مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: کیا روزے کے لئے نیت کرنا ضروری ہے؟

جواب: جی ہاں! روزے کی درستگی کے لئے نیت سب سے اوّل درجہ رکھتی ہے وگرنہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور مجامعت سے بچے رہنے سے تو ہرگز روزہ نہیں ہو گا۔ جمہور ائمہ کے نزدیک ہر روزے کی الگ نیت ضروری ہے البتہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک پورے رمضان المبارک میں پہلے روزے کی نیت ہی کافی ہے بشرطیکہ پورے ماہ میں روزوں کا تسلسل قائم رہے۔

نیت کے لئے زبان سے اظہار کرنا ضروری نہیں ہے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے لیکن اگر نیت کے مسنون و مستحب الفاظ زبان سے دہرا لئے جائیں تو افضل ہے ورنہ اگر کوئی دل سے ارادہ کر کے سحری کے وقت روزہ رکھنے کے لئے اٹھا اور کچھ کھا پی کر روزہ رکھ لیا تو یہی اس کی نیت ہے۔

سوال: کیا روزہ توڑنے کی نیت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب: اگر کسی روزہ دار نے روزہ رکھنے کے بعد روزہ چھوڑنے کی نیت کی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اس لئے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے :

’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے دل میں پیدا ہونے والی باتیں معاف کی ہیں۔ جب تک وہ زبان پہ نہ آجائیں یا ان پر عمل نہ کر لیا جائے۔‘‘

(بخاری، الصحيح، کتاب العتق، باب الخطاء و النسيان فی العتاق و الطلاق و نحوه...، 2: 894، رقم :2391)

سوال: سحری کا وقت کب ختم ہوتا ہے، کیا اس کے بعد کچھ کھانا جائز ہے؟

جواب : سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد کچھ بھی کھانا پینا جائز نہیں کیونکہ سحری کا وقت رات کے آخری نصف سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے چند لمحے قبل تک باقی رہتا ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر آپ نماز کے لئے اٹھے، (راوی کہتے ہیں) میں نے ان سے دریافت کیا : اذان اور سحری میں کتنا وقفہ تھا (یعنی حضور ﷺ نے اذان سے کتنی دیر قبل سحری کی تھی)؟ انہوں نے فرمایا : پچاس آیات پڑھنے کے برابر۔

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب قدر کم بين السحور و صلاة الفجر، 2: 678، رقم: 1821)

جمہور فقھاء کے نزديک اگر صبح صادق ہونے ميں شک ہو تو کھا پی سکتے ہیں، ليکن جب صبح صادق کا يقين ہو جائے تو رک جانا ضروری ہے۔ کوئی شخص سحری میں اتنی تاخیر کر بیٹھے کہ اذان شروع ہو جائے تو اس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

إِذَا سَمِعَ أَحَدَکُمْ النِّدَاءَ، وَالْاِنَاءُ عَلَی يدِه فَلَايضَعْه حَتَّی يقْضِيَ حَاجَتَه مِنْه.

(ابو داود،السنن، کتاب الصوم، باب فی الرجل يسمع النداء، 2: 292، رقم :22350)

’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضروریات پوری کیے بغیر اسے نہ رکھے۔‘‘

سوال: سحری میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کرنے میں کیا حکمت ہے؟

جواب: سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا عمر بھر یہ معمول رہا ہے کہ آپ ﷺ سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی فرماتے۔سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی کرنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور انسان بھوک پیاس کی شدت سے محفوظ رہتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُمت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کیا کرو خواہ پانی کا ایک گھونٹ، کھجور کا ایک ٹکڑا یا منقی کے چند دانے ہی کیوں نہ ہو۔

اسی طرح افطاری جلد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس طرزِ افطاری سے یہود و نصاریٰ کی مخالفت مقصود ہے کیونکہ یہود و نصاریٰ روزہ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ ستاروں کے ظاہر ہونے تک انتظار کرتے ہیں جس سے نجوم پرستی کا شائبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب تک امتِ مسلمہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی اس وقت تک سنت کی پابندی اور حدودِ شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہے گی۔

سوال:کھجور سے روزہ افطار کرنے میں کیا حکمت ہے؟

جواب: کھجور سے روزہ افطار کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ کھجور غذائیت سے بھرپور پھل ہے۔ اس سے جسمانی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ روزے سے جسمانی توانائی میں کمی ہو جاتی ہے اور اس وقت ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس کے کھانے سے جسم کی توانائی بحال ہو جائے۔ اس صورت میں کھجور توانائی اور شکر کی کمی کو پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کھجور کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مختلف حوالوں سے فرمایا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی کھجور کی افادیت، غذائی اہمیت اور طبی فوائد بیان کئے گئے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ (مغرب) کی نماز سے پہلے چند تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اگر تر کھجوریں بروقت میسر نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں (چھوہاروں) سے افطار فرماتے تھے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہوتیں تو چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔

(ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء ما يستحب عليه الإفطار، 2: 73، رقم: 696)

آپ ﷺ کے اس عمل کو اگر سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم کھجور سے افطاری کرتے ہیں تو اس کی مٹھاس منہ کی لعاب دار جھلی میں فوری جذب ہو کر گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے جس سے جسم میں حرارت اور توانائی بحال ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر تلی ہوئی یا مرغن چٹخارے دار چیزیں استعمال کی جائیں تو اس سے معدے میں حدت اور کثرتِ تیزابیت کے باعث سینے کی جلن اور بار بار پیاس لگتی ہے۔ جس سے Digestive Enzymes تحلیل ہو جاتے ہیں جو معدے کی دیواروں کو کمزور کرتے ہیں اور تبخیر کا سبب بنتے ہیں جبکہ کھجور سے افطاری کرنے کی صورت میں نہ تو معدے پر بوجھ پڑتا ہے اور نہ ہی معدے میں Hydrochlooricacid کی زیادتی ہو کر تبخیر کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں کھجور میں بے شمار طبی فوائد ہیں مثلًا بلغم اور سردی کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ ضعفِ دماغ رفع کرتی اور نسیان کو دور کرتی ہے۔ قلب کو تقویت و فرحت بخشتی اور بدن میں خون کی کمی یعنی anemia کو دور کرتی ہے۔ گردوں کو قوت دیتی، امراض تنفس میں بالعموم اور دمہ میں مفید و مؤثر ہے۔عربوں میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال اور فوائد ہیں۔

