انسانی معاشرے میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا انسان کی طبعی و فطری ضرورت ہے۔ لوگوں کے باہمی تعاون کے بغیر اس کی دنیوی و اخروی مصالح کی تکمیل ہوسکتی ہے نہ ضروریاتِ زندگی کی۔ انسان کے لیے معاشرے میں دیگر ہم جنسوں کے ساتھ مل جل کر رہنا اور گزر بسر کرنا، جب اس کی ضرورت قرار پایا تو لامحالہ اس کا تعلق کسی نہ کسی حیثیت/حوالے سے دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوگا۔ اس تعلق کو بحسن و خوبی نباہنے، قائم رکھنے کا مطلب ہی معاشرتی ذمہ داریاں ہے۔
معاشرتی ذمہ داریوں کی درج بالا تعریف کی روشنی میں ہم انہیں حقوق العباد سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ قرآن و سنت کی متعدد تصریحات، تعلیماتِ نبوی اور اسوہ رسول ﷺ سے مترشح ہوتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کی نگاہ میں حقوق العباد کی ادائیگی، حقوق اللہ کی ادائیگی سے زیادہ اہمیت اور فوقیت رکھتی ہے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات کے مطابق اللہ کریم نے شرک اور کفر کے سوا دیگر بڑے سے بڑے گناہوں اور حقوق اللہ میں کوتاہی کو قابلِ معافی قرار دیا ہے جبکہ حقوق العباد یا معاشرتی ذمہ داریوں میں کوتاہی کی معافی اللہ کریم نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھی بلکہ ان بندوں کے ہاتھ میں رکھی ہے جن کے ساتھ کوتاہی یا ظلم و زیادتی عمل میں لائی گئی ہے۔ معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا مقام و مرتبہ اللہ رب العزت کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا :
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
(البقرہ، 2 : 177)
’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ کریم نے ایمان کے ساتھ ساتھ چند بڑی نیکیاں گنوائی ہیں۔ ان نیکیوں میں معاشرتی ذمہ داریوں یا حقوق العباد کی ادائیگی کو نماز، زکوٰۃ جیسے ارکان یا فرائضِ اسلام کی ادائیگی پر مقدم رکھا گیا ہے۔
صحیح مسلم (کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض) کی ایک حدیثِ قدسی (رقم 2569) کے مطابق اللہ کریم نے بعض معاشرتی ذمہ داریوں (مریض کی عیادت، بھوکے انسان کو کھانا کھلانا، پیاسے آدمی کو پانی پلانا) کی عدم ادائیگی پر سخت سرزنش کرتے ہوئے ان کی ادائیگی کو اپنے ساتھ معاملہ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ امتِ مسلمہ میں مفلس آدمی وہ نہیں جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو بلکہ وہ آدمی ہوگا جس نے دنیا میں نماز، روزہ، زکوٰۃ جیسی عبادات کے ساتھ ساتھ بعض معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہوئے بعض لوگوں کے ساتھ زیادتی کرکے ان کی حق تلفی کی ہوگی۔ اس کی نیکیاں اور عبادات لے کر ان مظلومین کے حقوق کو پورا کیا جائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
(جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شان الحساب والقصاص، الرقم : 277)
معاشرتی اخلاقی تعلیمات پر قرآن مجید میں 100 سے زائد آیات کریمہ ہیں۔ اسی طرح احادیثِ نبوی میں درج معاشرتی اخلاقی تعلیمات کے ابواب التراجم پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ سیرۃ النبی ﷺ میں معاشرتی اخلاقی تعلیمات کی کتنی اہمیت، دنیوی و اخروی برکت اور عظمت و فضیلت ہے۔ حدیث کا سارا ذخیرہ چھوڑ کر صرف صحاحِ ستہ مثلاً صحیح بخاری کی ’’کتاب الادب‘‘ اور ’’کتاب الاستیذان‘‘، صحیح مسلم کی ’’کتاب البر والصلۃ والادب‘‘، جامع ترمذی کے ’’ابواب البر والصلۃ عن رسول اللہ ﷺ ‘‘، سنن ابی داؤد کی ’’کتاب الادب‘‘ اور سنن ابن ماجہ کے ’’ابواب الادب‘‘ کے تراجم، ابواب اور عنوانات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی معاشرتی اخلاقی تعلیمات کی حد درجہ اہمیت و ضرورت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
