القرآن: اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ دونوں کی اطاعت کے وجوب کو جدا نہیں کیا جاسکتا: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی و فکری خصوصی خطاب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے باب میں قرآن مجید کی آیات میں دو طرح کا عطف (واؤ) واقع ہوا ہے۔ ایک عطف اس طرح ہوا ہے کہ اسمِ رسول کا عطف اسمِ اللہ پر ہوا ہے۔ جس طرح اس آیت؛ قُلْ اَطِیْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ  میں ہے۔ اسے عربی میں عطف إسم الرسول علیٰ إسم اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ اسم ’رسول‘ کا عطف اسم ’اللہ‘ پر واقع ہوا ہے۔ واؤعاطفہ کی دوسری شکل یہ ہے کہ اطاعتِ رسول کا عطف اطاعتِ الٰہی پر ہوا ہے جس طرح اس آیت؛ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ  میں ہے۔ گویا ایک آیت میں لفظ ’رسول‘ کا عطف لفظ ’اللہ‘ پر ہے اور دوسری آیت میں اطاعتِ رسول کا عطف اطاعتِ الٰہی پر واقع ہوا ہے۔ واؤ عاطفہ کے وارد ہونے کے ان دونوں اسالیب کی حکمتوں کو زیرِ نظر مضمون کے گذشتہ حصہ (شائع شدہ ماہ مارچ 25ء) میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے خاص احکام جو کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں ہوسکتے، جیسے الوہیت، خالقیت، تقویٰ اور عبادت وغیرہ، ان کے علاوہ جمیع احکام میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں اپنے اسم اور رسول اکرم ﷺ کے اسم کو واؤ عاطفہ کے ساتھ جمع کیا ہے، اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنے فرامین و کلام میں اللہ اور اس کے رسول کے نام کو جمع فرماتے تا کہ اللہ اور اس کا رسول ان تمام احکام میں برابر درجے میں شریک ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کا ’’ان احکام میں برابر درجے کا شریک ہونا‘‘، یہ تصور ہمیں قرآن مجید میں اطاعت کے ذیل میں مذکور واؤ عاطفہ کے استعمال سے ملتا ہے۔ اس لیے آیئے! سب سے پہلے ہم واؤ عاطفہ کے نحوی اصول و قوانین کی بات کرتے ہیں۔ واؤعاطفہ کے نحوی اصول کو جاننے سے علمی بنیاد پر اس بحث کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

ائمہ علمِ نحو نے اپنی کتب میں واؤ عاطفہ پر بحث کرتے ہوئے اس کے معنی، اثرات اور مقاصد کو بیان کیا ہے۔ نیز یہ بھی بیان کیا ہے کہ واؤ عاطفہ کیا کیا حکم مرتب کرتی ہے؟ ائمہ نحو بیان کرتے ہیں کہ واؤ عاطفہ دلالت کرتی ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ (یعنی واؤ عاطفہ کے بعد آنے والا اسم اور واؤ عاطفہ سے پہلے آنے والا اسم) دونوں اس حکم میں جمع ہوتے ہیں، جس حکم کو ان دو ناموں، دو چیزوں یا دو امور کے لیے وارد کیا جا رہا ہے۔ یعنی واؤ عاطفہ ان دونوں کو اس حکم میں جمع کر دیتی ہے اور اس حکم میں دونوں کو برابر درجے میں شریک کردیتی ہے۔ علامہ زرکشی لکھتے ہیں :

الواؤ العاطفہ تدل علی الجمع والاقتران والتشریک۔

(زرکشی، البحر المحیط فی اصول الفقہ، 2 : 44)

واؤ عاطفہ معطوف اور معطوف علیہ دونوں کو اس حکم میں جمع اور برابر شریک کرتی ہے۔

اس بات کو امام سبکی نے اپنی کتاب الإبھاج فی شرح المنھاج (1 : 338)، ابو سعید خلیل دمشقی نے الفصول المفیدۃ فی الواؤ المزیدۃ (ص : 74)، ابو علی الفارسی، ابو سعید الصرافی، بصری ائمہ نحو، کوفی ائمہ نحو اور علم النحو کے دیگر مذاہب نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور قرآن مجید کے حوالہ جات کے ساتھ اس کی شرح کی ہے۔

