عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی (لیلیٰ اور مجنوں کے واقعات کا تمثیلی مطالعہ)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا فکر انگیز خطاب

مرتبہ: جویریہ افضل

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ

’’ اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ‘‘  (البقرہ: ۱۶۵)

اللہ رب العزت قرآن میں بہت سے تمثیلی مطالعات کرواتا ہے جیسے مچھر، عنکبوت (مکڑی)، شہد کی مکھی، پھولوں، پودوں اور پھلوں وغیرہ کا تمثیلی مطالعہ اللہ رب العزت نے کلام حکیم میں کروایا۔ اس سے بہت کچھ سامان عبرت ونصیحت حاصل ہوتا ہے۔ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس سے ساری زندگی تشکیل پاتی ہے۔ نیز تمام محبتوں کےتقاضے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔

انسان کی تخلیق میں عنصر محبت

اللہ نے سورۃ العلق میں انسان کی تخلیق کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

’’ (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ ‘‘ (العلق: ۱۔ ۲)

لفظ ’علق‘ کے تین معانی ہیں۔ ایک معنی غلط العام ہے جوکہ خون کا قطرہ (Clot of blood) ہے۔ کیونکہ انسانی تخلیق میں Sperm اور Ovum کے ملاپ سے رحم مادر میں Implantation of egg ہوتا ہے۔ اس سے آگے پھر Uterus میں Embrio بنتا ہے۔ اس پورے عمل میں انسان کی تخلیق تک خون کا قطرہ کسی مرحلے میں شامل نہیں۔

علق کے باقی دو معانی درست ہیں: ایک معنی مرئی، مادی یا غیر محسوس ہے جبکہ دوسرا معنی روحانی، غیر مرئی اور محسوس ہے۔ علق، جونک کی مانند ایک شے ہوتی ہے جو رحمِ مادر میں لٹک جاتی ہے۔ 21 ویں دن اس شے کو جونک کی شکل میں Uterus کے endomentrium میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس مادی معنی کے اعتبار سے علق کی ایک خوبی ہے کہ وہ جونک کی مانند ماں کے رحم میں چپک جاتا ہے جیسے جونک چپک کر خون چوستی ہے۔

علق محبت کا دوسرا معنی روحانی ہے کہ علق، علاقہ/تعلق کا مادہ ہے اور تعلق محبت کا بنیادی عنصر ہے۔ گویا مراد یہ ہوئی کہ ہم نے انسان کو پیدا ہی عنصر محبت سے کیا ہے۔ انسان کی انسانیت ایسی شے ہے جو جڑے بغیر رہ نہیں سکتی کیونکہ اس کی تخلیق علق سے ہوئی۔ اسی وجہ سے انسان کو دیگر انسانوں سے، باپ کو بیٹوں سے بیٹیوں کو باپ سے، ماں کو اولاد سے اور اولاد کو ماں سے انس ہوتا ہے۔ چنانچہ جڑے رہنے میں ہی زندگی ہے اور انسان کی اصل یا بنیادی خاصیت ہی کسی کے ساتھ جڑنا ہے۔

لفظ انسان

لفظ انسان کے دو مادے ہیں، انس (اسے انس ہوگیا)، گویا جس وجود کو انسان کہتے ہیں وہ کسی سے انس و محبت کرتا ہے۔ جو انس نہیں کرتا وہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ حیوان بھی نہیں ہے کیونکہ حیوان بھی انس کرتا ہے۔

بعض نے کہا کہ انسان کا لفظ نَسِیَ سے بنا، اس سے مراد ہے بھول جانا۔ گویا انسان اسے کہتے ہیں جو بھول جائے یا جس سے خطا ہوجائے۔ انس کرنا اور بھول جانا، یہ دونوں چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ اللہ رب العزت نے جنت میں پہلا انسان یعنی حضرت آدمؑ کو جب پیدا فرمایا تو اس کے اندر دونوں مظاہر انس اور نسیان کو ظاہر کیا۔ حضرت حواؑ کے ساتھ ان کا طبعی انس ظاہر فرمایا اور پھر جنت میں درخت کے قریب جانے کی بھول اور نسیان کا مظہر بھی پہلے انسان میں ظاہر کیا۔