معاشرتی ذمہ داریوں سے فرارتعلیماتِ نبوی اور اسوہ رسول ﷺ کے خلاف ہے
معاشرتی ذمہ داریوں کے شرعی فرض سے عہدہ بر آ ہونے اور ان کی ادائیگی کے ساتھ مشروط فضائل کے حصول کے لیے عقلی و نقلی طور پر ضروری ہے کہ آدمی معاشرے اور اجتماع کے اندر ہی رہے۔ ظاہر ہے جو آدمی شہری آبادیوں سے دور کسی جنگل، ویرانہ، غار یا مسجد میں جاکر بیٹھ جائے تو وہ ان معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرسکے گا۔ گوشہ نشینی، عزلت گزینی، مخلوق خدا سے کم آمیزی، جماعت سے علیحدگی، اہل و عیال، عزیز و اقارب اور دوست احباب کے تعلقات سے آزادی، دوسرے لفظوں میں معاشرتی ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرنا، تعلیماتِ نبوی اور حضور اکرم ﷺ کے عملی اسوہ کے خلاف ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے اعلانِ نبوت سے قبل اور بعد تادم زیست ایک ایسے طرزِ عمل کا نمونہ پیش کیا ہے جو مخلوقِ خدا کی خدمت، رفاہ عامہ کے اقدامات، معاشرے کی اصلاح و تعمیرکی کاوشوں، مظلوموں کی داد رسی، غربا و مساکین، غلاموں، بیواؤں، یتیموں، محتاجوں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی ہر ممکن مدد سے عبارت ہے۔
قرآن و حدیث کی متعدد نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمتِ الہٰی کا تقاضا، اللہ اور رسول ﷺ کی پسند اور پیغمبر اسلام ﷺ کا ذاتی نمونہ یہی ہے کہ انسان دنیا میں بھرپور اجتماعی اور معاشرتی زندگی بسر کرے اور خلق خدا کو نفع پہنچاکر اس حدیثِ نبوی کا مصداق بنے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
خیرالناس من ینفع الناس۔ (کنزالعمال)
تمام لوگوں میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے جو لوگوں کے لیے نفع رسانی کا کام کرتا ہے۔
ترکِ دنیا، مردم بیزاری، عزلت گزینی، خلقِ خدا کے نفع ونقصان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی نام نہاد مزعومہ روحانیت کی تسکین کے لیے جنگلوں، غاروں اور عبادت گاہوں تک اپنے آپ کو محدود و محصور کرلینا، بیوی بچوں اور ازدواجی تعلقات کو خیر باد کہہ دینا، اپنی جائز اور مباح انسانی خواہشات اور ضروریات سے کنارہ کش ہوجانا، اسلام کے مزاج اور تعلیماتِ نبوی و اسوۂ رسول ﷺ کے خلاف ہے۔
معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق ذمہ دار (راعی)
معاشرہ افراد سے عبارت ہے۔ دوسرے اور آسان لفظوں میں ہم معاشرے کو کل اور افراد کو اس کے اجزاء یا معاشرے کو ایک مشینری اور اس کے افراد کو اس کے کل پرزے قرار دے سکتے ہیں۔ جس طرح ایک مشینری کے مکمل طورپر صحیح اور تسلی بخش کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہر پرزہ اپنے اپنے دائرے میں اور اپنی اپنی جگہ پر صحیح کام کررہا ہو۔ چنانچہ ایک پرزہ بھی خراب ہوگا اور اپنی جگہ پر صحیح اور مطلوبہ کام نہیں کرے گا تو مشینری کے مجموعی کام یا نتیجہ میں فرق آجائے گا۔ بعض پرزوں کا تو اتنا مرکزی اور محوری کردار ہوتا ہے کہ ان کی خرابی ساری مشینری کی خرابی پر منتج ہوتی ہے۔
