شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

حصہ اوّل

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِـلْاَذْقَانِ سُجَّدًا. وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا. وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا.

(الاسراء، 17: 107-109)

’’بے شک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ (کتاب) عطا کیا گیا تھا جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں: ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ اور ٹھوڑیوں کے بل گریہ و زاری کرتے ہوئے گر جاتے ہیں، اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں مزید اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔‘‘

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے اس امر کو واضح فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو علمِ صحیح، عقیدۂ صحیح اور معرفتِ صحیحہ پر قائم ہوتے ہیں، وہ اللہ کی محبت میں کثرت سے سجدہ ریزیاں اور آہ و بکاء کرنے والے ہوتے ہیں۔ جس قدر ان کے سجدوں اور آہ و بکاء میں اضافہ ہوتا ہے تو اسی قدر معرفتِ الہٰی ان پر آشکار ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ عشق و محبتِ الہٰی میں آہ و بکاء کرنا ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ کا باعث ہوتا چلا جاتا ہے۔

اللہ رب العزت کی محبت اور اس کی توحید کی وادی میں داخل ہونے سے قبل لازم ہے کہ ہم خود کو اس زمانے، دنیا اور دنیا کی محبوب و مرغوب وادیوں سے نکالیں جن میں ہم زندگی کے شب و روز بسر کرتے ہیں۔ اس دنیا سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کے دھیان سے جہاں تک ممکن ہو نکل جائیں۔ جب ہم حسبِ توفیق یہ کیفیت اپنے اوپر وارد کرلیں گے تو اس کی محبت اور توحید کے معانی و معارف کی کچھ تجلیات اور واردات ہمارے قلب و باطن پر وارد ہوں گی۔

یاد رکھیں! کہ جسے لذتِ توحید نصیب ہوجاتی ہے، اسے گریہ و زاری اور آہ و بکاء نصیب ہوتی ہے اور جسے بکاء اور گریہ نصیب نہیں ہوتا، جس کی آنکھیں نہیں بھیگتیں تو وہ لذتِ توحید سے بھی ناآشنا رہتا ہے۔

بکاء کی اقسام

بکاء کی تین اقسام ہیں:

  1. بکاء العین (آنکھوں کا رونا)
  2. بکاء القلب (دل کا رونا)
  3. بکاء السِر (باطن و روح کا رونا)

افسوس! کہ ہم تو ایسے لوگ ہیں کہ بکاء العین سے بھی محروم ہیں۔ ہماری تو آنکھیں بھی نہیں روتیں۔ ہمارے دل اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ صرف آنکھوں کا رونا بھی چھن گیا ہے۔ اس دنیا نے آنکھوں کا رونا بھی چھین لیا ہے۔ عاشق اور عارف لوگ تو آنکھوں کے رونے کو رونا ہی نہیں سمجھتے، وہ تو کم سے کم بکاء القلب (دل کے رونے) کو رونا جانتے ہیں، اس لیے کہ دل کا گریہ ہی اصل میں عشق کا گریہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر بکاء السِر یعنی روح کا گریہ نصیب ہوتا ہے۔

اسباب البکاء

رونے اور گریہ و زاری کے چھ اسباب ہیں:

1۔ بکاء الخطیئہ

رونے کا پہلا سبب ’’الخطیئہ‘‘ ہے۔ انسان نے گناہ، خطائیں، نافرمانیاں اور لغزشیں کیں، پھر اسے احساس ہوگیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے تو وہ اپنی خطائوں کو یاد کرکے روتا ہے۔ یہ بکاء الخطیئہ ہے۔