انسان میں جب انس پیدا ہوجائے اور وہ تعلق، محبت، مودت کی صورت میں بڑھتا چلا جائے اور پھر محبت کے آخری درجے، عشق تک جاپہنچے تو ہر وہ چیز جو اس کے محبوب سے متناقض ہے، محبوب سے غیر ہے یا محبوب کو اچھی نہیں لگتی تو وہ شخص اسے بھول جاتا ہے۔ اسی طرح جیسے محبوب کو یاد رکھتا ہے ویسے محبوب کی محبوب و مرغوب چیزوں کو یاد رکھتا ہے۔ انس کے اندر ایک قوت نسیان ہے کہ وہ محبوب سے مانوس رکھتا ہے اور محبوب کے غیر سے غیر مانوس کردیتا ہے۔
جس کو محبوب حقیقی سے محبت ہوگئی اور بڑھتے بڑھتے عشق تک جاپہنچی تو وہ پھر ماسوی اللہ کو یکسر بھول جاتا ہے۔ اسی طرح اگر محبت، دنیا اور مال و دولت سے پیدا ہوکر شدت پکڑے تو پھر ایسی محبت، نیکی، حلال و حرام کے فرق، احکام شریعت، عدل و انصاف، انسانیت حتی کہ اللہ کو بھلا دیتی ہے۔ محبت جس طرف کا رخ کرلے اس کے اثرات و نتائج ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جب انسان دنیا کی محبت کی جانب متوجہ ہوجائے تو اسی انسان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ

’’بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘ (العادیات: ۶)

پھر ایسا انسان جو اللہ کا طالب و ذاکر تھا اور مسجود ملائکہ تھا وہی انسان جب شہوتوں کی مزین کی ہوئی محبتوں میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر وہ نیکی، حلال و حرام، خیرو شر، خون حق اور خون ناحق کو بھول جاتا ہے۔ انسان چونکہ علق سے پیدا ہوا ہے اور اگر وہ علاقہ دنیا سے جوڑے تو پھر یہ تعلق یوں اندھا کردیتا ہے کہ جائز و ناجائز کے تمام فرق بھول جاتے ہیں۔

محبت انسان کی ترجیحات مقرر کرتی ہے۔ اسی محبت کے میلانات کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ

’’ حقیقت یہ ہے (اے کفّار!) تم جلد ملنے والی (دنیا) کو محبوب رکھتے ہو۔‘‘  (القیامۃ: ۲۰)

جس طرح مجنوں کو لیلیٰ سے ملنے کی امید نہ رہی اسی طرح جب اللہ کسی سے محبت کرنے لگے اور اسے اپنی محبت کے لیے چن لیتا ہے۔ تب اللہ دنیا سے کہتا ہے کہ اے دنیا! تو میرے اس بندے کے لیے کڑوی بن جا، میرے اس بندے کے لیے تیرے اندر کوئی حسن نہ رہے تاکہ میرا بندہ تجھے دیکھے تو اسے تجھ سے وحشت ہو اور میرا بندہ تیرا گھونٹ نہ بھرے۔ اس طرح اللہ اپنے بندے کو دنیا سے مایوس کردیتا ہے۔ اس کے دل کو دنیا سے توڑ کر اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔ عرفاء کا قاعدہ یہی ہے کہ وصل کے لیے فصل چاہیے یعنی اگر اللہ سے جڑنا مقصود ہو تو پھر ہر اس شے سے کٹنا ہوگا جو اللہ کی متضاد یا اس سے دور کرنے والی ہے

دنیا جس سے فوری طور پر فائدہ ملتا ہے، راحت، جھوٹی عزت اور جھوٹی تسکین قلب ملتی ہے۔ اللہ نےفرمایا کہ تم اس سے بڑی محبت کرتے ہو۔ دوسرے مقام پر فرمایا:

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا

’’بلکہ تم (اﷲ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔‘‘ (الاعلیٰ: ۱۶)

جب محبت کسی چیز کی چھا جائے تو زندگی میں ترجیحات مقرر ہوجاتی ہیں۔ پھر دنیا کی محبت میں آخرت پیچھے پھینک دی جاتی ہے۔ پھر سورہ فجر میں قرآن مجید نے بیان کیا:

وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا

’’اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔‘‘ (الفجر: ۲۰)

مال کی محبت میں پڑ جانے والے کے لیے ہر چیز موخر اور مال مقدم ہوجاتا ہے۔ یہی مال، فرعون، قارون، نمرود اور بدبخت یزید بناتا ہے۔ اسی طرح جس رخ کی محبت ہوجائے، محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے۔ ہر صورت انسان نے محبت کرنی ہی کرنی ہے۔ اللہ نے اسی لیے اولاد، مال، دولت اور عزت وغیرہ جیسے کئی مظاہر محبت بیان فرمائے لیکن ایک محبت اس حسن کی بھی ہے جس حسن پر کبھی زوال نہیں آئے گا، اس کے حسن وجمال میں کبھی کمی نہیں آئے گی اور اس کی قربت کی لذت کا اندازہ اس دنیا کے کسی حسین کی قربت کی لذت سے نہیں ہوسکتا۔

