امتِ مسلمہ کا نظامِ حیات: اعتدال اور میانہ روی

پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا.

(البقرہ: 143)

’’ اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) تم پر گواہ ہو۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے لفظ ’’وسط‘‘ کو امتِ مسلمہ کی خوبی، خصلت اور وصف کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ وسط کا مطلب؛ اعتدال، خیر خواہی، توازن، میانہ روی اور عدل ہے۔ اس لفظ میں کیا خوبیاں پنہاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آقائے دو عالم ﷺ کی امت میں منتقل فرمانا چاہا؟اس امر کوجاننے کے لیے ہمیں لفظ ’’وسط‘‘ کا معنی پر غور کرنا ہوگا۔ لسان العرب میں ابن منظور افریقی کے مطابق وسط کے معنی ہیں:

وسط الشيء وأوسطه: أعدله۔

(افریقی، لسان العرب، ج: 7، ص: 430)

’’کسی شے کا وسط یا اُس کا اوسط حصہ دراصل اُس کا عادل ترین حصہ ہوتا ہے۔ ‘‘

یعنی سب سے زیادہ عدل و انصاف پر مبنی، سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والی اور سب سے زیادہ خیر رکھنے والی شے کو ’’وسطیہ‘‘ کہتے ہیں۔

ó قرآنِ مجید میں’’وسط ‘‘ کا لفظ درج ذیل پانچ مقامات پر آیا ہے:

1۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قَالَ اَوْسَطُھُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ.

(القلم: 28)

’’ ان کے ایک عدل پسند زِیرک شخص نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم (اللہ کا) ذِکر و تسبیح کیوں نہیں کرتے۔ ‘‘

اس آیت میں لفظ ’’اوسط ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ شخص جو عقل، رائے، فہم، سوچ اور ارادے میں سب سے زیادہ پختہ، بہتر اور سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والا ہو۔ یہ خوبی اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ فرمایا: ان میں سے اوسط شخص نے یہ بات کہی کہ آج تو عذاب اور تباہی آن پہنچی، تم اللہ کے عذاب کی زد میں آ گئے ہو مگر تمہیں یاد نہیں کہ میں تمہیں بار بار نصیحت کیا کرتا تھا کہ اللہ کا ذکر کرو، اس کی تسبیح کرو، اسے یاد رکھو اور اس سے ڈرتے رہو۔ معلوم ہوا وسطیہ یعنی اعتدال، میانہ روی اور توازن وہ صفت ہے جو راہِ ہدایت کی طرف بلاتی ہے۔ جو شخص متوازن سوچ کا حامل ہو، وہی نصیحت کرنے والا ہوتا ہے اور وہی صحیح سمت کی طرف لے کر چلنے والا ہوتا ہے۔

اللہ رب العزت اسی اعتدال پسندی، میانہ روی اور سوچ و فہم کا توازن، ہماری پوری زندگی میں جھلکتا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ امتِ مسلمہ کا نظامِ حیات اسی اعتدال و توازن کا مظہر ہو۔ یعنی ہماری شخصیت متوازن ہو۔۔۔ ہماری سوچ متوازن ہو۔۔۔ ہمارا طرزِ عمل اور طرزِ زندگی متوازن ہو۔۔۔ سوچنے اور سمجھنے کا انداز متوازن ہو۔۔۔ ہمارا چلنا، پھرنا، رہنا سہنا، الغرض زندگی کا ہر پہلو وسطیہ کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔ یہاں تک کہ ہمارے لین دین اور مالی معاملات میں بھی وسطیہ کی خوبی جھلکتی نظر آنی چاہیے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا.

(الفرقان: 67)

’’ اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے۔ ‘‘

یعنی اللہ کے بندے خرچ کرنےمیں فضول خرچی اور بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ خرچ میں بھی اعتدال رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت کو زندگی کے ہر پہلو میں اعتدال اور توازن پسند ہے، خواہ وہ عقیدہ ہو، عبادت ہو، اخلاق ہو، معاملات ہوں، یا مالی لین دین۔ آج اگر ہم اپنی قوم، ملت اور نوجوان نسل کو کسی ایسی چیز سے مزین کرنا چاہیں جو انہیں زیورِ ایمان اور زیورِ حیات عطا کرے، تو وہ یہی وسطیت، اعتدال اور توازن ہے۔

2۔ قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت نے لفظ ’’وسط‘‘ کو ایک اور مقام پر استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا.

