اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور بین المذاہب ہم آہنگی

محمد شفقت اللہ قادری

حصہ: 3

مسلم ریاست میں نسبتاً قلیل تعداد میں موجود دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اقلیتیں کہتے ہیں۔ اقلیتوں کو کسی بھی مسلم ریاست میں شہری ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام ایک کامل دین ہے اور ریاست میں موجود اقلیتوں کے حوالے سے واضح قواعد و ضوابط رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں (ذمیوں) اور دیگر غیر مسلم مذاہب کے لیے مناسب اور موثر حقوق کا تعین کیا گیا ہے۔ کسی بھی مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے لیے شریعت کی اصطلاح میں ذمی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی معنی ’’صاحب‘‘، ’’عزت دار مالک‘‘ کے ہیں۔

بین المذاہب ہم آہنگی: اسلام کی امتیازی خصوصیات

بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اسلام کی تعلیمات امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ مذاہب کے مابین ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنا نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ جملہ مغربی ریاستوں کی ذمہ داری بھی ہے تاکہ آئے دن توہین رسالت اور فرضی خاکوں کی جسارت جیسی قانون شکنی نہ ہو جس سے مذہبی ہم آہنگی کی فضا متاثر ہو اور بین المذاہب ہم آہنگی کا عالمگیر فقدان پیدا ہوجائے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر قواعد و ضوابط اور قانون موجود ہے، تاہم ان پر موثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

ذیل میں اسلامی تعلیمات کی ان امتیازی خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے جو بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہیں:

1۔ تبدیلی مذہب میں جبر سے گریز

قانونی تقاضا ہے کہ کسی اقلیتی گروہ یا مذہب کے نمائندگان کو ریاست کسی جبر و دھونس سے تبدیلیٔ مذہب پر مجبور نہ کرے۔ اس امر کی شرعی و قانونی اجازت نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات اس حوالے سے واضح ہیں۔

2۔ غیر مسلموں کو اپنی مذہبی عبادت کی اجازت ہونا

اسلامی ریاست میں جملہ غیر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام اپنی عبادت گاہوں میں مذہبی آزادی کے ساتھ اپنی عبادت کی اجازت ہے بلکہ اسلامی ریاست کے قانونی تقاضے ہیں کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے۔ اس کے برعکس تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو تاریخ میں ایسے سیاہ اوراق بھی ملیں گے کہ اندلس میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد مساجد کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا گیا۔۔۔ مسلمانوں کی مذہبی کتب کو جلادیا گیا۔۔۔ اسی طرح روس کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد مذہب مخالف اقدامات کیے گئے۔۔۔ شمالی کوریا، رومانیہ، البانیہ اور کمبوڈیا میں اشتراکیت نے مذہب پر پابندی کے اقدامات کیے اور اہلِ مذہب سے غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔۔۔ چین میں عبادت گاہوں کو بند کرنے کے شواہد بھی ہیں اور چند جگہوں پر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی بھی لگائی گئی ہے۔ یہ قابلِ اعتراض قانونی اور ریاستی اقدامات بین المذاہب ہم آہنگی میں رکاوٹ ہیں۔ اسلام تو ہر حال میں دیگر مذاہب کو مذہبی آزادی دینے پر عمل پیرا ہے۔ تاہم دیگر غیر مسلم ریاستیں بھی خیر سگالی اور بین الاقوامی رواداری کا ثبوت فراہم کریں۔

بین الاقوامی کمیشنز کو چاہیے کہ بین الاقوامی قوانین پر موثر عمل درآمد کروائیں، یہ ان کے ممالک کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

3۔ قانونی مساوات اور رواداری

اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو قانونی لحاظ سے اہلِ اسلام کے ساتھ مساوات اور برابری حاصل ہے۔ بیہقی کی روایت کے مطابق دور نبوی ﷺ میں ایک مسلمان نے اہلِ کتاب کے فرد کو قتل کیا تو سید عالم ﷺ نے قصاص میں اس مسلمان کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور بدلے میں قتل کی سزا دی گئی۔

4۔ غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کا تحفظ

جس طرح ایک مسلم ریاست مسلم شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے بالکل اسی طرح وہ اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کی بھی ذمہ دار ہے۔

5۔ معاشرتی و تمدنی اور تہذیبی و ثقافتی آزادی

مسلم ریاست میں بسنے والی اقلیتوں کو ان کے مذہب کے مطابق معاشرتی، تمدنی، تہذیبی اور ثقافتی آزادی حاصل ہے۔ وہ پوری طرح اپنی رسومات، رواج اور اپنے مذہبی اعتقادات کے مطابق نکاح و طلاق کے معاملات میں آزاد ہیں۔

