ضرورتِ مذہب اور وجودِ باری تعالیٰ (دوسرا حصہ)

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

گذشتہ سے پیوستہ

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ لامذہبیت اور دہریت کی طرف رجحان رکھنے والے نوجوان اذہان کے سامنے حقیقتِ حال واضح کی جائے تاکہ وہ اس طرح کے مسائل کا شکار ہو کر اپنے ایمان، اعتقاد، مذہب اور دین سے متزلزل نہ ہوں۔ یہ فتنہ اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ آج پاکستان میں ایسی آن لائن پلیٹ فارمز آرگنائزیشن وجود میں آ گئی ہیں کہ جہاں پر ہزار ہا officially رجسٹرڈ دھریے ہیں جو مسلم طبقات سے نکلے ہیں۔ اس طرح کئی معروف سوشل میڈیا شخصیات ایسی ہیں جو اصلاً اپنی فکر میں لامذہب اور دھریے ہیں لیکن ظاہراً پروفیشنل ازم professional thoughts اور sharing کا ایک ایسا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو ان کے اصلی عقائد تک پہنچنے نہیں دیتے اور غیر محسوس انداز میں ایسے افکار کو لوگوں میں داخل کرتے ہیں۔

1۔ مذہب اور وجودِ باری تعالیٰ کے جملہ منکرین کے مشترکات

وہ تمام معروف کتب جنھیں دہریے (ethist) پوری دنیا میں اپنی اصل اور بنیاد قرار دیتے ہیں اور جن میں انھوں نے اپنے تمام افکار اور عقائد جمع کیے ہیں اور وہ تمام شخصیات جو دہریوں کے لیے fathers کی حیثیت رکھتی ہیں ان شخصیات اور ان کتب کے مطالعہ سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ان تمام منکرین میں درج ذیل دو امور مشترک ہیں:

1۔ نفسیاتی و ذہنی مریض

2۔ ماضی میں متشدد مذہبی سوچ کے حامل

(1) نفسیاتی و ذہنی مریض

اللہ تعالیٰ کے وجود اور ضرورتِ مذہب کا انکار کرنے والے وہ تمام لوگ جو اس سوچ کے ’’قائدین‘‘ کہلاتے ہیں، ان تمام میں ایک وجۂ اشتراک یہ ہے کہ وہ سارے ذہنی مریض تھے۔ میں یہ بات غصے سے کہہ رہا ہوں اور نہ طنزیہ کہہ رہا ہوں بلکہ ان کی سوانح عمریوں (Bibliographies) کے مطالعہ کے بعد کہہ رہا ہوں۔ یہ سارے لوگ ایسے تھے کہ ان کے بچپن میں یا زندگی کے کسی حصے میں ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ حادثات ہوئے تھے، جن کے نتیجے میں وہ depressions کا شکار ہوگئے اورردعمل میں انہوں نے اپنے مذہب کے خلاف لکھا اور یہاں تک کہ اللہ کے وجود کا انکار کیا ۔

(2) ماضی میں متشدد مذہبی سوچ کے حامل

لامذہبیت اور دہریت کے نام نہاد رہنماؤں میں دوسری وجۂ اشتراک یہ ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر (سوائے چند سائنسدانوں کے) ایسے تھے کہ جو دہریہ ہونے سے پہلے معتدل نہیں بلکہ متشدد مذہبی تھے۔ گویا پہلے بھی ان کی شخصیت میں توازن و اعتدال نہیں تھا اور جس بھی مذہب کے وہ ماننے والے تھے، اس مذہب میں وہ متشدد تھے۔ اپنے سوچ میں توازن نہ ہونے کے نتیجے میں انھوں نے جو کچھ اعتقادات اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کر رکھے تھے اور دعائیں کرتے تھے ، جب وہ عملاً پوری نہ ہوئیں تو وہ نتیجتاً reactive ہو گئے اور بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ پھر انھوں نے مذہب کے خلاف بھی لکھا اور خدا کو اپنا دشمن تصور کر کے اس کے خلاف بھی لکھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے آج تمام پڑھے لکھے ذہین لوگ ان بیمار لوگوں کی کتابیں پڑھ کر اپنا عقیدہ کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آج کے نوجوان نے جب ان لوگوں کو پڑھا تو یہ سمجھا کہ شاید یہی fashion اور نیا trend ہے، لہذا وہ فیشن اور new trend کے نام پر ان کی راہ پر چل نکلے اور ان کی کتابوں کو پڑھ کر اپنے سچے مذہب اور دین پر سوال کرنے شروع کردیئے اور اللہ کے وجود کا انکار کرنے لگے۔

