کتاب: تہذیب و تمدن کی روشنی

ایم اے رضا خان

کتاب، الفاظ کے وہ چراغ ہیں جو صدیوں سے انسانی ذہنوں کو منور کرتے آ رہے ہیں۔ یہ صرف ایک کاغذی دستاویز نہیں بلکہ شعور، تہذیب، اخلاق، اور تحقیق کی وہ روشن قندیل ہے جس نے انسان کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کے اجالے میں لا کھڑا کیا۔ 23 اپریل کو منایا جانے والا عالمی یومِ کتاب ہمیں اس علمی ورثے کی یاد دلاتا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے اور جس نے دنیا کی تاریخ کو بدلا ہے۔

اگر ہم علم اور کتاب کی قدرو منزلت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں الکتاب یعنی قرآن مجید کو دیکھنا ہوگا، جو تمام علوم کی اصل ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جو نہ صرف انسانی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی فراہم کرتی ہے بلکہ علم کو سب سے بڑی فضیلت قرار دیتی ہے۔ قرآن مجید میں علم کے حصول کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، چنانچہ پہلی وحی کا آغاز ہی اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) سے ہوتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے بھی فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔" (ابن ماجہ)۔

یہی وہ شعور تھا جو ائمہ کرام اور عظیم فلسفیوں نے اپنی تحریروں میں اجاگر کیا۔ امام غزالیؒ، جنہیں حجۃ الاسلام کہا جاتا ہے، اپنی شہرہ آفاق کتاب "احیاء علوم الدین" میں فرماتے ہیں کہ: "علم ایک ایسا نور ہے جو قلب کو روشنی عطا کرتا ہے، اور جہالت وہ اندھیرا ہے جو انسان کو بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ " وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں علم اور کتاب سے تعلق ختم ہو جائے، تو وہ تباہی کے دہانے پر جا کھڑا ہوتا ہے۔

کتاب دوستی کو اپنا کر ہی علم کی وسعت، فصاحت و بلاغت، تحمل و بردباری اور روشن خیالی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔ جو قومیں مطالعے کی عادت ترک کر دیتی ہیں، وہ زوال کی گہری کھائی میں جا گرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام آج بھی کتب بینی کو اپنی ثقافت کا لازمی حصہ سمجھتی ہیں۔ وہاں کی لائبریریاں دن رات آباد رہتی ہیں، کتاب میلوں میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں، اور ہر گھر میں ذاتی کتب خانے بنائے جاتے ہیں۔

اسی طرح ارسطو، جو مغربی فلسفے کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں، اپنی کتاب "میٹافزکس" میں کہتے ہیں: "انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کا علم ہے، اور سب سے بڑی کمزوری اس کا جہل ہے۔" ان کے استاد سقراط کا قول تھا: "میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا، لیکن میرا یہی شعور مجھے دوسروں سے برتر بناتا ہے۔" یہی وہ ذہنی رویہ ہے جو کتاب کے ذریعے پروان چڑھتا ہے۔

اسلامی تہذیب میں، جہاں کتاب کو روحانی اور علمی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا، وہیں آسمانی کتابوں نے بھی انسانیت کی رہنمائی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تورات، زبور، انجیل، اور پھر قرآن مجید— ہر کتاب نے اپنے وقت کے لوگوں کو علم و حکمت کی روشنی فراہم کی۔ نبی اکرم ﷺ نے کتاب کے ذریعے علم کو عام کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی، یہاں تک کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو رہائی کے بدلے میں مسلمانوں کو تعلیم دینے کا حکم دیا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ ایک امت کی ترقی کا راز ہتھیاروں میں نہیں، بلکہ علم اور کتاب میں پوشیدہ ہے۔

آج جب ہم جدید دنیا کی طرف نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی سرمایہ اس علمی روایت کا تسلسل نظر آتا ہے۔ انہوں نے ہزاروں موضوعات پر کتب تحریر کیں جو نہ صرف اسلامی تعلیمات بلکہ جدید دور کے فکری چیلنجز کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ ان کی تصانیف، جیسے "قرآنی انسائیکلوپیڈیا"، "سیرۃ الرسول ﷺ"، "اسلام میں انسانی حقوق"، "المنہاج السوی"، اور "عرفان القرآن"، ہر اس طالب علم کے لیے ایک علمی خزانہ ہیں جو دین، فلسفہ، سائنس، اور اخلاقیات پر گہری نظر رکھنا چاہتا ہے۔

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تحت شائع ہونے والی یہ کتب صرف علمی ذخیرہ نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک بھی ہیں جو نوجوان نسل کو تحقیق و تدبر کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اگر ہم تاریخ کے دیگر عظیم مصنفین پر نظر ڈالیں تو امام ابن تیمیہ، علامہ ابن رشد، جابر بن حیان، الفارابی، ابن سینا، اور مولانا روم جیسے مفکرین کا علمی کام آج بھی دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے۔

کتاب دوستی کو اپنا کر ہی علم کی وسعت، فصاحت و بلاغت، تحمل و بردباری اور روشن خیالی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔ جو قومیں مطالعے کی عادت ترک کر دیتی ہیں، وہ زوال کی گہری کھائی میں جا گرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام آج بھی کتب بینی کو اپنی ثقافت کا لازمی حصہ سمجھتی ہیں۔ وہاں کی لائبریریاں دن رات آباد رہتی ہیں، کتاب میلوں میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں، اور ہر گھر میں ذاتی کتب خانے بنائے جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں، بدقسمتی سے، یہ رجحان کمزور ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل تفریح نے کتابوں سے رشتہ کمزور کر دیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم صرف سطحی معلومات اور فوری تفریح پر انحصار کر کے فکری طور پر مضبوط ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو ہمیں دوبارہ کتاب کی طرف لوٹنا ہوگا۔

یہ دن ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں مطالعے کو ایک لازمی عمل بنائیں۔ ہم خود سے سوال کریں: ہم نے آخری بار کون سی کتاب پڑھی تھی؟ کیا ہم اپنی نئی نسل کو کتابوں کی محبت منتقل کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے گھروں میں ایسا ماحول بنایا ہے جہاں کتابیں عام ہوں؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل فکری طور پر مضبوط ہو، تو ہمیں انہیں کتاب سے جوڑنا ہوگا۔

آئیے، آج کے دن ایک وعدہ کریں کہ ہم کم از کم ہر ماہ ایک اچھی کتاب ضرور پڑھیں گے، اپنی لائبریری میں اضافہ کریں گے، اور اپنے دوستوں کو بھی اس علمی سفر میں شریک کریں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک مہذب، باوقار اور ترقی یافتہ قوم کی منزل تک لے جا سکتا ہے۔