تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام حرمین شریفین کے بعد دنیائے اسلام کا سب سے بڑا 32واں سالانہ شہر اعتکاف امسال بھی جامع المنہاج بغداد ٹاؤن لاہور میں منعقد ہوا۔ ملک کے طول وعرض اور دنیا بھر سے ہزاروں خواتین و حضرات توبہ، اصلاحِ احوال اور آنسوؤں کی بستی شہر اعتکاف میں 10 دن کیلئے گوشہ نشین ہوۓ۔ اس شہرِ اعتکاف میں پنجاب، خیبر پختون خواہ، بلوچستان، سندھ، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت امریکہ، برطانیہ، یورپ اور ایشین ممالک سے بھی مردو خواتین اعتکاف کے لیےتشریف لاۓ۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں شہرِ اعتکاف ایک ایسا روحانی مرکز بن چکا ہے جہاں معتکفین ذکر و فکر، علم و حکمت، اور روحانی تربیت کے نور سے منور ہوتے ہیں۔ یہ عظیم الشان اجتماع بندگانِ الہٰی کے قلوب کو خشیت، محبتِ الٰہی، اور اتباعِ سنت کی روشنی عطا کرتا ہے۔ یہ اعتکاف اصلاحِ احوال اور تطہیرِ باطن کے لیے تربیت کا مفید اور مؤثر ذریعہ ہے۔ شیخ الاسلام کی علمی، فکری اور روحانی رہنمائی اور چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی نگرانی میں منعقدہ یہ اعتکاف صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ تزکیۂ نفس، اصلاحِ احوال اور عملی تربیت کی ایک منظم اور بابرکت کاوش ہے۔ یہاں دین کی سربلندی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے چراغ روشن کیے جاتے ہیں، تاکہ شرکائے اعتکاف اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں سنوار سکیں۔
ہمیشہ کی طرح امسال بھی یہ شہرِ اعتکاف ایک فقیدالمثال منظر پیش کر رہا تھا۔ روحوں کی پیاس اور دلوں کی تشنگی کو مٹانے کے لئےہزاروں مسلمان جامع المنہاج بغداد ٹاؤن میں جمع تھے۔ ہر طرف ایک روحانی اور نورانی ماحول تھا۔ شہر اعتکاف کا ہر گوشہ عبادت، ذکر اذکار اور دعاؤں سے مزین تھا۔
معتکفین دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر اللہ کی یاد میں گم تھے۔ یہاں کی راتیں اور دن مکمل طور پر عبادت اور علم و فکر سے آباد تھیں۔ ذکر و اذکار کی گونج میں ہر فرد کے دل کا رشتہ اللہ کے ساتھ مضبوط ہوتا محسوس ہوتا۔ قرآن کی تلاوت کی مسحور کن آواز، انفرادی اور اجتماعی دعائیں اور ذکر کی محافل میں ہر دل گویا ایک سکون کی لذت محسوس کرتا۔ وقت کے گزرنے کا احساس بھی مٹ چکا تھا اور دل کی گہرائیوں میں ایک عجیب سی راحت کی لہر دوڑ رہی تھی۔ ہر گوشے میں ایک الگ منظر تھا۔ ایک طرف نوجوان علم، روحانیت اور معرفت کے حصول کے لیے بے تاب تھے تو دوسری طرف بوڑھے بزرگ اللہ کی رضا کے طلبگار دکھائی دیتے تھے۔ ہر ایک اپنی عبادات میں اس قدر محو تھا کہ ان کی نظریں صرف اپنے رب کے حضور تھیں۔ کوئی قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا تو کوئی اشکوں کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا۔ یہ شہر اعتکاف ایک ایسا مقام تھا جہاں دنیا کی ہر فکر سے آزاد ہو کر انسان اپنے خالق کی رضا کی جستجو میں محو تھا۔ یہ ایک ایسا انوکھا تجربہ تھا جسے بیان کرنا لفظوں سے ممکن نہیں۔ اس روحانی ماحول میں انسان اپنے آپ کو نیا محسوس کرتا، گویا وہ اپنا مقصدِ حیات دریافت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہو۔ یہ شہر صرف ایک مخصوص جگہ پر 10 دن کے قیام تک مختص نہ تھا، بلکہ یہ ایک ایسا روحانی سفر تھا جس میں شرکت کرنے والے ہر شخص کے دل میں ایک نئی روشنی اور سکون کا پیغام تھا۔
اس شہرِ اعتکاف میں امسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے’’عشقِ الہیٰ اور لذتِ توحید‘‘ کے موضوع پر 9 خطابات ارشاد فرمائے۔ ان خطابات میں سے ہر ایک خطاب اپنے اندر، علم، فکر، روحانیت، معرفت اور محبت و عشق کے پیش بہا خزانوں کو سموئے ہوئے تھا۔ چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ’’سیرتِ انبیاء اور شخصیت سازی کے اصول‘‘ جبکہ صدر منہاج القرآن محترم پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’آدابِ زندگی‘‘ کے موضوع پر اپنے خطابات کے ذریعے معتکفین کی علمی و روحانی سیرابی کا اہتمام کیا۔ ذیل میں اس اعتکاف کی ایک اجمالی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:
محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے استقبالیہ کلمات
منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈاپور، جملہ نائب ناظمینِ اعلیٰ اور مرکزی قائدین نے معتکفین کو خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے نماز مغرب کے بعد معتکفین کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی آپ سب کا تشریف لانا اور شہرِ اعتکاف کی رونق بننا قبول فرمائے۔ ہم اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کریں، وہ کم ہے کہ اس نے اپنے فضل، رحمت، عنایت اور آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نعلین پاک کے تصدق سے ہمیں اس سال بھی اس شہرِ اعتکاف کا اہتمام کرنے اور اس میں حاضری کی توفیق بخشی۔ میں تحریک منہاج القرآن کی پوری انتظامیہ کی طرف سے حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ کے زیر سایہ اور شیخ الاسلام کی تربیت اور ارشادات کی روشنی سے منور اس شہرِ اعتکاف میں جملہ معتکفین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت آپ کا یہ دس دن کا قیام باعثِ برکت، باعثِ رحمت، باعثِ عنایت، باعثِ لطف اور باعثِ کرم بنائے۔ اللہ رب العزت ہمیشہ آپ کو اپنی رحمت کی آغوش میں رکھے اور جس مقصد اور عہد کو لے کر آپ آئے ہیں، اس عشقِ الہی کی خوراک اور محبتِ الہی کی شراب سے سیراب ہوکر جائیں۔
اعتکاف کی صورت میں آپ خواتین و حضرات جس سفر پر آئے ہیں، یہ سفرِ تعبد بھی ہے اور سفرِ تقرب بھی ہے۔ جب اللہ کے عبادت گزار بندے بن جائیں گے تو قربت کا راستہ بھی وہیں سے ملتا ہے۔ شیخ الاسلام اس اعتکاف میں جس وادی عشق کا سفر شروع کروائیں گے، اس کے سائل بن کر ایسے ذوق اور شوق کے ساتھ اس عشق و مستی کی وادی میں گم ہو جائیں کہ دنیا و مافیھا کی فکر نہ رہے۔ اللہ کے مہمان بن کر آئے ہیں تو توجہ اس کی توحید اور اس کے عشق کی طرف رکھیں۔ توجہ، قربتِ الہی، زہد، تقوی اور طہارت کی طرف رکھیں۔ اس کا مہمان بن کر رہیں اور اس کے ہو کر رہیں۔ اس شہرِ اعتکاف کو اپنے گناہوں سے نجات کا ذریعہ بنا لیں یہاں تک کہ جب یہاں سے جائیں تو دوزخ سے نجات کا پروانہ ہر ایک کے پاس ہو۔ طالب اور سائل بن کر اللہ کے حضور پیش ہو جائیں تاکہ یہ دن ایسے گزریں کہ گناہوں سے بھی نجات حاصل ہو جائے اور اللہ والوں کی اس بستی سے وہ سفر شروع ہوجائے جو عشق و محبت الہی اور محبتِ مصطفیﷺ تک لے جائے۔
شہر اعتکاف کے روحانی و علمی معمولات
1۔ شہر اعتکاف کی فضا میں انفرادی ذکر و اذکار، نوافل اور مناجات کے معمولات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضور نبی اکرم ﷺکے ساتھ تعلق کی پختگی کے آئینہ دار تھے۔ ہر لب پر ذکرِ الہٰی، درود و سلام اور دعاؤں کے پھول مہک رہے تھے، جن کے ذریعے دلوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ روحوں میں عشقِ رسولﷺ کی لذت بھی پیدا ہوتی۔ ہر معتکف کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے اور دلوں میں سکون کی ایک عجب کیفیت طاری تھی۔
2۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اس شہر اعتکاف میں فقط عبادتِ الہٰی کا رنگ نہ تھا بلکہ علم و عمل کا ایک ایسا حسین امتزاج تھا جو دلوں کو چمکاتا اور ذہنوں کو منور کررہا تھا۔ علمی و روحانی حلقات ِ تربیت نے اس شہر کو ایک نئی روحانی فضا سے معطر کر رکھا تھا۔ ہر سیشن میں منہاج القرآن علماء کرام اور سکالرز اہلِ ایمان کے دلوں میں علم و حکمت کی لذت کو اجاگر کر رہے تھے۔ شہر اعتکاف کی یہ مبارک فضا، جہاں دلوں کی گہرائیوں میں سکون اور طمانیت کا پیغام تھا، وہاں مختلف روحانی و علمی معمولات نے ایک انوکھا سحر طاری کررکھا تھا۔ ہر گوشہ، ہر محفل اور ہر مجلس گویا دل کے نہاں گوشوں سے نکلنے والی صداؤں اور روح کی تڑپ کی عکاس تھی۔ یہ شہر نہ صرف عبادت کا مرکز تھا بلکہ علم و عمل کا حسین سنگم بھی تھا۔ پاکستان بھر میں منہاج القرآن کے زیرِاہتمام قائم کئے جانے والے مراکزِ علم کے وہ معلمین جو شہرِ اعتکاف میں تشریف لائے، ان معلمین کے لیے تربیتی نشستوں کا انعقاد کیا گیا۔ نظامتِ دعوت، نظامت تربیت اور نظامتِ ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ(EPD) کے ناظمین نے ان معلمین کو شہر اعتکاف میں منعقدہ حلقہ جات کے انعقاد کے طریقہ کار اور تربیتی نصاب کی تدریس کے طریقہ پر بریفنگ دی۔ بعد ازاں ان معلمین نے حلقاتِ تربیت میں ملک بھر سے آئے معتکفین کی تربیتی نشست میں تدریس کے فرائض سر انجام دئیے۔ معتکفین کے لئے منعقدہ ان تربیتی و تدریسی حلقہ جات میں قرآنیات، فقہ، تجوید و قرآت کے موضوعات پر لیکچرز دیئے گئے۔ یہ حلقات گویا دلوں کی درستی اور روحوں کی تربیت کے لیے ایک خاص محفل تھے۔ ہر گوشہ اور ہر کونے میں ایک الگ روحانی جاذبیت تھی، جہاں علم و عمل کا ایسا امتزاج تھا جو دلوں میں اللہ کی محبت کی شمع روشن کر دیتا۔ ان تربیتی حلقوں میں منہاج القرآن کے سکالرز نے علم کے موتیوں سے دلوں کی اصلاح کی اور ذہنوں کو صحیح راستے کی طرف راہنمائی فراہم کی۔
یہ شہرِ اعتکاف علم کا ایک مرکز تھا، اور فقہی مجالس اس علم کا جیتا جاگتا عکس تھیں۔ جہاں مسائلِ فقہ کی وضاحت کی جاتی اور ہر سوال کا جواب بڑی عقلی اور روحانی گہرائی سے دیا جاتا۔ ان مجالس کے ذریعے معتکفین علم الفقہ کی روشنی میں اپنے روزمرہ کے معاملات کو بہتری کی طرف گامزن کرنے کے لیے رہنمائی لیتے۔ محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی اور کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے اساتذہ کرام نے ان فقہی مجالس میں عبادات و معاملات کے حوالے سے معتکفین کو پیش آمدہ مسائل کے جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں دیئے۔
4۔ شہر اعتکاف میں طلبہ کے لیے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے زیرِانتظام ’’التربیۃ‘‘ کے عنوان سے خصوصی مجالس کا اہتمام کیا گیا تھا، جن کا مقصد طلبہ کی علمی اور روحانی تربیت تھا۔ ان مجالس میں جہاں طلبہ کو علم کی بنیاد فراہم کی جاتی، وہیں ان کے دلوں کو تقویٰ اور ایمان کی حقیقت سے بھی آشنا کیا جاتا۔ ہر مجلس طلبہ کے ذہنوں کو ایک نئی روشنی دیتی اور ان کے دلوں میں اللہ کے ساتھ تعلق کی گہرائیوں کا شعور پیدا کرتی۔ تحریک منہاج القرآن کے ناظمِ اعلیٰ، نائب ناظمین اعلیٰ اور MSM کے مرکزی قائدین نے طلبہ کو مختلف علمی، فکری اور روحانی موضوعات پر تربیتی لیکچرز دیے۔
5۔ منہاج القرآن یوتھ لیگ کے زیرِانتظام شہرِ اعتکاف میں شریک نوجوانوں کے لیے الگ سے تربیتی مجالس کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں انھیں علم و معرفت کے نئے گوشوں سے متعارف کروایا گیا۔ مرکزی قائدین تحریک اور یوتھ لیگ کی مرکزی قیادت نے ان مجالس میں مختلف علمی و فکری موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں کی زندگیوں کو نیا رخ عطا کیا۔ نوجوانوں کو دین کی اصل حقیقت سے آگاہ کیا گیا اور ان کے دلوں میں ایمان کی تڑپ اور عمل کی لگن پیدا کی گئی، تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو ایک نئی روشنی سے منور کرسکیں۔
6۔ اس روحانی فضا میں جہاں ہر طرف انفرادی معمولات بھی محبت و شوق سے جاری تھے وہاں قرآن مجید کی پرسوز آواز میں تلاوت نے ہر گوشے کو ایک خاص روحانی لذت سے بھر دیا۔ ہر شب بعد از نمازِ تراویح منعقد ہونے والی محافلِ قرأت ونعت گویا قلوب کی تطہیر کا ذریعہ بن رہی تھیں۔ ایک ایک آیت کی تلاوت دلوں میں ایمان کی تازگی کی لہر دوڑاتی اور ہر ایک کا دل اللہ کے کلام کی سماعت میں ڈوب جاتا۔ ان محافل میں ملک کے نامور قراء اور ثنا خوانانِ مصطفی ﷺ نے خصوصی شرکت کی۔ شہرِ اعتکاف کی تیسری اور چوتھی شب کی محافل میں ایران سے خصوصی طور پر تشریف لائے ہوئے محفل ٹی وی کے معروف قراء نے تلاوتِ کلامِ رحمن سے سماں باندھ دیا۔ اس تقریب میں استاذ القراء محترم قاری احمد ابو القاسمی، محترم قاری محمد امین نبی لو، محترم قاری ابو الفضل نبی لو اور منہاج انسٹی ٹیوٹ برائے قرأت و تحفیظ القرآن کے طلبہ نے خوبصورت انداز میں تلاوتِ قرآن پیش کی اور شرکاء کے قلوب و اذہان کو منور کیا۔