2۔ بکاء الخوف

گریہ و زاری اور رونے کا دوسرا سبب ’’خوف‘‘ ہے۔ یہ رونا خطائوں کے احساس کے ساتھ جڑا ہوا ہے یا ایسے لوگوں کا حال ہے جو اللہ رب العزت کی ہیبت اور جلال پر خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر وہ عدل کر دے تو کوئی بخشا نہ جائے۔ پس یہ لوگ اس بات پر اللہ تعالیٰ سے خوفزدہ اور ڈرے ہوتے ہیں کہ اس دن میرا کیا ہوگا جب میرے اعمال تولے جائیں گے۔۔۔ وہ دن جب پل صراط سے گزر رہے ہوں گے، کوئی سفارشی، رشتہ دار، بہن بھائی اور مال و دولت کام نہ آئے گی تو میرا کیا ہوگا۔۔۔؟ اس دن تو رائی کے دانے کے برابر عمل بھی تولا جائے گا اور مخفی چیزیں بھی نامۂ اعمال میں رکھ دی جائیں گی تو میرا کیا ہوگا۔۔۔؟ قبر میں جائوں گا، سوال ہوں گے تو کیا ہوگا، جواب دے پائوں گا یا نہیں۔۔۔؟ آقا علیہ السلام  کو پہچان پائوں گا یا نہیں۔۔۔؟ قبر کے مشکل مرحلے کیسے عبور ہوں گے۔۔۔؟ پس گناہوں اور خطائوں کو یاد کرکے نہیں بلکہ خوفِ الہٰی، خوفِ آخرت اور خوفِ قبر میں رونا ’’بکاء الخوف‘‘ ہے۔

3۔ بکاء الفقد

’’بکاء الخوف‘‘ سے اعلیٰ درجہ بکاء الفقد ہے۔ اللہ رب العزت کے کسی احسان، کرم اور نعمت سے بندہ محروم ہوجائے اور حاصل نعمت اس سے چھن جائے تو اس پر بندے کو جو رونا آئے اُسے بکاء الفقد کہتے ہیں۔ مثلاً: ہمیں عبادت، تلاوت قرآن اور نماز میں لذت و کیفیت ملتی تھی، محافل میں بیٹھتے تو ایک کیفیت ہوتی تھی، اس کیفیت سے ہم یہ محسوس کرتے تھے کہ جیسے بوجھ اتر رہا ہے، ہم عالمِ بالا کے ساتھ جڑ رہے ہیں اور گناہوں کے بوجھ سے نجات مل رہی ہے لیکن جب ہم حرص، لالچ، تکبر، رعونت، خبثِ باطن، حسد، بغض، عناد، عداوت، چغلی، دوہرے پن، دوغلے پن اور نفسِ امارہ کی ہلاکتوں میں ڈوبے تو یہ کیفیات چھن گئیں، یاد کی وہ لذتیں اور فرحتیں نہ رہیں، باطن میں ملنے والی کیفیات اور حلاوتیں نہ رہیں، الغرض جب اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی کوئی نعمت یا کیفیت چھن جائے تو نعمت کے چھن جانے کا احساس کرکے رونا اور اس کی بارگاہ میں عرض کرنا: ’’مولیٰ! میری وہ کیفیت نہیں رہی، مجھے معاف کردے اور میری کیفیت مجھے لوٹادے۔ مولیٰ! جب تیرے حضور سجدہ ریز ہوتا تھا اور تیرا ذکر کرتا تھا تو حلاوت اور کیف و سرور ملتا تھا، اب وہ کیفیات نہیں ملتیں،‘‘ پس اس احساس پر رونا ’’بکاء الفقد‘‘ ہے۔

