عبادات کی بحسن و خوبی ادائیگی

ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ

سیرت الرسول ﷺ کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ عام چھوٹی چھوٹی چیزوں اور غیر ضروری امور میں بھی خوبصورتی کو پسند فرماتے اور ہر عمل کو احسن انداز میں نہ صرف خود سرانجام دیتے بلکہ صحابہ کرامl کو ہر عمل میں خوبصورتی اور وقار کے اہتمام کی تلقین کرتے۔ جملہ دنیوی معاملات کی بصورتِ احسن انجام دہی کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ عبادات کی ادائیگی میں بھی اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے رکوع، سجود اور نماز کے دیگر واجبات و مستحبات اور خشوع و خضوع کا اہتمام کرتے ہوئے نماز کو خوبصورت بنانے کا حکم دیا ہے۔

جب دین و دنیا کا کوئی بھی کام اس کے مطلوبہ تقاضوں کو نظر انداز کرکے محض جان چھڑانے، خانہ پری کرنے اور سر کا بوجھ ہلکا کرنے کے انداز میں سرانجام دینا نبی اکرم ﷺ کو قطعاً پسند نہ تھا تو نماز جیسی عبادت میں یہ رویہ آپ ﷺ کو کیسے برداشت ہوسکتا تھا۔ ذیل میں عبادات کی بحسن و خوبی انجام دہی کے حوالے سے آپ ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ سے چند روشن مثالیں نذرِ قارئین ہیں:

1۔ صفوں کی درستگی۔ نماز کی خوبصورتی

حکمِ نبوی کے مطابق باجماعت نماز میں ایک امام کی اقتداء میں تمام نمازیوں/ مقتدیوں (جن کی تعداد دو تین سے لے کر سیکڑوں ہزاروں لاکھوں بھی ہوسکتی ہے) کا قیام، پھر امام کی پیروی میں ہی رکوع، قومہ، سجود، تشہد وغیرہ۔ جہاں ایک نظم و ضبط اور دلکش نظارہ پیش کرتا اور کئی اجتماعی معاشرتی اور اخلاقی فوائد و تربیت کا ذریعہ ہے وہاں یہ صف بندی اور صفوں کی درستگی ظاہری اعتبار سے ایک حسن اور خوبصورتی کا مظہرِ اتم بھی ہے۔ اسی وجہ سے نبی رحمت ﷺ نے امام کی پیروی اور اس کی مخالفت نہ کرنے کے حکم میں یہ بھی ارشاد فرمایا:

واقیموا الصف فی الصلوٰة فان اقامة الصف من حسن الصلوٰة.

(بخاری، الجامع لصحیح، کتاب الاذان باب اقامة الصف من تمام الصلوة، 1: 100)

’’اور نماز (باجماعت) میں صف کو سیدھا رکھو، بے شک صف کی درستگی نماز کی خوبصورتی میں سے ہے۔‘‘

جبکہ دوسری روایت میں صفوں کی درستگی کو (من تمام الصلوٰۃ) نماز کے اِتمام کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے۔ (احمد، المسند، 1387) اس خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے آپ ﷺ نے متعدد احادیث میں باجماعت نماز کے وقت صفوں کو سیدھا اور درست رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی یا اس چیز کا اہتمام نہ کرنے کے نقصان، انجام اور نتیجہ سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔ چنانچہ جلیل القدر صحابی حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

کان رسول الله ﷺ یمسح منا کبنا فی الصلوٰة ویقول استووا، ولا تختلفوا، فتختلف قلوبکم.

(مسلم، الصحیح، کتاب الصلوة، باب تسویة الصفوف، 1: 181)

’’اللہ کے رسول ﷺ ہمارے کندھوں کو چھوتے اور فرمایا کرتے تھے: برابر سیدھے کھڑے ہو اور کجی اختیار نہ کرو، ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔‘‘

اسی طرح پہلی صف مکمل کیے بغیر دوسری میں کھڑے ہونے سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ اپنے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس (مسجد میں) پہنچا تو آپ ﷺ اس وقت رکوع میں تھے، میں بھی (رکعت پانے کی تمنا میں) صف کے پیچھے ہی (نماز کی نیت کرکے) رکوع میں چلا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صف میں آکر مل گیا۔ نماز کے بعد میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنا یہ ماجرا بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

زادک الله حرصاً ولاتعد.

