"ہر گھر کی رونق، ہر والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہر خاندان کی خوشیوں کا مرکز، معصوم بچوں کا وجود محض ایک اتفاق یا معمول کی بات نہیں ہیں۔ بلکہ یہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ایک انمول عطیہ، ایک پاکیزہ امانت اور ایک ایسی نعمت ہیں جس کا کوئی بدل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے ہمیں یہ قیمتی خزانہ ہماری اصلاح، ہمارے امتحان اور ہماری ابدی کامیابی کے لیے سونپا ہے۔
یہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ، یہ معصوم مسکراہٹیں، اور یہ پاکیزہ دل درحقیقت ایک ایسی زمین ہیں جہاں ہم پاکیزہ اخلاق، حقیقی محبت اور درست عقیدے کے بیج بو سکتے ہیں۔ یہ سفید ورق کی مانند ہیں جن پر ہمارے رویوں، ہمارے الفاظ اور ہمارے اعمال کی تحریر رقم ہوتی ہے۔ یہ ننھے پودے ہیں جنہیں ہماری شفقت کی دھوپ، ہمارے صبر کی ہوا اور ہماری رہنمائی کی آبپاشی درکار ہے۔ یہ امانت اس لیے ہے کہ ہم اسے سنواریں، اس کی حفاظت کریں اور اسے اس کے حقیقی مالک کو راضی کرنے کے لیے تیار کریں۔
ہمارا فرض صرف انہیں کھلانا پلانا اور اچھے کپڑے پہنانا ہی نہیں، بلکہ ان کے دلوں میں محبت، ان کے دماغوں میں علم اور ان کی روحوں میں خوفِ خداوندی پیدا کرنا ہے۔ یہ وہ مقدس فریضہ ہے جس کی انجام دہی پر ہم سے قیامت کے دن ضرور بازپرس ہوگی۔ آئیے، اس عظیم امانت کی قدر کریں اور اپنے رب کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم اس کی پرورش میں اپنی پوری کوشش، محبت اور دیانت داری کو بروئے کار لائیں۔ آج کے اس مضمون میں ہم بچپن کے انہی سنہری سالوں کے مختلف پہلوؤں، والدین کے رویے کے اثرات، اور ایک صحت مند شخصیت کی تعمیر کے لیے عملی تجاویز پر روشنی ڈالیں گے۔
بچے کی زندگی کے ابتدائی پانچ سال اس کی پوری شخصیت کی بنیاد رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کسی عظیم عمارت کی تعمیر کے لیے مضبوط بنیاد ضروری ہوتی ہے۔ یہ وہ سنہری موقع ہوتا ہے جب بچے کا دماغ تیزی سے نشونما پا رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے تحاشا سیکھ رہا ہوتا ہے۔ جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ زندگی کے یہ ابتدائی سال ہی دراصل بچے کے دماغ کے "وائرنگ" کا دور ہوتے ہیں، جہاں ہر بات، ہر رویہ، ہر تجربہ اس کے مستقبل کی راہ متعین کرتا ہے۔
یہ وہ دور ہے جب بچے کے اندر اچھے اخلاق، ہمدردی، ایمانداری اور صبر جیسے اوصاف بھی بوئے جاتے ہیں۔ اگر ہم خود گھر میں نرم گفتاری اور احترام کا مظاہرہ کریں گے تو بچہ وہی سیکھے گا۔ اگر ہم اس کے جذبات کو سمجھیں گے اور اس کی بات کو توجہ سے سنیں گے تو وہ خود بھی دوسروں کا احترام کرنا سیکھے گا۔ ابتدائی سالوں میں ڈالی گئی یہی بنیاد اسے مستقبل میں ایک کامیاب اور بااخلاق انسان بنائے گی۔
رحم مادر سے پیدائش تک
حقیقت یہ ہے کہ بچے کی تربیت کا سفر ماں کے پیٹ ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے دین اسلام نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ماں کی حالت، اس کے جذبات، اس کی خوراک اور اس کے افکار کا براہ راست اثر بچے پر پڑتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اگرچہ حاملہ خواتین کی دیکھ بھال کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن اکثر یہ دیکھ بھال صرف جسمانی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے، جبکہ ماں کے جذباتی اور روحانی صحت پر بھی اتنی ہی توجہ درکار ہوتی ہے۔
جدید سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ بچہ ماں کے رحم میں ہی بیرونی دنیا کے اثرات کو محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چھٹے ماہ سے بچہ آوازیں سن سکتا ہے، ماں کے جذبات کو محسوس کر سکتا ہے، اور اس پر ردعمل ظاہر کر سکتا ہے۔ ماں کی آواز، اس کا دل کی دھڑکن کی آواز، اور باپ کی آواز، یہ سب وہ پہلی چیزیں ہیں جن سے بچہ متعارف ہوتا ہے۔