کیفیات سے محرومی کیوں؟

یاد رکھیں! کہ ہم اللہ کی عبادات، روحانیت اور خدمتِ دین کے جملہ اعمال سرانجام دینے کے جوں جوں عادی ہوتے چلے جاتے ہیں توں توں محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے، ورنہ کیفیات چلی جاتی ہیں۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ کوئی شخص شوگر، بلڈ پریشر، نیند کا نہ آنا یا کسی اور تکلیف کا مریض ہے تو شروع شروع میں میڈیسن کی ایک ہلکی سی خوراک (Dose) کے ساتھ بھی کام چل جاتا ہے۔ لیکن جب یہ میڈیسن لیتے لیتے کئی سال گزر جاتے ہیں اور بندے کا جسم اس کا عادی ہوجاتا ہے تو پھر وہ خوراک (Dose) بڑھانی پڑتی ہے یا تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ کئی لوگ عرصہ دراز سے نیند کے لیے گولیاں لیتے ہیں اور انھیں اس خوراک (Dose) سے نیند آجاتی ہے مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ خوراک (Dose) تبدیل کرنی پڑتی ہے تب جاکر نیند آتی ہے۔ جس خوراک (Dose) سے پہلے نیند آتی تھی، اب اس سے نیند نہیں آتی۔ جتنی خوراک (Dose) سے پہلے بلڈ پریشر کنٹرول ہوتا تھا، اب کنٹرول نہیں ہوتا۔ جس خوراک (Dose) سے پہلے کولیسٹرول لیول ٹھیک رہتا تھا، اب نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں ڈاکٹرز خوراک (Dose) بڑھاتے ہیں۔ پہلے خوراک (Dose) دن کے ایک وقت دیتے تھے، اب دو وقت دیتے ہیں، حتی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شوگر کے مریض کو انسولین دن میں تین تین مرتبہ دینے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ پس ہم اپنی جسمانی صحت کے لیے عمر کے ساتھ ساتھ خوراک (Dose) بڑھاتے ہیں تو تب جاکے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جو شروع میں تھوڑی سی خوراک (Dose) سے حاصل ہوگئے تھے۔

منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان جب منہاج القرآن میں داخل ہوئے تھے، یہ محافل اور مجالس شروع کی تھیں، صحبتوں میں بیٹھنا، ذکر سننا، معرفت لینا، دعوت دینا اور نیکی کے کام میں مشغول ہوتے تھے تو اس وقت تھوڑی سی خوراک (Dose) بھی ان پر کیفیت طاری کردیتی تھی اور دعوت کے کام میں لذت آتی تھی۔ مگر جیسے جیسے تحریک کے ساتھ رفاقت کا وقت بڑھتا گیا ویسے ویسے طبیعت اس ماحول کی عادی ہوگئی۔ اس صورتِ حال میں نفس اور شیطان دیکھتے ہیں کہ اس بندے کو تو دین میں حلاوت، لذت اور کیفیت مل رہی ہے اور یہ آگے بڑھتا جارہا ہے تو شیطان کے ساتھ نفس بھی اسے اس راستے سے بہکانے کے لیے اپنے طریقے بڑھاتا ہے۔ نفس اور شیطان کا حملہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ اس روحانی ماحول کا عادی ہونے کے سبب ان اعمال کو عام معمول میں لے لیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ’’ساری باتیں نئے آنے والوں کے لیے ہیں، ہم تو بڑے پرانے لوگ ہیں، ہم تو 80ء کے زمانے سے تحریک کے ساتھ ہیں، ہم نے یہ خطابات سن رکھے ہیں، کتب پڑھ رکھی ہیں، ہم نے بڑی شب بیداریاں کی ہیں، ہم بہت سے حلقاتِ ذکر میں شامل ہوئے ہیں، ہم بہت روئے ہیں، لہذا اب یہ چیزیں ہمارے لیے نہیں بلکہ اوروں کے لیے ہیں۔‘‘

یاد رکھیں! کہ یہ سب کچھ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اب ہم محفوظ ہوگئے ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ تمام معمولات زندگی بھر ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے تو خیر محفوظ رہے گی۔

نفس اور شیاطین کے حملوں کی مثال لوہے کے سپرنگ کی طرح ہے کہ اس کو جتنا دباکر رکھیں گے، اتنا ہی یہ دبا رہے گا۔ سارا دن بھی دباکر کھڑے رہیں تو یہ دبا رہے گا مگر جس لمحے بندہ تھکا اور اس نے تھوڑا سا دبائو کم کیا تو وہ سپرنگ اسی قدر اوپر ہوجائے گا اور اگر ہاتھ اٹھایا تو وہ سپرنگ پہلی جگہ پر کھڑا ہوجائے گا۔ نفس کی کیفیت اس لوہے کے سپرنگ کی طرح ہے کہ اس کا زور کبھی ختم نہیں ہوتا۔

ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ ہم ایک عرصہ دعوت، تربیت یا انفرادی احوال کی اصلاح کے بعد اب یہ توقع کرتے ہیں کہ اب یہ کیفیات ہم میں مستقلاً آگئی ہیں، لہذا ہمیں اب یہ کیفیات دوسروں میں پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ یہ سوچ کر ہم اپنا ہاتھ سپرنگ سے اٹھا لیتے ہیں، جونہی ہاتھ سپرنگ سے اٹھاتے ہیں یعنی نفس کی طرف سے غافل ہوتے ہیں تو اسی لمحہ وہ سپرنگ اسی جگہ پر واپس آجاتا ہے جہاں سے اس کو دبایا تھا۔ نفس کی شہوات ایسی چیز نہیں کہ دب کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں، اسی لیے اس کو نفس امارہ کہا گیا ہے۔

جوں جوں ہم نیکی میں آگے بڑھتے ہیں توں توں نفس اور شیطان اتحاد کرکے بڑی بڑی طاقتور تدبیریں بناتے رہتے ہیں۔ نفس اور شیطان کی تدبیر میں سے ایک تدبیر یہ ہے کہ وہ ہمارے اندر سے لذت، حلاوت اور کیفیات کو ختم کردیتے ہیں۔ جب اندر لذت و کیفیتِ عبادت نہ رہی، آنکھوں کا بھیگنا اور دل کا تڑپنا نہ رہا تو پھر عبادت، دعوت، تبلیغ، ذکر اور تلاوت کے عمل میں وہ ذوق و شوق نہیں رہتا۔ بالکل اسی طرح جیسے کھانا اگر لذیذ ہو تو زیادہ کھایا جاتا ہے اور اگر لذیذ نہ ہو تو تھوڑا کھاتے ہیں۔ اسی طرح جب نماز، روزے، دعوت، حلقۂ درود، مراقبے، ذکر، فکر اور مجلس میں لذت، کیفیت اور حلاوت نہ رہے تو بندے کی رغبت ان امور میں کم ہوجاتی ہے۔

روحانی کیفیات کو محفوظ کیونکر بنایا جائے؟

اپنی عبادت کی کثرت اور مشن کی خدمت کے طویل دورانیہ پر بندے کا نازاں ہوتے چلے جانا اصل میں نفس کا حملہ ہوتا ہے۔ ’’میں نے یہ یہ کیا اور ہم نے یہ یہ کیا،‘‘ یہ ’’میں میں‘‘ اور ’’ہم ہم‘‘ کرتے کرتے نفس ایک بڑا پہاڑ بن جاتا ہے۔ نفس کے ان حملوں کا دفاع عبادات، مشن کی خدمت اور معاملات کو احسن انداز سے مسلسل استقامت کے ساتھ کیے جانے سے ہی ممکن ہے۔ تلاوتِ قرآن کرنا، محافل میں آنا، خطابات سننا، کتب کا مطالعہ دراصل یہ تمام چیزیں روحانی میڈیسن ہیں، یہ لیتے رہیں گے تو ہر چیز کنٹرول میں رہے گی اور جس دن انھیں چھوڑا، بیماری دوبارہ ابھر کر سامنے آجائے گی۔

