انسانی تمدن کی بنیاد ہمیشہ تربیت پر قائم رہی ہے۔ جس قوم نے تربیت کے باب میں غفلت برتی، وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی اور جس نے اپنی نئی نسل کے ذہن و کردار کو فکری و اخلاقی اصولوں پر استوار کیا، اس نے تاریخ کے دھارے کو اپنی سمت موڑ دیا۔ تاہم اکیسویں صدی میں جب انسانی زندگی پر ڈیجیٹل انقلاب کا غلبہ ہوا، تو تربیت کے معیارات یکسر بدل گئے۔ اب بچہ ماں باپ سے زیادہ موبائل اسکرین سے متاثر ہوتا ہے، استاد سے زیادہ یوٹیوبر اور ٹک ٹاکر کو رول ماڈل سمجھتا ہے اور حقیقی دنیا کی بجائے ایک ورچوئل دنیا میں جیتا ہے۔ آج تعلقات کی جگہ ٹیکسٹ، احساسات کی جگہ ایموجیز اور تعلیم کی جگہ معلومات کا طوفان لے چکا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں تربیت کا تصور اپنی کلاسیکی بنیادوں سے ہٹ کر ایک نئی اور پیچیدہ شکل اختیار کرتا ہے۔ والدین، اساتذہ اور مذہبی ادارے سب کو اس سوال کا سامنا ہے کہ ڈیجیٹل عہد میں بچوں کو کیسے سنبھالا جائے۔۔۔؟ انھیں علم کے ساتھ کردار کی روشنی بھی کیسے دی جائے۔۔۔؟اُنہیں جدیدیت میں گم ہونے سے کیسے بچا کر انسانی و ایمانی توازن کی راہ پر رکھا جائے۔۔۔؟
ڈیجیٹل دنیا نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج کے بچے ایک ایسی دنیا میں آنکھ کھول رہے ہیں جہاں موبائل فون، ٹیبلٹس، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور آن لائن گیمنگ ان کے روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس ڈیجیٹل انقلاب نے جہاں سہولتیں فراہم کی ہیں، وہیں تربیتی بحران بھی جنم دیا ہے۔ بچوں کے مزاج، رویّے، ذہنی ارتقاء، مذہبی و اخلاقی اقدار اور والدین سے تعلق، سب کچھ اس نئی طرزِ زندگی سے متاثر ہو رہا ہے۔ آج کا بچہ ایک ایسی دنیا میں آنکھ کھولتا ہے جہاں معلومات کی بھرمار ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں گھر کے دروازے سے لے کر بچے کے ذہن تک, ہر چیزایک دوسرے سے جڑی( connected)ہے۔ ٹی وی، ٹیب، موبائل، لیپ ٹاپ، سوشل میڈیا، یہ سب اس ماحول کے بنیادی ستون بن چکے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا نے بلاشبہ علم و آگہی کے دروازے کھول دیے ہیں، بچوں کو لامحدود معلومات تک رسائی حاصل ہے، ان کی ذہنی وسعت بڑھی ہے، تجسس پیدا ہوا ہے اور تعلیم کے نئے امکانات سامنے آئے ہیں لیکن اسی سہولت نے فکری و اخلاقی انحرافات کے نئے دروازے بھی کھول دیے۔ اب وہی آلہ جو علم دیتا ہے، بسا اوقات کردار چھین لیتا ہے اور وہی اسکرین جو دنیا دکھاتی ہے، حقیقت سے دور لے جاتی ہے۔
بچوں پر ڈیجیٹل دور کے منفی اثرات
ماہرینِ نفسیات کے مطابق، ڈیجیٹل میڈیا کا زیادہ استعمال بچوں میں توجہ کی کمی، اضطراب، نیند کی خرابی، غصہ، تنہائی اور احساسِ کمتری پیدا کرتا ہے۔ یہ اثرات محض جسمانی یا نفسیاتی نہیں بلکہ اخلاقی سطح تک سرایت کر چکے ہیں۔ بچے کے رویے میں ضد، خود مرکزیت، خود پسندی، بے صبری اور اندھی تقلید بڑھتی جا رہی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اسکرین نے ان کے شعور پر حکومت قائم کر لی ہو۔ زیر نظر تحریر میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ اس ڈیجیٹل دور میں بچوں پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور والدین و اساتذہ بچوں کو ان منفی اثرات سے کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں:
(1) اخلاقی زوال