(العاديات: 5)

’’ پھر وہ اسی وقت (دشمن کے) لشکر میں گھس جاتے ہیں۔ ‘‘

یہاں ’’ فَوَسَطْنَ ‘‘ کا مطلب کسی معاملے کے بیچ میں جانا، مرکز میں پہنچنا اور براہ راست، تیز اور فیصلہ کن انداز میں اقدام کرنا ہے۔

3۔ اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’وسط‘‘ کو اسم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فرمایا:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا.

(البقرہ: 143)

’’ اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔ ‘‘

4۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی.

(البقرہ: 238)

’’ سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں؛ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء میں سےنماز عصر کو درمیان میں رکھا اور اسے وسطیت کا مقام دیا۔ دوسرے مقام پر اسی کی قسم کھا کر فرمایا:

وَالْعَصْرِ. اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ.

(العصر: 1-2)

’’ نمازِ عصر کی قَسم (کہ وہ سب نمازوں کا وسط ہے)۔ بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)۔ ‘‘

اللہ رب العزت نے جس عصر کی قسم کھائی، اسے نمازوں کے درمیان میں رکھا ہے۔ عصر کا وقت بھی درمیانہ وقت ہے۔ جب عصر آتی ہے تو وہ وقت نہ زیادہ دھوپ والا ہوتا ہے، نہ اندھیرا۔ گرمی کے اثرات ختم ہو رہے ہوتے ہیں اور ٹھنڈک کے اثرات شروع ہورہے ہوتےہیں۔ گویا عصر کا وقت میانہ ہے اور تمام رنگوں کو اپنے اندر سمیٹے رکھتا ہے۔ نہ کسی کو دھوپ میں جلاتا ہے اور نہ اندھیرے میں چھپاتا ہے۔ نہ اتنی روشنی دیتا ہے کہ آنکھیں چندھیا جائیں اور نہ اتنا اندھیرا دیتا ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے۔

اللہ رب العزت نے صلوٰۃ الوسطیٰ کے مقام پر عصر کو رکھا اور اس کی قسم کھائی اور پیغام دیا کہ اگر عصر یعنی اعتدال، میانہ روی اور زندگی کی Balanced Approach کو ہاتھ سے جانے دیا اور اپنی میانہ روی کی حفاظت نہ کرسکے تو خسارے میں رہو گے۔

5۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’وسط ‘‘ استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَکَفَّارَتُـہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ۔۔۔

(المائدۃ: 89)

’’ (اگر تم سنجیدہ اور ارادی طور پر مضبوط قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے۔۔۔ ‘‘

اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں قسم توڑنے کا کفارہ بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک کفارہ یہ ہے کہ جس طرح کا کھانا تم اپنے گھر والوں کو دیتے ہو، ویسا ہی متوازن کھانا ان مسکینوں کو بھی دو۔ گویا اللہ رب العزت اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے سمجھاتا ہے تاکہ بات دل میں اتر جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان سمجھ لے کہ حقیقت، کامیابی اور منزل سب میانہ روی میں ہے۔ اطعام الطعام میں بھی وسطیہ کا رنگ ہے۔ یعنی کھانے میں بھی میانہ روی ہونی چاہیے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم ہر شے میں اوسط درجے کو اختیار کر لیں تو خیر ہی خیر ہو جائے۔ کھانے میں اوسط درجہ، سوچ میں اوسط درجہ، فکر میں اوسط درجہ، انداز میں اوسط درجہ، اوڑھنے بچھونے میں اوسط درجہ۔ اسی طرزِ فکر وعمل سے تو ہماری معیشت (Economy) بھی ہمارے کنٹرول میں آسکتی ہے۔

قرآن مجید میں ’’وسط‘‘ کے ہم معنی الفاظ

قرآن مجید میں وسطیہ کے ہم معنیٰ الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:

1۔ صراطِ مستقیم سے مراد بھی میانہ روی ہے۔ سیدھا راستہ وہی ہوتا ہے جو اعتدال کا راستہ ہو، خیر، ثابت قدمی اور استقامت کا راستہ ہو اور جو غلو سے پاک ہو۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَاللهُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.

