رمضان المبارک: فضیلت، مقاصد، حفاظتِ روزہ، تحائفِ خداوندی، تلاوتِ قرآن

مفتی شبیر احمد

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.

(البقرة، 2: 183)

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘

مذکورآیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا۔ کتبِ حدیث و تاریخ اور تورات و انجیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قریشِ مکہ ایامِ جاہلیت میں دسویں محرم کو اس لئے روزہ رکھتے تھے کہ اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔

(بخاری، الصحيح، کتاب الحج، باب قول اللہ: جعل اللہ الکعبة البيت الحرام، 2: 578، رقم: 1515)

مدینہ میں یہود اس دن اس لئے روزہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل کو اس دن فرعون سے نجات دی تھی۔

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوره، 2: 704، رقم: 1900)

ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت محمدی ﷺ سے قبل اُمم میں بھی بحیثیت عبادت کے روزہ معروف اور جانا پہچانا جاتا تھا۔ انسائیکلو پیڈیا آف جیوز میں لکھا ہوا ہے:

یہودی اور عیسائی روزہ بطور کفارۂ گناہ یا توبہ کی خاطر یا پھر ان سے بھی تنگ تر مقاصد کے لئے رکھتے تھے اور ان کا روزہ محض رسمی نوعیت کا ہوتا تھا، یا پھر قدیم تر ایام میں روزہ ماتم کے نشان کے طور پر رکھا جاتا تھا۔

یعنی ان لوگوں نے روزے کی اصل مقصدیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اسے اپنے مخصوص مفادات کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا مگر اسلام نے انسانیت کو روزے کے بامقصد اور تربیتی نظام سے آشنا کیا۔یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو روزے کے بلند اغراض و مقاصد عطا کئے۔ زندگی کی وہ تمام تمنائیں اور خواہشات جو عام طور پر جائز ہیں، روزہ میں ان پر بھی کچھ عرصہ کے لئے پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ہر اطاعت گزار اُمتی ان پابندیوں کو دلی رغبت و مسرت کے ساتھ اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ جسم و روح دونوں کے لئے مفید ہے۔

علاوہ ازیں مختلف مذاہب میں روزہ رکھنے کے مکلف بھی مختلف طبقات ہیں۔ مثلاً پارسیوں کے ہاں صرف مذہبی پیشوا، ہندوؤں میں برہمن اور یونانیوں کے ہاں صرف عورتیں روزے رکھنے کی مکلف ہیں، جبکہ ان کے اوقاتِ روزہ میں بھی اختلاف اور افراط و تفریط پائی جاتی ہے لیکن اسلام کے پلیٹ فارم پر دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے عاقل، بالغ اور مسلمان مرد و عورت کے لئے ایک ہی وقت میں ماہ رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔

روزہ اور روزہ دار کی فضیلت

حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ آپ ﷺ بڑے شوق و محبت سے خوش آمدید کہتے ہوئے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے۔صحابہ کرامl سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے:

مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟

’’کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟‘‘

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: پھر کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ.

(منذری، الترغيب والترهيب، 2: 64، رقم: 1502)

’’بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔‘‘

روزے کی فضیلت و اہمیت دیگر عبادات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور بے حساب ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِمِائَة ضِعْفٍ مَاشَاء اللہُ، يَقُوْلُ اللہُ: إِلاَّ الصّوْمَ فَإِنَّهُ لِی وَ أَنَا أَجْزِی بِهِ.

(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2: 305، رقم: 1638)

’’بنی آدم کو ہر نیکی کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک عطا کیا جاتا ہے، جتنا اللہ چاہے۔اللہتعالیٰ فرماتا ہے: سوائے روزہ کے، کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘

2۔ روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجرو ثواب کے ساتھ ساتھ کئی خوشیاں بھی ملیں گی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول إني صائم إذا شتم، 2: 673، رقم: 1805)

’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔‘‘

3۔ جنت میں بعض مخصوص اعمالِ صالحہ کے اعتبار سے آٹھ دروازے ہیں جو شخص دنیا میں خلوص نیت سے ان میں جس عملِ صالح کا بھی خوگر ہوگا وہ جنت میں اسی عمل کے دروازے سے جائے گا۔ ریان جنت کا وہ دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب الريان للصائمين، 2: 671، رقم: 1797)