2۔ منکرینِ مذہب کے اعتراضات اور ان کے جوابات

یہ لوگ مذہب کا سرے سے ہی انکار کرتے ہیں تو لا محالہ یہ مذہبی لٹریچر کو بھی نہیں مانتے، وحی کو بھی نہیں مانتے اور اللہ کے وجود کا بھی انکار کرتے ہیں۔ لہذا ان کے اعتراضات کے جوابات کے لیے دلائل بھی عقلی بنیادوں پر یعنی reasoning کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے اس حوالے سے بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید قرآنِ مجید، احادیثِ مبارکہ اور دیگر آسمانی اور مذہبی کتابیں انسان کی اپنی اختراع ہیں، اس لیے یہ انھیں مانتے ہی نہیں ہیں۔ اس لیے ہم ان کے اعتراضات کا عقلی بنیادوں پر ہی جواب دیں گے:

(1) کسی بھی قدیم اور آسمانی مذہب میں اللہ کے وجود کا انکار نہیں ہے

دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں، ان مذاہب کو عموما دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1۔ وہ مذاہب جن میں بدھ ازم، ہندو ازم، جین مت اور اس طرح کے مذاہب شامل ہیں ۔

2۔ وہ مذاہب جن میں ابراہیمی مذاہب ہیں یعنی جن کا تعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذات بابرکات سے ہے۔ ذیل میں ان مذاہب میں خدا کے وجود کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے:

(i) بدھ مت میں خدا کا تصور

بدھ مت میں بھی خدا کا ایک تصور واضح ہے اور ایک تصور واضح نہیں ہے۔ جو تصور واضح ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی ایک الوہی حقیقت (Divin e reality) ضرور ہے جو ہماری خالق ہے اور اس دنیا کے نظام کو چلانے والی ہے لیکن وہ کون ہے؟ اس حصے کے اوپر واضحیت نہیں ہے۔۔۔ کیا اسے جانا جا سکتا ہے؟ اس سوال پر بھی واضحیت نہیں ہے۔۔۔ اس لیے عموما بدھ ازم کو لامذہب (Agnostick religion) کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر الوہیت و ربوبیت کا تصور (concept of (divinity تو ہے لیکن خداکے وجود کا تشخص، پہچان اور اس کی صفات پر کامل آگہی میسر نہیں ہے۔

(ii) ہندومت میں خدا کا تصور

اسی طرح ہندو ازم کے اندر بھی یہ تصور موجود ہے کہ ایک حتمی (ultimate) وجود ہے، ایک divine reality ہے، ایک روحانی قوت ہے جو اس کائنات کو بنانے اور کائنات کو چلانے والی ہے لیکن پھر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ کون ہے اور کیسا لگتا ہے۔۔۔؟ وہ اس قوت کو اور اس شناخت کو بہت سی صورتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے ہاں تشخص پھیل جاتا ہے اور اس کی واضحیت نہیں رہتی۔

(iii) ابراہیمی مذاہب میں خدا کا تصور

وجودِ باری تعالیٰ کے شعور کو ابراہیمی مذاہب (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ ان تینوں مذاہب کے اندر بالعموم اور اسلام میں بالخصوص اللہ رب العزت کی ذات، اس کی صفات اور اس کی قدرت پر واضحیت عطا کردی گئی ہے اور اللہ رب العزت کے وجود پر اس کی تمام تر شانوں کے ساتھ اعتقاد رکھنے کو واضح کردیا گیا ہے۔

