معاشرتی ہم آہنگی کا بحران اور تحمل و برداشت کی اہمیت

عبدالستار منہاجین

جب ہمیں کسی سے اختلاف ہو تو ہمیں چاہئے کہ اسے برداشت کریں اور اپنا نکتہ نظر ہمیشہ خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کریں، اپنا موقف زبردستی منوانے کی کوشش نہ کریں، تسلیم کرنا نہ کرنا اس پر چھوڑ دیں۔ اس کا موقف کسی بےبنیاد دلیل پر ہو تو صرف دلیل کو بےبنیاد ثابت کریں، دلیل کو نہ جانچ سکنے کی وجہ سے اس شخص کی ناقص صلاحیت پر تبصرہ نہ کریں۔ اس کا موقف خلطِ مبحث لگے تو اسے منظم انداز دے کر پہلے اسے مطمئن کریں کہ آپ اس کی بات کو مکمل سمجھ گئے ہیں، اس کے بعد اسی نظم کے ساتھ اس کی دلیل کا رد پیش کرتے ہوئے اپنا نکتہ نظر پیش کریں۔ اس کا موقف دیوانگی لگے یا عقل کے پیمانے سے ماوراء ہو تو اسے معذور سمجھ کو مزید بحث سے اجتناب کریں۔ اس کا موقف خوش فہمی یا بچگانہ خواہش لگے تو اسے دعا دیں کہ اللہ اس کی خواہش کو پورا فرمائے۔ اگر مدمقابل جارحانہ انداز اپنائے تو ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے موقف کو انتہائی تحمل کے ساتھ مختلف الفاظ میں دہرا کر اسے اختلاف کا حق دیتے ہوئے معاملہ ختم کر دیں، وہ غلط موقف پر ڈٹا رہے تو بھی اسے اس کا حق دیں، اپنے موقف کو چھوڑے بغیر حکمت کے ساتھ بحث کا خاتمہ کر دیں۔

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

اِختلافِ رائے کے فضائل بیان کرتے ہوئے صرف اپنے نکتۂ نظر پر اِصرار کرتے چلے جانا اور دوسرے کے نکتۂ نظر کو درخورِ اعتناء نہ سمجھنا ہمیں کبھی حقیقت تک نہیں پہنچا سکتا۔ ایک ہی منظر کو مختلف زاویوں سے دیکھنے والے لوگ مختلف نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور عموماً اسی پر بضد رہتے ہیں، اختلافی نکتۂ نظر کے جواز پر شدومد کے ساتھ زور دینے والے بھی دوسرے کا نکتۂ نظر گوارا نہیں کرتے۔ اگر ہم اِختلاف کا فائدہ اُٹھا کر کسی معاملے کے سارے پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد لیں تو وہ ہمارے لئے رحمت بن جاتا ہے، جبکہ اگر ہم صرف اپنے ہی نکتۂ نظر کے درست ہونے پر اِصرار کریں اور دوسروں کے نکتۂ نظر کو غلط قرار دیتے ہوئے اُنہیں بدنیت قرار دینے لگیں تو ایسا اِختلاف رحمت کی بجائے زحمت اور فتنہ بن جاتا ہے۔

یاد رکھیں! جو جس زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اُسی نکتۂ نظر سے بات کرتا ہے اور اُسی کو حق سمجھتا ہے۔ اکیلا بندہ ایک ہی وقت میں ایک معاملہ یا ایک چیز کو ہر طرف سے نہیں دیکھ سکتا۔ جب ہر کوئی اپنے اپنے زاویۂ نگاہ سے دیکھی ہوئی معلومات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرے گا تو تمام کو اس معاملہ کے چاروں اَطراف کی خبر ہو گی۔