(بخاری، الصحیح، کتاب الاذان، باب اذا رکع دون الصف، 1: 108)

’’اللہ تمہاری (نیکی اور عبادت میں) اس حرص میں اضافہ فرمائے مگر آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘

مذکورہ روایت اور اس قسم کی دوسری روایات سے استدلال کرتے ہوئے بعض فقہاء نے صفوں سے پیچھے اکیلے کھڑا ہونا مکروہ قرار دیا ہے جبکہ بعض نے اعادے کا حکم دیا ہے۔ البتہ اگر اگلی صف میں خالی جگہ نہ ہو تو مکروہ نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت وہ معذور ہوگا لہذا ضرورۃ اس کا اکیلے کھڑا ہونا لازم ہوگا اور مناسب ہے کہ اگر اگلی صف میں کوئی خالی جگہ نہ ہو تو کسی دوسرے آنے والے شخص کا انتظار کرے تاکہ وہ اس کے ساتھ مل کر صف بناسکے لیکن اگر کوئی آنے والا شخص نہ ہو اور اسے رکعت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اگلی صف میں سے کسی ایسے شخص کو پیچھے کھینچ لے جو صاحبِ علم اور بااخلاق ہو تاکہ وہ اس سے الجھ نہ پڑے اور اگر صف میں کوئی ایسا آدمی نظر نہ آئے تو اکیلا ہی صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے۔

(ترمذی، جامع الترمذی، باب ماجاء فی الصلوة خلف الصف وحده، 1: 156، رقم: 200۔211)

2۔ نماز کو خوبصورت بنانے کا حکم

احادیثِ مبارکہ میں پورے اطمینان و سکون سے نماز پڑھنے کی تاکید و تلقین کی گئی ہے کہ نماز کے دوران خشوع و خضوع اور اللہ کی طرف پوری توجہ چونکہ قبولیتِ نماز کی شرط ہے اور یہ ایک قلبی فعل اور باطنی کیفیت ہے جسے ناپا اور تولا نہیں جاسکتا۔ اس لیے ارکانِ نماز کی ادائیگی میں وقار، سکون اور اطمینان کے اہتمام کو جسے فقہاء کی اصطلاح میں ’’تعدیلِ ارکان‘‘ کہا جاتا ہے، خشوع و خضوع کا قائم مقام قرار دیتے ہوئے قبولیتِ نماز کی شرط قرار دیا گیا ہے اور یہ شریعت کا مستقل قاعدہ و ضابطہ ہے کہ جو امر کسی حکمِ شرعی کا ذریعہ و سبب ہو تو اس کا حکم وہی ہوگا جو اس حکمِ شرعی کا ہوتا ہے۔

نماز میں رکوع، سجود اور دیگر ارکان کی جان چھڑانے اور سر سے بوجھ اتارنے والے انداز میں ادائیگی اور مذکورہ سنت طریقہ یا ہدایتِ نبوی کے مطابق پوری طرح رکوع و سجود نہ کرنا نماز کی مشقت اٹھانے کے باوجود نماز نہ پڑھنے کے مترادف (فاسد) ہے۔

