ذریعے دوسرں کو بھی بیچارگی اور فقر سے محفوظ کرےاور بیواؤں کے کاندھوں سے بوجھ کو ہلکا کرے، مشکلات کو حل کرے اور خدا تعالی نے جو نعمتیں اسے عطا کر رکھی ہیں خواہ وہ مادی ہیں یا معنوی تمام نعمتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ سید علی بن عثمانؒ فرماتے ہیں کہ علماء کے نزدیک جودو سخا مخلوق کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ بہترین سیرت و کردار کے حامل شخص کو چاہیے کہ وہ جودوسخا کو اپنی زندگی کا شعار بنا لے اور معاشرے کے پریشان حال، محتاج اور ضروت مندوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں میں اُن کو بھی فائدہ پہنچائے۔
جودوسخا کے ذریعے بندے پر جو حجاب کھلتا ہے وہ روزہ ہے جس طرح جودوسخا میں بندہ اللہ تعالی کی عطا ہوئی نعمتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے اُسی طرح وہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کے باوجود صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک خود کو تمام خواہشات سے محفوظ رکھتا ہے اور اس طریقے سے وہ اللہ تعالی کی رضا کا بھی طلب گار ہوتا ہے اور معاشرے کے نادار اور حاجت مندوں اور پریشان حال لوگوں کی پریشا نیوں کو بھی محسوس کرتا ہے۔
احکام بھوک
بھوک کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
بطن جائع احب الی اللہ تعالی من سبعین عابدا عافلا
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 525)
’’ بھوکا پیٹ اللہ کو ستر عابد عاقلوں سے زیادہ محبوب ہے‘‘
بھوک کے متعلق سید علی ہجویری ؒارشاد فرماتے ہیں جن غذاؤں سے طبیعت کی پرورش ہوتی ہے، نفس کو قوت ملتی ہے اور حرص و خواہشات بڑھ جاتی ہیں اور اعضا میں اس کا قبلہ عام ہو جاتا ہے۔ پھر ہر رگ میں اس کا اثر پھیل کر ایک پردہ بن جاتا ہے اور جب غذاؤں کی طلب کم کر دی جائے تو خواہشات ضعیف ہو جاتی ہیں، عقل کی قوت بڑھ جاتی ہے، نفس کا تصرف ٹوٹ جاتا ہے، اس وقت اس کے اسرار و دلائل ظاہر ہوتے ہیں اور نفس اپنی حرکات سے عاجز ہو جاتا ہے اور خواہشات وجود سے فنا ہو نے لگتی ہیں اور باطل مٹ جاتا ہے اور اظہار حق میں محو ہو جاتا ہے اور مرید کی تمام مراد حاصل ہوتی ہے۔
بھوک کے ذریعے بندے پر جو حجاب کھلتا ہے وہ حج ہے۔ حج ایک بدنی عبادت ہے کہ مناسک حج کی ادائیگی میں بندے کو بہت مشقت اُٹھانی پڑتی ہے۔ بھوک کے ذریعے نفسانی قوت مٹ جاتی ہے اور طبیعت میں خضو پیدا ہوتا ہے اور انسان تمام مناسک حج کو بخوبی ادا کرتا ہے کیونکہ اُس کے بدن کی قوت بڑھ جاتی ہے۔
مشاہدہ
دنیا میں مشاہدہ آخرت میں دیدار کی مانند ہے جب بالاتفاق آخرت میں دیدار رواں ہے تو دنیا میں بھی مشاہدہ رواں ہے۔ مشاہدہ صفت سر ہے۔ حقیقت مشاہدہ دو طرح کا ہے ایک صحت یقین اور دوسرا غلبہ محبت سے۔ یعنی دوست غلبہ محبت میں اس درجہ تک پہنچے کہ خود گم ہو جائے اور دوست ہی دوست رہ جائے اور سوائے دوست کہ کسی غیر کو نہ دیکھے۔ حضرت ابو یزیدؒ فرماتے ہیں :
ان اللہ عبادا لو حجبوا عن اللہ فی الدنیا و الاخرۃ لارتدوا