6۔ غیر مسلم شہریوں پر زیادتی اور ظلم کی قطعی ممانعت

اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ رسول اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کے پہلے سربراہ تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبردار جس نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا کسی کے حق میں کمی کی، کوئی اور زیادتی کی تو یاد رہے کہ میں قیامت کے روز اس ذمی کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔

غیر مسلم شہری بھی معاہدین کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ جذیہ ادا کرکے حفاظت کے طور ریاستی تحویل میں ہیں۔

7۔ کسی معاہد کا ناحق قتل کرنا

ارشاد رسول ﷺ ہے کہ جس نے کسی معاہد غیر مسلم ذمی کو ناحق قتل کردیا، وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے پالی جاتی ہے۔

پس ریاستی قانون کے مطابق کسی غیر مسلم کو ناحق قتل کرنے والا قابلِ سزا ہوگا اور مقتول کے ورثاء کو قصاص یا دیت کا پوری طرح حق ہوگا۔

8۔ غیر مسلم شہریوں کے معاشی حقوق کا تحفظ

اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو پوری معاشی آزادی حاصل ہے، انھیں ہر قسم کے کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔ صنعتیں لگانے اور زراعت کرنے کی بھی اجازت ہے۔ الغرض ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے کوئی بھی معاشی پیشہ اختیار کرسکتے ہیں مگر ایسے کاروبار کرنا ممنوع ہے جو اسلامی ریاست کی ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہو، خواہ اقلیتوں کے مذہب میں جائز بھی ہو مگر پھر بھی انہیں اجازت نہیں۔

9۔ غیر مسلم شہریوں کو حاصل حقِ کفالت

مسلم ریاست میں مسلم شہری کی طرح غیر مسلم کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ اس کے ضعیف یا معذور ہونے پر اسلامی ریاست اس کی پوری طرح کفالت کرے۔

10۔ غیر مسلم شہریوں کے سیاسی حقوق

اسلامی ریاست میں غیر مسلم باشندوں کو ووٹ ڈالنے اور ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کے انتخاب کا بھی حق حاصل ہے۔ اسلامی حیثیت کے حامل چند عہدوں کے علاوہ دیگر عہدوں پر اقلیتوں کا تقرر بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کا معاہداتی سمجھوتہ مسلم ریاست کے شہریوں کے لیے غیر مسلم ریاستوں میں بھی موجود ہے۔

11۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں پر قانونی پابندی

یہ درست ہے کہ اسلامی ریاست میں اگرچہ اقلیتوں کو بہت سے حقوق حاصل ہیں تاہم ان پر یہ پابندی بھی عائد ہوگئی کہ وہ اپنے حقوق کے استعمال میں کوئی بھی ایسا اقدام نہ اٹھائیں کہ جو مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہی احترامِ قانون اسلامی ریاست کے باشندوں پر بھی لاگو ہے کہ غیر ممالک میں رہتے ہوئے ان کے قوانین کا احترام کریں اور ان کے مذہبی شعار کا بھی احترام لازم ہے۔

12۔ آئین پاکستان: غیر مسلم شہریوں کو حاصل حقوق

پاکستان کے آئین کے مطابق اقلیتوں کو مکمل جانی اور مالی تحفظ حاصل ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 36 کے مطابق اقلیتوں کے حقوق متعین ہیں اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص کوٹہ مختص ہے۔

اہلیانِ مغرب کا اعتراف

اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے باہمی تعلقات کی بابت پروفیسر آرنلڈ نے اعتراف کیا ہے کہ مسلمان حکومتوں نے رواداری کا جو نظریاتی اسلامی رویہ اقلیتوں کے لیے اپنایا ہے اس کی نظیر یورپ کی حالیہ تاریخ میں نہیں ہے بلکہ ایسے ممالک جہاں مسلمان ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرتے رہے ہیں، وہاں عیسائیوں کا عزت کے ساتھ رہنا ہی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کا رویہ من حیث المجموعی رواداری پر مبنی تھا۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے فقدان کے اسباب