3۔ لمبی نماز پڑھانے پر حضور ﷺ کا اظہارِ ناراضگی

کسی کام میں صرف اپنے ذوق، اپنی پسند، اپنے مزاج اور اپنی چاہت و خواہش کو مدنظر رکھنا اور اس روش کے باعث دوسرے لوگوں کو مشقت اور تنگی میں ڈالنا یا ان کے لیے مشکل پیدا کرنا بھی یقینا اچھے اور احسن عمل کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لیے نبی رحمت ﷺ نے ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اسلام کے اندر نماز کی جو اہمیت، تاکید اور عظمت و شان ہے، وہ کسی بھی مسلمان پر مخفی نہیں۔ اس اہم عبادت کے اندر اللہ کریم نے جو دینی، دنیوی، معاشرتی، اخروی اور روحانی فوائد و برکات رکھے ہیں، وہ بھی اہلِ علم جانتے ہیں مگر اس کے باوجود اتنی بڑی ضروری عبادت میں بھی نبی رحمت ﷺ نے احسن انداز کی تعلیم دیتے ہوئے لوگوں کی لازمی حاجات اور بشری کمزوریوں کو مد نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

اذا ام (او صلی) احدکم الناس فلیخفف فان فیهم الصغیر والکبیر والضعیف والمریض فاذا صلی وحده فلیصل کیف شاء.

(بخاری، الصحیح، کتاب الاذان، باب اذا صلی لنفسه فلیطول ماشاء، 1: 97)

’’جب تم میں سے کوئی ایک لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پھلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں بچے، بوڑھے، کمزور اور مریض لوگ ہوتے ہیں، ہاں جب اکیلے پڑھے تو جس طرح اس کا جی چاہے پڑھے۔‘‘

اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب مجھے یمن بھیجا تو بطورِ خاص ہدایت فرمائی کہ اے معاذ! جب سردی کا موسم ہو تو فجر کی نماز اندھیرے (اول وقت) میں پڑھایا کرنا اور اس میں اتنی ہی لمبی قرأت کرنا جتنی سننے کی نمازیوں میں طاقت ہو اور ان کی برداشت سے زیادہ لمبی قرأت کرکے نمازیوں کو اکتاہٹ میں مبتلا نہ کردینا پھر جب گرمی کا موسم آئے تو فجر کی نماز اچھی طرح روشنی آنے پر پڑھانا کیونکہ گرمیوں میں رات چھوٹی ہوتی ہے اور لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں، لہذا انہیں اتنی مہلت ضرور دینا کہ وہ جماعت میں شامل ہوسکیں۔

(اصبهانی، ابوالشیخ عبدالله بن محمد بن جعفر بن حیان، اخلاق النبی و آدابه، ص: 102)

زائرین کی حاجات کے سلسلے میں آپ ﷺ کی فکر مندی اور ان کے فوری طور پر پورا کرنے کے اہتمام کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ مستقل معمول تھا کہ ’’اگر کوئی آدمی بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوتا اور آپ ﷺ اس وقت نماز میں مشغول ہوتے تو اس کی آمد پر اپنی (محبوب ترین چیز) نماز کو مختصر فرمادیتے اور آنے والے سے اس کی حاجت دریافت کرتے۔ جب اس کی حاجت سے فارغ ہوجاتے تو دوبارہ نماز کی نیت باندھ لیتے۔

(حلبی، سیرت حلبیه، 3: 449)

4۔ جماعت میں سکون و اطمینان سے شامل ہونے کا حکم

کسی بھی کام میں جلد بازی، ہنگامہ آرائی اور دوڑ بھاگ کر کے انجام دہی سے وہ کام تسلی بخش نہیں ہوتا۔ نماز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جماعت ہورہی ہو اور امام رکوع میں چلا جائے تو بعض لوگ دوڑ کر رکعت پالینے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی رحمت ﷺ نے اس موقع پر بھی اطمینان و سکون کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی اور دوڑ کر شامل ہونے سے منع فرمایا ہے۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (آپ کی اقتداء میں) نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ ﷺ نے لوگوں کے تیز چلنے، حرکت کرنے اور ان کے بولنے کی آواز سنی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو اس آواز کی وجہ پوچھی۔ صحابہ نے عرض کیا: ہم جماعت میں شامل ہونے کے لیے جلدی کررہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، جب نماز کے لیے آئو تو تمہارے اوپر سکون سے چلنا لازم ہے۔ اس طریقے سے جو رکعتیں پالو، وہ پڑھ لو اور جو رکعت رہ گئی، اسے (سلام کے بعد) پورا کرلو۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الاذان، باب قول الرجل فاتتنا الصلوة، 1: 88)

