حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی نوجوانوں کے لیے فکر اور رہنمائی

حافظہ عائشہ رشید

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

پاکستان کی آبادی میں 70 فیصد نوجوان ہیں۔ جو کل آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا طبقہ ہے۔ ملک کی ترقی اور قوم کا مستقبل انہی پر منحصر ہے۔ الحمدللہ ذہانت اور قابلیت کے اعتبار سے پاکستان کا نوجوان کئی قوموں سے آگے ہے۔ اگر ان کی صلاحیتوں کو بروقت بروئے کار لایاجائے اور ان کے لئے ان کے متعلقہ شعبہ جات میں مواقع فراہم ہوں تو یہ نوجوان اپنے ان شعبہ جات میں انقلاب بپا کر سکتے ہیں۔ ترقی پسند قومیں اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے کر ان کی مہارتوں کو نکھارتی ہیں۔ ان کی شخصیت سازی کرتی ہیں ان کی اخلاقیات کو سنوار کر انہیں مہذب بناتی ہیں۔ ان کی ذہنی دلچسپی اور صلاحیت کے مطابق ان کے مستقبل کے لئے راہنمائی کرتی ہیں۔ کیونکہ قوموں کا مستقبل انہی نوجوانوں کی بدولت روشن ہوتا ہے۔

دوسرا بڑا چیلنج مذہبی انتہا پسندی ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی مفادات کے لئے پاکستان کے اندر رات و رات مذہبی جماعتیں وجود میں آتی ہیں جن کا ایجنڈا انتشار، بدامنی اور محض ہنگامہ آرائی ہوتا ہے۔ ایسی جماعتوں کا ٹارگٹ وہ ان پڑھ نوجوان ہوتے ہیں جو بڑی آسانی سے کسی جذباتی نعرے کے جھانسے میں آکر اس جماعت کی منفی اور ملک دشمن سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور بالآخر انتہا پسندانہ ماحول میں بڑھتے بڑھتے انتہا پسندی کی سوچ کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اور یوں ان کے جذبات کا استعمال کرکے انہیں قتل و غارت گری اور دنگے فسادات میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔

تیسرا اور سب سے بڑا چیلنج پاکستان کے اندر نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہونے والی مکروہ سیاست ہے۔ جس کا شکار سب سے زیادہ ہمارا نوجوان سے۔ منہگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے دو چار نوجوان حالات کی تبدیلی کے لئے کبھی ایک جماعت تو کبھی دوسری جماعت کے کھوکھلے نعروں کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں بدقسمتی سے جن کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے۔

پاکستان کا نوجوان ان حالات میں بری طرح متاثر ہے۔ آج ہمارے نوجوان اس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ انہیں یہ وطن اپنا وطن نہیں لگتا اور یہاں رہتے ہوئے اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ایسے میں وہ پستول اٹھا کر راہزن بننے اور لوگوں کو لوٹنے پہ مجبور ہیں یا غیرقانونی طریقے سے کشتی پر سوار ہوکر دوسرے ملک بھاگنے پر مجبور ہیں اور وہ کشتی یونان کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے اور سینکڑوں نوجوانوں کی شکل میں اس ملک کا مستقبل پانی میں غرق ہوجاتاہے۔ اور جاتے جاتے اس ملک میں مروجہ فرسودہ، فاسقانہ، ظالمانہ نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اقبال نے زندہ قوموں کاتعارف کرواتے ہوئے نوجوانوں کا ذکر کچھ یوں کیا۔

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

اقبالؒ کی عہد شباب کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت خودی اور خود شناسی ہے۔ نوجوان شاعر نے اپنے ہم عصر نوجوانوں کو نہ صرف اپنی شخصیت و سیرت کی تعمیر کا ایک ہلکا سا منظر دکھایا ہے، بلکہ اس آزاد خیالی، روشن خیالی اور کشادہ دلی کا ایک واضح تصور بھی اُن کے سامنے رکھ دیا ہے، جو اعلیٰ انسانی اقدار کے خلاصے اور جوہر کا دوسرا نام ہے۔