بعض ائمہ نے کہا کہ واؤ عاطفہ جمع و ترتیب کے لیے آتی ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ کو اس خاص حکم میں جمع کرنا اور اس کی ترتیب مقرر کرنا۔ جمہور نے کہاکہ واؤ عاطفہ سے جمع و ترتیب تو ہو تی ہی ہے مگر یہ تشریک کے لیے آتی ہے۔ یعنی اس حکم میں دونوںکو برابر درجے کا شریک کردیا جاتا ہے تا کہ کوئی اس سے اختلاف نہ کرسکے۔

اللہ تعالیٰ کے لیے خاص احکام (مثلاً، الوہیت، خالقیت، تقویٰ، عبادت وغیرہ) کے علاوہ بقیہ تمام احکام کی اطاعت میں اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ برابر درجے میں شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ دونوں کی اطاعت کے واجب ہونے کو جدا نہیں کیا جاسکتا

واؤ عاطفہ کے حکم کے متعلق جاننے کے بعد اب اَطِیْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ کا مفہوم واضح ہوگیا کہ واؤ عاطفہ نے اطاعت کے واجب اور لازم ہونے کے حکم میں اللہ اور اللہ کے رسول کو برابر درجے کا شریک کردیا۔ اب رسول کی اطاعت کے واجب ہونے اور اللہ کی اطاعت کے واجب ہونے کو جدا ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنا عربی ادب، گرائمر کے اصول و قاعدہ، قرآن مجید کے اسلوب اور اللہ کی وحی کے منشاء کے خلاف ہوگا۔ اب ان دو اطاعتوں کو کوئی جدا کر ہی نہیں کر سکتا۔ اللہ رب العزت نے ایک ہی حکم اَطِیْعُوْ ا کہہ کر ان دو اطاعتوں کو واؤ عاطفہ کے ذریعے جوڑ دیا ہے، ان میں اقتران اور ازدواج پید ا کردیا ہے۔

واؤ عاطفہ کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کی حیثیت اپنے وجوب، لزوم، فرضیت اور حجیت میں برابر ہوگئی ہے۔ واؤ عاطفہ نے انہیں جوڑ کر باہم شریک کر دیا ہے۔ اب چونکہ رسول کی اطاعت؛ عین اللہ ہی کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت کا وجوب اور حجیت اللہ کی اطاعت کے وجوب اورحجت ہونے کی طرح ہے، اس لیے اگر کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہ ہو اور اس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ فرما دیں تو وہ بھی اسی طرح واجب اور اللہ کی حد اور حکم بن جائے گا جس طرح قرآن مجید کا فرمایا ہوا حکم ہے۔

اس مضمون کے گزشتہ حصے میں ہم تفصیل کے ساتھ ذکر کرچکے ہیں کہ جو لوگ صرف قرآن کے حکم کو حجت مانتے ہیں اور فرمانِ رسول اور حدیث و سنتِ رسول کو حجت نہیں مانتے، وہ مچھلی کھانا ترک کردیں اور گدھے کھانا شروع کردیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید کے عمومی حکم میتۃ کے تحت مچھلی مردار میں شامل ہے اور اسی طرح گدھے کو قرآن مجید نے حرام نہیں کیا۔ مچھلی کو حلال اور گدھے کو حرام قرار دینے والے آپ ﷺ ہیں۔ اگر حدیث کا حکم قرآن مجید ہی کی طرح واجب نہ ہو اور یہ شریعت نہ بنے تو پھر حجیتِ حدیث کے منکرین گدھے کا گوشت کیوں نہیں کھاتے۔ گدھا کھانا حرام ہے مگر اس کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں تمام حرام اشیاء کی فہرست بتا دی گئی ہے، ان کے علاوہ دیگر چیزیں جنھیں ہم حرام سمجھتے ہیں، وہ تمام حدیث سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ ۫۔

(المائدۃ، 5 : 3)