اس بات کو سمجھانے کے لیے میں اپنی مثال دیتا ہوں۔ میں بلڈ پریشر اور دل کی میڈیسن 1982ء سے لے رہا ہوں، آج 40 سال ہوچکے ہیں۔ میڈیسن کے بلاناغہ استعمال کی وجہ سے بلڈپریشر، کولیسٹرول اور دل کی باقی کنڈیشن ٹھیک رہتی ہے۔ اب اگر میں یہ سمجھوں کہ میں نے چالیس سال میڈیسنز لی ہیں، اب تک تو سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہوگا لہذا اب چھوڑ دوں تو یہ غلط ہوگا۔ اس لیے کہ جس دن میں یہ میڈیسن چھوڑوں گا، ایک ہفتے کے اندر اندر میرے تمام طبی مسائل دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔ اس لیے کہ وہ امراض اور تکالیف جو لانگ لائف چلتی ہیں تو ان کا علاج بھی لانگ لائف چلانا پڑتا ہے۔ یہ انفیکشن کی مانند نہیں ہیں کہ میڈیسن کی ایک خوراک (Dose) لی پانچ، دس دن کا کورس کیا اور انفیکشن ختم ہوگئی، نہیں، بلکہ یہ عمر بھر ساتھ رہنے والی ہوتی ہیں۔

اسی طرح نفس امارہ بھی عمر بھر ساتھ رہتا ہے۔ یہ روحانی و نفسانی امراض عمر بھر ساتھ رہتے ہیں، لہذا نہ صرف ان کی میڈیسن عمر بھر مسلسل استعمال کی جاتی ہے بلکہ اس کی خوراک (Dose) کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھانا اور تبدیل کرنا پڑتا ہے، تب یہ کارگر ہوتی ہیں۔ گزشتہ 40 سال میں ڈاکٹر نے کئی مرتبہ میری میڈیسنز کی مقدار بڑھائی بھی ہے اور میڈیسن تبدیل بھی کی ہے، اس لیے کہ ایک ہی میڈیسن مسلسل استعمال کرنے سے اثر کرنا چھوڑ جاتی ہیں۔ جب بندہ کسی ایک چیز کا عادی (Used to) ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر میڈیسن تبدیل کردیتا ہے۔

پس ناغہ بھی نہیں کرسکتے، Dose بھی بڑھاتے رہتے ہیں اور حسب ضرورت Dose کو بدلتے بھی رہتے ہیں۔ یہ تین چیزیں جو جسمانی دنیا میں ہوتی ہیں، اسی طرح کا نظام روحانی دنیا میں بھی ہے۔ جسمانی امراض کی صورت میں جسمانی میڈیسن اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ روحانی امراض کی صورت میں علاج اور میڈیسن بھی روحانی ہوگی مگر نظام ایک ہی ہوتا ہے۔ اس بات کا لحاظ نہ رکھنے کے سبب اکثر لوگ راہِ حق سے پھسل جاتے ہیں۔ سو سال کا طے کیا ہوا سفر بعض اوقات ایک ٹھوکر میں ختم ہوجاتا ہے۔ عبادات اور ان کے ذریعے روحانی کیفیات ایسی چیز نہیں کہ کسی نے تیس چالیس سال لگادیے اور اب اسے گارنٹی مل گئی ہے کہ جو چاہیں کرتے پھریں، محنت کریں یا نہ کریں، یہ سب محفوظ ہوگئے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ دین،شریعت، طریقت، تصوف، معرفت اور سلوک میں ایسا کوئی قاعدہ، ضابطہ اور اصول نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ نفس اور شیطان کے بہکاوے میں ہے اور یہ جہالت کے سواکچھ نہیں۔ زندگی میں اول دن سے آخر دن تک بندہ سو فیصد محتاج ہے، کبھی محفوظ نہیں ہے۔ سو فیصد صرف انبیاء کرام ہی محفوظ ہیں، اِن کے علاوہ کوئی معصوم نہیں۔ بقیہ جتنی محنت جاری رکھیں گے، اتنی ہی حفاظت اور اللہ کی مدد و نصرت ان کے شاملِ حال رہے گی۔