5۔ پیشاب روک کر نماز نہ پڑھنے کی ہدایت

پیشاب و پاخانہ کی حاجت کے وقت انسان جتنی ذہنی کوفت، قلق، پریشانی اور جسمانی تکلیف محسوس کرتا ہے، وہ کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ یقینا اسی لیے معلم انسانیت نے قضائے حاجت کے بعد اس ذہنی و بدنی پریشانی کے دور ہونے اور راحت و سکون ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ آپ ﷺ جب بیت الخلاء سے باہر تشریف لائے تو فرماتے: غفرانک ’’اے اللہ میں تجھ سے اس نعمت پر کماحقہ شکر ادا نہ کرسکنے کی کوتاہی پر مغفرت چاہتا ہوں۔‘‘

(ابودائود، السنن، کتاب الطهارة، باب مایقول الرجل اذا خرج من الخلاء، 1: 16، رقم: 30)

قضائے حاجت کے تقاضا کی صورت میں نماز پڑھنے کے دوران مطلوبہ خشوع و خضوع، اطمینان، سکون اور توجہ الی اللہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔ اس لیے نبی رحمت ﷺ نے نماز سے پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہونے کی تلقین فرمائی ہے جو اعمال میں حُسن پیدا کرنے اور انھیں احسن انداز میں انجام دینے کی ایک صورت ہے تاکہ آدمی اطمینان و سکون سے نماز پڑھ سکے۔

عبداللہ بن محمد کا کہنا ہے کہ ہم لوگ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ پاس تھے کہ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس کھانا لایا گیا۔ اس وقت قاسم (بن محمد) نماز پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کھانے کی موجودگی میں (جبکہ بھوک لگی ہو) آدمی نماز نہ پڑھے۔ اسی طرح اس وقت بھی نماز نہ پڑھے جب وہ پیشاب و پاخانہ کو روکے ہوئے ہو۔

(ابودائود، السنن، کتاب الطهارة، باب یصلی الرجل و هو حاقن، 1: 23، رقم: 88)

6۔ وعظ و عبادت میں لوگوں کی نشاطِ طبع کا لحاظ

ایک انسانی معاشرے میں چھوٹے بڑے لوگوں کو مسلسل وعظ و نصیحت اور تذکیر کی ضرورت، اہمیت اور افادیت چنداں محتاجِ بیان نہیں۔ یہی وعظ و نصیحت ہے جو اگر پیشہ وارانہ کی بجائے اخلاصِ نیت اور سامعین کی سچی خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ سے ہو تو پتھر دل بھی موم ہوجاتے اور اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

حضور اکرم ﷺ کی اسی مخلصانہ، خیر خواہانہ، ہمدردانہ اور درد و غم اور فکرِ امت میں ڈوبی ہوئی مجالسِ وعظ نے ہی صحابہ کرامl کی زندگیوں میں انقلاب بپا کیا تھا اور انہیں بتوں کے آستانوں سے ہٹا کر رب کے آستانے پر جھکادیا تھا اور معصیت، جہالت اور گمراہی سے ہٹا کر راہِ راست اور آسمانِ ہدایت کا ستارہ بنادیا تھا۔

وعظِ نبوی کی اتنی اہمیت اور اتنی افادیت کے باوجود نبی اکرم ﷺ روزانہ وعظ نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ مجلسِ وعظ کبھی کبھار ہوتی تھی۔ یہ محض اس لیے تھا کہ لوگ روزانہ وعظ سن کر کہیں ملول خاطر نہ ہوجائیں۔ کیونکہ اصولی اور طبعی لحاظ سے عبادت ہو یا حصولِ علم دونوں کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس کے لیے ہشاش بشاش اور تازہ دم ہو اور اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں عبادت اور حصولِ علم کا خاطر خواہ فائدہ ممکن نہیں۔ اس لیے نبی رحمت ﷺ کو اس انسانی نفسیات کا بڑا خیال تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

کان النبی ﷺ یتخوالنا بالموعظة فی الایام کراهة السامة علینا.

