سوال: مسلکی اختلاف کی بنیاد پر قطع رحمی کرنا کیسا ہے؟
جواب: کوئی بھی مسلمان جو اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین کا قائل اور اہلِ قبلہ میں سے ہونے کا مدعی ہے، اُسے دائرۂ اسلام سے خارج سمجھنا کسی طور درست نہیں۔ مسلمان مسالک اور فرقوں میں اختلافات نظری و فروعی نوعیت کے ہیں، ایمانیات اور عبادات کی اصل اِن مسالک کے نزدیک ایک ہی ہے۔ فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر کسی مسلک کا سماجی بائیکاٹ کرنا اسلام کی روحِ وحدت کے خلاف ہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص جو:
1۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء و صفات اور افعال کا منکر نہیں۔
2۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، اسماء اور افعال میں کسی کو اس کا شریک نہیں جانتا۔
3۔ اُن امور کی تکذیب نہیں کرتا جن کی خبر اللہ تعالیٰ نے غیب سے دی ہے، جیسے تقدیر، فرشتوں، جنت و دوزخ، بعث بعد الموت، میزان، حساب اور جنات وغیرہ۔
4۔ نبی اکرم ﷺ یا کسی پیغمبر کی نبوت و رسالت کا منکر نہیں ہے یا نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کو پیغمبر نہیں مانتا۔
5۔ قرآن مجید یا الہامی کتب جیسے تورات، انجیل، زبور یا دیگر صحائف میں سے کسی کو جھٹلا نہیں رہا۔
6۔ ثابت شدہ امورِ دین جیسے زنا، سود، شراب وغیرہ کی حرمت یا نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کے وجوب میں سے کسی کا انکار نہیں کرتا۔
7۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں مزاح و تخفیف کا رویہ نہیں اپناتا اور اُن کا مذاق نہیں اڑاتا۔
8۔ اپنے ارادہ و اختیار سے کوئی ایسا فعل انجام نہیں دیتا جو دین کی تکذیب کے زمرے میں آتا ہو، جیسے کفار کے مذہبی شعار کو اپنانا، اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ یا کلامِ الٰہی کی اہانت کرنا، کسی باطل عقیدے یا اُس کے حامل گروہ کی طرف اپنی نسبت کرنا۔
9۔ دین کے کسی قطعی، واضح اور بدیہی حکم کی ایسی تاویل نہیں کرتا جو اجماعِ امت کے خلاف اور بےبنیاد ہو اور شریعت کے کسی دوسرے حکمِ قطعی سے ٹکرا رہی ہو۔
تو ایسے شخص کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا اور اس سے قطع تعلقی یا قطع رحمی کرنا کسی طور جائز نہیں ہے۔
مذکورہ تفصیل صرف نفس مسئلہ اور اس کی حساسیت سمجھانے کیلئے لکھی گئی ہے، کسی کے قول و فعل کی مذکورہ نکات سے تطبیق صرف ماہر و مستند اہلِ فتویٰ کا کام ہے، عامۃ الناس کا کسی ایک مسلمان یا مسلمانوں کے کسی پورے گروہ کو کافر، گستاخ یا مشرک بنا کر اس سے اظہارِ برأت اور سوشل بائیکاٹ کسی طور بھی کرنا جائز نہیں ہے۔
قطع رحمی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو سخت ناپسند ہے اور اسے کے متعلق سخت وعیدیں وارد ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ۙ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ
(الرَّعْد، 13 : 25)
’’ اور جو لوگ اللہ کا عہد اس کے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تمام (رشتوں اور حقوق) کو قطع کر دیتے ہیں جن کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں انہی لوگوں کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر قطع رحمی کو فساد فی الارض جیسے گھناؤنے جرم کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اسے منافقت کی علامت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ
(مسلم، الصحيح، كتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها، ج/4، ص/1991، الرقم 2556)
’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ ‘‘
مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق قطع تعلقی جائز نہیں ہے۔ اس لیے فروعی اختلافات کی بنیاد پر کسی مسلک کے مسلمانوں سے قطع تعلق کرنا حرام عمل ہے۔ اس لیے کسی مسلمان کے دوسرے مسلک سے ہونے یا دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تعلق نہ توڑا جائے۔ اپنے مسلک پر قائم رہیں لیکن دوسروں کو اپنے مسلک پر رہنے کا حق دیں۔ قطع تعلقی کر کے گناہِ عظیم کا مرتکب نہ ہوں، کسی کے نظریات میں بگاڑ ہے تو اُسے دلیل سے سمجھائیں اور اُسے راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں مگر فساد انگیزی سے پرہیز کریں اور دوسروں کو بھی اچھائی کی دعوت دیں۔
(اس مسئلہ کی وضاحت کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟‘ کا مطالعہ کریں۔ )
سوال: مقدس اوراق اور غلافوں کو کس طرح ٹھکانے لگایا جائے؟
جواب: ’’حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ کا بيان ہے کہ (خلافت عثمانی ميں) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے انہيں بتايا کہ حضرت حذيفہ بن اليمان رضی اللہ عنہ جب اہلِ شام اور اہلِ عراق کی معيت ميں ارمينيہ اور آذر بائيجان کی فتوحات حاصل کر رہے تھے تو امير المومنين حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت ميں حاضر ہوئے کیونکہ انہيں شاميوں اور عراقيوں کی قرات ميں اختلاف نے تڑپا ديا تھا۔ چنانچہ حضرت حذيفہ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: اے امير المومنين! يہودونصاری کی طرح کتاب الٰہي ميں اختلاف کرنے سے پہلے اس امت کی دستگيری فرمائيے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو پيغام بھيجا کہ قرآن کريم کا جو اصل نسخہ آپ کے پاس محفوظ ہے وہ ہميں عنايت فرمائيے۔ ہم اسے واپس کرديں گے تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھيج ديا۔ سو انہوں نے حضرت زيد بن ثابت، حضرت عبداللہ بن زبير، حضرت سعدبن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم ديا تو انہوں نے اس کی نقليں کیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آخر الذکر تينوں قريشی حضرات سے فرمايا کہ جب تمہارے اور زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ کے درميان کسی لفظ ميں اختلاف واقع ہو تو اسے قريش کی زبان ميں لکھنا کیونکہ قرآن مجيد کا نزول ان کی زبان ميں ہواہے۔ چنانچہ انہوں نے ايسا ہي کیا اور اصل نسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر ديا۔ پھر نقل شدہ نسخوں سے ايک ايک نسخہ ہر علاقے ميں بھيج ديا گيا۔ حکم ديا کہ ان کے خلاف جو کسی کے پاس قرآن کريم کا نسخہ ہو، اسے جلا ديا جائے۔ ابن شہاب رضی اللہ عنہ کو خارجہ بن زيد رضی اللہ عنہ نے بتايا اور انہوں نے حضرت زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سنا کہ قرآن کريم کو جمع کرتے وقت مجھے سورۃ الاحزاب کی ايک آيت نہيں مل رہی تھی حالانکہ وہ ميں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سنی تھی۔ جب ہم نے اسے تلاش کیا تو حضرت خزيمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملي يعني: مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللہ عَلَيهِ (الاحزاب 33: 23) تو ہم نے جمع کردہ نسخہ کے اندر اس کی سورت کے مقام پر اسے لکھ ديا‘۔
(بخاری، الصحيح، 4: 1909، رقم: 4702)
ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے:
ألمصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن و دفنه أولي من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أونحو ذلک ويلحد له لانه لو شق و دفن يحتاج إلي أهالة التراب عليه وفي ذلک نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضاً. ألمصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار.
(الفتاوی الهندیۃ، 5: 323)
’’جب قرآن کريم پرانا ہوجائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکیزہ کپڑے ميں باندھ کر دفن کر ديا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی جگہ رکھ ديا جائے جہاں اس پر نجاست وغيرہ پڑنے کا ڈر ہو اور دفنانے کے لئے لحد کھودے کیونکہ اگر سيدھا گڑھا کھودا اوراس ميں بوسيدہ قرآن دفن کر ديا تو اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پڑے گی اور اس ميں ايک طرح کی بے ادبی ہے ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کريم تک مٹی نہ پہنچے تو يہ بھی اچھا ہے۔ قرآن کريم جب بوسيدہ ہو جائے اور س سے قرات مشکل ہو جائے تو اسے آگ ميں نہ جلايا جائے‘‘۔