’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا۔ ‘‘

اس آیت میں قرآن مجید نے حرام اشیاء کو بیان کردیا ہے۔ اسی طرح جن عورتوں سے نکاح نہیں ہوسکتا، جو حرام ہیں، ان کو بھی قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں مذکور حرام اشیاء کے علاوہ جن اشیاء کو ہم حرام سمجھتے ہیں، وہ حدیث نبوی کی بنیاد پر حرام ہیں۔ خواہ کتوں اور بلیوں کو حرام جانیں یا کئی اور جنگلی جانوروں اور کیڑے مکوروں کو حرام جانیں، وہ سب حدیث و سنتِ نبوی کی بنیاد پر حرام ہیں۔ قرآن مجید کا یہ کام نہیں تھا کہ ایک ایک مضمون کو تمام تفصیلات اور تفریعات کے ساتھ بیان کرتا۔ قرآن مجید بنیاد عطا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ جو چیز قرآن مجید بیان نہیں کررہا، اس کو آپ ﷺ بیان کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے حکم کو وہی مقام و درجہ دیا ہے جو قرآن مجید کی وحی اور آیتِ قرآنی کا ہے۔ گویا ہم سمجھنے کی خاطر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسی وجہ سے قرآن مجید کو کوئی پریشانی نہیں تھی کہ جن چیزوں کی حلت و حرام کا ذکر میں نے نہیں کیا تو اس حوالے سے امت کا کیا ہوگا۔ اللہ رب العزت نے بڑی آسانی کے ساتھ امت کے لیے راستے پید ا کردیئے کہ اگر میں نے قرآنی وحی میں ان چیزوں کا ذکر نہیں کیا تو کیا ہوا، میرے رسول تو موجود ہیں۔ جن اشیاء کو وہ حرام قرار دیں گے، قرآن مجید کے حرام کیے ہوئے کی طرح وہ بھی حرام ہو جائے گا۔ حتی کہ وہ رسول ﷺ یہاں تک باختیار ہیں کہ قرآن مجید نے عمومی اصول کے تحت جنھیں حرام کردیا، اگر اس میں سے بھی میرا رسول کوئی استثناء کرنا چاہے، تو انھیں وہ قانون بنانے کی بھی اجازت ہے۔ اس لیے کہ وہ law giver ہیں، وہ محل الطیبات اور محرم الخبائث ہیں۔ اس لیے ان کا کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا، اسی طرح حلال یا حرام ہوگا جس طرح قرآن مجید کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتا ہے۔

حجیتِ حدیث کے منکرین کے لیے گدھے کھانے کی جس مثال کا میں نے ذکر کیا ہے، یہ کڑوی بات ہے، یہ بیان کرتے ہوئے میری طبیعت پر بھی بوجھ آرہا ہے لیکن اس مثال کو بیان کیے بغیر کچھ کند اذہان کو یہ بات سمجھ نہیں آنی تھی۔ ان لوگوں کے ذہن میں بات اتارنے کے لیے ضروری تھا کہ یہ مثال دی جائے۔ اس مثال سے ایک بچہ اور ان پڑھ بھی سنتِ نبوی کے مقام اور حجیت کو جان جائے گا۔

رسول کی اطاعت؛ عین اللہ ہی کی اطاعت ہے، اس لیے اگر کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہ ہو اور اس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ فرما دیں تو وہ بھی اسی طرح واجب اور اللہ کی قائم کردہ حد بن جائے گا جس طرح قرآن مجید کا فرمایا ہوا حکم ہے

حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے جس فرمان کے ذریعے گدھے کو حرام قرار دیا، اس فرمان کے الفاظ بہت قابلِ غور ہیں۔ غزوۂ خیبر سے واپسی کے دوران کچھ لوگوں نے گدھوں کا گوشت پکاکر کھالیا تو ایک شخص نے آپ ﷺ کو اس امر کی اطلاع دی :

فَأَمَرَ مُنَادِیًا فَنَادَی فِی النَّاسِ إِنَّ اللهَ وَرَسُولَہُ یَنْہَیَانِکُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَہْلِیَّۃِ (وَفی رَوَایَۃٍ قَالَ فَاِنَّھَا رِجْسٌ) فَأُکْفِئَتْ الْقُدُورُ وَإِنَّہَا لَتَفُورُ بِاللَّحْمِ۔

(بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، 4 : 1539، رقم : 3963)

’’ پس آپ نے ندا کرنے والے کو حکم دیا کہ لوگوں میں یہ منادی کردو کہ اللہ اور اس کے رسول نے تمہیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔ (دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک یہ پلید ہیں۔ ) پس ہانڈیاں الٹ دی گئیں اور اس وقت گدھوں کا بہت سا گوشت پکایا جا رہا تھا۔ ‘‘