ڈیجیٹل میڈیا کا سب سے گہرا اثر بچے کے اخلاقی شعور پر پڑتا ہے۔ جہاں پہلے بچے والدین اور اساتذہ سے ’’اقدار‘‘ سیکھتے تھے، اب وہ انٹرنیٹ پر غیر مرئی شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں جن کے اخلاقی معیارات مشکوک ہوتے ہیں۔ وہ فیشن، تفریح اورLikes کی دوڑ میں اپنی اصل کو بھول جاتے ہیں۔ یوں نفس ان کا رہنما بن جاتا ہے، جبکہ قرآن خبردار کرتا ہے:
أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ
(الفرقان: 43)
’’ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ ‘‘
یہی آیت آج کے ڈیجیٹل انسان کی تصویر بن چکی ہے.ایک ایسی نسل جو اپنی خواہشات اور الگورتھم کی غلام ہے۔
(2) خاندان میں رابطے کا بحران
ڈیجیٹل دنیا نے بظاہر لوگوں کو قریب کیا ہے مگر حقیقت میں دلوں کو دور کر دیا ہے۔ گھر میں سب ایک ہی چھت کے نیچے ہیں، مگر ہر کوئی اپنی اسکرین میں گم ہے۔ بات چیت کے لمحات کم ہو گئے ہیں، مشترکہ احساسات سرد پڑ گئے ہیں اور تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ’’ گفتگو اور مشاہدہ‘‘ تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں والدین کا کردار سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اسلام نے تربیتِ اولاد کی صرف نصیحت نہیں کی بلکہ حکم دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ
(التحریم: 6)
’’ اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ‘‘
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:
علموا انفسکم و اھلکم الخیر، و ادبوھم
’’ اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو بھلائی (یعنی دین و علم) سکھاؤ اور ادب کا عادی بناؤ۔ ‘‘
علم اور ادب؛ یہی دو ستون ہیں جن پر اسلامی تربیت کھڑی ہے۔ مگر ڈیجیٹل کلچر میں علم تو مل رہا ہے، ادب ناپید ہے۔ بچہ معلومات سے بھرپور ہے مگر حکمت اور شعور سے خالی۔ یہی عدمِ توازن آج کے تربیتی بحران کی اصل جڑ ہے۔
(3) سوشل میڈیا کا نفسیاتی دباؤ
سوشل میڈیا نے کم عمری ہی میں بچوں کو موازنہ اور مسابقت کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے۔ ہر بچہ اپنی خوشی، خوبصورتی یا کامیابی کو دوسروں کے معیار پر تولتا ہے۔ یہی موازنہ رفتہ رفتہ احساسِ کمتری، بے چینی اور خود سے نفرت میں بدل جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، 13 سے 17 سال کے وہ بچے جو دن میں 3 گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، ان میں Depression اور Anxiety کے امکانات 60 فیصد زیادہ ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسان کی اصل قدر اس کے اخلاق اور نیت میں ہے، نہ کہ اس کی شکل، لباس یا فالورز میں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ان اللہ لا ینظر الی صورکم و اموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم و اعمالکم
’’اللہ تمہاری شکلوں اور مال کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم)
یہ حدیث دراصل اس فکری بیماری کا علاج ہے جو سوشل میڈیا نے بچوں کے ذہن میں پیدا کر دی ہے۔ اگر والدین اس پیغام کو تربیت کا حصہ بنا لیں تو بچوں میں خوداعتمادی اور فطری وقار بحال ہو سکتا ہے۔
(4) علم کی بہتات مگر تربیت کا فقدان
ڈیجیٹل دنیا نے ’’علم‘‘ کو بے حد آسان بنا دیا ہے، لیکن ’’تربیت‘‘ کو تقریباً ناممکن کر دیا ہے۔ علم صرف معلومات کا نام نہیں بلکہ عمل، شعور اور ضبط کا نام ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر میں علم وہی معتبر ہے جو کردار میں جھلکے مگر آج کا تعلیمی نظام اور ڈیجیٹل کلچر بچے کو جاننے وا لا تو بنا رہا ہے مگر عمل کرنے والا اور اخلاق و کردار کا پیکر نہیں بنا رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچہ ذہین ضرور ہے، مگر اس کے اندر ضبط، حیا، صبر اور قربانی کی صفات کمزور پڑ چکی ہیں۔
