حضرت فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ: عشق، علم اور حکمت و بصیرت کا خوبصورت امتزاج

عظیم شخصیات وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو اپنی زندگی میں محض ذاتی فوائد کے بجائے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جیتی ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنی ذات کو بلند کرنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ معاشرتی و روحانی اصلاح کی طرف قدم بڑھاتی ہیں، تاکہ ان کے بعد آنے والی نسلیں بھی اسی روشنی سے فیضیاب ہوں۔ ان شخصیات کی زندگی ایک مسلسل محنت و جستجو کی داستان ہوتی ہے، جو کسی بھی نوع کی رکاوٹ یا مشکل کے باوجود اپنے عزم کو نہیں چھوڑتیں۔ وہ ہر غم و الم، چیلنجز اور مشکلات کا سامنا اس بلند مقصد کے لیے کرتی ہیں، جن کا عام انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کا مقصد اس سے کہیں بلند ہوتا ہے جو ہم دیکھتے ہیں۔ ان کی محنت و کوشش کا نتیجہ ہمیشہ قدرت کی بے پایاں عنایتوں کی صورت میں سامنے آتا ہے، اور پھر ان کا مشن صرف ان کے زمانے تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی نسلوں میں اسے منتقل کر کے ایک عظیم ورثہ چھوڑ جاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک عظیم شخصیت جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد صرف ذاتی کامیابی کی بجائے انسانیت کی خدمت اور امتِ مسلمہ کی رہنمائی کو بنایا، وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ ہیں۔ آپ ؒ کی شخصیت ایک ایسی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جس میں علم، روحانیت، عشقِ رسولﷺ اور امتِ مسلمہ کی فلاح کا جوہر موجود تھا۔ آپ کی زندگی کا مقصد کبھی صرف اپنی کامیابی اور شہرت نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنی محنت اور روحانی جستجو کے ذریعے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسا شاہکار تخلیق کیا جو اُمتِ مسلمہ کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

حضرت فرید ملت ؒ وہ عظیم روحانی ہستی تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علم و حکمت کی روشنی پھیلانے اور انسانیت کی فلاح کے لیے وقف کیا۔ وہ ایک ایسے عظیم استاد، رہنما اور مربی تھے جنہوں نے علمی، روحانی اور اخلاقی میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ان کی شخصیت ایک دریا کی مانند تھی، جس میں علم، محبت، درد مندی اور اخلاص کی بے شمار لہریں تھیں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ دینِ اسلام کے احیاء، اُمتِ مسلمہ کی فلاح اور روحانی ترقی کی کوششوں میں گزرا۔ ایک طرف آپ کا دل انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تڑپتا تھا تو دوسری طرف آپ کی روح اللہ کے رازوں میں گم تھی۔

حضرت فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کا بچپن اور نوجوانی کے احوال اہلِ بصیرت سے مخفی نہ تھے۔ اُن کے دل و دماغ یہ گواہی دیتے تھے کہ یہ بچہ ایک دن انسانیت کا روشن چراغ بنے گا۔ ان کے اساتذہ درسِ نظامی میں اور سکول میں ان کی ذہانت و فطانت پر حیرت زدہ ہوتے، جبکہ اہلِ بصیرت ان کی کم عمری میں ہی طلبِ حقیقت، ریاضت، مجاہدہ، اور خلوت گزینی پر حیران رہ جاتے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قدرت انھیں کسی عظیم مقصد کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے سلف صالحین کی سنت کو اپناتے ہوئے اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے جھنگ سے سیالکوٹ، لکھنؤ، حیدرآباد دکن اور بعد ازاں مشرقِ وسطیٰ کے طویل سفر کیے۔ گھر کی راحتیں ترک کیں، مختلف علاقوں کی مشکلات جھیلیں، فقر و فاقہ اور بے آرامی کو مسکرا کر قبول کیا، اور اپنے دور کے عظیم علما و مشائخ سے علم حاصل کیا۔