شہرِ اعتکاف کی چھٹی شب کی محفل میں ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران لاہور محترم ڈاکٹر اصغر مسعودی کی قیادت میں ایرانی قراء کرام محترم قاری محمود متولی، محترم قاری سید محسن حسینی، محترم قاری عبدالوحید جعفرزادہ، محترم قاری خان صاحب بہنام اور محترم قاری زین العابدین مظفری نے خوبصورت انداز میں تلاوت قرآن حکیم کی سعادت حاصل کی۔ ڈائریکٹر انٹرفیتھ ریلیشنز منہاج القرآن محترم سہیل احمد رضا نے کلماتِ استقبالیہ پیش کیے۔ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے معزز مہمانوں کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔
شہرِ اعتکاف میں منعقدہ ان محافل نعت میں ثنا خوانانِ مصطفی نے عربی زبان میں بھی نعت اور اہلِ بیت اطہار کی بارگاہ میں محبت بھرے کلام پیش کیے۔
شیخ الاسلام کی خواہش پر ایرانی قراء نے بھی عربی نشید کو خوبصورت انداز میں پیش کرکے شہرِ اعتکاف پر ایک عجب روحانی ماحول طاری کردیا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام خود بھی عربی نشید کے کلمات کو اپنی محبت و سوز سے معمور آواز کے ساتھ پڑھتے رہے۔ ان تمام محافلِ قرأت و نعت میں نقابت کے فرائض محترم صفدر علی محسن، محترم صاحبزادہ تسلیم احمد صابری، نظامتِ تربیت اور نظامتِ ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے سکالرز نے سرانجام دیئے۔
شہر اعتکاف میں یہ روحانی و علمی معمولات ایک منفرد نوعیت کے تھے، جو دلوں میں عشقِ الٰہی اور لذتِ توحید کے جذبات کو بیدار کرتے تھے۔ یہاں کی ہر مجلس، ہر محفل اور ہر سیشن گویا دلوں کی پاکیزگی کا ذریعہ تھا، جہاں ہر فرد کو اپنے رب کی رضا کی جستجو میں نئے افق تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جاتا تھا۔
چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے خطابات
چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے خطابات شہر اعتکاف کی ایک اور اہم ترین خصوصیت تھے۔ ’’سیرتِ انبیاء اور شخصیت سازی کے اصول‘‘ کے موضوع پر ان کے تربیتی خطابات نے سامعین کی زندگیوں میں ایک نیا روحانی انقلاب برپا کیا۔ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ان خطابات میں معتکفین کو اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ
اللہ تعالیٰ انبیاء کرام علیھم السلام کے ذکر سے لوگوں کی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے نصیحتیں فرماتا ہے۔ انبیاء کی سیرت بیان کرنا سنتِ مصطفی ﷺ بھی ہے اور سنتِ خدا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کے لیے حضور نبی اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس کو اسوہ بنا کر بھیجا۔ ان تذکروں سے اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ میرے انبیاء کا بار بار ذکر ہو اور لوگ اُن کے زہد و تقویٰ، صبر و قناعت اور توحیدِ ربانی کے بیان سے نصیحت حاصل کریں کیونکہ یہی وہ کامیاب اور انعام یافتہ بندے ہیں جن کے راستے پر چل کر دنیوی واُخری کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ جب کفار و مشرکین آپﷺ کو تکالیف دے رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تالیفِ قلب کے لیے سابقہ انبیاء کرام کی تکلیفوں کے بارے میں آگاہ فرمایا۔ کبھی حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی تکلیف کا ذکر، کبھی حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا ذکر اور کبھی حضرت یوسف علیہ السلام کی اسیری کا تذکرہ بیان کیا، کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آتشِ نمرود کا واقعہ بیان کیا، کبھی حضرت عیسی علیہ السلام کو پیش آنے والے مصائب کے بارے میں اور کبھی حضرت موسیؑ کی استقامت اور فرعون کے مظالم کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ ان تذکروں کا بنیادی مقصد اس بات کی تعلیم اور تربیت دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور ثابت قدم اہلِ حق کو وہ کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔
انبیاء امت کے لیڈر ہوتے ہیں اور مثالی لیڈر وہ ہوتا ہے جس کا صبر اور حوصلہ پہاڑ جیسا ہو۔ لیڈر خود مصیبتیں جھیلتا ہے تاکہ معاشرہ اَمن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ لیڈر امت کو شعور دیتا ہے تاکہ کوئی اُسے طاقت کے زور پر غلام نہ بنا لے اور اس کی لا علمی کو استحصال کا ذریعہ نہ بنا لے۔ پیغمبرانِ خدا نے جن جن مصائب کا سامنا کیا، وہ سارے مصائب کا تنِ تنہا خاتم النبیین حضور نبی اکرمﷺ نے سامنا کیا اور نازک سے نازک موقع پر بھی امت کو ہلاکت کی بد دعا نہ دی۔ آپﷺ نے ہمیشہ دعا کی کہ اے اللہ! میری امت کو ہدایت کے خزانے عطا کر اور انہیں دنیا اور آخرت کی عزتیں اور رفعتیں عطا فرما۔ سیرتِ انبیاء علیہم السلام تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ شخصیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ان خطابات میں اس امر پر بھی توجہ مرکوز کی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر شخص کی عقل اور ذہنی سطح کے مطابق بات کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی آیاتِ قرآنیہ کا مختلف مقامات پر تکرار اس لیے کیا تاکہ ایک بات کو پختہ اور ذہن نشین کروایا جاسکے۔ یہ بات کے ابلاغ کا اَحسن طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسی اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو فرمایا: اُس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا۔ اچھی گفتگو انسانی طبیعت میں جمال پیدا کرتی ہے۔ جب اللہ تعالی کوئی بات سمجھانے کے لیے بار بار اُس کا تذکرہ فرماتا ہے تو ہم ایک بات کو بار بار سمجھانے میں شرم وعار کیوں محسوس کرتے ہیں؟ یہ نکتہ بطور خاص علمائے کرام، مبلغین، والدین، اساتذہ کرام، مشائخ عظام، واعظین کے ہمہ وقت پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ اخلاص اور مثبت سوچ کے ساتھ مکالمہ کرنا بھی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ اگر کوئی نافرمانی پر بضد ہے تو اہلِ علم اور اہلِ حق کہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نرم خوئی کے ساتھ اصلاحِ احوال کی نیت سے بار بار مخاطب ہوں۔
دعوت کا اہم عنصر ابلاغ ہے۔ دعوت اُس وقت تک شروع ہی نہیں ہو سکتی جب تک داعی دعوت کا کام بطریقِ اَحسن انجام نہ دے۔ دعوت و تبلیغ کے اہم عناصر ابلاغ اور مکالمہ ہیں۔ اسلام نے انسانی معاشرہ کو ہر شعبہ حیات میں خوبصورت کوڈ آف کنڈکٹ دیا ہے۔ دعوت دین کے کام کے لیے ابلاغ کی صلاحیت حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔ ہم اسلام قبول کرنے کے باوجود اس لیے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم مکمل طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہے۔ قرآن مجید نے دعوتِ دین کے اصول بھی دیے ہیں اور پیغمبران خدا اس کی عملی تصویر ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کبھی مکالمہ کے ذریعے، کبھی لاجک کے ساتھ، کبھی نرمی کے ساتھ اور کبھی پیغمبرانہ جلال کے ساتھ مخاطب ہوتے۔ یہ سارے انداز دعوتِ دین کے ہیں۔ پیغمبران خدا اپنے دور کے بہترین موٹیویشنل سپیکر بھی تھے۔ آج اسلام کا صحیح معنیٰ میں وکیل وہی ہوگا جو انسانی مزاج اور رویوں کے مطابق اسلام کی دعوت دے۔
جب کوئی قوم دعوتِ دین کا فریضہ سرانجام دینے سے قاصر ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کسی ایسی قوم کو لے آتا ہے جو اس کے دین کی ذمہ داری کو احسن طور پر انجام دے۔ قرآنِ مجید میں ہے کہ ’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ اس آیت میں دین سے پھر جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دعوتِ دین اور دین پر عمل کرنے میں ناکام ہوچکے ہوں گے۔ لہذا دعوت دین کے کام کو ہلکا نہ جانیں۔ اگر ہماری گفتگو مؤثر اور حکمت و دانائی پر مبنی ہو تو ہی ہم حقیقی معنوں میں دین کی خدمت کر سکتے ہیں۔
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے خطابات
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے ’’آدابِ زندگی‘‘ کے موضوع پر خطابات نے شہر اعتکاف کی محافل میں ایک نیا رنگ بھر دیا۔ ان کی باتوں میں وہ حکمت تھی جس سے زندگی کے ہر پہلو کو بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ آداب زندگی پر ان کے خطابات ہر فرد کو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی ترغیب دے رہے تھے۔ ان خطابات میں وہ معتکفین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ
انسان اپنے اخلاقی رویوں سے معتبر ہوتا ہے۔ نیکی صرف ظاہری اعمال کا نام نہیں بلکہ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رشتوں کا احترام کرے، حقوق العباد کی خلاف ورزی نہ کرے اور دوسروں کی دل آزاری سے بچے۔ آج ہم ناسمجھی یا غفلت میں دوسروں کے بارے میں ایسے رویے اختیار کر لیتے ہیں جو دل آزاری کا باعث بنتے ہیں، حالانکہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ گرفت ہے۔ صوفیائے کرام ہمیشہ انسانیت سے محبت کرتے تھے اور دوسروں کی دل جوئی کرتے تھے۔ ان کے حسنِ سلوک کی بدولت برصغیر میں اسلام پھیلا۔ کسی کی عظمت کا معیار بڑی ڈگری، بڑا عہدہ یا اعلیٰ نسب نہیں بلکہ اچھے اخلاق اور آداب ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ ‘‘اخلاق درست ہو جائیں تو ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔ منہاج القرآن کی اعتکاف گاہ آداب سیکھنے کی عملی تجربہ گاہ ہے، جہاں شرکاء کو اسلامی آداب و اخلاق کی تربیت دی جاتی ہےاورروحانی بالیدگی کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں ان اصولوں کو اپنانے کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ مادی زندگی کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ جاری رکھیں اور کسی بھی حال میں قرآن و سنت سے اپنا تعلق کمزور نہ ہونے دیں۔ دینِ اسلام سراپا آداب اور مرقعِ اخلاق ہے۔ قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبوی ﷺ آدابِ زندگی کے اعلیٰ معیارات متعین کرتے ہیں۔
کسی بھی عمل کی تکمیل سے پہلے علم کا ہونا لازم ہے۔ جب علم کی سمت درست ہو جائے گی تو دیگر تمام معاملات خود بخود درست ہوجائیں گے۔ اسلام کی بنیاد دیگر تہذیبوں کی طرح نسل، زبان، قبیلے یا علاقے پر نہیں بلکہ علم اور تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور جو شخص ان دونوں میں بلند مرتبہ حاصل کر لیتا ہے، وہی حقیقت میں بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جسے قرآن و حدیث کا علم عطا کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے اسے غنی کر دیا۔ جو شخص حصولِ علم کے لیے نکلتا ہے، وہ اس وقت تک اللہ کی راہ میں ہوتا ہے جب تک وہ واپس نہیں لوٹتا۔ اسلام میں عزت و فضیلت کا معیار مادی رتبہ اور خاندانی وراثت نہیں بلکہ علم اور تقویٰ ہے۔ اگر کوئی غریب گھرانے میں پیدا ہو کر بھی علم میں بڑا ہو تو وہی اسلامی معاشرے میں برتری کا حق دار ہے۔