(5) اسلامی تہذیب سے بے اعتنائی
ڈیجیٹل کلچر ایک نئی تہذیب تخلیق کر رہا ہے۔ ایسی تہذیب جس میں ’’میں‘‘ مرکزی ہے اور ’’ہم‘‘ معدوم۔ جہاں اشتراک کی جگہ انفرادیت۔۔۔ ایثار کی جگہ خودغرضی۔۔۔ ایمان کی جگہ مفاد نے لے لی ہے۔ اسلام نے تربیت کو محض اخلاقی نہیں بلکہ تہذیبی فریضہ قرار دیا ہے۔ آج اسلامی تعلیمات؛ عقیدہ، عبادت، والدین کا احترام، عدل، حلم اور تواضع کا وجود معاشرہ سے ختم ہو رہا ہے۔ جدید ڈیجیٹل کلچر نے اس تسلسل کو توڑ دیا ہے۔ اب عقیدہ کی جگہ تفریح۔۔۔ عبادت کی جگہ مشغولیت۔۔۔ اور ضبط کی جگہ جلد بازی نے لے لی ہے۔
ڈیجیٹل عہد نے تربیت کو نئے امکانات کے ساتھ نئے خطرات بھی دیے ہیں۔ اگر والدین اور اساتذہ اس تبدیلی کو محض ’’خطرہ‘‘ سمجھ کر اس سے منہ موڑ لیں گے، تو نئی نسل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور اگر وہ اس چیلنج کو حکمت کے ساتھ موقع بنالیں، تو یہی ڈیجیٹل دنیا تربیتِ کردار کا ایک مؤثر میدان ثابت ہو سکتی ہے۔ اسلام ہمیں توازن کا درس دیتا ہے۔ نہ جدیدیت سے فرار، نہ اس کی اندھی تقلید بلکہ اس کے اندر رہ کر ایمان، اخلاق اور علم کو ہم آہنگ کرنا۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے حل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل دور میں والدین کا کردار
ڈیجیٹل میڈیا نے اخلاقی قدروں کو شدید چیلنج دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود غیر اخلاقی مواد، فحش مناظر اور لایعنی مواد بچوں کی فکری ساخت کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں تربیت کی اصل جنگ شروع ہوتی ہے۔ والدین اگر اپنے بچوں کو ’’غلطی کے بعد سزا‘‘ دینے کی بجائے ’’غلطی سے پہلے سمجھانے‘‘ کی روش اپنائیں تو اصلاح کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ گویا محض ممانعت کافی نہیں، بلکہ تربیت کو ڈیجیٹل سمجھ بوجھ کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔ آج والدین کے لیے بچوں کی محض نگرانی کافی نہیں، بلکہ سمجھ بوجھ کے ساتھ رہنمائی درکار ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، والدین بچوں کی درج ذیل چار بنیادی اصولوں کے مطابق رہنمائی کریں:
1۔ اشتراک: والدین بچوں کی آن لائن سرگرمیوں میں دلچسپی لیں۔
2۔ رہنمائی: انہیں اچھے مواد کی پہچان سکھائیں۔
3۔ نگرانی: غیر مناسب مواد سے بچانے کے لیے نگرانی کریں۔
4۔ عملی نمونہ: خود بھی موبائل و سوشل میڈیا کا محتاط استعمال کریں۔
جب والدین اپنی آن لائن سرگرمیوں میں ضبط، حدود اور اخلاقی اصول اپنائیں گے، تبھی بچے بھی ان اصولوں کو فطری طور پر اپنائیں گے۔ اسلام کا بنیادی اصول’’اعتدال‘‘ ہے۔ ڈیجیٹل تربیت میں بھی یہی اصول کارفرما ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ’’ڈیجیٹل شیڈول‘‘ ترتیب دیں۔ مثلاً:
1۔ مطالعہ، کھیل اور خاندانی گفتگو کے لیے وقت مخصوص کریں۔
2۔ کھانے کے دوران یا سونے سے پہلے موبائل استعمال کی ممانعت۔
3۔ انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے واضح حدود طے کریں۔
یہ حدود اگر محبت اور مکالمہ کے ساتھ طے کی جائیں تو بچے انہیں بوجھ نہیں بلکہ نظم کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ڈیجیٹل دور میں اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا کردار
