مثنویِ مولانہ روم اور تلاش راہ محبوب

خدیجہ خان

مولانا جلال الدین بلخی رومیؒ، مثنوی معنوی کے مصنف، صوفیائے کرام میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ مثنوی معنوی فارسی ادب کا عظیم شہرہ ہے جو رومی کے نام کو آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے اور اس کی مقبولیت نے فارس کے دیگر شعری مجموعوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ برٹانیکا انسائیکلوپیڈیا کی رپورٹ کے مطابق رومی مغربی دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ پڑھے جانے والے صوفی شاعر ہیں۔

مثنویِ معنوی چھ جلدوں پر مشتمل ہے اور تقریباً ۲۵۰۰۰ اشعار پر مشتمل ہے، اور اسے عموماً فارسی میں قرآنِ فارسی کا درجہ دیا گیا ہے۔ رومیؒ کے نزدیک عشق محض احساس نہیں، بلکہ ایک ایسی باطنی قوت ہے جو بندے کو محدود کائنات سے نکال کر لامحدود حقیقت سے جوڑ دیتی ہے۔ ان کے ہاں عقل راہ دکھاتی ہے، مگر منزل تک پہنچانے والی قوت عشق ہے۔ یہی عشق، تلاشِ راہِ محبوب کی اساس اور تصوف کی روح ہے۔ یوں مثنویِ رومؒی بندگی، عشق اور عرفانِ ذات کا ایسا آئینہ ہے جس میں انسان اپنے رب کے جلوے کو محسوس کرتا ہے۔ یہ کتاب دراصل اس ابدی سفر کی تعبیر ہے جس کا انجام وصالِ محبوب اور اطمینانِ قلب ہے۔

تلاشِ راہِ محبوب کے مراحل

محبوب حقیقی کی تلاش میں رومیؒ نے کئی مراحل بیان کیے ہیں جن میں ہر مرحلہ ایک اعلیٰ روحانی منزل کی نمائندگی کرتا ہے۔ مثنوی کے مختلف ابواب میں رومیؒ نے ان مراحل کو شاعری کی صورت میں بیان فرمایا ہے۔

صحبتِ شیخ

رومی شیخ کامل کی صحبت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ مولانا رومؒ کے مطابق ایک قابل رہبر کی صحبت سلوک کا بنیادی جزو ہے۔ شیخ کامل قلبِ سالک کو روشنی عطا کرتا ہے اور پیچیدہ روحانی رموز سے روشناس کراتا ہے مولانا خود اپنی روحانی ترقی میں شمس تبریز سے استفادہ کرتے رہے۔ مثنوی میں کئی حکایات میں شمس تبریز کے مقام اور بزرگی کا تذکرہ ملتا ہے جو شیخ کی صحبت کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ شمس تبریزیؒ کا فیضان نظر ہے کہ رومی نے روحانی رموز واسرار کی بناپر دنیامیں شہرت دوام حاصل کیا۔ ایک انسان ضرورحیران ہوگاکہ آیاکہ رومیؒ نے شمس تبریزیؒ کے لیے شہرت دوام کاافق تلاش کیایاشمس تبریزیؒ، رومیؒ کوایک غیر مرئی دیدۂ جہاں میں لےگئے۔ کون کس کوحقائق کی اصل حقیقت میں لے گیااورعشق اورراحت کی بلندیوں پر لےگیا۔ کس نے کس کو حقیقت کی تلاش میں محبوب حقیقی کی طرف راہنمائی کی۔ ان سوالات کے جوابات دیناانسان کے علم وشعور سے بالاہیں کم ازکم کوئی صاحب ذوق صرف یہ کہہ سکتاہے کہ اس متبرک وقت کے دوران دوروشن دماغ اور بیدار روحیں، دو سمندروں کی مانند اکٹھی ہوئیں اورایک دوسرے میں ضم ہوگئیں۔ مثنوی میں بیان ہوا کہ

پیر را بگزین کہ بے پیر ایں سفر
ہست بس پر آفت و خوف و خطر

مرشد کامل کی تلاش کرو کیونکہ بغیر رہنما کے یہ سفر بہت سی آفات، خوف اور خطر سے بھرا ہوا ہے۔