محبت کے اسباب

جس طرح محبت کے مظاہر ہیں اسی طرح محبت کے اسباب بھی ہیں۔ جھوٹی محبتوں کے اسباب طمع، مفاد پرستی، جنس، نفع کا حصول، اوصاف، خواہش وغیرہ ہیں۔ یہ ڈھل جانے والی محبتیں ہیں جن کے اسباب ختم ہوجانے سے محبت پر بھی زوال آتا ہے۔ محبت جس نوعیت کی بھی ہو اس کے اثرات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا کی کسی شے یا ہستی سے محبت ہے تو اسے محبت مجازی کہتے ہیں، اگر جنت، آخرت کی کسی شے سے محبت ہے تو اسے اخروی محبت کہتے ہیں۔ ان سب سے بلند محبت، محبت حقیقی ہے جو کہ خود حق تعالیٰ کی محبت ہے۔

لیلیٰ اور مجنوں کا تعارف

مجنوں ایک تابعی تھا۔ اس کا نام قیس بن ملوح العامری تھا۔ لیلیٰ کا نام لیلیٰ بن مہدی ام مالک العامریہ تھا۔ مجنوں کی پیدائش 24ھ میں ہوئی جو کہ حضرت عثمان غنیؓ کا زمانہ خلافت تھا۔ کئی اقوال کے مطابق لیلیٰ بھی 24ھ کی پیدائش ہے۔ مجنوں اور لیلیٰ دونوں کی وفات 68ھ میں ہوئی۔ لیلیٰ اور مجنوں کی شادی نہ ہوئی تھی۔ لیلیٰ اور مجنوں کا واقعہ کوئی قصہ یا کہانی نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ذکر ایک سو سے زائد جلیل القدر ائمہ، مورخین، محدثین اور صوفیاء نے اپنی کتب میں کیا ہے۔ سب سے پہلے ان کا ذکر امام ابوالفرج علی بن الحسین الاصفہانیؒ نے اپنی 25 جلدوں پر مشتمل کتاب ’’کتاب الاغانی‘‘ میں کیا ہے۔ سلف صالحین میں سے محمد بن سائب کلبیؒ، ابوعبدالرحمن النحویؒ، ابوالمنذر محمد بن سائبؒ، ابن الکلبیؒ، ابو عبیدہ معمرالبصریؒ وغیرہم نے اپنی تصانیف میں لیلیٰ مجنوں کے واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

مجنوں کی کیفیتِ محبت

امام ذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا: مجنوں کو محض لیلیٰ کے عشق کی آگ میں جلنا ملا۔ اس کے اعزاء و اقارب اسے حج پر لے گئے کہ شاید اللہ کے گھر کو دیکھے تو اس کی محبت کا رخ بدل جائے۔ جب وہ منیٰ میں پہنچے تو اچانک کسی شخص نے اپنی بیوی یا بیٹی کو آواز دیتے ہوئے کہا ’’یا لیلیٰ‘‘ قیس بن ملوح نے جب یہ سنا تو بے ہوش ہوگیا۔ ساری رات بے ہوش پڑا رہا اور صبح ہوش میں آیا۔ یہ توحیدِ عشق کی ایک کیفیت تھی۔ محبت میں اس قدر صدق آجائے تو محبوب کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا۔ ہوش میں آکر اس نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یوں ہے کہ کسی نے مقامِ حیف پر لیلیٰ کا نام لیا۔ جس پر مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔ ایسا لگا کہ لیلیٰ کے نام کا پرندہ میرے دل میں قید تھا وہ شاید میرے سینے سے اڑ گیا ہے۔ وہ یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ لیلیٰ کسی اور کا بھی نام ہوسکتا ہے۔ عشق کا مقام یہ تھا کہ شرک اس کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ عشق مجازی میں عالم یہ ہے کہ بندہ اپنے محبوب کا نام اور صفت کسی اور کے لیے گوارا نہیں کرسکتا تو اگر کسی کو عشق حقیقی نصیب ہوجائے تو وہ محبت جو اللہ کے لیے قائم ہوگی اس کا ایک ذرہ بھی بھی کسی اور کے لیے دیکھنا یا سننا کیسے گوارا کرے گا۔

امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ مجنوں کی کیفیت یہ ہوگئی کہ محبت بڑھتے بڑھتے جب وہ مایوس ہوگیا تو وہ ہوائے نفس سے پاک ہوگیا، اسے خلوت سے محبت ہوگئی اور اب وہ لیلیٰ کے تصورِ عشق سے گفتگو کرتا تھا۔ اب لیلیٰ عشقِ حقیقی کا ایک عنوان بن گئی تھی جس میں وہ فنا ہوکر اپنے دل سے بات کرتا۔ عشق کی آگ نے مجنوں کے نفس، نفسانیت اور نفسیت کو جلادیا۔

نفس، نفسانیت اور نفسیت

نفس وہ ہے جو برائی کی طرف ہمیں دھکیلتا ہے جس کے متعلق ارشاد ربانی ہے:

اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌم بِالسُّوْٓ ءِ۔

’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔‘‘(یوسف: ۵۳)

دنیا، مال و دولت، منصب و جاہ کی محبت حتی کہ میں یہ سب نفس ہے۔ میں کی محبت خود ایک بہت بڑا عشق مجازی ہے اور یہ بت پرستی ہے۔ اپنے اعتراف، منصب، عہدہ، استحقاق اور تعظیم کے ساتھ محبت، یہ سب نفس ہے۔ اگر عشق بڑھتے بڑھتے اس نفس کو درمیان سے نکال دے تو نفس امارہ کے نکل جانے سے نفس مرتا ہے یا کمزور ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود نفسانیت باقی رہتی ہے۔ نفس لوامہ میں بھی نفسانیت اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اسی طرح نفس ملھمہ، جس میں خیر کے الہام ہوتے ہیں اور پھر نفس مطمئنہ جس میں انسان کا نفس خیر پر مطمئن ہوجاتا ہے لیکن نفسانیت اپنا اثر ان چاروں منازل پر دکھاتی ہے۔ ان چار منازل کے بعد پھر نفسیت رہ جاتی ہے۔ پھر انسان نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ کے مقام پر جاتا ہے اور بالآخر نفس کاملہ کے مقام پر صدا آتی ہے:

یٰٓـاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔

’’ اے اطمینان پا جانے والے نفس تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔‘‘ (الفجر: ۲۷، ۲۸)

جب لوٹ آنے کا حکم آتا ہے تو پھر انسان نفسیت سے بھی پاک ہوجاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جب بندہ نفس، نفسانیت اور نفسیت سے پاک ہوکر محبوب سے ملتا ہے اور اس کی بارگاہ میں گم ہوجاتا ہے۔ جس طرح مجنوں کو لیلیٰ سے ملنے کی امید نہ رہی اسی طرح جب اللہ کسی سے محبت کرنے لگے اور اسے اپنی محبت کے لیے چن لیتا ہے۔ تب اللہ دنیا سے کہتا ہے کہ اے دنیا! تو میرے اس بندے کے لیے کڑوی بن جا، میرے اس بندے کے لیے تیرے اندر کوئی حسن نہ رہے تاکہ میرا بندہ تجھے دیکھے تو اسے تجھ سے وحشت ہو اور میرا بندہ تیرا گھونٹ نہ بھرے۔ اس طرح اللہ اپنے بندے کو دنیا سے مایوس کردیتا ہے۔ اس کے دل کو دنیا سے توڑ کر اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔ عرفاء کا قاعدہ یہی ہے کہ وصل کے لیے فصل چاہیے یعنی اگر اللہ سے جڑنا مقصود ہو تو پھر ہر اس شے سے کٹنا ہوگا جو اللہ کی متضاد یا اس سے دور کرنے والی ہے۔

محبت کے درجات

اللہ محبت کو درجہ بدرجہ انسان میں منتقل کرتا ہے۔ ایک محبت آثاری ہے جس سے ابتداء ہوتی ہے۔ اسی طرح سے محبت صفاتی، افعالی اور ذاتی بھی محبت کے درجات ہیں۔ جب کسی سے محبت ہو تو اس کے آثار مثلاً شہر، محلے، گلی، کوچے، پسند ناپسند سے محبت ہوتی ہے۔ جس طرح ہمیں مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں اور درو دیوار سے محبت ہے۔ اسی طرح اللہ والے، اللہ سے محبت کی انتہا کرتے ہیں تو انہیں لہلہاتے کھیتوں، بہتے دریاؤں، گرتی ہوئی آبشاروں اور پہاڑوں سے محبت ہوتی ہے۔ الغرض اللہ کی مخلوق میں جس طرف نگاہ اٹھاتے ہیں انہیں اللہ کی خلقت و قدرت کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ یہی عشق مجازی میں بھی ہوتا ہے۔

