عصرِ حاضر میں الحاد صرف نظریاتی افکار کا نام نہیں رہا بلکہ یہ ایک منظم فکری و تہذیبی تحریک کی صورت اختیار کرچکا ہے، جو دنیا بھر میں بالخصوص مسلم نوجوانوں کے اذہان کو متاثر کررہا ہے۔ الحاد صرف اعتقادی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اخلاقی، نفسیاتی اور معاشرتی پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس کے اثرات میں فرد کی اخلاقی اقدار کا زوال، روحانی اضطراب، معاشرتی تفرقہ اور معاشی و تمدنی ابتری شامل ہے۔ الحاد کے سدِّباب کے لیے محض وعظ و نصیحت کافی نہیں بلکہ ایک منظم فکری، تعلیمی اور دعوتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی فکر کی عقلی بنیادوں، وحی کی جامعیت اور دین کے روحانی و اخلاقی نظام کو عصرِ جدید کے فکری اسلوب میں پیش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے دینی اداروں، دانشوروں اور اہلِ علم کو علمی سطح پر الحادی فکر کا علمی و استدلالی جواب دینا ہوگا تاکہ مسلمان نوجوان ایک بار پھر ایمان، علم اور روحانیت کے متوازن راستے کی طرف لوٹ سکیں۔
الحادی رجحانات کے اسباب
تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ الحاد کے فروغ میں متعدد داخلی و خارجی عوامل کارفرما ہیں۔ ان میں جدید سائنسی نظریات (خصوصاً دہریہ ارتقائی فکر)، مادیت پرستی، مذہب سے متعلق غلط فہمیوں، مذہبی پیشواؤں کی علمی کمزوری اور مغربی تہذیبی اثرات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا، لبرل تعلیمی نظام اور فکری آزاد خیالی نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جہاں مذہب کو ایک قدیم، غیر سائنسی اور غیر متعلقہ نظام کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ نتیجتاً نوجوان نسل ایک فکری خلا، روحانی بے چینی اور شناختی بحران کا شکار ہوکر الحاد یا دین بیزاری کی طرف مائل ہورہی ہے۔ الحادی رجحانات کے اسباب درج ذیل ہیں:
1۔ جدیدیت اور مغربی نظریات
الحادی رجحانات کا پہلا سبب جدیدیت اور مغربی نظریات کا فروغ ہے۔ مغربی فلسفیوں اور سائنسی نظریات کو بڑے پیمانے پر پڑھایا جاتا ہے، جن میں مذہب کے وجود اور خدا کے تصور پر تنقید کی جاتی ہے۔ ان مغربی مفکرین میں نیتشے، مارکس اور ڈارون جیسے عظیم نام شامل ہیں، جنھوں نے مذہب کے روایتی تصورات کو چیلنج کیا اور اپنی تعلیمات کے ذریعے نئے افکار کو پروان چڑھایا۔ اس ضمن میں چند مغربی مفکرین کے نظریات ملاحظہ ہوں:
(1) نیتشے کا فلسفہ (Nietsehe)
فریڈرش نیتشے جو ایک جرمن فلسفی تھا، اس نے اپنے مشہور قول: خدا مرچکا ہے (God is dead) کے ذریعے مذہب کے کردار پر سوالات اٹھائے۔ نیتشے کا یہ قول ایک علامتی بیان تھا جو دراصل مذہب کی روایتی اہمیت کی کمیابی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے خیال میں، انسان نے اپنی عقل و فہم کو ترقی دے کر خدا کے تصور کو بے معنی بنادیا تھا۔ نیتشے کے مطابق، خدا کا مرنا انسان کی آزادی کا آغاز ہے، کیونکہ اب انسان اپنی تقدیر کا مالک خود بن سکتا ہے اور اسے کسی مافوق الفطرت ہستی کے مفروضے پر اپنی زندگی کی بنیاد نہیں رکھنی چاہیے۔
نیتشے کا یہ فلسفہ بہت سی جامعات میں پڑھایا جاتا ہے اور یہ نوجوانوں کے ذہنوں میں مذہب کی اہمیت کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نیتشے کے اس فلسفہ اور نظریہ کے جوابات یا متبادل نظریات فراہم نہیں کیے جاتے، جس سے طلبہ کے ذہن میں شک پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مذہب کو محض انسان کا ایک تخیلاتی تصور سمجھنے لگتے ہیں۔
(2) ڈارون کا نظریہ ارتقا
چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا (Theory of Evolution) بھی مذہبی خیالات کے خلاف ایک اہم چیلنج تھا۔ اس نظریے کے مطابق، انسان اور دیگر جانداروں کی موجودگی کی کوئی ماورائی وجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک طویل عمل کے ذریعے قدرتی انتخاب اور ارتقائی تبدیلیوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ ڈارون کے اس نظریے نے مذہب کے تخلیقی تصور کو چیلنج کیا، جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کائنات اور انسان کو پیدا کیا۔