یہاں پیر سے مراد مرشد کامل ہے۔ رومیؒ کا کہنا ہے کہ کسی رہنما کا نہ ہونا انسان کو غلط راستوں پر لے جاتا ہے، اس لیے شیخِ کامل کی رہبری باعثِ نجات ہے۔ مولانہ رومؒ کے نزدیک شیخ کی صحبت محبوبِحقیقی اللہ تعالی تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ کیونکہ صحبت انسان کی شخصیت پر گہرا ثر ڈالتی ہے

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا

مَثَلُ الْجَلِيْسِ الصَّالِحِ وَالسُّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيْرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً. وَنَافِخُ الْكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَة۔

’’اچھے اور برے ساتھی کی مثال مشک والے (عطار) اور بھٹی دھونکنے والے (لوہار) جیسی ہے کیونکہ مشک والا یا تو تحفتاً تمہیں ( تھوڑی بہت خوشبو) دے دے گا یا تم اس سے خرید لو گے، ورنہ عمدہ خوشبو تو تم پا ہی لو گے (یوں تم انبساط خاطر اور انشراح طبع محسوس کرو گے)۔ رہی بھٹی والے (لوہار) کی بات تو اس کی بھٹی کی آگ یا تو تمہارے کپڑے جلا دے گی وگرنہ تمہیں (بھٹی کی) بد بو تو ضرور پہنچے گی (یعنی بھٹی کا دھواں تمہاری طبیعت کو مکدر کر دے گا۔ )‘‘(صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید)

رومیؒ نے ایک اور جگہ فرمایا:

بے مراداں را مراد آید زپیر
زانک پیر است آشنا باروح سیر

’’جو لوگ مقصد کی تلاش میں ہیں مگر راستہ نہیں جانتے، انہیں ایک مرشد ضرورت ہے۔ مرشد وہ ہے جو روحانی سفر کی لطائف جانتا ہے۔‘‘

اس کے تجربے کی روشنی میں مشکلات آسان ہوتی ہیں۔ صحبتِ شیخ انسان کو اس پہلے مقام سے اٹھاتی ہے جہاں وہ خود کو گم محسوس کرتا ہے اور اسے نور دکھاتی ہے۔ اور فرمایا:

یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا

اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے سوسال کی بے ریا عبادت سے بہتر ہیں۔

عشقِ حقیقی

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ

جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ (المائدہ: 54)

عشقِ حقیقی انسان کو خودی کی قید سے نکال کر فنا فی اللہ کی راہ پر ڈالتا ہے۔ رومی اسی سفر کو “سفرِ روحانی” کے استعارے میں بیان کرتے ہیں وہ سفر جو ’’نے‘‘ کی صداسے شروع ہوتا ہے اور ’’وصلِ محبوب‘‘ پر ختم ہوتا ہے۔
جیسا کہ مثنوی کے آغاز میں وہ فرماتے ہیں:

بشنواز نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند

یہ صدا دراصل روح کی پکار ہے جو اپنے اصل مقام سے جدائی کے درد میں مبتلا ہے۔ یہی دردِ جدائی روح کو تلاش کی طرف لے جاتا ہے، اور یہی تلاش عشقِ حقیقی کا پہلا زینہ ہے۔

رومیؒ کا نظریۂ عشق وحدت الوجود کے تصوفی فلسفے سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ابنِ عربیؒ کے مطابق، کائنات میں موجود ہر شے مظہرِ واحدِ مطلق ہے۔ وجودِ حقیقی صرف ایک ہے، باقی سب اس کے ظہور کی صورتیں ہیں۔ رومیؒ اسی تصور کو شعری و عرفانی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں کہ عاشق اور معشوق جدا نہیں ہیں یہ جدائی دراصل شعور کی سطح پر ہے، حقیقت میں سب کچھ ایک ہی نور کا ظہور ہے۔ ان کے نزدیک عشق وہ قوت ہے جو اس ظاہری دوئی کو ختم کر کے وحدت کے ادراک تک لے جاتی ہے۔ چنانچہ ’’تلاشِ راہِ محبوب‘‘ دراصل انسان کی اندرونی بیداری اور معرفتِ ذات کا سفر ہے۔