جس کو محبوب حقیقی سے محبت ہوگئی اور بڑھتے بڑھتے عشق تک جاپہنچی تو وہ پھر ماسوی اللہ کو یکسر بھول جاتا ہے۔ اسی طرح اگر محبت، دنیا اور مال و دولت سے پیدا ہوکر شدت پکڑے تو پھر ایسی محبت، نیکی، حلال و حرام کے فرق، احکام شریعت، عدل و انصاف، انسانیت حتی کہ اللہ کو بھلا دیتی ہے۔ محبت جس طرف کا رخ کرلے اس کے اثرات و نتائج ایک جیسے ہوتے ہیں

علامہ ابن الجوزیؒ ’’المنتظم فی تاریخ الملوک والامم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مجنوں مایوس ہوگیا تو وہ جنگلی جانوروں خصوصاً ہرنیوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا۔ وہ ہرنیوں میں اپنے محبوب کی کچھ مشابہت دیکھتا تھا۔ جہاں سے ہرنیاں گھاس کھاتی تھیں وہ بھی وہیں سے گھاس کھانے لگا۔ اس نے انسانوں والا کھانا پینا چھوڑ دیا۔ جن گھاٹوں سے ہرنیاں اور جنگلی جانور پانی پیتے انہی سے وہ پانی پیتا۔ اس کو یہ آثار کی محبت نظر آنے لگی۔ انہی ہرنیوں اور جانوروں میں اس کی وفات ہوئی۔

امام دیلمیؒ نے کتاب ’’الالف والمالوف‘‘ میں بیان کیا کہ عبدالملک بن مروان کا زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں کثیّر نامی شاعر تھا۔ کثیّر، عبدالملک بن مروان کے دربار میں حاضر تھا تو عبدالملک بن مروان نے کثیّر سے کہا کہ کیا تم نے اپنی زندگی میں خود سے بڑا عاشق بھی دیکھا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں ایک عاشق دیکھا ہے۔ عبدالملک بن مروان نے کثیّر سے کہا کہ اس کا قصہ سناؤ۔ کثیّر سنانے لگا کہ میں ایک روز بہت بھوکا تھا، جنگل کی جانب شکار کی امید سے نکل گیا۔ ایک عاشق ملا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ مست حال تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کوئی شکار مل جائے گا تو اس نے کہا کہ میرے ساتھ چلو، میں بھی شکار کی تلاش میں ہوں اور میں خود تین دن سے بھوکا ہوں۔

اسی اثنا میں مٹیالے رنگ کی ایک ہرنی شکار میں پھنس گئی۔ وہ شخص اس کی طرف دوڑا اور ہرنی کو پکڑ لیا۔ کثیر خوش ہوا کہ شکار ہاتھ آگیا لیکن معاملہ یوں ہوا کہ وہ شخص اپنے کپڑوں سے ہرنی کا کیچڑ صاف کرنے لگا، اسے دیکھنے اور سونگھنے لگا اور اس کے بعد ہرنی کو بھگادیا۔ کثیر اس کے منہ کو تکتا رہا۔ اس شخص نے صبر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے دوبارہ جال لگایا۔ دوبارہ ہرنی پھنسی۔ کثیر خوش ہوا کہ اب کام چل جائے مگر اس شخص نے پھر اس ہرنی کے ساتھ وہی معاملہ کیا۔ کثیر کہتا ہے کہ میں نے اس شخص سے کہا کہ پاگل آدمی یہ کیا کرتے ہو۔ اس شخص نے شعر پڑھ کر صبر کی تلقین کی۔ آگے بڑھ کر پھر ہرنی ملی۔ میں دوڑا کہ اس بار میں شکار پکڑتا ہوں ورنہ اس شخص نے پھر چھوڑ دینا ہے لیکن وہ شخص مجھ سے پہلے پہنچ گیا اور ہرنی کے ساتھ تیسری بار بھی محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے ہوئے اسے آزاد کردیا۔

