اللہ رب العزت نے علم کے نورکے سبب سے اُمت محمدیہ کو مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات ہونے کے شرف سے نوازا، وحی کا پہلا حرف اقراء نازل ہوا اور رب کائنات نے اُمت مسلمہ کو حکم دیا کہ اگر دنیوی و اخروی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہو تو علم سے محبت کا دائمی رشتہ قائم کر لیں۔ جب تک اُمت کا علم و تحقیق کے ساتھ رشتہ جڑا رہا دنیا کی حاکمیت اور امامت اُمت مسلمہ کا مقدر بنی رہی اور جیسے ہی یہ رشتہ کمزور ہوا تو حاکم محکوم ہو گئے، علم کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو منصبِ نبوت عطا فرمایا تو آپ ﷺ نے تعلیمات ربانی کے ابلاغ کے لئے سب سے پہلے صفہ کے مقام پر علمی درس گاہ قائم فرمائی جہاں صحابہ کرامؓ حضور نبی اکرم ﷺ سے علم و حکمت کا درس لیتے اور واپس جا کر اپنے خاندانوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے، قرب و جوار میں رہنے والے صحابہ کرامؓ روزانہ تشریف لاتے اور درس میں شامل ہوتے اور دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر صحابہ صفہ میں ہی قیام کرتے اور علم و حکمت کے موتی چنتے، بعدازاں صحابہ کرام کا یہ معمول رہا کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ جیسے جلیل القدر صحابی صرف ایک حدیث مبارکہ کے سماع کے لئے پورا مہینہ مشقت فرماتے، یہی وہ علم کی لگن، شوق اور جذبہ تھا کہ اُمت محمدیہ اپنی مثال آپ بن چکی تھی، آج بھی اُمت مسلمہ کو دگرگوں حالات کا سامنا ہے، یہ حالات علم سے منہ موڑنے کے سبب سے ہیں، ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی مبارک تعلیمات سے ہی آج کے دور کے فتنوں اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور وہ حل علم سے محبت اور علمی قدروں کا احیاء ہے۔
منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس وقت علمی قدروں کے احیاء کی فی زمانہ ایک معتبر اور توانا آواز ہیں، آپ نے ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں جن میں 700 سےزائد کتب شائع ہو چکی ہیں، علم و آگہی کے فروغ کی یہ ایک قابلِ فخر اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ شیخ الاسلام نے علوم القرآن و علوم الحدیث کے احیاء کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تحصیل کا بھی شعور اجاگر کیا اور اس ضمن میں جدید تعلیمی ادارے قائم کئے جہاں اس وقت لاکھوں طلبا و طالبات کسب علم و فیض کررہے ہیں۔ عہدِ نبوی ﷺ میں دروس قرآن و حدیث میں شرکت کرنے والے اصحاب رسول اللہ ﷺ علم حاصل کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کو اُس علم سے روشناس کرواتے جو وہ بارگاہ رسالت ﷺ سے حاصل کرتے تھے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے انہی سنتوں کا احیاء کرتے ہوئے مراکز علم کا تصور پیش کیا ہے کہ جب تک ہم اپنے گھروں کو مراکز علم میں تبدیل نہیں کریں گے اُس وقت تک سوسائٹی سے کفر و الحاد کے سائے نہیں چھٹیں گے، گھر معاشرے کا بنیادی یونٹ اور اکائی ہے، اگر ہم من حیث الجموع معاشرے کو علم و امن اور حقوق و فرائض کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ابتداء اپنے آپ سے اور پھر اپنے اہل خانہ سے کرنی چاہیے، یہ حکم خداوندی بھی ہے اور سنت مصطفی ﷺ بھی ہے کہ ہم اپنے گھروں کو مراکزِ علم میں تبدیل کریں، منہاج القرآن کی جملہ قیادت مراکزِ علم کے فروغ و احیاء اور قیام و تشکیل کے لئے برسرپیکار ہے، منہاج القرآن سے وابستہ رفقائے کار، وابستگان و کارکنان اپنے گھروں کو مراکز علم بنانے کے ساتھ ساتھ عزیز و اقارب اور دوست احباب کو بھی اس کی دعوت دیں، ہم آج سوسائٹی میں جھوٹ، منافقت، چھینا جھپٹی، لاقانونیت، بدعہدی، تکبر، رعونت، بدنظمی میں پائے جانے کے گلے کرتے ہیں مگر ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ان فتنوں سے نجات کے لئے سنجیدہ ہیں؟۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم محض گلے اور شکوے کرنے کی بجائے عملاً اصلاحِ احوال اور اصلاح معاشرہ کے قرآنی احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے مراکز علم مہم کو کامیاب بنائیں۔