مدارس، اسکولز اور اسلامی مراکز کو چاہیے کہ وہ’’ ڈیجیٹل تربیت‘‘ کو نصاب کا حصہ بنائیں۔ یہ تربیت صرف ’’کمپیوٹر تعلیم‘‘ نہیں بلکہ’’ ڈیجیٹل اخلاقیات‘‘ (Digital Ethics) کا شعور ہے۔ اساتذہ اگر بچوں کو قرآن و سیرت کی روشنی میں ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال کی راہ دکھائیں، تو یہی علم محفوظ اور مثبت بن سکتا ہے۔ بچوں کو قرآن کے ساتھ آن لائن زندگی کے آداب بھی سکھائے جانا بہت ضروری ہے اور اس سمت میں علمی مکالمہ اور نصابی اصلاح ناگزیر ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں تربیت کا مقصد صرف ’’کنٹرول‘‘ نہیں بلکہ’’کردار سازی‘‘ ہے۔ اسلامی اخلاقیات میں تین بنیادی عناصر ہیں:
1۔ صدق: سچائی پر قائم رہنا، چاہے۔ آن لائن ہو یا آف لائن۔
2۔ امانت: معلومات، تصاویر یا پیغامات میں دیانتداری۔
3۔ حیا: اپنی آن لائن شناخت میں وقار اور حدود کی پاسداری۔
سوشل میڈیا پر خودنمائی، دوسروں کی تضحیک یا غیر ضروری تبصرے، یہ سب اخلاقی کمزوری کی علامات ہیں۔ قرآن و سنت میں ان رویوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا او لیصمت
(صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان)
’’جس نے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھا، وہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔ ‘‘
یہ حدیث دراصل ڈیجیٹل ابلاغیات کا پہلا اصول ہے کہ بولنے سے پہلے سوچو۔۔۔ لکھنے سے پہلے پرکھو۔
اسی طرح ڈیجیٹل شور و شر کے اس زمانے میں روحانی سکون کی تربیت بہت ضروری ہے۔ روزانہ کچھ وقت اس ڈیجیٹل دنیا سے لا تعلق ہو کر گزاریں اور اس وقت کو ؛قرآن مجید کی تلاوت، نعت رسول مقبول ﷺ، ذکرِ الٰہی، اجتماعی دعا یا وعظ و نصیحت کے لئے مختص کریں۔ یہ لمحات بچوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ زندگی صرف اسکرین تک محدود نہیں بلکہ انسان کی روح، تعلقات اور عبادات میں بھی ایک جہان آباد ہے۔
ڈیجیٹل دور نے والدین اور اساتذہ کے سامنے ایک نیا امتحان رکھ دیا ہے۔ اب تربیت محض نصیحت نہیں، بلکہ’’ ڈیجیٹل فہم‘‘ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بچوں کو روکنے سے زیادہ انہیں سمجھانا اور ان کی آن لائن دنیا میں شریک ہونا ضروری ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ تربیت صرف دنیاوی نظم کا نہیں بلکہ روحانی ارتقاء کا عمل ہے۔ قرآن، سنت اور جدید علمِ نفسیات تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ دیکھ کر سیکھتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محفوظ، باشعور اور باکردار شہری بنیں، تو ہمیں خود’’ڈیجیٹل شعور‘‘ کے علمبردار بننا ہوگا۔ ڈیجیٹل دنیا کی برق رفتاری ہمیں خوفزدہ نہیں بلکہ محتاط بننے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اسلامی تربیت کے اصولوں کو جدید سائنسی فہم کے ساتھ مربوط کریں تاکہ ڈیجیٹل نسل کے ہاتھوں میں موجود اسکرین ایک وسیلۂ خیر بن جائے، نہ کہ ذریعۂ زوال۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دل ؛ایمان اور عقل شعور کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ یہی تربیت کا مقصد ہے اور یہی ڈیجیٹل دور میں والدین اور اساتذہ کی اصل ذمہ داری۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل اور ڈیجیٹل دور میں بچوں کی جامع تربیت کا اہتمام