’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے، ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا‘‘۔

ریان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محدّث ملا علی قاری فرماتے ہیں: یا تو وہ بنفسہ ریان ہے کیونکہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں اور اس کے قریب تازہ اور سر سبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں یا قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس مٹے گی اور ترو تازگی و نظافت چہرے پر ہمیشہ رہے گی۔

(ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح فی مشکاة المصابيح، 4: 230)

اس انعام کا حقدار صرف رمضان کے روزے رکھنے والا ہی نہیں بلکہ کثرت سے نفلی روزے رکھنے والا بھی ہو گا۔

روزے کے مقاصد

روزہ سے ہمیں اطاعت الٰہی، تزکیۂ نفس، اخوت اور ہمدردی کا سبق ملتا ہے۔ مثلًا روزہ دار اللہ تعالیٰ کے حکم سے حالتِ روزہ میں ایک خاص وقت پر کھانے پینے اور جائز خواہشات سے رک جاتا ہے۔ اپنی ایسی بنیادی ضروریات کو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جن کو پورا کرنا دوسرے اوقات میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہوتا ہے۔ روزہ ہمارے اندر یہ بات راسخ کر دیتا ہے کہ اصل چیز اطاعتِ الٰہی ہے اور صرف حکم الٰہی ہی کسی چیز کے درست اور غلط ہونے کے لئے آخری سند ہے۔

اسی طرح غریبوں کی تکلیفوں، ان کے فقر و فاقہ اور تنگ دستی کا احساس بھی حالتِ روزہ میں ہوتا ہے۔ جب روزہ دار خود سارا دن بھوکاپیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر ایسے لوگوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو مستقل فقر و فاقہ سے دو چار رہتے ہیں چنانچہ روزہ دار اپنی بساط کے مطابق ان کے دکھوں کا مداوا اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے میں تعاون کرتا ہے۔ اس لئے مومنوں کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ سب مسلمان نفس واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں درت ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔

روزہ بدنی عبادت ہے اور تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لِکُلِّ شَيْئٍ زَکَاةٌ وَ زَکَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ.

(ابن ماجه، کتاب الصيام، باب فی الصوم زکاة الجسد، 2: 361، رقم: 1745)

’’ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے۔‘‘

روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو نمود و نمائش سے پاک ہے روزہ دار کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ صَامَ يَوْمًا فِی سَبِيْلِ اللہِ بَعَّدَ اللہُ وَجْههُ عَنِ النَّارِ سَبْعِيْنَ خَرِيْفً.

(بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فضل الصوم فی سبيل اللہ، 3: 1044، رقم: 2685)

’’جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت سے) دور کر دیتا ہے۔‘‘

روزہ کی حفاظت کيسے ممکن ہے؟

اگر روزہ کو تمام احکام و آداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پورا کيا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی نے روزہ کے لوازم کا خيال نہ کيا اور گناہوں ميں مشغول رہتے ہوئے روزہ کی نيت کی، کھانے پینے ، خواہش نفسانی سے باز رہا ليکن حرام کمانے اور غيبت کرنے سے باز نہ يا تو اس سے فرض تو ادا ہو ہوجائے گا، مگر روزہ کے برکات و ثمرات سے محرومی رہے گی۔

حضرت ابو عبيدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے مروي ہے کہ حضور نبي اکرم ﷺ نے فرمايا:

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْةِ.

(نسائي، السنن، 1: 167، رقم: 2233)

’’روزہ ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ لَّمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِه، فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِی اَنْ يَدَعَ طَعَامَه، وَ شَرَابَه..

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور و العمل به فی الصوم، 2: 673، الرقم: 1804)

’’جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

معلوم ہوا کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑنے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتابلکہ روزہ کی حالت میں فواحش، منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے لہٰذا مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ

1۔ روزہ دار جھوٹ، غیبت، چغلی اور بدکلامی سے پرہیز کرے۔

2۔ آنکھ کو مذموم و مکروہ اور ہر اس چیز سے بچائے جو یادِ الٰہی سے غافل کرتی ہو۔

3۔ کان کو ہر ناجائز آواز سننے سے بچائے۔ اگر کسی مجلس میں غیبت ہوتی ہو تو انہیں منع کرے ورنہ وہاں سے اُٹھ جائے۔ حدیث میں ہے کہ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔

4۔ بوقت افطار اتنا نہ کھائے کہ پیٹ تن جائے۔

5۔ افطار کے بعد دل خوف اور امید کے درمیان رہے۔ کیا معلوم کہ اس کا روزہ قبول ہوا یا نہیں لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

پس اعضاء کو گناہوں سے بچانا ہی درحقیقت روزہ کی حفاظت ہے۔

عام اور خاص لوگوں کے روزے میں فرق

جس طرح معاشرے میں معاشی حیثیت اور سماجی مقام کے اعتبار سے انسانی زندگی کے مختلف طبقات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح دینی و روحانی مدارج و مقامات میں روزہ رکھنے کے لحاظ سے لوگوں کی دو اقسام ہیں:

1۔ عام لوگوں کا روزہ

2۔ خاص لوگوں کا روزہ

(1) عام لوگوں کا روزہ

پہلی قسم عام لوگوں کی ہے جو محض رسماً روزہ رکھتے ہیں اور ان کا روزہ سحری و افطاری تک محدود ہوتا ہے وہ روزے کے آداب و شرائط کا مطلقاً لحاظ نہیں رکھتے چنانچہ اکثر و بیشتر حسب ارشاد نبوی ﷺ سوائے بھوکے اور پیاسے رہنے کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وہ لوگ جو روزہ رکھ کر احکامِ خداوندی کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ، غیبت، دھوکہ، فریب دہی اور دیگر افعال قبیحہ کے ارتکاب کو اپنا معمول بنائے رکھتے ہیں۔ روزے کے فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے ان کی صلوٰۃ و صیام بے روح ہے۔ ایسا روزہ افرادِ ملت پر مثبت اور نفع بخش اثرات مرتب نہیں کرسکتا۔

(2) خاص لوگوں کا روزہ

دوسری قسم خاص لوگوں کی ہے جو احکامِ خداوندی کی پاسداری کرتے ہیں اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اپنے دامن بچائے رکھتے ہیں۔ روزہ سے ان کے سیرت و کردار میں تقویٰ کا جوہر پیدا ہو جاتا ہے او ان کی زندگیاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کے فرمودہ ایزدی کی عملی تفسیر بن جاتی ہیں۔ تقویٰ کی بدولت ان کے شب و روز انقلاب آشنا ہو جاتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں حلال و حرام کی تمیز کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ایسا روزہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق ان کے اور عذابِ دوزخ کے درمیان ڈھال بن جاتا ہے۔

پس عام لوگوں کا روزہ صرف سحری و افطاری تک محدود ہوتا ہے جبکہ خاص لوگوں کا روزہ ان کے مجاہدہ کی بناء پر ان کو مقامِ مشاہدہ پر فائز کردیتا ہے۔ کیونکہ ان کی طلب و آرزو کا محور اللہ کی رضا کا حصول اور دیدارِ مصطفی ﷺ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

رمضان المبارک میں ملنے والے تحائف

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے:

1. أَمَّا وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللہُ تَعالی عزوجل إِلَيْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللہُ إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا.

’’پہلا یہ کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اللہ کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ ‘‘

2. وَأَمَّا الثَّانِيَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاهِهِمْ حِيْنَ يُمْسُوْنَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ.

’’دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘

3. وَأَمَّا الثَّالِثَهُ فَإِنَّ الْمَلاَئِکَةَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ.

’’تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

4. وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ اللہَ عزوجل يَأْمُرُ جَنَّتَهُ فَيَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّي وَتَزَيَنِي لِعِبَادِي أَوْشَکُوْا أَنْ يَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْيَا إِلَی دَارِي وَکَرَامَتِي.

’’چوتھا یہ کہ اللہ عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندوں کے لئے تیاری کر لے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔‘‘

5. وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِيْعًا.