مذاہب کی ان دو categories میں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ کوئی divine reality ایسی موجود ہے، جس نے یہ ساری کائنات تخلیق کی ہے۔ یعنی مشرکین بھی اس بات کے قائل ضرور تھے کہ انسان سے اوپر کوئی ایک ایسی بالا اور بلند ذات divine reality اور ultimate truth ضرور ہے جس نے ہم سب کو تخلیق کیا ہے اور اس سارے نظام کو چلاتی ہے۔

اسی طرح جتنے بھی قدیم فلسفے، مذاہب اور افکار ہیں، ان تمام کے مطالعہ سے ایک چیز واضح ہو جائے گی کہ ان میں سے کسی ایک نے کبھی انکار نہیں کیا کہ کوئی اونچی اور بلند ذات ایسی نہیں ہے جس نے سب کو تخلیق نہ کیا ہو۔ divine and spiritual reality کا تصور ہر ایک مذہبی دستاویز میں موجود ہے، لیکن اس کی صورت کیا ہے اور اس کو سمجھا کیسے ہے؟ اس حوالے سے کسی نے اس الوہی حقیقت کو کئی صورتوں میں تقسیم کر دیا ہے اور کس نے توحید کہہ کر ایک صورت میں یکجا رکھا ہے۔ یہ جدا جدا ابحاث ہیں لیکن کسی ایک جگہ پر بھی اللہ کے وجود کا انکار نہیں ہے۔

(2) چالیس ہزار سال کی انسانی فکری دستاویزی تاریخ اور وجود باری تعالیٰ

انسان کو اس زمین پر کتنا عرصہ گزر چکا ہم اس سے واقف نہیں ہیں لیکن انسان کی فکری دستاویزی تاریخ کم و بیش چالیس ہزار سال پرانی ہے یعنی اس کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔ اگر معروف مذاہب کو ہی شمار کر لیا جائے جو انبیاء کرامf کے ذریعہ ہمیں میسر آیا تو ان کا دستاویزی ریکارڈ بھی کم و بیش دس ہزار سال کا میسر ہے۔

1۔ چالیس ہزار سال پہلے بھی جو اقوام دنیا میں بستی تھیں، ان میں سے ایک قوم آج بھی آسٹریلیا کے براعظم میں بستی ہے جن کو ابروجنیز کہا جاتا ہے، وہ بھی ایک مذہب اور ایک فکر کے ماننے والے تھے، ان کے ہاں بھی اپنے انداز میں divine reality کا تصور پایا جاتا ہے۔

2۔ ہندومت پانچ ہزار سال پرانا مذہب ہے، اس کے ہاں بھی divine reality کی فکر پائی جاتی ہے۔

3۔ اڑھائی ہزار سال سے پہلے بدھ مت کے ہاں بھی divine reality کا ایک تصور پایا جاتا ہے۔

4۔ دو ہزار سال پہلے مسیحیت ہے، ان کے ہاں بھی divine reality کا تصور پایا جاتا ہے۔

5۔ چودہ سو سال پہلے اسلام کا ظہور ہوا، تاجدار کائناتﷺ نے ہمیں توحید کا درس عطا فرمایا۔

الغرض چالیس ہزار سال سے لے کر آج تک جتنی بھی انسان کی فکری تاریخ کی دستاویزات ہیں، ان چالیس ہزار سال میں کسی ایک نے کبھی خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ یہ ہر اس سوچ کا رد ہے جو خدا کے وجود کے منکر ہیں۔ اس سوچ کے حاملین کو دو سو سال کے اندر کہاں سے یہ بات سمجھ آگئی کہ خدا نہیں ہے اور مذہب کی ضرورت نہیں ہے جبکہ چالیس ہزار سال کی تاریخ جو انسان کے پاس تحریری صورت میں دستاویزات کی شکل میں موجود ہے، ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ کوئی divine reality نہیں ہے۔