یہ بات اس مثال سے بھی سمجھ آجائے گی کہ ہم پنجگانہ نمازیں پڑھتے ہیں، اگر کوئی شخص یہ سوچ لے کہ میں نے چالیس پچاس سال نماز پڑھی ہے، اب مجھے ضرورت نہیں، اب چھوڑ دوں۔ تو کیا ایسا ممکن ہے؟ لازمی بات ہے کہ شریعت کا ایسا کوئی قاعدہ نہیں ہے، مرتے دم تک ہم پر نماز فرض ہے، جس دن نماز چھوڑیں گے، بے نمازی ہوجائیں گے۔ اب اگر کوئی کہے کہ میرے پچھلے پچاس سال کی نمازیں کہاں گئیں تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ہر روز کا ایک الگ عمل ہے، پچھلے دن کی پانچ نمازیں اگلے دن کی تلافی نہیں کرسکتیں کہ اسے حساب کتاب میں ملالیں، ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ساٹھ سال روزے رکھے اور پھر کہے کہ اب مجھے ضرورت نہیں ہے اور میرے پچھلے روزے میرے آئندہ روزے نہ رکھنے کے عمل کی تلافی کریں تو ایسا نہیں ہوتا۔ اگر زندگی میں پچاس ساٹھ سال وضو سے رہیں اور اس کے بعد کہیں کہ بہت وضو کرلیا، طہارت کی زندگی گزاری اب چند ماہ ٹھنڈا موسم ہے، بغیر وضو کے نماز پڑھ لیا کروں، پچھلا وضو کافی رہے گا تو یہ نہیں ہوسکتا۔ پچھلا وضو تو ایک دن بھی کام نہیں دے گا۔

کوئی فرض، واجب، طاعت، مستحب، سنت یا نیکی کا عمل آئندہ کی غفلت کی تلافی نہیں کرتا بلکہ ہمیں یہ عمل تسلسل سے جاری رکھنا ہوتا ہے۔ جن چیزوں کا ایک بار کرنا کافی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو پہلے مقرر کردیا ہے۔ روزے سال میں ایک بار کافی ہیں مگر ایک رمضان دوسرے رمضان کی تلافی نہیں کرسکتا۔ حج زندگی میں ایک بار ہے، دوسرا کوئی عمل اس کی فرضیت اور وجوب کو ختم نہیں کرسکتا۔ لہذا ہر عمل اپنی جگہ ایک مستقل اور منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اس عمل کو اس کے وقت پر سرانجام دینے سے ہی اس دن کے احوال کی حفاظت ممکن ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس عمل کو عمر بھر کے لیے رکھا ہے تو عمر بھر وہ نیکی، تقویٰ، نفل، ذکر اور روزانہ کی طاعت بجا لانی ہوگی۔

یہی پوزیشن انسان کے روحانی احوال کی ہے۔ دینی تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں میں کام کرنے والے لوگ، دین کی راہ پر چلنے والے اور دین کی دعوت و تبلیغ کرنے والے لوگوں کو خاص طور پر شیطان اسی انداز سے پھسلاتا ہے۔ ان لوگوں کو خیال آتا ہے کہ ہم نے زندگی کا اتنا زمانہ نیکی کے فروغ اور دین کی دعوت کے لیے گزارا۔ جونہی یہ خیال ان کے قلب و ذہن میں اترتا ہے، اسی لمحہ وہ نفس کے چنگل میں چلے جاتے ہیں۔

بندے میں جب غفلت آتی ہے تو نفسانی کیفیت بدل جاتی ہے اور بندہ اپنا علاج چھوڑ دیتا ہے۔ وہ باقاعدگی سے روحانی خوراک نہیںلیتا، صحبت، تلاوت و ذکر، مراقبے اور محاسبے اور تقویٰ کو ترک کرتا ہے۔ اس کے اندر جو تغیرات رونما ہونا شروع ہوتے ہیں، وہ ان کا ادراک نہیں کرتا۔ غفلت، کبر اور رعونت اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً رویے خراب ہوجاتے ہیں، عاجزی و انکساری، تواضع، خشوع و خضوع اور عبادت میں بھی استحکام نہیں رہتا۔ کیا اس صورت حال میں پچھلے پچاس ساٹھ سال جو دین کی خدمت میں اخلاص اور صدقِ دل سے گزارے، وہ کام دیں گے؟ نہیں، بلکہ ہر روز کا ایک الگ حساب اور ایک الگ اثر ہے۔