علمی و روحانی مقام و مرتبہ

حضرت فرید ملتؒ کی شخصیت میں علم و حکمت کا ایک خوبصورت امتزاج تھا۔ آپ نے علومِ دینیہ میں گہری مہارت حاصل کی اور اپنے اس علم کا استعمال امت کی فلاح کے لیے کیا۔ آپ کا علمی سفر صرف کتابوں تک محدود نہیں تھا۔ آپ نے اپنی روحانی تربیت کے لیے مختلف بزرگوں سے فیض حاصل کیا۔ آپ نے اپنے وقت کی عظیم علمی و روحانی شخصیات کی صحبت میں رہ کرعلومِ باطنی اور علومِ دین، فقہ، تصوف اور دیگر اسلامی علوم میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ ان بزرگوں کی رہنمائی نے آپ کو صرف علمی لحاظ سے نہیں، بلکہ روحانی طور پر بھی بلند مقام عطا کیا۔ آپ نے اپنے اس روحانی سفر کی تکمیل میں، علم کے دریچوں کو کھولا اور اس علم سے نہ صرف اپنے آپ کو روشن کیا، بلکہ اپنے گرد و نواح کی دنیا کو بھی اس روشنی سے منور کیا۔ آپ کا علمی و روحانی سفر اس بات کا غماز ہے کہ علم کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک مسلسل تلاش ہے جو روح کی تکمیل تک جاری رہتی ہے۔

حضرت فرید ملت ؒ کی شخصیت کے کئی گوشے تھے۔ وہ ایک حکیم بھی تھے اور روحانی پیشوا بھی تھے، وہ ایک عالم دین بھی تھے اور ایک روحانی شخصیت بھی۔ اسی طرح وہ صاحبِ اسلوب شاعر بھی تھے اور باکمال مصنف بھی تھے۔ ان کی خوش قسمتی یہ کہ انہیں؛ محدّث الحرم الشیخ السید علوی بن عباس المالکی المکی، الشیخ المعمّر حضرت ضیاء الدین احمد القادری المدنی، الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنی، الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی، امام عبد الباقی بن علی محمد الانصاری لکھنوی المدنی، الشیخ عبد الہادی بن علی الانصاری المحدّث لکھنوی، محدثِ اعظم علامہ محمد سردار احمد قادری، الشیخ علامہ ابو البرکات سید احمد قادری، شیخ الحدیث مولانا غلام فرید، مولانا محمد یوسف سیالکوٹی، مولانا عبد الحی فرنگی محلی، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا عبد الشکور مہاجر مدنی، حکیم عبد الوہاب نابینا انصاری اور شفاء الملک حکیم عبد الحلیم لکھنوی جیسی تاریخ ساز شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ ان عظیم شخصیات کی تعلیم و تربیت، خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز کاوشوں کے سبب وہ ظاہری و باطنی علوم میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔

حضرت فریدِ ملّتؒ کے علمی مقام کا اندازہ ان کے حلقۂ احباب کے علمی مقام و مرتبہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے وقت کی علمی و فکری شخصیات اور اکابر مشائخ کے ساتھ آپ کی علمی و فکری نشستیں رہتی تھیں۔ ان شخصیات میں حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالویؒ، حضرت خواجہ فخر الدین سیالویؒ، غزالیِ زماں حضرت سید اَحمد سعید کاظمیؒ، علامہ قطب الدینؒ، مولانا عبد الغفور ہزارویؒ، صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ آلو مہار شریفؒ، مولانا محمد عمر اِچھرویؒ، مولانا عبد الرشید رضویؒ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ، خواجہ فخر الدین سیالویؒ، مولانا اَحمد بخش ضیائیؒ شامل ہیں۔

اہلِ بصیرت ان کی کم عمری میں ہی طلبِ حقیقت، ریاضت، مجاہدہ اور خلوت گزینی پر حیران رہ جاتے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قدرت انھیں کسی عظیم مقصد کے لیے تیار کر رہی ہے۔

