دہشت گردی کی نئی لہر اور اسلام کا امن بیانیہ

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر نے سر اٹھایا ہے۔ پشاور میں مسجد کے اندر نماز جمعہ کے دوران انسانیت کے دشمن دہشت گردوں نے حملہ کرکے درجنوں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ ایسے واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ دہشت گردی محض مذمت کرنے سے ختم نہیں ہو گی۔ اس کے لئے ہر جہت پر کام کرنا ناگزیر ہے۔ یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ افواج پاکستان نے قیامِ امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مثالی قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے لئے ہمیشہ ایک بات تواتر سے کہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی دو جہتیں ہیں:

  1. ریاستی طاقت کا استعمال
  2. انتہاء پسندانہ رویوں کے خاتمے کے لئے دوررس اصلاحات اور اقدامات

گزشتہ دو دہائیاں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے ملکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دور ہے۔ یہی وہ دور ہے جب دہشت گردوں کے خلاف فوج کے جوان لڑتے تھے تو دونوں طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں آتی تھیں اور ایک بڑافکری ابہام جنم لے چکا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خودکش دھماکوں کے خلاف فتویٰ دیا اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ثابت کیا کہ بے گناہ انسان کی جان لینا ایک سنگین جرم ہے اور ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جو اقدامات کئے، اس کی کوئی دوسری مثال کوئی اور تحریک یا کوئی اور شخصیت پیش نہیں کر سکتی۔ تحریک منہاج القرآن نے نیشنل ایکشن پلان ہو، آپریشن ضرب عضب ہو یا آپریشن ردالفساد ہر موقع پر دہشت گردی کے خاتمے کی قومی و بین الاقوامی کوششوں کا فکری سطح پر بھرپور ساتھ دیا جبکہ ا س موقع پر کچھ مذہبی شخصیات گومگوں کا شکار تھیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے فکری واضحیت سے محروم تھیں۔ اس نازک مرحلہ پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خودکش دھماکوں کے خلاف فتویٰ دے کر خوف کی فضاء کو یک لخت مسترد کر دیا اور پوری طاقت کے ساتھ کلمہ حق بلند کیا۔

شیخ الاسلام کی ان امن کوششوں پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ نائن الیون اور سیون الیون کے بعد مسلمانوں کے لئے مغربی ممالک میں آزادانہ سماجی، معاشی کردار کی ادائیگی مشکل ہو گئی تھی مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جرأت مندانہ دینی خدمات کے نتیجے میں مسلم کمیونٹی کا اعتماد بحال ہوا اور ہم مکالمہ کی پوزیشن پر آگئے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دے کر اپنا کام ختم نہیں کر دیا تھا بلکہ انہوں نے اسلام پر انتہاپسندوں کی فکری پشت پناہی کرنے کے لگنے والے الزام کے رد کے لئے پاکستان، امریکہ، برطانیہ، یورپ کینیڈا سمیت درجنوں ممالک کے دورے کئے اور بڑی بڑی کانفرنسز کے ذریعے دنیا بھر کی حکومتوں اور مذاہب عالم کی نمائندہ شخصیات پر واضح کیا کہ اسلام دہشت گردی کا نہیں بلکہ امن کا پیامبر ہے۔اسلام ناحق جانیں لینے والا نہیں بلکہ جانیں بچانے والا اور انسانیت کی بقا کا ضامن دین ہے۔

شیخ الاسلام نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے کے ساتھ ساتھ فروغ امن کے لئے 42 سے زائدکتب تحریر کیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی پرامن تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ ان کتب کو حوالہ جاتی ثقاہت کی وجہ سے اسلام کا ایک جامع امن بیانیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فروغ امن کے لئے خدمات کو دیکھتے ہوئے عالم اسلام کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم اوآئی سی نے بھی ایک خصوصی کانفرنس میں انہیں مدعو کیا اور آپ کی فکر سے استفادہ کیا گیااور ایک جامع امن بیانیہ دینے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا گیا۔