(بخاری، الصحیح، کتاب العلم، باب ماکان النبی یتخولهم بالموعظة والعلم، 1: 16)

’’نبی پاک ﷺ روزانہ وعظ میں ہماری رعایت فرمایا کرتے تھے، یعنی ہمارے ملول خاطر ہوجانے کے اندیشہ سے روزانہ وعظ نہیں فرمایا کرتے تھے ۔‘‘

صحابہ کرامl کا حضور ﷺ کے ساتھ جو والہانہ تعلق خاطر تھا، اس کی بنا پر وعظ نبوی سے اکتا جانے کا امکان نظر نہیں آتا مگر اس کے باوجود حضور ﷺ کا ایسا فرمانا محض صحابہ پر شفقت اور تعلیمِ امت کے لیے تھا کہ آگے چل کر وعظ کے شوقین واعظین روزانہ وعظ کو کہیں فرض ہی نہ سمجھ لیں اور یوں امت مشکل میں نہ پڑ جائے۔ کیونکہ کوئی بھی عبادت اور نیکی اس وقت تک ہی صحیح معنوں میں نیکی ہے جب تک کہ اس میںذوق، شوق اور چاہت ہو۔

وعظ و نصیحت کے علاوہ نماز و عبادت تک میں نبی رحمت ﷺ کو لوگوں کی نشاطِ طبع کا کتنا خیال تھا اس کا اندازہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اس چشم دید واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ:

’’ایک مرتبہ نبی رحمت ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک رسی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ رسی کیسی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ رسی سیدہ زینت رضی اللہ عنہا کی ہے جب وہ (رات کو) نماز پڑھتے پڑھتے تھک جاتی ہیں اور کھڑی نہیں ہوسکتیں تو اس رسی کے ساتھ لٹک جاتی ہیں۔ یہ سن کر نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: اس رسی کو کھول دو۔ ہر آدمی اس وقت تک نماز پڑھے (عبادت کرے) جب تک اس کی نشاطِ طبع بھی ہو، جب تھک جائے تو سو جائے۔‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب التهجد، باب مایکره من التشد یدفی العبادة، 1: 154)

اسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

اذا نعس الرجل و هو یصلی فلینصرف لعله یدعو علی نفس و هو لا یدری.

(نسائی، السنن، کتاب الطهارة، باب النعاس، 1: 48، رقم: 162)

’’آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے جب اونگھ آنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ (اپنے بستر کی طرف) لوٹ جائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ (اونگھ میں) اپنے آپ کو لاعلمی میں بد دعا ہی دے رہا ہوں۔‘‘

حضرت عبداللہ (بن مسعود) کا قول ہے:

ان للقلوب نشاطاً واقبالاً وان لها تولیة وادباراً فحدثوا الناس ما اقبلوا علیکم.

(الدارمی، سنن الدارمی، باب من کره ان یمل الناس، 1: 119)

’’بے شک (لوگوں کے) دلوں پر بعض اوقات ہشاش بشاش اور پوری طرح متوجہ ہونے کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور بعض اوقات ان پر اعراض اور عدمِ توجہ کی حالت طاری ہوتی ہے۔ لہذا تم لوگوں سے اسی وقت تک بات چیت کرو (بیان کرو) جب تک وہ تمہاری طرف متوجہ ہوں۔‘‘

7۔ بلا ضرورت بلند آواز سے ذکر اذکار کی ممانعت

تکبیر (اللہ اکبر) کی صدا بلند آواز سے لگانا یا اونچی آواز میں تلاوت قرآن مجید اور ذکر اذکار کرنا اگرچہ فی نفسہ شرعاً جائز ہے مگر اس بلند آوازی سے اگر دوسرے لوگوں کی عبادت، آرام اور توجہ میں خلل پڑتا اور دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بنے تو منع ہے۔

حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو اس دوران (ایک مرتبہ) آپ ﷺ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرأت کرتے سنا تو آپ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا:

الا ان کلکم مناج ربه فلا یوذین بعضکم بعضا ولا یرفع بعضکم علی بعض فی القرأة او قال فی الصلوة.