یہ اُس دور کے اَکابر علماء تھے جن کے ساتھ حضرت فریدِ ملّت ہر وقت ہم مجلس رہتے۔ بعد کے زمانے کے اکابر علماء اور نمایاں شخصیات بھی اکثر اَوقات حضرت فریدِ ملّتؒ کے پاس حصولِ علم و عرفان کے لیے حاضر ہوتیں اور مختلف علمی موضوعات پر نشستیں منعقد ہوتیں۔حضرت فریدِ ملتؒ ان نابغۂ روزگار شخصیات کے ساتھ مختلف محافل میں شرکت فرماتے اور ان عظیم ہستیوں کی موجودگی میں اپنے جانفزا خطبات سے لوگوں کے دلوں میں معرفتِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ کی روشنی اور تجلیوں کو پھیلاتے۔ آپؒ کا مقصدِ حیات ان دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی شمع روشن کرکے انھیں نئے روحانی سفر پر گامزن کرنا تھا جو دنیا کی فانی لذتوں میں غرق اور گمراہیوں میں بہک گئے تھے۔

حضرت فریدِ ملتؒ نے وقت کے مشاہیر صوفیاء سے استفادہ کیا اور اپنی روحانیت میں مزید اضافہ کیا۔ آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے علمِ ظاہری میں ایسا درجہ کمال عطا فرمایا تھا کہ شیخ الاسلام خواجہ محمد قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ جیسے ولی کامل اور عالم ربانی بھی ان کا تبحرِ علمی بڑی عقیدت اور شوق سے سنتے اور ان کی علمی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے تھے۔

حضرتِ فریدِ ملتؒ امتِ مسلمہ کو ایک جاندار قیادت فراہم کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ آپ نے اپنےعلم، معرفت اور روحانیت کی سوغات اپنے فرزندِ اَرجمند کو ان کے بچپن ہی سے منتقل کی اور دینِ اسلام کی لگن اور روحانی اعمال کے ساتھ قلبی لگاؤ ان کے شعور میں راسخ کردیا۔

علم شریعت میں مہارت کے ساتھ ساتھ، حضرت فریدِ ملتؒ علمِ باطن اور مشاہدے کی نعمت سے بھی مالا مال تھے، جس سے ان کی شخصیت اور بھی جامع و ہمہ گیر بن گئی تھی۔ اولیاء اللہ ہمیشہ چشمۂ نبوت سے فیضیاب ہوتے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل و دماغ میں دو اہم جہتیں روشن ہوتی ہیں:

1۔ روحانی واردات و احوال جو ایمان و ایقان میں پختگی لاتے ہیں۔

2۔ اعلیٰ اخلاقی اوصاف، جو انسانیت کو تکمیل کی جانب لے جاتے ہیں۔

یہ دونوں فیوضات وہ خوش نصیب افراد حاصل کرتے ہیں جو اپنی ذات کو ذاتِ مصطفیٰ ﷺ میں گم کر دیتے ہیں، اور انہیں ایسی کامل اتباع نصیب ہوتی ہے،  جس کا سرچشمہ عشقِ رسول ﷺ ہوتا ہے۔ یہی عشقِ رسولﷺ ہے جو ایک مومن کو ہر قدم پر قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور دین کا ہر تقاضا اس پر گراں نہیں گزرتا۔

رضاءِ اِلٰہی کے حصول کے لیے نالہ و فغاں اور گریہ و زاری کرنا اور درود پاک کا باقاعدگی سے وِرد کرنا اور قصیدہ بردہ شریف کے مکمل 160 اَشعار ہر رات تہجد کے بعد مدینہ شریف کی طرف منہ کر کے پڑھنا آپ کا جوانی سے ہی معمول تھا۔ حضرت فرید ملتؒ میں عشقِ رسول اور نسبتِ رسول کی پختگی کمال درجے کی تھی۔ اِسی طرح حضور غوث الاعظم کے ساتھ نسبت و پختگی بھی کمال درجہ پر تھی۔ ہر رات بلا ناغہ تہجد کے بعد اَوراد و وظائف میں قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ دیگر اَذکار کے علاوہ قصیدہ غوثیہ اور حزب البحر بھی پڑھتے۔ اِسی طرح دیگر اَولیاء کرام سے بہت گہرا روحانی تعلق اور پختہ ربط بھی آپ کو حاصل تھا، اس کا اظہار ان کی زندگی کے مختلف مراحل پر ہوتا رہتا تھا۔

