القرآن: قُربِ الہٰی کے حصول کی علامات اور محرومی کے اسباب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ.

(البقرة، 2: 186)

’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں۔‘‘

قربِ الہٰی کا حصول کیسے ممکن ہے؟ اس موضوع پر واضحیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ رب العزت کے قرب کے معنیٰ کو سمجھیں۔ اللہ رب العزت موجود ہے مگر وہ جسم اور جسمانیت پاک ہے، اُس کا کوئی حسی اور مادی وجود نہیں ہےکہ جسے چھوا یا محسوس کیا جاسکتا ہو۔ مادی وجود کے لیے قرب اور بُعد کا معنیٰ مسافت اور فاصلہ کے اعتبار سے ہوتا ہے لیکن اللہ رب العزت کی بارگاہ کا قرب اور بُعد اِس معنیٰ میں نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس شش جہات؛ آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے اور ہر قسم کے قرب وبُعدِ مکانی سےپاک ہے۔

اللہ تعالیٰ کے قرب کامعنیٰ قرآن مجید کی مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے۔ اِس آیت کریمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو ’’اُنہیں بتا دیں‘‘ کہ میں بہت قریب ہوں۔ ’’اُنہیں بتادیں‘‘ کے الفاظ اِس آیت کریمہ میں بیان نہیں کیے گئے۔حالانکہ لفظی اسلوب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یوں کہا جاتا ہے کہ ’’انھیں بتادیں کہ میں قریب ہوں۔‘‘ قرآن مجید کے اس اسلوب میں کارفرما شانِ بلاغت میں یہ لطیف علمی نکتہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے پہلے حصہ؛ واذسالک عبادی عنی اور دوسرے حصہ فانی قریب کے درمیان مزید الفاظ کی صورت میں کچھ فاصلہ نہ آنے دیا۔

اگر یہ فرما دیا جاتا کہ ’’اُنہیں فرما دیں کہ میں قریب ہوں‘‘ تو پھر اِن زائد الفاظ کی وجہ سے ’’عَنِّي‘‘ (میری نسبت) اور’’فانی قریب‘‘(اللہ کی قربت) کے بیان میں فاصلہ آجاتا۔پس اللہ تعالیٰ نے کمال درجے کی قربت کا بیان کرنے کے لیے تذکرۂ قرب میں دو الفاظ کا فاصلہ بھی گوارا نہیں کیا۔ یعنی واضح فرمادیا کہ میں اِتنا قریب ہوں کہ تمہارے اور میرے درمیان کوئی اور شے حائل ہی نہیں ہے اور میں نے اپنے اور تمھارے درمیان کوئی حجاب اور رکاوٹ نہیں رکھی۔

اس قرب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک اور مقام پر بھی بیان کیا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں مختلف معاملات سمجھانے کے لیےقرآن مجید میں ہماری سمجھ، فہم اور عادت کے مطابق مثال بھی دیتا ہے، چونکہ ان امثال کا تعلق انسان کے شب وروز کے معمولات اور عادات سے ہوتا ہے، لہذا اُن امثال سےبات انسان کو جلد سمجھ آجاتی ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے قرب کو ایک مثال کے ذریعے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے:

وَنَحۡنُ أَقۡرَبُ إِلَيۡهِ مِنۡ حَبۡلِ ٱلۡوَرِيدِ.

(ق، 50: 16)

’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘

شہ رگ اور انسان کی زندگی میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔جونہی شہ رگ کٹےتو انسان ختم ہوجاتا ہے۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ زندگی شہ رگ میں ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت اس کی شہ رگ پر چُھری چلاتے ہیں تو شہ رگ کے کٹتے ہی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں حَبۡلِ ٱلۡوَرِيدِ (شہ رگ) کے لفظ کو استعمال کرکے دراصل انسان سے اس کی زندگی کے اس قدر قریب ہونے کا تصور دیا ہے یعنی علامتی طور پر سمجھایا ہے کہ جس طرح تم میں اور تمہاری شہ رگ (یعنی زندگی) میں اس قدر قریبی فاصلہ ہے کہ زندگی ہے تو انسان کا وجود ہے، زندگی نہیں تو انسان ختم ہوجاتا ہے، پس اسی طرح سمجھ لو کہ میں اُس سے بھی زیادہ تمھارے قریب ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ میں اِتنا قریب ہوں کہ میرا قرب تمہاری سمجھ میں ہی نہیں آسکتا۔

حضرت یحییٰ بن معاذرحمۃ اللہ علیہ جب اس آیت کریمہ کو پڑھتے تو فرماتے کہ میرے مولیٰ!شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونے کا شرف تونے اُن لوگوں کو بھی عطا کر دیا ہے جو تیرے قریب ہونے کے طالب نہیں ہیں اور تجھ سے دور ہیں مگر وہ لوگ جو تیرے قریب آنا چاہتے اور تیرے طالب ہیں، اپنی طاعات، اعمالِ صالحہ، سجدوں، دل کی وسعت و کشادگی، ظاہر باطن کی طہارت اور صدق اور اخلاص کے ساتھ تیری طرف بڑھنا چاہتے ہیں اور بڑھ رہے ہیں، اُن کے ساتھ تیرے قرب کا عالم کیا ہوگا۔

قربِ الہٰی سے محرومی کے ذمہ دار ہم خود ہیں

انسان کے ذہن میں اس سوال کا پید اہونا کہ اللہ ہم سے کتنا قریب ہے؟ اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے اعمال کی خبر ہے کہ وہ کس قدر گناہوں، نافرمانیوں اور بداعمالیوں میں گھرا ہوا ہے، اسے اپنے حال کا علم ہےاور چونکہ وہ خود اللہ سے دور ہوتا جارہا ہے، اِس لیے اُسے بھروسہ نہیں کہ اللہ اس کے کتنا قریب ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بندے سے دور نہیں ہوتا ، بلکہ بندہ اللہ سے دور ہوتا ہے۔

لہذا یاد رکھیں کہ قرب الہی بندہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔وہ ہمارے قریب ہی ہے لیکن ہم اس سے قریب اور دور ہوتے رہتے ہیں۔ گناہوں ، نافرمانیوں اور معاصی کی وجہ سے اس سے دور ہو جاتے ہیں اور طاعت، عبادات اور نیکیوں کے ذریعے اس کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پس قربِ الہی وہ حال ہے جو بندہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ میں مولیٰ کے کتنے قریب ہوں اور مجھے اللہ کے قریب ہونے پر کیا کیفیات نصیب ہو رہی ہیں؟

