اسلام دینِ فطرت ہے، جو انسان کی جسمانی، روحانی، معاشرتی، اور معاشی ہر پہلو سے راہنمائی کرتا ہے۔ اس نے معاشرتی تعلقات کو خاص اہمیت دی ہے، خاص طور پر نکاح جیسے مقدس ادارے کو نہایت حکمت و مصلحت کے اصولوں پر استوار کیا ہے۔ انہی اصولوں میں ایک اہم اصول "کفُو" یعنی "برابری" یا "ہم پلہ ہونا" کا ہے۔اسلام نے نکاح میں کفُو کو اس لیے اہم قرار دیا تاکہ میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی، ذہنی سکون، اور تعلقات میں استحکام قائم رہے، اور بعد از نکاح زندگی میں کشیدگی، احساسِ کمتری یا نفرت جیسے عناصر نہ پنپ سکیں۔
کفُو کا مفہوم
"کفُو" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: ہم پلہ، برابر، یا مناسب۔فقہی اصطلاح میں، "کفُو" سے مراد ایسا شخص ہے جو نکاح کے لیے دوسرے فریق کے لحاظ سے دین، نسب، مال، پیشہ، اخلاق اور عادات میں اس کے برابر یا قریب ہو۔
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کے اصول فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے معاشرتی اصولوں میں ایک اہم تصور "کفُو" (برابری یا ہم پلہ ہونا) کا ہے، خاص طور پر نکاح کے معاملے میں۔ اسلامی شریعت میں کفُو کا مطلب ہے کہ نکاح کے فریقین (دلہا اور دلہن) دینی، خاندانی، معاشرتی اور بعض اوقات مالی حیثیت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تاکہ ازدواجی زندگی میں ہم آہنگی پیدا ہو۔
شریعتِ مطہرہ میں کفُو کی اہمیت قرآنی اشارات
اگرچہ قرآن مجید میں کفُو کے معاملے کو صراحت سے بیان نہیں کیا گیا، تاہم اللہ تعالیٰ نے مومنین کو خاص طور پر صالحین اور صالحات سے نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے:
وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ
(النور: 26)
اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں
آج کے دور میں نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی کے تعلقات عام ہوتے جا رہے ہیں، جن میں جذبات، وقتی پسند یا ظاہری کشش کی بنیاد پر قربت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اسلام میں نکاح سے پہلے کسی قسم کے تعلق کی اجازت نہیں، کیونکہ اس میں نہ صرف اخلاقی اور دینی خرابی ہے بلکہ عملی طور پر بھی یہ رشتہ مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہوت
یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ دین داری اور اخلاقی صفات کی برابری نکاح کے لیے موزوں بنیاد ہے۔
احادیث نبوی ﷺ
نبی کریم ﷺ نے نکاح میں دینی کفُو کو سب سے اہم قرار دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا أتاكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض
(ترمذی)
’’جب تمہارے پاس کوئی دین و اخلاق والا رشتہ آئے تو نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔‘‘
یہ حدیث واضح طور پر دین اور کردار کو کفُو کی بنیاد قرار دیتی ہے۔
نکاح میں کفُو کی اہمیت
اسلام نے نکاح کو ایک پاکیزہ، مقدس اور سماجی معاہدہ قرار دیا ہے، اور اس معاہدے کی پائیداری کے لیے ہم آہنگی (compatibility) بہت ضروری ہے۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے معیار سے بہت مختلف ہوں، تو اکثر ازدواجی زندگی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔
1۔دین داری میں کفُو
سب سے اہم معیار دین داری ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’اگر تمہارے پاس کوئی دین و اخلاق والا شخص نکاح کا پیغام لے کر آئے تو اس سے نکاح کر دو، ورنہ زمین میں فتنہ اور فساد ہوگا۔‘‘ (ترمذی)
2۔نسب میں کفُو
اسلام میں نسب (خاندانی حیثیت) کا خیال رکھنا بھی ایک فطری امر سمجھا گیا ہے، تاکہ معاشرتی ہم آہنگی قائم رہے۔ اگرچہ اسلام ذات پات کے نظام کو رد کرتا ہے، مگر خاندانی پس منظر کی ہم آہنگی ازدواجی زندگی کو آسان بناتی ہے۔
3۔مالی حیثیت میں کفُو
مالی لحاظ سے بھی برابری کا خیال رکھنا اہم ہے تاکہ فریقین ایک دوسرے کی توقعات اور طرزِ زندگی کو سمجھ سکیں۔ ایک بہت امیر اور ایک بہت غریب کے درمیان رشتے میں اکثر تفاوت پیدا ہوتا ہے جو مسائل کا باعث بنتا ہے۔
4۔پیشہ یا سماجی حیثیت میں کفُو
بعض فقہاء نے پیشے اور معاشرتی مقام کو بھی کفُو کے زمرے میں شمار کیا ہے تاکہ زوجین کے درمیان کسی قسم کی احساسِ برتری یا کمتری پیدا نہ ہو۔کفُو کا مقصد تفریق نہیں، تحفظ ہےیہ بات قابلِ فہم ہے کہ اسلام میں کفُو کا مقصد کسی کو کمتر یا برتر ثابت کرنا نہیں بلکہ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے۔ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان سوچ، اقدار اور پس منظر میں ہم آہنگی ہو تو ان کے درمیان محبت، تعاون اور صبر و برداشت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔
آج کے دور میں کفُو کا اطلاق