میں نے سوچا کہ اس شخص سے تو کچھ نہیں ملنا تو میں چل دیا لیکن اس نے مجھے آواز دے کر صبر کرنے اور ساتھ چلنے کو کہا۔ تھوڑی دیر آگے چلے تو آگے پورا ریوڑ ہرنیوں کا ملا۔ اب مجھے تسلی ہوئی کہ اس بار تو کچھ شکار ہاتھ آئے گا۔ وہ شخص آگے بڑھا، ہرنی کو پکڑ کے وہی کچھ کیا جو پہلے تین بار کیا تھا اور اس سارے ریوڑ کو بھگادیا۔ میں نے اس سے شکوہ کیا کہ کیا کرتے ہو۔ اس نے تعجب سے میری طرف دیکھ کر کہا کہ یہ حرم ہے یعنی یہ پناہ گاہ ہے۔ اس میں کسی ہرنی یا کسی اور جانور کی جان نہیں لی جاسکتی۔ میں اس پناہ گاہ میں آنے والے ہر جانور کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیسی پناہ گاہ ہے؟ کثیر نے عبدالملک بن مروان کو بتایا کہ اس شخص نے کہا کہ جب لیلیٰ چھوٹی تھی تو وہ اپنی بکریاں اس صحرا میں چراتی، یہاں بیٹھتی، کھیلتی، کھانا کھاتی تھی تو اس پورے خطے کے جانوروں کی جان کا محافظ میں ہوں۔ عبدالملک بن مروان نے پوچھا کہ اس دیوانے کا نام کیا تھا؟ کثیر نے جواب دیا کہ اس کا نام قیس بن ملوح ہے۔

عشقِ حقیقی کا حرم

قیس کو عشق مجازی تھا کہ اس نے محبوب کو وہاں بیٹھتے اٹھتے، کھانا کھاتے دیکھا۔ اس صحرا کو اس کے محبوب سے نسبت تھی کہ وہاں آنے والے ہر جانور کا محافظ بنا پھرتا تھا۔ عشق حقیقی کا دعویٰ کرنے والو!رب العزت نےہمارے لیے بھی حرم قائم کررکھے ہیں یعنی حلال و حرام کا سارا تصور ہمارے محبوب کی قائم کردہ حدود ہیں۔ اس صحرائے حیات میں کسی کا حق نہیں چھین سکتے، کسی کی غیبت یا چغلی نہیں کرسکتے، کسی کے خلاف بغض و حسد نہیں رکھ سکتے۔ کتنے بے وفا ہیں ہم لوگ! ہم نے مجنوں جیسے شخص سے بھی سبق نہ سیکھا۔ ہم شب و روز اپنے صحرائے حیات کے حرم میں گناہ کرتے ہیں، محبوب کو ناراض کرتے ہیں، اللہ کی مخلوق سے بعض کرتے ہیں، نفرتیں کرتے ہیں، نفس پرستی کرتے ہیں، لوگوں کی عزتیں اچھالتے ہیں۔ مجنوں سے سبق سیکھیں کہ وہ اپنے نفس اور خواہش نفس کو بھول گیا تھا۔

میرے نوجوان بیٹو! میری زندگی کی ایک خواہش ہے کہ وہ عشقِ مجازی جو مجنوں کو ملا۔ مجنوں جو تھا سو تھا مگر اس سے سبق سیکھو اور اپنے مولیٰ سے عشق کرو۔ ساری مخلوق اس کی ہرنیاں ہیںَ کسی کی عزت پر زبان نہ کھولو، کسی کے متعلق بدگمانی نہ کرو، زبان درازی نہ کرو، خود کو کسی سے بڑا نہ سمجھو، اپنی طلب کو دوسرے کی طلب سے عزیز نہ جانو، ہر ایک سے محبت کرو کیونکہ وہ اللہ کی مخلوق ہے۔ آقاؑ نے فرمایا:

الخلق عیال اللہ احبھم الی انفعھم۔

ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ کو اس سے محبت زیادہ ہے جو اس کے کنبے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ (مسند ابویعلیٰ)

اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے والے بن جاؤ۔ مجنوں سے سیکھو کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ محبت طور اطوار کو بدل دیتی ہے، محبت اخلاق اور زاویہ نگاہ کو بدل دیتی ہے۔ اگر محبت ہو اور طور طریقے نہ بدلیں، اللہ کے حرم کا شرم و حیاء پیدا نہ ہو، سجدوں میں لذت نہ ملے، اللہ کا ذکر کرکے حلاوت نہ ملے تو یہ جھوٹ ہے۔ توڑ ڈالو جھوٹی محبت اور عشقِ مجازی کے برتنوں کو۔ اپنے دل کے برتن کو عشقِ مولیٰ سے بھرلو۔

مجنوں کے عشقِ صادق کا نتیجہ

امام غزالیؒ، امام ابوالقاسم القشیریؒ اور دیگر ائمہ بیان کرتے ہیں کہ مجنوں کے عشق صادق کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مجنوں کی وفات ہوئی تو وہ کئی لوگوں کو خواب میں ملا۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ مرنے کے بعد اللہ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ اس نے جواب دیا:

غفرلی وجعلنی حجۃ علی المحبین

اللہ نے مجھے معاف کردیا اور مجھے محبت کرنےوالوں کے لیے حجت بنادیا۔

امام قشیریؒ یہ خواب بیان کرکے توضیح فرماتے ہیں کہ ابویعقوب السوسیؒ نے فرمایا کہ محبت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی بارگاہ میں اپنا حق بھی بھول جائے۔ نفس، نفسانیت اور نفسیت بھول جانے کے بعد اپنا حق بھی بھولے بغیر محبت اپنے کمال تک نہیں پہنچتی۔ اپنا حق اور حصہ اس قدر بھول جائے کہ دھیان صرف مولیٰ پر رہ جائے۔ جب بندہ صرف اللہ کا طالب ہوجائے تو پھر خود، خودی، نفس اور اپنا حق یاد ہی نہیں رہتا۔

حسین بن منصور حلاجؒ فرماتے ہیں کہ محبت کی حقیقت یہ ہے کہ عاشق اپنے محبوب کے ساتھ اس طرح تعلق جوڑ لے کہ عاشق اپنے اوصاف سے باہر نکل آئے۔ اس طرح بندہ صرف ایثار ہی ایثار رہ جاتا ہے۔ محبت سراپا ایثار ہے اس لیے جب اللہ نے مہاجرین و انصار کی تعریف کی تو فرمایا:

وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ

’’ اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔‘‘ (الحشر: ۹)

محبت بے نفسی سکھاتی ہے۔ جسے محبت میں اپنا نفس اور اپنا حق نظر آئے وہ محبت کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ جب حقیقی محبت پیدا ہوجائے تو اللہ کے سوا کسی چیز کی طلب نہیں رہتی۔ امام ابو عبدالرحمن السلمیؒ اپنی کتاب الفتوۃ میں فرماتے ہیں کہ اللہ پاک اپنی طرف سفر عشق کرنے والے شخص کو ہر روز ستر مرتبہ دیکھتا ہے۔ ہر بار اللہ رب العزت اپنے اس عاشق کا دل ہر غیر سے پاک دیکھتا ہے تو اسے مزید قربت عطا کردیتا ہے۔ یوں یکے بعد دیگرے بے نفسی دیکھ کر پردہ اٹھاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ایک بارحضرت بایزید بسطامیؒ سے عالم رویا میں پوچھا: ماذا ترید؟ کیا چاہتے ہو؟ جواب دیا:

اللہ انی ارید ان لا ارید الا ماترید

مولا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ صرف وہی کچھ چاہوں جو تو چاہتا ہے۔

اور دوسرا قول ہے:

 انی ارید ان لاارید

میں یہ چاہتا ہوں کہ کچھ نہ چاہوں۔

جب چاہت، ارادہ، خواہش، طلب، محبوب کی چاہت، ارادے، خواہش اور طلب میں مرجائے تو پھر اللہ تعالیٰ عشق میں اپنے اس بندے کو بڑھاتا ہے۔

امام غزالیؒ، احیاء علوم الدین کی کتاب المحبۃ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ پر چالیس حوریں آشکار کی گئیں۔ دیر تک مجھے متوجہ کرتی رہیں۔ میں نے ایک نظر اٹھا کر حورالعین کو دیکھ لیا۔ پھر چالیس دنوں کے لیے اللہ پاک نے میرے دل پر حجاب ڈال دیئے۔ چالیس دن کے بعد اس سے بھی زیادہ حسن وجمال والی اسی حوریں دکھائی گئیں۔ مجھے کہا گیا کہ ان کو دیکھو یہ کیسی ہیں؟ میں سجدے میں گرگیا اور عرض کیا:

اعوذبک من ماسواک الاحاجۃ لی بھذا

مجھے ہر اس شے سے پناہ دے دے جو تیرے سوا ہے مجھے ان چیزوں کی حاجت نہیں۔

حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ جب حقیقی محبت پیدا ہوجائے تو اللہ کے سوا کسی چیز کی طلب نہیں رہتی۔ امام ابو عبدالرحمن السلمیؒ اپنی کتاب الفتوۃ میں فرماتے ہیں کہ اللہ پاک اپنی طرف سفر عشق کرنے والے شخص کو ہر روز ستر مرتبہ دیکھتا ہے۔ ہر بار اللہ رب العزت اپنے اس عاشق کا دل ہر غیر سے پاک دیکھتا ہے تو اسے مزید قربت عطا کردیتا ہے۔ یوں یکے بعد دیگرے بے نفسی دیکھ کر پردہ اٹھاتا ہے

میں دیر تک روتا اور گڑگڑاتا رہا جب تک وہ تمام حوریں واپس نہیں چلی گئیں۔ اللہ رب العزت نے پردہ پھر سے اٹھادیا۔ عشق ذرہ بھر مشارکت گوارا نہیں کرتا تو جو آدمی چوبیس گھنٹے اپنے نفس کو دھیان میں رکھے اسے عشق کیسے نصیب ہو۔