(3) قدیم مذاہب میں خدا کو تلاش کرنے کی جستجو

چالیس ہزار سال کا دستاویزی ریکارڈ اس بات کی بھی شہادت دیتا ہے کہ ہر کسی نے نہ صرف خدا کے وجود کا اقرار کیا بلکہ ہر فکری دستاویز کے اندر یہ امر موجود ہے کہ تمام کے ہاں خدا کو تلاش کرنے کی جستجو بھی کی گئی ہے مثلاً: ’’رگ وید‘‘ جو ہندو مذہب کی سب سے پرانی اور معروف چار کتابوں ’’ویداز‘‘میں سے ایک ہے، یہ خدا کے وجود اور اس کے وجود کی حقانیت پر مکمل کتاب ہے۔ ’’یجر وید‘‘ جو ہندو ازم کی دوسری بڑی کتاب ہے، اس کا مطلب ہی خوفِ خدا ہے۔ یہ مکمل کتاب قربِ الہی کے حصول کے ذریعہ کو زیرِ بحث لاتی ہے۔

چالیس ہزار سال میں تمام مذاہب کے اندر دو تصور ہمیشہ سے موجزن رہے ہیں:

1۔ خدا ہے، اس کا انکار نہیں ہے۔

2۔ اس کے قرب کا حصول بنیادی مقصد ہے۔

اگر اِن کے ہاں خدا کا کوئی تصور نہ ہوتا تو یہ مذاہب اپنے اپنے لٹریچر کے بڑے حصوں میں کبھی خدا کو تلاش کرنے اور اس کے خوف و امید کے موضوعات کو زیرِ بحث نہ لاتے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہمارے ہاں تصوف کا مضمون ہر مذہب کی بنیاد تھا کہ قربِ الہی کیسے حاصل کیا جائے؟ ان تمام مذاہب کے اندر تزکیہ نفس کے موضوع پر ابواب ہیں۔ اگر یہ چیز آج کی اختراع ہوتیں یا صرف چودہ سو سال پہلے اسلام نے دی ہوتیں تو پھر چالیس ہزار سال پہلے لٹریچر میں اس کا وجود نہ ہوتا۔ گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے۔ انسان کو یہ سبق پڑھائے گئے ہیں کہ ایک خدا ہے، جس کو حاصل کرنا ہے، جس کی طرف سفر کرنا ہے، جس کی راہ تلاش کرنی ہے اور جس کے قرب کی طرف انسان کو متلاشی رہنا ہے۔ پس یہ دو تصورات ہمیشہ سے پائے گئے ہیں۔

بعد ازاں اسلام نے بھی اس امر کی طرف ایسے ہی دعوت دی جیسے پہلے مذاہب دیتے رہے۔ ارشاد فرمایا:

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللہُ یُنْشِیئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.

(العنکبوت، 29: 20)

’’ فرما دیجیے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لیے) چلو پھرو‘ پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی پھر وہ دوسری زندگی کو کس طرح اٹھا کر (ارتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشوو نما دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر شے پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔ ‘‘

گویا قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے یہی دعوت دی کہ مجھے ڈھونڈو، میں کہاں ہوں اور میری قرب کی راہیں تلاش کرو۔ کسی کو اگر وہ مل نہیں سکا تو اس نے کہہ دیا کہ کوئی ہے ہی نہیں تو یہ اس کی فرسٹریشن ہے، نا سمجھی ہے اور نادانی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی غلط راستے پر پانچ سات سو کلومیٹر سفر کرتا رہے، دو تین دن چلتا رہے، غلط راستے پر چلنے کے سبب اسے منزل تو ملنی نہیں تھی لیکن وہ تنگ آ کر کہے کہ کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ اسے راہ بدلنے کی ضرورت تھی، منزل کا انکار کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ لوگ کیونکہ غلط راہ کے مسافر ہوئے، اس لیے frustrate اور depress ہو کر منزل کا انکار کر دیا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ راہیں بدل بدل کر دیکھتے تاکہ انھیں منزل میسر آجاتی۔

اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ ساتھ قربِ الہی کے حصول کے لیے تزکیہ نفس کا مضمون بھی چالیس ہزار سال کی فکری دستاویز کے اندر اہم حصہ ہے۔ اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس کی صورتیں، طریقے اور عمل کرنے کے مراحل جدا جدا ہوں گے مگر تصور ہر جگہ پر یکساں ہے۔ تصور کے پائے جانے کا مطلب ہے کہ منزل کی کچھ خبر ہے، جس کی تلاش انسان کا مقصد بنائی گئی ہے۔ گویا روحانیت کا یہ تصور ہمیشہ سے موجزن رہا ہے۔