علم رکھنے والا شخص کبھی تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا۔ نسب کا فائدہ بھی تبھی ہوتا ہے، جب اعمال بھی صالح ہوں۔ جس معاشرے میں علم کا اَدب ہوگا، وہاں عالمِ دین کا بھی اَدب ہوگا۔ جو چیز سیکھی جا رہی ہو، اس کا بھی اَدب ضروری ہے اور سکھانے والے استاد کا بھی احترام لازم ہے۔ اللہ سے ڈرنے والے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں، کیونکہ خشیتِ الہی کا نور علم سے پیدا ہوتا ہے۔ طلبِ علم میں ہمیشہ نیت کو خالص رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ درویش دین کو ذریعہ معاش نہیں بناتا اور نہ ہی دنیاوی منفعت کے لیے اپنے علم کو فروخت کرتا ہے۔ جس نے دین کو ذریعہ معاش بنایا، اس نے درحقیقت لعنت کمائی۔ حصولِ علم کا ادب یہی ہے کہ جو کچھ سیکھیں، اس پر عمل کریں۔ اگر طبیعت میں علم کا دعویٰ آنے لگے تو سمجھیں کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہے، کیونکہ علم کا دعویٰ تکبر پیدا کرتا ہے اور تکبر درویش کے لیے زہر قاتل ہے۔ درویش اپنی اصلاح میں ہمیشہ متوجہ رہتا ہے اور جب بھی نصیحت کی جاتی ہے تو فوراً اپنے باطن میں جھانکتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو درست کرتا ہے۔ جو طلبِ علم میں اخلاص رکھے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ درویش کی ابتداء عام عالم کی انتہا ہوتی ہے کیونکہ درویش صرف علم حاصل نہیں کرتا بلکہ اس پر عمل کرکے اسے اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے۔ علم وہی معتبر ہے جو عمل کے قالب میں ڈھل جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علم کے نور سے منور فرمائے اور اسے ہمارے لیے ذریعۂ نجات بنائے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات
شہر اعتکاف کی فضاؤں میں سب سے خاص لمحہ وہ ہوتا تھا جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب شروع ہوتا۔ جیسے ہی ان کی آواز میں لذت بھرے الفاظ سماعتوں میں گونجتے، وہاں موجود ہر فرد کی روح میں ایک نیا داعیہ بیدار ہوجاتا، گویا دلوں کے دروازے کھل گئے ہوں اور اللہ کی محبت کا ایک نیا رنگ دلوں میں جاگزین ہو گیا ہو۔ شیخ الاسلام نے اپنے خطابات میں عشقِ الٰہی کی ان حقیقتوں کو بیان کیا جنہیں سن کر سامعین کے دل میں ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ ان کے الفاظ میں ایسا رقت اور تاثیر تھی کہ سننے والوں کا دل بے اختیار اللہ کی محبت میں غرق ہو جاتا۔ جب انہوں نے توحید کی عظمت، اللہ کی محبت اور اس کی بارگاہ میں عاشقوں کے احوال کا ذکر کیا، تو گویا ہر دل پر اللہ کی محبت کا سحر طاری ہو گیا۔ شیخ الاسلام کا ہر لفظ دلوں کی گہرائیوں میں اُتر رہا تھا۔ ان کے ہر بیان میں اتنی محبت اور شگفتگی تھی کہ سامعین کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے۔ یہ آنسو فقط غم کے نہیں تھے، بلکہ لذتِ توحید کے جذبات کا اظہار تھے۔ جب دل اللہ کی محبت میں سرشار ہو جاتا ہے تو انسان اپنی عاجزی و نیاز مندی میں سرنگوں ہو جاتا ہے۔ ہر دل میں ایک سکون اور تسکین کی کیفیت تھی اور ہر لمحہ پُرکیف اور روحانی انوارات کا عکاس تھا۔
شیخ الاسلام کے تمام خطابات کے دوران حاضرین و سامعین کی کیفیت دیدنی تھی۔ ہر ایک کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی تھی، جیسے ہر فرد کا دل اپنے خالق کی رضا کی آرزو میں تڑپ رہا ہو۔ ان کی آواز میں جو قوت اور تاثیر تھی، وہ سامعین کے اندر ایک نئی روح پھونک رہی تھی۔ الفاظ کی گونج دلوں میں سکون اور محبت کی لہریں پیدا کر رہی تھیں۔ وہ الفاظ جو اللہ کے ساتھ تعلق کی گہرائی کو بیان کر رہے تھے، سامعین کی ذہنوں میں گہرا اثر چھوڑ رہے تھے۔ سامعین آنکھوں میں اشکوں کی نمی لیے بیٹھے تھے، گویا ان کا دل ان کی آنکھوں کے ذریعے اللہ سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہو اور ان تذکروں کو سن کر اللہ کی محبت کی حلاوت میں ڈوبا ہوا ہو۔ توحید کی حقیقت اور عشقِ الٰہی کی لذت کو بیان کرنے والے شیخ الاسلام کے یہ خطابات ہر دل میں ایک خاص قسم کا سکون اور روشنی کا سبب بن رہے تھے۔ ان کے خطابات کا ہر ایک لفظ اور جملہ میں ایک ایسی رقت اور تاثیر تھی کہ سامعین اپنے آپ کو اس عالم میں محسوس کرنے لگتے جیسے وہ خود اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ خاص لمحات میں، سامعین بے اختیار اللہ کی محبت میں روتے، گویا وہ اپنی دنیا اور آخرت کے ہر عیب کو صاف کرنا چاہتے ہوں۔ آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کا ہر قطرہ اللہ کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا اور ہر دل کی ہر دھڑکن، اس کے عشق میں اس کے لاہوتی نغمات کو الاپ رہی تھی۔
’’عشقِ الہٰی اور لذتِ توحید‘‘ کے موضوع پر شیخ الاسلام کے ان خطابات کے خلاصہ جات نذرِ قارئین ہیں:
1۔ موضوع: عشقِ الہٰی اور خوفِ الہٰی۔ صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے احوال
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے منہاج القرآن کے شہرِ اعتکاف کی پہلی شب ہزارہا معتکفین و معتکفات سے ’’عشقِ الٰہی اور لذتِ توحید‘‘ کے عنوان کے تحت ’’عشقِ الہٰی اور خوفِ الہٰی: صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے احوال‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صحابہ کرام کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ خشیتِ الہی اور عشقِ الہی کے پیکر ہوا کرتے تھے۔ خشیت و محبت الہی ٰ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہمپر ان کیفیات کے طاری ہونے سے بعض دلوں میں موجود یہ شک ختم ہوجانا چاہیے کہ ان احوال کا کوئی ثبوت نہیں اور ایسی چیزوں کو بعد کے صوفیاء نے بیان کیا ہے۔ یاد رکھیں یہ سب احوال محدثین نے بیان کیے ہیں۔ کتبِ احادیث اور آثارِ صحابہ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لذت و حلاوت اور روحانی کیفیات کا ورود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کی زندگیوں میں بھی ہوتا تھا۔ وہ لوگ جو خود ان حلاوتوں سے بے بہرہ ہیں اور اس ذائقہ کو چونکہ خود انھوں نے کبھی چکھا نہیں ہے، اس لئے وہ اس کا سرِ عام انکار کردیتے ہیں۔
امام عبد العزیز بن میمون روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے عیال کو دوزخ سے بچاؤ، تو یہ سن کر ایک صحابی بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ معلوم ہو ا کہ یہ کیفیات و وارداتِ قلبی اس دور میں صحابہ میں بھی تھیں۔ ایک دفعہ فجر کی نماز میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سورۃ یوسف پڑھی اور جب اس آیت پر پہنچے کہ یعقوبعلیہ السلام یوسف علیہ السلام کی جدائی میں روئے تو روتے روتے ان کی بینائی چلی گئی۔ اس آیت سے آگے نہ پڑھ سکے اور رونے لگتے۔ اتنا روئے کہ آپ کے صاحبزادے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے رونے کی آواز مجھے تین صفیں پیچھے کھڑا ہونے کے باوجود سنائی دے رہی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ ایک رات ایک گلی سے گزرے تو ایک قاری کی آواز سنی، جو سورۃ الطور کی تلاوت کر رہا تھا۔ جب وہ اس آیت پر پہنچا کہ آپ کے رب کا عذاب واقع ہوکر ہی رہنا ہے، تو یہ آیت سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ رب کعبہ کی قسم !عذاب آنے والا ہے۔ یہ کہہ کر سواری سے نیچے گر گئے۔ ایک مہینہ تک حالتِ علالت میں بستر پر لیٹے رہے۔ صحابہ عیادت کیلئے آتے رہے مگر کسی کو پتہ نہ تھا کہ کیا ہوا ہے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھ کے گرد رونے کی وجہ سے حلقے پڑ گئے تھے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے آپ کو انتہا درجہ کا رعب و دبدبہ عطا فرمایا تھا لیکن دوسری طرف عشقِ الہی کا عالم یہ تھا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ قرآن مجید میں ذکرِ آخرت سن کرخوفِ خدا میں بے ہوش ہوجاتے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج یہ کیفیات و احوال نظر کیوں نہیں آتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے زمانوں میں ظلم و ستم، فریب و دھوکہ اور گناہوں کی اس قدر کثرت نہ تھی۔ لہذا ایسے احوال و کیفیات کا طاری ہونا عام تھا۔ مگر آج ہر طرف گناہ ہیں، ظلم اورقتل و غارت گری ہے، اب ہر شخص نفس پرست ہے، اب سارا موسم ابر آلود ہو چکا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان مناظر کو چھپا دیا ہے۔ دل میں اللہ کے عشق کی وہ چنگاری جلا لیں، جوحرص، لالچ، مفادپرستی، نفس پرستی اورتمام برائیوں کوجلا کرراکھ کردے۔ تب جا کر عشق الہیٰ اور لذتِ توحید حاصل ہو گی اور اس طرح کی کیفیات و احوال نصیب ہوں گے۔
ہمارے ہاں چونکہ مادیت ہے، اس لئے دین کی تعبیر بھی مادیت کی نذر ہوگئی ہے۔ ہمارے عقل دماغ اور دل بھی مادی، ظلماتی اورحیوانی ہیں۔ ہماری عقلیں، دل اور سوچیں روحانی نہیں رہیں۔ ہم اتنے مادیت زدہ ہو گئے ہیں کہ ہر چیز میں نقص نکالتے ہیں، تنقید کرتے ہیں، انکار کرتے ہیں اور تضحیک کرتے ہیں اور ایسے احوال کا انکارکر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بعد کے صوفیاء کے قصے اورحالات ہیں جو کتابوں میں لکھے ہیں اور ان کیفیات اور احوال کی کوئی حقیقت نہیں۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع التابعین رضی اللہ عنہم کے احوال کا مطالعہ ہمیں ان کیفیات و احوال کی حقیقت کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اصل میں ہم نے کتب کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس لیے ہمارے علم میں نہیں اور جب کوئی چیز ہمارے علم میں نہیں ہوتی تو ہم ڈنکے کی چوٹ پر اس کا انکار کر دیتے ہیں۔ صرف انکار نہیں کرتے بلکہ مذاق اڑاتے ہیں، تضحیک کرتے ہیں، نوجوانوں کے عقائد خراب کرتے ہیں اور یہ تصور دیتے ہیں کہ یہ من گھڑت قصے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس راہ کے مسافر نہیں ہیں، اس لئے ہمیں ان کا انکار کرنا آسان نظر آتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بشر ہونے کے ناطے اگر معمولی سی بھی خطا و نافرمانی ہو جاتی تو وہ اسے بھی بڑا گناہ تصور کرتے۔ وہ اسی احساس کے اندر روتے اور اللہ رب العزت سے معافی کے خواستگار ہوتے۔ دوسری طرف ہم کہاں ہیں؟ لاکھوں گناہ کرنے کے باوجود بے پرواہ ہیں، گناہ کے گناہ ہونے تک کا خیال اور فکر نہیں ہے۔ وہ صحابہ جو ہمہ وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت و قربت میں رہتے اور جنہیں ہر وقت آقا علیہ السلام کی قربت اور خدمت نصیب ہے مگر اس خدمت اور قربت کے باوجود وہ خوفِ الہی سے بے نیاز نہیں۔ ان میں یہ جرات نہیں تھی کہ آقا علیہ السلام کی اتنی قربت اور ہمہ وقت خدمت کے سبب یہ کہتے یا سوچتے کہ ’’اب ہمیں آخرت کی کون سی پرواہ ہے، ہم تو بخشے گئے ہیں۔ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جری نہیں تھے بلکہ خوفِ الہی کا پیکر تھے، وہ کبھی آخرت سے بے نیاز و بے پرواہ نہیں ہوتے تھے۔
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارا وجود گناہوں سے لت پت ہے اور اس سب کے باوجود ہماری آنکھیں خشک ہیں۔ صحابہ کرام حضور نبی اکرمﷺ کے صحابی ہوکر بھی اپنے اعمال و احوال کی پرواہ کرتے تھے جبکہ ہمارا طریق یہ ہو گیا ہے کہ ہر عالم، ہر پیر و شیخ اور ہر مذہبی رہنما اپنے عقیدت مندوں اور مریدین کو بے پرواہ بناتے پھر رہا ہے کہ آپ ہمارے مرید ہیں، آپ ہمارے خدمت گار ہیں لہذا آپ کو جنت مل گئی۔ یاد رکھیں اس طرح جنت کے لائسنس نہیں ملتے۔ یہ مغالطہ انسان کو بے عمل، بے خوف اور اللہ کی قربت اور لطف و کرم سے دور کرتا ہے۔ محافل کرکے یہ نہ سمجھا جائے کہ جنت کا لائسنس مل گیا اور سوچنا کہ' ہمیں قیامت کا کہاں ڈر؟ ہمیں بچانے والے بچالیں گے'، ایسے کلمات حضور غوث الاعظم، حضور داتا گنج بخش، بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیاء اور دیگر اولیاء میں سے بھی کسی نے نہیں کہے اور نہ ان کی کتب میں موجود ہیں۔ حسنین کریمین، آئمہ اہلبیت، جنید بغدادی، ابوبکر شبلی، ذوالنون مصری رضی اللہ عنہم میں سے کبھی کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ' بے خوف ہوجاؤ اور یہ کرلو تو جنت مل جائے گی'۔ اس بات نے ہمارے دلوں کو بے عمل کردیا اور خدا کا خوف ختم کردیا اور رقت و خوفِ الٰہی چلا گیا۔
