خوش اخلاق شخص کی صحت و نفسیات پر خوش خلقی کے اثرات

عائشہ بتول

خوش خُلقی انسان کی شخصیت کا وہ جوہرِ لطیف ہے جو اس کے باطن کی طہارت، فکری بلندی اور اخلاقی تربیت کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ انسانی معاشرت میں حسنِ سلوک، نرم گفتاری اور رواداری کے فروغ کا بنیادی ذریعہ ہے۔ خوش اخلاق فرد نہ صرف اپنے کردار سے دوسروں کے دل جیت لیتا ہے بلکہ معاشرے میں امن، احترام اور باہمی اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔ اسلام نے خوش خُلقی کو ایمان کا جزوِ لازم قرار دیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہیں۔ ‘‘(بخاری و مسلم)۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" (القلم: 4)۔ ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔ ‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اخلاقِ حسنہ وہ صفتِ کاملہ ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں کی اساس اور انسانی تکمیل کا معیار ہے۔

خوش خُلقی فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک خوش اخلاق شخص اپنی نرمی، صبر، درگزر اور متانت سے دوسروں کے رویوں میں بھی مثبت تبدیلی پیدا کرتا ہے، جس سے اجتماعی زندگی میں ہم آہنگی اور تعاون کی روح پیدا ہوتی ہے۔ خوش خُلقی کی اہمیت صرف مذہبی اور سماجی پہلوؤں تک محدود نہیں بلکہ اس کے گہرے نفسیاتی اور جسمانی فوائد بھی ہیں۔ جدید نفسیاتی تحقیقات کے مطابق نرم مزاجی، معافی، مثبت طرزِ فکر اور مسکراہٹ انسان کے ذہنی تناؤ، غصے اور اضطراب کو کم کرتے ہیں جو انہیں مختلف نفسیاتی بیماریوں جیسے ڈپریشن اور بے چینی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی طرح خوش خُلقی جسمانی صحت پر بھی خوشگوار اثر ڈالتی ہے۔ یہ دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور نیند کے مسائل کو کم کرتی ہے۔

خوش خُلقی کی تعریف

لفظ "خُلق" عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی عادت، مزاج، طبیعت یا سیرت کے ہیں۔ چنانچہ "خوش خُلقی" سے مراد دوسروں کے ساتھ نرمی، حسنِ سلوک، خوش گفتاری، درگزر، ہمدردی اور بھلائی کے ساتھ پیش آنا ہے۔ علمِ اخلاق کی اصطلاح میں خوش خُلقی ایک ایسی باطنی کیفیت یا عادت کو کہا جاتا ہے جو انسان کو بغیر کسی جبر، دکھاوے یا تصنع کے نیک اعمال اور مثبت رویّوں پر آمادہ کرے۔ یعنی انسان کا باطن اتنا پاکیزہ اور متوازن ہو جائے کہ اس سے خود بخود نرمی، انصاف، تحمل، شفقت اور خیر خواہی کے اعمال صادر ہوں۔ معروف ماہرِ نفسیات مارٹن سیلگمین (Martin Seligman) کے مطابق خوش اخلاقی "مثبت نفسیات" (Positive Psychology) کی اساس ہے، جو انسان کے ذہنی سکون، نفسیاتی توازن اور خوشحالی کو فروغ دیتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں خوش خُلقی کو ایمان کا بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘(مسند احمد) اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خوش خُلقی محض ایک سماجی خوبی نہیں بلکہ نبوتِ محمدی ﷺ کے مقاصد میں شامل ہے۔

خوش خلقی کے نفسیاتی اثرات

خوش اخلاقی کا تعلق مثبت سوچ اور جذباتی توازن سے

خوش خلقی انسان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو اس کے باطنی سکون اور ذہنی استحکام کی علامت بنتا ہے۔ ایک خوش خلق انسان نہ صرف دوسروں کے لیے راحت و اطمینان کا باعث بنتا ہے بلکہ خود اپنے اندر بھی ایک مثبت توانائی محسوس کرتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ مثبت رویہ اختیار کرنے والے افراد کے دماغ میں serotonin اور dopamine جیسے خوشی کے ہارمونز زیادہ متحرک رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں ذہنی سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ خوش خلقی انسان کو منفی سوچ، حسد، غصہ اور انتقام جیسے تباہ کن جذبات سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوش مزاج اور مثبت فکر رکھنے والے افراد مشکلات میں بھی حوصلہ، صبر اور توازن کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو ایک متوازن شخصیت کی علامت ہے۔