ڈارون کا یہ نظریہ طلبہ کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا کائنات کی تخلیق واقعی کسی مافوق الفطرت ہستی کی ضرورت رکھتی ہے؟ اس کے نتیجے میں نوجوانوں میں مذہب سے متعلق سوالات اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم، اس نظریے کا مکمل جواب فراہم نہ کیا جائے تو یہ صرف شک کو بڑھاوا دیتا ہے اور طلبہ اس بات کا فیصلہ نہیں کرپاتے کہ حقیقت کیا ہے۔
(3) کارل مارکس کا فلسفہ
کارل مارکس نےمذہب پر شدید تنقید کی تھی اور اسے عوام کی افیون (Opium of the masses) قرار دیا تھا۔ مارکس کے مطابق، مذہب لوگوں کو حقیقت سے دور کردیتا ہے اور انہیں آرام دہ جھوٹ میں مبتلا کرتا ہے، جس سے وہ سماجی مسائل سے بے پرواہ ہوجاتے ہیں۔ مارکس کا نظریہ یہ ہے کہ مذہب ایک رکاوٹ ہے جو سماجی ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے اور اس کی جگہ مادہ پرست (Materialist) دنیاوی نظام کو اپنانا چاہیے۔
مارکس کے نظریات نے بھی مغربی دنیا میں مذہب کے بارے میں نئے زاویے پیش کیے لیکن جب ان کے خیالات کو جامعات میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے جوابات نہ دیئے جائیں تو یہ نظریات نوجوانوں میں مذہب کے بارے میں شکوک پیدا کرسکتے ہیں۔
ó ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام مغربی فلسفیوں اور نظریات کو پڑھاتے وقت ان کے ساتھ ساتھ اسلامی فلسفہ اور تعلیمات کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اسلامی نقطہ نظر جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق، اس کی حکمت اور دنیا و آخرت میں اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، اس کا پیش کرنا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو ان سوالات کے جوابات مل سکیں جو ان مغربی نظریات کی بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں۔
جب ہم مغربی فلسفیوں کی تعلیمات کو پیش کرتے ہیں تو ان کے بعد اسلامی فلسفہ کے مطابق ان کا جواب بھی دیں۔ اس سے طلبہ کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ان نظریات کے جوابات اسلام میں کس طرح موجود ہیں اور انہیں اپنی عقائد پر یقین مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔
اسلامی فلسفہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس کی حکمت اور عظمت کا کوئی موازنہ نہیں۔ اللہ کی تخلیق اور اس کے منصوبے کو سمجھنا انسان کا فرض ہے۔ جب اس بات کو طلبہ کے سامنے واضح کیاجاتا ہے تو ان کے ذہنوں میں یقین اور سکون پیدا ہوتا ہے اور وہ ان مغربی نظریات سے متاثر ہوکر الحادی خیالات کی طرف نہیں بڑھتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مغربی فلسفہ اور اسلامی فلسفہ کو متوازن انداز میں پیش کیا جائے تاکہ طلبہ کے ذہن میں سوالات کا جواب مل سکے اور وہ اپنی عقیدے میں مضبوط رہیں۔
2۔ لبرل ازم اور سیکولر خیالات
الحادی رجحانات کے بڑھنے کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ لبرل ازم اور سیکولر خیالات کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے جو طلبہ کی فکری نشوونما پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ ان نظریات کے تحت مذہب کو ایک ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کی مداخلت کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لبرل ازم مذہب کو فرد کی ذاتی آزادی کے خلاف سمجھتا ہے۔ سیکولر خیالات ریاست اور سماج کو مذہب سے علیحدہ رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔
(1) مذہب اور ذاتی آزادی کا تضاد