(ابوداؤد، السنن، کتاب الصلوة، باب فی رفع الصوت بالقرأة فی الصلوة اللیل، 1: 197، رقم: 1339)

’’خبردار! تم میں ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرنے والا ہے تو تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اذیت نہ پہنچائے اور کوئی دوسرے پر قرأت میں آواز بلند نہ کرے یا فرمایا نماز میں دوسرے پر آواز بلند نہ کرے۔‘‘

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ (ایک مرتبہ) اللہ کے رسول ﷺ کے ہمراہ تھے تو جب ہم کسی وادی پر جھانکتے تو لا الہ الا اللّٰہ پڑھتے اور تکبیر (اللہ اکبر) کہتے اور اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بلند ہوجاتیں تو یہ دیکھ کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

یایها الناس اربعوا علی انفسکم فانکم لاتدعون اصم ولا غائباً انه معکم انه سمیع قریب.

(بخاری، الصحیح، کتاب الجهاد، باب یایکره من رفع الصوت فی التکبیر، 1: 420)

’’اے لوگو! ٹھہرو بے شک تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے اور نہ غائب کو، بے شک وہ تمہارے ساتھ ہے اور بلاشبہ وہ بہت سننے والا اور (شاہ رگ سے بھی زیادہ تمہارے) قریب ہے۔‘‘

اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حنفی فقیہ اور محدث ملا علی قاریؒ نے لکھا ہے:

ویسن الا اسرار فی سائر الاذکار ایضاً.

(مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح، باب الذکر بعد الصلوة، 2: 357)

’’اور تمام اذکار میں بھی اخفاء مسنون ہے، (سوائے تلبیہ اور تکبیراتِ تشریق وغیرہ کے)۔‘‘

اسی طرح امام ابو حنیفہ اور دیگر حنفیؒ فقہاء نے بھی سورۃ الاعراف کی آیت نمبر55 (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَةً. اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارو) سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آہستہ آواز سے ذکر کرنا ہی مسنون اور اصل ہے۔

(ابوبکر علاؤالدین، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، 1: 621)

زیر بحث مسئلے میں فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خانؒ کے درج ذیل فتوی کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔ فرماتے ہیں:

’’جہاں کوئی نماز پڑھتا ہو یا سوتا ہو کہ با آواز پڑھنے سے اس کی نماز یا نیند میں خلل آئے گا، وہاں قرآن مجید و وظیفہ ایسی آواز سے پڑھنا منع ہے (حتی کہ) مسجد میں جب اکیلا تھا اور باآواز پڑھ رہا تھا تو جس وقت کوئی شخص نماز کے لیے آئے تو فوراً آہستہ ہوجائے۔‘‘

(فتاویٰ رضویه، 8: 100)

خلاصہ کلام

حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ سے یہ امر واضح ہوا کہ باجماعت نماز کے وقت صفوں کی درستگی، صفوں کا سیدھا ہونا، نمازیوں کا ایک دوسرے کے قریب قریب کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا، درمیان میں خلا نہ چھوڑنا، پہلے پہلی صف کو پھر دوسری، تیسری اور بعد کی صفیں پُر کرنا، اسی طرح ہدایت نبوی ﷺ کے مطابق کسی نماز کے آگے سے نہ گزرنا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوجائے، ان چیزوں کی جہاں ایک معنوی برکت ہے (جیسا کہ اوپر کی احادیث میں) اشارہ کیا گیا۔ وہاں اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ چیز ظاہری اعتبار سے خوبصورتی، دلکشی اور نظم و ضبط کا ایک عمدہ مظہر بھی ہے۔