بین المذاہب ہم آہنگی کے فقدان میں بڑی وجوہات بدامنی، دہشت گردی اور شدت پسندی ہے۔ پوری دنیا میں جتنی بھی قانون شکنی، بدامنی، دہشت گردی اور انتہا پسندی وقوع پذیر ہے اس کی بڑی وجہ فقط عدمِ برداشت اور باہمی رواداری کا فقدان ہے۔ مجموعی طور پر ہمارے رویوں میں رواداری اور برداشت نہ ہونے کے باعث بعض اوقات ریاستی تصادم کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ عدمِ برداشت سے بین المذاہب ہم آہنگی برقرار نہیں رہتی جبکہ مسلم یکجہتی اور بین المذاہب ہم آہنگی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ غیر مسلم دنیا میں کچھ طبقات محض اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ مسلمانوں کو شدت پسند، دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو ان گھنائونی سازشوں سے بچنے اور وحدتِ ملی کے لیے باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ گستاخانہ خاکوں جیسی ناپاک جسارت بین المذاہب ہم آہنگی کے فقدان اور ہمارے رویوں میں عدمِ توازن کا شاخسانہ ہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے فقدان کے نقصانات

جب مذاہب کے درمیان رواداری، برداشت، تحمل جیسے اوصاف ناپید ہوجائیں تو اِس کے درج ذیل نقصانات عالمِ انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں:

1۔ بین الاقوامی طور پر بین المذاہب ہم آہنگی میں تعطل پیدا ہوجاتا ہے۔

2۔ باہمی تصادم کی فضا قائم ہوجاتی ہے جو ریاستوں کے مابین وجہ تنازع بنتی ہے۔

3۔ بین الاقوامی سطح پر آزادی مذہب اور آزادی قلم کے اہم الفاظ اپنی وقعت کھو دیتے ہیں اور باہم Voilence اور قانون شکنی جنم لیتی ہے جو ملکوں کے لیے افراتفری کی فضا پیدا کرتی ہے۔

4۔ توہین رسالت اور فرضی خاکوں جیسی ناپاک جسارتیں جنم لیتی ہیں اور قوانین ہونے کے باوجود چند شرارتی عناصر ریاست کی طاقت کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

5۔ عوام اپنے مذہبی تقدس کی بحالی میں احتجاج کا حق استعمال کرتی ہے جس میں قانون شکنی کے ارتکاب کا ہر صورت اندیشہ رہتا ہے۔ اس Voilence اور قانون شکنی کے باعث توہین رسالت مآب ﷺ جیسی جسارت کا سد باب نہیں ہوسکتا بلکہ احتجاج افراتفری کے باعث اپنی اہمیت کھو دیتا ہے اور نتیجتاً کسی نہ کسی غیر مسلم ریاست میں خاکوں جیسی ناپاک جسارت کا عمل پھر دہرایا جاتاہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

6۔ عدم توازن اور عدم رواداری کے باعث تہذیبوں کا باہمی تصادم جنم لیتا ہے۔

نقصانات کا عملی تدارک

قارئین مکرم! یہ امر قابلِ غور ہے کہ تمام مذاہب اور تہذیبی ثقافتیں فقط اپنے اپنے مذاہب اور ملکی قوانین کو ملحوظ خاطر رکھیں تو بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا برقرار رہ سکتی ہے کیونکہ کوئی مذہب بھی کسی دیگر مذہب کے عقائد، نظریات اور دینی شعار کی بے حرمتی اور بے توقیری کرنے اور مذہبی جذبات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں تو غیر مسلم کے حقوق کا تحفظ واضح ہے۔ آئین پاکستان میں بھی مکمل طور پر اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔ اسلام اور آئین پاکستان میں غیر مسلم کے خون کی حرمت کا تحفظ نمایاں ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔ ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ دیگر ریاستیں اور ممالک اپنے قوانین پر عملدرآمد کریں تاکہ پوری دنیا میں کسی بھی مذہب کی بے حرمتی کا ارتکاب نہ ہوسکے اور گستاخانہ فرضی خاکوں جیسی ناپاک جسارت کبھی نہ ہوسکے۔ اس کے لیے بین المذاہب رواداری کے فروغ کی ضرورت ہے اور مسلم امہ کی بھی قومی و ملی ذمہ داری ہے۔

میثاقِ مدینہ میں مذکور بنیادی انسانی حقوق

اسلامی ریاست کی باقاعدہ بنیاد میثاق مدینہ کے تحت قیام پذیر ہوئی جو کلیتاً قرآنی نظریات اور اسلامی اصولوں کے تابع مرتب شدہ قواعد و ضوابط کا مجموعہ ہے اور اسلامی ریاست میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اس میثاق کے اہم نکات نذرِ قارئین ہیں:

1۔ ریاست کے قانون کی پابندی کرنا لازم قرار دیا گیا۔ کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہ ہوگی۔ قانون کے نفاذ میں کسی سفارش یا منصب کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

2۔ اسلامی ریاست میں ہر شہری کی جان کے تحفظ کو ممکن بنایا گیا خواہ شہری مسلم ہو یا کسی دیگر مذہب کا ذمی ہو۔