امام عبداللہ بن جعفرؒ فرماتے ہیں کہ میں سفر کے دوران ایک باغ سے گزار جس میں ایک حبشی غلام بکریاں چرا رہا تھا۔ اتنے میں اس کے مالک نے اسے کھانا بھیجا۔ تھوڑی دیر میں ایک کتا آیا اور اس حبشی جوان کو دیکھنے لگا۔ اس نے ایک روٹی اٹھاکر کتے کو دے دی۔ کتا تیزی سے وہ روٹی کھاکر پھر اس غلام کو کہنے لگا۔ کتے نے وہ روٹی کھالی پھر دیکھنے لگا۔ حبشی غلام نے تیسری روٹی بھی اسے دے دی۔ یوں غلام کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچا۔

حضرت عبداللہ بن جعفرؒ فرماتے ہیں کہ میں اس غلام کے قریب گیا۔ اس کے چہرے پر عشق و محبت اور معرفت کے آثار تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ روزانہ کھانے کو کتنی روٹیاں ملتی ہیں؟ اس نے کہا: تین، میں نے اس سے کہا کہ وہ تینوں روٹیاں تو تم نے کتے کو ڈال دی ہیں، خود کیا کھاؤ گے؟ غلام نے کہا کہ اگر زندہ رہے تو کل مل جائیں گی روٹیاں اور کھالیں گے۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؒ کہتے ہیں کہ میں رو پڑا۔ میں نے کہا کہ ہمارا روحانیت کا مدار ہی بے نفسی اور سخاوت پر ہے مگر اس میں یہ غلام ہم سے بازی لے گیا۔ میں نے وہ باغ اور بکریاں ساری خرید لیں اور غلام کو دے دیں۔ غلام نے شکریہ ادا کرکے سب کچھ اردگرد غریبوں میں تقسیم کردیا اور مسکراتا ہوا چل دیا تو میں سمجھا کہ جواں مردی اس کا نام ہے۔ اپنا حق بھول جانا یہ جواں مردی ہے۔ حق لینا جائز ہے مگر اس سے ولایت نہیں ملتی۔

امام ابوسعد النیشاپوریؒ نے تہذیب الاسرار میں بیان کیا کہ کئی اللہ والوں نے بیان کیا کہ ہم طرطوس میں ایک جماعت کے ساتھ مل کر جہاد کی طرف جارہے تھے۔ ایک کتا ہمارے ساتھ چل پڑا۔ صحرا میں ٹیلے کے قریب ایک مردار جانور تھا۔ ہم ٹیلے پر تھوڑی دیر آرام کے لیے بیٹھ گئے۔ کتا، مردار کو دیکھ کر اپنے گاؤں کی طرف واپس پلٹ گیا۔ کچھ دیر کے بعد بیس کتوں کو ساتھ لے کر واپس آیا۔ ان بیس کتوں کو مردار پر کھانے کے لیے چھوڑ دیا اور خود ہٹ کر بیٹھ گیا۔ جب سارے کتے سیر ہوکر واپس پلٹ گئے تو وہ کتا آیا اور باقی ماندہ مردار کو کھاکر واپس پلٹ گیا۔ اسی واقعہ کو حضرت داتا گنج بخشؒ نے شیخ احمد حماد سرخسیؒ کا حوالہ دیتے ہوئے سورۃ الحشر کی مذکورہ آیت نمبر۹ کی ذیل میں بیان کیا اور انھوں نے شیر کا ذکر کیا کہ جب وہ باقی ماندہ کھاچکا تو وہ ہماری طرف یوں دیکھنے لگا گویا کہہ رہا ہو کہ اپنا حق دوسروں پر قربان کردینا تو ہماری طرح جانور اور کتے بھی کرلیتے ہیں۔ تم مردانِ حق ہو، تمھارا درجہ قربانی میں اس سے کئی گنا بلند ہونا چاہیے۔

میرے بیٹو اور بیٹیو! ساری زندگی کے حالات، زاویہ نگاہ اور دل کو بدلو، نفس، نفسانیت اور نفسیت کو نکالو اور یہ طریق عشق سے نصیب ہوتا ہے۔ اسی لیے مولانا رومؒ نے مثنوی میں فرمایا:

ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد
اوز حرص و عیب کلی پاک شد

اگر عشق کی آگ سے نفس کا جامہ چاک کرلیا جائے تو حرص و عیب سے کلیتاً خلاصی نصیب ہوتی ہے۔