2۔ موضوع: عاشقوں کی مناجات اور اللہ تعالیٰ کی عنایات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف کی دوسری نشست سے ’’عاشقوں کی مناجات اور اللہ تعالیٰ کی عنایات‘‘کے موضوع پر ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عشقِ الہٰی اور خشیتِ الہٰی پر مبنی واقعات و قصص اور ایسے تمام احوال و کیفیات پر مبنی حکایات نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان قصوں کے پیچھے اسناد اور مضبوط علمی دلائل ہیں۔ انبیاء، اولیاء کے قصص کی شریعت کے لحاظ سے منفعت اور علمی لحاظ سے سند قرآن مجید میں بیان کردہ قصص ہیں۔ اچھے لوگوں کے قصے بیان کرنا اللہ اور قرآن مجید کی سنت ہے۔ ان قصوں میں خاص حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان قصوں کے ذریعے ہمیں ان کی تاثیر پہنچانا چاہتا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ حکایات اللہ کے لشکروں میں سے لشکر ہے۔ ان کے ذریعے اللہ اپنے دوستوں کے دل مضبوط کرتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اللہ والوں کے اخلاق و محاسن کے واقعات مجھے فقہ سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس لیے کہ فقہ سے احکام اور اللہ والوں کے قصوں سے آداب ملتے ہیں۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کے سامنے اہل اللہ کا ذکر ہوتا تو آپ بیمار ہونے کے باوجود اٹھ بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اللہ والوں کا ذکر تکیہ لگاکر نہیں سننا چاہتا۔
امام حسن بصریؒ سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ جب ایک بندہ ذکر کے ذریعے میرے قریب آنے لگتا ہے اور میرے ساتھ اس کا دل مشغول ہوجانا ہے اور یہ تعلق اس پر غالب آجاتا ہے تو پھر میں اس کی لذت اس ذکر میں رکھ دیتا ہوں اور جب میں اپنے ذکر میں اس کے لیے راحت اور لذت رکھ دیتا ہوں تو پھر وہ بندہ میرا عاشق ہوجاتا ہے۔ جب میرا بندہ مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے تو پھر میں اپنے اور اس کے درمیان پردے اٹھادیتا ہوں۔ ان پردوں کے اٹھنے کی علامت یہ ہے کہ جب لوگ مجھے بھولنے لگتے ہیں تو اس کا دل مجھے نہیں بھولتا۔ ایسے لوگ جب بھی بولیں گے تو ان کے کلام انبیاء و صلحاء جیسے کلام ہوں گے۔ یہ ایسے لوگ ہوجائیں گے کہ جب میں اہلِ زمین پر عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہوں تو ان کی وجہ سے ٹال دیتا ہوں۔
امام جلال الدین سیوطی نے الجامع الکبیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ حضور علیہ السلام کی امت میں اچھے لوگ وہ ہیں کہ جب ان پر پریشانی کا وقت آتا ہے تو وہ قابلِ مذمت کام نہیں کرتے۔ عرض کیا گیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا کہ وہ عاشق الہٰی ہوتے ہیں، عشق ان کے کردار کی حفاظت کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ عشق؛ آداب، اقوال اور طبیعت و مزاج کی اصلاح کرتا ہے۔ عشقِ الہٰی کی وجہ سے بندہ رذائلِ اخلاق سے پاک ہوجاتا ہے۔
علامہ ابن قیم عشق کے باب میں روضۃ المحبین میں بیان کرتے ہیں کہ عشق روحوں کے لیے غذا کی مانند ہے۔ عشق الہٰی سوچ و فکر کو صاف کردیتا ہے۔ عشق عقل کو تہذیب دیتا ہے۔ بندہ بد تہذیب و بدتمیز نہیں رہتا۔ عشق بزدل کو بہادر بنادیتا ہے۔ عشق بخیل کو سخی بنادیتا ہے۔ عاشق کمزور کو عزم و ہمت اور طاقت دیتا ہے۔ عشق؛ ادب سکھاتا ہے۔ ادب ایک رویہ ہے۔ صرف ہاتھ چومنے کا نام ادب نہیں ہے۔ عشق؛ انس و رواحت دیتا ہے۔ عشق متواضع بناتا ہے۔ عشق؛ اخلاق اچھا بناتا ہے۔
ہم کل دنیا دار ہیں مگر دیکھنے میں دیندار ہیں۔ اس دعویٰ عشقِ الہٰی کا کوئی فائدہ نہیں جب تک عشقِ الہٰی بندے کے اخلاق اور رویہ و مزاج میں نظر نہ آئے۔ یاد رکھیں کہ عشق ناموں اور عنوانات سے نہیں ملتا اور نہ ہی عشق پر کسی مسلک کی اجارہ داری ہے۔
حضرت میمونہ السودا ایک عارفہ کاملہ تھیں، انھوں نے ایک دفعہ حضرت عبدالواحد بن زید کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کو نعمتیں، عہدے، منصب، مال، دوستیاں رشتہ داریاں الغرض ہر نعمت دیتا ہے۔ پس جو چیز اللہ بندے کو دنیا میں دے تو وہ آزمائش کے لیے دیتا ہے۔ نعمت دینے کے بعد اللہ دیکھتا ہے کہ اگر وہ بندہ اس چیز کی مزید طلب میں لگ جائے، اس چیز سے محبت کرنے لگ جائے، اس چیز کا حریص ہوجائے اور وہ چیز اس کے دل میں سرایت کر جائے تو اللہ تعالی اس بندے کو اپنی خلوت کی لذت سے محروم کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے تو دنیا کی چیز تمہیں آزمائش کے لیے دی تھی مگر تم اس کی طلب میں لگ گئے۔ اب جب میری خلوت میں بیٹھو گے، نماز پڑھو گے، تلاوت کرو گے، رکوع و سجدہ کرو گے، ذکر کرو گے تو میری خلوت کی لذت تمہیں نصیب نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ ہم اپنی خلوت کی لذت اور حلاوت ان لوگوں کو نہیں دیتے جو دنیا کی چیزوں کی طلب کے پیچھے مارے مارے پھریں۔ ان سے ہم اپنی خلوت کی حلاوت واپس لے لیتے ہیں اور اس کی جگہ اس کے دل میں وحشت بٹھا دیتے ہیں۔ پھر وہ بڑی مشکل سے نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، عبادت کرتا ہے۔ وہ عبادت کے ذریعے وقت گزاری کرتا ہے مگر کیف و سرور اور لذت و حلاوت اسے نصیب نہیں ہوتی۔ اس کے دل پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
عشقِ الہٰی اور توحید کی ان وادیوں میں سفر کروانے کا مقصود یہ ہے کہ ان اہل اللہ کے احوال و کیفیات سے ادب بھی سیکھیں، احوال کی اصلاح بھی سیکھیں، اخلاق سیکھیں، بول چال سیکھیں، اٹھنا بیٹھنا سیکھیں۔ حتی کہ ہماری پوری زندگی کا رنگ بدل جائے۔ اللہ والوں کی باتیں سنیں مگر ادب نہ آیا تو کیا حاصل؟ اللہ والوں کے تذکرے سنیں مگر دل پسیج نہ جائے اور نرم نہ ہو تو کیا پایا؟ اللہ والوں کی مجلس میں بیٹھے، شب بھر اللہ والوں کا ذکر سنا، ان کا عشق الٰہی کی آگ میں جلنا سنا، ان کے احوال اور کیفیات سنیں، مگر اپنی زندگی کے آداب نہ بدلے، اپنی بول چال کے طریقے نہ بدلے، اپنا رویہ اور مزاج نہ بدلا، آپس کے رویے نہ سنورے تو کیا سنا؟ سب کچھ برباد کیا۔ آپس کے رویے و اخلاق نہ بدلے تو کیا سنا، جوانوں کے احوال نہ بدلے، رونا نصیب نہ ہوا، جوانی کو طہارت نہ ملی، زبان کو پیار نہ ملا، تو کیا سیکھا؟ پس جب تک ایک دوسرے کے بارے میں سوچ نہیں بدلتی، بدنیتی نہیں نکلتی، غیبت نہیں نکلتی، شک و شبہ نہیں نکلتا، بدگمانی نہیں نکلتی، ایک دوسرے کی کھوج لگانا نہیں نکلتا، حسد کرنا نہیں نکلتا، چغلی نہیں نکلتی، زبان پاک نہیں ہوتی تو ان تذکروں کو سننے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ نفسانی خواہشات کے غلبے میں اپنا دین اور ایمان داؤ پر مت لگائیں۔ اللہ کے بندے وہی ہیں جو دنیا کے فانی عیش و آرام کو چھوڑ کر یادِ الٰہی میں سکون پاتے ہیں۔ جو لوگ اپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی بنا لیتے ہیں، وہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے۔ پس دنیا کی عارضی لذتوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے نقشِ قدم پر چلیں، کیونکہ یہی نجات اور فلاح کا راستہ ہے۔
3۔ موضوع: عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی میں فرق
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف کی تیسری نشست سے ’’عشقِ حقیقی اورعشقِ مجازی میں فرق‘‘کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسان؛ انس سے بھی ہے اور نسیان سے بھی ہے۔ اگر انسان ’’انس‘‘ سے ہے، جس کا مطلب محبت ہے تو اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جو انسان محبت و شفقت کے جذبات نہیں رکھتا، وہ انسان تو کیا، حیوان بھی نہیں ہے کیونکہ حیوانوں میں بھی محبت کے جذبات ہوتے ہیں۔ انسان میں جب اُنس پیدا ہوتا ہے تو یہ انس بڑھتے بڑھتے الفت، محبت اور مؤدت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پھر یہ محبت عشق تک جاپہنچتی ہے۔ عشق محبت کا آخری درجہ ہے۔ اس نقطہ کمال تک پہنچنے کے بعد ہر وہ چیز جو اس کے محبوب سے متناقض ہے، محبوب کی غیر ہے، محبوب سے دور لے جانے والی ہے اور اس کے محبوب کو اچھی نہیں لگتی، بندہ اس کو بھول جاتا ہے۔ محبوب کے غیر کو بھول جاتا ہے اور جو چیز محبوب کو محبوب ہے اور محبوب کو اچھی لگتی ہے، اسے بھی محبوب و پسندیدہ ہوجاتی ہے۔ پس جیسے وہ محبوب کو یاد رکھتا ہے، ویسے محبوب کی چیزوں کو یاد رکھتا ہے۔ محبوب کے اوامر اور احکام کو یاد رکھتا ہے، محبوب جس جس شے کو چاہتا ہے، اس کو یاد رکھتا ہے اور محبوب جس جس شے سے نفرت کرتا ہے، اس کو بھول جاتا ہے۔ گویا انسان کے اندر ایک قوتِ نسیان ہے کہ وہ محبوب کے غیر کو بھول جاتا ہے۔
جس کی محبت نے اپنا رخ محبوبِ حقیقی کی طرف کر لیا تو اسے محبوب حقیقی سے وہ تعلق اور محبت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بڑھتے بڑھتے عشق کے اس مقام پر جا پہنچتی ہے کہ ماسواء اللہ کو بھول جاتا ہے۔ جس کو مال اور دنیا سے محبت پیدا ہوگئی، اس میں بھی محبت اسی طرح شدید ہو جاتی ہے جیسے ہم اس وقت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حرص و ہوا اور دنیا کی محبت نیکی کو بھلا دیتی ہے، حلال و حرام میں فرق کو بھلا دیتی ہے، احکام شریعت کو بھلا دیتی ہے، عدل و انصاف کو بھلا دیتی ہے، رحم و کرم کو بھلا دیتی ہے اور انسانیت کو بھلا دیتی ہے۔
محبت جیسی بھی ہو، جس جگہ بھی ہو، جس نوعیت کی بھی ہو، اس کے اوصاف، تاثیرات اثرات ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا کی کسی ہستی سے محبت ہے تو اسے محبتِ مجازی کہتے ہیں اور اگر جنت اور حسنِ آخرت کی محبت ہے تو اس کو محبتِ اخروی کہتے ہیں۔ مگر ان سب سے بلند محبت؛ محبتِ حقیقی ہے اور وہ حق تعالی کی محبت ہے۔
ہمارا نفس ہمیں برائی کی طرف دھکیلتا ہے۔ جب محبت سے جذبۂ نفس نکل جائے تو وہ عشقِ حقیقی بن جاتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے اور اسے اللہ کے ذکر و عبادت میں سرور حاصل ہوتا ہے۔ تمام محبتوں سے بڑھ کر محبت اللہ تعالی کی محبت ہے۔ محبت سے خالی دل مردہ ہوتے ہیں۔ جس دل میں دنیا کی محبت اور جاہ و حشم کی طمع ہوگی، اس دل میں اللہ کی محبت داخل نہیں ہوتی۔ دل میں محبت و شفقت کے جذبات جتنے کم ہونگے ایمان کا درجہ اتنا ہی کم تر ہوگا۔ محبت ایمان کی حیات ہے۔ محبت کی کیفیات سے محروم شخص زندہ ہوتے ہوئے مردہ ہیں۔ مالکِ حقیقی سے محبت دل کو سکون دیتی ہے جبکہ دنیا کی محبتیں اضطراب اور جنون پیدا کرتی ہیں۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کے برتن کو دنیا داری کی جعلی محبتوں سے خالی کرکے اللہ کی حقیقی محبت کے جام سے بھر لیں۔ اس لیے کہ یہ محبت دائمی ہے، اسے زوال نہیں۔ مجنوں سے محبت و عشق کرنا سیکھیں کہ جس عشق میں صِدق اور خلوص آجائے تو سوائے محبوب کے اس کا کوئی اور مطلوب نہیں رہتا۔ مجنوں کی محبت میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ وہ ہوائے نفس سے بھی پاک ہوگیا۔ عشق کی آگ نے اس کے نفس، نفسانیت اور نفسیت کو مٹا دیا تھا۔ محبت زاویۂ نگاہ کو بدل دیتی ہے۔ اللہ سے محبت کا دعویٰ ہو اور سجدوں میں لذت نہ ملے تو جان لیں کہ محبت خالص نہیں۔ محبت کا دعویٰ ہو مگر اللہ کے ذکر سے طراوت نہ ملے تو یہ جھوٹ ہے۔ دین کے علم اور عشق الٰہی سے انسان میں خوش اخلاقی، عاجزی و انکساری اور تہذیب و شائستگی پیدا ہوتی ہے۔ عشق الٰہی والا بندہ کبھی کسی کے خلاف کفر کے فتوے جاری نہیں کرتا۔ دین کا پختہ علم رکھنے والے اللہ کے بندوں کی زبانیں گالی، کفر کے فتوؤں اور الزام تراشی سے پاک ہوتی ہیں۔ نوجوان ایسی صحبتوں سے گریز کریں جہاں طعن و تشنیع اور فرقہ واریت ہو۔ نوجوان ایسی صحبت میں نہ جائیں جہاں لوگ عالم ہونے کا دعویٰ کریں مگر ان کی زبانیں ہر وقت زہر اگلیں اور وہ دوسروں کو حقیر اور کم تر جانیں۔ ایسے لوگوں کا علم اگر انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا تو دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائے گا۔
جسے دین کی حقیقی محبت اور عشقِ الٰہی کی لذت نصیب ہو جائے اس کی سوچ، فکر اور زبان آلائشوں سے پاک صاف ہو جاتی ہے، اس کا کردار اجلا ہوجاتا ہے اور اس کے من سے دنیا کی حرص اور نفس کا سارا میل کچیل دور ہوجاتا ہے۔ عشق وہ سراپا عجزوانکسار اور مہرووفا ہوتے ہیں اور ان کے وجود انسانیت کیلئے باعثِ خیر ہوتے ہیں۔ اگر کسی میں یہ اوصاف نظر نہ آئیں تو وہ خواہ علم اور حلم کے دعوے کرے، نوجوان اس کی مجلس سے دور رہیں۔
4۔ موضوع:معانیِ محبت اور مراتبِ عشق
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف کی چوتھی نشست میں اللہ رب العزت کے فرمان؛
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ.