3۔ مسلم اور غیر مسلم کو قتل کرنا سنگین جرم قرار دیا گیا۔

4۔ غیر مسلم کے خون کی حرمت کو بھی تسلیم کیا اور غیر مسلم کے قتلِ ناحق کو جرم قرار دیا۔

5۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم کی جائیداد اور ملکیت کو تحفظ فراہم کیا۔

6۔ اسلام نے ہر مرد و زن، مسلم غیر مسلم کی بحیثیت شہری عزت وآبرو کی حفاظت لازم قرار دی ہے اور فرمایا کہ یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ مقامِ غور ہے کہ جب اسلام کسی کی عزت و آبرو کی اتنی فکر کررہا ہے تو وہ کیونکر اجازت دے گا یا برداشت کرے گا کہ کسی کی مذہبی توہین کی جائے یا پیغمبر اسلام کی حرمت پر انگلی اٹھائی جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں بھی حضور ﷺ نے عزت کی حفاظت کا تقدس بیان فرمایا اور کسی کی توہین و تذلیل کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔

7۔ اسلامی ریاست نے ہر ذی وقار شہری کو اظہارِ رائے کا مکمل حق دیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کو رب کائنات کا حکم تھا کہ وشاورہم فی الامر اس حکم کے مصداق تمام معاملات میں صحابہ کرامl کو آزادی حاصل تھی کہ وہ ملکی معاملات میں اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے اور آپ ﷺ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ یاد رہے کہ اظہارِ رائے میں آزادی کا مطلب و مفہوم یہ نہیں ہے کہ کسی دوسرے کے جذبات کی توہین کی جائے اور کسی کے مذہبی یا ذاتی شعار پر طنز اور ان کی تذلیل کی جائے۔

8۔ ہر مذہب کے شہری کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت کی اجازت ہے۔ قرآن عظیم کا حکم ہے:

لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّیْنِ.

(البقره، 2: 256 )

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘

9۔ شہریوں کی باہم ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی شعار اور عقائد کی تکریم و احترام کریں اور ریاست کے مروجہ قوانین کی پابندی کریں۔ اسلام میں ذمیوں کے خصوصی حقوق متعین ہیں، ہر مسلم شہری پر اس کے حقوق کا احترام کرنا لازم ہے۔

اقوام متحدہ میں اور ویانا کنونشن میں مذکور انسانی حقوق

قارئین محترم! اقوام متحدہ کے منشورکے اہم نکات امن، ترقی اور انسانی حقوق کی پاسداری ہے، جن پر عمل درآمد کی سختی سے تلقین ہے۔ انسانی حقوق کی پہلی باقاعدہ دستاویز 1945ء میں اقوام متحدہ میں پیش کی گئی۔ انسانی حقوق کے متعلق دوسرا مسودہ 1948ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پیش کیا۔ اقوام متحدہ کے 1966ء کے منشورکے خصوصی اہم نکات درج ذیل تھے:

1۔ 1966ء کے منشور میں سول رائٹس اور پولیٹیکل رائٹس شامل تھے جن کا اطلاق تمام رکن ممالک پر لازم قرار دیا گیا۔

2۔ 1966ء میں ہی شہریوں کے معاشی، ثقافتی اور لسانی حقوق کا منشور بھی باقاعدہ طور پیش کیا گیا۔

انسانی حقوق کا عالمی منشور ویانا کنونشن میں پیش کیا گیا۔ یہ اقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویز اور قرار داد ہے۔ یہ 10 دسمبر 1948ء کو پیرس کے مقام پر منظور کی گئی۔ اس مشہور قرار داد کے دنیا بھر میں تقریباً 375 زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ یہ قرار داد دوسری جنگ عظیم کے فوری بعد منظر عام پر آئی جب لاتعداد انسان قتل کردیئے گئے۔ مذکورہ قرار داد میں 30 شقیں ہیں جو تمام بین الاقوامی اور علاقائی معاہدوں اور انسانی حقوق کے قومی دستوروں اور قوانین میں سے شامل کی گئی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ کے اشتراکِ عمل سے ساری دنیا میں اصولی طور پر عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا سب ممالک مکمل طور پر احترام کریں اور دیگر بین الاقوامی ریاستوں اور ممالک سے بھی ضابطے کے مطابق احترام اور پابندی عمل میں لائے جانے کے لیے دبائو ڈالیں تاکہ کسی مذہب کے مذہبی جذبات و تقدس کو پامال نہ کیا جائے اور اقوام متحدہ میں مؤثر روک تھام کی یادداشت پر عملدرآمد کروایا جائے۔

(جاری ہے)