جدید ڈیجیٹل دنیا میں جب بچہ ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے جہاں اس کی توجہ، سوچ، ترجیحات اور احساسات سب ٹیکنالوجی کے دائرے میں مقید ہو چکے ہیں، وہاں تربیت محض ایک گھریلو فریضہ نہیں رہی بلکہ ایک ہمہ گیر سماجی، فکری اور روحانی ذمہ داری بن چکی ہے۔ جدید دور کے چیلنجز میں سب سے بڑی آزمائش شاید یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو محض پڑھا تو دیتے ہیں، مگر ان کی تربیت پر وہ توجہ نہیں دے پاتے جو انسان سازی کے لیے ضروری ہے۔
اسی خلا کو پر کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک ایسا جامع نظامِ تعلیم و تربیت قائم کیا ہے جو جدید تقاضوں کے ساتھ روحانی، اخلاقی، سیرتی اور فکری تربیت کا حسین امتزاج ہے۔ یہی نظام آج منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام دنیا بھر میں لاکھوں بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت کو قرآنی و اخلاقی سانچے میں ڈھال رہا ہے۔
ایک ایسا نظام جو دین، علم، اخلاق اور عصری شعور کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ شیخ الاسلام نے ہمیشہ اس حقیقت پر زور دیا کہ اگر تربیت؛ ایمان اور علم کی بنیاد پر نہ ہو تو ٹیکنالوجی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ انہوں نے بچوں کی تربیت کو؛عبادت، صدقۂ جاریہ اور ملت کی بقا کا فریضہ قرار دیا۔ ان کی یہ فکر محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی شکل میں منہاج القرآن کے مختلف اداروں، منصوبوں اور پروگرامز کے ذریعے جلوہ گر ہے۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت چلنے والے اسکولز ہوں یا منہاج تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹس ان میں طلبہ کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی روشنی میں کردار سازی کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تعلیم کو محض حصولِ نوکری نہیں بلکہ خدمتِ انسانیت اور تعمیر اخلاق کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح حفظ کے ساتھ فہمِ دین، اخلاقی طرزِ زندگی اور عملی دینداری پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔
اسی تربیتی تسلسل کو آگے بڑھانے کے لیے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ اور منہاج یوتھ لیگ جیسے پلیٹ فارمز قائم کیے گئے ہیں، جہاں طلبہ اور نوجوانوں کی شخصیت سازی کے لیے علمی مقابلے، فکری نشستیں، اخلاقی ورکشاپس اور آن لائن کورسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل نہ صرف دین سے وابستہ ہو بلکہ وہ ڈیجیٹل ٹولز کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کا شعور بھی حاصل کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ “منہاج ویمن لیگ” کے تحت ماؤں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، کیونکہ ایک باعلم، باشعور اور باکردار ماں ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ تربیتی ورکشاپس، لیکچرز اور آن لائن سیشنز کے ذریعے خواتین کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں اپنے بچوں کی فکری اور اخلاقی حفاظت کیسے کی جائے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے تحت چلنے والا Eagers Department دراصل شیخ الاسلام کے اس خواب کی تعبیر ہے جس میں اسلامی معاشرے کی بنیاد صالح ماؤں کی تربیت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس شعبہ کے زیر اہتمام بچون کو سیرتِ رسول ﷺ، قرآن فہمی، عبادات، آدابِ زندگی، اور اخلاقیات کو دلچسپ انداز میں سکھایا جاتا ہے۔ Peace Circles اورKids Festivals کے ذریعے امن، بھائی چارے، اور انسانی محبت کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں۔ Hadith Camps اور Sunnah Learning Sessions میں بچوں کو روزمرہ سنتیں (کھانے، گفتگو، وضو، نیند، دعا) عملی انداز میں سکھائی جاتی ہیں۔ میلاد اور اعتکاف کے پروگرامز میں بچوں کو شرکت کا موقع دے کر انہیں اجتماعی دینی فضا سے مانوس کیا جاتا ہے۔ الغرض ایگرز ڈیپارٹمنٹ نے ہزاروں بچوں کواعتماد، اخلاق، علم اور ایمان سے مزین کیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تحریروں، خطابات اور نصاب سازی کے ذریعے واضح کیا ہے کہ اگر ہم نئی نسل کو ایمان، علم، کردار اور ضبطِ نفس کے اصولوں پر تربیت دیں تو جدید ٹیکنالوجی ایک چیلنج نہیں بلکہ دعوت و اصلاح کا جدید ذریعہ بن سکتی ہے۔
یہ تمام اقدامات مل کر ایک ایسے تربیتی فلسفہ کی تشکیل کرتے ہیں جو نہ ماضی سے کٹتا ہے، نہ حال سے بھاگتا ہے، بلکہ اسلام کے آفاقی اصولوں کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ منہاج القرآن آج کے ڈیجیٹل عہد میں تربیتِ اطفال کے لیے ایک مینارۂ نور بن چکا ہے۔ ایک ایسا ماڈل جو امتِ مسلمہ کے والدین اور اساتذہ کو یہ یقین دلاتا ہے کہ اگر تربیت؛ قرآن، محبتِ رسول ﷺ اور اخلاقی بصیرت کے ساتھ کی جائے تو نئی نسل نہ صرف محفوظ رہ سکتی ہے بلکہ وہی اس امت کے فکری معمار اور روحانی وارث بن سکتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ’’تعلیم کا مقصد صرف معلومات کا حصول نہیں بلکہ کردار سازی ہے۔ ‘‘ اسی فکر کے تحت منہاج القرآن نے اپنے تمام تربیتی اداروں میں ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں علم و اخلاق، نصاب و روح، تعلیم و تزکیہ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ شیخ الاسلام کے نزدیک بچوں کی تربیت کے یہ درج ذیل بنیادی اصول کامیابی کی ضمانت ہیں:
1۔ علم کے ساتھ عمل: تعلیم صرف نصابی نہیں بلکہ عملی تربیت کے ساتھ ہو۔
2۔ روحانیت کے ساتھ عقل: ایمان اور فہم دونوں کو توازن کے ساتھ پروان چڑھایا جائے۔
3۔ محبتِ رسول ﷺ کو مرکز بنانا: تاکہ اخلاق و کردار میں نرمی، رحم اور عدل پیدا ہو۔
4۔ جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال: ڈیجیٹل دور میں بھی تربیت کے ذرائع جدید انداز میں اپنائے جائیں۔
منہاج القرآن کے ان پروگراموں کے ثمرات واضح ہیں کہ بچے قرآن، سیرت اور اخلاق سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں والدین کے ساتھ ادب و احترام کا رویہ فروغ پا رہا ہے۔ بچے موبائل اور ڈیجیٹل میڈیا کو صرف تفریح نہیں بلکہ علم و دین کی خدمت کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں اور منہاج ا لقرآن کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ اپنی سیرت و کردار کے سبب نمایاں ہوتے ہیں۔
یہ وہ وژن ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت کے بچوں کو قرآنی تہذیب کا وارث بنا سکتا ہے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل نے اپنی انتھک کوششوں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر نیت خالص ہو اور رہنمائی قرآنی ہو تو جدید دور کے ہنگاموں میں بھی اخلاق، ایمان اور علم کی شمع روشن رکھی جا سکتی ہے۔ آج بچوں کی تربیت کے حوالے سے منہاج القرآن تمام والدین، اساتذہ اور معاشرہ کے لیے ایک روشن مثال ہے کہ بچوں کی تربیت کا سفر صرف کتابوں سے نہیں، بلکہ محبت، ذکر، علم اور عمل سے شروع ہوتا ہے۔