لبرل ازم اور سیکولر ازم مذہب کو فرد کی ذاتی آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق، فرد کو اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے، بشمول اس کے مذہب کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا اختیار۔ اس نظریہ کی وجہ سے مذہب کو ایک ذاتی عقیدہ اور آزادی کے راستے میں رکاوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
(2) سیکولر ریاست
سیکولر خیالات ریاستی معاملات میں مذہب کی مداخلت کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے مطابق ریاست کو مذہب سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ تمام افراد کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر مذہب کی حیثیت کم ہوجاتی ہے اور اس کا اثر معاشرتی ڈھانچے پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔
ó لبرل ازم اور سیکولر نظریات کے اثرات کا نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ مذہب کی تعلیمات کو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں میں زیادہ آزادانہ، مادی اور دنیاوی نقطہ نظر کو ترجیح دیتے ہیں جو انہیں لبرل ازم اور سیکولرازم کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔
لبرل ازم اور سیکولر خیالات کا اثر صرف فرد کی ذاتی آزادی کو بڑھانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس میں مذہب کی اہمیت اور اس کے معاشرتی اثرات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسلام میں دین اور دنیا دونوں کا توازن موجود ہے اور اس میں فرد کی آزادی اور معاشرتی ذمہ داریوں کاایک خاص توازن قائم کیا گیا ہے۔ جب ان لبرل اور سیکولر نظریات کو پڑھایا جاتا ہے تو یہ ضروری ہے کہ طلبہ کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ حقیقی آزادی وہ ہے جو فرد کو اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں صحیح رہنمائی دیتی ہے نہ کہ وہ آزادی جو انسان کو اخلاقی اور دینی ذمہ داریوں سے آزاد کردیتی ہے۔
اسلامی فلسفہ یہ سکھاتا ہے کہ معاشرتی زندگی میں مذہب کا کردار نہ صرف روحانیت بلکہ معاشرتی انصاف، فرد کی فلاح اور اجتماعی ذمہ داریوں کا محافظ بھی ہے۔ اگر ان لبرل اور سیکولر نظریات کے جواب میں اسلامی نقطہ نظر بھی پیش کیا جائے تو طلبہ ان خیالات کو بہتر طور پر سمجھ پائیں گے اور ان میں ایک متوازن نقطہ نظر پید اہوگا۔
3۔ اساتذہ کا کردار
الحادی رجحانات کے فروغ میں مختلف جامعات کے اساتذہ کا مذموم کردار بھی شامل ہے۔ اساتذہ کا کردار طلبہ کی فکری اور نظریاتی نشوونما میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم کچھ اساتذہ جو مغربی جامعات سے تعلیم یافتہ ہیں، الحادی نظریات کے حامی ہیں اور اپنے تدریسی عمل کے دوران ان خیالات کو فروغ دیتے ہیں۔ ان اساتذہ کی ذاتی عقائد اور فکری پس منظر کا اثر طلبہ کی سوچ پر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے دینی عقائد کو کمزور کرنے والا ایک ماحول پیدا ہوتا ہے۔
(1) فکری رہنمائی کی کمی
کئی اساتذہ اپنے تدریسی عمل میں طلبہ کو مذہبی موضوعات پر تنقیدی سوچنے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن وہ ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے لیے مذہبی دلائل یا رہنمائی نہیں دیتے۔ طلبہ جب مذہب، خدا اور کائنات کے تخلیق کے بارے میں سوالات کرتے ہیں تو یہ اساتذہ ان سوالات کے جوابات دینے میں تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس دینی علم یا مستند دلائل نہیں ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کو کسی تسلی بخش جواب کے بغیر ہی اپنے سوالات کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے ان کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ مغربی فلسفہ یا الحادی نظریات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔
(2) مذہبی عقائد پر تنقید