اس حدیث مبارک میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے صحابی کو فرمایا کہ جا کر یہ اعلان کرو کہ؛ ان اللہ ورسولہ ینھیانکم، اللہ اور اس کے رسول دونوں نے تم پر گدھوں کا گوشت حرام کردیا ہے۔ یَنْہَیَانِکُمْ تثنیہ کا صیغہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تو گدھے کو حرام کیا، کیونکہ آپ علیہ السلام نے ہی صحابی کو بھیجا کہ اس کے حرام ہونے کا اعلان کردو مگر اللہ تعالیٰ نے کہاں گدھے کے گوشت کو کھانا منع کیا ہے؟

جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے حکم کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جدا سمجھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے حرام کرنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے مختلف سمجھتے ہیں یا آپ ﷺ کے کسی چیز کو حلال یا حرام کرنے کا اختیار نہیں مانتے کہ آقا علیہ السلام کے پاس صرف اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے اور جو قرآن مجید میں آیا ہے، اس کی اطلاع دینے تک اختیار ہے اور جو قرآن مجید میں بیان نہ ہوا اسے حلال کرنے یا حرام قرار دینے کا اختیار نہیں، ایسے لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں، ان سے سوال ہے کہ گدھا کھانا اللہ تعالیٰ نے کہاں حرام قراردیا ہے؟ الحمد سے والناس تک پورے قرآن مجید کی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے گدھوں کے گوشت کی حرمت بیان کر دی ہو۔ قرآن مجید میں حرمت مذکور نہیں مگر رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں کہ گدھوں کا گوشت کھانا اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔

اس کا جواب واؤ عاطفہ میں ہے۔ واؤ عاطفہ اس حکم میں دونوں کو شریک کردیتی ہے اور حکم میں وحدانیت و عینیت پیدا کردیتی ہے۔ واؤ عاطفہ اعلان کردیتی ہے کہ ان دونوں کا حکم ایک ہی طرح کا ہے، ان میں دوئی، تفریق اور غیریت نہیں ہے۔

قرآن مجید تمام تفصیلات اور تفریعات بیان نہیں کرتا بلکہ بنیاد عطا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ جو چیز قرآن مجید بیان نہیں کررہا، اس کو بیان کریں۔ آپ ﷺ کے حکم کا وہی مقام و درجہ ہے جو قرآن مجید کی آیت کا ہے

یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کسی چیزکو حرام قرار دیتا ہے تو یوں ذکر فرماتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ایسا کردیا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح اگر رسول اللہ ﷺ کسی چیز کو حلال یا حرام کریں تو وہ فرمادیتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے اسے حلال یا حرام قرار دیاہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے درج ذیل آیت کریمہ ملاحظہ ہو۔ اللہ رب العزت نے فرمایا :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ.

(الحجرات، 49 : 1)

’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا کرو۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ عیدالاضحیٰ پر پہلے نمازِ عید پڑھتے اورپھر قربانی فرماتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے اللہ کی بارگاہ سے اجر لینے میں سبقت لے جانے یا قربانی سے فارغ ہوکر جلد از جلد حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دینے کی نیت سے آپ ﷺ کے عملِ قربانی سے پہلے اپنے جانور ذبح کرلیے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ کریمہ نازل فرمادی کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا کرو۔ یعنی آپ ﷺ نے ابھی اپنی قربانی کے جانور ذبح نہیں فرمائے، لہذا تم اپنے جانور حضور علیہ السلام سے پہلے ذبح نہیں کر سکتے۔ حکم ہوا کہ ایسے لوگوں کی قربانیاں نہیں ہوئیں، وہ فقط گوشت ہے، حلال ہے، کھاؤ مگر قربانی دوبارہ دو۔

