اداریہ: منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیرِ اہتمام تاریخی 8ویں بین المذاہب کانفرنس

چیف ایڈیٹر نور اللہ صدیقی

اسلام انسانیت، امن، محبت اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات گواہ ہیں کہ آپ ﷺ نے تکریم انسانیت پر سب سے زیادہ زور دیا اور ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ اسلام میں فساد فی الارض کو گناہ کبیرہ قرار دیتے ہوئے اسے ایک ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ اسلام میں تشدد، عدم برداشت، تنگ نظری، دہشتگردی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بین المذاہب رواداری کی عظیم الشان روایا ت کی داغ بیل ڈالی اور مکالمہ کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی مگر افسوس کہ آج کا انسان، جو بظاہر ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، اندرونی طور پر نفرت، تعصب، اور انتہاپسندی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ ان متشددرویوں کو مزید نظر انداز کرنا اجتماعی امن اور انسانی بقا کو خطرات سے دوچار کرنا ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمہ کےلئے مذہبی رواداری وہ روشن چراغ ہے جو معاشرتی امن، انسانی وقار اور باہمی احترام کی راہوں کو ہموار کرتا ہے۔ آج کے دور میں مذہبی رواداری کا فروغ صرف ایک اخلاقی ضرورت نہیں بلکہ ایک قومی، انسانی اور بین الاقوامی فریضہ بن چکا ہے۔ اسلام امن و روداری کا ضابطہ حیات ہے جواپنے ماننے والوں کو معاشرتی عدل و انصاف، اعتدال و رواداری اختیار کرنے اور انسانیت کے احترامِ کا حکم دیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔ "یہ آیت کریمہ دراصل مذہبی آزادی اور رواداری کا سب سے بڑا منشور ہے۔ اسلام کسی کو زبردستی مسلمان بنانے یا مذہب کے نام پر کسی کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ اس حوالے سے سب سے بڑی روشن مثال ہے۔ مدینہ منورہ میں جب آپ ﷺ نےاسلامی ریاست قائم فرمائی توآپ ﷺ نے مختلف مذاہب اور قبائل کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے معاہدہ فرمایا۔ اس معاہدے کا لب لباب مذہبی آزادی اور بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب جان و مال کا تحفظ تھا۔ آپ ﷺ نے "میثاقِ مدینہ" کے ذریعے ایک ایسا اجتماعی نظام عدل قائم کیا جس میں مسلمان، یہودی اور دیگر اقوام کے افراد برابر کے شہری تھے۔ یہ معاہدہ دراصل تاریخ عالم کا پہلا آئینی دستور ہے جس نے مذہبی رواداری کو ریاستی قانون کی بنیاد بنا دیا۔ اس کی مکمل تفصیلات جاننے کےلئے محترم پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی شہرہ آفاق تصنیف’’دستور مدینہ اورفلاحی ریاست کا تصور‘‘ کا مطالعہ کیا جائے۔

اس امر میں کوئی شُبہ نہیں فی زمانہ بین المذاہب رواداری کے فروغ اور بین المسالک ہم آہنگی کےلئے قومی و عالمی سطح جو کردار منہاج القرآن اور اس کی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے انجام دیا ہے وہ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ شیخ الاسلام نے بین المذاہب رواداری کے تناظر میں ہار ہا لیکچرز دئے اور درجنوں کتب تصنیف فرمائیں جن سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں لاکھوں میں ہے۔ بدقسمتی کے ساتھ کچھ دشمن قوتوں نے مسلمانوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انتہاپسندی کے راستے پر ڈالا اور پھر دہشتگردی کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ جوڑنے کی ناپاک سازش کی۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس فتنہ الخوارج کو اور اس فکر کو پوری طرح بے نقاب کیا اور اسلام کے دامن پر لگائے جانے والے انتہا پسندی کے الزامات کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا۔