یہی معاملہ انسانی معاشرے کی صحت و خرابی کا ہے۔ جب تک ہر ایک فرد اپنی حیثیت کے مطابق اپنے دائرے میں اور اپنی جگہ پر معاشرے کی اصلاح و فلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے کردار ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک معاشرہ عروج و ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی امن و امان اور ہمہ جہتی اطمینان و سکون کے اعتبار سے جنتِ نظیر بن سکتا ہے۔ چنانچہ اولین و آخرین تمام لوگوں سے زیادہ عقل و دانش کے حامل، دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل اور اللہ کے آخری، دائمی اور آفاقی رسول سیدنا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ نے درج بالا معاشرتی ذمہ داری پر متنبہ کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں فرمایا :
الا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ فالامام الذی علی الناس راع وھو مسئول عن رعیتہ والرجل راع علی اہل بیتہ وھو مسئول عن رعیتہ والمراۃ راعیۃ علی اھل بیت زوجھا وولدہ وھی مسئولۃ عنھم وعبدالرجل راع علی مال سیدہ وھو مسئول عنہ الافکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الاحکام، باب قول اللہ : اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ۔۔۔ 2 : 1057، الرقم : 179)
خبردار! آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک فرد (اپنے دائرے میں) نگران/ محافظ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت (زیر نگرانی افراد، ا شیاء) سے متعلق پوچھا جائے گا ۔پس (اس قاعدہ کے مطابق) لوگوں پر امیر/ حاکم نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے پوچھا جائے گا اور ہر آدمی اپنے اہل خانہ پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت (زیر نگرانی افراد) سے متعلق باز پرس کی جائے گی اور ایک عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کی اولاد کی نگران ہے اور اس سے ان سے متعلق سوال کیا جائے گا اور اسی طرح ایک آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال پر نگران ہے اس سے اس کے بارے پوچھا جائے گا ۔پھر سن لو! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت (زیر نگران افراد/ اشیاء) کی بابت پوچھا جائے گا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس آدمی کا کوئی اہل و عیال اور خادم و غلام نہ ہو تو وہ اس حدیث کے عموم میں کیسے داخل ہوگا؟ اور وہ اس حدیث کے مطابق کس چیز کا نگران ہوگا؟ تو اس کا جواب شارحین نے یوں دیا ہے کہ ایسا آدمی اپنے اعضاء و جوارح کا نگران ہوگا کہ وہ انہیں ماموراتِ شرعیہ میں استعمال کرے اور ممنوع چیزوں سے انہیں روک کر رکھے ۔پس اس کے اعضاء و جوارح، اس کے قویٰ اور اُس کے حواس اس کی رعیت ہوں گے۔
یہ امر غور طلب ہے کہ حضور انور ﷺ کی زبانِ مبارک پر لفظ رعیت نہایت شفقت آمیز اور پُرمحبت معنوں میں آیا ہے۔ جس طرح ایک چرواہا اپنی بکریوں اور جانوروں کو سر سبز چراگاہوں میں لے جاتا ہے اور ان کی شکم سیری کا سامان کرتا ہے، درندوں سے ان کی حفاظت کرتا ہے اور حادثات سے ان کو بچاتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص بھی اپنے زیرِ نگرانی افراد کی ہر طرح کی حفاظت و تربیت کا ذمہ دار ہے۔
معاشرتی بگاڑ کی اصلاح، ہر فرد کی معاشرتی ذمہ داری
پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اتنا ہی کافی نہیں کہ وہ اپنی ذاتی اور انفرادی اصلاح و درستگی کو مدنظر رکھے اور اس کے بعد اس کو اس بات سے کوئی سروکار نہ ہو کہ اس کے اردگرد معاشرے میں کیا ہورہا ہے؟ اور معاشرہ کس قسم کے اخلاقی، سماجی معاشرتی بگاڑ اور کن ہولناک خرابیوں کا شکار ہورہا ہے؟
اس سوچ اور طرزِ عمل کے حامل لوگ سورۃ المائدۃ کی اس آیت کے ظاہر الفاظ سے بھی استدلال کرتے ہیں :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ ؕ
(المائدۃ، 5 : 105)