اس آیت کا ایک شانِ نزول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات آقا علیہ السلام کے ارشاد فرمانے سے پہلے کوئی صحابی بات کرلیتے تو حکم آ گیا کہ رسول اکرم ﷺ کے کلام فرمالینے سے پہلے نہ بولو، بلکہ چپ رہو۔ جب تک حضور علیہ السلام کلام نہ فرما لیں، تم کلام نہیں کرسکتے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ بعض لوگوں نے عملِ قربانی اور بولنے میں حضور نبی اکرم ﷺ سے سبقت کی ہے، اللہ کے کلام کرنے سے پہلے تو کوئی نہیں بولا تھا، اللہ کے بولنے کا بندوں کے بولنے سے کیا موازنہ و مقابلہ؟ اسی طرح اللہ کی ذات تو عملِ قربانی سے بھی پاک ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم تو آقا علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ ان تمام امور میں پہل اور سبقت فعلِ رسول ﷺ پر ہوئی ہے، فعلِ الہٰی پر نہیں مگر جب آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور لوگوں کو آقاعلیہ السلام کی عظمت، رفعت، تقدم، شان، توقیر اور تعظیم سمجھانا مقصود تھا تو اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کا نام تنہا نہیں لیا کہ رسول پر پہل نہ کیا کرو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا نام بھی ساتھ ملایا اور فرمایا : لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللهِ وَرَسُوْلِہٖ کہ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے آگے نہ بڑھا کرو۔

اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ شانِ نزول میں مذکور امور میں سے کسی ایک امر میں بھی ذاتِ الٰہی پر یا اس کے کسی فعل پر نہ تو تقد م تھا اور نہ اس کا تصور کیا جاسکتا ہے، پہل تو حضور علیہ السلام کے فعل پر ہوئی ہے، اب اللہ تعالیٰ ان کو روکنا چاہتا تو یوں بھی فرماسکتا تھا کہ خبردار! کوئی شخص محبوب ﷺ کے کلام کرنے سے پہلے کلام نہ کرے اور کوئی شخص میرے محبوب ﷺ کے عمل سے پہلے کوئی عمل نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ادب تو رسول اللہ ﷺ کا سکھانا چاہتا ہے مگر رسول اللہ ﷺ کے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑ دیا۔

واؤ عاطفہ دلالت کرتی ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ دونوں اس حکم میں جمع ہوتے ہیں، جس حکم کو ان دو ناموں، دو چیزوں یا دو امور کے لیے وارد کیا جا رہا ہے۔ یعنی واؤ عاطفہ ان دونوں کو اس حکم میں برابر درجے میں شریک کردیتی ہے

سمجھانا مقصود یہ تھا کہ رسول اکرم ﷺ کے کسی کلام یا عمل پر پہل کرنا، گویا اللہ تعالیٰ پر پہل اور سبقت کرنے کے مترادف ہے۔ کوئی ایسا عمل جو بارگاہِ رسالتِ مآب اور مجلسِ رسول ﷺ کے ادب کے خلاف ہو، وہ صرف رسول ﷺ کے ادب کے خلاف نہیں بلکہ وہ حضورِ الوہیت کے بھی ادب کے خلاف ہے۔ ان دونوں کو عین یک دگر بنانا مقصود تھا کہ بتایا جائے کہ ادبِ رسول؛ ادب الٰہی ہے اور تعظیمِ رسول؛ اللہ کی تعظیم و توقیر ہے۔ رسول کی مجلس کے آداب اسی طرح ہیں گویا اللہ کے حضور حاضر ہیں۔ ان دونوں کا ادب اور تعظیم ایک ہی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا اور رسول اللہ ﷺ کا نام دونوں کو واؤ عاطفہ کے ذریعے جوڑ دیا۔

معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا اسلوب بھی یہ ہے کہ بات فقط رسول کی کرنی تھی، مگر اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو تنہا نہیں رہنے دیتا اور جہاں رسول کی بات ہوتی ہے، وہاں خود کو ساتھ ملادیتاہے کہ کوئی میرے رسول ﷺ کو کسی حکم کے باب میں تنہا نہ سمجھے اور حضور علیہ السلام کے حکم کی اہمیت فقط حضور ﷺ کی ذات کے حوالے سے متعین نہ کرلے۔ بے شک رسول اللہ ﷺ کا درجہ اللہ تعالیٰ کے بعد ہوتا ہے، اللہ، اللہ ہے اور رسول رسول ہے، وہ خالق ہے، رسول مخلوق ہیں۔ وہ معبود ہے اور رسول عبدہیں، وہ بھیجنے والا ہے اور رسول اس کی طرف سے آنے والے ہیں۔ مگر کوئی اس فرق کو سامنے رکھ کر رسول کے ادب کو ادبِ الٰہی کے مقابلے میں کم نہ کر بیٹھے۔ ۔ ۔ کوئی رسول کی تعظیم اور توقیر کے حق کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے حق کے مقابلے میں کم نہ سمجھ لے۔ ۔ ۔ کوئی رسول ﷺ کے ساتھ معاملۂ ادب کو اللہ کے ساتھ معاملۂ ادب کے مقابلے میں ہلکا نہ جانے۔ ۔ ۔ اس فرق کو مٹانے کے لیے اللہ رب العزت نے ایک ہی حکم میں واؤ عاطفہ لگا کر اللہ اوررسول دونوں کے ادب کو یکجا کردیا اور انھیں ایک مقام اور ایک درجہ میں جمع کردیا۔ پس اللہ؛ رسول کو تنہا نہیں رہنے دیتا، جہاں رسول کی بات ہوتی ہے، خود کو ساتھ ملا کر ذکر کرتا ہے اور جہاں اپنی بات ہوتی ہے، وہاں رسول کو ساتھ ملا کر ذکر کرتا ہے۔ اس طرح دونوں ناموں کو اللہ تعالیٰ جوڑ کر رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنا اور اپنے محبوب ﷺ کا نام جوڑ کر رکھے مگر افسوس کہ لوگ انھیں جدا کرنے کی بات کرتے ہیں،۔ ۔ ۔ اللہ؛ حکمِ ادب، حکمِ اطاعت، حکمِ محبت، حکمِ بیعت، حکمِ تعلق، حکمِ حیا، حکمِ رضا اور حکمِ عطا کے فرق کو مٹاتا ہے جبکہ یہ لوگ اس فرق کو پیدا کرتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ فرق پیدا کرنے والے کس قرآن، شریعت اور دین پر کاربند ہیں۔ ۔ ۔ ؟ یہ دین اور اسلام کا وہ تصور نہیں ہے جو اللہ نے قرآن مجید کی شکل میں بھیجا اور جو رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت کودیا۔

جو اسلوب قرآن مجید میں تھا، اسی اسلوب کو آقا علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنایا۔ جہاں اپنی بات ہوتی تو آپ ﷺ اپنا ذکر بھی تنہا نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں اپنا ذکر تنہا نہیں کرتا بلکہ عبادت اور ایسے خاص امور جو رسول کے لیے جائز نہیں اور صرف اللہ کا حق ہے، اُن امور کے علاوہ محبوب ﷺ کا نام اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ اسی طرح آقا علیہ السلام تنہا اپنا ذکر نہ کرتے بلکہ اللہ کا ذکر بھی ساتھ کرتے تا کہ لوگ حکم کی اہمیت میں تفریق نہ کریں۔ اس اسلوب سے اللہ اور رسول میں محبت اور احکام کی اطاعت کے باب میں تفریق کے فتنہ کی جڑ کاٹنا مقصود تھا۔

اسی اسلوب کی ایک مثال گدھے کی حرمت کے اعلان کے الفاظ میں موجود ہے کہ فرمایا : إِنَّ اللهَ وَرَسُولَہُ یَنْہَیَانِکُمْاللہ اور اس کا رسول دونوں تمھیں گدھے کے گوشت کھانے سے منع کررہے ہیں۔ حالانکہ دونوں نے الگ الگ منع نہیں کیا۔ منع صرف رسول نے کیا مگر آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول دونوں کا منع کرنا ہے۔ اگراس بات کی پھر بھی کسی کو سمجھ نہ آئے تو پھر وہ شوق سے اس نئی ڈش کو شروع کرسکتے ہیں۔ ہم تو نہیں کھائیں گے، ہم تو رسول کے حرام کیے ہوئے کو حرام جانتے ہیں۔ جنھیں رسول کا حرام کیا ہوا حرام نظر نہیں آتا، ان کے لیے ایک اور کاروبار کھل گیا ہے۔ (استغفراللہ العظیم)کوئی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا، لہٰذا اپنے تصورات اور عقائد کو درست کریں۔

مذکورہ حدیث کی شرح میں ابن حجر عسقلانی، فتح الباری میں لکھتے ہیں :