اسی لیے صوفیاء، اولیاء اور عرفاء کہتے ہیں کہ دماغ کے دروازے پر محافظ بن کر کھڑے ہونا چاہیے تاکہ ایسا کوئی خیال دل میں داخل نہ ہونے پائے۔ اگر کوئی خیال جو خیر سے ہٹ کر ہے اور شر کی طرف ہے، اخلاص سے دور ہے یا رعونت اپنی من مانی اور نفس کی طرف لے جانے والا ہے تو ایسے خیال کو دروازے سے باہر دھکا دے کر نکال دیں اور دل میں داخل ہی نہ ہونے دیں۔ اگر وہ خیال دل میں داخل ہوگیا تو پھروہ وہاں جگہ بنالے گا اور جم جائے گا۔ بعد ازاں یہ خیال عزم و ارادے میں ڈھل جائے گا اور بالآخر عمل میں بدلے گا تو سب کچھ برباد ہوجائے گا۔ پس اعمالِ حسنہ کی انجام دہی ایک ایسا عمل ہے جسے پوری زندگی جاری رکھنا پڑتا ہے۔ نہ صرف جاری رکھنا پڑتا ہے بلکہ خوراک کی مقدار بھی بڑھانا پڑتی ہے۔

یہ ساری بحث بکاء الفقد کے ذیل میں تھی کہ بکاء الفقد یہ ہے کہ بندہ محسوس کرے کہ میری کیا کیفیت کم ہورہی ہے۔ پس اس محرومی پر رونا اور اس کیفیت کے دوبارہ حصول کے لیے کوشاں ہونے کی توفیق طلب کرنے میں رونا بکاء الفقد ہے۔

4۔ بکاء الحیاء

بکاء کا چوتھا سبب ’’الحیاء‘‘ ہے۔ اس بکاء کا سبب یہ ہے کہ یہ رونا کیفیت کے کم ہونے پر نہیں، خطاء پر نہیں، خوف پر نہیں بلکہ حیاء کا رونا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کرم اور شفقت کا حیاء آجائے، اس کی مہربانیوں، عنایتوں اور بخششوں کا حیاء آجائے تو اس حیاء میں رونا بکاء الحیاء ہے اور یہ بڑے لوگوں کا کام ہے۔

5۔ بکاء الھیببۃ

بکاء کا پانچواں سبب الھیبۃ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بڑائی و عظمت اور اعلیٰ مقام کا تصور کرکے رونا ’’بکاء الھیبۃ‘‘ ہے۔

6۔ بکاء الشوق والمحبۃ

گریہ و زاری اور بکاء کا چھٹا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس سے ملاقات کے شوق میں رویا جائے۔ یعنی بندہ اس کی توحید کی لذت میں روتاہے اور اس عشق، شوق اور محبت میں روتا ہے کہ اس سے ملاقات کب ہوگی؟ یہ بکاء کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔

ذیل میں اسی بکاء الشوق والمحبۃ کے حوالے سے چند واقعات درج کیے جارہے ہیں، جن سے اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا گریہ و زاری کرنا کس سوچ اور ارادے کے تحت ہوتا ہے اور وہ کس طرح اِس گریہ و زاری اور بکاء کے ذریعے لذتِ توحید سے آشنا ہوتے ہیں:

1۔ حضرت شعیب علیہ السلام  اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق اور اس کی محبت میں اتنا روئے کہ آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ اللہ رب العزت نے بینائی لوٹا دی۔ آپ پھر روتے رہے، بینائی پھر چلی گئی، اللہ نے پھر لوٹا دی۔ آپ پھر روتے رہے، بینائی پھر چلی گئی، تین مرتبہ ایسا ہوا۔ کتب میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت نے وحی فرمائی اور پوچھا: اے شعیب! اگر تو تیری بکاء، گریہ و زاری کرنا اور رونا دوزخ کے عذاب کے خوف سے ہے تو میں تو تمہیں امان دے چکا ہوں۔ اگر یہ رونا جنت کی طلب میں ہے تو جنت تمہارے لیے واجب کرچکا ہوں تو پھر کیوں اس قدر روتے ہو؟ عرض کیا: باری تعالیٰ! یہ رونا دوزخ کے خوف اور جنت کی طلب میں نہیں ہے:

ولٰکن من الشوقی الی رؤیتک.