ماں کا ذہنی دباؤ، اس کا غصہ، اس کی پریشانیاں - یہ سب بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات
مرتب کرتی ہیں۔ جب ماں تناؤ کا شکار ہوتی ہے تو اس کے جسم میں کورٹیسول ہارمون خارج
ہوتا ہے جو نال کے ذریعے بچے تک پہنچتا ہے اور اس کی نشوونما پر منفی اثر ڈالتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں حاملہ خواتین کو درپیش مسائل کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ ایک طرف
تو ہمارے ہاں حاملہ خواتین کی دیکھ بھال کی اچھی روایات ہیں، جیسے کہ خاص کھانوں کا
اہتمام، آرام کا خیال رکھنا، اور بزرگ خواتین کے مفید مشورے لیکن دوسری طرف کئی ایسی
غلط فہمیاں اور نقصان دہ روایات بھی ہیں جو ماں اور بچے دونوں کے لیے مسائل کا باعث
بنتی ہیں۔
پاکستانی خاندانوں میں عام طور پر حاملہ خواتین کے جذباتی مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ان کی چڑچڑاپن اور جذباتی اتار چڑھاؤ کو معمول سمجھ لیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت انہیں خصوصی توجہ اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر کے بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ حاملہ بیٹی، بہو یا بہن کے جذباتی اتار چڑھاؤ کو سمجھیں اور اسے ڈانٹنے یا تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اس کی مدد کریں۔
رحم مادر میں تربیت درحقیقت ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کا پہلا اور اہم ترین قدم ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھے، صالح اور ذمہ دار شہری پروان چڑھیں تو ہمیں اپنی توجہ رحم مادر کے مرحلے سے ہی بچوں پر مرکوز کرنی ہوگی۔ یہ وہ مقدس تربیت گاہ ہے جہاں انسان کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔
پیدائش سے دو سال کی عمر تک
پیدائش سے لے کر دو سال کی عمر تک کے دور میں والدین کے رویوں کا بچے کی شخصیت پر انتہائی گہرا اثر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے کئی ایسی غلطیاں اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جو بچے کی نفسیاتی اور جذباتی نشوونما کو شدید متاثر کرتی ہیں۔ مثلاً اکثر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ جب بچہ روتا ہے تو اسے "بگاڑ" سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ننھا بچہ جو اپنی بنیادی ضروریات کے اظہار کے سوا کچھ نہیں جانتا، اس کے رونے کو منفی طور پر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ جدید نفسیات کے مطابق اس عمر میں بچہ کسی "بگاڑ" یا "شرارت" کے تصور سے ناواقف ہوتا ہے، وہ تو صرف اپنی جسمانی یا جذباتی ضرورت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور عام رویہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے کو ماں کی گود سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس خوف سے کہ کہیں بچہ "گود کا عادی" نہ ہو جائے۔ یہ خیال درست نہیں کیونکہ جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ جسمانی قربت اور ماں کے دودھ کا تعلق بچے کے جذباتی تحفظ کی بنیاد ہے۔ جب بچہ ماں کے قریب ہوتا ہے، اس کا جسم ماں سے چمٹا ہوتا ہے، تو اس کے اندر ایک قسم کا جذباتی تحفظ پیدا ہوتا ہے جو اسے مستقبل کی زندگی کے چیلنجز کے لیے تیار کرتا ہے۔
کئی گھروں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے کے ساتھ بات چیت کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال کہ "یہ ابھی کیا سمجھے گا" درحقیقت بچے کی ذہنی نشونما میں رکاوٹ بنتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جن بچوں سے زیادہ بات چیت کی جاتی ہے، وہ نہ صرف جلد بولنا سیکھتے ہیں بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتیں بھی زیادہ تیزی سے نشونما پاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ بچے کے جذبات کو سمجھنے کی بجائے انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب بچہ خوف زدہ ہو یا پریشان ہو، تو اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا جاتا ہے، حالانکہ اس عمر میں بچے کو سب سے زیادہ والدین کے جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ عمر ہے جب بچہ اپنے آس پاس کی دنیا کو سمجھنا شروع کرتا ہے اور اسے والدین کی نرمی اور پیار بھری رہنمائی درکار ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جیک شونکوف، اس تحقیق کے سربراہ، کے مطابق ابتدائی پانچ سالوں میں دماغ میں ہر سیکنڈ سات سو سے ایک ہزار نئے نیورل کنکشن بنتے ہیں۔ یہ وہ سنہری موقع ہوتا ہے جب بچہ نہ صرف زبان اور حرکات سیکھتا ہے بلکہ اس کے دماغ کی بنیادی ساخت طے ہوتی ہے۔ غربت یا نظر اندازی کا شکار بچوں کے دماغ کی نشونما متاثر ہوتی ہے، جس کے اثرات زندگی بھر رہتے ہیں
ہمارے ہاں بزرگوں کے تجربے کا احترام ضروری ہے، لیکن ساتھ ہی جدید نفسیاتی تحقیق کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان دو سالوں میں بچہ اپنی پوری زندگی کی بنیاد تعمیر کر رہا ہوتا ہے۔ جس بچے کو ابتدا میں پیار اور تحفظ ملا ہو، وہ زندگی کے ہر موڑ پر مضبوطی سے کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر بچے کو ابتدائی عمر میں ہی جذباتی طور پر نظر انداز کیا جائے، تو اس کے اثرات اس کی پوری زندگی پر رہتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کے رونے کو سمجھیں، ان کی باتوں کو توجہ دیں، ان کے جذبات کو اہمیت دیں، اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ محفوظ ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ہم ایک مضبوط اور صحت مند نسل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ آخر میں، حضور پاک ﷺ کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ نے فرمایا: "تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ " ہمارے بچے ہماری امانت ہیں، اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس امانت کا صحیح طریقے سے خیال رکھیں۔
دو سے پانچ سال کی عمر تک
دو سے پانچ سال کی عمر کا دور بچے کی شخصیت سازی کا اہم اور حساس مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بچہ اپنے آپ کو "میں" کے طور پر پہچاننا شروع کرتا ہے اور ہر کام خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پاکستانی معاشرے میں اس عمر کے بچوں کے ساتھ کئی ایسے نفسیاتی اور ذہنی صحت کے حوالے سے غیر مناسب رویے اختیار کیے جاتے ہیں جو ان کی شخصیت کو مستقل طور پر مجروح کر دیتی ہیں۔
اس عمر میں بچے کی بنیادی نفسیاتی ضرورت "خود مختاری بمقابلہ شرم و شک" ہوتی ہے۔ بچہ ہر کام خود کرنا چاہتا ہے – خود کھانا، خود کپڑے پہننا، خود فیصلے کرنا۔ لیکن ہمارے ہاں عام طور پر یہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین بچے کی اس کوشش کو "ضدی پن" سمجھ کر ڈانٹ دیتے ہیں۔ مثلاً جب بچہ خود کھانا کھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ڈانٹا جاتا ہے کہ "بیٹھو ٹھیک سے، سارے کپڑے خراب کر دیے"۔ حالانکہ درحقیقت یہ بچے میں خود اعتمادی پیدا کرنے کا سنہری موقع ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک اور المیہ بچوں کے درمیان موازنہ کرنا ہے۔ "دیکھو تمہارا بھائی کتنا اچھا ہے"، "خالہ کی بیٹی تم سے بہتر ہے" جیسے جملے بچے کے اندر حسد اور احساس کمتری پیدا کرتے ہیں۔ یہ موازنہ نہ صرف بچے کی خود اعتمادی کو مجروح کرتا ہے بلکہ بہن بھائیوں کے درمیان نفرت کے بیج بوتا ہے۔