مولانا رُومیؒ نے یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کے دل میں ایک نہ دِکھائی دینے والا دبستان ہے جو پُر اسرار علوم کی وجہ سے خود پُر اسرار بن گیا ہے۔ یہاں مطالعہ کے لیے اُس نگہ، کی ضرورت ہے جو آنکھوں کے اندر رہتی ہے۔ زندگی کی سچائیوں سے جو سچی بصیرت حاصل ہو گی اسی سے یہ ’وژن‘ پیدا ہوگا اور یہ نگہ، متحرّک ہو گی۔ باطن کا علم حاصل کر نے والا عارف ہوتا ہے

صوفیانہ فکر میں یہ سفر چار مراحل پر مشتمل سمجھا جاتا ہے۔ شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت۔ رومیؒ ان منازل کو مثنوی کی تمثیلی کہانیوں کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ ہر کردار، ہر واقعہ دراصل سالک کے باطنی حالات کی تصویر ہے۔ ان کے ہاں تاجر و طوطی، شمع و پروانہ، مجنوں و لیلیٰ، سب رموزِ روحانی ہیں جو انسان کو ظاہری عشق سے اٹھا کر عشقِ حقیقی تک لے جاتے ہیں۔ اور عشق کے بارے میں فرماتے ہیں:

عشق آں شعلہ ا‌ست کہ آتش
در نہاد در بسوزد غیر را و پاک باد

گر ترا زخم است، آں مرهم نگر
زانک آں زخم است از آں یارِ نگر

عشق ایک ایسا شعلہ ہے جو دل میں لگ جائے تو غیرِ محبوب کو جلا دے یعنی انسان کی وابستگی مٹ جائے اور دل صرف محبوب کے لیے ہو جائے۔ دوسرا مصرع اس محبت کے سفر کی حقیقت کو بیان کرتا ہے: محبت کے راستے میں زخم، تکلیف، فراق آتے ہیں۔ مگر وہ زخم بھی ایک مرہم ہے، کیونکہ وہ محبوب کی عطا ہے، امتحان ہے جو انسان کو پاک بناتا ہے۔ یہ عشق وہ قوت ہے جو انسان کو اس کی رفاقت سے آزاد کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتی ہے۔ عشق کی روشنی میں دل روشن ہوتا ہے، اور وہ جنہیں عشق نہ ہو، وہ اندھیروں میں رہ جاتے ہیں۔ رومیؒ مزید فرماتے ہیں:

عشق ربّانی ست خورشیدِ کمال
امر نور اوست خلقاں چوں ظلال

عشق کی راہ ایسی ہے کہ اس میں عمل اور علم دونوں کی راہیں جذب ہو جاتی ہیں، عمل کی راہ پر انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر چیلنجزکا سامنہ ہوتا ہے۔ علم کی راہ زندگی کو سمجھاتے اور بہت سی گتھیاں سلجھاتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ عشق کی راہ میں یہ دونوں راہیں جذب ہو جاتی ہیں، عشق کی راہ ایسی ہے جو انسان کو گم کر دیتی ہے۔ عشق کی راہ پر انسان کی خودی نظر نہیں آتی، انسان کا عمل خالقِ کائنات کا عمل بن جاتا ہے۔ خدا ہی نئی تراش خراش کرتا ہے وہ تراش خراش کے بعد انسان کو بانسری کی صورت دے دیتا ہے۔ ایک صوفی اُس کلی کی مانند ہوتا ہے جو صبح سویرے سورج کی کرنوں کو اجازت دیتی ہے کہ انھیں کھول دے، اپنی پنکھڑیوں کو کھول دینے کی اجازت دیتی ہے خود نہیں کھلتی۔ سورج کی شعاعیں اس کی خوبصورت نازک پنکھڑیوں کو کھولتی ہیں، بڑی خاموشی سے آہستہ آہستہ، جیسے جیسے کرنیں پڑتی ہیں پنکھڑیاں کھلتی جاتی ہیں، کلی تو عشق کے جذبے سے سرشار صرف اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ سورج کی کرنیں اس کی پنکھڑیوں کو کھول دیں، وہ خود کچھ بھی نہیں کرتی۔ صوفی جب کلی کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو وہ بھی خاموش رہتا ہے۔ وہ دشوار را ہوں سے گزر چکا ہے، عمل کی راہ سے گزر چکا ہے، علم کی راہِ سے گزر چکا ہے، دیکھ چکا ہے کہ اب وہ جس راہ پر ہے وہ عشق کی راہ ہے کہ جہاں اس کی خودی گم ہو چکی ہے اور جہاں عمل اور علم کی راہیں جذب ہو گئی ہیں۔ صوفی پھر سورج مکھی کے پھول کی طرح گھومتا ہے۔ جس جانب آفتاب ہوتا ہے اس کا رُخ بھی اسی طرف ہوتا ہے، عشقِ الٰہی کی شعاعیں اس کی شخصیت تبدیل کر دیتی ہیں۔