(آل عمران، 3 : 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔ ‘‘
کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس آیت میں دو چیزیں قابلِ توجہ ہیں۔ اس آیت میں اتباع کا ذکر درمیان میں ہے اور محبت کا ذکر آیت کی ابتداء میں بھی ہے اور انتہا میں بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ سفرِ ایمان کی ابتدا بھی محبت ہے اور انتہا بھی محبت ہے۔ جو لوگ محبت کی برکات و اثرات اور تجربات سے محروم ہیں یا الگ سے محبت کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور اسے صرف عملِ صالح کی شکل کے ساتھ تعبیر کردیتے ہیں، گویا وہ سفرِ ایمان کی ابتدا سے بھی محروم اور انتہا و کمال سے بھی محروم ہیں۔ اللہ کی محبت تمام مقامات کی آخری منزل اور سفرِ ایمان میں سے آخری درجہ ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ جو کچھ ایمان کے باب میں محبت کے بعد مومن کو نصیب ہوتا ہے وہ صرف اور صرف محبت کا پھل اور اس کے نتائج اور توابع میں سے ہے۔ مرتبہ شوق، مرتبہ انس، مرتبہ رضا، مرتبہ توکل، مرتبہ تفویض اور ان جیسے دیگر مراتب سب محبت سے پیدا ہوتےہیں۔ اگر کوئی چیز محبت سے پہلے آتی ہے تو وہ محبت کے مقدمات، شرائط اور اس کے تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر ان کو پورا کرکے آگے پہنچیں تو محبت نصیب ہوتی ہے۔
مقدماتِ محبت میں؛ توبہ اولین ہے۔ حضرت بشر حافی کو توبہ نصیب ہوئی اور محبت کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ کسی نے پوچھا کہ ننگے پاؤں کیوں چلتے ہیں۔ فرمایا کہ جب میری پہلی ملاقات اللہ سے ہوئی تو میں ننگے پاؤں تھا۔ سو میں یہ چاہتا ہوں کہ اس لمحہ کی یاد زندگی بھر قائم رہے۔ اسی طرح صبر بھی مقدماتِ محبت میں سے ہے۔ زہد بھی مقدماتِ محبت میں سے ہے۔ ایمان کے باب میں جملہ فضائل و مراتب محبت کے مقدمات اور تقاضوں میں سے ہیں یا محبت کے بعد اس کی برکات، اثرات اورنتائج ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ اگر ایمان نہ ہو تو کسی درجہ کو فضیلت حاصل نہیں مگر محبت کا عالم یہ ہے کہ محبت؛ ایمان کو کمال دیتی ہے۔ ایمان تمام فضائل کو کمال دیتا ہے جبکہ محبت ایمان کو کمال دیتی ہے۔ ایمان کا محبت کے بغیر وجود اور کمال نہیں ہے۔ گویا جو لوگ محبت کا انکار کرتے ہیں، کیفیات، احوال و مقامات، برکات و کرامات کا انکار کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انس، شوقِ الہٰی اور مناجاتِ الہٰی کے بھی منکر ہیں، ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ لغوی اعتبار سے محبت کے معنیٰ درج ذیل ہیں:
1۔ "حب" کا ایک معنی خالص ہونا ہے۔ گویا محبت وہ جذبہ ہے جس میں میل اور ملاوٹ نہ رہے۔ یعنی جذبے میں خالصیت کا آنا محبت ہے۔
2۔ ’’حب‘‘، حباب سے ماخوذ ہے۔ حباب کسی چیز کی غایت اور آخری حد کو کہتے ہیں۔ محبت یہ ہے کہ جس سے تعلق ہے، اس جذبہ میں خالصیت اپنی آخری حد کو پہنچ جائے۔ غایت کا ایک معنی مقصد ہے۔ گویا محبت ایک مقصد متعین کرتی ہے۔
3۔ ’’حب‘‘ کا ایک معنیٰ لزوم و ثبات ہے۔ یعنی محبت تعلق کو جمادیتی ہے اور کسی کو پھسلنے نہیں دیتی۔
4۔ ’’ حب‘‘ کا معنی باندھنا ہے۔ جس سے محبت ہوجائے، اس کے ساتھ باندھ دیتی ہے۔ گردو غبار دور کرتی ہے تاکہ صفائی آئے اور اغیار سے ہٹادیتی ہے تاکہ استقامت آئے۔
5۔ ’’حب‘‘، قلق سے ماخوذ ہے۔ محبت ایسا جذبہ ہے جو انسان کو مضطرب کردیتا ہے۔ یعنی عاشق وہ بندہ جو محبوب کے لیے مضطرب رہے۔
6۔ ’’حب‘‘ کا معنیٰ حفط و امساک ہے۔ جو چیز ہماری حفاظت کرے، اسے محبت کہتے ہیں یعنی یہ بے وفائی اور گناہ و نافرمانی سے بندے کی حفاظت کرتی ہے۔
7۔ ’’حب‘‘ کا معنی دانہ اور بیج ہے۔ محبت وہ بیج ہے جس سے ایمان، تقویٰ اور صبرو شکر اور خیر کے سارے پودے اُگتے ہیں۔
8۔ ’’حب‘‘ کا معنیٰ خشب ہے۔ بچھنے والی گھاس۔ جسے محبت ہوجائے وہ محبوب کے لیے بچھ جاتا ہے۔ عاشق روندا جانے والا ہوتا ہے، محبوب روند دے، پا مال کردے، وہ محبوب کے سامنے بچھا رہتا ہے۔ محبت و عشق میں بندہ مقام رضا پر ہوتا ہے۔
9۔ ’’حب‘‘ کا معنی العلو والاظہار ہے۔ محبت کسی غیر کو قریب نہیں آنے دیتی۔ اس کا اپنا ہیجان اتنا ہوتا ہے کہ جو چیز اس کے لائق نہیں، اس کو اٹھا کر باہر پھینکتی ہے۔ یہ اتنی بلند ہوتی ہے کہ اس میں گھٹیا چیز کی گنجائش نہیں رہتی۔ جو بندہ محبت کی مذکورہ دس شرائط پوری کرلے تو پھر یہ محبت عشق کے مقام پر فائز ہوتی ہے۔
حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ محبت وہ جذبہ جس میں انسان ہر وقت اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں یہ خدمت ختم نہ ہوجائے۔ یعنی محبت کرنے والا نڈر نہیں ہوتا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں دین الہٰی کی خدمت کا جتنا زیادہ موقع ملتا ہے، ہم اتنے ہی نڈر اور متکبر ہوجاتے ہیں۔ حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ محبت اس جذبے کا نام ہے کہ جس میں آپ کو اپنی طرف سے بہت کچھ کرنا، ذرہ برابر نظر آئے اور محبوب کا تھوڑا احسان، زیادہ نظر آئے۔ جس کا زاویہ نگاہ یہ بن جائے، وہ سمجھ جائے کہ اسے محبت مل گئی۔ حضرت بشر الحافی فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو بندے کو محبوب ہے، اسے محبوب پر قربان کردینا محبت ہے۔ حضرت حارث المحاسبی فرماتے ہیں کہ محبوب جو چاہے، اس کی ہر چاہت کے سامنے دل بچھ جائے تو یہ محبت ہے۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ محبوب کی صفات محب کے دل میں داخل ہوجائیں اور محب کی اپنی صفات اس سے نکل جائیں تو یہ محبت ہے۔ یحیی بن معین رازی فرماتے ہیں کہ محبت ہے یا نہیں اس کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر محبوب کچھ عطا کرےتو اس کی عطا سے محبت میں اضافہ نہ ہواور اگر محبوب کچھ واپس لے لے تو محبت کم نہ ہو۔ یعنی جفا سے محبت کم نہ ہو اور عطا سے زیادہ نہ ہو۔ جبکہ ہماری محبت طمع ہے۔ عاشق کو جفا اور عطا سے غرض نہیں ہوتی۔ بندہ اپنا حصہ ہی اللہ کی بارگاہ سے بھول جائے۔ جو اپنا استحقاق دیکھتا ہے، اسے محبت کی ہوا نہیں لگی۔
5۔ موضوع: عشق و محبتِ الہٰی کے احوال۔ قرآن مجید، سنتِ نبوی اور آثار سلف صالحین کی روشنی میں
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف کی پانچویں نشست میں سورۃالتوبہ کی آیت:24 کو موضوع کلام بنایا جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ ’’ (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ ‘‘
اللہ، رسول اور جہاد کی محبت یہ نہیں کہ دنیا کے تمام رشتوں سے قطع تعلقی کرلی جائے اور کسی سے محبت نہ کی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ، رسول اور جہاد کی محبت تمام محبتوں پر غالب ہونی چاہیے۔ یہ معیارِ ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد، ماں باپ، بیوی، گھر اور مال و دولت کی محبت سے منع نہیں کیا، مگر ان سب محبتوں میں ایک حد مقرر کی ہے۔ ان سب کے اوپر اللہ کی محبت کو فوقیت دینا لازم ہے، کیونکہ جب اللہ کی محبت پر باقی محبتیں غالب آ جائیں تو نظامِ زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے اور ایسے میں اللہ کی نافرمانی پر اس کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ اس وقت اللہ کے عذاب کو پورا عالمِ اسلام دیکھ رہا ہے، حکمران موجود ہیں، 56 اسلامی ممالک موجود ہیں مگر صورتِ حال ہم سب کے سامنے ہے۔ یاد رکھیں کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اس کے بعد کوئی چیز سلامت نہیں رہتی، لوگ غلاموں سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں۔
ہم ساری دنیا کے احوال تو نہیں بدل سکتے مگر اپنے من کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ انسان کے اندر بھی ایک دنیا بستی ہے، جس میں انقلاب لانا مکمل طور پر اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جب انسان اپنی خواہشوں، اپنے دل اور اپنے نفس کے اندر تبدیلی پیدا کرتا ہے تو وہ حقیقی انقلاب کا سفر طے کرتا ہے۔ باہر کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے سے پہلے اپنی ذات میں تبدیلی لانا ضروری ہے اور اس انقلاب کی بنیاد عشقِ الٰہی ہے، جو انسان کو خود شناسی سے خدا شناسی کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
اللہ کی راہ میں جو بھی کام کیا جاتا ہے، خواہ وہ اللہ کی رضا کو پانے کے لیے ہو یا اللہ کے دین کا پیغام پہنچانے کے لیے، وہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اصل مقصد اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت اور اللہ کے احکامات کو دنیا تک پہنچانا ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جسے اللہ اور اس کا رسولﷺ ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوجائیں۔ اس پیمانہ میں آج ہمیں اپنے آپ کو تولنا ہوگا۔ ایک پلڑا اللہ، رسول اور دین کی محبت کا ہے۔ دوسرا پلڑا دنیا کی محبت کا ہے۔ پہلے پلڑے کو بھاری کریں گے تب ایمان کا ذائقہ نصیب ہوگا۔ ہمارا پلڑا بھاری ہونا تو دور کی بات، برابر بھی نہیں ہے بلکہ بہت ہی ہلکا ہے۔ ایمان کا ذائقہ چکھنے کے لیے بھی اس پلڑے کا بھاری ہونا ضروری ہے۔ اگر ایمان سے پوری طرح لطف اندوز ہونا ہے تو پھر پوری دنیا سے بے نیاز ہوناہوگا۔
حضور نبی اکرمﷺ اللہ کی محبت اپنی دعا میں طلب کرتے اور یوں دعا فرماتے کہ ’’اے اللہ مجھے اپنی محبت عطا کردے۔ ‘‘ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضورﷺ پہلے ہی اللہ سے محبت میں کمال پر ہیں مگر قربِ الہٰی کے مقام پر پہنچنے کے باوجود اللہ سے اس کی محبت طلب کررہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس سے اس کا عشق طلب کررہے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ’’ہر اس شخص کی محبت بھی دے جس سے محبت کرنا مجھے تیری بارگاہ میں نفع دے۔ ‘‘گویا حضورﷺ نے پہلے اللہ کی محبت مانگی اور پھر اللہ والوں کی محبت مانگی۔ اس نص سے اللہ کی محبت اور اہل اللہ سے محبت ثابت ہورہی ہے۔ پھر عرض کیا کہ ’’اللہ ان کی محبت بھی عطا کر جو تجھ سے محبت کرتے ہیں اور ہر اس عمل کی محبت عطا کر جو تیری محبت کے قریب کردے۔ ‘‘ اس پوری دعا کا مرکز اللہ کی محبت ہے۔
یاد رکھیں کہ محبت دعوے، نعروں اور لفظوں کا نام نہیں بلکہ حدیث مبارک کے مطابق جب محبت ہوجائے تو بندے کو ایسی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جیسی گرمیوں میں ٹھنڈا پانی پینے سے محسوس ہوتی ہے۔ ایسی محبت سوچ، عمل، زاویہ نگاہ، سیرت، برتاؤ میں محسوس ہونی چاہیے۔ دکھلاوے کی محبت نہ ہو۔
حضرت ابو حذیفہؓ نے اپنے آزاد کردہ غلام سالم سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا۔ لوگوں نے طعنہ زنی کی کہ قریش خاندان کی ایک باعزت خاتون کو غلام کے عقد میں دے دیا۔ حضرت ابو حذیفہؓ نے جواب دیا کہ مجھے کچھ اور معلوم نہیں، صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ سالم اللہ کا بڑا عاشق ہے۔ جس نے اللہ کے سچے عاشق کو دیکھنا ہو، وہ سالم کو دیکھ لے۔
یہ محبت ذاتی ہے۔ اس میں بندہ طمع، احسانات، انعامات کی وجہ سے محبت نہیں کرتا بلکہ اللہ سے اللہ کی ذات کے باعث محبت کرتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ عاشق کون ہے؟ فرمایا کہ عاشق دنیا و آخرت سے محبت نہیں کرتا بلکہ وہ اللہ سے صرف اللہ کو مانگتا ہے۔ آج ہم اللہ کو بھول چکے ہیں، اگر کل قیامت کے دن اللہ نے ہمیں بھلا دیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ کیا ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کے عشق کی اس طرح کی حرارت محسوس کرتے ہیں؟ اگر نہیں، تو ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہمارا دل اللہ کے ذکر اور اس کی محبت سے سرشار ہو۔ جب بندہ اللہ کے لیے اپنی خواہشات کو کچل دیتا ہے اور اپنی ذات کو ذاتِ حق کے سامنے فنا کر دیتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ محبت محض زبانی دعوے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل میں محسوس ہونی چاہیے اور زاویۂ عمل، کردار اور افکار میں جھلکنی چاہیے۔ محبت صرف دکھاوے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اثر زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہونا چاہیے۔
6۔ موضوع: عشق کے صحراء میں چند عارفوں سے ملاقات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف کی چھٹی نشست میں ’’عشق کے صحراء میں چند عارفوں سے ملاقات‘‘ کے موضوع پر خطاب ارشاد فرماتے ہوئے محبت و عشق کے حوالے سے چند اہل اللہ کے احوال اور اقوال کو بیان فرمایا:
یحیٰ بن معاذ رازی فرماتے ہیں کہ محبت اس جذبہ و حال کو کہتے ہیں کہ اگر اس کے ساتھ حسن سلوک کرو تو وہ محبت میں بڑھے نہیں اور اگر اس کی منشاء کے خلاف کرو، نظر انداز کردوتو گھٹے نہیں۔ ہمارا حال اس کے برعکس ہے۔ بھلائی کرو تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ میرا حق ہے۔ ایک اور مقام پر یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں کہ اللہ کی عفو (معاف کرنا) کی شان یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ معافی کا سلوک کردے تو اس کے سارے گناہ مٹادیتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر وہ کسی کےساتھ راضی ہوجائے تو پھر عالم کیا ہوگا۔ وہ جس سے راضی ہوجائے تو اس کے دل کو بے نیاز کردیتا ہے۔