اس عمر میں بچے کے جذبات کو سمجھنے کے بجائے عام طور پر انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب بچہ غصہ میں ہو یا رو رہا ہو تو ہمارے ہاں عام ردعمل یہ ہوتا ہے: "ارے یہ کیا بات ہے، چپ کرو"، "بڑے ہو گئے ہو، اب تو رونا چھوڑ دو"۔ حالانکہ درحقیقت بچے کو اس وقت سب سے زیادہ والدین کی ہمدردی اور سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کو ڈرانے دھمکانے کا رواج بھی عام ہے۔ "ڈاکٹر انجکشن لگا دے گا چپ ہو جاؤ جلدی سے"، "پولیس والا پکڑ لے گا" جیسے جملوں سے بچے کے اندر خوف اور بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہ خوف اکثر بچے کی پوری زندگی کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ ہمیشہ ڈرا ہوا اور غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔
حدود کے تعین کے معاملے میں ہمارے ہاں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔ یا تو بچے کو مکمل آزادی دے دی جاتی ہے کہ وہ کچھ بھی کرے، یا پھر اس پر اتنی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا ہی نہیں سکتا۔ درحقیقت بچے کو پیار کے ساتھ مناسب حدود میں رہتے ہوئے آزادی دینا اس کی صحیح نشونما کے لیے ضروری ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور عام مسئلہ بچوں کو لیبل لگانے کا ہے۔ "تم بہت شرارتی ہو"، "تم سے کچھ نہیں ہو سکتا"، "تم تو بہت کم عقل ہو" جیسے لیبل بچے کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں اور وہ واقعی ایسا ہی بننے لگتا ہے۔
ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ والدین بچے کے ساتھ صبر اور حوصلے سے پیش آئیں۔ بچے کو چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے دیں، جیسے کہ کھانے کے لیے دو ڈشز میں سے ایک کا انتخاب، یا پہننے کے لیے دو قمیضوں میں سے ایک کا انتخاب۔ اس سے اس میں خود اعتمادی پیدا ہوگی۔ بچے کے جذبات کو سمجھیں اور انہیں تسلیم کریں۔ جب بچہ غصہ میں ہو تو اسے یہ جملہ کہیں: "میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم ناراض ہو"۔
حدود کا تعین پیار اور نرمی سے کریں، سختی سے نہیں۔ بچوں کے درمیان کبھی موازنہ نہ کریں، ہر بچے کی انفرادی صلاحیتوں کو پہچانیں۔ انہیں ڈرانے دھمکانے کے بجائے پیار اور منطق سے سمجھائیں۔ سب سے بڑھ کر، خود ایک اچھا نمونہ بنیں کیونکہ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ آپ کو کرتے دیکھتے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی وہ تاریخی تحقیق جس نے والدین کے نظریے کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا
ہارورڈ یونیورسٹی کے چائلڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کی ایک طویل المدت تحقیق نے ثابت کیا کہ زندگی کے پہلے پانچ سال درحقیقت انسان کی پوری شخصیت کی بنیاد طے کر دیتے ہیں۔ یہ تحقیق 1995 سے 2020 تک جاری رہی جس میں 1000 بچوں کا 25 سال تک مشاہدہ کیا گیا۔
محققین نے دو گروپس بنائے۔ پہلا گروپ ان بچوں پر مشتمل تھا جنہیں ابتدائی پانچ سال میں والدین کی جانب سے معیاری تعلیم و تربیت، جذباتی حمایت اور محبت بھرا ماحول ملا۔ دوسرا گروپ ان بچوں کا تھا جنہیں یہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔
حیرت انگیز نتائج
ایم آر آئی اسکینز سے ثابت ہوا کہ جن بچوں کو ابتدائی سالوں میں بہتر ماحول ملا، ان کے دماغ کے ہیپوکیمپس جو کہ یاداشت کا مرکز ہے، اس کا حجم 15 فیصد زیادہ تھا۔
پہلے گروپ کے بچوں میں ہائی سکول تک پہنچتے پہنچتے پڑھنے کی صلاحیت 68%بہتر تھی اور ریاضی میں ان کا اسکور 52% زیادہ تھا۔
جن بچوں کو ابتدائی سالوں میں جذباتی حمایت ملی، ان میں نوجوانی میں سماجی مہارتیں 45%زیادہ بہتر پائی گئیں۔
پہلے گروپ کے شرکاء میں ڈپریشن اور بے چینی کے امکانات 35%کم پائے گئے۔
ڈاکٹر جیک شونکوف، اس تحقیق کے سربراہ، کے مطابق ابتدائی پانچ سالوں میں دماغ میں ہر سیکنڈ سات سو سے ایک ہزار نئے نیورل کنکشن بنتے ہیں۔ یہ وہ سنہری موقع ہوتا ہے جب بچہ نہ صرف زبان اور حرکات سیکھتا ہے بلکہ اس کے دماغ کی بنیادی ساخت طے ہوتی ہے۔ غربت یا نظر اندازی کا شکار بچوں کے دماغ کی نشونما متاثر ہوتی ہے، جس کے اثرات زندگی بھر رہتے ہیں۔
یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ابتدائی سالوں میں والدین کی ذمہ داری محض کھلانا پلانا نہیں، بلکہ ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جس میں بچے کا دماغ صحیح طریقے سے نشونما پا سکے۔
دوسرا گروپ ان بچوں پر مشتمل تھا جنہیں ابتدائی پانچ سالوں میں مناسب دیکھ بھال، جذباتی حمایت اور تعلیمی مواقع میسر نہیں تھے۔ اس گروپ کے نتائج انتہائی پریشان کن تھے:
ایم آر آئی اسکینز سے معلوم ہوا کہ دوسرے گروپ کے بچوں کے دماغ کے ہیپوکیمپس (یادداشت کا مرکز) کا حجم 12-%15 چھوٹا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ دماغ کا وہ حصہ جو فیصلہ سازی کا ذمہ دار ہے اس میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی۔
یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو دوسرے گروپ کے بچوں میں دیکھی گئیں:
· پڑھنے کی صلاحیت میں 47% تک کمی
· ریاضی کے اسکور میں 52% کم کارکردگی
· ہائی سکول ڈراپ آؤٹ ریٹ 38% زیادہ
· نوجوانی میں سماجی مہارتوں میں 45% کمی
· دوست بنانے اور تعلقات قائم رکھنے میں دشواری
· ہم عمراں کے ساتھ جھگڑوں میں 60% اضافہ
· اسکول میں disciplinary issues زیادہ
· جوانی میں جرائم کی شرح 42% زیادہ
· تشدد کا رجحان 38% زیادہ پایا گیا
· ڈپریشن کے امکانات 35% زیادہ
· بے چینی کے disorders 42% زیادہ
· خود اعتمادی میں نمایاں کمی
دائمی بیماریوں کا خطرہ 28% زیادہ
· موٹاپے کا رجحان 31% زیادہ
· مدافعتی نظام کمزور پایا گیا
ڈاکٹر شونکوف کے مطابق، "دوسرے گروپ کے بچوں میں toxic stress کی وجہ سے cortisol ہارمون کی سطح مسلسل بلند رہتی تھی، جس نے ان کے دماغ کی نشونما کو بری طرح متاثر کیا۔ یہ بچے روزانہ کے تناؤ سے نمٹنے میں مصروف رہتے تھے، اس لیے ان کا دماغ سیکھنے اور نشونما پر توجہ نہ دے سکا۔ "
ریسرچ میں یہ امید افزا بات بھی سامنے آئی کہ اگر ان بچوں کو بعد میں بھی supportive environment ملا تو وہ 70%تک improvement کر سکتے تھے، مگر ابتدائی پانچ سالوں کے نقصان کی مکمل تلافی ممکن نہیں تھی۔
یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ابتدائی سالوں میں نظر اندازی کے اثرات زندگی بھر رہتے ہیں، اور ہمارے معاشرے کے لیے یہ انتباہ ہے کہ ہر بچے کو صحیح ماحول اور مواقع فراہم کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چھوٹا بچہ "کچھ سمجھتا نہیں"، لیکن یہ خیال بالکل درست نہیں۔ یہی وہ دور ہے جب بچہ بولنا چلنا سیکھتا ہے، جذبات کو سمجھتا ہے، تعلقات بناتا ہے، اور اپنے بارے میں تصور تشکیل دیتا ہے۔ اس نازک عمر میں والدین کا رویہ بچے کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتا ہے۔ ایک پیار بھرا لمس، نرم آواز میں بولی گئی بات، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراہٹ، یہ سب بچے کے اندر دنیا کے لیے ایک بنیادی اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ یہ اعتماد ہی اسے مستقبل کی زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔
والدین کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھیں۔ ہماری مصروفیات، معاشی پریشانیاں، یا روزمرہ کے دباؤ ہمیں اس اہم ذمہ داری سے غافل نہ کر دیں۔ ہمارے بچے ہماری سب سے بڑی سرمایہ کاری ہیں۔ انہیں مہنگے کھلونے یا جدید سہولیات کی نہیں، بلکہ ہمارے قیمتی وقت، بے لوث محبت اور مستقل توجہ کی ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ کھیلنا، انہیں کہانیاں سنانا، ان کے سوالوں کے صبر سے جواب دینا، یہ سب وہ معمولی نظر آنے والے کام ہیں جو درحقیقت ان کی شخصیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔
لہٰذا آئیے، اس عظیم امانت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے بچوں کے ابتدائی سالوں کو محبت، شفقت اور باخبر رہنمائی سے سنواریں۔ یہ ہمارا قرض ہے جو ہمیں اپنے بچوں کے اور اپنے رب کے حضور ادا کرنا ہے۔ کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب ہم اپنے بچے کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنا سکتے ہیں۔