صرف تجھے دیکھنے کے شوق میں روتا ہوں کہ تجھے دیکھنا کب نصیب ہوگا؟ کب حجاب اٹھے گا اور تیرے حسنِ مطلق پر نگاہ پڑے گی؟ اللہ رب العزت نے وحی فرمائی: اے شعیب! یہ حق ہے کہ جو شخص میرا ارادہ کرتا ہے اور میرے شوق میں روتا ہے تو پھر اس کا میری ملاقات کے سواء کوئی اور علاج نہیں۔ میرے شوق میں رونے والوں کا علاج اسی دن ہوگا جس دن پردہ اٹھے گا اور وہ بلا حجاب میرا دیدار کریں گے۔

2۔ حضرت رابعہ بصریؒ فرماتی ہیں کہ میں دس سال اللہ تعالیٰ کے خوف میں روئی، اس کے بعد دس سال اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید کے لطف میں روئی اور دس سال صرف اس کے شوقِ ملاقات اور دیدار کی آرزو میں روئی کہ اس سے ملاقات کب ہوگی؟ ایک دفعہ سجدے میں رو رہی تھیں کہ سجدے سے سر اٹھایا تو اس زمانے کے عارفین میں سے ایک عارف کو اپنے پاس بیٹھے پایا۔ پوچھا: آپ کی کیا حاجت ہے، میرے پاس کیوں آئے ہیں؟ انہوںنے کہا: آپ کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔ حضرت رابعہ بصریؒ کی چیخ نکل گئی اور رو پڑیں، فرمانے لگیں: باری تعالیٰ تعجب ہے ان لوگوں پر جنہوں نے تجھے پہچان لیا ہے اور پھر بھی تیرے سوا کسی اور کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں اور تیرے سوا کسی اور کی خواہش رکھتے ہیں۔

بکاء کی یہ کیفیت توحید کی لذت کے سبب نصیب ہوتی ہے اور یہ شوق اور محبت میں انتہا کی وجہ سے مقدر بنتا ہے۔

3۔ حضرت فضیل ابن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کعبۃ اللہ کے طواف کے دوران میں نے ایک جوان شخص کو دیکھا جس کے چہرے کا رنگ زرد تھا، جسم نحیف تھا اور وہ کچھ ایسے گنگنا رہا تھا جیسے کوئی سرگوشی کرتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کے قریب ہوا کہ سنوں تو سہی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ میں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا:

’’الہٰی! اے میرے مالک! تجھ سے محبت و عشق کرنے والوں اور تیرے ساتھ مانوس ہوجانے والوں، تیرے عارف بندوں کے دل تیری بارگاہ سے جڑ چکے ہیں اور وہ تیرے تعلق میں راحت پاچکے ہیں، اب رہ گئے وہ لوگ جو ابھی نہ محب ہوئے، نہ عارف بنے مگر تیرے مشتاق ہوئے ہیں، ان کے دل میں ابھی چاہت کی چنگاری پیدا ہوئی ہے، ان کے دلوں میں تیری چاہت ہے، باری تعالیٰ! ان کی امید کو نہ کاٹنا، ان کی امید کو پورا کردے۔‘‘

وہ جوان یہی کہتا جاتاتھا اور زارو قطار روتا تھا۔ حضرت فضیل ابن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ اسی لمحہ میں نے آسمان سے یہ آواز سنی:

’’ اے اللہ کے دوست! تیرے رونے نے ساتوں آسمانوں کو رلا دیا ہے۔ تو رونا چھوڑ، جو تو نے مانگا تجھے عطا کردیا گیا۔ ‘‘

(جاری ہے)