محمد بن الفضل فرماتے ہیں کہ محبت کی چار علامات ہیں:1۔ اللہ کے ذکر سے فرحت ہو اور فرحت قائم رہے یعنی جگنو کی طرح نہ ہو۔ 2۔ انس پیدا ہوجاتا ہے، اس انسیت میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ محبت کی راہ میں جوکام رکاوٹ بنتے ہیں ان کو ترک کرنا۔ 4۔ ہر چیز پر محبوب کو ترجیح دینا۔
حضرت حرم بن حبان فرماتے ہیں کہ مومن وہ ہے کہ جب وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے تو وہ اس سے محبت کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ رب کی پہچان عقل کو نہیں بلکہ دل کو ہوتی ہے۔ جب بندہ اس سے محبت کرتا ہے تو اس کا دھیان ہمہ وقت ادھر ہی رہتا ہے۔
حضرت یوسف بن حسین فرماتے ہیں کہ جس کو جتنا جھکا ہوا اور نرم پائیں تو جان لیں کہ اس میں اللہ کی محبت ہے۔ اللہ کی محبت بندے کی اکڑ ختم کردیتی ہے۔ جبکہ دنیا کی محبت انسان میں تواضع کو روکتی ہے۔ مزاج و رویہ کی سختی محبت کی نفی ہے۔
حضرت رابعہ بصری کی ایک خادمہ عبدہ بنت ابی شوال ہیں۔ ایک دن آپ نے فرمایا کہ کوئی ہے جو ہمیں محبوب سے ملاقات کی راہ دکھائے؟ خادمہ نے کہا کہ ہمارا محبوب ہمارے پاس ہے مگر دنیا نے ہمارے اور اس کے درمیان حجاب و پردہ ڈال رکھا ہے۔ حضرت رابعہ بصری ایک مقام پر فرماتی ہیں کہ اس دنیا میں میری مراد اور میری ہمت صرف تیری یاد ہے اور آخرت میں یہ حصہ مانگتی ہوں کہ ہر وقت تیرا دیدار رہے۔
جو لوگ عشقِ الہٰی سے واصل ہوگئے ان کے اخلاق سنور گئے۔ تصوف، معرفت اور فقیری کا راز اخلاق کی عمدگی میں ہے۔ افسوس کہ ہم نے بدخلقی کو جلال اور رسم و رواج کو تصوف بنادیا ہے۔ ہر کوئی دیدارِ الہٰی و زیارتِ مصطفیﷺ کے لیے وظائف پوچھتا ہے مگر اخلاق کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ تمام مصادر تصوف میں آج کے مروجہ تصوف اور پیری مریدی جو نذر و نیاز اور صرف وظیفہ پر مبنی ہے اور بیڑے پار کروائے جاتے ہیں، ان کا کوئی تصور نہیں۔ وظیفوں کا کوئی تصوف ہزار سال کی تاریخ اسلام میں نہیں تھا۔ ہم گھر بنانے اور کاروبار کرنے کے لیے محنت کرتے، عمریں گزر جاتی ہیں مگر جنت لینے کے لیے ایک ہی رات میں کسی ایک ہی وظیفہ سے بیڑا پار کروانا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیں ٹیکنالوجی اور ترقی آگے جانے سے ملتی ہے مگر اللہ کی معرفت پچھلے زمانے میں جانے سے ملتی ہے۔
عاشق وہ لوگ ہیں جن کے دل دنیا سے کٹ گئے اور وہ اللہ سے واصل ہوگئے اور ان کے اخلاق پاکیزہ اور عمدہ ہوگئے۔ منہاج القرآن کے وابستگان پورا زور اپنے اخلاق پر دیں اور اخلاق درست کرنے کی سب سے بہترین جگہ آپ کا گھر ہے۔ جتنا آپ کا اخلاق اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور عزیز و اقارب سے اچھا ہوگا، معاشرے کو اتنی ہی خیر ملے گی۔ اخلاق درست کرنے کی بہترین فیکٹری بیوی بچے، بہن بھائی اور ہمسائے ہیں۔ جن کے ساتھ ہمارا چوبیس گھنٹے کا واسطہ رہتا ہے۔ خوشی کے حالات میں اخلاق کا پتہ نہیں چلتا بلکہ ناراضگی اور نظڑ انداز کرنے کے ماحول میں اخلاق کا پتہ چلتا ہے۔ اولیاء اللہ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کو اللہ سے محبت ہوجائے تو اسے تھوڑی سی بھی روزی مل جائے، اس پر بھی خوش رہتا ہے۔ سچائی کا لباس زیب تن کرلیتا ہے۔ وہ اللہ کی نافرمانی سے کنارہ کش ہوجاتا ہے۔ وہ باقی کو فانی پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ اللہ کی قربت کے لیے مسابقت کرتا ہے اورنیکی کے کام کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ اللہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے تو وہ اس آزمائش پر صبر کرتا ہے۔ نتیجتاً اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔
اگر اللہ سے محبت اور عشق کریں تو اس کے کیا کیا صلے ملتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک صحابی کو ایک محاذ پر جماعت کا امام بناکر بھیجا۔ وہ صحابی جب بھی نماز کی امامت کرواتے تو ہر رکعت میں تلاوت کے وقت دوسری آیات پڑھنے کے بعد سورۃ الاخلاص ضرور پڑھتے۔ واپس پلٹے تو صحابہ کرام نے حضور کی بارگاہ میں اس صحابی کے اس کے معمول کا ذکر کیا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جاؤ اور اس سے پوچھو کہ کس وجہ سے وہ یہ کام کرتا تھا؟ جب صحابہ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس سورت میں میرے پیارے رب کی صفات اور کمالات بیان ہوئے ہیں اور مجھے اپنے محبوبِ حقیقی کی شانوں اور صفات سے محبت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضورﷺ کو اس کے جواب کی اطلاع کی تو حضور علیہ السلام نے انہی صحابہ کو فوری بھیجا اور کہا ابھی جاؤ اور اسے بتا دو کہ اللہ بھی تم سے اسی طرح محبت کرتا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر اس صحابی کے منہ سے یہ جملہ نکل جاتا کہ مجھے اللہ کی ذات سے پیار ہے تو اندازہ کریں کہ اس کے ساتھ اللہ کی محبت کا عالم کیا ہوتا۔
ان احوال و واقعات کو اپنے من میں اتار لیں اور اپنے اندر کے حالات کو بدلنا شروع کردیں۔ دنیا، مادیت، مال و دولت اور حالات ہمیں بہت دور لے گئے ہیں۔ ان حالات نے ہمیں اللہ سے بیگانہ کر دیا۔ نہ وہ لذتیں رہیں، نہ وہ حلاوتیں رہیں، نہ وہ عبادتیں رہیں، نہ وہ طاعتیں رہیں، نہ اللہ سے وہ تعلق رہے اور نہ مناجات رہی۔ ہم غیر سے بن گئے ہیں، جیسے کسی نے پیدا کر دیا اور ہم آگئے۔ دنیا کمانے کی حرص اور نفس کی خواہشات کی پیروی کے سبب ہماری زندگی حیوانوں کی طرح ہوگئی ہے۔ شکل انسانوں کی ہے مگر ہم حیوانوں کی طرح جی رہے ہیں۔ ہم اللہ سے بیگانے ہوگئے۔ کیا ہم اللہ کی محبت کی حرارت اس کے عشق کی تپش محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ وہ ہم سے ناراض ہوگا، ہم اس حال میں اس کو کیا چہرہ دکھائیں گے۔ جب ملاقات کا وقت آئے گا تو اس سے کیسے ملیں گے، اگر اس نے فرشتوں سے کہہ دیا کہ اسے دور کر دو، یہ مجھے زندگی میں پہچانتا نہیں تھا، یہ میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا، اس نے مجھے بھلا دیا تھا، اس لیے آج ہم اس کو بھلا دیتے ہیں۔ اس لیے اس بھول سے نکل آئیں اور اللہ کی یاد اور اس کی محبت کی طرف آ جائیں۔
7۔ عالمی روحانی اجتماع
شہرِ اعتکاف کی ساتویں شب لیلۃ القدر کی مناسبت سے تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام عالمی روحانی اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں معتکفین کے علاوہ ہزاروں افراد بطورِ خاص شریک ہوئے۔ بعد از نمازِ تراویح صلوٰۃ التسبیح ادا کی گئی اور پھر عظیم الشان محفل قرأت و نعت منعقد ہوئی۔ جس میں نامور قراء اور ثنا خوانانِ مصطفی ﷺ نے تلاوت قرآن اور نعت رسول مقبول ﷺ کی سعادت حاصل کی۔
عالمی روحانی اجتماع کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی نئی آنے والی درج ذیل کتب کا تعارف ڈائریکٹر فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ محترم ڈاکٹر محمد فاروق رانا نے پیش کیا:
1۔ The Manifest Quran (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
(یہ انگلش ترجمہ قرآن یورپ کے بعد اب پاکستان میں بھی شائع ہو گیا ہے)
2۔ الروض الباسم من خلق النبی الخاتم (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
(4 جلدو ں پر مشتمل حضور نبی اکرم ﷺ کے حسین اخلاق کا تذکرہ)
3۔ DIVINE ONENESS (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
(4 جلدو ںپر مشتمل عقیدۂ توحید، شرک اور اس کی تمام جزئیات مطالعہ)
4۔ THE PEACEMAKER MUHAMMAD (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
(2 جلدوں پر مشتمل آپ ﷺ کی شانِ امن پسندی کا تذکرہ اور اس ضمن میں مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات)
5۔ QURAN ON MANAGMENT (مینجمنٹ سائنسز اور قرآنی تعلیمات) (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
6۔ THE DIVINE ALCHEMY OF LEADERSHIP (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
(لیڈر شپ اور مینجمنٹ پر 100 احادیث اور شخصیت سازی کا مکمل لائحہ عمل)
7۔ LIFE AND LEADERSHIP LESSONS FROM SURA KAHF
(سورۃ الکہف میں بیان کردہ واقعات اور نظائر کا لیڈر شپ اور مینجمنٹ کے تناظر میں مطالعہ و تجزیہ) (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
8۔ آدابِ اختلاف (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
9۔ آدابِ مکالمہ (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
10۔ مسلم مشترکہ وقف (IMF کا اسلامی متبادل اور سودی قرضوں سے نجات کا لائحہ عمل) (پروفیسرڈاکٹر حسین محی الدین قادری)
11۔ فہم القرآن (قرآن مجید کے اردو و انگریزی ترجمہ کا سات مختلف اسالیب میں لفظی و با محاورہ ترجمہ اور صرفی و نحوی ترکیب )
موضوع: عاشقوں کی جنت۔ دیدارِ الہٰی
اس عالمی روحانی اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’عاشقوں کی جنت۔ دیدارِ الہٰی‘‘ کے موضوع پر نہایت جامع اور خوبصورت خطاب ارشاد فرمایا۔ آپ نے کہا کہعاشقوں کی جنت صرف دیدارِ الہٰی ہے۔ عاشق اس سے کم درجہ کی کسی جنت پر راضی نہیں ہوتے۔ نہ ہی ان کی اس کے علاوہ کوئی طلب ہے اور نہ ہی وہ کسی اور کے لیے تڑپتے ہیں۔ اس دیدارِ الہٰی کی جنت کو پانے کے لیے آج لاکھوں لوگ لیلۃ القدر کے موقع پر اس عالمی روحانی اجتماع میں جمع ہیں۔ یاد رکھیں کہ دیدارِ الہٰی کے حصول کے سفر کا آغاز عشق کی چنگاری کے جلنے سے مشروط ہے۔ عشق کیا ہے اور کس پر کس کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے حضرت سمنون المحب کے احوال کا ذکر کرتے ہیں۔
امام قشیری رسالہ قشیریہ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت سمنون المحب عشق و محبت کے موضوع پر مسجد میں خطاب کررہے تھے کہ مساجد کی قندیلوں میں اس مضمون کے اثرات کے باعث ایک ایسا اضطراب پیدا ہوا کہ مسجد کی تمام قندیلیں آپس میں ٹکرا گئیں اور ریزہ ریزہ ہوکر زمین پر گر پڑیں۔
ایک اور موقع پر حضرت سمنون المحب نے ایک کھلے میدان میں عشق کے موضوع پر خطاب کیا۔ طالبان و عاشقانِ الہٰی کا ہجوم تھا۔ خطاب کے دوران ایک پرندہ حضرت سمنون المحب کے قریب آبیٹھا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ قریب ہوتا گیا اور بالآخر آپ کے بازو پر بیٹھ گیا اور جب عشق کا بیان کمال پر پہنچا تو وہ پرندہ زمین پر گرا اور اسی وقت مرگیا۔ یہ بظاہر دو چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں مگر اس میں سمجھنے والوں کے لیے ایک گہرا پیغام موجود ہے۔ عشق کی واردات نہایت عجب ہوتی ہیں۔ عشق نے کبار ائمہ، صوفیا اور اولیاء کو تلاشِ یار میں جنگلوں، صحراؤں اور وادیوں کا سفر کروادیا اور انھیں محبوب کی یاد میں راتوں کو جگایا اور ہمہ وقت رلایا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ وہ لوگ جو مجھے بھول کر چلے گئے، مجھ سے منہ موڑ کر کسی اور سمت چلے گئے، اگر ان کو پتہ چل جائے کہ مجھے ان کے پلٹ آنے کا کتنا انتظار ہے اور میں ان کے لیے کتنی نرمی و شفقت لیے ہوئے ہوں اور ان کے گناہ کو ترک کرنے کا مجھے کتنا اشتیاق ہے تو مجھے اپنی عزت کی قسم! اس بات کا علم ہونے پر وہ میرے شوق میں مرجائیں۔ اے داودٔ! جو مجھے بھول گئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، میری محبت کا یہ عالم ان کے لیے ہے تو سوچو اُن لوگوں کے ساتھ میرے اشتیاق کا عالم کیا ہوگا جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور ہمہ وقت میری طرف متوجہ رہتے ہیں۔ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی کی کہ اے داؤد! میرا ذکر؛ ذکر کرنے والوں کے لیے ہے۔ میری جنت؛ میرے اطاعت گزاروں کے لیے ہے، میرا دیدار اور زیارت ؛میرا شوق اور محبت رکھنے والوں کے لیے ہے اور جو میرے عاشق ہیں، میری ذات خالص اُن کے لیے ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی عشق الہٰی میں روتے روتے چلی گئی۔ بعد ازاں اللہ نے لوٹادی۔ پھر اس گریہ و زاری کے سبب بینائی چلی گئی، اللہ نے پھر لوٹادی حتی کہ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے شعیب! اگر تیرا رونا دوزخ کے خوف کے سبب ہے تو میں نے تجھے دوزخ سے امان دے دی۔ لہذا اتنا نہ رویا کر۔ اگر تیرا رونا جنت کی طلب میں ہے تو میں نے جنت تیرے لیے واجب کردی، لہذا اتنا نہ رویا کر۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں تیری دوزخ کے ڈر اور تیری جنت کی حرص میں نہیں روتا بلکہ صرف تیرے دیدار کے لیے تڑپتا ہوں کہ وہ دن کب آئے گا جب تو بلا حجاب اپنا جلوہ کروائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے شعیب جسے میرے دیدار کا شوق ہے، اس کا حق ہے کہ وہ اسی طرح رویا کرے۔ اس لیے کہ میری رؤیت اور دیدار کے طالبوں کا علاج اسی رونے میں ہے۔
اللہ کے عاشق جو اس کے دیدار کے لیے تڑپتے ہیں اور اس کے دیدار کا انتظار کرتے ہیں، اُن کے لیے اللہ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو وحی کی اور فرمایا کہ جب کوئی بندہ میرا عشق اپنے دل میں جمالیتا ہے اور میرے دیدار کی یاد میں تڑپتا رہتا ہے، میں ہر روز ستر ہزار مرتبہ اس کے دل کو دیکھتا ہوں۔ قابلِ غور بات ہے کہ وہ خوش نصیب دل کیسا ہوگا جس میں اللہ سما جائے، اللہ کے جلوے کی طلب سما جائے، اس کے علاوہ ہر غیر نکل جائے اور اس سبب سے اللہ اس کے دل کو ہر روز ستر ہزار مرتبہ دیکھے۔ کاش ہمارا دل بھی اس قدر اُجلا، صاف، شفاف اور مطہر ہوجائے کہ اس کی نظر کے قابل ہوجائے۔ اس کے لیے ہمیں تصفیہ قلب و باطن کرنا ہوگا اور ہر بری صفت اور رذائل اخلاق کو دل سے نکالنا ہوگا۔ تب جاکر اللہ کا نور، اس کی محبت، رغبت، قربت اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو گی۔