امریکہ میں تقابلِ ادیان کے سبجیکٹ کے طلبہ کو اسلامی فکر کے طور پر اسامہ بن لادن کا بیانیہ پڑھایا جاتا تھا جو یکطرفہ اور انتہا پسندانہ رجحانات پر مشتمل تھا۔ شیخ الاسلام اس بات پر بہت رنجیدہ تھے کہ مغربی دنیا کے نوجوانوں کو اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی جارہی۔ بالآخر امریکہ میں شیخ الاسلام کی اسلامک امن فلاسفی کو بھی شامل نصاب کر لیا گیا ہے اور آج کل تقابلِ ادیان کے ان طلبہ کو اسلام کے دو بیانیے پڑھائے جاتے ہیں۔ ایک بیانیہ اسامہ بن لادن کا جو انتہا پسندانہ فکر پر مشتمل ہے اور دوسرا بیانیہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہے جو اسلام کی امن فلاسفی سے عبارت ہے۔ یہ اسلامی دنیا کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے فروغ امن کی مساعی بلاتعطل جاری و ساری ہیں۔ منہاج القرآن اتحاد امت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ منہاج القرآن کا مرکزی سیکرٹریٹ میثاق مدینہ کی آئینی دستاویز کا عملی نمونہ ہے جہاں بین المذاہب رواداری کی فکر پروان چڑھ رہی ہے۔

شیخ الاسلام کی یہ ایک ثقہ بند رائے ہے کہ اگر ہم انتہا پسندی اور تنگ نظری کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں 273سال پرانے نصاب پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔الحمدللہ یہ نظر ثانی ہو چکی ہے اور نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں امن اور اخلاقیات کو ایک مضمون کے طور پر شامل نصاب کیا گیا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر سطح کے نصاب میں اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ نوجوان نسل اسلام کی امن فلاسفی کو سمجھ سکیں۔

دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے اور عالمی سطح پر اسلام کے حقیقی تشخص کی بحالی اور اسلام پر دہشت گردی و انتہا پسندی کے الزامات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ہمہ گیر اور جامع لائحہ عمل اختیار کیا جائے جو ان ہمہ جہت فتنوں کا ازالہ کر سکے۔ تاریخ کے اس نازک ترین مرحلے پر یہ اعزاز اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو عطا کیا ہے کہ آپ نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر علمی و عملی کاوشوں کے ذریعے اس فتنے کے خاتمے کا جامع منہاج فراہم کیا ہے۔ اگر شیخ الاسلام کی کاوشوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ دو اصولوں پر مبنی نظر آتا ہے:

  1. اعتدال پر مبنی طرز عمل کا فروغ
  2. استدلال پر مبنی فکر کا فروغ

آپ نے مسلم معاشرے میںعملی رویوں میں اعتدال کے فروغ کے لیے عملی کاوشیں کی ہیں تاکہ سیاسی، مذہبی، اعتقادی، مسلکی، اور سماجی و معاشرتی سطح پر اعتدال کو فروغ دے کر برداشت اور رواداری کا کلچر عام کیا جائے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم معاشروں کو برداشت، رواداری، امن و سلامتی اور اسلام کی اعلیٰ انسانی اقدار کا نمونہ بنایا جائے اور عالمی سطح پر شیخ الاسلام کی فراہم کردہ علمی و فکری رہنمائی میں استدلال کی قوت سے اسلام کے خلاف منفی پراپیگنڈے کا ازالہ اور اسلام کے اصل چہرے کو نمایاں بنایا جائے۔

اسلام انسانی جان کی تکریم اور حفاظت کا دین ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون اور مال کو محفوظ سمجھیں۔ جو دین اتنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو محض زبان یا ہاتھ سے تکلیف دے، اس دینِ متین میں کسی مسلمان کو کسی دوسرے مسلمان کی جان لینے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