جدید نفسیات کی روشنی میں خوش خلقی کا کردار

جدید نفسیات (Modern Psychology) کے مطابق خوش خلقی صرف ایک اخلاقی یا سماجی خوبی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی طاقت (Psychological Strength) بھی ہے، جو انسان کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی تندرستی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک خوش اخلاق شخص عام طور پر زیادہ پُرسکون، خوداعتماد، اور متوازن ذہن کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ اس میں منفی جذبات پر قابو پانے اور مثبت رویہ اپنانے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

نفسیاتی ماہرین کے مطابق خوش اخلاقی انسان کے دماغ میں ایسے نیوروکیمیکل ہارمونز پیدا کرتی ہے جیسے ڈوپامین (Dopamine)، سیرٹونن (Serotonin)، اور آکسی ٹوسن (Oxytocin)، جو ذہنی سکون، اعتماد، اور اطمینان پیدا کرتے ہیں۔ یہ کیمیائی تبدیلیاں جسم میں Stress hormones (جیسے Cortisol) کو کم کرتی ہیں، جس سے تناؤ (Stress) میں کمی اور اطمینان (Satisfaction) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح خوش خلقی، مثبت رویے، اور ذہنی صحت کے درمیان ایک فطری اور سائنسی تعلق قائم ہوتا ہے۔

مثبت نفسیات (Positive Psychology) کا نظریہ

مثبت نفسیات، جدید نفسیات کی ایک معروف شاخ ہے جسے ڈاکٹر مارٹن سیلیگمین (Dr. Martin Seligman) نے متعارف کروایا۔ اس نظریے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد صرف ذہنی بیماریوں سے بچنا نہیں بلکہ خوشی، اطمینان، اور مثبت طرزِ زندگی کو فروغ دینا ہے۔

سیلیگمین کے مطابق، ہر انسان کے اندر ایسی فطری خوبیاں موجود ہیں جو اس کی خوشی، سکون اور ذہنی صحت کا ذریعہ بن سکتی ہیں، جیسے شکر گزاری (Gratitude)، رحم دلی (Kindness)، صبر (Patience) اور خوش اخلاقی (Good Conduct)۔

تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ مثبت نفسیات کے اصولوں پر عمل کرنے والے افراد میں:

•ڈپریشن اور انگزائٹی کی شرح کم ہوتی ہے،

•قوتِ مدافعت بہتر رہتی ہے،

•اور ان کے سماجی تعلقات زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیاکی ایک تحقیق کے مطابق، روزمرہ زندگی میں چھوٹے چھوٹے نیک اعمال جیسے کسی کو مسکرا کر دیکھنا، شکریہ ادا کرنا، یا دوسروں کی مدد کرنا ذہنی خوشی (Subjective Well-being) میں نمایاں اضافہ کرتے ہیں۔
اسی طرح Emmons & McCullough (2003) کی تحقیق کے مطابق Gratitude اور Kindness-based behaviors کرنے والے افراد میں خوشی اور ذہنی اطمینان کی سطح غیر معمولی طور پر بلند دیکھی گئی۔

جذباتی ذہانت کا نظریہ

جذباتی ذہانت کا تصور ڈینیل گولمین نے 1990 کی دہائی میں پیش کیا۔ اس کے مطابق کامیاب اور متوازن زندگی کے لیے صرف عقلی ذہانت (IQ) کافی نہیں بلکہ جذباتی ذہانت (EQ) زیادہ اہم ہے۔

جذباتی ذہانت سے مراد ہے: ’’اپنے اور دوسروں کے جذبات کو پہچاننے، سمجھنے، اور مثبت انداز میں استعمال کرنے کی صلاحیت۔ ‘‘