قرآن و سنت کی امن فلاسفی کو منہاج یونیورسٹی لاہور لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور وطن عزیز کی وہ واحد یونیورسٹی ہے جو مسلسل8سال سے بین المذاہب رواداری کے فروغ و احیا کےلئے کانفرنسز منعقد کر رہی ہے۔ ان کانفرنسز میں دنیا کے نامور دانشور حضرات شرکت کرتے اور فروغ امن کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرتے ہیں۔ ماہ اکتوبر کے آخری ہفتہ منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام 8 ویں بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس میں25ممالک کے دانشور حضرات نے شرکت کی اور فروغ امن کے ضمن میں اپنی شاندارسفارشات پیش کیں۔ بین المذاہب رواداری کی اس 8 ویں عالمی کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے نہایت فکر انگیز خطاب کیااور سفارشات پیش کیں۔

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنےصدارتی خطاب میں کہاکہ پاکستان تمام مذاہب و مسالک سے سجا ہوا پھولوں کا گلدستہ ہے۔ مذہبی رواداری سےہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ ملتا ہے۔ تمام مذاہب اور ان کی مذہبی روایات کا احترام وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ پاکستان میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ امن و ہم آہنگی کو فروغ دینا ان کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ قومی یکجہتی اور سماجی انصاف کےلئے علمائے کرام و مذہبی رہنماؤں کو برابری کی بنیاد پر بانی پاکستان کے ویثرن اور نظریہ پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ پائیدار امن اور ترقی صرف قانونی اصلاحات سے ممکن نہیں بلکہ اس معاشرتی سوچ کو بدلنے سے ممکن ہے جو انتہا پسندانہ اقدامات پر اکساتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم، ثقافتی مکالمہ اور معاشرتی میل جول بڑھانے سے متشدد رویوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ بین المذاہب رواداری اور سماجی انصاف پرنا صرف آئین پاکستان زور دیتا ہے بلکہ پیغمبر اسلام حضور نبی اکرم ﷺ نے اقلیتوں کے حقوق و فرائض کی تعلیم دی ہیں۔ اسلام بلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل انسانی جان و مال کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ توہین مذہب کا قانون درحقیقت مذاہب کے تحفظ اور تکریم کا قانون ہے۔ پروسیجرل سطح پر پائے جانے والے ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ ماورائے عدالت و قانون کوئی کسی کے جان و مال سے نہ کھیل سکےاس سارے عمل میں علمائے کرام اور مذاہب کے نمائندوں کا کردارمرکزی ہے۔

کانفرنس میں شریک ڈائریکٹر جنرل سول سروسز اکیڈمی لاہور فرحان عزیز خواجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بین المذاہب رواداری کے فروغ اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں تشکیل پانے والی قومی پالیسی میں منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی بین الاقوامی، بین المذاہب کانفرنسز کی سفارشات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ کانفرنس کے مقررین شرکا نے مذہبی رواداری کےلئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اقوال کا حوالہ بھی دیا۔

بالخصوص 11 اگست 1947ء کے خطاب کا بطور خاص ذکر کیا کہ بانی پاکستان نے فرمایا تھا کہ آپ اپنی عبادات کے حوالے سے آزاد ہیں اور بلا روک ٹوک اپنی مذہبی روایات پر کاربند رہ سکتے ہیں۔ بانی پاکستان نے جس مذہبی رواداری کی بات کی تھی اس کا تعلق ریاست مدینہ سے ہے۔ آپ ﷺ نے نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسلام زور زبردستی کا نہیں بلکہ اعتدال و رواداری کی تعلیمات سے عبارت ہے۔ بلاشبہ اس وقت وطن عزیز میں محبت اور رواداری کے جذبات پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ انتہاپسندی اور دہشتگردی نہ صرف امن کی دشمن ہے بلکہ اس سے ترقی اور خوشحالی کے راستے بھی مسدود ہو جاتے ہیں۔ مذہبی تحریکوں کو بالخصوص مصطفوی تعلیمات کی روشنی میں امن کے بیانیہ کو نمایاں کرنا چاہئے۔