جو لوگ اللہ کی ذات کے طالب ہوتے ہیں اور اللہ کے دیدار کی طلب کے علاوہ کوئی اور طلب ان کے اندر نہیں ہوتی، ان کے احوال ہی جدا ہوتے ہیں۔ رسالہ قشیریہ میں ہے کہ حضرت حسین الانصاری نے خواب میں دیکھا کہ قیامت کا دن برپا ہے اور ایک شخص عرشِ الہٰی کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سامنے خاموش کھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے پوچھا (حالانکہ اُسے خود معلوم ہے) کہ اے فرشتو! یہ کون ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ معروف الکرخی ہے۔ یہ میرے عشق میں مست و بے خود ہوگیا ہے۔ اب میری ملاقات اور دیدار کے بغیر یہ ہوش میں نہیں آئے گا۔
شیخ احمد بن الفتح روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت بشر الحافی کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ معروف الکرخی کے ساتھ کیا حال ہوا؟ انھوں نے کہا کہ اتنا پتہ ہے کہ ہم جنت میں ایک مقام پر اکٹھے تھے کہ اچانک ہمارے اور معروف الکرخی کے درمیان حجابات ڈال دیئے گئے۔ کیونکہ معروف الکرخی ساری زندگی کوئی بھی اطاعت اور نیک عمل جنت کے شوق اور دوزخ کے ڈر سے نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ہر عبادت اللہ کے شوق میں کرتے تھے۔ اللہ نے اُنھیں بہت اوپر اپنے قرب میں بلالیا اور اپنے اور معروف الکرخی کے درمیان سارے پردے اٹھادیئے۔
اللہ کے دیدار کا حق دار بننے کے لیے اسی دنیا میں کاوشیں کرنا ہوں گی۔ اپنے ظاہرو باطن کو پاکیزہ کرنا ہوگا۔ دنیا میں اگر بندہ رذائل اخلاق سے لت پت ہو تو ایسے دل اور آنکھیں اللہ کا دیدار نہیں پاتے۔ افسوس کہ ہم بھٹکے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے اقوال، اعمال، احوال اور قلوب و اذہان کو سنوارا ہوگا تب ہی جاکر اس کے دیدار کی کوئی جھلک نصیب ہوگی۔
8۔ موضوع: عشاق کے مشارب اور تعلیمات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف کی آٹھویں نشست سے ’’عشاق کے مشارب اور تعلیمات‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ اس موضوع پر اولیاء کے احوال و کیفیات اور ان کے اقوال کے بیان سے قبل آپ نے ’’عشقِ الہٰی اور لذتِ توحید‘‘ کے باب میں عشاق اور اہل اللہ پر وارد ہونے والی کیفیات کے حوالے سے فیلڈ سے موصول ہونے والے تین سوالات کے جامع اور مدلل جوابات ارشاد فرمائے۔ ان تین سوالات کا پسِ منظر شہرِ اعتکاف میں گزشتہ سات راتوں سے ہونے والے واقعات و احوال کی ثقاہت تھا کہ شہرِ اعتکاف میں اولیاء و صلحاء کے جو تذکرے اور واقعات بیان ہوئے، ان اولیاء کاعشقِ الہٰی میں غشی کھانا، وفات پانا، مستی کا طاری ہونا وغیرہ، یہ واردات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طاری کیوں نہیں ہوئیں؟
صحابہ کرامؓ اور تابعین میں کثرت سے کرامات کیوں نہیں ملتیں؟ بعد میں ان کی کثرت کیوں ہے؟اولیاء کی کرامات اور احوال و کیفیات کے باب میں بعض روایات موضوع، باطل اور مردود ہیں؟لہذا یہ کیفیات اور کرامات ہوتی ہی نہیں۔
شیخ الاسلام نے ان سوالات کا ذکر کرنے کے بعد جوابات دیتے ہوئے فرمایا کہ عشق؛ عقل و خرد کا موضوع نہیں ہے بلکہ قلب و روح کا موضوع ہے۔ کچھ اہل اللہ کو تصوف کی زبان میں مغلوب الحال کہتے ہیں، ان کی ظاہری حالت غشی والی یعنی کیف و مستی میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔ اس طرح کچھ اہل اللہ غالب الحال ہوتے ہیں، ان پر بھی یہ کیفیات طاری ہوتی ہیں مگر وہ ضبط کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کیفیات و احوال پر غالب آجاتے ہیں۔ اللہ نے انبیاء کو مغلوب الحال نہیں ہونے دیا، اس لیے کہ اُن پر وحی اترنی ہے اور اُنہوں نے رشدوہدایت کا پیغام آگے پہنچانا ہے۔ اگر وہ خود مغلوب الحال ہو جائیں تو آگے نصیحت اورہدایت کیسے پہنچائیں گے؟۔ یہی حال صحابہ کرام میں سے اکثر کا ہے کہ وہ غالب الحال رہے۔ آقا ﷺ کی نگاہِ کرم کا فیض تھا کہ یہ کیفیات و واردات اُن پر بھی ہوتی تھیں مگر آقا ﷺ کی نسبت اور محبت نے اُن کو ایسا ضبط عطا کیا تھا کہ وہ غالب الحال رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو مضبوطی اور صبر کے وافر خزانے عطا فرمائے تھے۔ احوال اور مقامات و کیفیات صحابہ کرام کے پاس بھی تھے مگر اُنہوں نے خود پر ضبط کیے رکھا۔ کبھی کبھی اُن پر یہ کیفیات طاری ہوجایا کرتی تھیں مگر انھوں نے ان کیفیات کو دین کی ذمہ داری ادا کرنے میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔
کیفیت کا ہونا اور غشی ہونا کی دلیل قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہ طور کا واقعہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بھی ان تجلیات کے باعث بے ہوش ہوگئے۔ تجلیات اور و ارادت کا ہونا اور اس کے اثر سے بے ہوش ہونا یہ قرآن کی نص سے ثابت ہے۔ دوسری طرف حضور علیہ السلام کے ضبط کا عالم یہ ہے کہ معراج کی شب بلا حجاب دیدارِ الہٰی کیا مگر مازاغ البصر وما طغیٰ کے مصداق ہوش و حواس کے ساتھ قائم رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی واردت ہوتی تھیں مگر حفاظت دین کے سبب حضورﷺ کے فیض سے ضبط قائم رہا۔ 12 ہزار سے زائد صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضورﷺ کی احادیث کو روایت کیا۔ ایک لاکھ سے زائد نے شرفِ صحابیت پایا۔ تاریخ نے فوکس ان کی ذمہ داریوں پر کیا ہے ان کے نجی احوال کو تاریخ نے فوکس نہیں کیا۔ جس طرح کی ذمہ داری ہے، اللہ اس طرح کی طبیعت بناتا ہے۔ صحابہ مغلوب الحال نہ ہوتے تھے اس لیے کہ ذمہ داریاں مختلف ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کرامات، واردات اور مشاہدات بھی ہیں مگر ذمہ داریوں کی نوعیت کے سبب اللہ نے انھیں مضبوط بنایا اور وہ غالب الحال رہے۔
بعد ازاں جب مفسرین، محدثین، فقہا اور مجلدین کے الگ الگ گروہ بن گئے۔ سلطنت مستحکم ہوگئی تو پھر صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم کو فرصت ملی تو انھوں نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانے سے دور ہونے کے سبب صدق و اخلاص میں کمی واقع نہ ہوجائے۔ لہذا انھوں نے عبادت اور صبرو شکر، تواضع اورصدق و اخلاص پر فوکس کیا۔ وہ بے فکر ہوگئے کہ حدیث محفوظ ہوگئی، علم محفوظ ہوگیا۔ لہذا انھوں نے عشق الہٰی، ربط الہٰی اور تعلق باللہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ان امور پر توجہ دی۔ پس اس پر جتنا فوکس زیادہ ہوا، اتنی ہی کیفیات بڑھتی چلی گئیں۔
ان کرامات کے وجود کا مطلقاً انکار کرنا نادانی اور جہالت ہے۔ قرآن مجید میں کرامات کا بیان ہے۔ حضرت مریم علیھا السلام کے لیے بے موسمی پھل آتا، اصحاب کہف کا 309 سال زندہ رہنا، آصف بن برخیا کا ملکہ سباکا تخت لانا اور حضرت خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے دوران پیش آنے والے واقعات کرامات ہیں۔ اگر سابقہ انبیاء کی امم میں کرامات ہیں تو پھر حضور علیہ السلام کی امت میں ایسا کیوں نہ ہوگا۔
میں نے الموسوعۃ القادریہ میں 70 ان کتابوں کا تعارف کروایا ہے، جس میں احوالِ صحابہ بیان ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذاتی احوال اور ان کی واردات قلبیہ کا ذکر موجود ہے۔
ان سوالات کا جامع جواب مرحمت فرمانے کے بعد شیخ الاسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمران بن حصین، حضرت ام ایمن، حضرت سفینہ، حضرت علاء بن الحضرمی، حضرت خالد بن ولید اور دیگر کئی صحابہؓ کی کرامات کو ثقہ کتب سے بیان فرمایا۔
9۔ موضوع: حضرتِ داؤد علیہ السلام کی عاشقانِ الہٰی سے ملاقات اور ان کی دعوات و مناجات
شہرِ اعتکاف کی نویں نشست یعنی آخری شب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت داؤد علیہ السلام اور عاشقین الہٰی کی ملاقات کے احوال پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! مجھے اپنے اہل محبت اور عاشق دکھادے۔ اللہ نے فرمایا کہ لبنان کے ایک پہاڑ پر میرے 14 عاشق موجود ہیں۔ ان کو سب سے پہلے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ تمھارے رب نے تم پر سلام بھیجا ہے اور کہنا کہ تم اللہ سے کوئی سوال کیوں نہیں کرتے؟ حضرت داودٔ علیہ السلام وہاں پہنچے تو انھوں نے وہاں انھیں اکٹھے بیٹھے دیکھا۔ آپ نے انھیں اللہ کا سلام پہنچایا اور پوچھا کہ اللہ پوچھتا ہے کہ تم اس سے مانگتے کیوں نہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعے اللہ کے اس سوال پر ان میں سے ہر ایک نے الگ الگ اللہ سے مانگا:
ایک نے مانگا کہ اے اللہ! وہ لمحے جو تجھ سے کٹ کر گزرے، جن لمحوں میں دل میں غفلت آگئی۔ وہ گناہ ہیں، وہ معاف کردے۔
دوسرے نے اللہ سے مانگا کہ باری تعالیٰ! ہمارے اور تمھارے درمیان تعلق ہمیشہ حسنِ ظن پر قائم رہے۔ دنیا میں معاملات میں اونچ نیچ آتی رہی ہے، کبھی خوشی کبھی غم، کبھی دکھ کبھی سکھ، کبھی صحت کبھی بیماری الغرض جیسے بھی حالات ہوں، ہمارا تیرے ساتھ جو تعلق جڑا ہوا ہے، وہ حسن ظن پر قائم رہے۔
تیسرے نے کہا کہ اے اللہ! اپنے سے ملنے کا شاندار اور اعلیٰ طریقہ عطا کردے اور وہ راستہ عطا کردے کہ جس پر چل کر تیرا وصال نصیب ہوجائے اور تجھے ملنا آسان ہوجائے۔
چوتھے نے کہا کہ ہمارے اعمال و احوال اس قابل نہیں کہ تیری رضا طلب کریں۔ ہمیں اپنی سخاوت اور کرم سے رضا کی خیرات عطا کریں اور ہم سے راضی ہوجائیں۔ گویا پوری زندگی اللہ کی راہ میں لگانے کے باوجود وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے۔
پانچویں نے کہا کہ باری تعالیٰ ہم تیری راہ پر چل پڑے ہیں، اس راستے پر ہمیں چلنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ اس کمی کو معاف کردے۔ ہمیں تیری راہ پر چلنے کے آداب نہیں آتے، یہ کمی معاف کردے۔ چھٹے نے کہا کہ تو نے سب کچھ دے دیا ہے۔ اب صرف اپنا دیدار عطا کردے۔
ساتویں نے کہا کہ باری تعالیٰ ہم اپنی صلاحیت طاقت، مشقت اور عبادت و طاعت سے تجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اپنی بارگاہ سے وہ نور عطا کردے کہ جو نور تیری بارگاہ تک پہنچنے کا راستہ آسان کردے۔
آٹھویں نے کہا کہ ہماری التجا فقط یہ ہے کہ تو اپنے فضل و انعام کی توجہ ہماری طرف کردے اور پھر یہ توجہ ہمیشہ قائم رہے۔
نویں نے کہا کہ تو نے ہمیں اپنی نعمتیں دی ہیں، پس ان نعمتوں کو قائم رکھنا۔ ہم تیری نعمتوں کے حصار میں ہمیشہ رہیں۔
دسویں نے کہا کہ مجھے اندھا کردے یعنی میری آنکھوں کو ایسا بنادے کہ نہ دنیا نظر آئے اور نہ اہلِ دنیا نظر آئے۔ دنیا کی ہر شہوت و رغبت ہماری آنکھوں کو نظر نہ آئے۔ دل کو ایسا کردے کہ تیرے علاوہ کسی اور طرف مشغول بھی نہ ہو۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری نظر ہمیشہ دنیا اور اہل دنیا کی طرف رہتی ہے۔ ہمارے دل ونگاہ کا دھیان ہی دنیا کی طرف رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم وظیفے اللہ کے قرب اور حضور علیہ السلام کی توجہ کے حصول کے لیے مانگتے ہیں۔ ایسا تصوف و سلوک میں کہیں نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی صوفی یا ولی کی تعلیمات ہیں۔ گیارہویں نے کہا کہ ہمارا دل کسی اور طرف مشغول نہ ہو۔
الغرض تمام عاشقوں نے اللہ کی بارگاہ سے بالآخر کچھ نہ کچھ مانگ لیا۔ ان سے بات کرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ سے عرض کیا کہ اللہ ان میں سے کسی ایک نے بھی کوئی دعا اپنے لیے نہیں مانگی؟ اس مقام پر انھیں تو نے کسی وجہ سے پہنچایا؟ اللہ نے فرمایا کہ ان کے حسنِ ظن کی وجہ سے یہ مقام دیا کہ یہ جب بھی سوچتے ہیں تو اچھا سوچتے ہیں۔ منفی سوچ ان میں نہیں ہے۔ پس جب اللہ سے حسنِ ظن قائم ہوجائے تویہ اساسِ توکل ہے۔ دوسری وجہ ان کے مقام کی یہ ہے کہ ان کے دل کا برتن دنیا طلبی سے خالی ہے۔ انھوں نے حرصِ دنیا سے ترکِ کلی کردیا ہے۔
ان کے اس مقام پر فائز ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ میرے ساتھ تنہائی میں وقت گزارتے ہیں۔ میرے ساتھ تنہائی میں مناجات کرتے ہیں۔ اس مقام کو وہی پاسکتے ہیں جو دنیا کی حرص و ہوس کو دل سے کلیتاً نکال دیں۔
پس جب بندہ اس طرح ہوجاتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ میں ان کے اور اپنے درمیان حجابات اٹھادیتا ہوں اور وہ اللہ کو ایسے دیکھتا ہے جس طرح کوئی سر کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔
منصور حلاج نے کہا تھا کہ میری زندگی کی کوئی صبح، کوئی شام تیرے خیال سے خالی نہیں، کوئی مجلس ایسی نہیں جس میں تیرا ذکر نہ ہو، خوشی و غمی کا کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں جو تیری یاد سے خالی ہو۔ افسوس کہ ہم اجرتوں میں پھنسے ہیں جبکہ عاشقوں کا حال مختلف ہوتا ہے۔ عاشق ڈرتا ہے کہ کہیں بے قراری نہ چھن جائے جبکہ ہم قرار کے طالب ہیں۔ یاد رکھیں جو ایک لمحہ کے لیے اللہ کو بھلادے، وہ اللہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ عاشق اللہ کے سوا کسی کا منگتا نہیں ہوتا۔
حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ اگر بندہ اللہ کا عاشقِ صادق ہوجائے اور وہ 10 لاکھ سال اللہ سے محبت کرتا رہے مگر ایک لحظہ کے لیے بھی دل اس سے ہٹادے اور دنیا کی محبت کی طرف ایک لمحہ کے لیے چلا جائے تو اس نے 10 لاکھ سال میں جتنا پایا تھا، وہ کھودیتا ہے۔ پس اس سے محبت و عشق میں تعلق دائمی رکھنا پڑتا ہے۔ ایمان کے بعد عملِ صالح پر استقامت رکھنا پڑتی ہے اور اللہ سے دورکرنے والے کاموں سے بچنا ہوتا ہے۔