سوال: حالتِ روزہ میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا کیا حکم ہے؟

جواب : روزہ دار حالتِ روزہ میں کلی بھی کر سکتا ہے اور ناک میں پانی بھی ڈال سکتا ہے لیکن پانی ڈالنے اور کلی کرنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے جبکہ عام حالات میں اس میں مبالغہ کرنے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :

اَسْبِغِ الْوُضُوْءَ وَخَلِّلْ بَيْنَ الاَصَابِعِ وَبَالِغْ فِي الإِسْتِنْشَاقِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا.

(ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ماجاء فی کراهية مبالغة الإستنشاق للصّائم، 3: 155، رقم :788)

’’کامل وضو کرو، انگليوں کا خلال کرو اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو۔‘‘

کلی میں مبالغہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منہ بھر کر پانی لے کر بار بار غرغرہ کرے جس سے حلق میں پانی جانے کا اندیشہ ہو اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ یہ ہے کہ جہاں تک ناک کی نرم ہڈی ہو وہاں تک پانی کا بار بار ڈالنا کہ پانی ناک کی جڑ تک پہنچ جائے۔

یاد رہے کہ اگر کلی کرتے وقت بلاقصد پانی حلق میں چلا گیا یا ناک میں خوب اچھی طرح سانس کھینچ کر پانی ڈالا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا جس کی بعد ازاں قضا واجب ہے لیکن اگر روزہ دار کو اپنا روزہ دار ہونا بھول گیا تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

سوال: بھول کر کھانا کھانے سے روزہ کیوں نہیں ٹوٹتا؟

جواب : بھول کر کھانے سے روزہ اس لئے نہیں ٹوٹتا کہ اس میں روزہ دار کا ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ نَسِيَ وَهُوَ صَائِمٌ، فَأَكَلَ أَوْ شَرِبَ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللهُ وَسَقَاهُ.

(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب أکل الناسي وشربه وجماعه لا يفطر، 2: 809، رقم :1155)

’’روزہ کی حالت میں جو شخص بھول کر کچھ کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ ﷺ ! میں حالتِ روزہ میں بھول کر کھا پی بیٹھا ہوں (اب کیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔‘‘

(ابو داؤد، السنن، کتاب الصيام، باب من أکل ناسياً، 2: 307، رقم: 2398)

جمہور ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لے تو اس پر نہ قضا واجب ہے اور نہ کفارہ بلکہ وہ اپنا روزہ پورا کرے۔ وہ اس کھائے پیے کو اللہ کی طرف سے مہمانی شمار کرے کہ اس نے اپنے بندے کو بھلا کر کھلا پلا دیا لیکن اگر کھاتے پیتے وقت روزہ یاد آیا تو جو کھا پی چکا وہ معاف، ہاں اب کھانے کا یا پانی کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہ جانے دے بلکہ اب جو کچھ منہ میں ہے اسے فوراً باہر نکال دے۔

سوال:اگر دھواں، غبار، عطر کی خوشبو یا دھونی حلق یا دماغ میں چلی جائے تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب: روزہ دار کے حلق میں غبار، عطر کی خوشبو، دھونی یا دھواں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر کسی روزہ دار نے غبار یا دھویں کو قصدًا اپنے حلق میں داخل کیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

سوال:کیا قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب: قے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم ہو یا زیادہ لیکن اگر خود اپنے فعل اور کوشش سے قصدًا قے کی جائے اور منہ بھر کر ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

مَنْ ذَرَعَهُ القَيْئُ فَلَيسَ عَلَيه قَضَاءٌ، وَمَنِ اسْتقَاءَ عَمْدًا فَلْيقْضِ.

( ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فیمن استقاء عمداً، 2: 90، رقم :720)

’’جس شخص کو (حالتِ روزہ میں) از خود قے آ جائے تو اس پر قضاء نہیں اور (اگر) جان بوجھ کر قے کی تو وہ (اس روزہ کی) قضاء کرے۔‘‘

سوال: کیا دانتوں سے خون نکلنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب: دانتوں سے خون نکل کر حلق میں داخل ہو جائے یا خود اسے نگل لیا جائے ایسی صورت میں خون اگر تھوک پر غالب ہے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اس صورت میں صرف قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں اور اگر تھوک خون پر غالب ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

سوال: کیا کسی مریض کو حالتِ روزہ میں خون دینا جائز ہے؟

جواب : جسے خون دیا جاتا ہے اسے تو لازمی طور پر روزہ افطار کرنا ہے البتہ خون دینے والا اپنی صحت کا خیال کرے۔ خون دینے سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ کمزوری لاحق ہو جاتی ہے۔ اس لئے خون دینے والے کو اپنی صحت کے مطابق ایسا قدم اٹھانا چاہئے جس سے اس کا روزہ بھی برقرار رہے اور شدید نقاہت بھی نہ ہو۔ ہاں اگر ایمرجنسی ہے تو ظاہرًا بات ہے کہ کسی انسان کی جان بچانا فرض ہے، لہٰذا بایں صورت ضعف برداشت کرے۔