اطاعت الہٰی

اطاعت، عشق کا عملی اظہار ہے۔ اسی سے محبوب کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ مولاناؒ فرماتے ہیں:

بندگی کن تا کہ سلطانی کنی
زیرِ پائی خود جہانی کنی

بندگی اختیار کر، تاکہ بادشاہ بن جائے، اور دنیا تیرے قدموں کے نیچے ہو۔ رومیؒ کہتے ہیں کہ جو بندہ خدا کے حکم کے سامنے جھک جائے، وہی دراصل آزاد ہوتا ہے۔

خاکِ آدم چونکہ شد چالاکِ حق
پیشِ خاکش سر نہد املاکِ حق

اَ لسّماءُ انشقَّت آخر از چہ بود
از یکے چشمے کہ خاکے بر کشود

خاک از دردی نشنید زیرِ آب
خاک بیں کز عرش بگذشت از شتاب

آں لطافت پس بداں کز آبِ نیست
جز عطائے مبدعِ وہّاب نیست

اگر ایک مٹھی مٹی اللہ کی اطاعت کرے تو اس مٹّی کے سامنے آسمان جھک جائیں، خاکِ آدم کی مثال سامنے ہے۔ اس مٹّی کے آگے اللہ کی مملوک نے سر رکھ دیا، آسمان پھٹ گیا (شق القمر) اس کا سبب یہی تھا کہ مٹّی نے آنکھ کھولی تھی، مٹّی تلچھٹ ہو جانے کے سبب پانی کے نیچے بیٹھ جاتی ہے، غور کرو یہی مٹّی تیزی سے عرش سے بھی اوپر چلی گئی، یہ لطافت آب و گل کی نہیں ہے یہ تو اللہ کی دین ہے، عطا کر نے والے نے یہ تو انائی عطا کی ہے۔

جب مٹی اللہ کی اطاعت میں سر رکھتی ہے، تو اس کی عاجزی میں وہ قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ عرش بھی اس کے سامنے جھک جائے۔ زمین کی مٹی جب نافرمان بن جائے تو پانی کے نیچے بیٹھ جاتی ہے، مگر یہی مٹی جب اطاعت سے لطیف ہو جائے تو آسمان سے اوپر چلی جاتی ہے۔ اطاعت وہ توانائی ہے جو مٹی کو خاک سے نور بنا دیتی ہے۔

علم اور معرفت الہٰی

مولانا رُومیؒ نے مادّی زندگی کی حقیقتوں اور وجود کے رُوحانی پہلو کو سمجھنے کے لیے علم کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ علم کے بغیر زندگی کا عرفان حاصل نہیں ہو سکتا، ذہنی اور رُوحانی سکون حاصل نہیں ہو سکتا، بصیرت پیدا نہیں ہو سکتی، حقائق کو دیکھنے اور پہچاننے کے لیے ’وژن‘ میں کشادگی نہیں آ سکتی، زندگی کے تعلق سے نئی دریافتوں کی لذّت نہیں مل سکتی، وہ ذہنی اور قلبی سکون حاصل نہ ہو گا جس سے رُوحانی انبساط حاصل ہو۔