اگر ہم اِختلاف کا فائدہ اُٹھا کر کسی معاملے کے سارے پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد لیں تو وہ ہمارے لئے رحمت بن جاتا ہے، جبکہ اگر ہم صرف اپنے ہی نکتہ نظر کے درست ہونے پر اِصرار کریں اور دوسروں کے نکتہ نظر کو غلط قرار دیتے ہوئے اُنہیں بدنیت قرار دینے لگیں تو ایسا اِختلاف رحمت کی بجائے زحمت اور فتنہ بن جاتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان؛’’ میری اُمت کا اِختلاف باعثِ رحمت ہے‘‘، یہ اختلاف اُس وقت تک رحمت رہتا ہے جب تک ہم دوسرے کے نکتۂ نظر (یعنی پوائنٹ آف ویو) کا اِحترام کریں اور اُس کا فائدہ اُٹھائیں۔ لیکن اگر ہم دوسرے کے زاویۂ نگاہ کو سمجھنے کی بجائے اُسے ماننے سے اِنکار کر دیں تو وہی اِختلاف رحمت کی بجائے زحمت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ گویا اِختلافِ رائے اُس وقت تک باعثِ برکت ہوتا ہے جب تک ہم اپنی رائے دوسروں کو زبردستی منوانا نہیں شروع کر دیتے۔ ہماری رائے کا اِختلاف ہمیشہ ہمارے زاویۂ نگاہ، نکتۂ نظر، پوائنٹ آف ویو کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ سب الفاظ ہمیں اِختلاف کی حکمت اور اُس کا فائدہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

اختلافی نکتہ نظر پیش کرتے وقت جوش کو کبھی ہوش پر غالب نہ آنے دیں۔ دوسرے کی پوری بات تحمل کے ساتھ سنیں اور اس کا جملہ کاٹے بغیر بات مکمل کرنے دیں۔ اپنے موقف کو کبھی حتمی قرار نہ دیں، صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات حتمی ہوتی ہے، ہم انسان سب کے سب خطا کے پتلے ہیں۔ بحث طول پکڑ جائے تو اس میں شدت آ جاتی ہے اور دونوں طرف سے بعض ایسے الفاظ استعمال ہو جاتے ہیں کہ اسے مزید جاری رکھنے سے گالم گلوچ شروع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، اور آپس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر مستقبل میں کبھی دونوں میں سے ایک شخص اپنی دلیل کا بے بنیاد ہونا جان بھی لے تو پہلے جیسے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے، چنانچہ اختلافی نکتہ نظر پیش کرتے وقت کبھی جذباتی مت ہوں۔

عام طور پر ہم اپنی روزمرہ گفتگو کے دوران محض چند سو الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں، جبکہ لغات میں موجود ہزارہا دیگر الفاظ کبھی ہمارے استعمال میں نہیں آتے۔ ماہرین نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ انسان گالی عموماً اس وقت دیتا ہے جب اسے اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کیلئے مناسب الفاظ نہ مل رہے ہوں۔ حتیٰ کہ گالی گلوچ سے اِحتراز کرنے والے پڑھے لکھے افراد بھی مناسب الفاظ نہ ملنے پر مدمقابل پر طنز کے تیر برسانے لگتے ہیں۔ اگر ہم اختلاف کے انجام کو گالی گلوچ یا طنز تک پہنچنے سے بچانا چاہتے ہیں تو اپنے ذخیرہ الفاظ میں جس قدر ممکن ہو اضافہ کریں۔ اختلاف کے باوجود الفاظ کا چناؤ بہترین رہنا چاہئے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کریں۔

شدت پسندی، سماجی زوال اور مناظرانہ ماحول

جہالت، تعصب، شدت پسندی اور تکفیریت کا جو بیج برسوں پہلے بویا گیا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ اس کی زہریلی شاخیں نفرت، عدم برداشت، اور بدتمیزی کی صورت میں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔ بدقسمتی سے اب کوئی سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، کوئی طبقۂ فکر ہو یا تعلیمی و سماجی ادارہ — کوئی بھی اس کے مہلک اثرات سے مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ان شدت پسندوں کے ہاں اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھا جاتا ہے، تنقید کو کفر اور غداری کا درجہ دے دیا گیا ہے، اور مکالمے کی جگہ الزام تراشی اور گالم گلوچ نے لے لی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں انتشار، خلفشار، اور اخلاقی زوال کا ایک اندھیرا چھا چکا ہے۔