نوجوان اقبال جب اس جو ہر طبیعت اور اس انداز تربیت سے آراستہ ہو کر ۱۹۰۵ء میں تکمیل تعلیم کے لیے یورپ گیا تو اُسے مغرب میں اپنی فکر کو جلا دینے اور اپنے ذہنی افق کو وسیع تر کرنے کے بے شمار مواقع میسر آئے۔ ان کا ایک حیرت انگیز اثر اُس کی طبیعت پر یہ ہوا کہ وہ یورپی ممالک کی جارحانہ وطن پرستی سے بے زار ہو گیا اور عالم اسلام کی وحدت کا تصور اپنی پوری شدت سے اُس کے ذہن پر چھا گیا اور اُسے یقین کامل ہو گیا کہ:

’’ ہندی مسلمان بلکہ مسلمانان عالم کی آزادی و ترقی کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ وہ پھر سے خالص اسلامی شعائر و اقدار کو زندہ کریں اور مذہب کے رسوم و ظواہر سے نہیں بلکہ روح اسلام سے زندگی کی انفرادی فلاحاور اجتماعی کامیابی کے وہ اُصول کشید کریں، جن کی صداقت پر خود گردش زمانہ نے بار بار اپنی مہر ثبت کی ہے‘‘۔

چنانچہ یورپ کے قیام کے دوران اقبالؒ کے جن افکار و خیالات نے شاعری کا جامہ پہنا، وہ اکثر و بیشتر اسی تاثر کے حامل ہیں۔ اقبال نے انہیں ایک منظوم مراسلہ لکھا جو اُن کے مجموعہ کلام " بانگ درا" (صفحہ ۹۷) میں شامل ہے۔ بظاہر یہ مراسلہ ایک دوست کا خط ہے، مگر در حقیقت اس درد پنہاں کا طوفان ہے، جو اُن دنوں شاعر کے دل درد مند میں کروٹیں لے رہا تھا۔ اقبال فرماتے ہیں۔

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط

اشعار بانگ در اص: ۹۷

ہندوستان سے بڑھ کر، اب ملتِ اسلامیہ کے ایک حساس، نوجوان شاعر کے سینے میں جس قسم کے جذبات تلاطم برپا کر رہے تھے، یہ نظم لطیف اُن کی ہلکی سی آئینہ داری کرتی ہے، لیکن یہاں بھی اقبالؒ نے خودی اور خود شناسی سے صرف ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور اپنی بے تابیوں میں محض ایک رفیق دور افتادہ کو شریک کیا ہے۔ اپنے ہم عصر نو جوانوں کو اُس نے اب بھی براہ راست کوئی پیغام نہیں دیا، اگر چہ اپنا سینہ چیر کر دکھانے سے ایک خاموش دعوت ہم نفسی ضرور نمایاں ہے۔

پھر اقبالؒ کی شاعری کا دوسرا دور آیا، جب اقبالؒ نے پختہ سالی کی منزل میں قدم رکھا اور وہ روایتی حق حاصل کیا، جس کی رُو سے شاعر یا فلسفی اپنے خیالات و جذبات براہ ر است اپنے مخاطبین تک پہنچا سکتا ہے۔ اقبالؒ اس بارے میں بہت وضع دار تھے۔ یہاں بھی اُن کے مخاطبین محض نوجوان تھے۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے ہر جگہ براہ راست نوجوان کا نام لے کر اُس سے خطاب نہیں کیا۔ اُن کے موضوعات میں سے کوئی موضوع ایسا نہیں، جس کا تعلق نوجوان، جواں مرد، مرد جواں ہمت اور اُس کے عمل و کردار سے نہ ہو۔

اپنی معروف نظم ’’خطاب به جوانان اسلام‘‘میں اقبالؒ نے ایک منفیانہ رنگ اختیار کیا ہے۔ وہ یہاں جوانان اسلام کی موجودہ زبوں حالی کا تلخ جائزہ لے کر خاموش ہو گئے ہیں۔ ابھی اقبالؒ نے مسلم نوجوان کو صرف نادم و شرمسار کیا ہے۔ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گلے سے نہیں لگایا۔ ابھی اُس کم کر دہ منزل کی طرف اشارہ کیا ہے، جسے از سر نو حاصل کرنا اُس کے لیے مقدر ہو چکا تھا، مگر ہمیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ شاید یہ احساس ندامت اقبالؒ کے مخاطب نو جوان کے لیے ایسا ہی ضروری تھا، جیسا اُس کے بعد پیدا ہونے والا جذ بۂ یقیں۔