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری )، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 569)
’’ اللہ تعالی کے ایسے بندے بھی ہیں کہ ایک پل دنیا و عقبیٰ میں اس کے جمال سے محجوب ہوں تو وہ اپنے آپ کو مرتد سمجھیں۔‘‘
یعنی ان کی زندگی ہی مشاہدہ میں ہے اور محبت کی حیات ہی مشاہدہ سے ہے۔ بہترین شخصیت کے حامل افراد کردار سازی کے مراحل کو طے کرتے کرتے جب مشاہدہ پر آ پہنچتے ہیں تو دنیا کی تمام خواہشات و لذات اُن کے سامنے صفر ہو تی ہیں صوفیا اور مشائخ عظام اس کی زندہ مثال ہیں۔ اُن کو پھر اللہ تعالی کے دیدار کی لذت کے سوا کسی دنیاوی دیدار کی طلب نہیں رہتی۔ مشاہدہ کے ذریعے جو بندے پر حجاب کھلتا ہے وہ صحبت صالح اور اُس کے آداب ہیں۔
دین اور دنیا کے سب کاموں کی زیب و زینت ادب سے ہے اور مخلوقات کے ہر مقام پر ادب کی ضرورت ہے اور اس بات پر تمام مسلم اور غیر مسلم سنی اور بدعتی سب متفق ہیں۔ اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی کام ادب کے بغیر مقبول نہیں ہے لوگوں میں ادب ہی حفظ مراتب کا ضامن ہے۔ جس میں مروت اور ادب نہیں اُس میں متابعت سنت نہیں ہو سکتی اور جس میں متابعت سنت نہ ہو وہ رعایت عزت نہیں کر سکتا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
حسن الادب من الایمان
(بخاری محمد بن اسماعیل، (س ن)، التاریخ الکبیر، باب حسن الادب من الایمان بيروت لبنان،دار المعرفه، رقم الحدیث 315)
’’حسن ادب ایمان سے ہے۔ ‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
ادبنی ربی و احسن تادیبی
(السیوطی، جلال الدين عبد الرحمٰن، (2009ء)، الدرر المنتثرہ فى الاحاديث المشتهره، الرياض،المکتبة العربيه السعوديه،رقم الحديث 355)
’’ میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور اُس کی خوب تادیب بھی فرمائی۔ ‘‘
ادب کی تین اقسام ہیں۔
1۔ ایک ادب توحید اور وہ یہ ہے کہ ظاہر اور باطن میں بندہ اپنے آپ کو بے ادبی سے محفوظ رکھے اور اس طرح رہے جس طرح شاہی دربار میں مؤدب اور عاجز بن کر رہا جاتا ہے۔
2۔ دوسرا ادب باہمی کاروبار میں کہ تمام قسم کے حالات و واقعات میں اپنے نفس کے ساتھ مروت کی رعایت کرے تاکہ خلقت میں ہو یا حق کے حضور پیش ہو، بندہ قطعی بے ادب نہ ہو۔
3۔ تیسر ا ادب اپنے اُس عضو کو بھی نہ دیکھے جو کسی غیر کا بھی دیکھنا ناجائز ہے۔
حضرت علی بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں خراسان کے ایک قصبہ مکند میں پہنچا وہاں ایک بزرگ تھے جنہیں ادیب مکندی کہتے تھے اور یہ بزرگ بیس سال قیام میں رہے سوائے تشہد کہ کبھی نہ بیٹھے۔ میں نے اُن کا سبب پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا ابھی میرا وہ درجہ نہیں کہ میں حضور حق کا مشاہدہ بیٹھ کر کروں اور پھر فرمایا:
لان المودۃ عند الادب و حسن الادب صفۃ الاحباب
(ہجویری، علی بن عثمان، (2012ء)،کشف المحجوب، (مترجم سید محمد احمد قادری)، لاہور، مرکز معارف اولیا ء، داتا دربار کمپلیکس، ص 530)
’’ مودت ادب کے ساتھ ہے اور حسن ادب محبوں کی صفت ہے۔ ‘‘