اس نظریے کے مطابق، ایک جذباتی طور پر باشعور شخص اپنی اور دوسروں کی نفسیاتی کیفیت کو بہتر طور پر سمجھتا ہے، منفی احساسات کو قابو میں رکھتا ہے، اور مثبت انسانی تعلقات قائم کرتا ہے۔ گولمین کے مطابق Emotional Intelligence کے پانچ بنیادی اجزاء یہ ہیں:

1.خود آگہی: اپنے جذبات کو پہچاننا اور ان کے اثرات سمجھنا

2.نظم و ضبط: غصہ، حسد اور منفی احساسات پر قابو پانا

3.حوصلہ افزائی: مثبت مقاصد کے لیے مسلسل کوشش جاری رکھنا

4.ہمدردی: دوسروں کے احساسات کو سمجھنا اور ان کے ساتھ نرمی برتنا

5.Social Skills سماجی صلاحیتیں: تعلقات کو بہتر بنانا اور ہم آہنگی پیدا کرنا

خوش اخلاقی ان تمام اجزاء کے عملی اظہار کی علامت ہے۔ ایک خوش اخلاق شخص اپنے جذبات کو متوازن رکھتا ہے، دوسروں کے احساسات کا احترام کرتا ہے، اور سماجی تعلقات میں سکون و محبت پیدا کرتا ہے۔

خوش خلقی کے جسمانی و طبی اثرات

مسکراہٹ، شکر گزاری اور خوش اخلاقی کے جسم پر سائنسی اثرات

جدید تحقیق سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مسکراہٹ، شکر گزاری، اور خوش مزاجی محض اخلاقی یا سماجی اظہار نہیں بلکہ یہ جسمانی نظام (Physiological System) پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہیں۔

مثلاً، Harvard Medical School کی 2019 کی تحقیق میں یہ ثابت کیا گیا کہ جو افراد روزانہ مسکراتے ہیں یا دوسروں سے نرم دلی سے پیش آتے ہیں، ان کے جسم میں Endorphins اور Serotonin کی مقدار بڑھتی ہے — جو قدرتی طور پر درد کم کرنے اور خوشی پیدا کرنے والے ہارمونز ہیں۔

اسی طرح University of California, Davis کی تحقیق میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ شکر گزاری کا مسلسل اظہار کرنے والے افراد کے دل کی دھڑکن میں توازن، نیند کے معیار میں بہتری، اور بلڈ پریشر میں کمی دیکھی گئی۔

یہ ثابت کرتا ہے کہ خوش خلقی اور شکر گزاری جسم کے خودکار نظام کو پرسکون اور متوازن بناتی ہے، جس سے مجموعی جسمانی صحت میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔

دل، دماغ اور قوتِ مدافعت پر خوش خلقی کا اثر

خوش خلقی نہ صرف دماغی سکون کا ذریعہ ہے بلکہ دل کی صحت اور قوتِ مدافعت (Immune System) کو بھی تقویت پہنچاتی ہے۔ Harvard T.H. Chan School of Public Health کی 2013 کی تحقیق کے مطابق، ایسے افراد جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں یا مثبت سماجی تعلقات قائم رکھتے ہیں، ان کے جسم میں Inflammatory Markers کم پائے جاتے ہیں یعنی وہ مادے جو سوزش، دل کے امراض اور ذیابیطس کا سبب بنتے ہیں۔

اسی طرح Oxford University (2015) کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ باقاعدہ نیکی کے اعمال کرنے والے افراد میں Natural Killer Cells (مدافعتی خلیے) کی فعالیت میں اضافہ ہوتا ہے، جو جسم کو جراثیم اور وائرس سے بچاتے ہیں۔

مزید یہ کہ خوش خلقی سے خون میں آکسیجن کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں دماغ زیادہ متحرک، یادداشت بہتر، اور نیند زیادہ گہری ہو جاتی ہے۔

دماغی صحت پر خوش اخلاقی کے اثرات کو Yale School of Medicine کی 2020 کی ایک تحقیق نے بھی سائنسی بنیادوں پر واضح کیا کہ نرم گفتاری اور ہمدردی جیسے جذباتی رویے دماغ کے Prefrontal Cortex اور Amygdala کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں، جس سے غصہ، خوف، اور بےچینی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