(النور: 46)

’’ اور اللہ (ان کے ذریعے) جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے۔ ‘‘

معلوم ہوا کہ سیدھی راہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو میانہ روی، اعتدال اور عدل کو اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن کی طبیعت میں غلو، شدت پسندی، افراط و تفریط نہیں ہوتی، انتہاپسندی نہیں ہوتی بلکہ وہ میانہ روی کے ساتھ صراطِ مستقیم پر چلتے رہتے ہیں اور اپنی منزلِ کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیں! جہاں اعتدال ہے، وہیں صراطِ مستقیم ہے اور جہاں صراطِ مستقیم ہے، وہاں میانہ روی ہے۔ دوسری طرف جہاں ظلم، زیادتی، جبر، انتقام اور استحصال ہو، وہاں صراطِ مستقیم نہیں ہو سکتا۔

2۔ قرآنِ مجید میں ’’وسطیہ‘‘ کے مفہوم میں ایک لفظ ’’سداد ‘‘ آیا ہے۔ درست بات کہنے کو ’’سداد‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ شخص جو ہر حال میں سچی، سیدھی اور حق پر مبنی بات کرے ، وہ صاحبِ سداد کہلاتا ہے اور یہی شخص درحقیقت اعتدال پسند اور میانہ روی والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا.

(الاحزاب: 70)

’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو۔ ‘‘

3۔ قرآنِ مجید میں ’’وسطیہ‘‘کے لیے تیسرا ہم معنی لفظ ’’اقتصاد ‘‘ (Economics) استعمال ہوا ہے۔ اقتصاد بھی دراصل میانہ روی اختیار کرنے کا نام ہے۔ اسی لیے کسی متوازن رویے کو Economical Approach کہا جاتا ہے۔ آج کل معاشی لحاظ سے افراط ہے یا تفریط۔ خرچ ہمارے کنٹرول میں ہے، یا پھر ہماری حدود و قیود سے باہر نکل چکا ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور اخراجات قابو سے باہر ہو گئے ہیں۔ ہمارے مالی معاملات ہمارے کنٹرول میں نہیں رہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل اقتصاد ہے۔ اقتصاد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اکنامیکل (Economical) بنا لیں۔۔۔ اپنی سوچ کو اکنامیکل کر لیں۔۔۔ اپنی عادات کو اکنامیکل کر لیں۔۔۔ اپنے اخراجات کو اکنامیکل کر لیں۔۔۔ مطلب یہ کہ اپنے آپ کو اقتصادیات کے تابع کر دیں۔ اقتصادیات میانہ روی کو کہتے ہیں۔ اپنے کھانے پینے، اخراجات، معاملات، خواہشات، حالات اور اپنی پوری زندگی کے نظام کو میانہ روی کے تابع کر لیں تو حالات درست ہو جائیں گے۔ اس طرح مہنگائی بھی ہمارے کنٹرول میں آ جائے گی، گھر والوں کا مزاج بھی ٹھیک ہو جائے گا اور بچوں کی ضروریات بھی پوری ہو جائیں گی۔ اگر کوئی شاہ خرچی کرے گا تو وہ میانہ روی والا نہیں اور اگر کنجوسی کرے گا تو وہ بھی میانہ روی والا نہیں لیکن اگر درمیانہ راستہ اختیار کرے گا تو وہی میانہ روی والا ہے۔

اسی طرح چلنے پھرنے میں بھی میانہ روی اور گفتگو میں بھی میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم اکثر اتنے بلند و بانگ دعوے کر تے ہیں کہ پھر ان پر پورا اترنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ اپنی چال میں بھی میانہ روی رکھیں اور اپنی قول، فعل اور سوچ میں بھی میانہ روی رکھیں۔ سیدنا لقمانe نے اپنے صاحبزادے کو جو نصیحت کی، قرآنِ مجید نے اسے ان الفاظ میں بیان فرمایا: وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ (لقمان: 19)