مولانا رُومیؒ نے یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کے دل میں ایک نہ دِکھائی دینے والا دبستان ہے جو پُر اسرار علوم کی وجہ سے خود پُر اسرار بن گیا ہے۔ یہاں مطالعہ کے لیے اُس نگہ، کی ضرورت ہے جو آنکھوں کے اندر رہتی ہے۔ زندگی کی سچائیوں سے جو سچی بصیرت حاصل ہو گی اسی سے یہ ’وژن‘ پیدا ہوگا اور یہ نگہ، متحرّک ہو گی۔ باطن کا علم حاصل کر نے والا عارف ہوتا ہے۔ جب وہ ظاہر اور باطن کے اسرار سے آگاہ ہو جاتا ہے تو دل کے ذریعے معارف کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اُسے زندگی کا مخمور کر دینے والا انبساط حاصل ہوتا ہے۔ کائنات اور اس کے اسرار کے جلال و جمال کے جلوؤں کا سچاّ عرفان حاصل کر لیتا ہے، وہ دل جو بہت سے آفتابوں کا مشرق ہے، عارف کے لیے فتّحت ابوابہا کا تجربہ بن جاتا ہے۔

آں دلے کہ مطلعِ مہتاب ا ست
بہر عارف فتحت ابواب ا ست
جوہرِ آہن بکف مومے شود

’’علم سے رُوح کا نور حاصل ہوتا ہے، لوہے کا جوہر ہاتھ میں موم بن جاتا ہے۔ ‘‘

جس طرح آگ ابراہیمؑ کے لیے نسرین بن جاتی ہے (نار ابراہیمؑ را نسریں شود) اسی طرح علم مادّی اور رُوحانی زندگی کو پاکیزگی عطا کرتا ہے، آتش کو گلستاں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وجدانی علم سے پُر اسرارمحبتوں اور رِشتوں کے تئیں ایک دلکش خواب آلود بیداری پیدا ہوتی ہے۔ انتہائی خوبصورت بیداری کہ جس سے بعض پُر اسرار معنی خیز ذرّوں کی چمک دمک تھوڑی بہت سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ اس سچائی کو واضح کر نے کے لیے مولانا رُومیؒ نے ایک عمدہ تمثیل پیش کی ہے جس سے تصوّف کی جمالیات کی معنی خیز سطح واضح ہوتی ہے۔

عشق ایک ایسا شعلہ ہے جو دل میں لگ جائے تو غیرِ محبوب کو جلا دے یعنی انسان کی وابستگی مٹ جائے اور دل صرف محبوب کے لیے ہو جائے۔ دوسرا مصرع اس محبت کے سفر کی حقیقت کو بیان کرتا ہے: محبت کے راستے میں زخم، تکلیف، فراق آتے ہیں۔ مگر وہ زخم بھی ایک مرہم ہے، کیونکہ وہ محبوب کی عطا ہے، امتحان ہے جو انسان کو پاک بناتا ہے

مولاناؒ ایک خوبصورت تمثیل کے ساتھ ذہن کو علومِ معرفت کی جانب لے جاتے ہیں۔

ایک نحوی کشتی میں سوار ہوا، اس خودپرست نے ملاّح سے مخاطب ہو کر دریافت کیا تو نے کچھ نحو پڑھی ہے، ملاّح نے کہا نہیں۔ اُس متکبر نحوی نے کہا تیری آدھی عمر فنا ہو گئی۔ کشتی بان دل شکستہ ہو گیا، لیکن اُس وقت خاموش رہا، کوئی جواب نہیں دیا۔ ہوا یہ کہ کشتی ہوا کی وجہ سے بھنور میں چکرانے لگی۔ کشتی باں نے بلند آواز سے پوچھا ’’تو کچھ تیرنا جانتا ہے؟‘‘ نحوی نے جواب دیا تو مجھ سے تیراکی کی اُمید نہ کر۔ کشتی بان نے کہا ’’اے نحوی! تیری ساری عمر برباد ہے اس لیے کہ کشتی اس بھنور میں ڈُوب رہی ہے۔‘‘