اقبالؒ کی شاعری کا تیسرا دور الہامی شاعری کا دور ہے۔ اس دور میں اقبالؒ پر یہ منکشف ہو چکا تھا کہ اُس کے وطن کے نوجوانوں پر عنقریب نیابتاً انہی کی ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں۔ اپنے کلام میں وہ بار بار اس آنے والی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ خصوصاً اُن کی لازوال نظم ’’طلوع اسلام‘‘ جس کا نام ہی پیغمبرانہ بشارت رکھتا ہے، اس ضمن میں بہترین مثال ہے۔ یہ نظم ان نظموں کی تمہید کہی جا سکتی ہے جن میں نوجوانوں کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ اس نظم کے چند اشعار بہ طور نمونہ ملاحظہ ہوں۔

ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

اقبالؒ نے اپنے تینوں تخلیقی ادوار میں، پوری شاعری میں تین بنیادی نظریات دیے ہیں، یعنی خودی، فقر اور عشق۔ یہ تین باطنی اوصاف ہیں۔ جس شخص میں یہ تینوں اوصاف به درجہ اتم موجود ہوں، وہ اقبالؒ کی زبان میں مومن ہے، اور اس کی تشبیہ شاہین یا شاہباز ہے۔

نوجوان کے مثبت باطنی اوصاف

1.خودی، ایمان، یقین

2.فقر، غیرت

3.عشق، عشقِ قرآن حکیم، عشقِ رسول ﷺ

4.مومن

5.شاهین

ان تمام اعلیٰ، تعمیری اور مثبت اخلاقی اوصاف کے حصول میں عصر حاضر میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں، جن کا ذکر اقبال بڑی دردمندی سے کرتے ہیں

 نوجوان کے منفی ظاہری اوصاف جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے

1.مذہب سے دوری، کفر و الحاد اور لادینیت کا فروغ

2.علم سے دوری، جدید تعلیم کے مضر اثرات

3.تہذیب سے دوری، مغربی تہذیب کے مضر اثرات

ان شعبوں میں نوجوانوں کو منظوم کلاموں مثلاً دختران ملت کے نام، نونہالانِ ملت سے خطاب، پیغام بہ ذریعہ جاوید اقبال اور پیام منشور کے ذریعے عمل و کردار کی تلقین کے ساتھ ساتھ اقبال نے دُخترانِ ملت، اور پھر نو نہالان کو بھی اُن کے ذہن و مزاج کے مطابق اپنے پیام خوش کلام سے نوازا ہے۔ نوجوانوں کو اسلامی نشاۃ ثانیہ اور اس سے منسلک اتحاد عالم اسلامی " کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں بھی خطاب کیا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد نوجوانو ں کی حالت زار

قیامِ پاکستان کے بعد ریاستِ پاکستان کی 70سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور قائد اعظمؒ کی فکر اور فرمودات کی جھلک نظر آنی تو دور کی بات، یہاں تو سب کچھ اس کے بر عکس نظر آیا۔ خواہ تعلیمی نظام ہو یا معاشی نظام، سیاسی حالات ہوں یا اخلاقی و معاشرتی صورتحال ہر شعبہ آزاد خود مختار ریاستِ پاکستان میں زبوں حالی کا شکار ہی ملا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ نوجوان طبقہ جو ملک و قوم کا سرمایہ اور کل آبادی کا 60 فیصد ہے ہمارے نام نہاد حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں رہا جبکہ مصورِ پاکستان اور بانی پاکستان کے خطبات اور فرمودات میں جا بجا نوجوان نسل کو ہی تر جیح دی گئی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد شدت سے محسوس کیا گیا کہ جناحؒ اور اقبالؒ کے فرمودات کی روشنی میں تعمیرپاکستان سے تکمیلِ پاکستان کے سفر میں نوجوان طبقے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُسے پھر سے اقبالؒ کا شاہین اور قائد اعظمؒ کے پاکستان کا سپاہی بنایا جائے تاکہ لاکھو ں قربانیوں کا ثمر پاکستان کو اپنا اصل تشخص واپس دلایا جا سکے۔ پاکستان سے لاقانونیت، اقرباء پروری، بدامنی، بے روز گاری، کرپشن، غنڈہ گردی، تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہو سکے۔ وطنِ عزیز کا امن بحال ہو، خوشحالی کا دور دورہ ہو، نوجوان ڈگریاں ہونے کے باوجود بے روز گاری کی وجہ سے نہ تو جرائم میں ملوث ہوں اور نہ ہی خود کشیاں کریں۔