بعض اساتذہ اپنے لیکچرز میں مذہب اور اس کی تعلیمات پر تنقید کرتے ہیں، جس کا اثر طلبہ کے عقائد پر پڑتا ہے۔ یہ تنقید بعض اوقات غیر واضح، مبہم یا مبالغہ آمیز ہوتی ہے، جس سے طلبہ کے ذہنوں میں مذہب کے حوالے سے منفی تاثرات پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کی تنقید طلبہ کی ذہنی تشکیل میں ایک سنگین مسئلہ بن جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے عقائد کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے مذہب کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(3) اساتذہ کی کم علمی اور دین سے دوری
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے اساتذہ خود دینی تعلیمات اور اسلامی فلسفہ سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہوتے یا ان کے اپنے عقائد میں تذبذب پایا جاتا ہے۔ ان اساتذہ کی فکری کمزوریوں کا اثر طلبہ پر پڑتا ہے کیونکہ وہ جب اپنے اساتذہ سے مذہب کے بارے میں سوالات کرتے ہیں تو انہیں تسلی بخش جوابات نہیں مل پاتے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ اپنی سوچ کو بے بنیاد، غیر متوازن اور غیر اسلامی نظریات کے ساتھ جوڑنے لگتے ہیں، جس سے ان کے عقائد میں کمزوری آتی ہے۔
(4) اساتذہ کی غیر ذمہ داری اور ان کی تنقید کا اثر
کچھ اساتذہ جو اپنی تدریسی ذمہ داریوں کو درست طور پر نہیں سمجھ پاتے، وہ غیر ذمہ داری سے کام لیتے ہیں اور مذہب کے بارے میں ان نظریات کو فروغ دیتے ہیں جو طلبہ کی فکری اور مذہبی بنیادوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان اساتذہ کی طرف سے کلاس روم میں مذہب کے بارے میں کی جانے والی تنقید طلبہ کے ذہنوں میں مذہب کے بارے میں منفی خیالات پیدا کرتی ہے اور انہیں دینی عقائد سے دور کرتی ہے۔ اس کا اثر طلبہ کی شخصیت پر پڑتا ہے جو مستقبل میں ان کے نظریات اور فکری ارتقاء کو متاثر کرتا ہے۔
ó اس تناظر میں اساتذہ کو اپنی تدریسی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے اور مذہب کے بارے میں طلبہ کی رہنمائی کا مناسب طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کو صرف تنقیدی سوچ کی ترغیب نہ دیں بلکہ انہیں دینی عقائد کے حوالے سے بھی مکمل رہنمائی فراہم کریں۔ اس کے لیے اساتذہ کو اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوگا اور انہیں اسلامی فلسفہ اور دینی دلائل سے آراستہ ہونا چاہیے تاکہ وہ طلبہ کو صحیح اور مستند جواب دے سکیں۔ جب اساتذہ خود اپنے عقائد اور دینی علم میں مضبوط ہوں گے تو وہ طلبہ کو بہتر طریقے سے فکری رہنمائی فراہم کرسکیں گے اور اس کے نتیجے میں طلبہ میں مذہبی عقائد کی مضبوطی اور توازن پیدا ہوگا۔
4۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل مواد
الحادی رجحانات کے بڑھنے کا چوتھا سبب سوشل میڈیا پر پروان چڑھنے والا مواد بھی ہے۔ جدید دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں کو تیز کیا ہے۔ ان پلیٹ فارمز کا استعمال نوجوانوں میں مخصوص رجحانات اور خیالات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا جیسے؛ یوٹیوب، ایکس، فیس بک اور دیگر ڈیجٹیل پلیٹ فارمز پر مختلف نوعیت کا مواد، جن میں ویڈیوز، لیکچرز، آرٹیکلز اور بحث و مباحثے شامل ہیں، نوجوان نسل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
(1) الحادی مواد اور اس کا اثر
ان پلیٹ فارمز پر الحادی مواد کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے نوجوانوں کو مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلاکردیا ہے۔ مختلف ہنر مند اور متحرک افراد جو خود کو فلسفی یا سائنسی مفکر کے طور پر پیش کرتے ہیں، مذہب پر سوالات اٹھاتے ہیں اور اس کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مواد کی مدد سے مذہب کی موجودہ تشریحات پر تنقید کی جاتی ہے اور دین کے بنیادی عقائد پر شک پیدا کرنے کے کوشش کی جاتی ہے۔ یہ مواد اکثر جذباتی طور پر اشتعال انگیز ہوتا ہے اور نوجوانوں کے فطری تجسس کو بڑھا کر ان کے عقائد میں تذبذب پیدا کرتا ہے۔
(2) مذہب پر تنقید اور نوجوانوں کی سوچ