’’ اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کون قرآن مجید کی مراد کو سمجھنے والا ہوگا۔ اس لیے انھوں نے درج بالا آیت کے ظاہر الفاظ سے مذکورہ استدلال کرنے والوں کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمایا :
اے لوگو! تم اس آیت کے ظاہری معنیٰ سے استدلال کرتے ہوئے معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے باز رہتے ہو، جبکہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ بے شک لوگ جب کسی ظالم کو دیکھتے ہیں اور (روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود) اس کے ہاتھ نہیں پکڑ لیتے تو ممکن ہے اللہ انہیں بھی (ظالم کے ساتھ) عمومی سزا میں مبتلا فرمائے۔
(جامع الترمذی، ابواب التفسیر، سورۃ المائدہ، الرقم : 3016)
کسی معاشرتی اور عمومی بگاڑ/ خرابی کا نقصان اس کے مرتکب کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے برے اور تکلیف دہ اثرات متعدی ہوتے ہیں اور سارے معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔اسی لیے فقہائے اسلام نے قرآن و سنت کی عمومی تعلیمات کی روشنی میں یہ فقہی قاعدہ وضع کیا ہے :
ردا المفاسد اولی من جلب المصالح
خرابیوں کا دور کرنا مصلحتوں/ منافع کے حصول سے مقدم اور زیادہ ضروری ہے۔
(ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ص 76)
اللہ کے رسول ﷺ اپنی نگاہ و نورِ نبوت سے چونکہ ان منفی اثرات کو دیکھ رہے تھے، اس لیے آپ ﷺ نے ہر فرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان
(مسلم، الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب بیان النھی عن المنکر من الایمان)
تم میں سے جو آدمی کسی (چھوٹی بڑی) برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ۔پھر اگر وہ اس برائی کو ہاتھ سے روک دینے کی استطاعت نہ پاتا ہو تو اپنی زبان سے اسے روکے اور اگر زبان سے بھی اس برائی کو روکنے کی ہمت نہ ہو تو اپنے دل سے (اسے غلط اور برا سمجھ کر) اس سے رکنے کی کوشش کرے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
بیسیوں معاشرتی خرابیاں؛ معاشرتی اور دنیوی و اخروی نقصانات کا باعث بن رہی ہیں، ان میں؛ غیبت، چغل خوری، دوغلا پن، جھوٹ، لعن طعن، گالی گلوچ، ایذاء رسانی، باہمی بغض و حسد، تجسس، مسلمانوں کو حقیر سمجھنا، تکبر، بڑائی، ملاوٹ دھوکہ دہی اور اس قبیل کی برائیاں شامل ہیں۔ یہ وہ عمومی معاشرتی خرابیاں ہیں جنھوں نے معاشرے کے امن و امان کو تباہ کردیا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس وقت تعلیمات نبوی ﷺ سے دوری، اغیار کی پیروی کا شوق، مذہبی و روحانی اور سیاسی خود غرضی، قومی و ملی مفاد کی بجائے ذاتی، گروہی، جماعتی، سیاسی اور مالی مفادکو ترجیح دینے، من حیث القوم نفس پرستی، دولت کی پوجا، عام طور پر جہالت، طبقاتی تقسیم، ناانصافی، معاشی ناہمواری، عدم مساوات، پارٹی بازی، لڑائی جھگڑا، اجتماعات میں بدزبانی، بدکلامی، گالم گلوچ جیسی معاشرتی قباحتوں کے باعث وطنِ عزیز اس وقت عمومی طور پر جس معاشرتی بگاڑ، نفرت، دوری، باہمی تعصب، عدمِ برداشت، اپنے مخالفین کی سرعام پگڑی اچھالنے، ہتک آمیز اور توہین آمیز رویہ اختیار کرنے، بازاری زبان بولنے، عیش کوشی، کرپشن، اقرباء پروری، رشوت خوری، سود خوری، میرٹ کی خلاف ورزی اور سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی جیسی معاشرتی خرابیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
بعثتِ نبوی ﷺ کے وقت عرب بلکہ ساری دنیا میں جو حد درجہ معاشرتی بگاڑ کی صورت حال تھی، اس کی طرف قرآن مجید نے اپنے معجزانہ ایجاز میں یوں اشارہ کیا ہے :
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ.