لہذا معلوم ہوا کہ انسان جتنا بھی علم حاصل کر لے علم کبھی مکمل نہیں ہوتا، تھوڑا سا علم حاصل کر کے تکبر کرنا غلط ہے۔ علم حاصل کر کے انسان کو خودپرست نہیں ہونا چاہیے۔ نحوی اور کشتی بان کی یہ تمثیل پیش کر نے کے بعد مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:

مرد نحوی را ازاں در دوختیم
تا شمارا نحوِ محو آموختیم

’’یعنی نحوی کا قصہ اس لیے منسلک کر دیا ہے کہ تمھیں فنا کا طریقہ سکھا دیں۔‘‘

مولانا رُومیؒ نے باطن کی تو انائی اور وجود کی خوشبو کا احساس طرح طرح سے دیا ہے۔ کہتے ہیں جس طرح ہرن کے بچے ّ کو کچھ دیر ماں کے قدموں کی ضرورت ہے اس کے بعد خود اس کا نافہ اس کا رہنما بن جاتا ہے، اسی طرح انسان اپنے وجود کی خوشبو کو جان لیتا ہے اور یہ خوشبو اس کی رہنما بن جاتی ہے۔

چند گاہش گامِ آہو درخورست
بعد ازاں خود نافِ آہو رہبرست

اپنے وجدان اور اپنے ’وژن‘ پر اعتماد ضروری ہے، باطن کی تو انائی اور وجود کی خوشبو غیر معمولی نعمت ہے، نافہ کی خوشبو پر ایک منزل چلنا چکر کی سینکڑوں منزلوں سے بہتر ہے۔

رفتنِ یک منزلے بر بوئے ناف
بہتر از صد منزلِ گام و طواف

وجود کی خوشبو اللہ سے قریب کرتی ہے، یہ خوشبو اور خوشبو کا پراسرار رِشتہ ہے، خوشبو جو دل میں ہوتی ہے، معبودِ حقیقی تک پہنچا دیتی ہے۔ اس سے معارف کے دروازے کھلتے ہیں، جو عارف ہوتے ہیں اُن کے لیے یہ دل دیوار نہیں دروازہ ہے، پتھر نہیں موتی ہے۔ ہم سب جو کچھ آئینے میں دیکھتے ہیں ایک عارف لوہے کے ٹکڑے میں اس سے قبل دیکھ لیتا ہے۔

اختتامیہ

مولانا رومؒ کی مثنوی دراصل تلاشِ راہِ محبوب کا سفر ہے، وہ سفر جس میں انسان اپنے ظاہر سے باطن کی طرف، اور ’’میں‘‘ سے ’’وہ‘‘ کی طرف بڑھتا ہے۔ رومیؒ بتاتے ہیں کہ صحبتِ صالحین وہ پہلا زینہ ہے جو دل کو نور عطا کرتی ہے۔ پھر انسان جب عشقِ حقیقی کے سمندر میں اترتا ہے تو اپنی ذات سے نکل کر فنا کے دروازے تک پہنچتا ہے۔ یہ عشق اسے سکھاتا ہے کہ محبوبِ حقیقی کی راہ میں اپنی خواہش، غرور اور وجود سب قربان کرنے پڑتے ہیں۔ اسی عشق کی راہ میں اطاعتِ الٰہی سب سے بڑا مقام رکھتی ہے۔ جب ایک مٹھی مٹی اللہ کے حکم کے آگے جھک جاتی ہے تو آسمان اس کے سامنے جھک جاتے ہیں،۔ پھر علم آتا ہے، جو اگر غرور سے پاک ہو تو معرفتِ الٰہی تک لے جاتا ہے۔ علم جب عاجزی میں ڈھل جائے تو دل میں وہ روشنی پیدا ہوتی ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کر دیتی ہے۔