لہٰذا بہتر يہی ہے کہ بوسيدہ اوراق قرآن کريم کے ہوں يا حديث پاک کے يا کسی دينی کتاب کے جن ميں قرآن و حديث کے حوالے نقل کئے گئے ہوں ان کو جلايا نہ جائے اور مذکورہ بالا طريقہ سے ان کو دفنا ديا جائے مگر اس خيال سے کہ آج کل دفنانے کے لئے محفوظ زمين کا ملنا مشکل ہے بالخصوص شہروں ميں نيز جہاں محفوظ جگہ سمجھ کر ان اوراق کو دفنايا گيا ہے عين ممکن ہے کہ کوئي انسان لاعلمی ميں اس جگہ پر پيشاب کرے اور گندے اثرات ان اوراق مبارکہ تک پہنچ جائيں، اس لیے دريا برد کرنا بہتر ہے۔ مگر دریا برد کرنے ميں بھی بے ادبی کا آج کل بہت امکان ہے جبکہ اختلاف و انتشار امت سے بچنے اور فتنہ و فساد کے امکانات ختم کرنے کی خاطر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی ميں سيدنا عثمان غني رضی اللہ عنہ نے قرآن کريم کے نسخوں کو جلوا ديا اور کسی صحابی نے اس پر انکار نہ کیا۔ پس جلانے کے جواز پر جبکہ نيت قرآنی تقدس کی حفاظت کرنا ہو معاذاللہ بے ادبی کرنا نہ ہو، صحابہ کرام کا اجماع ہوچکا ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام نے بہت نرم لہجے ميں جلانے سے منع فرمايا مگرجلانے پر کوئی سخت حکم نہ لگايا کہ اس کے جواز کی بنياد موجود تھی۔ ليکن دور حاضر ميں مقدس اوراق کو بے ادبی سے بچانے کا مسئلہ انتہائی پريشان کن اور تکليف دہ صورت حال اختيار کر چکا ہے۔ ايسی صورت حال کہ جس سے بچنا قريب قريب ناممکن ہے۔ لہٰذا جس حد تک ہو سکے بے ادبی سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ اس معاملہ ميں چند اقدامات عمل ميں لانے کی اشد ضرورت ہے جو درج ذيل ہيں:
1۔ سب سے پہلے تو لوگوں ميں ان کی بے ادبی کے بارے ميں شعور پيدا کیا جائے تاکہ لوگ ان کا غلط استعمال نہ کريں۔
2۔ جن جن جگہوں پر ان کا عام استعمال کرنا باعثِ بے ادبی ہے وہاں کوئی متبادل طريقہ کار اپنايا جائے۔
3۔ مقصد حاصل کرنے کے بعد ان کو محفوظ کرنے کا بندو بست کیا جائے۔
آج کل ان کو ندی نالے، نہر يا دريا ميں نہ گِرايا جائے کیونکہ ايک تو پرنٹنگ ہونے کی وجہ سے سال بھر پانی ميں بھی پڑے رہنے سے الفاظ قائم رہتے ہيں اور دوسرا ندی نالے بھی گٹر، جوہڑ اور غلاظت سے پُر ہيں۔ لہٰذا اوراق مقدسہ کو ان ميں ڈالنا بھی بے ادبی ہے۔ اس ليے بہتر حل يہ ہے کہ ان کو جمع کرکے پلانٹ کے ذريعے ان سے دوبارہ کاغذ، گتہ وغيرہ تيار کیا جائے تاکہ بے ادبی سے بھی بچ جائيں اور فائدہ بھی حاصل کیا جا سکے۔ اترنے والي سياہی کو دھوپ يا پلانٹ کے ذريعہ خشک کر ديا جائے۔
چند مقامات پر پرانے بوسيدہ قرآن کريم کے نسخوں کو لاکھوں روپے لگا کر ان کی مرمت اور جلد بندی کر کے ان کو عمدہ الماريوں ميں رکھ کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان نسخوں کو نہ کوئی پڑھتا ہے، نہ ہاتھ لگاتا ہے۔ صرف نمائش کے ليے رکھے جاتے ہيں۔ نيت ميں خلوص ہو تو يہ کام بھی اجرو ثواب سے خالی نہيں۔ مگر اس کا امت کو فائدہ کیا ہے؟ يہ سواليہ نشان ہے اور رہے گا۔ کیونکہ اب لوگ خوشحال ہيں۔ ماشاءاللہ عمدہ کاغذ، رنگين طباعت، حسين جلديں، مضبوط پلاسٹک کور اور صحيح تر نسخے تلاوت کے ليے مفيد و مقبول ہيں۔ اس ليے اب ان قرآن محلات کو عمدہ لائبريريوں ميں بدل ديا جائے۔ قرآن و سنت کے جديد اور عمدہ نسخے ان ميں مہيا کئے جائيں۔ مختلف علماء کرام کے تراجم ہمراہ ہوں۔ قديم و جديد تفاسير و لغات وشروح بھي ہوں، تاريخ وسيرت کی معتمد عليہ کتب بھی ہوں اور ريسرچ کے جديد ترين ذرائع بھی بروئے کار لائے جائيں تا کہ علمی روشنی پھيلے، جہالت کے سائے نيست ونابود ہوں اور مخلوق خدا کی علمی پياس بجھنے کا سامان ہو۔