اداریہ: شہراعتکاف اور اَخلاقی اسباق

چیف ایڈیٹر

الحمدللہ 10روزہ شہرِ اعتکاف توفیقات ایزدی اور تمام تر خیر و برکات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے ہزار ہا معتکفین اس شہر اعتکاف کا حصہ بنے۔ عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ اِصلاحِ اَحوال، تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے اعتبار سے یہ اعتکاف یادگار رہا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے مسلسل 10راتیں عشق الٰہی اور لذتِ توحید کے موضوع پر گفتگو فرمائی۔ اُن کی گفتگو کاایک ایک حرف چشم کشا اور راحت آفریں تھا۔ اس موضوع پر 10دنوں میں آپ نے 25گھنٹے سے زائد دورانیہ کا خطاب فرمایا۔ بلاشبہ ایک موضوع پر اتنی طویل گفتگو کرنا اور پھر ہزار ہا معتکفین کا یکجا اور یکسو ہو کر سماعت کرنا ایک ایسا تحسین آفریں اور ایمان افروز منظر ہے جسے سماعت کرنے والے اس کے سحر سے طویل عرصہ تک باہر نہیں نکل سکیں گے اور استعداد اور استطاعت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔

شیخ الاسلام کے خطابات کا نفسِ مضمون اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے بے پناہ عشق و محبت اور انسانیت کا احترام تھا۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ اپنے اَخلاق اور کردار سنواریں، خدمتِ خلق کریں، اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے اَحکامات بجالائیں اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی پابندی کریں۔ عشق عمل مانگتا ہے، خالی نعرے فقط نفس کا دھوکہ ہے۔ آپ نے عدل و انصاف پرزور دیا، مظلوموں کی مدد کی تحریک دی، ہر حال میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ حُسن سلوک کی تعلیم دی اور سماعت کرنے والوں کو باور کروایا کہ اسلام دینِ امن و رحمت ہے، اگر محبت اور پیار کو اسلام کی تعلیمات سے نکال دیا جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔

شیخ الاسلام نے اسی مضمون کو اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’اِسلام دینِ امن و رحمت ہے‘‘ میں بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انسانوں پر ظلم کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ کا اعلان اور فرمان ہے ’’بے شک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا‘‘۔ کوئی شخص بھول کر بھی تصور نہ کرے کہ اُس کا جتنا حق بنے گا، اللہ اُس سے کم دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جب معاملہ کرتا ہے تو کم سے کم عدل کا معاملہ کرتا ہے، جس شخص کا جو حق ہے اُسے پورا پورا عطا فرماتا ہے۔ اللہ کے بندوں کے لئے اللہ کا یہ حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈور، اُس کے عدل سے بھی ڈرو، اگر اُس نے ہمارے ساتھ عدل کا معاملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر ہماری خیر نہیں، پھر چھوٹے سے چھوٹے گناہ بھی گرفت میں آجائیں گے، مواخذہ ہو گا اور وہ کبائر بن جائیں گے، اگر اُس نے فیصلہ کر لیا کہ میں اس بندے سے فضل کا معاملہ کرتا ہوں تو اس سے بڑے بڑے کبائر بھی صغائر ہو جائیں گے کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ کا طرز عمل اور رجحان معافی اور درگزر کا ہو جائے گا۔ اگر عدل کا معاملہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو ہر چیز کا حساب و کتاب ہو گا، اگر عدل کے تقاضے پورے کئے گئے تو پھر بخشش کی کوئی گنجائش نہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کوئی شخص ہم میں سے ایسا نہیں جس کے عمل اُس کو بخشوا کر جنت میں لے جائیں یعنی کوئی شخص محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہیں جائے گا۔ آپ ﷺ نے اس بات کو تین بار فرمایا۔ صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کانپ اُٹھے، خوف زدہ ہو گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ معاملہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ بھی اسی طرح ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے بھی، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔لہٰذا سیدھی راہ پر چلو، میانہ روی اختیار کرو، صبح شام اور رات کے آخری کچھ حصے میں باقاعدگی سے کچھ نیک عمل کرتے رہو، راہ راست پر چلتے رہو، یہاں تک کہ منزل مقصود تک جا پہنچو‘‘۔ یعنی حضور نبی اکرم ﷺ بھی اپنے اطاعت گزار اصحاب سے فرمارہے ہیں کہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہیں، میانہ روی اختیار کریں، اپنی عبادات، اپنی ظاہری دولت، حسب، نسب، جاہ و حشم پر کبھی نہ اترائیں۔ اللہ رب العزت کو عاجزی، انکساری اور میانہ روی پسند ہے۔ جنت میں داخلہ اللہ کے فضل کا مرہون منت ہے۔