قولہ : ینہیانکم فی روایۃ سفیان الآتیۃ ینہاکم بالإفراد وفی روایۃ عبد الوہاب بالتثنیۃ وہو دال علی جواز جمع اسم اللہ مع غیرہ فی ضمیر واحد۔

(ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 7 : 468، رقم : 3963)

ینھیانکم کا لفظ روایتِ سفیان میں ’’ینہاکم‘‘ واحد کے ساتھ آیا ہے اور روایت عبدالوہاب میں تثنیہ کے ساتھ ’’ینھیانکم‘‘ آیا ہے۔ یہ اللہ کے نام کو اس کے غیر کے ساتھ ضمیر واحد میں جمع کرنے پر دلالت کرتا ہے۔

گویا روایتِ سفیان کے مطابق معنیٰ یہ ہوگا کہ اللہ اور اس کا رسول تمھیں منع کرتاہے۔ واحد کا صیغہ لگا کر دونوں کا منع کرناشامل کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اللہ کا اوررسول ﷺ کا منع کرنا دو الگ الگ منع نہیں ہیں بلکہ اللہ کا منع کرنا ہی رسول کا منع کرنا ہے اوررسول کا منع کرنا ہی اللہ کا منع کرنا ہے۔ خواہ ضمیر واحد کی لگا دیں یا تثنیہ کی لگا دیں، فرق نہیں پڑتا۔

اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے اسماء کو واؤ عاطفہ کے ساتھ ایک ہی حکم میں یکجا کرنا، اس اسلوب کو حضور نبی اکرم ﷺ بھی اپناتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپناتے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں؛ جن سے معلوم ہوگا کہ دین کا معیار دراصل یہی ہے۔

رسول اکرم ﷺ کے کسی کلام یا عمل پر پہل کرنا، گویا اللہ تعالیٰ پر پہل اور سبقت کرنے کے مترادف ہے۔ کوئی ایسا عمل جو بارگاہِ رسالتِ مآب اور مجلسِ رسول ﷺ کے ادب کے خلاف ہو، وہ صرف رسول ﷺ کے ادب کے خلاف نہیں بلکہ وہ حضورِ الوہیت کے ادب کے بھی خلاف ہے

1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنی قریظہ کے قصہ کے حوالے سے روایت کرتی ہیں کہ بنو قریظہ کے محاصرہ کے دوران حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تو ان کے فیصلہ پر آقا علیہ السلام نے فرمایا :

لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُکْمِ رَسُولِہِ۔

(بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ، 3 : 1384، رقم : 3593)

سعد تونے اللہ کے حکم اور اللہ کے رسول کے حکم کے مطابق صحیح فیصلہ کیا۔

حکم آقا علیہ السلام نے دیا تھا مگر آقا علیہ السلام نے واؤ عاطفہ کے ساتھ اللہ کے نام کو بھی اپنے ساتھ جوڑ دیا۔ گویا اللہ نے کبھی اپنے اور رسول کے حکم کو جدا نہیں کیا اور نہ کبھی رسول اللہ ﷺ نے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو جدا کیا ہے۔

2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ تَرَکَ مَالًا فَلِأَہْلِہِ وَمَنْ تَرَکَ دَیْنًا فَعَلَی اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَی رَسُولِہِ۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 215، رقم : 13274)