مناظرانہ ماحول میں پروان چڑھنے والی قوم کی علمی و فکری تربیت مکالمے، تحقیق اور سچ کی تلاش پر نہیں، بلکہ بحث برائے بحث، انا کی تسکین اور دوسروں کو نیچا دکھانے پر ہوتی ہے۔ ایسے معاشروں میں بات سننے، سمجھنے اور سیکھنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے، اور ہر فرد خود کو ’’حق‘‘ پر اور باقی سب کو ’’باطل‘‘ سمجھنے لگتا ہے۔ مناظرانہ کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ دلیل کو زورِ بیان اور شور و غوغا میں دفن کر دیتا ہے۔ گفتگو کا مقصد مسئلے کا حل یا سچائی تک پہنچنا نہیں ہوتا، بلکہ مدمقابل کو شکست دینا، اُس کی تضحیک کرنا اور داد و تحسین حاصل کرنا بن جاتا ہے۔ جدید دور میں سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ فالورز حاصل کرنا اور اپنی پوسٹس پر لائیکس اور کمنٹس دیکھ کر خوش ہونا ہی منزل مقصود قرار پاتا ہے۔ اس طرزِ فکر نے ہمیں ایک ایسا معاشرہ بنا دیا ہے جہاں؛ سننے کا حوصلہ ناپید ہو چکا ہے، تنقید برداشت نہیں کی جاتی، اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھا جاتا ہے، اور اخلاقی اقدار زوال پذیر ہو چکی ہیں۔

یہ رویہ صرف عوام تک محدود نہیں رہا بلکہ علمی، مذہبی اور سیاسی قیادتوں تک میں بھی خوب اچھی طرح سرایت کرچکا ہے۔ مذہبی اور سیاسی قیادتیں اور ان کے پیروکار اِسی روِش پر چلے جا رہے ہیں۔ میڈیا، منبر اور سوشل میڈیا — ہر جگہ مناظرے، مقابلے، الزامات اور جوابی حملوں کی فضا قائم ہے۔ اس ماحول کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نوجوان نسل تحقیق، مطالعہ اور کردار سازی کے بجائے لفظی جنگوں اور دلائل کے ہتھیاروں میں اپنی صلاحیتیں ضائع کر رہی ہے۔

دعوت کے دوران کیا اُسلوب اپنائیں؟

کسی بھی فکری و انقلابی تحریک کی بقاء، وسعت اور اثرپذیری کا اِنحصار صرف اُس کے نظریاتی خدوخال پر نہیں ہوتا، بلکہ اُس اُسلوبِ دعوت و تبلیغ پر بھی ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ پیغام دلوں تک منتقل کیا جاتا ہے۔ اُسلوب محض اِظہار کا طریقہ نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہوتا ہے جو قیادت کے شعور، اَخلاق اور اُس کی تربیت کو منعکس کرتا ہے۔ جب دعوتی اُسلوب میں وقار، دلیل اور حکمت ہو تو پیغام دلوں میں اُترتا ہے۔ لیکن اگر دعوت کا یہ انداز سطحی، مناظرانہ، اور تحقیر آمیز ہو جائے تو وہی پیغام رد و اِنکار کا شکار ہوجاتا ہے، چاہے اُس میں کتنی ہی صداقت کیوں نہ ہو۔

بدقسمتی سے عصرِحاضر کی سوشل میڈیا ثقافت میں فالورز، لائیکس، شیئرز اور وقتی مقبولیت کی دوڑ نے سنجیدہ دعوتی مزاج کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ بعض افراد نادانستہ طور پر اپنی فکر اور پیغام کے فروغ کے اِرادے سے ایسا مناظرانہ لب و لہجہ اِختیار کر لیتے ہیں جس میں مخالفین کو للکارا جاتا ہے، طعن و تشنیع کی زبان اِستعمال کی جاتی ہے اور مخالفانہ فکری آراء کا جواب علمی حکمت کی بجائے جذباتی شدت سے دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِعمل دعوتی عمل کے دروازے پر ایک غیرمحسوس قسم کی رکاوٹ بھی بن جاتا ہے۔

یاد رکھئے! مناظرے میں شکست کبھی دل میں قبولیت کا جذبہ پیدا نہیں کرتی۔ دلیل سے قائل کیا جا سکتا ہے، لیکن للکار سے صرف رد اور اِنتقام جنم لیتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لئے دی جانے والی مصطفوی مشن کی دعوت معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچانے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا نے کے لئے ہمیں اپنے کردار و عمل میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھنا ہوگا:

1۔ وقار و سنجیدگی 2۔ فکری گہرائی

3۔ دلیل و حکمت 4۔ حسنِ اخلاق اور حلم

اور سب سے بڑھ کر قرآنی الفاظ میں؛ حکمت، موعظتِ حسنہ اورجدالِ احسن پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔

یہی وہ اُسلوب اور انداز ہے جو اِختلاف کو مکالمے میں بدلتا ہے اور دشمنی کو فکری اِحترام میں ڈھال دیتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مصطفوی مشن کی دعوت دیتے ہوئے نہ صرف سچائی اور صداقت کو تھامنا ہو گا بلکہ سچ کو سلیقے سے بھی پیش کرنا ہو گا۔ اسی صورت کامیاب ممکن ہوسکتی ہے۔ جب ہم اس اُسلوب سے ہٹ جاتے ہیں تو نہ صرف اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں بلکہ اس مصطفوی مشن میں نئے آنے والے لوگوں کی راہیں بھی مسدود کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ سوچنا ہو گا:

- کیا ہم مصطفوی مشن کی فکر کے حقیقی وارث ہیں یا فقط شور مچانے والے مدعی؟

- کیا ہمارا انداز لوگوں کو قریب لا رہا ہے یا مزید دوریاں پیدا کر رہا ہے؟

- کیا ہم اپنے رویئے سے اسلام کے وقار میں اضافہ کر رہے ہیں یا غیرمحسوس انداز میں اُسے مجروح کر رہے ہیں؟

ییاد رکھیں! دعوت صرف الفاظ کا نام نہیں، بلکہ انداز اور اُسلوب کا نام ہے۔ آئیں! ہم سب مل کر اُس اسلوب کو اپنائیں جو حقیقی اسلامی تعلیمات کا عکاس ہے۔ ایک ایسا اسلوب و انداز جو سنجیدہ ہو، مدلل ہو، مہذب ہو، اور سب سے بڑھ کر وہ مؤثر ہو۔

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ

فکری تربیت میں اعتدال و توازن کی اہمیت

تحریکیں نظریات سے جنم لیتی ہیں، کردار سے پنپتی ہیں، اور عمل سے مضبوط ہوتی ہیں۔ اگر کسی تحریک کے کارکنان کا فکری رویہ عدم توازن، شدت اور جلد بازی پر مبنی ہو تو وہ تحریک اپنی منزل سے بھٹک سکتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہمیشہ اعتدال، رواداری اور فکری توازن کے علَم بردار رہے ہیں۔ اُن کی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ ہم خود کو بہتر بنائیں، معاشرے میں برداشت کو فروغ دیں اور دوسروں کی نیتوں پر فتویٰ نہ لگائیں۔ جذباتی اور غیراخلاقی ردعمل دینے سے ہمیشہ احتراز کریں، اس لئے کہ یہ قرآن کے واضح احکام کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ

(البقرة: 229)

’’یا تو اچھے طریقے سے نبھاؤ اور یا پھر بھلائی کے ساتھ علیحدگی اِختیار کر لو۔ ‘‘

برصغیر میں کم و بیش پچھلی ایک صدی سے جاری انتہاپسندانہ رویوں کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں فکری شدت پسندی کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی دوست کسی مختلف رائے کا اِظہار کرے یا اُسے کسی ذمہ داری سے ہٹا دیا جائے تو لوگ اُسے فتنہ پرور، منافق، یا مشکوک العقیدہ جیسے سنگین القابات سے نوازنے لگتے ہیں۔ یہ شدت پسندانہ روش اسلام کی حقیقی تعلیمات کے منافی ہے۔ ہمیں اس سوچ و فکر سے باہر نکلنا ہو گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ساری زندگی فرقہ واریت، تکفیر اور تعصب کے خلاف جہاد پر مشتمل ہے۔ تحریک منہاج القرآن کا مقصد ہی معاشرے میں اعتدال، علم، کردار اور روحانیت کو فروغ دینا ہے۔ شیخ الاسلام مختلف تربیتی نشستوں میں فرماتے ہیں: ’’نظام بدلنے کیلئے سب سے پہلے سوچ کا انقلاب ضروری ہے۔ ‘‘ اور ’’جب سوچ میں اِعتدال آئے گا تو عمل بھی متوازن ہوگا۔ ‘‘ معاشرے میں اعتدال و توازن کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص:

- لوگوں میں گھل مل کر رہنا سیکھے۔

- مثبت تنقید کرنا اور دوسروں کی تلخ تنقید کو برداشت کرنا سیکھے۔

- اپنے مخالف یا مختلف رائے رکھنے والے دوستوں کیلئے بھی دل میں احترام کا جذبہ رکھے۔