سوشل میڈیا پر اکثر مذہب کی تعلیمات کو کمزوریوں، تضادات اور منطق سے ہٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں کثرت سے ایسی ویڈیوز، بلاگز اور پوسٹس شامل ہوتی ہیں جو اسلام یا دیگر مذاہب پر طنز کرتی ہیں اور ان کے عقائد کو قدامت پسند اور غیر سائنسی قرار دیتی ہیں۔ ان مواد کی مدد سے مذہب کی روایتی تشریحات کو زیر سوال لایا جاتا ہے اور مغربی نظریات یا الحادی فلسفہ کو معقول اور ترقی پسند قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تنقید نوجوانوں کے ذہن میں مذہب کے بارے میں منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور وہ اسے ایک عہد قدیم اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔
(3) عالمی الحادی مفکرین اور ان کا اثر
عالمی سطح پر بھی الحادی تحریکات کو بڑھاوا دینے والے معروف مفکرین اور شخصیات ہیں جیسے رچرڈ ڈاکٹنز، کرسٹوفرہچنز اور سموئل ہیٹنگٹن جن کی تحریریں اور لیکچرز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے جاتے ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز نے اپنی مشہور کتاب The God Delusion میں مذہب کو ایک غیر معقول اور انسانوں کی عقل کے خلاف تصور کیا ہے۔
ان کی تحریریں اور لیکچرز اس بات کو فروغ دیتے ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب کو سائنس اور عقل کے پرتو میں نئے سرے سے جانچنا چاہئے۔ اس قسم کے عالمی مفکرین کا اثر طلبہ پر اس وقت پڑتا ہے جب وہ ان کی تحریروں کو بغیر کسی توجہ کے سنے اور ان پر تنقیدی سوچ نہ کرپائیں۔ اس کے نتیجے میں وہ مذہب کے بارے میں الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس بات پر یقین کرنے لگتے ہیں کہ مذہب صرف ایک انسانی تخیل ہے، جس کا کوئی سائنسی یا عقلی جواز نہیں ہے۔
ó سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل مواد نے نوجوانوں کی سوچ کو ایک نیا رخ دیا ہے اور ان کے مذہبی عقائد کومتاثر کیا ہے۔ اس اثر کو متوازن طریقے سے صرف اسی صورت روکا جاسکتا ہے اگر ہم اپنے نوجوانوں کو اسلامی عقائد اور فلسفے کی حقیقت سے آگاہ کریں اور انہیں ان الحادی نظریات کا منطقی اور علمی جواب فراہم کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال مثبت اور تعلیمی مواد کے لیے کیا جائے تاکہ نوجوان اس بات سے آگاہ ہوسکیں کہ ان کے مذہب میں کسی قسم کی کوئی کمزوری یا تضاد نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل اور سائنسی طور پر معتبر تعلیم ہے۔
سوشل میڈیا پر اس طرح کے مواد کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات کی حقیقت اور فلسفہ سے بھی آگاہ کریں اور انہیں ذہنی طور پر مضبوط بنائیں تاکہ وہ کسی بھی مغربی یا الحادی اثرات کا شکار نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال ایک طاقتور ذریعہ کے طور پر کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنے مذہب کی صحیح تعلیمات اور عقائد کو دنیا بھر میں پھیلانے میں کامیاب ہوں۔
5۔ ثقافتی تبدیلیاں
ثقافتی تبدیلیوں نے بھی الحادی رجحانات کے بڑھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جدیدیت اور گلابلائزیشن کی تیز رفتاری نے دنیا بھر میں ثقافتی تبدیلیوں کی ایک لہر پیدا کی ہے، جس کے اثرات خاص طور پر مذہبی معاشروں پر محسوس کیے گئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں روایتی مذہبی اقدار اور معاشرتی تصورات میں تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلیاں نہ صرف ایک مخصوص علاقے یا قوم تک محدود رہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پھیل چکی ہیں۔ ان اثرات کا ایک نمایاں پہلو مذہب کی اہمیت میں کمی اور مادی اقدار کی ترقی کو بڑھاوا دینا ہے۔
(1) مغربی ثقافت کا اثر
مغربی ثقافت جو کہ جدیدیت، سیکولرازم اور لبرل ازم کے اصولوں پر مبنی ہے، اس نے دنیا بھر کے معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، فلم انڈسٹری اور دیگر ثقافتی مصنوعات کے ذریعے مغربی تصورات اور زندگی کے انداز دنیا کے ہر کونے تک پہنچ چکے ہیں۔ مغربی معاشروں کے اصولوں کی تقلید کرنے کی خواہش نے نوجوانوں کو مذہب سے دور کردیا ہے کیونکہ مغربی ثقافت فرد کی آزادی، خودمختاری اور عقل و شعور کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔
نوجوان نسل مغربی طرزِ زندگی میں محو ہوگئی ہے، جس میں خاندان، مذہب اور روایات کے بجائے مادی کامیابی، ذاتی آزادی اور تفریح کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ مغربی ثقافت میں کمیونٹی کی بجائے فرد کی اہمیت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے نوجوان مذہب کو محض ایک ذاتی عقیدہ یا ذاتی فیصلہ سمجھنے لگے ہیں جو اجتماعی زندگی میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ مغربی میڈیا کی غیر متنازعہ نوعیت ہے، جس کے ذریعے نوجوانوں کو مذہب کے بجائے مادی کامیابی اور عیش و آرام کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔
(2) مادی کامیابی کی اہمیت
جدیدیت نے معاشرتی فلاح کے بجائے مادی کامیابی کو اہمیت دی ہے۔ نوجوان نسل کے لیے کامیابی کا معیار اب صرف دولت، شہرت اور ذاتی آزادی بن چکا ہے، جس کی بدولت روحانی ترقی اور مذہبی عقائد پس پشت چلے گئے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے مذہب کی اہمیت محض ایک ذاتی معاملہ بن کر رہ گئی ہے اور وہ اسے اپنی زندگی کے دیگر مقاصد کے مقابلے میں کم اہمیت دینے لگے ہیں۔ اس کے بجائے وہ فوائد کو اہمیت دیتے ہیں، جیسے کہ اچھا کیریئر، زیادہ پیسہ کمانا اور ذاتی آزادی حاصل کرنا۔
مذہبی عقائد کو مادی ترقی کے ساتھ متصادم سمجھا جانے لگا ہے۔ اس بات کا پرچار کیا جارہا ہے کہ مذہب انسان کو ترقی کے راستے سے روکتا ہے اور اس کے عقائد کو جدید دنیا کی ترقی سے ہم آہنگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اثر نوجوانوں کی ذہن سازی پر گہرا پڑا ہے کیونکہ وہ مذہب کے بجائے دنیاوی کامیابی اور انفرادی حقوق پر زیادہ زور دینے لگے ہیں۔ اس سوچ نے نہ صرف مذہب کی بنیادوں کو کمزور کیا ہے بلکہ یہ نوجوانوں کے درمیان مادی جاہ و حشمت کے حصول کی دوڑ کو بڑھا رہا ہے، جس سے روحانیت اور اخلاقی اقدار کی کمی محسوس ہورہی ہے۔
(3) مغربی ثقافت اور مادی کامیابی کی طرف جھکاؤ
مغربی ثقافت نے جو انفرادی آزادی اور مادی ترقی کا تصور پیش کیا ہے، اس کے اثرات نے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ تصورات بیٹھ چکے ہیں کہ جدید دنیا میں کامیابی صرف وہی حاصل کرسکتا ہے جو دین سے آزاد ہو اور جو صرف مادی اقدار کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھے۔ ان نوجوانوں کے لیے دین ایک ذاتی انتخاب بن کر رہ گیا ہے اور اس کے اثرات ان کے اجتماعی اور معاشرتی کردار پر کم ہوگئے ہیں۔
ó مغربی ثقافت اور مادی کامیابی کی طرف بڑھتے ہوئے رجحانات نے ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار کو شدید چیلنج کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے جو فرد اور معاشرہ دونوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو اس بات کا قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی ترقی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ان نوجوانوں کو یہ سمجھائیں کہ حقیقی کامیابی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب انسان اپنی زندگی میں اللہ کے احکام کو مانے اور اس کے راستے پر چل کر دنیا و آخرت میں کامیاب ہو۔
ہمیں مغربی ثقافت کی چمک دمک کو دیکھنے کے بجائے اپنے مذہبی عقائد اور اقدار کی مضبوط بنیادوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو اسلام کی حقیقت اور اس کی انسانیت کے لیے فائدہ مند تعلیمات کا ادراک ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جدید دنیا میں نوجوانوں کی فکری رہنمائی کے لیے نئی حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ وہ دنیاوی ترقی اور روحانی تعلیمات کے درمیان توازن قائم رکھ سکیں۔ (جاری ہے)