وجود باری تعالیٰ اور تصورِ روحانیت، ان دونوں افکار کے لیے ایک فلسفیانہ بات سمجھ لیں کہ جب بھی کوئی نئی سوچ، نیا خیال اور نیا idea ہو تو اس کو مرکزی دھارے (main stream) میں داخل کرنے کے لیے زور لگایا جاتا ہے کیونکہ نئی سوچ ہے۔ اس کے لیے brain washing کی جاتی ہے، اہتمام کیا جاتا ہے اور مالی امداد کی جاتی ہے۔ جو اصل دھارا (main stream) ہو، جو پہلے سے چلا آ رہا ہو اس کے لیے زور نہیں لگایا جاتا۔ آج خود ہی جائزہ لے لیجیے کہ کس بات کو داخل کرنے کے لیے زور لگایا جاتا ہے اور کون سا اصل اور مرکزی دھارا ہے جو اپنی رفتار سے خود ہی چلتا آ رہا ہے۔ اصل اور مرکزی دھارا وہ اعتقاد ہے کہ اللہ کی ذات ہے جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے، وہ اس نظام کو چلاتا ہے اور پھر انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس کے ذریعے اس کے قرب کا حصول ہے۔ جو کچھ اس اصل اور مرکزی دھارا (main stream)کے سوا ہے اور پچھلے دو تین سو سال میں وجود میں آیا ہے، وہ نئی فکر، نئی سوچ اور نیا فتنہ ہے، جسے آج زور لگا کر، پیسہ خرچ کر کے، سیاسی قوت استعمال کر کے اور تحریروں کے ذریعے لوگوں کے اندر داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ رویہ اس سوچ کی بذات خود تردید ہے جو سوچ یہ کہتی ہے کہ اللہ رب العزت کے وجود اور مذہب کا انکار کر دے۔

صوفیانہ روش اور تزکیۂ نفس تمام مذاہب میں موجود رہا اور ہے۔ اڑھائی ہزار سال پہلے بدھ مت میں گوتم بدھ نے تزکیۂ نفس اور قربِ الہی کے حصول کے لیے بیشتر زندگی جنگلوں بیابانوں میں رہبانیت میں گزار دی۔ اسی طرح جین مت کے اندر آسائش، آرام، لباس اور کھانا پینا بھی اسی مقصد کے لیے ترک کردیا جاتا ہے۔ ہندومت اور دیگر مذاہب میں بھی ہمیں یہ روش نظر آتی ہے۔ ان مذاہب کے اس مقصد کے لیے اختیار کیے گئے یہ طریقہ کار غلط ہیں یا صحیح؟ یہ الگ بحث ہے، مگر ان کے یہ جملہ طریقے اس بات کی دلیل ہیں کہ انھیں کسی نہ کسی کی تلاش تھی۔ انھیں ایک احساس تھا کہ جو کچھ ہمارے سامنے ہے، اس کے سوا کچھ ہے جس کی طرف ہم نے سفر کرنا ہے، جس کی حقیقت کو جاننا ہے اور جس کے قرب کو حاصل کرنا ہے۔

(4) بغیر مذہب، دعویٰ روحانیت فتنہ ہے

آج ایک اور فتنہ بھی بڑی تیزی سے سر اٹھا رہا ہے جو اسی لا مذہبیت کا ایک دوسرا نام ہے۔ ہمیں اکثر و بیشتر ایسے لوگ میسر آ جائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کو نہیں مانتے یا اتنی مذہبی پابندیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کے اندر بڑے جھگڑے ہیں، اس نے بڑے لوگوں کو مروایا۔ ہم اللہ رب العزت کے ساتھ ایک تعلق پر یقین رکھتے ہیں مگر ہم مذہب کو نہیں مانتے، ہم روحانی لوگ ہیں اور روحانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی یوگا شروع کر لیتا ہے، کوئی مراقبہ (meditation) کی practice اختیار کر لیتا ہے، کوئی صرف قوالی سن لیتا ہے اور کوئی کسی اور طریقے کے ساتھ اپنے اس روحانی تعلق کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