- اپنے جذبات پر قابو رکھنا سیکھے۔

- سوشل میڈیا پر آنے والے متشدد مواد کو فلٹر کرے۔

- اپنے سے وابستہ ہر شخص کو مسلسل اخلاقی تربیت دے۔

- اپنی سوچ، فکر اور نظریہ کو تقویٰ اور پاکیزگی پر استوار کرے۔

- شائستگی کو ہمیشہ اپنی پہچان بنائیں۔

- تنگ دلی، گھٹن اور شدت پسندی کی سوچ او رماحول سے باہر نکلیں۔

منافرت اور عدم برداشت کے فروغ میں

سوشل میڈیا کا کردار اور اس کا تدارک

سوشل میڈیا ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کچھ لوگ اپنی مقبولیت کو بڑھانے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد جان بوجھ کر ’’متنازعہ باتیں‘‘ شیئر کرتے ہیں تاکہ لوگوں کا دھیان اپنی طرف مبذول کر سکیں۔ اُن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اُن کی پوسٹس پر کمنٹ کریں، شیئر کریں یا اُن کے خیالات پر بحث کریں، کیونکہ زیادہ ردِعمل حاصل کرنے سے اُن کی پوسٹس مزید لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ اُن کے برعکس کچھ لوگ اُن کی متنازعہ باتوں پر بظاہر ہمدردانہ انداز میں "جذباتی ردعمل" دے کر دوسرے لوگوں کو اپنی پوسٹس کی طرف کھینچتے ہیں۔ یوں وہ بھی جذباتی باتوں اور بحث مباحثے کے ذریعے اپنی ریچ بڑھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

سادہ لوح سوشل میڈیا صارفین ان دونوں قسم کے لوگوں کا ہدف بن کر اُنہیں سستی شہرت کی منزل پر فائز کرنے میں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ چالاک لوگ سستی شہرت کے حصول کیلئے عام طور پر ایسے حربے آزماتے ہیں:

1۔ پہلی قسم کے لوگ متنازعہ موضوعات چھیڑتے ہیں تاکہ لوگ غصے میں آکرجواب دیں جس سے اُن کی پوسٹ کی ریچ بڑھ سکے۔ یہ لوگ ایسے متنازعہ موضوعات پر بات کرتے ہیں، جو لوگوں کے جذبات کو بھڑکا سکے، جیسا کہ سیاسی یا مذہبی اختلافات وغیرہ۔

2۔ دوسری قسم کے لوگ اپنی پوسٹس میں ان متنازعہ باتوں کا جذباتی جواب دیتے ہیں۔ یہ بظاہر خیرخواہی پر مبنی ہوتی ہیں، اس لئے عام سادہ لوح صارفین ان کی پوسٹس میں دلچسپی لے کر کمنٹس اور شیئرنگ کے ذریعے ریچ بڑھاتے رہتے ہیں۔

3۔ دونوں قسم کے لوگ بحث کو طول دیتے ہیں، تاکہ جواب در جواب بحث کے ذریعے پوسٹ کی ریچ بڑھائی جا سکے۔ جب کوئی اُن کی باتوں پر تبصرہ کرتا ہے، تو یہ لوگ جواب دے کر بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں تاکہ بحث جاری رہے اور اُن کی پوسٹ پر مسلسل کمنٹس آتے رہیں۔

ان لوگوں کی منفی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے درج ذیل حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے:

1۔ نظرانداز کریں: کسی متنازعہ پوسٹ پر کمنٹ یا بحث میں شامل نہ ہوں۔ آپ کی خاموشی اُن لوگوں کی اہمیت کو ختم کرسکتی ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ آپ کے ردِعمل سے ہی اپنی ریچ بڑھاتے ہیں۔

2۔ بلاک کریں: مسلسل منفی اور متنازعہ باتیں پوسٹ کرنے والوں کو بلاک کر دینا اُن سے جان چھڑانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔

3۔ مثبت مواد شیئر کریں: منفی مواد پر ردِعمل دینے کے بجائے اپنی توجہ مثبت اور تعمیری باتوں کی اِشاعت پر مرکوز کریں۔ مثبت مواد نہ صرف دوسروں کیلئے مفید ہوتا ہے بلکہ یہ سوشل میڈیا کا ماحول بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

محبت و برداشت کے فروغ میں شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کا کردار