شیخ الاسلام اپنے خطابات میں عاجزی و انکساری پیدا کرنے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کو ہر حال میں بجالانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اُن کے خطابات میں فکرِ آخرت نمایاں ہوتی ہے۔ جو لوگ حج، عمرہ اور اپنی نمازوں کو فقط نیک اعمال تک محدود کرتے ہیں وہ اپنی اِصلاح کریں۔ اپنے پڑوسی اور اپنے اعزا و اقارب سے حُسنِ سلوک کریں۔ جو لوگ اپنے اعزا و اقارب کی تکلیف کا احساس نہیں کرتے، دکھاوے کے لئے بڑی بڑی خیرات کرتے ہیں، مساجد بنواتے ہیں، دسترخوان لگواتے ہیں مگر اُن کی نظر اپنے بھوکے خونی رشتہ دار پر نہیں پڑتی تو اُس شخص کو اس کے یہ نمائشی اقدامات کچھ فائدہ نہ دیں گے۔ یاد رکھیں ہم پر ماں، باپ، بہن، بھائیوں، بیوی، بچوں اور خونی رشتے داروں کا حق سب سے پہلے ہے۔ قریب والا آپ کی سخاوت اور مدد کا زیادہ حق دار ہے۔ ہمارے عمومی رویے یہ ہیں کہ ہم اپنے قریب والوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ وہ سارے نیک اعمال ہیں جو ہم سے رخصت ہو چکے ہیں مگر حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں یہ اعمال بڑی اہمیت اور فضیلت کے حامل ہیں۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پیغمبرِ اسلامﷺ کی انہی تعلیمات کے فروغ و احیا پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اگر ہم مصطفوی سیرت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو ہمارا سماج جنت نظیر ہوجائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انسانوں کے طور طریقے اور مزاج بدلنے پر بہت محنت کی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے کے ظاہری و باطنی عیب تلاش مت کرو، تناحش نہ کرو( کسی کو پھانسنے کے لئے کسی چیز کی زیادہ قیمت نہ لگاؤ) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ اس خوبصورت حدیث مبارک کے اندر ایک خوبصورت اور کامیاب زندگی کے تمام راز پنہاں ہیں۔ اگر ہم مذکورہ عوارض سے بچ جائیں گے تو ہماری زندگی خوبصورت بن جائے گی اور اگر ان عوارض سے پیچھا نہیں چھڑائیں گے تو ہماری زندگی جہنم زار ہو جائے گی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف میں شرکاء کی توجہ اس امر کی طرف بھی مبذول کروائی کہ یہ وہ دور ہے جس میں ذہنی و فکری فتنہ و انتشار پھیلایا جا رہا ہے اور لادینیت و دہریت اپنے عروج پر ہے۔ قول و فعل سے طہارت رخصت ہوگئی ہے۔ ہر طرف منافقت، منافرت، حقارت، غیبت، چغلی، بے ایمانی، بد دیانتی، خیانت، ظلم و جبر، ناانصافی ہے۔ انسان کے اندر سے انسانیت مر گئی ہے۔ عالَم مغرب اور یورپ کی زمینیں جہاں توحید اور رسالت پر ایمان نہیں، مگر انسانی اخلاقیات کے اعتبار سے وہ معاشرہ ہمارے معاشرے سے سو گنا بہتر ہے۔

شہر اعتکاف کے شرکاء کے توسط سے انھوں نے امت مسلمہ بالخصوص پاکستانی قوم کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگیا؟ ہم کیوں ایسے ہوگئے؟ ہم ذلت اور جہالت کےاِن گڑہوں میں کیسےپہنچ گئے؟یاد رکھیں موجودہ تباہی کا ذمہ کسی فرد واحد یا حکمرانوں، سیاست دانوں کو ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ اگر عوام بددیانت، دروغ گو، قانون شکن، بے رحم ہوں گےتو حکمران اس سے دو گنا زیادہ برے ہوں گے۔ سوسائٹی میں ظلم اس لیے ہوتا ہے کہ عوام ظلم کو قبول کرتے ہیں۔ ناانصافی اس لیے ہے کہ عوام اپنے اعمال اور معاملات میں خود ایسے ہیں۔ اگر عوام ٹھیک ہوں تو حکمران بھی ٹھیک ملیں گے۔ لہذا اپنے نفس کو سنواریں، اپنے دل و دماغ کو سنواریں، اپنی سوچوں کو درست سمت دیں، اچھائی اور برائی میں تمیز پیدا کریں، حق اور باطل میں فرق پیدا کریں، پاکیزگی اور غلاظت میں فرق پیدا کریں، حلال اور حرام میں فرق پیدا کریں، سوچوں میں اللہ کے اَمر اور نہی میں فرق پیدا کریں اور خیر اور شر میں فرق سمجھیں۔

محترم قارئین! منہاج القرآن فی الوقت کرۂ ارض کی وہ واحد دینی و اصلاحی تحریک ہے جس نے ہزارہا خطابات اور سیکڑوں کتب کی صورت میں اُمت کو علم کا ذخیرہ دیا ہے۔ عقائد و ایمانیات سے متعلق کوئی ایک ایسا موضوع نہیں ہے جس پر کتاب موجود نہ ہو۔ دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تحریک کا ہر رفیق اور کارکن شیخ الاسلام کے خطاب اور کتاب دونوں سے جڑا رہے اور ہر طبقہ زندگی تک ان تعلیمات کو پہچانے کے لئے اپنی کاوشیں بروئے کار لائے۔اللہ رب العزت ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین اور تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