جو شخص قرض چھوڑکر مرجائے تو اس کے قرض کی ادائیگی اللہ اور اس کے رسول کے ذمے ہے۔

یعنی جن لوگوں کا قرض ادا کرنے والا کوئی نہیں تو ان کے قرض کی ادائیگی آپ ﷺ نے اپنے ذمہ لے لی۔ سوال یہ ہے کہ ادائیگی قرض کی ذمہ داری آپ ﷺ نے اپنے ذمہ تو لے لی مگر اللہ کے ذمہ کیسے ہوگی؟ایک شخص پر دس ہزار یا ایک لاکھ روپے کا قرض ہے اور وہ مرگیا ہے، اب اللہ اس کا قرض کیسے اتارے گا؟ کیا کوئی خانہ کعبہ کے پاس یا کسی مسجد میں جاکر بیٹھ جائے اور کہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ قرض اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کے ذمہ ہے، اے اللہ!میں اب تیرے گھر میں آگیا ہوں، مجھے تو ہی قرض واپس کر دے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر آپ ﷺ نے اس کی ادائیگی کا ذمہ اپنے ساتھ اللہ کو بھی کیوں ٹھہرایا؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ آقا علیہ السلام اس قرض کو اپنے ذمہ لے رہے ہیں۔ جب حیاتِ ظاہری میں تھے تو فرماتے کہ اگر وارث قرض ادا کرنے کے قابل نہیں تو مجھ سے لے لو اور پھر آپ ﷺ کے پاس غنائم اور فتوحات کے اموال آتے، ان میں سے قرض ادا کردیتے تھے۔ حضور علیہ السلام حکم اپنی ذاتِ اقدس کے لیے دے رہے ہیں مگر اللہ کی ذات کو اپنے ساتھ اس لیے ملا دیا تاکہ یہ تصور واضح فرمادیں کہ اگر آپ ﷺ کسی کو عطا کر رہے ہیں تو وہ ایسا ہی ہے گویا اللہ تعالیٰ عطا کررہا ہے۔ اگر آپ ﷺ کسی کا قرض دے رہے ہیں تو گویا اللہ کی طرف سے ادائیگی ہو رہی ہے۔ پس آپ ﷺ نے اپنے عمل میں اللہ کو بھی شریک کر دیا اور واؤ عاطفہ لگا کر تشریک کر کے ایک ہی عمل بنا دیا۔

ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کا اطلاق آج کیسے ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے جب آپ ﷺ نے فرما دیا کہ یہ میرے ذمہ ہے تو آپ ﷺ کے وصال مبارک کے بعد اب امت میں رسول اللہ ﷺ کے نائب مسلمان حکمران ہیں۔ آپ ﷺ ایک حکمران کی حیثیت سے سمجھا رہے ہیں کہ اگر غریب مقروض مرجائے اور اس کے وارث اس قرض کو ادا کرنے کے قابل نہ ہوں تو وقت کے حکمرانوں کے ذمے قرض کی ادائیگی ہوگی۔ اس وقت کے صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزیر ذمہ دار ہوں گے۔ قیامت کے دن جب اس غریب مقروض کے قرض کی ادائیگی کے حوالے سے پوچھا جائے گا تو اس کا وبال ان حکمرانوں پر ہوگا۔ اس لیے کہ جہاں لوگ قرض کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، بھوک سے مر رہے ہیں، قرض ان کی زندگی کا سہارا ہے، اگر کوئی مقروض مرگیا اور اس کا وارث قرض ادا نہیں ہو سکتا تو اس کی ذمہ داری ریاست اور حکومت پر ہوتی ہے۔

قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اگر بات فقط رسول اکرم ﷺ کی کرنی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنا نام بھی ساتھ ملا دیتا ہے تاکہ کوئی میرے رسول ﷺ کو اس حکم میں تنہا نہ سمجھے اور حضور علیہ السلام کے حکم کی اہمیت فقط آپ ﷺ کی ذات کے حوالے سے متعین نہ کرلے

پس ہر حکمران اپنی ریاست میں ایک شخص بھی ایسا نہ چھوڑے، جو قرض چھوڑ کے مرے۔ ہر شخص کو اتنے وسائل مہیا ہوں کہ وہ قرض لیے بغیر زندگی گزارے اور اگر قرض لے تو قرض ادا کر کے مرے یا اس کے وارث وسائل میں سے قرض ادا کرسکیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں پوری سوسائٹی مقروض مر رہی ہے اور قرض پر ہی زندگی گزار رہی ہے۔ قرض تو ایک طرف رہا اب تو لوگ حرام کھا کر جی رہے ہیں اورحکمرانوں کو سرے سے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ افسوس کہ آج یہی حکمران اژدھا اور گنجا سانپ بن کر قوم و ملک کا خزانہ لوٹ کر کھارہے ہیں۔ شریعت نے قرض کی ادائیگی اسلامی حکمرانوں کے ذمہ فرض کردی ہے۔ فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ذمہ قرض ہونے کا مطلب یہی ہے کہ اسلامی حکومت؛ سلطنت اور ریاست کے قومی خزانے سے اس کی ادائیگی کرے۔

(جاری ہے)