’’ اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر۔ ‘‘

اس آیت کا ظاہری معنی تو چلنے میں میانہ روی اختیار کرنا ہے لیکن اشارۃ النص یہ ہے کہ اپنی پوری زندگی کی گاڑی میانہ روی سے چلاؤ۔ اپنی زندگی کا پہیہ میانہ روی پر گھماؤ تو ہر شے تمہارے کنٹرول میں آ جائے گی۔ اگر سوچ میں میانہ روی ہو تو سوچ قابو میں رہے گی۔۔۔ فلسفے میں میانہ روی ہو تو فلسفہ قابو میں رہے گا۔۔۔ معاملاتِ حیات میں میانہ روی ہو تو معاملات ہمارے ہاتھ میں آ جائیں گے۔۔۔ خواہشات میں میانہ روی ہو تو خواہشات قابو میں رہیں گی۔۔۔ اپنے مقاصد، نظریات، معاملات اور دعوؤں میں میانہ روی رکھیں تو حالات ہمیشہ کنٹرول میں رہیں گے۔

اعتدال و توازن اختیار کرنے والوں کی صفات

قرآنِ مجید میں وسطیہ یعنی اعتدال و میانہ روی اختیار کرنے والوں کی درج ذیل صفات اور خوبیاں بیان ہوئی ہیں:

(1) پیکرِ عدل

جو شخص وسطیہ کا حامل ہے، اس میں عدل ضرور ہوتا ہے۔ جس کے پاس Balanced Approach ہے، وہ شخص عادل ہوتا ہے۔ جس کے اندر میانہ روی اور اقتصاد ہے، وہ ظالم نہیں ہو سکتا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ

(النحل: 90)

’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔ ‘‘

یعنی اپنے مزاج، سوچ، طبیعت، میلان، حالات اور طرزِ حیات اور زندگی کے ہر قدم پر عدل کو شامل کرو۔ عدل ایک ہی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ اللہ ربّ العزت نے گواہی، گفتگو اور حکومت میں بھی عدل کو لازم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عدل کی درج ذیل اقسام قرآنِ مجید میں بیان فرمائیں تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ عدل ہے اور وہ عدل نہیں:

(i) العدل فی الشہادۃ

اللہ ربّ العزت نے فرمایا:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءِ ِﷲِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللهُ اَوْلٰی بِھِمَا فَـلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللهَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً.

(النساء: 135)

’’ اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے) اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بے شک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے۔ ‘‘

یعنی اگر تمہیں اپنے والدین یا رشتہ داروں یا معاشرے کے بااثر افراد کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو عدل سے کام لینا۔ عدل کرنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ میرے سامنے کون ہے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھتا ہے اور اسی کے حکم کو سامنے رکھتا ہے۔ پس جس کی گواہی میں عدل ہے، وہی درحقیقت عادل ہے۔

(ii) العدل فی القول

اسی طرح ہم جو گفتگو کرتے ہیں، اس میں بھی عدل کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی.

(الانعام: 153)

’’ اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو۔ ‘‘

یعنی جب بھی کسی کے بارے میں کچھ کہو تو عدل سے کہو، گفتگو ہمیشہ سچائی اور انصاف پر مبنی ہو، خواہ تمہارے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے میثاقِ مدینہ میں فرمایا تھا:

و ان المومنين المتقين ايديهم علي کل من بغي منهم او ابتغي دسيعة ظلم او اثما او عدوانا او فسادا بين المومنين و ان ايديهم عليه جميعا ولو کان ولد احدهم.

(میثاقِ مدینہ، آرٹیکل: 16)

اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے، سب مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

اللہ ربّ العزت کے مذکورہ فرمان اور آپ ﷺ کی حدیثِ مبارک سے العدل فی القول کا ثبوت میسر آتا ہے کہ اگر تمہارے قریبی رشتہ دار بھی سامنے ہوں، تب بھی عدل کا پیمانہ لبریز نہیں ہونا چاہیے۔ آج ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے۔۔۔ ؟ نوجوانوں کی سوچ میں عدل کیوں نہیں رہا۔۔۔ ؟ میانہ روی اور عادلانہ طرزِ فکر کیوں ختم ہو گئی۔۔۔ ؟ ہم امتِ شُہَدَاءَ عَلَی النَّاس کیوں نہیں رہے۔۔۔ ؟ اس لیے کہ ہم نے عدل کا دامن چھوڑ دیا۔ آج ہم سوچ میں بھی عادل نہیں۔ ہم حق چاہتے ہیں، مگر جب حق سامنے آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں یہ نہیں، وہ والا مل جائے۔ جب خود پھنسیں تو قانون کچھ اور ہوتا ہے، جب دوسرا پھنسے تو کچھ اور۔ اپنے رشتہ داروں کے لیے قانون بدل دیتے ہیں، اور دوسروں کے لیے دوسرا معیار رکھتے ہیں۔ اگر خود متاثر ہوں تو قانون ختم اور اگر فائدہ ہو تو قانون مضبوط۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی اور قومی سطح پر بھی جب سیاستدانوں کو اپنی حفاظت مقصود ہوتی ہے تو وہ آئین و قانون میں بھی ترامیم کرلیتے ہیں۔