یاد رکھیں! قرب الہی کے حصول کی بنیاد ہی مذہب نے عطا کی ہے۔ وجود باری تعالی کا تصور ہی مذہب کی بنیاد ہے۔ لہذا جو کوئی ایسا کہے کہ ہم مذہب کے بغیر اللہ سے تعلق قائم کرتے ہیں، تو جان لیں کہ وہ فتنہ ہے۔ مذہب کی پابندی کے بغیر روحانیت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایسی سوچ یہ لامذہبیت کا دوسرا نام ہے۔ جب کوئی مذہب کو نہیں مانتا اور اپنے آپ کو روحانی بتاتا ہے تو وہ خواہ ساری زندگی اس راہ پر چلتا رہے، اسے کچھ نہیں ملے گا اس لیے کہ روحانیت کی تصدیق مذہبی عقائد، اعتقاد اور اعمال ہی کرتے ہیں۔ جو مذہب پر جتنا عمل پیرا ہوگا، اتنی اس کی روحانیت بھی پختہ ہوتی چلی جائے گی اور جو مذہب اور مذہبی زندگی کو چھوڑ کر روحانیت کی بات کرے گا تو وہ بے جا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ مذہب کو نہیں مانتے اور روحانیت کے حصول کے لیے جو عمل کرتے ہو، وہ بھی تو کسی مذہب سے لیا ہوگا۔ پس مذہب کا انکار کرنا اور اس کے سوا اللہ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنے کا دعویٰ کرنا، ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ خود ڈھونگ نہ کرتا ہو لیکن confused ہو اور اس کو راہ نہ ملتی ہو اور اسے سمجھ نہ آتی ہو کہ جانا کس طرف ہے۔

(5) سائنس اور وجودِ باری تعالیٰ کا اقرار

مذہب کا انکار کرنے والا یہ طبقہ آج یہ دلیل بھی پیش کرتا ہے کہ سائنس نے مذہب کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے اور انسان کی روز مرہ کی زندگی کی ضروریات کو سائنس پورا کر دیتی ہے، لہذا وجود باری تعالیٰ پر یقین رکھنے کی حاجت نہیں رہی۔ آیئے! اس اعتراض کا جواب سائنس ہی کی زبان میں دیتے ہیں:

ہم میں سے اکثر لوگ ڈی این اے اور genetic جینز سائنسز کو جانتے ہیں۔ سائنس آج اس پر بہت زیادہ کام کررہی ہے۔ انسان کے وجود کے ہر عضو کے اندر DNA موجود ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایک بال میں بھی ایک ڈی این اے ہے۔ اس ڈی این اے سے اس انسان کی مکمل شخصیت حتی کہ اس کےنسب کا بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ مختلف جرائم میں مجرم اکثر اس ڈی این اے ٹیسٹ کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں۔۔۔ آج اگر کوئی اپنے آپ کو سید کہلوائے تو ڈی این اے سے اس کے نسب کی تصدیق ہوسکتی ہے کہ آیا وہ سادات سے ہے یا نہیں۔۔۔؟ اسی طرح ڈی این اے سے یہ معلومات بھی مل جاتی ہیں کہ اس کو کتنی بیماریاں لاحق ہونے والی ہیں۔۔۔ اس کی عمر اور قد وغیرہ کتنا ہوگا۔۔۔؟

آج سائنس اس کو تدریجاً منکشف کر رہی ہے۔ یہ ڈی این اے اسی طرح کام کرتا ہے جیسے کمپیوٹر کام کرتا ہے۔ کمپیوٹر کی زبان (language) کی حروفِ تہجی (Alphabets) کو بائنری codes کہتے ہیں۔ جس کے اوپر basic آپریٹنگ سسٹم تشکیل پاتا ہے۔ اسی طرح ڈی این اے کی language کے bindry کوڈز اور alphabets کو جینز کہتے ہیں۔ مختلف جینز کے اندر انسان کی مختلف خصوصیات، عادات، اطوار اور کیفیات پوشیدہ ہیں۔