’’پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ‘‘

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ: لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی الْعُمَّالِ يَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ؟

(بيهقي، شعب الإيمان، 3: 303، رقم: 3603)

’’ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں، تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے۔‘‘

رمضان المبارک میں شیطان کے جکڑے جانے سے مراد

عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں۔ ایک نفس کی بڑھتی ہوئی خواہش اور اس کی سرکشی، دوسرا شیطان کا مکر و فریب۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دین حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا جبکہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک منادی پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ۔ اے شر کے متلاشی! رک جا۔ اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘(ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2: 61، رقم: 682)

رمضان المبارک میں شیطانوں کا جکڑ دیا جانا اس امر سے کنایہ ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہلِ ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے۔ غضب اور شہوت ہی بڑے بڑے گناہوں کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے، جیسا کہ مشاہدہ میں ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔

شیطانوں کو جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں اس طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں اور بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان سرکشی اور طغیانی کی شوکت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔

ترکِ روزہ پر وعید

بغیر شرعی عذر کے روزہ نہ رکھنا یا رکھ کر توڑ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کی قضا بہر صورت واجب ہے۔ قصدًا بلاوجہ روزہ رکھ کر توڑنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ بطورِ کفارہ ایک روزہ کے بدلے میں مسلسل دو ماہ یعنی 60 دن کے روزے رکھنا یا 60 مساکین کو کھانا کھلانا یا ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے، جیسا کہ حدیث نبوی میں مذکور ہے۔ جبکہ بلا عذر شرعی رمضان شریف کا ایک روزہ اگر چھوڑ دیا جائے تو یہ بہت بڑے اجر سے محرومی کا باعث ہے جس کا ازالہ عمر بھر کے روزے بھی نہیں کرسکتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مِن أفطَرَ يَوْمًا من رَمَضانَ، من غَيْرِ رُخْصَة وَلا مَرضٍ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ کُلِّهِ، وَ إنْ صَامهُ.

’’جس نے بغیر شرعی اجازت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا، اسے عمر بھر کے روزے کفایت نہیں کر سکتے اگرچہ وہ عمر بھر روزے رکھے۔‘‘

(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الصوم عن رسول اللہ ﷺ ، باب ماجاء في الإفطَارِ مُتَعَمِّدًا 2: 93، رقم: 723)

رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ رب العزت کی خاص رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دعاؤں کو شرف قبولیت ملتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی اور روحانی فیوضات بھی اللہ کی رحمت کا حصہ ہیں جو انسان کو صرف روزہ کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ شخص بدنصیب ہے جو بغیر کسی شرعی رخصت یا مرض کے روزہ چھوڑ کر اس کی رحمت سے محروم ہو جائے۔

رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن مجید

تلاوت قرآن افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أفْضَلُ عِبَادَةِ اُمَّتِيْ قراءةُ الْقُرْآن.

(بيهقی، شعب الايمان، 2: 354، رقم: 2022)

’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔‘‘

یہ عظیم کتاب جس کی تلاوت کی بے پناہ فضیلت ہے، رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں نازل ہوئی۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم اور رمضان المبارک کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا گویا اس تعلق کو مضبوط و مستحکم کرتاہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ ﷺ رمضان المبارک میں قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے اور جبرئیل امینe کو سناتے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

کَانَ يَلْقَاهُ فِی کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ.

(بخاری، الصحيح، کتاب بدء الوحی، باب کيف کان بدء الوحی الی الرسول اللہ ﷺ ، 1: 7، رقم: 6)

’’حضرت جبرائیل امین رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے۔‘‘

مزید برآں روز قیامت تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنے والوں اور اس کے معانی سمجھنے والوں کی شفاعت خود قرآن حکیم فرمائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے (پینے) اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا، پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

(احمد بن حنبل، المسند، 2: 174، رقم: 6626)

  • ماہ رمضان المبارک میں تراویح کے دوران پورے قرآن حکیم کا پڑھنا سنت ہے بشرطیکہ مقتدیوں کو اس سے اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔ افضل یہی ہے کہ صلاۃ التراویح کے دوران قرآن حکیم کی تلاوت میں ان کے حالات کو ملحوظ رکھا جائے اور پڑھنے میں اتنی جلدی نہ کی جائے جس سے نماز میں خلل واقع ہو۔

عصر حاضر میں ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے جو درحقیقت صریحاً سنت کے خلاف ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دورانِ ماہ ایک ختم قران پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ ﷺ نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسبِ دستور انہیں مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے۔ آپ ﷺ نے ان کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن، پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دیا:

فَاقْرَأْ فِي کُلِّ سَبْعٍ.