بندہ جب کسی بڑے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اُتنا ہی حیا والا ہوتا ہے، اُتنا ہی با ادب ہوتا ہے، اُس کی اِتنی ہی جھجک اور ڈر ہوتا ہے۔ اگر کوئی بے حساب اللہ کا حیا کرتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے کہ کہیں اُسے ناراض نہ کر بیٹھوں تو اس وقت خوف، حیا اور محبت کی جو کیفیت بندہ دل میں محسوس کرتا ہے، سمجھ لیں کہ بندہ اسی قدر اللہ کے قریب ہے اور جوں جوں اس کا حیا کم ہوتا چلا جائے تو سمجھیں کہ بندہ اتنا ہی اللہ سے دور ہوگیا ہے۔ اللہ کے اوامر و نواہی کو توڑنے کاخوف اگر بندہ دل میں محسوس نہیں کرتا تو سمجھیں کہ وہ اللہ سے دور ہے۔

گویا ہم اپنے اعمال، اپنے قلبی امراض، اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس سے دور کرتے رہتے ہیں اور طاعات، عبادات، اعمالِ صالحہ کے ذریعے اس کے قریب ہوتے رہتے ہیں۔قریب اور دور ہونے کا عمل ہمارا ہے جبکہ اللہ رب العزت کی قربت ہمیشہ قائم رہتی ہے، وہ تو کسی سے دور ہوتا ہی نہیں ہے۔

حضور نبی اکرمﷺ نے بھی اپنے فرامین کے ذریعے قربِ الٰہی کے تصور سے بخوبی آگاہ فرمایا ہے۔حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے:

إِذَا تَلَقَّانِي عَبْدِي بِشِبْرٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِذِرَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِي بِذِرَاعٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِبَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِي بِبَاعٍ أَتَيْتُهُ بِأَسْرَعَ.

(صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا والتوبة والاستغفار، 4: 2061، الرقم: 2675)

یعنی اگر میر ا بندہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے تومیں ایک ہاتھ کے برابر اُس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے طرف بڑھتا ہے تو میں دو بازوؤں کی مقدار اُس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف دو ہاتھ بڑھتا ہے، میرے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے اور اُس نے اپنی خطاؤں، غلطیوں، غفلتوں، گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے مجھ سے منہ موڑ کر جو فاصلے پیدا کر لیے تھے، ان فاصلوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے تو میں اُس سےکئی گنا زیادہ تیزی کے ساتھ اُسے قربت سے نوازتا ہوں۔

اس حدیث مبارک میں تین مثالیں دی ہیں حالانکہ اللہ بھاگنے سے بھی پاک ہے، بازوؤں کے فاصلے بھی پاک ہے اور بالشتوں کے فاصلے بھی پاک ہے مگر ہمیں سمجھانے کےلیے ان الفاظ کو استعمال فرمایا۔ یعنی اگر کوئی نیکی، طاعت، عبادت، پرہیزگاری اور نیک کام جتنی مقدار اور جس قدر مستعدی کے ساتھ کرتا ہے تو اللہ اس سے بڑھ کر اپنی شان کے لائق بندے کو اپنی قربت سے نوازتا ہے۔

قربتِ الہٰی سے محرومی کے اسباب

ہم اپنے خود ساختہ اعمال ، عقائد اور خیالات جو نفس، شیطان اور دنیا کی جانب سے آتے ہیں اور جنھیں ہم اپنی سماعت و بصارت اور عقل و دماغ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں، ان کے سبب قربتِ الہٰی سے محروم رہتے ہیں۔ ان نفسیاتی، شیطانی اور دنیاوی خواہشات کے سبب ہمارے قلوب و ارواح پر کچھ پردے اور حجابات آجاتے ہیں، جن کے سبب ہم اللہ کے لطف وکرم سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذیل میں اللہ کی قربت سے محرومی کا سبب بننے والے چند حجابات بیان کیے جاتے ہیں:

(1) حجاب الکفر والشرک

سب سےپہلا حجاب جو سب سے خطرناک ہے وہ کفر وشرک کا حجاب ہے۔ بندہ اللہ پر ایمان ہی نہیں رکھتا اور اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔ یہ عمل انسان کو اللہ کی قربت سے محروم کردیتا ہے۔

(2)حجاب العقائد الفاسدۃ

دوسراحجاب یہ ہے کہ بندہ مسلمان ہے مگر گمراہ کن عقائد اور غلط و فاسد خیالات کے سبب قربِ الہٰی سے محروم رہتا ہے۔ یہ حجاب بندے کو اللہ سے اس لیے دور کر دیتا ہے کہ اس کے یہ خود ساختہ خیالات صحیح نہیں بلکہ باطل ہیں اور قرآن مجید اور آقا علیہ السلام کے فرمودات کے مطابق نہیں اور اسلام کے تصور سے ہٹ کر ہیں۔ یہ غلط عقائد اور خیالات انسان کو تعلیمی اداروں، میڈیا اور ماحول کے زیر اثر ملتے ہیں، جہاں ہمارا روز کا آنا جانا اور زندگی کا معمول ہے۔ یہ غلط خیالات، نظریات اور غلط تصورات آہستہ آہستہ ہمارے اذہان میں جم جاتے ہیں اورہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہی حقیقت ہیں اور پھر ہم اُس پر یقین کرنے لگ جاتے ہیں۔ اِس طرح انسان نظریاتی طور پر بھٹک جاتا ہے۔

(3) حجاب الکبائر الباطنیة

باطنی کبیرہ گناہ اللہ کی قربت سے محرومی کا تیسرا سبب ہیں۔ جیسے حقد، حسد، کبر، تکبر، عجب، خود پسندی، ریاکاری، بُغض، کینہ، دنیا کا حرص، مال دولت اور منصب کا لالچ وغیرہ۔ یہ حجابات باطنی کبیرہ گناہ ہیں۔ یہ حجابات بندے کو اللہ سے دور کرنے کا سبب اس لیے ہیں کہ چونکہ اللہ کی قربت کے احساس، مقامِ قربت الہیہ کے حصول، قربتِ الہیہ کے شعور و مشاہدہ اور قربتِ الہیہ کی لذتوں اور حلاوتوں کے پانے کا مقام دل ہے، جب دل غلاظتوں اور باطنی گناہوں کےساتھ معمور ہوگیا تو پھر اس میں قربتِ الہٰیہ کی حلاوت کہاں سماسکتی ہے۔ ان تمام باطنی گناہوں کا تعلق چونکہ مخلوق کے ساتھ ہے، اس لیے مخلوق خدا کے حوالے سے دل کی حفاظت نہ کرنا، قربِ الہٰی سے محرومی کا سبب ہے۔