God Jean کی دریافت

دہریت کے افکار کے ماننے والوں کو سائنس خود جواب دیتی ہے۔ 2004ء میں genetic سائنسز کا ایک معروف سائنسدان دین ہیمر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہر ڈی این اے میں جو جینز ہیں، اس کے اندر ایک وراثتی jean ہے جو پیچھے سے چلا آ رہا ہے، یہ کسی تغیر (mutation) کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ God jean ہے۔ یعنی ہر انسان کے ڈی این اے میں ایک خدائی جین موجود ہے۔ اس جین کا نام ’’وی میٹ ٹو‘‘ ہے۔ یہ سائنسدان کہتا ہے کہ اس جین کا بنیادی مقصد ہی روحانی اور نہ نظر آنے والی حقیقت کے اوپر اس بندے کے اعتقاد کو پختہ کرنا ہے۔

یعنی اللہ رب العزت نے ہر انسان کے ڈی این اے میں اس بات کی جستجو پہلے ہی ایک جین کی صورت میں رکھ دی ہے کہ جب تک وہ اپنے مالکِ حقیقی کی تلاش نہ کرے، اسے اپنی زندگی میں خلا محسوس ہوتا رہے گا اور یہ جین اسے کہتا رہے گا کہ اپنے مالکِ حقیقی کو تلاش کرو۔ پس اس جین کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اسے کسی نہ نظر آنے والی حقیقت پر ایمان رکھنا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر انسان کی تشکیل میں ہی اس امر کو رکھ دیا ہے۔

پہلے تو ہم صرف یہ کہتے تھے کہ باہر سے ہدایت کا ذریعہ اللہ رب العزت نے قرآن اور تاجدار کائناتﷺ کی ذات کو بنایا اور پھر اس ہدایت کے پیغام کا محافظ اللہ رب العزت نے ہمارے اندر روح کو بنایا لیکن آج تیسری بات سائنس نے ہمیں یہ بتائی کہ صرف روح نہیں بلکہ اس مادی جسم کے ڈی این اے میں بھی اللہ رب العزت نے God Jean کی صورت میں ایک ایسا Jean رکھ دیا ہے جس کا بنیاد کام ہی یہ ہے کہ زندگی میں اس بندے کو جھنجھوڑتے رہنا کہ اس خالق کو یاد کرو اور اس پر ایمان لاؤ جس کو دیکھ نہیں سکتے۔ بندہ جب تک اس روحانی حقیقت پر ایمان نہیں لائے گا، اسے اپنی زندگی میں خلا محسوس ہوتا رہے گا۔ پس ہدایت کے تین ذرائع اللہ تعالیٰ نے بنا دیے:

1۔ رشد و ہدایت کے لیے ظاہراً قرآن اور تاجدار کائناتﷺ کی ذات بابرکات ہے۔

2۔ باطن میں روح ہے جوہمیں ہدایت کی طرف لے جاتی ہے۔

3۔ ڈی این اے میں God Jean ہے جو ہماری جسم کی کیمیکل فارمیشن کے اندر اللہ تعالیٰ نے رکھ دیا ہے جو ہمیں اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

اب اگر کوئی دہریہ اور لامذہب یہ کہے کہ میں خدا کو نہیں مانتا یا میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا تو وہ اپنی بنیادی فطری ساخت کے بھی خلاف جا رہا ہے اور اس کی یہ کیفیت بیماری کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی۔

پس ہمارے ان نوجوان بچوں اور بچیوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے جو سمجھتے ہیں کہ شاید ماڈرن ازم کی زبان دہریت ہے۔ یاد رکھیں! ماڈرن چال چلن کی روش اور پہچان لا مذہبیت نہیں ہے بلکہ لامذہبیت ایک بیماری کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شے علامت کے طور پر اور دلیل کے طور پر بنائی ہے جو اس کے وجود کا پتہ دیتی ہے اور اس کے قرب کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے، اس کے سوا باقی ہر شے فریب اور دھوکہ ہے۔ آج تمام والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے بچوں کی نگہداشت اس انداز میں کریں کہ ان کے عقائد کی حفاظت ممکن ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے اور ہماری، ہمارے بچوں ، اگلی نسلوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور دنیا آخرت میں ہمیں ایسی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں۔