(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهی عن صوم الدهر لمن تضرر به أو فوت به حق...، 2: 813، رقم: 1159)

’سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘

مذکورہ بالا حدیث سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج صریحاً خلافِ سنت ہے لہٰذا اگر شبینہ کرانا مقصود ہو تو اس کا صحیح طریقہ حضور ﷺ کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جائے۔ محافل شبینہ کے لئے چند باتوں کو پیش نظر ضرور رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے والے اس کے الفاظ مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں نہ کہ رفتار اتنی تیز ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔

شبینہ میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال نامناسب ہے۔ اس لئے کہ تلاوت قرآن سننا واجب ہے۔ نہ سننے والا شریعت کی نظر میں گنہگار ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا مناسب اور دانش مندانہ بات یہ ہے کہ شبینہ کے لئے اوّل تو لاؤڈ سپیکر نہ لگایا جائے اور اگر اس کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے لئے اندرونی نظام ہو تاکہ اس کی آواز مسجد کی چار دیواری سے باہر نہ جا سکے۔

شبینہ یا کسی اور صورت میں قرآن کریم اتنا پڑھا جائے جس سے دل بوجھل نہ ہو جونہی اکتاہٹ محسوس ہو تلاوت ختم کر دی جائے۔ حضرت جندب بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’قرآن پڑھتے رہو جب تک تمہارا دل زبان کی موافقت کرتا رہے (یعنی جب تک اکتاہٹ نہ ہو) اور جب دل اور زبان میں اختلاف ہو جائے تو اٹھ جاؤ۔‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب النهی عن اتباع متشابه القرآن، 4: 2054، رقم: 2667)

رمضان المبارک اور امت مسلمہ کے لیے پیغام

رمضان المبارک امت مسلمہ کے لئے یہی پیغام لاتا ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ایک دوسرے کے لئے رحمت و شفقت کا پیکر بن جائیں۔ دوسروں کی ضرورتوں کا بھی اس طرح احساس کریں جس طرح اپنی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

طَعَامُ الرَّجُلِ يَکْفِیْ رَجُلَيْنِ. وَطَعَامُ رَجُلَيْنِ يَکْفِیْ اَرْبَعَةً. وَطَعَامُ اَرْبَعَةٍ يَکْفِیْ ثَمَانِيَةً.

(مسلم، الصحيح، کتاب لأشربة، باب: فضيلة المواسة فی الطعام القليل، 3: 1630، رقم: 2059)

’’ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہے۔ دو آدمیوں کا کھانا چار کے لئے کافی ہوتا ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہے۔‘‘

رمضان المبارک میں غرباء اور مفلوک الحال لوگوں کو سحری و افطاری کروانے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے میں یہ فلسفہ پنہاں ہے کہ اس سے شخصی و طبقاتی امتیاز ختم ہو جاتا ہے آپس میں پیار، محبت اور ایثار و قربانی کی فضا پیدا ہوتی ہے اور روزہ دار کی افطاری کروانے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کروائے اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے، اس کو بھی روزہ دار جتنا ثواب ملتا ہے اور اس سے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں سے ہر ایک افطار نہیں کروا سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی یہ ثواب عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ، ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے بھی کسی کا روزہ افطار کرواتا ہے۔‘‘

افسوس کہ کئی صاحب ثروت ایسے ہیں جو روزہ موسم کے حالات کے مطابق پورا دن گرم یا سرد ماحول میں گزار کر شام کو انواع و اقسام کے کھانوں، رنگا رنگ پھلوں اور نوع بنوع مشروبات سے چنے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے وقت باہر گلیوں اور سڑکوں میں بیٹھے ہوئے غریب و مفلس روزہ دار مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا احساس بھی نہیں کرتے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی خالی پیٹ پانی کے گھونٹ سے روزہ رکھ رہا ہو اور شام کو افطاری کے وقت کھانے کے لئے کسی کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہو۔ لہٰذا رمضان المبارک ہمیں اپنے نادار، مفلس، فاقہ کش، تنگ دست مسلمان بھائی جن کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ لباس و طعام خرید کر اپنا اور اپنے بچوں کا تن ڈھانپ سکیں اور ان کا پیٹ پال سکیں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہ رمضان ہمیں ریاکاری، غیبت، عیب جوئی، مکر و فریب، بغض و حسد اور جھوٹ جیسے بے شمار معاشرتی و روحانی امراض سے بچانے کی تربیت بھی کرتا ہے۔