(4) حجاب الکبائر الظاہرۃ

چوتھا حجاب ظاہری گناہ کی صورت میں ہے۔ اُن میں قتل، بدکاری، والدین کی نافرمانی، رزقِ حرام اور سارے محرمات جن کو اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے حرام قرار دیا ہے، شامل ہیں۔ یہ ظاہری کبیرہ گناہ بندے کو اللہ کے قریب نہیں ہونے دیتے۔

(5) حجاب الصغائر من الذنوب

پانچواں حجاب صغیرہ گناہوں کا حجاب ہے۔ ہر وہ کام جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے دیئے ہوئے طریق سے ہٹ کر ہے اور اُس کے خلاف ہے، وہ صغیرہ گناہ ہے۔ اس میں کسی سے نفرت، حقارت، مذاق اڑانا، معاملے میں کمی وبیشی کرنا، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرنا اور اس جیسے سیکڑوں وہ معاملات آتے ہیں، جن کا انسان کو ادراک نہیں۔ ہر صغیرہ گناہ اللہ کی قربت کے حصول کی راہ میں ایک پردہ حائل کرتا چلا جاتا ہے۔

یاد رکھیں! گناہِ صغیرہ یا کبیرہ کے حجابات کثرتِ عبادات سے بھی اس وقت تک دور نہیں ہوتے جب تک ان گناہوں کو کلیتاً ترک نہ کیا جائے۔ عبادات اور توبہ کر نےسے ان میں تخفیف یا کمی تو ہوسکتی ہےمگر ان کو مکمل ترک کیے بغیر یہ حجاب ختم نہیں ہوتا۔

(6) حجاب الفاضلات والتوسع فی المباحاۃ

چھٹا حجاب نہایت عجیب ہے۔ یہ صغیرہ یا کبیرہ گناہوں کی صورت میں نہیں آتا بلکہ وہ اعمال جو گناہ کے زمرے میں نہیں آتےمگر فضول چیزیں ہیں، مباح امور جن کے کرنے سے گناہ اور ثواب نہیں، ان بے کار اور لغو امور کو کرنے سے یہ حجاب آتا ہے اور بندے کو قربتِ الہٰی سے محروم کردیتا ہے۔ ایسے امور اس لیے حجاب کا باعث بنتے ہیں کیونکہ یہ وقت کو ضائع کرنے کا سبب ہیں۔ جو وقت ان لغو اور بے کار کاموں میں صرف کیا، اُس وقت بندہ کوئی نیکی، بھلائی اور خیر کا کام کرسکتا تھا۔ کثرت کے ساتھ ایسے اعمال کی انجام دہی بالآخر حجاب بن جاتی ہے۔ اس کی مثال ہماری روزمرہ زندگی میں گپ شپ لگانے کی ہے کہ ہم گھنٹوں بیٹھ کر فضول اور لایعنی گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔

(7) حجاب الغفلة عن الاستحضار

ساتواں حجاب بھی ایک باطنی حجاب ہے۔ اس کا تعلق غفلت کے ساتھ ہے۔ بندہ اللہ کا ذکر، عبادت اور تسبیح کررہا ہے مگر دل ان میں مستغرق نہیں بلکہ غفلت کا شکار ہے۔ جو کچھ کر رہے ہیں، دل اُس سے غافل ہے۔ارشاد فرمایا:

وَلَا تُطِعۡ مَنۡ أَغۡفَلۡنَا قَلۡبَهُ عَن ذِكۡرِنَا.

(الكهف، 18: 28)

اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے۔

تسبیح کرتے ہیں مگر دل اُس تسبیح کے ساتھ نہیں ہے۔۔۔ عبادت کررہے ہیں مگر اللہ کے حضور حاضر نہیں ہیں۔۔۔اس کی بارگاہ میں سوچ اور دل جما ہوا نہیں ہے۔۔۔ نماز اور دعا میں اس کو پکار رہے ہیں مگر پکارتے ہوئے یہ تصور نہیں کہ میں اس کے سامنے ہوں اور اس سے بات کر رہا ہوں، اُس کو اپنی بات سنا رہا ہوں۔۔۔ اُس کے حضور کھڑا ہوں اور اُس کی بارگاہ میں سجدہ ریزی کر رہا ہوں۔ جب بندہ ان تصورات سے خالی ہوکر غفلت کے ساتھ اس کی عبادات کرتا ہے تو یہ عملِ عبادت بھی اس کے لیے ایک حجاب کا باعث ہے۔

مذکورہ سات اقسام کے حجابات میں سے ہر ایک حجاب کے اندر بے شمار اعمال اور افعال ہیں۔ یہ حجابات بندے کو قرب الہی سے محروم کرتے ہیں۔ان سات حجابات کے انسان کے دل پر اثر انداز ہونے کے چار عوامل اور دروازے ہیں۔ تمام گناہ، خیالات، خواہشات، شہوات، تمنائیں، سوچیں، تصورات اور نظریات ان چار راستوں سے انسان کے دل میں داخل ہوتے ہیں اور اِن حجابات کو قائم کرنے کا سبب بنتے ہیں:

1۔ نفس

2۔شیطان

3۔ خواہش

4۔ دنیا

ان چار راستوں کے ذریعے حجابات انسان کے قلب میں داخل ہوتے ہیں اور بندے کو اللہ رب العزت کی قربت سے محروم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

قربِ الہٰی عطا کرنے والے اسباب و ذرائع

جس طرح کچھ اسباب سے حجابات پیدا ہوتے ہیں، اس طرح کچھ ایسے عناصر اور اسباب بھی ہیں جو قرب عطا کرتے ہیں اور بندے کو قرب الہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ذیل میں اُن میں سے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

(1) ادب

سارے اعمال کچھ نہ کچھ خیر دیتے ہیں۔ہر عمل کی اپنی ایک نوعیت اور اثر ہوتا ہے، مگر ایک عمل ایسا ہے جوسب سے زیادہ مجرب ہے اور بندے کو اللہ کی قربت سے نوازتا ہے اور بندے کو اللہ کا مقرب بناتا ہے۔ قرب سے نوازنے والا رب خود کو مقرب نہیں کہتا بلکہ بندے کو مقرب کہتا ہے اور اپنے بارے میں کہتا ہے کہ ’’فانی قریب‘‘ کہ ’’میں قریب ہوں‘‘ پس بندے کو قریب نہیں کہتے بلکہ مقرب کہتے ہیں۔ یعنی اِس کو قرب سےنوازا گیا ہے۔ قرب کی نسبت بندے کے عمل یا فعل کی طرف نہیں کی، اس لیے کہ اِس سے رعونت پیدا ہوتی ہے۔ لفظ مقرب کا استعمال خود دلالت کرتا ہے کہ بندہ سب کچھ ترک کررہا ہے اور اعلان کررہا ہے کہ میں کچھ نہیں ہوں اور میرا کوئی عمل اس کے قریب ہونے کا باعث نہیں بنا۔ بندہ کسی چیز یا نیکی کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا، وہ اِس ٹائٹل کو بھی اپنے پاس سے ہٹادیتا ہے کہ میں اس کے قریب ہوں۔ کسی بندے کو اجازت نہیں کہ وہ کہے میں اس کے قریب ہوں اور نہ ہی کسی اللہ کے بندے نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے کہ و ہ جس کو چاہے، قرب سے نواز دے۔