علامہ اقبالؒ نے اپنی مثنوی اسرار و رموز میں ایک حکایت بیان کی جس میں ایک نوجوان نے سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ سے دشمنوں کا خوف دور کرنے کے لیے راہنمائی طلب کی تو انہوں نے فرمایا اے راز حیات سے ناواقف نوجوان تو زندگی کے آغاز اور انجام سے غافل ہے تو دشمنوں کا خوف دل سے نکال دے تیرے اندر ایک قوت خوابیدہ موجود ہے اس کو بیدار کر۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی اردو شاعری میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

علامہ اقبالؒ اپنے رب سے دعا کرتے ہیں

جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے

خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے

فلسفہ خودی

جس نوجوان کا ذکر اقبال نے کیا اس کی شخصیت کی بنیاد خودی پر رکھی۔ اقبالؒ نے قوموں کی ترقی کو تلوار کی بجائے کردار سے جوڑا۔ اور اس کردار کی بنیاد اور اساس خودی کو قرار دیا۔ آپؒ نے نوجوان نسل پر اعتماد کرتے ہوئے فرمایا:

نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

علامہ اقبالؒ نے نوجوانوں کو خودی کا پیغام دیا اور فرمایا کہ نوجوان خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور بڑے قومی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرنے کی کوشش کریں اور اپنے سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کرکے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں امن، سلامتی، برداشت، رواداری اخوت، سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں۔ علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ نوجوانوں کے خیالات بلند ہوں، انسان کامل اور مرد مومن بننے کی خواہش ان کے دل کے اندر موجود ہو، علامہ اقبال نے فرمایا:

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اگر ہم نے واقعی اقبال کی فکر کو کسی حقیقت میں بدلنا ہے تو ہمیں کسی ادارے، کسی حکومتی سرپرستی اور حکومتی اقدام کا انتظار کیے بغیر اپنی نسلِ نو کے اندر ایک منظم (Systematic) طریقے سے وہ شعور اور احساس پیدا کرنا ہے جس کے ذریعے اسے اپنے منصب سے آگہی ہو، وہ اپنی عظمت اور زندگی کی مقصدیت سے آشنا ہو اور اس مقصد کے لیے جینا شروع کرے۔ جب اسے مقصد کا شعور ملے گا تو راستہ کی طلب اور پیاس بھی پیدا ہوجائے گی اور جب پیاس پیدا ہو تو پھر اس پیاس کا حل بھی نکل آتا ہے۔ لیکن اگر اس کے بغیر ہم کوئی فکری غذا دینے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے کہ وہ ان کا جزوِ بدن نہیں بنے گی۔

فلسفہ تعلیم

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر، شاعری اور آپ کی نثر اتنی جامع ہے کہ اس کے اندر ہمیں نہ صرف نوجوان نسل کی مجموعی تربیت بلکہ نوجوان نسل کے لیے تعلیمی نظام کو سدھارنے اور تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے سارے پہلوؤں کا احاطہ ملتا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ مروّجہ تعلیمی نظام کی خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامانِ سفر

شیدائی غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر

اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر

علامہؒ یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے اب بتایا جارہا ہے کہ تعلیم حاصل کرو تمام ملّی مسائل بھی حل ہوجائیں گے اور اجتماعی امراض بھی دور ہوجائیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس تعلیم کی مجھے بات بتائی جارہی ہے، وہ تعلیم معبودِ حاضر کی پوجا کی بات کرتی ہے اور جو معبودِ غائب یعنی ذاتِ حق ہے اور جو نظام مبنی بر وحی ہے، مجھے اس سے دور کرتی اور محسوسات میں قید کرتی ہے۔ اقبالؒ علمِ نظری کے قائل نہیں بلکہ علمِ عملی کے حامی تھے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو انسان کو حرکت، عمل، جدوجہد اور تخلیق کی طرف لے جائے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

علم کا اصل فائدہ تب ہے جب وہ انسان کے کردار اور عمل میں جھلکے۔ اقبالؒ محض کتابی علم کو ناکافی سمجھتے ہیں؛ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم انسان کے اندر حرکت، عمل اور ذمہ داری پیدا کرے۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