خوش اخلاقی پیدا کرنے کے عملی طریقے

1۔ خود احتسابی، صبر، شکر اور مثبت سوچ

خوش خلقی کی ابتدا خود احتسابی سے ہوتی ہےیعنی انسان اپنے رویوں، جذبات اور ردِعمل کا جائزہ لے۔ جب انسان اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو پہچان لیتا ہے، تو اصلاح کی راہ کھلتی ہے۔ صبر انسان کو اشتعال، غصہ اور منفی ردِعمل سے محفوظ رکھتا ہے، جب کہ شکر کا رویہ دل کو وسعت، اطمینان اور دوسروں کے لیے نرم روی کا احساس بخشتا ہے۔

اسی طرح مثبت سوچ (Positive Thinking) فرد کے اندر برداشت، عفو اور حسنِ ظن پیدا کرتی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے خوش خلقی دراصل باطن کے سکون اور یقینِ قلب کا مظہر ہے، اور یہی کیفیت انسان کو دوسروں کے ساتھ نرمی و محبت سے پیش آنے کے قابل بناتی ہے۔

2۔ ذکر، دعا اور صلۂ رحمی کا کردار

قرآن و سنت کی روشنی میں ذکرِ الٰہی اور دعا انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے بنیادی ذرائع ہیں۔ ذکر دل کو نرمی عطا کرتا ہے اور انسان کو غفلت، تکبر اور خود پسندی سے پاک کرتا ہے، جبکہ دعا کے ذریعے بندہ اپنی اصلاح اور خُلقِ حسن کی طلب کرتا ہے۔

علاوہ ازیں صلۂ رحمی یعنی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک خوش خلقی کی عملی صورت ہے۔ جو شخص رشتہ داری نبھاتا، معاف کرتا اور تعلقات کو جوڑتا ہے، وہ دراصل اپنے اندر اخلاقی نرمی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرتا ہے۔

3۔ جدید نفسیاتی طریقے: شعوری بیداری اور شکر گزاری

جدید نفسیات میں ایسے عملی طریقے متعارف ہوئے ہیں جو انسان کے اخلاقی اور جذباتی توازن کو بہتر بناتے ہیں۔ Mindfulness یعنی شعوری بیداری کا مطلب ہے کہ انسان اپنے خیالات، احساسات اور اعمال سے پوری طرح آگاہ رہے۔ یہ کیفیت غصے، حسد، یا منفی ردِعمل کے بجائے وقار، تحمل اور ہمدردی کو فروغ دیتی ہے۔

اسی طرح Gratitude Journaling شکر گزاری کی یاددہانی ایک ایسی مشق ہے جس میں انسان روزانہ ان چیزوں کو لکھتا ہے جن پر وہ شکر گزار ہے۔ یہ عمل دماغ میں Serotonin اور Dopamine جیسے مثبت کیمیائی مادّوں کی افزائش کرتا ہے، جو سکون، مسرت اور خوش اخلاقی کو مستحکم کرتے ہیں۔

4۔ معاشرتی و تعلیمی سطح پر کردار سازی کی ضرورت

خوش خلقی کی تربیت صرف فرد کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ یہ سماجی اور تعلیمی ذمہ داری بھی ہے۔ اسکول، تعلیمی ادارے، اور دینی مراکز کو محض علمی تربیت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ کردار سازی، صبر، تعاون، اور احترامِ انسانیت کی عملی مشقیں بھی کروانی چاہئیں۔ اساتذہ اور والدین کو بچوں میں ابتدائی عمر سے ہی اخلاقی ضبط، نرم مزاجی، اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا کرنے چاہییں۔ معاشرتی سطح پر ایسے ماحول کی تشکیل ضروری ہے جہاں محبت، رواداری، اور برداشت کی قدریں فروغ پائیں کیونکہ اجتماعی ماحول فرد کے اخلاق پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اسی فکر کے پیش نظر تحریک منہاج القرآن اول روز سے ہی افراد معاشرہ کی اخلاقی قدروں کو پھر سے زندہ کرنے اور مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہے اور قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسی نبوی مشن کے لیے اپنی زندگی صرف کررہے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں حسنِ اخلاق عطا فرماکر، مخلوق کے لیے نفع رسانی کا باعث بنائے۔ آمین