’’بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں۔‘‘
(الروم، 30 : 41)
نبی رحمت ﷺ نے اپنے درد و سوز، اخلاصِ نیت، بے لوث خدمت، لگن، محنت اور سچے جذبہ سے اگر اس معاشرے کو جنت نظیر بنالیا تھا اور عرب کے اجڈ، امی، غیر منظم اور غیر تربیت لوگوں کو قعرِ مذلت سے اٹھا کر اوجِ ثریا تک پہنچادیا تھا، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم آپ ﷺ کی تعلیمات اور سیرت طیبہ ﷺ پر عمل کرکے مذکورہ معاشرتی خرابیوں کو دور نہ کرسکیں۔
افراد کی اعانت؛ ہماری معاشرتی ذمہ داری
اللہ کریم نے اپنی تکوینی حکمتوں اور مصلحتوں کے مد نظر دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے لوگوں کے درمیان مختلف اعتبارات سے درجہ بندی قائم فرما رکھی ہے۔ نبی رحمت ﷺ کی تعلیم، سیرت اور عملی اسوہ یہ ہے کہ معاشرے کے کمزور، ضرورت مند، محتاج، بے آسرا لوگوں کی اپنی استطاعت کے مطابق دامے درمے سخنے مدد کی جائے، ان کی مشکلات کو دور کیا جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے اور ہر ممکن خلقِ خدا کی خدمت کی جائے۔ دنیا کے عام سیاسی و مذہبی لیڈروں اور رہنماؤں کی طرح یہ آپ ﷺ کا محض سیاسی نعرہ اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے دکھاوے کا ’’سلوگن‘‘نہیں تھا بلکہ یہ آپ ﷺ کی رحمۃ للعالمینی کا تقاضا، آپ ﷺ کی فطرتِ سلیمہ اور اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ کی طبیعتِ ثانیہ اور عمومی عادت تھی۔
یہی وجہ ہے کہ پہلی آسمانی وحی کے نازل ہونے پر آپ ﷺ نے اپنی رفیقہ حیات سیدہ خدیجۃ الکبریٰرضی اللہ عنہا کے سامنے اپنی جان پر خدشے کا اظہار کیا تو انھوں نے آپ ﷺ کی انسان دوستی، انسانی ہمدردی اور کمزور لوگوں کی اعانت کے اوصاف و خصائل کو دلیل بناتے ہوئے صحیح بخاری کے الفاظ میں آپ ﷺ کو یوں تسلی دی :
کلا واللہ مایخزیک اللہ ابدا انک لتصل الرحم و تحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق
(بخاری، الجامع الصحیح، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ)
ہر گز ایسا نہیں کہ آپ ﷺ کی جان کو خطرہ ہو۔ قسم بخدا! اللہ کریم آپ ﷺ کو کبھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا کیونکہ بے شک آپ ﷺ صلہ رحمی فرماتے ہیں، کمزور/ بے آسرا آدمی کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مفلسوں/ ناداروں کو کما کر دیتے ہیں۔ مہمان نوازی فرماتے ہیں اور حق کی وجہ سے پہنچنے والے مصائب میں اہلِ حق کی اعانت کرتے ہیں۔
یہ آپ ﷺ کے ذاتی طرزِ عمل پر سب سے بڑی مستند اور ناقابلِ تردید شہادت ہے۔
ایک اور مسلّمہ اور عینی گواہی اس دور کی بھی ملاحظہ فرمالیجئے جب آپ ﷺ اللہ کا محبوب اور رسول ہونے کے ساتھ ساتھ دس بارہ لاکھ مربع میل کے حکمران بھی تھے۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی چشم دید گواہی کے مطابق آپ ﷺ کے گھروں میں فقرو فاقہ کا یہ عالم تھا کہ دو دو ماہ تک گھروں میں چولہا نہیں جلتا تھا بلکہ صرف کھجور اور پانی پر گزارا ہوتا تھا۔
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا، 1 : 449)
اس کا سبب حاضر باش صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بقول یہ تھا کہ آپ ﷺ کے ہاں مہمانوں کی کثرت رہتی۔ دوسرے مفلس لوگ کھانے کے لیے آپ ﷺ کے ساتھ چمٹے رہتے۔ علاوہ ازیں آپ ﷺ جب بھی کھانا تناول فرماتے تو آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے صحابہ اور وہ اہلِ حاجت بھی شریک ہوجاتے جو مسجد سے ہی آپ ﷺ کے پیچھے آجاتے تھے۔
(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 409)
معاشرے کے ضرورت مند اور حاجت مند لوگوں کے ساتھ نبی رحمت ﷺ کی کمال ہمدردی، خیر خواہی اور تعاون کی یہ ایک جھلک ہے، ورنہ معاشرے کے کمزور طبقات پر نوازشاتِ نبوی سے حدیث اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
الغرض سیرۃ النبی ﷺ کی روشنی میں ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم صرف اپنی ذاتی، خاندان اور اپنے اہل و عیال کی فلاح و بہبود اور ان کی بہتر سے بہتر زندگی کے لیے فکر مند نہ رہیں بلکہ معاشرے کے کمزور، پسے ہوئے اور نظر انداز کیے گئے لوگوں کی بھی فکر کریں۔ معاشرے کے بے سہارا، بے آسرا، یتیم بچے، بیوہ عورتیں، فقراء و مساکین کی ہر ممکن اخلاقی، مالی، قانونی اعانت کی بے لوث خدمت کرکے ہم عاقبت سنوارنے کے ساتھ دنیا میں بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں، برکات اور خوشنودی کا مستحق ٹھہرا سکتے ہیں۔ فقط اپنے لیے، اپنے کاروبار اور اپنے اہل و عیال کے لیے جینا کوئی کمال نہیں، کمال یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے جیے اور مرے۔