موجودہ دور میں نکاح کے فیصلے میں اکثر ظاہری چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور دین داری کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، نکاح کے بعد مسائل، طلاق، اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ جیسے معاملات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نکاح کے وقت دین داری کو اولین معیار بنایا جائے اور دیگر کفُو کے پہلوؤں کو بھی حکمت و بصیرت سے دیکھا جائے۔اسلام میں کفُو کا تصور نکاح کو پائیدار، خوشحال اور امن کا گہوارہ بنانے کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ کوئی امتیازی اصول نہیں بلکہ حکمت پر مبنی ایک فطری اصول ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جائے تو نہ صرف فرد کی زندگی خوشحال ہوگی بلکہ ایک مضبوط اور صالح معاشرہ بھی تشکیل پائے گا۔
آج کے دور میں والدین اکثر دین داری کو نظر انداز کر کے صرف مال و دولت یا ظاہری معیار کو اہمیت دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں نکاح دیر سے ہوتے ہیں،طلاق کی شرح بڑھ گئی ہے،غیر متوازن ازدواجی تعلقات عام ہو گئے ہیں،اسلامی معاشرہ چاہتا ہے کہ نکاح آسان ہو، مگر پائیدار ہو۔ کفُو کا اصول اسی حکمت کے تحت دیا گیا ہے۔
کفُو کا غلط استعمال
بدقسمتی سے کچھ لوگ کفُو کے نام پر نسلی امتیاز، ذات پات، یا جاگیردارانہ نظام کو فروغ دیتے ہیں، جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’کوئی عربی کسی عجمی پر، اور نہ کوئی عجمی کسی عربی پر فضیلت رکھتا ہے، سوائے تقویٰ کے۔‘‘ (مسند احمد)
موجودہ دور میں نکاح کے فیصلے میں اکثر ظاہری چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور دین داری کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، نکاح کے بعد مسائل، طلاق، اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ جیسے معاملات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نکاح کے وقت دین داری کو اولین معیار بنایا جائے اور دیگر کفُو کے پہلوؤں کو بھی حکمت و بصیرت سے دیکھا جائے
لہٰذا کفُو کا مطلب صرف سماجی برابری نہیں بلکہ دین داری، اخلاق اور حکمت پر مبنی ہم آہنگی ہے۔
آج کے دور میں نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی کے تعلقات عام ہوتے جا رہے ہیں، جن میں جذبات، وقتی پسند یا ظاہری کشش کی بنیاد پر قربت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اسلام میں نکاح سے پہلے کسی قسم کے تعلق کی اجازت نہیں، کیونکہ اس میں نہ صرف اخلاقی اور دینی خرابی ہے بلکہ عملی طور پر بھی یہ رشتہ مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہوتا۔ ایسے تعلقات میں زیادہ تر جذباتی یا ظاہری پسندیدگی کو اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ دین، اخلاق، مزاج، خاندانی پس منظر اور زندگی کے نظریات جیسے اہم پہلو نظرانداز کر دیے جاتے ہیں — یہی وہ پہلو ہیں جو "کفو" یعنی برابری اور ہم آہنگی کے اصول کو متاثر کرتے ہیں۔
جب ایسے تعلقات شادی میں بدلتے ہیں، تو شروع کے چند دن تو جذباتی وابستگی کے سہارے گزر جاتے ہیں، مگر جیسے ہی عملی زندگی کے مسائل سامنے آتے ہیں،اختلافات، مزاج کی ناہم آہنگی، دینی کمزوری اور خاندانی دباؤ جیسے عوامل ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ چونکہ ابتدا میں کفو کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہوتا، اس لیے ایک دوسرے کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے، نتیجتاً تعلقات میں تناؤ بڑھتا ہے اور آخرکار طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
اسلام نے کفو کے اصول کے ذریعے اسی خرابی سے بچاؤ کا راستہ بتایا ہے۔ نکاح محض جذبات یا خواہش کا نہیں بلکہ ایک ’’ذمہ دارانہ معاہدہ‘‘ ہے، جو تبھی مضبوط رہ سکتا ہے جب دونوں فریق ’’دین، اخلاق اور خاندانی ہم آہنگی‘‘ میں برابر ہوں۔ اگر نکاح سے پہلے کے تعلقات میں کفو کا لحاظ رکھا جائے یا ان تعلقات سے مکمل اجتناب کیا جائے، تو معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے اور ازدواجی زندگیوں کو زیادہ پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔
اسلام کا تصورِ کفُو نکاح جیسے حساس ادارے کو استحکام، سکون اور خیر کی بنیاد پر قائم کرنے کے لیے ہے۔ شریعت کا یہ اصول نہ صرف انفرادی زندگی کے سکون کا ضامن ہے بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود سے جُڑا ہوا ہے۔اگر نکاح کے فیصلے میں دین داری، کردار، نسب، اور سماجی ہم آہنگی کا لحاظ رکھا جائے، تو ازدواجی زندگی خوشگوار، پُرسکون اور دیرپا بن سکتی ہے۔اسلام ہمیں نہ صرف یہ سکھاتا ہے کہ کس سے نکاح کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ نکاح کی کامیابی کن بنیادوں پر قائم ہوتی ہے، اور ان بنیادوں میں کفُو ایک اہم ترین اصول ہے۔