(iii) العدل فی الحکم

عدل کی تیسری صورت العدل فی الحکم ہے، یعنی حکم یا فیصلے میں عدل۔ عدل دراصل وسطیت کا جزو ہے اور اعتدال پسندی اُس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنے فیصلوں میں عدل کو شامل نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ.

(النساء: 58)

’’ اور جب تم لوگوں پر حکومت کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو (یا: اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو)۔ ‘‘

آج ہمارے فیصلوں میں بھی عدل نہیں رہا، بلکہ عدل خود یتیم ہوگیا ہے۔ جس معاشرے میں عدل یتیم ہو جائے، وہاں کے نوجوانوں کا حال کیا ہوگا؟ ہمیں چاہیے کہ ان خوبیوں کو دوبارہ زندہ کریں۔ اگر دوسروں کے لیے عدل ہو اور اپنے لیے پیمانے بدل جائیں، تو وہ میانہ روی نہیں۔

(2) پیکرِ استقامت

اعتدال و توازن اور وسطیت اختیار کرنے والوں کی دوسری خوبی ’’استقامت ‘‘ ہے۔ اگر ہم اپنی طبیعت میں اعتدال، میانہ روی، balanced approach اور Moderation پیدا کرنا چاہتے ہیں تو استقامت ضروری ہے۔ استقامت یہ ہے کہ انسان اپنی منزل پر ایسے رواں دواں رہے کہ آندھی، کوئی طوفان، یا ظلم و بربریت اسے متزلزل نہ کر سکے۔ یہی استقامت منہاج القرآن کی اساس ہے۔ میانہ روی استقامت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ جس میں استقامت نہ ہو، وہ متمکن نہیں بلکہ متلون ہوتا ہے۔ متلون وہ ہے جو ہر لمحے اپنا رنگ بدل لے۔ جو ایک رنگ پر جم جائے، اسی پر قائم رہے، اسی پر جئے اور اسی پر مرے، وہ مستقیم کہلاتا ہے، اور وہی ’’وسطیہ‘‘ والا ہوتا ہے۔ اسی استقامت کے اجر کو اللہ تعالیٰ نے یوں واضح فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.

(حم السجدہ: 30)

’’ بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَّاَنْ لَّوِاسْتَقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ لَاَسْقَیْنٰـھُمْ مَّآءً غَدَقًا.

(الجن: 16)

’’ اور یہ (وحی بھی میرے پاس آئی ہے) کہ اگر وہ طریقت (راہِ حق، طریقِ ذِکرِ اِلٰہی) پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت سے پانی کے ساتھ سیراب کرتے۔ ‘‘

یعنی جو راہِ حق اور اپنے منہج پر قائم رہتا ہے اور پیکرِ استقامت رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی نعمتوں سے سیراب فرماتا ہے جن کا اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ پس میانہ روی والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیکرِ استقامت بن جائے۔ آج اعتدال اور استقامت کی اس خوبی کو نوجوانوں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔ منہاج القرآن دراصل اسی اعتدال، میانہ روی، عدل، حکمت، استقامت، توازن، محبت اور فکرِ آخرت کے پیغام کو عام کررہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ سے فرمایا:

فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا.

(ھود: 112)

’’ پس آپ ثابت قدم رہیے! جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی (ثابت قدم رہے) جس نے آپ کی معیت میں (اللہ کی طرف) رجوع کیا ہے، اور (اے لوگو!) تم سرکشی نہ کرنا۔ ‘‘

(جاری ہے)