یہ شعر نوجوانوں کو پیغام دیتا ہے کہ تعلیم صرف ڈگری نہیں بلکہ دنیا کی قیادت کے لیے تیاری کا عمل ہے۔ جب مسلمان نوجوان علم، عدل، اور شجاعت کے اسباق پر مبنی تعلیم حاصل کرے گا تو وہ امت کی قیادت کرے گا۔

علامہ اقبالؒ کی آرزو تھی کہ مسلمان نوجوان شاہین بنیں کیونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو خود داراور غیرت مند ہے دوسروں کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، اپنا آشیانہ نہیں بناتا، خلوت پسند ہے اور تیزنگاہ ہے۔ علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ یہی خصوصیات نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ایک مثالی قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا-

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

علامہ اقبالؒ نے اپنے فارسی کلام جاوید نامہ میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تیری ماں نے تجھے لاالٰہ کا پہلا سبق دیا تھا، تیری کلی اس کی باد نسیم سے کھلی لاالٰہ کہتا ہے تو دل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن سے بھی روح کی خوشبو آئے۔ افسوس اس دور کے مسلمان نے معمولی قیمت پر دین و ملت کو بیچ دیا۔ اس نے اپنا گھر بھی جلا دیا اور گھر کا سامان بھی، کبھی اس کی نماز میں لاالٰہ کا رنگ تھا مگر اب نہیں کبھی اس کی نیازمندی میں ناز تھا مگر اب نہیں۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا تھا، آج کل مال کی محبت میں مبتلا ہے۔ نماز اور روزے کی روح جاتی رہی ہے تو فرد بے لگام ہو گیا ہے اور سینے حرارت قرآن پاک سے خالی ہو گئے، ایسے لوگوں سے بھلائی کی کیا امید ہے۔ ہمارے نوجوان پیاسے ہیں مگر ان کے جام خالی ہیں، چہرے چمکدار، دماغ روشن مگر اندرون تاریک کم نگاہ، بے یقین اور مایوس ان کو دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ غصے میں ہو یا خوشنودی میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور افلاس ہو یا امارت میانہ روی کو نہ چھوڑ اور اعتدال پر قائم رہ۔ پاکستان کے نوجوان موجودہ دور کے موقع پرست مفاد پرست لیڈروں کے فریب میں آنے کی بجائے علامہ اقبالؒ کے پیغام کی جانب رجوع کریں اور علامہ اقبالؒ کی فکر و دانش سے مسلح ہوکر موجودہ حالات کا مقابلہ کریں اور پاکستان کو لاحق سنگین بحرانوں سے باہر نکالیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں فرمایا تھا۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

خلاصۂ کلام

اکیسویں صدی میں ہم نے اپنی نوجوان نسل کی علمی و فکری اور نظریاتی تربیت کس طرح کرنی ہے؟ اس حوالے سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر اور سوچ بہت اہم ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس قوم کی تعمیر کا راستہ صرف اقبالؒ ہی کا راستہ ہے۔ ہمارے پاس تعمیرِ زندگی، حالات کو سمجھنے اور بطورِ تہذیب اپنے آپ کو آگے لے کر چلنے کی فکرِ اقبالؒ کے علاوہ کوئی ایسی سبیل موجود نہیں ہے جہاں ہمیں ہمارے سوالات کا جواب ملتا ہو اور مسائل کا ایک قابلِ فہم حل میسر آسکے۔ یہ کہنا بے جا اور مبالغہ نہیں ہوگا کہ اگر ہم اقبالؒ کو نظر انداز کرکے آگے بڑھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تہذیبی، سیاسی اور ملّی طور پر آج سے ڈیڑھ، دو سو سال پیچھے رہ کر سوچ رہے ہیں۔ اگر ہم اقبالؒ کو ردّ کرکے مستقبل میں قدم رکھتے ہیں تو ہم بہت ہی فکری پسماندگی کے ساتھ قدم رکھ رہے ہوں گے۔ اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ آنے والے دور یعنی مستقبل میں ہمارا کوئی بامعنی و بامقصد کردار ہو تو ہمیں نسلِ نو کی تربیت کے ذریعے نسلِ نو کے شعور میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ وہ تبدیلی یہ ہے کہ ہم نے انہیں مقصدیت سے آشنا کرنا ہے اور انہیں ان کے منصب کا احساس دلانا ہے اور اس آشنائی کا ایک عظیم محرک علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات، آپؒ کی شاعری اور اس شاعری سے ملنے والے اسباق سے کماحقہ آشنا ہونا ہے۔