یہ نکتہ ’’ادب‘‘ ہے۔ میں نے تعلیماتِ اسلام میں سے جو کچھ آج تک مطالعہ کیا ہے، اس کا لب لباب یہ ہے کہ سارے اعمال بندے کو فائدہ دیتے ہیں مگر قربِ الہی کی طرف سفر کی ابتداء ادب سے ہوتی ہے۔اس ادب میں ادبِ الہی، ادبِ رسالت مآبﷺ اور ادبِ صالحین شامل ہے۔ ہر وہ عمل جو ادب سے خالی ہے، وہ مقبول رہتا ہے اور نہ حسین رہتا ہے۔۔۔ ادب ہر عمل کو حسین وجمیل بنا دیتا ہے۔۔۔ادب؛ زبان و گفتگو کو حسین بناتا ہے اور اثرات بڑھا دیتا ہے۔۔۔ ادب؛ تعلق میں خوشگواری پیدا کر دیتا ہے۔ آداب جس قدر اچھے ہوتے جاتے ہیں، اُتنی قبولیت بڑھتی جاتی ہے۔ جس طرح ہم اچھے ادب والے کو اپنے قریب کرتے ہیں، اِس طرح اللہ بھی اچھے ادب والے کو اپنے قریب کرتا ہے۔

(2) غیبت، حسد اور عیب جوئی سے اجتناب

قربِ الہٰی کا باعث بننے والا دوسرا سبب غیبت، حسد اور عیب جوئی سے پاک ہونا ہے۔ حضرت قیس العامری بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ عرض کیا:

یا رب ؛ علمنی شیاً أتقرب به إلیک؟ قال : نعم یاداؤد أعلمک شیاً. قال : ما ھو یا رب؟ قال : لا تغتب عبادی المسلمین ولا تحسد عبداً لی إذا رأیت فضل نعمتی عليه.

(أبوسعد النیشاپوری، تهذيب الأسرار: 73)

اے اللہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دے جس کے ذریعےمجھے تیرا قرب نصیب ہو جائے۔ فرمایا: ہاں میرے داؤد میں تمہیں ایک چیز بتاتا ہوں کہ جس سے میرا قرب ملے گا۔ عرض کیا: میرے مولیٰ! وہ کیا ہے؟ فرمایا: میرے بندوں کی کبھی غیبت نہ کرنا اور جب میرے کسی بندے پر میری نعمت دیکھے کہ میں نے اسے زیادہ دیا ہے اور اس پر دینی، دنیاوی، مالی، اخلاقی، علمی حوالے سے زیادہ کرم کیا ہے تو میرے بندے پر زیادہ نعمت دیکھ کر اُس پر کبھی حسد نہ کرنا۔

یعنی دل کو اِتنا نرم اور وسیع بنا لیں کہ نہ وہ کسی کی بُرائی دیکھے، نہ کسی کی برائی کا تذکرہ کرےاور نہ ہی کسی کو حاصل نعمت پر حسد کرے۔ اگر بندہ دل کو ایسا کر لےتو اسے اللہ کا قرب نصیب ہو جائے گا۔

(3) اللہ سے موافقت اختیار کرنا

اللہ کے قرب کے حصول کا تیسرا سبب اس کے ساتھ موافقت اختیار کرنا ہے۔ جو لوگ اللہ کے امر کے مخالف ہیں اور اُن کی طبیعت، اللہ کے احکام کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی، وہ اللہ سے دور ہوگئے اور وہ لوگ جو اللہ کے تابعدار اور وفادار ہوجاتے ہیں، وہ اپنے دلوں اور طبائع میں یہ تبدیلی لاتے ہیں کہ اللہ کے حکم سے اُن کی طبیعت راحت پاتی ہے اور ان کی طبائع اللہ کے احکام سے موافق ہو جاتی ہیں۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ ہم دنیاوی زندگی میں ان لوگوں کے ساتھ چلتے اور اٹھتے بیٹھتے ہیں جن کے ساتھ ہماری طبائع اور مزاج موافق ہوتا ہے۔ موافق اور موافقت کامطلب ہے کہ انسان جس چیز سے راحت، سکون اور اطمینان پائے اور اُسے اس کے ساتھ چلنے میں کوئی تنگی، پریشانی اور ضرر نہ ہو۔ جہاں ہم گھٹن محسوس کریں اور سکون اور راحت نہ ہو، اُس کو عدمِ موافقت یا مخالفت کہتے ہیں۔

قربِ الہی کا راستہ اُس وقت کھلتا ہے جب ہمارے دل اور طبیعت میں اللہ کے احکام کے ساتھ موافقت پیدا ہو جائے یعنی جب ہم اللہ کے احکام کی بجا آوری تکلفاً نہیں کر رہے ہوتے، اپنے آپ کو اس کے احکام نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج ، اوامر ونواہی کی طرف دھکیل کر نہیں لے جار ہے ہوتے بلکہ طبیعت اس کی طرف جانے میں راحت محسوس کررہی ہوتی ہے۔۔۔ طبیعت اللہ کی غلامی، عبادت گزاری، بندگی ، طاعت کی طرف خود بخود راغب ہورہی ہوتی ہے۔۔۔ اور اللہ کے ساتھ ہی اسے اِتنی موافقت ہوچکی ہوتی ہے کہ اللہ کے احکام کے ساتھ اسے راحت ملتی ہے۔

وہ طبائع بڑی اعلیٰ ہیں جو صرف خیر پر ارتکاز کرکے اپنی موافقت پیدا کر لیتی ہیں اور شر کو نظر انداز کرتی ہیں۔ کسی کی بُرائی کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور اُس میں موجود خیر کے پہلو سے موافقت پیدا کر لیتی ہیں۔ اگر موافقت اللہ کے احکام کے ساتھ ہوجائےتو قرب کا دروازہ کھلتا ہے۔

حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو کعبۃ اللہ کا طواف کرتے دیکھا۔ اُس کا جسم نحیف ، کمزور ، لاغر تھا اور اس کا رنگ بھی زرد تھا، جیسے خوف کی کیفیت ہو۔میں نے اس سے پوچھا: کیا آپ محبت کرنے والے ہیں؟ اُس جوان نے مجھے کہا: ہاں، میں محب ہوں۔