آج ہماری قوم علمی پسماندگی، فکری تنگ نظری اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہوچکی ہے۔ ہمیں مناظرانہ کلچر سے نکل کر مکالمہ، فہم، تحقیق، اور برداشت پر مبنی ماحول قائم کرنا ہوگا۔ ہمیں قومی سطح پر ایسی قیادت، ایسا تعلیمی نظام اور ایسی فکری تحریک کی ضرورت ہے جو اختلافِ رائے کو وسعتِ نظر سمجھے، اور سچائی تک پہنچنے کیلئے دلائل کو ہتھیار نہیں، بلکہ روشنی کا ذریعہ بنائے۔

اِسی فکر کو فروغ دینے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہمیشہ مکالمے، محبت، اور علم پر زور دیا۔ اُن کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ دین اور علم کی خدمت مناظروں سے نہیں، اخلاق، تحقیق، اور کردار سے کی جاتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وہ بےلوث جدوجہد، جو انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے امن، محبت، رواداری، اور اعتدال کی اقدار کو فروغ دینے کیلئے جاری رکھی۔ جب پورے معاشرے میں نفرت اور فرقہ واریت کا زہر پھیل رہا تھا، تب انہوں نے منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے ایک ایسی علمی و فکری تحریک کا آغاز کیا جس نے لاکھوں دلوں کو جوڑا، ذہنوں کو بدلا، اور نوجوانوں کو شدت پسندی سے نکال کر علم، اخلاق اور خدمت کی راہ پر گامزن کیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے نہ صرف قرآن و سنت کی روشنی میں برداشت اور اعتدال کا پیغام عام کیا بلکہ عملی تربیت کے ذریعے ایک ایسے فکری ماحول کی تشکیل کی جہاں اختلاف رائے کو عزت دی جاتی ہے، اور دین کے نام پر نفرت پھیلانے کی بجائے انسانیت سے محبت سکھائی جاتی ہے۔ اگر منہاج القرآن جیسی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری جیسی شخصیت اس شدت پسندی کے آگے بند نہ باندھتی اور معاشرے کو یہ مثبت اور پرامن فضا نہ دیتی، تو شاید آج یہ معاشرتی زوال اپنی آخری حدوں کو چھو چکا ہوتا۔

ہمیں بطور قوم اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی کاوشوں سے خصوصاً مذہبی طبقے میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ نوجوان نسل کی ایک بڑی اکثریت جو شدت پسندی کے دہانے پر تھے، منہاج القرآن کے تربیتی ماحول میں آ کر فکری اعتدال، روحانی سکون اور خدمتِ انسانیت کی طرف مائل ہوئے۔ یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب ہے، جس کے اثرات آنے والے وقت میں مزید واضح ہوں گے۔

اب یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اس پیغام کو صرف مخصوص حلقوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچائیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تعلیمات محض تقاریر یا کتب کی حد تک نہیں بلکہ عملی زندگی کی تعمیر کا نسخہ ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ایک پرامن، باشعور اور مہذب معاشرے میں پروان چڑھیں تو ہمیں اس فکری چراغ کو مزید روشن کرنا ہو گا۔ آئیے! اس انقلابی فکر کو عام کریں، اور نفرتوں کے اس طوفان میں محبت، برداشت اور شعور کے چراغ روشن کریں۔

سوشل میڈیا پر مناظرانہ انداز میں دوسروں کو للکارنے، چیلنج کرنے اور نیچا دکھانے کے بجائے امن، محبت، رواداری اور برداشت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں، ایسے مناظرانہ کلچر کی حوصلہ شکنی کریں جو معاشرہ میں تفریق و تقسیم کا باعث بن رہا ہے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب اور خطابات کے ساتھ اپنا ایک مستقل تعلق پیدا کریں۔ کو براہ راست پڑھنا اور سننا چھوڑ رکھا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علمی، فکری اور اخلاقی طور پر ترقی کرے، تو ہمیں اپنی قیادت کی طرح مناظرانہ کلچر کو ترک کرکے فکری بلوغت اور مکالمے کی راہ اپنانا ہوگی۔ یہی راستہ تحریکی سطح پر عوام کے دلوں میں قبولیت پیدا کر سکتا ہے اور یہی راستہ قومی سطح پر ہمیں زوال سے نکال کر ترقی و بقا کی طرف لے جا سکتا ہے۔