کشتۂ عشقِ رسولﷺ

حضرت فریدِ ملتؒ کا خمیر بھی عشقِ رسول ﷺ سے اٹھایا گیا تھا۔ یہ عشق ہی وہ سرچشمہ تھا جس سے اعلیٰ اخلاق اور اوصافِ حمیدہ کی جڑیں پھوٹتی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ حضرت فریدالدین قادریؒ کو رسالتِ مآب ﷺ سے ایسا والہانہ عشق تھا کہ وہ ہمیشہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہتے۔ جب بھی آپ ﷺ کا اسم گرامی سنتے، آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتیں۔ آپ کی زبان ہمیشہ محبوبِ خدا کے ذکر سے تر رہتی اور درود و سلام آپ کا روزانہ کا وظیفہ تھا۔

حضرت فرید ملت ؒ کی شخصیت میں سب سے نمایاں خصوصیت آپ کا عشقِ رسول ﷺ تھا۔ آپ نے ہمیشہ اپنی زندگی کو حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالا اور اپنے تمام افعال میں آپﷺ کی محبت اور اتباع کو اپنے لیے نصب العین بنایا۔ اسی عشق رسول ﷺ کے جذبہ نے آپ کی زندگی کو سنوارا اور آپ کے وجود کو نئے معنی بخشے۔ آپ کا قلبِ مبارک اُمتِ مسلمہ کی حالتِ زار کو محسوس کرتا تھا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے آپ ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے۔ آپ کا دل امت کی فلاح اور عروج کی آرزو میں تڑپتا تھا۔ یہی وہ درد تھا جس نے آپ کو بے چین کر رکھا تھا اور جس کے غم میں آپ کا دل ہمیشہ بے قرار رہتا تھا۔ آپ کا یہ درد، عشقِ رسول ﷺ کا عکاس تھا۔ آپ کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ آپ نے اس درد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔

علمِ طب اور اردو ادب میں مہارتِ تامہ

پیشہ ورانہ اعتبار سے، ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ ایک ماہر طبیب کے طور پر جانی پہچانی شخصیت تھے۔ ان کی طب میں مہارت اور بلند مقام ایک مسلّمہ حقیقت تھی۔ طب کے میدان میں ان کی تصنیفات نے انہیں علمی دنیا میں ایک منفرد مقام دیا۔ ان کی مشہور تصنیفات میں شفاء الناس،بیاضِ فریدی،زبدۃ التجربات،تفرید الفرید شامل ہیں۔

حضرت فریدِ ملتؒ کا اردو ادب کے ساتھ بھی گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے لکھنؤ کی ادبی محافل سے فیض حاصل کیا اور لکھنو میں اپنے وقت کے عظیم شعراء کے ساتھ مشاعروں میں اپنا رنگ جمایا۔ ان کی شاعری کا انداز بے مثال اور دلکش تھا۔ آپ نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ ان کی نثری تحریریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ محض ایک طبیب اور عالم نہیں، بلکہ ایک قابلِ فخر ادیب بھی تھے۔ خاص طور پر انہوں نے اپنے ایران، عراق، شام اور سعودی عرب کے زیارتی اسفار کو خوبصورتی سے قلمبند کیا۔ ان سفرناموں میں انہوں نے ان مقدس مقامات کی زیارات کو دل کی گہرائیوں سے بیان کیا، جس میں ہر ورق، ہر سطر اور ہر لفظ ایک گہری جذباتی شدت اور سرشاری کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے ان کے روحانی تجربات اور ذاتی کیفیت اجاگر ہوتی ہیں۔ ان کے سفرناموں میں زیارت کے وہ لمحے روشن نگینوں کی طرح چمکتے ہیں، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔

تحریکِ پاکستان کے عظیم مجاہد

حضرت فریدِ ملّت نے بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں قیامِ پاکستان کی تاریخ ساز جد و جہد میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ قیامِ پاکستان کے لیے سرگرمِ عمل رہے اور قیامِ پاکستان کی حامی طلبہ تنظیموں کے پروگراموں میں بھی جوش و جذبہ سے حصہ لیتے رہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد بھی آپ نے دوسرے مسلمان رضا کاروں کے ساتھ مل کر مہاجرین کی مدد کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں۔ آپ اُن طبی ماہرین میں شامل تھے جو مہاجرین کا علاج معالجہ یکسوئی اور دِل جمعی سے کرتے رہے۔ تحریکِ پاکستان اور تعمیرِ پاکستان کی اِنہی فقید المثال خدمات کے اِعتراف میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے ریاست پاکستان کی جانب سے حضرت فریدِ ملّتؒ کے وِصال کے 48 سال بعد 3 فروری 2021ء کو اُنہیں گولڈ میڈل اور تعریفی سرٹیفکیٹ دیا۔

حضرت فریدِ ملتؒ اور شیخ الاسلام

اللہ تعالیٰ نے آپ کو قلب کی غنا کے ساتھ ساتھ درد و دلسوزی کی بے مثال دولت سے بھی نوازا تھا۔ وہ درد کون سا تھا جس نے آپ کی سکون و اطمینان کی کیفیت کو درہم برہم کر دیا تھا؟ وہ غم کس بات کا تھا جس نے آپ کے باطنی سکون کو تہہ و بالا کررکھا تھا؟ یہ درد دراصل امتِ مسلمہ کی محرومیت اور ذلت اور پستی کا درد تھا۔ آپ کو امت کی کم ہمتی کا دکھ تھا، جو آپ کے دل میں ایک گہرا سانحہ بن کر مسلسل غم و اندوہ کی صورت میں ڈھل رہا تھا۔

رسالت مآب ﷺ سے آپ کا بے پایاں عشق کا تقاضا تھا کہ آپ امتِ محمدیہﷺ کے دکھوں کو اپنے دل میں محسوس کریں اور ان کی حالتِ زار کا مداوا کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کریں۔ چنانچہ آپ کی زبان ہمیشہ ذکر میں مشغول رہتی، مگر آپ کا دل امت کی عظمتِ رفتہ اور سربلندی کی بازیابی کے لیے بے چین و مضطرب تھا۔

آپ نے حرمِ کعبہ میں حاضر ہو کر ملتزم کے مقام پر غلافِ کعبہ کو تھاما اور اللہ تعالیٰ سے اپنی دعاؤں کے ذریعے یہ درخواست کی کہ وہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک ایسا رہبر و قائد عطا فرمائے، جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے اور ان کی گمشدہ عظمت کو پھر سے بحال کرے۔

حضور نبی اکرمﷺ کی امت سے محبت، درد مندی اور اخلاص کی وہ دعائیں جو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں کیں، بالاخر اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئیں۔ اس قبولیت کی بشارت کے ساتھ آپ کا دل امید کی ایک کرن سے روشن ہو گیا، جس نے آپ کی دعاؤں اور عملی جدوجہد کو ایک نئی جہت اور نئی طاقت عطا کی۔

بارگاہِ ربوبیت میں دل کی گہرائیوں سے مانگی گئی دعا اللہ تعالیٰ کی لامتناہی رحمت اور بارگاہِ رسالت ﷺ کے وسیلہ سے قبولیت کی معراج کو پہنچی اور بشارت موصول ہوئی۔ اس بشارت کا نتیجہ وہ عظیم شخصیت تھی جس کا نام محمد طاہر تجویز کیا گیا۔ حضرت فریدالدین قادریؒ نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس خواب کی حقیقت بنانے کے لیے وقف کر دیا۔ آپ امتِ مسلمہ کو ایک جاندار قیادت فراہم کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔آپ نے اپنےعلم، معرفت، روحانیت اور اپنے باطنی جذب و کَیف اور سوز و درد کی سوغات اپنے فرزندِ اَرجمند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادی کو ان کے بچپن ہی سے منتقل کی اور ان کی اس طرح تعلیم و تربیت کا اہتمام کیاکہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے عشق و محبت، دین اسلام کی لگن اور روحانی اعمال کے ساتھ قلبی لگاؤ بچپن ہی سے ان کے شعور میں راسخ کردیا۔ ان کی دینی اور عصری تعلیم پر خصوصی توجہ دی تاکہ وہ نہ صرف مستقبل میں پیش آمدہ چیلنجز سے عہدہ برآ ہوسکیں بلکہ عقلی و نقلی دلائل سے اسلام کی حقانیت کے علم کو چہار دانگِ عالم میں لہرا سکیں۔