ó شہر اعتکاف میں گزرے ہوئے یہ لمحات اور شیخ الاسلام کے یہ خطابات معتکفین کے لیے روحانیت کے منفرد ترین لمحات تھے، جہاں دلوں میں اللہ کی محبت اور لذتِ توحید کا بسیرا ہو رہا تھا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے یہ خطابات رسمی تقاریر نہیں تھے بلکہ روحانی تجربات کا ایک مجموعہ تھے، جنہوں نے سامعین کو اللہ کی محبت کے سمندر میں غوطہ زن کر دیا تھا۔ شہرِ اعتکاف کی فضاؤں میں، آنسوؤں کی اس بستی میں، ہر اشک ایک گواہی بن چکا تھا کہ لذتِ توحید اور عشقِ الٰہی میں ایک منفرد نوعیت کی طاقت اور سکون ہے، جو دلوں کو ایک نئی روشنی عطا کرتا ہے۔
شہر اعتکاف کے انتظامی امور:
1۔ شہر اعتکاف کی اس روحانی فضا میں جہاں عبادت اور اللہ کے ذکر کی گونج ہر طرف تھی، وہاں منہاج القرآن کی جانب سے کیے گئے انتظامی امور نے اس پورے پروگرام کو ایک اعلیٰ اور منظم رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ یہ انتظامات اس بات کا غماز تھے کہ شہر اعتکاف صرف ایک روحانی مرکز نہیں تھا، بلکہ ایک عظیم تحریک کے نظم و ضبط اور انتظامی صلاحیتوں کا عکاس بھی تھا، جس میں ہر پہلو کا بہ خوبی خیال رکھا گیا تھا۔ ہر روز سحری اور افطاری کے اوقات کا منظر بھی دیدنی ہوتا۔ سحر ی کے وقت تازہ اور لذیذ کھانوں کا انتظام کیا گیا تھا، جس میں معتکفین دن بھر کے علمی و روحانی معمولات کے دوران اپنی جسمانی قوت بحال کرنے کے لیے حصہ لیتے۔ افطاری کے وقت، شہر اعتکاف کے مختلف گوشوں میں دسترخوان بچھتے اور ہر فرد کو اس بات کا احساس ہوتا کہ اس کا پیٹ نہیں، بلکہ اس کی روح کی غذا بہتر ہو رہی ہے۔ یہ لمحے اللہ کی محبت اور اس کی مہربانی کے ذکر کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھانے کی خوشی کے تھے، جس میں کسی کو بھی کمی محسوس نہ ہوئی۔
2۔ اعتکاف میں شامل افراد کی حفاظت اور سیکیورٹی کے انتظامات بہترین تھے۔ ہر ایک جگہ پر سیکیورٹی کی ٹیمیں موجود تھیں جو معتکفین کی حفاظت کو یقینی بنارہی تھیں۔ اس طرح شہر اعتکاف میں معتکفین کی صحت کو برقرار رکھنے کے حوالے سے بھی بھرپور انتظامات کیے گئے تھے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے ایک مکمل میڈیکل کیمپ قائم کیا تھا، جہاں مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے ماہر ڈاکٹرز موجود تھے۔ کسی بھی ہنگامی صورت میں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جاتی، تاکہ معتکفین بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے روحانی سفر کو جاری رکھ سکیں۔ اسی طرح بجلی اور پانی کی مسلسل فراہمی کے انتظامات بھی انتہائی خوش اسلوبی سے کیے گئے تھے اور شہر اعتکاف کی فضاؤں میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی بدانتظامی یا افراتفری کا ماحول دیکھنے میں نہ آیا بلکہ ہر معتکف راحت و سکون کے ساتھ اپنے روحانی اور عارفانہ سفر کو جاری رکھے ہوئے اللہ کے حضور پیش پیش رہا۔
3۔ شہر اعتکاف کی کامیابی کا ایک بڑا راز اس میں شامل انتظامی کمیٹیوں اور رضاکاروں کی محنت میں تھا۔ پچاس سے زائد کمیٹیاں مختلف ذمہ داریوں کے تحت کام کر رہی تھیں، اور ہر کمیٹی اپنے شعبے میں مہارت اور نیک نیتی کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ ان کمیٹیوں میں 1800 سے زائد رضاکاروں نے اپنی خدمات پیش کیں، جنہوں نے ہر لمحے اپنی موجودگی سے شہر اعتکاف کی فضا کو زیادہ خوشگوار بنایا۔ رضاکاروں نے نہ صرف انتظامی امور کی ذمہ داری نبھائی، بلکہ وہ ایک ہی مقصد کے تحت کام کرتے رہے، یعنی اس عبادت کے موقع پر لوگوں کو ایک مکمل، محفوظ اور روحانی تجربہ فراہم کرنا۔ ان رضاکاروں کی بے لوث محنت اور خدمت نے شہر اعتکاف کی کامیابی کو مزید مستحکم کیا۔
منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں انتظامات نظم و ضبط کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے، جس میں ہر شخص کو سکون، راحت اور روحانی تسکین حاصل ہو رہی تھی۔ یہ انتظامات صرف عبادت کو بہتر بنانے کے لیے نہیں تھے بلکہ ایک مکمل تجربہ فراہم کرنے کے لیے تھے، جہاں روحانیت، علم، سکونت، اور حفاظت کا حسین امتزاج موجود تھا۔ شہر اعتکاف میں ہر انتظام اور ہر خدمت کو ایک عبادت کے طور پر پیش کیا گیا، تاکہ ہر معتکف اپنی عبادت میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرے اور مکمل طور پر اللہ کی رضا کی جستجو میں مگن رہے۔
متفرق امور
1۔ معتکفین کی تعداد امسال گزشتہ کئی سالوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ نتیجتاً اعتکاف سے کئی دن پہلے اعتکاف گاہ کی گنجائش کے پیش نظر ایڈوانس رجسٹریشن کو بھی بند کردیا گیا۔ معتکفین کی اس کثرتِ تعداد کا سبب امسال سوشل میڈیا کے ذریعے شیخ الاسلام کا براہِ راست اعتکاف کی بذاتِ خود دعوت دینا تھا۔ معتکفین کی اس کثیر تعداد کے پیشِ نظر جگر گوشہ قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادیؒ محترم حضرت پیر سید محمود محی الدین الگیلانی البغدادی نے دربار غوثیہ سے ملحق تمام حجروں اور کمروں کو بھی معتکفین کی رہائش کے لیے عنایت فرمایا۔ اس شفقت و تعاون پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے محترم المقام صاحبزادہ صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
2۔ اس شہرِ اعتکاف میں علماء، مشائخ، اساتذہ، وکلاء، طلبہ، تاجر اور جملہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات ہر روز شیخ الاسلام کے خطابات کو سماعت کرنے کے لیے شہر اعتکاف میں تشریف لاتی رہیں۔
3۔ شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام نے اپنے باقاعدہ خطابات کے آغاز سے قبل احیائے اسلام، تجدیدِ دین اور اصلاحِ احوال کے عظیم مصطفوی مشن منہاج القرآن کی انفرادیت، خصوصیات اور اس کے تجدیدی کاموں کو بھی بیان فرمایا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے شرکاء اعتکاف کو بالخصوص اور رفقاء و کارکنان تحریک کو بالعموم ہر سال اعتکاف میں لازمی شرکت، رفاقت سازی کی مہم، حلقاتِ درود کے قیام، تحریک کے جملہ پروجیکٹس، پروگرامرز اور مہمات میں شرکت اور خطابات اور کتب کے ذریعے دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لیے شبانہ روز کاوشیں کرنے کی تلقین فرمائی۔
4۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اعتکاف کےا علیٰ انتظامات پر نائب صدر محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور، نائب ناظمِ اعلیٰ ایڈمنسٹریشن محترم محمد جواد حامد اور 50 سے زائد انتظامی کمیٹیوں کے سربراہان اور ان کے 1800 سے زائد ممبرز کو خصوصی مبارکباد اور دعاؤں سےنوازا۔
5۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جملہ نائب ناظمین اعلیٰ؛ محترم انجینئر محمد رفیق نجم، محترم نوراللہ صدیقی، محترم علامہ رانا محمد ادریس، محترم احمد نواز انجم، محترم محمد شاکر مزاری، محترم مظہر محمود علوی، محترم محمد عرفان یوسف، صدر و فورمز؛ محترم رانا وحید شہزاد (صدر یوتھ)، محترم شیخ فرحان عزیز (صدرMSM)، محترم علامہ میر آصف اکبر قادری (علماء کونسل و نظام المدارس)، پاکستان عوامی تحریک کے ذمہ داران و عہدیداران، ناظمین مرکزی نظامتیں، سربراہان شعبہ جات، ناظمین و نائب ناظمین، سٹاف ممبرز، جملہ مرکزی تعلیمی ادارہ جات کے منتظمین اور ملک بھر کی زونل، صوبائی، ضلعی، تحصیلی اوریونٹ لیول تک کی تنظیمات کو اپنی اپنی نظامت اور شعبہ کے تحت اعلیٰ خدمات بالخصوص شہرِ اعتکاف کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرنے پر خصوصی مبارکباد اور دعاؤں سے نوازا۔
6۔ شیخ الاسلام نے منہاج القرآن ویمن لیگ کی مرکزی صدر، ناظمہ، جملہ نائب ناظمات اور منہاج القرآن ویمن لیگ کے ذیلی فورمز سسٹرز لیگ، ایگرز اور دیگر شعبہ جات کی ذمہ داران اور ملک بھر میں قائم ویمن لیگ کی تنظیمات کی ذمہ داران، عہدیداران اور کارکنان کو خصوصی مبارکباد اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا، جن کی شبانہ روز کاوشوں کے سبب نہ صرف اس شہر اعتکاف میں ملک بھر سے کثیر خواتین نے شرکت کی بلکہ ویمن لیگ کی تنظیمات فیلڈ میں بھی مصطفوی مشن کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے خواتین معتکفات کو بھی خصوصی مبارکباد دی کہ وہ ملک کے طول و عرض سے نامساعد حالات کے باوجود اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کی وجہ سے تشریف لائیں۔
7۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے ویمن اعتکاف گاہ میں اعلیٰ انتظام و انصرام کرنے پر وہاں موجود 35 کمیٹیوں کے سربراہان اور ان کی 550 سے زائد ممبرز کو بھی خصوصی مبارکباد دی۔ شیخ الاسلام نے اس سلسلے میں ویمن اعتکاف گاہ میں خواتین کمیٹیوں کے ساتھ بہترین کوآرڈینیشن اورمعاونت پر محترم حاجی منظور حسین مشہدی اور اُن کے ساتھ شریک دیگر احباب کو بھی مبارکباد دی۔
8۔ شیخ الاسلام نے رمضان المبارک میں ملک بھر کے 40 سے زائد شہروں میں 200 مقامات پر دروس قرآن کے شاندار انعقاد پر منہاج القرآن ویمن لیگ بالخصوص عرفان الہدایہ کی پوری ٹیم کو خصوصی مبارکباد سے نوازا۔ ان دروس میں ہزاروں خواتین نے خصوصی شرکت کی۔
9۔ شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن کی نظامتِ دعوت کو ہدیہ تبریک اور تہنیتی کلمات سے نوازا جنھوں نے منہاج القرآن کی تنظیمات کے تعاون سے پاکستان کے 63 شہروں میں ماہ رمضان المبارک میں بعد از نماز فجر عظیم الشان دروس عرفان القرآن منعقد کیے۔ بالخصوص 21 مقامات پر تین روزہ دروس عرفان القرآن کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ ان دروس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان دروس عرفان القرآن میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور مرکزی نظامتِ دعوت کے ناظمین نے خطابات کیے۔
10۔ شیخ الاسلام نے محترم نوراللہ صدیقی، محترم احسن بابا، محترم عبدالستار منہاجین اور ان کے جملہ ٹیم ممبرز کو سوشل میڈیا اور منہاج TV کے ذریعے شہرِ اعتکاف کی لائیو کوریج کرنے پر خصوصی مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔
11۔ تحریک کے زیرِ انتظام جملہ تعلیمی اور فلاحی پراجیکٹس کی تعمیر اور مختلف پروگرامز کے انعقاد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں کاوشیں کرنے پر شیخ الاسلام نے نظامتِ پبلک ریلیشنز، نظامتِ ریسورسز اینڈ ڈویلپمنٹ اور نظامتِ مالیات کو بھی خصوصی مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔
12۔ شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کے زیرِانتظام جاری جملہ مرکزی تعلیمی اور فلاحی پراجیکٹس اور شعبہ جات کی تعمیرات، مرکزی پروگرامز کے انتظام و انصرام اور ان کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے والے جملہ احباب کو مبارکباد دی اور تحسینی اور دعائیہ کلمات سے نوازا، جن کی مالی قربانیوں کے باعث تحریک شب و روز احیائے اسلام اور تجدیدِ دین کے مصطفوی مشن میں مصروفِ عمل ہے اور کامیابیوں کی طرف گامزن ہے۔
13۔ شیخ الاسلام نے شہرِ اعتکاف میں بیرون ملک سے کثیر تعداد میں تشریف لانے والے معتکفین و معتکفات کو بھی مبارکباد دی کہ وہ اس علمی و روحانی شہرِ اعتکاف میں دور دراز کا سفر کرکے خالصتاً اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کے لیے تشریف لائے۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے نظامتِ امور خارجہ کے جملہ ذمہ داران کو بھی مبارکباد دی۔
14۔ شہر اعتکاف میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور محترم خرم نواز گنڈا پور (ناظم اعلیٰ) نے بیرون ملک میں قائم منہاج القرآن کی وہ تنظیمات اور رفقاء جنھوں نے اپنے اپنے ملک میں مختلف مواقع پر مصطفوی مشن کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا، انھیں مختلف ایوارڈز، شیلڈز اور گولڈ میڈلز سے نوازا۔
15۔ شہرِ اعتکاف میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور محترم خرم نواز گنڈا پور نے مرکزی تعلیمی ادارہ جات کی تعمیرات اور تزئین و آرائش میں اہم کردار ادا کرنے والوں کو گولڈ میڈلز سے نوازا۔
16۔ اعتکاف کے موقع پر شیخ الاسلام نے ’’حلقہ محسنین‘‘ میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ منشور اورہدایات سے نوازا۔ بعد ازاں ’’حلقہ محسنین‘‘ میں شمولیت اور اس کے مکمل لائحہ عمل کے بارے میں محترم علامہ غلام مرتضٰی علوی نے بریفنگ دی۔
17۔ شہرِ اعتکاف کی آخری شب محترم ناظم اعلیٰ نے جملہ شرکاء کی طرف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جملہ خدماتِ جلیلہ کو بالعموم اور اس شہرِ اعتکاف سے ’’عشقِ الہٰی اور لذتِ توحید‘‘ کے موضوع پر عظیم علمی و روحانی خطابات ارشاد فرمانے پر بالخصوص ہدیہ تشکر پیش کیا کہ آپ کے ان خطابات نے یہاں موجود ہر معتکف کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے اور ہر ایک کو سلف صالحین کے ادوار کی یاد تازہ کروادی۔ جملہ شرکاء نے شیخ الاسلام کی درازیٔ عمر اور صحت و سلامتی کے لیے خصوصی دعا کی۔
تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ یہ فقیدالمثال شہر اعتکاف عید الفطر کا چاند نظر آنے کے اعلان ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے معتکفین کو دعاؤں کے ساتھ الوادع کیا۔ ہزاروں معتکفین آہوں، سسکیوں اور دعاؤں کے ساتھ شہرِ اعتکاف سے رخصت ہوئے۔ اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امتِ مسلمہ اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے دعا کی۔