میں نے پوچھا:

حبیبک منک قریب أم بعید؟

آپ کا محبوب آپ کے قریب ہے یا آپ سے دور ہے ؟

اُس نے جواب دیا کہ میرا محبوب میرے قریب ہے۔

میں نے پوچھا: موافق أؤ غیر موافق؟

آپ کے ساتھ اُس کی موافقت ہے یا عدم موافقت؟ یعنی آپ سے راضی رہتا ہے یا ناراض رہتا ہے؟ اس نوجوان نے کہا: میرے ساتھ بہت راضی رہتا ہے۔

فرماتے ہیں کہ میں بڑا حیران ہوا اور سبحان اللہ کہتے ہوئے اس نوجوان سے کہا کہ اے بندے!تیرا محبوب ہے اور تجھ سے قریب بھی ہے اور تجھ سے راضی بھی ہے لیکن پھر یہ خوف اور چہرے پر زردی کی کیفیت کیوں ہے؟ اُس نے کہا :

أما علمت أن عذاب القرب والموافقة أشد من عذاب البعد والمخالفة.

(أبوسعد النیشاپوری، تهذيب الأسرار: 74)

تمہیں معلوم نہیں قرب اورموافقت کا جو امتحان ہوتا ہے، یہ دوری اور مخالفت کے امتحان سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔

یعنی جو آدمی اللہ سے دور ہے، اُسے کیا امتحان ہے، وہ تو غافل ہو چکا ہے، اُس پر تو پردے پڑگئے ہیں، وہ اللہ کے احکام کا مخالف ہےاور اللہ بھی اُس سے ناراض ہے۔ اِس کے دل پرمخالفت نے اِتنے پردے ڈال دیئے ہیں کہ اِس کو پرواہ ہی نہیں رہی لہذا وہ کسی امتحان میں نہیں ہے۔ اپنے اس عمل کا عذاب وہ بعد زاں بھگتے گا مگر وہ بندہ جو اللہ کے قریب ہوتا ہےاور اللہ اسے اپنی موافقت اور رضا دیتا ہے، وہ تو ہر وقت اپنے آپ کو اللہ کے سامنے محسوس کرتا ہے، اللہ اسے دیکھ رہا ہے، اُس سے راضی ہے، اُس پر انعام کرتاہےتو اِس سے اس بندے میں جوحیا پیدا ہوتی ہے، اُس حیا کا امتحان اور آزمائش دنیا کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔اُس آزمائش میں یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے بےادبی نہ ہوجائے۔۔۔کہیں مجھ سے خطا نہ ہوجائے۔۔۔کہیں میں اپنے محبوب کو ناراض نہ کر بیٹھوں۔۔۔کہیں اُس کی موافقت کم نہ ہوجائے۔۔ ۔ پس ہرلمحہ یہ کھٹکا رہتا ہے اور یہ سوچ انسان کو پریشان رکھتی ہے۔اگریہ پریشانی انسان کے قلب کو لاحق رہے توسمجھیں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے چشمۂ قرب میں سے چند قطرے دے دیئے ہیں اوراپنے قرب کا حصہ عطا کر دیا ہے۔

  • حضرت ابو بکر الوراقؒ بیان کرتے ہیں کہ:

من نظر إلی الله عزوجل بقلبه قریباً بعد من کل شیئ سوی الله تعالي.

(أبوسعد النیشاپوری، تہذيب الأسرار: 73)

جب بندہ اپنے دل کو اللہ کے قریب کرتا ہے تو اس قرب الہی کے سبب اللہ کے سوا ہر شے اُ س کے دل سے دور ہوجاتی ہے۔

جو لطف، مزہ، کیفیت اور سرور اسے اللہ کی قربت میں نصیب ہوتا ہے، اس کے سبب اب کسی شے کی تمنا، حرص لالچ اور تڑپ اس کے اندر نہیں رہتی۔ پس اس کی موافقت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اللہ سے دور کرنے والی ہر شے اور اللہ کے ہر غیر سے دل منقطع ہوجائے۔ انسان کا جسم امور دنیا سے تعلق میں رہتا ہے، دنیاوی فرائض ادا کرتا ہے، ذمہ داریاں ادا کرتاہے، مگر قلب ان امور سے اپنا تعلق کاٹ لیتا ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ ایک خوبصورت تعلقِ اُنس و موافقت اور رضا میں بندھ جاتا ہے اور اسے یہ راحت کسی اور طرف دھیان ہی نہیں کرنے دیتی۔

(4) حضوری کے ساتھ نماز پڑھنا

قربِ الہٰی کے حصول کا چوتھا سبب حضوری قلب کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہے۔ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں، یہ نماز حقیقی نماز نہیں ہے۔ ہم تو صرف فرض کا بوجھ اُتارتے ہیں۔ اصل نماز یہ ہے کہ جب جسم مصلے پر کھڑا ہوتو دل بھی اللہ کی بارگاہ میں موجود ہو۔۔۔ چہرے کا رخ کعبے کی طرف ہوتو دل کا رخ ربِ کعبہ کی طرف ہو۔۔۔جب نماز میں کلمات ادا کر رہے ہوں تو ایسا محسوس کریں کہ اللہ سن رہا ہے اور میں سنا رہا ہوں۔۔۔ اِس حضوری کے ساتھ نماز پڑھیں۔ یاد رکھیں! سکون اور راحت سے ادا کی گئی نماز ہی قرب الہی کا دروازہ کھولتی ہے۔ نماز وہ قربت دیتی ہے جو جنتیوں کو جنت میں بھی نہیں ملے گی۔ حضوری کے ساتھ ادا کی گئی نماز کی وجہ سے قرب کی جو لذت ملتی ہے، جنتی بھی اُس کے مشتاق ہوں گے۔اِس لیے نماز کو مومن کی جنت نہیں کہا بلکہ مومن کی معراج کہا ہے۔ جنت عرش سے نیچے ہے جبکہ معراج عرش سے اوپر ہے۔ اگر معراج کی کیفیت ہو جائےتو بندہ مالائے اعلیٰ اور لامکاں میں چلا جاتا ہے۔

حضرت امام محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ اگر مجھے یہ اختیار دے دیا جائےکہ جنت لے لو یا دو رکعت نماز پڑھنے کا وقت لے لوں تو میں دو رکعت نماز کا وقت لے لوں گا۔ اِس لیے کہ حضوری کی کیفیت کے ساتھ نماز میں قرب الہی کی جو لذت ملتی ہے ، وہ شاید جنتیوں کو وہاں نصیب نہ ہو۔

(الرفاعی، حالة أهل الحقيقة مع الله: 90، الرقم: 17)

قربِ الہٰی کی علامات

اولیاء، صلحاء اور صوفیاء نے اپنے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی قربت کی مختلف علامات کو بیان کیا ہے۔ ذیل میں اُن میں سے چند علامات کو ذکر کیا جاتا ہے:

(1) طاعات کی طرف رغبت

حضرت محاسبی بیان کرتے ہیں کہ قرب کی علامت یہ ہے کہ

أن یتقرب العبد إلی الله سبحانه بالطاعات.