اوصافِ جمیلہ

عشقِ رسالت مآب ﷺ اور نسبتِ مصطفوی کا جو اعجاز تھا، اس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے حضرت فریدِ ملتؒ کو بے شمار اخلاقی اوصافِ جمیلہ سے مزین کیا۔ صدق و اخلاص، تسلیم و رضا، فقر و قناعت، زہد و ورع، صبر و استقامت اور عبادت و ریاضت میں آپ سلف صالحین کا کامل نمونہ تھے۔ آپ کی سیرت ایک ایسی زندہ کتاب تھی جس میں اعلیٰ ترین اخلاقی خصوصیات جھلکتی نظر آتی۔

حضرت فریدِ ملّت کی خلوت اور جلوت پاکیزگی کی کیفیات کے ساتھ ہمیشہ یکساں رہتیں۔ آپ حسنِ اَخلاق، طبیعت میں پاکیزگی اور عاجزی و اِنکساری کا پیکر تھے۔ آپ نے عمر بھر کسی عالم، محقق یا شیخِ طریقت یا عامۃ الناس کے بارے میں کبھی تنقیص اور تنقید کا کوئی اظہار نہ فرمایا۔ یہ آپ کی شخصیت میں موجود حیا کا ایک خوبصورت اظہار تھا۔ حضرت فریدِ ملّت کبھی کسی کے لیے تنگ دل نہیں تھے بلکہ وسیع الظرف تھے۔ سوئے ظن، حسد اور اس طرح کے رذائل سے پاک تھے۔ طبیعت متواضع تھی، سراپا عجز و اِنکسار اور حد درجہ ملنسار تھے۔ فیاضی و سخاوت، ہر انسان کے ساتھ شفقت، ہمدردی، معاونت، راہ نُمائی اور خیر خواہی کا جذبہ بدرجہ اتم آپ کے اندر موجزن تھا۔ الغرض یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوفیا کرام جن خصائص و اَوصاف، علامات و اَقدار اور محاسن و خصائل کے حامل ہوتے ہیں، حضرت فریدِ ملّت ان تمام اوصاف سے متصف تھے۔

آپ کا علمی سفر صرف کتابوں تک محدود نہیں تھا۔ آپ نے اپنی روحانی تربیت کے لیے مختلف بزرگوں سے فیض حاصل کیا۔ان بزرگوں کی رہنمائی نے آپ کو صرف علمی لحاظ سے نہیں، بلکہ روحانی طور پر بھی بلند مقام عطا کیا۔ آپ نے اپنے اس روحانی سفر کی تکمیل میں، علم کے دریچوں کو کھولا اور اس علم سے نہ صرف اپنے آپ کو روشن کیا، بلکہ اپنے گرد و نواح کی دنیا کو بھی منور کیا۔

2 نومبر 1974ء (بمطابق 16 شوال 194ھ) بروز ہفتہ جھنگ میں یہ آفتابِ علم و حکمت غروب ہوا، مگر اس کی روشنی آج بھی حق کے افق پر چمک رہی ہے۔ وہ لوگ جو اندھیروں میں حق کی روشنی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں، ہمیشہ کے لیے نور بن جاتے ہیں اور یہ نور کبھی بھی ماند نہیں پڑتا اور نہ وقت کے سخت ترین طوفانوں سے متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی موت اسے مٹا سکتی ہے۔

آج حضرت فریدِ ملتؒ کا فیض شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں دنیا بھر میں علم و حکمت کے اجالے پھیلا رہا ہے اور منہاج القرآن کے ذریعے حق کی تلاش میں سرگرداں انسانوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