(أبوسعد النیشاپوری، تہذيب الأسرار: 74)

بندہ اپنی طاعات، عبادات اور نیکیوں کے ذریعے قدم آگے بڑھاتا ہوا اللہ کے قریب ہوتا چلا جائے۔

(2) دل کی اللہ کے ساتھ مشغولیت

عارفین میں سے کسی سے پوچھا گیا کہ قرب الہی کا کیسے تعین کریں اور اسے کیسے محسوس کریں تو انھوں نے فرمایا:

القرب شغل القلب بالله تعالیٰ.

(أبوسعد النیشاپوری، تہذيب الأسرار: 74)

دل اللہ کے ساتھ ہر وقت مشغول رہے۔ یعنی ہر وقت دل میں اللہ کی یاد غالب رہے۔۔۔ اللہ کی رضا کی کیفیت دل پر چھائی رہے۔۔۔ اللہ کی اطاعت، لذت پیدا کرے۔۔۔ اُس کے قرب اور اُس کے حیا کا احساس رہے۔۔۔اُس کے مشاہدہ کا خیال رہے کہ ہمارے دل کو وہ تک رہا ہے۔ اگر ہر وقت دل اللہ کے ساتھ اس طرح مشغول رہے تو جان لیں اِس دل کو اللہ کا قرب نصیب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے اُتنا ہی قریب ہوتا ہے کہ جتنا اُس بندے کا دل اللہ کے قریب ہوتاہے۔

  • اولیاء اور عرفاء اور مقربین کہا کرتے تھے:

مانظرت إلی شیء إلا ونظرت الله تبارک وتعالیٰ أقرب إلی منه.

(أبوسعد النیشاپوری، تہذيب الأسرار: 75)

میں نے زندگی میں جس چیز کو بھی قریب سے قریب تر دیکھا ہے ، اللہ کو اُس سے بھی قریب دیکھا ہے۔ یعنی بندے کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ اپنے انداز کے ساتھ اللہ کے لطف وکرم اور انعام کو اپنے قریب دیکھتا ہے۔

  • حضرت ابو سلیمان الدارانیؒ جلیل القدر صوفیاء اور عارفین میں سے ہوئے ہیں، اُن سے کسی نے پوچھا کہ کونسی سے چیز ہے جو بہت زیادہ اللہ کے قریب کر دے؟ آپ رو پڑے اور پھر فرمایاکہ ’’آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ یہ سوال میرے جیسے لوگوں سے پوچھا جا ر ہا ہے۔‘‘ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو بہت جلیل القدر اولیاء میں سے تھے۔جنہوں نے اولین زمانہ پایا کہ اس حد تک تواضع و انکساری کے پیکر تھے۔ پھر فرمانے لگے:

أقرب ما یتقرب به إليه أن یطلع من قلبک علی أنک لا ترید من الدنیا والآخرۃ إلاھو.

(أبوسعد النیشاپوری، تہذيب الأسرار: 76)(الرفاعی، حالۃ أهل الحقیقۃ مع الله: 188، الرقم: 34)

وہ حال سب سے زیادہ اللہ کا قرب عطا کرتا ہے کہ اللہ خود آپ کے دل کو دیکھے تو وہ اس میں دنیا اور آخرت کی کوئی شے بھی نہ پائے۔ اُس کی طلب، خواہش، لذت حتی کہ دنیا اور آخرت کی کوئی بھی چیزسوائے اللہ کے اس کے دل میں موجود نہ ہو۔ گویا وہ دل اللہ کے لیے یکسو ہو اور اللہ کی محبت اور چاہت کے لیے ہر ایک سے خالی ہو چکا ہو۔ پس دل کی اِس طرح کی طہارت اور صفائی ہوجائے اور اُسے اللہ کے لیے خلوت مل جائے کہ ہر چیز کو دل سے رخصت کردے۔

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

جب دل میں ایسی خلوت ہو جائےتو اللہ تعالیٰ اپنا قرب عطا کرتا ہے۔

(3) علم پر عمل، اخلاص اور صحبتِ صالحہ

سیدنا امام جعفر الصادق سے پوچھا گیا کہ اللہ کے قرب کی علامات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین علامات ہیں کہ جس سے بندہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ میں قرب الہی حاصل کر رہا ہوں:

(1) اللہ تعالیٰ اسے دین کا علم و فہم عطا کرے تو وہ اُس علم پر عمل بھی کرے۔ اگر علم ہو اور عمل کی توفیق نہ ہو تو سمجھیں کہ دوری ہے اور صرف قصے کہانیاں ہیں۔ اگر علم؛ عمل بن جائےتو سمجھیں قرب کا راستہ کھل گیا۔

(2) جب زندگی میں عمل شروع ہوجائےتو پھر بندہ دیکھے کہ اِس عمل میں اخلاص کتنا ہے؟ اگر نیت میں اخلاص نہیں بلکہ دنیا ، نفس اور خیالات کی آمیزش ہے تو پھر بندہ اللہ سے دور ہے، اس کے قریب نہیں۔

(3) جب عمل میں اخلا ص مل جائےتو پھر اُس کوقائم رکھنے کےلیےہمیشہ صالحین کی صحبت رکھیں۔ بندہ نام ونمود ، وضع قطع اور لباس سے صالح نہیں ہوتا بلکہ اپنے عمل، حال، طہارت، تقویٰ ، پرہیز گاری، اخلاق اور ظاہر وباطن کی اچھائیوں سے صالح ہوتا ہے۔ اگر صالحین کے ساتھ قائم رہوتو دل میں اُن کا احترام رہے۔ صالحین کا احترام کرنا بندے کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔

(4) خوف، امید اور شوقِ ملاقات

حضرت رابعہ بصریjسے پوچھا گیا کہ آپ نے اللہ کا قرب کیسے پایا؟فرمایا: دس سال تک میں اللہ کے خوف اور اُس کی ناراضگی کے ڈر سے روئی۔۔۔ جب خوف کا رونا ختم کیا تو اگلے دس سال اُ س کی رحمت کی امید پر روئی کہ وہ بخش دے گا اور معاف فرما دے گا۔۔۔ پھر اگلے دس سال اُس سے ملاقات کے شوق میں روئی۔ کہ اس سے کب کیسے اورکس حال میں ملاقات ہوگی؟ گویا دس سال اس کے ساتھ خوف کا تعلق قائم رکھا۔ دس سال اس کے ساتھ امید کا تعلق قائم رکھا اور دس سال اس کے ساتھ شوقِ ملاقات کا تعلق قائم رکھا۔ جب تیس سال اِس طرح ختم کیے تو اُس نے مجھے اپنا قرب عطا کر دیا۔ (الرفاعی، حالة أهل الحقيقة مع الله /188، الرقم/34)

(5) خواہشاتِ نفسانی کا ترک کرنا

حضرت مالک بن دینارؒاپنے نفس کو خطا ب کرتے ہوئے فرماتے کہ اے میرے نفس!کیا تو چاہتا ہے کہ اللہ کا پڑوسی بن جائے، اس کے قریب ہوجائے، وہ تجھےاپنی قربت سے نوازےاور اپنا دیدار عطا کر دے؟ پھر کہتے کہ اگر اللہ کا قرب اور دیدار چاہتے ہوتو مجھے بتاؤ کہ اُس اللہ کے قرب کی خاطر تم نے کون سی شہوت اور خواہش ترک کر دی ہے۔۔۔؟ تم نے اللہ سے کتنی دوریاں قائم کر رکھی ہیں، وہ کون سی ایک دوری ہے جس کو تم نے قربت میں بدل دیا ہے۔۔۔؟ اللہ کی خاطر کتنوں سے محبت کی اور اللہ کی خاطر کتنوں سے دشمنی و بغض رکھا۔۔۔؟ وہ کون سا غصہ ہے جو تم اللہ کے لیے ضبط کر گئے ہو۔۔۔؟کون سی معافی ہے جوتم نے کسی کو اللہ کے لیے دے دی ہے۔۔۔؟یہ کہتےکہتے اُن پر غشی طاری ہوجاتی اور وہ بے ہوش ہوجاتےتھے۔

(الرفاعی، حالة أهل الحقيقة مع الله /189، الرقم/34)

(6) احساسات میں تبدیلی

جب قرب ہو جاتا ہے تو بندے کے احساسات، تصورات، سوچ کا رخ اور زاویۂ عقل و نگاہ بدل جاتے ہیں۔جب عشق کا تعلق اللہ سے قائم ہوتا ہے، قرب الہی نصیب ہوتا ہے اور بندہ اُس کی لذت اور حلاوت میں سے کچھ جام پیتا ہے تو زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔

ایک شخص امام حسن بصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری بیٹی ہر وقت اللہ کی یاد، اس کے خوف اور عشق میں روتی رہتی ہےاور اِتنی مدت ہوگئی ہے کہ روتے روتے اب اُس کی بینائی بھی ختم ہورہی ہے۔آپ اسے کچھ سمجھائیں اور دعا بھی فرمائیں تاکہ وہ اپنی آنکھوں کی بینائی بچا لے۔حضرت امام حسن بصریؒ اُس کے ساتھ گئے اور اُس بیٹی سے کہا کہ بیٹی اپنے آپ پر کچھ رحم کرو، اِتنا کیوں روتی اور پریشان رہتی ہو؟ اُس نے جواب دیا: میں سوچتی ہوں کہ میری آنکھوں کی حالت دو حالتوں میں سے ایک ہوگی:

1۔ ایک حالت یہ ہوسکتی ہے کہ میری آنکھیں اللہ کے دیدار کے قابل ہوں اور وہ اِنہیں اِس قابل ٹھہرائے کہ حجاب اُٹھا کر اپنا دیدار عطا فرمادے۔

2۔ دوسری حالت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر دے کہ یہ آنکھیں اللہ کے دیدار کے قابل نہیں۔

لیکن اگر یہ حالت ہوئی کہ میری آنکھیں اُس کے دیدار کے قابل نہیں ہوں گی تو پھر ایسی آنکھوں کو نابینا ہی ہوجانا چاہیے۔ اگر یہ اُس کے دیدار کے قابل نہیں ٹھہرائی جائیں گی تو یہ بینا کیوں رہیں۔

اگر یہ حالت ہوئی کہ میری آنکھیں اس کے دیدار کے قابل ہوئیں اور اِنہیں دیدار کرایا جائے گا تو پھر روتی اِس لیے ہوں کہ یہ تو دو آنکھیں ہیں، اگر ہزار آنکھیں بھی ہوں تو سب اس نعمت پر قربان کر دوں یعنی پھر میں اِن کی خوش نصیبی پر روتی ہوں۔ گویا اگر دیدار نہیں کر سکتی تو بدنصیبی پر روتی ہوں اور اگر دیدار نصیب ہوگاتو پھر خوش نصیبی پر روتی ہوں۔

یہ سن کر امام حسن بصری فرمانے لگے: بیٹی!میں توتمہارے درد کا مداوا کرنے آیا تھامگر خود سراپا درد بن کر جا رہا ہوں۔ میں تمہارا طبیب اور معالج بن کر آیا تھا مگر اب خود مریض بن کر جا رہا ہوں۔ یہ فرماکر آپ وہاں سے رخصت ہوگئے۔

(الرفاعی، حالة أهل الحقيقة مع الله /190، الرقم/34)

یہ کیفیت تب ہی ہوتا ہے جب آدمی اپنی بشریت اور انانیت کے پنجر سے باہر نکلتا ہے۔اے بندے ! جب تک تو اپنے نفس اور نفسانیت سے ہجرت نہ کرے اور بشری اور نفسانی شہوات کا لبادہ ترک نہ کردے تب تک تو قرب کی منازل سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔ جب تک ایسی بندگی قائم نہ ہو، اس وقت تک وہ تجھ پر قرب کا راستہ نہیں کھولتا۔ جن خوش نصیبوں پر قرب کا دروازہ کھلتا ہے اور اُن کے دل اللہ کے ساتھ حضوری پا لیتے ہیں تو پھر اُن کا ظاہر خلق کے ساتھ رہتا ہے مگر باطن ہمیشہ حق کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ مخلوق کے ساتھ، بچوں، فیملی اور دوستوں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے اور زندگی گزارتے ہیں، اُنہی میں سے ہوتے ہیں مگر ان کا قلب حق کے ساتھ جُڑا رہتا ہے اور وہ ہر وقت اللہ کے انعامات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔

طریقِ قرب کے دو عنوانات: فصل اور وصل

قرب کے راستے کے دو عنوانات ہیں:

1۔ فصل

2۔ وصل

فصل؛ جدائی کو کہتے ہیں اور وصل؛ ملاپ کو کہا جاتا ہے۔ فصل یہ ہے کہ دل ہر غیر سے جُداہوجائے۔ جس شے نے بھی اللہ کا قرب چھینا تھا، اللہ اور بندے کے درمیان پردے حائل کیے تھے، اُس سے فصل کرنا، یعنی اُس سے جدا ہونا ہوگا۔ جب بندہ اُ س سے جدا ہوتاہے تو وصل نصیب ہوجاتا ہے۔ بندہ اِدھر سے کٹتا ہے تو اُدھر جڑ جاتا ہے۔ یہ مقام وصال ہے۔

حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے بندے! جب تو مخلوق سے مر جاتا ہے یعنی مخلوق، دنیا اور جاہ و منصب سے اپنے دل کے رشتے کو توڑ دیتا ہے تو تمہیں کہاجاتاہے کہ اللہ نے تم پر رحم فرما دیا۔ پھر جب تو اپنے ارادہ کو فنا کرتا ہے تو تمہیں کہاجاتا ہے کہ اللہ نے تم پر رحم کیا ، تیرا ارادہ مرگیا اور تیرے اندر مولیٰ کا ارادہ قائم ہوگیا۔۔۔ پھر ایک مرحلہ آتا ہے کہ جب آدمی اپنا ارادہ بھی ختم کر دیتا ہے تو پھر اسے آواز آتی ہے کہ تجھے زندہ کر دیا گیا۔ جب آدمی کو یہ زندگی ملتی ہے تو بندہ اللہ کے ارادہ سے زندہ ہوجاتا ہے۔(فتوح الغیب: 10)

  1. حضرت بایزید بسطامیؒ کے ایک شاگرد کو خواب میں اللہ رب العزت کی زیارت ہوئی تواللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم سارے لوگ مجھے سے کچھ نہ کچھ مانگتے ہو، سوائے ابو یزید بسطامی کے، وہ مجھ سے کچھ نہیں مانگتا سوائے میرے۔وہ جب بھی مانگتا ہے تو مجھ سے مجھ ہی کو مانگتا ہے۔ یعنی اس نے دنیا سے دل کو اِتنا کاٹ لیا ہے کہ میرے سوا کسی اور چیز کی طلب اور تڑپ ہی اس میں نہیں رہی۔
  2. اللہ رب العزت نے حضرت بایزید بسطامی سے عالمِ کشف میں فرمایا: اے بایزید بسطامی! مانگ کیا مانگتا ہے؟ حضرت بایزید بسطامی نے عرض کیا کہ اے اللہ! میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ کچھ نہ چاہوں ، سوائے اِس کے کہ جوتو چاہتا ہے۔ یعنی میرے سارے ارادے، تیرے ارادہ میں فنا ہوجائیں۔ ۔۔میری چاہتیں، تیری چاہت میں فنا ہوجائیں۔۔۔ میری خواہش، تیرے امر میں فنا ہوجائے۔۔۔ اور سارے دوریاں، تیری قربت میں فنا ہو جائیں۔

حرفِ آخر!

اگر دیکھنا ہو کون شخص مقرب ہے اور اِس کے دل کو اللہ کا کتنا قرب نصیب ہوگیا ہے تو یہ دیکھیں کہ کیا اس کی ظاہری زندگی، عمل اور اخلاق میں درج ذیل دس چیزیں موجود ہیں:

1۔ ہر معاملے میں اُس کے دل میں اللہ کا حیا ہو۔ و۔

2۔ زندگی میں ہمہ وقت اُس کا دھیان صرف اللہ کی رضا میں رہے اور وہ شکوہ نہ کرے۔

3۔مخلوق کے لیے اُس کے دل میں کامل سلامتی ہو۔ کسی کے لیے کوئی حقد، حسد، تنگی، غصہ، ناراضگی، مقابلہ، انتقام، نفرت، بغض ، کینہ نہ ہو اس کا دل ہر ایک کے لیے وسیع ہو۔

4۔اس کی آنکھ کسی کی بُرائی نہ دیکھے بلکہ بلکہ اس کی نظر ہمیشہ دوسروں کی اچھائی پر رہے۔

5۔ دنیا اور آخرت کے جمیع امورمیں اللہ پر توکل رہے۔ ہر چیز میں محنت اور کوشش کرے مگر توکل نہ ٹوٹے اور کبھی مایوسی اور پریشانی کا شکار نہ ہو۔

6۔اللہ کی تمام مخلوق کا خیر خواہ ہو اور ہرایک کی اچھائی اور ترقی دیکھ کر اس کا دل خوش ہو۔

7۔ گنہگار کے لیے بھی اُس کے دل میں رحمت وشفقت ہو۔ ایسا تب ہی ہوتا ہےکہ دوسروں کی گنہگاری پر ہر وقت آنکھیں نہ جمائے رکھیں۔ گنہگاری پہ نگاہ جمائے گا تو بندہ کسی کے ساتھ بھی شفقت نہیں کر سکتا۔ اللہ بھی اگر ہماری گنہگاری اور خرابیوں پر اپنی نظر رکھتا تو مخلوق پر شفقت نہ کرتا۔اللہ کی رحمت کے اِس تصور کو اپنانا چاہیے۔

8۔ باہمی رشتوں کو بہتر بنائیں یعنی وہ شخص جسے اللہ کا قرب نصیب ہوجاتا ہے پھر وہ کبھی بگاڑ پیدا نہیں کرتا اور لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا بلکہ اُن کے درمیان رشتوں کو اُستوار کرتا ہے اور محبتیں قائم کرتا ہے۔

9۔ پوری اُمت کی بہتری کےلیے اور کمزورں، فقراء، مساکین، اپنے، پرائے ہر ایک کی اصلاح کی فکر کرتا ہے۔اس کے دل میں پوری اُمت کا ایک درد ہوتاہے۔

10۔ ہروقت اور ہر حال میں اللہ سے حسنِ ظن رکھتا ہے۔

مذکورہ علامتیں بندے کے ظاہر میں نظر آئیں یا بندہ خود اپنے اندر انھیں محسوس کرے تو وہ اندازہ کر لے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دوری کے عذاب اور سزا سے بچا لیا ہےاور قربت کی طرف اُس کا سفر شروع کروا دیا ہے۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اِن تمام امور کو اپنانے کی توفیق دے تاکہ ہم اپنی زندگی میں قرب الہی کی لذت پائیں۔۔۔ ہمارے دل اللہ کی قربت کے چشموں سے فیض پائیں۔۔۔ دوریاں ختم ہوں اور زندگی کے وہ حجابات جنہوں نے ہمیں اللہ رب العزت سے دور کررکھا ہے ، وہ حجابات دور ہوجائیں۔