عصرِ حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے ساری دنیا کو ایک دوسرے کے بالکل قریب کردیا ہے۔ اس جدت نے جہاں علم و شعور، ترقی و عروج، بین الاقوامی ہم آہنگی، آسائش و سکون کے نئے دروازے کھولے ہیں اور انسانی زندگی کو پہلے کے مقابلے میں بہتر اور سہل بنانے کی ہر ممکن سعی کی ہے، وہیں ان انسانی سرگرمیوں نے قدرتی ماحول پر خطر ناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ نتیجتاً ہوا، پانی اور زمین کی قدرتی، کیمیائی اور حیاتیاتی خصوصیات میں غیر ضروری اور نقصان دہ تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ زمین کے درجہ حرارت میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی خطر ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے متعدد نقصانات اور منفی اثرات انسانی زندگی کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں انسان اپنی زندگی سے محروم ہو چکے ہیں، جبکہ کئی اقسام کے جانور اور پودے بھی نا پید ہو رہے ہیں۔ اگر اس رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو یہ خدشہ ہے کہ زمین سے جانداروں کی متعدد اقسام ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی مسائل اور ان کے حل کو اب انسانی بقا کا سب سے اہم مسئلہ تسلیم کیا جا رہا ہے، اور ماحولیاتی بحران کو موجودہ دور کا ایک المناک اور پیچیدہ چیلنج سمجھا جاتا ہے۔
ماحولیات کی حفاظت اور توازن برقرار رکھنا انسان کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ سیرت نبوی ﷺ میں ماحولیاتی تحفظ کے واضح اصول اور عملی رہنما خطوط ملتے ہیں، جو ہر مسلمان کو قدرتی وسائل کے درست اور متوازن استعمال کی تلقین کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے زمین، پانی، ہوا اور دیگر قدرتی عناصر کے تحفظ پر خصوصی زور دیا۔
سیرت نبوی ﷺ نے مسلمانوں کو ایسی اقدار اور تعلیمات اپنانے کی ترغیب دی ہے جو ماحول کو نقصان دہ اثرات اور منفی تبدیلیوں سے محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کی روشنی میں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ ماحول کی حفاظت سے متعلق آپ ﷺ کے فرامین اور عملی مثالوں کو قرآن کریم کے بعد سب سے زیاد ہ اہمیت حاصل ہے۔ ذیل میں رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ماحولیات کے تحفظ اور بہتری کے لیے راہنما اصول فراہم کرتی ہیں:
1۔ تحفظِ ماحول کی ذمہ داری کا شعور
اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا اور اس پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ خلافت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے دنیا کے نظام کو سنوارنے اور تخریب کے بجائے تعمیر کے لیے محنت کرے۔ اگر انسان اپنی ذمہ داریوں میں کو تاہی کرے گا اور اللہ کی عطا کر وہ امانتوں کا حق ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن جہاں اس سے باز پرس کی جائے گی، وہاں اللہ تعالیٰ اس کے ہر قول و فعل کا حساب لے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يا عِبَادِي إِنَّمَا هِي أَعْمَالُكُمْ أَحْصِيهَا لَكُمْ ثُمَّ أَوفيكُمْ إِيَّاهَا فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذلك فَلَا يَلُومَنَّ إلا نفسه.
(صحیح مسلم، باب تحریم الظلم، رقم الحدیث: 6737)
’’اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لیے شمار کرتا ہوں، پھر ان کا پورا بدلہ تمہیں عطا کروں گا۔ پس جسے اچھا بدلہ ملے وہ اللہ کا شکر ادا کرے، کیو نکہ یہ اس کی کوشش کا نتیجہ ہے اور جسے برا بدلہ ملے، وہ خود کو ملامت کرے، کیونکہ یہ اس کے اپنے اعمال کا انجام ہے۔ ‘‘
مسلمان چاہے کسی بھی حیثیت یا منصب پر فائز ہو، اپنے اعمال اور فرائض کے لیے اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس کی سماجی، تعلیمی، معاشی یا سیاسی حیثیت جو بھی ہو، وہ اپنے اختیارات اور تصرفات کا ذمہ دار ہے، اور قیامت کے دن اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
(صحیح بخاری، باب الجمعۃ فی القری والمدن، رقم الحدیث: 893)
’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ‘‘
انسان سے اس کی ذاتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے نظام کو درست رکھنے کی ذمہ داری کا بھی حساب لیا جائے گا۔ اسلام نے فرد اور معاشرے کے درمیان گہرا رشتہ قائم کیا ہے، اس لیے نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی بلکہ معاشرتی تعلقات میں اس کے رویے کا بھی حساب لیا جائے گا۔ انسان کو دوسروں کو ماحولیاتی نقصانات سے آگاہ کرنے اور روکتے ہوئے اس کے اثرات سے بچانے کی بھی ذمہ داری دی گئی ہے، کیونکہ ماحولیاتی تباہی سب کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے۔
2۔ ماحول کی حفاظت: مسلمان کا دینی فریضہ
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماحول کی حفاظت اور اسے آلودگی سے بچانا مسلمان کے ایمان کا ایک اہم جزو ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
الإيمان بضع وسبعون أو بضع وستون شعبة فأفضلها قول لا إله إلا الله وأَدْنَاهَا إماطة الأذى عن الطريق.
(صحیح مسلم، باب شعب الایمان، رقم الحدیث: 162)
’’ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زائد شاخیں ہیں۔ ان سب میں سب سے افضل ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہنا ہے اور ان میں سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ ‘‘
اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کے ایمان کا حصہ ہے کہ راستے سے تکلیف دہ اور ضرر رساں چیز کو ہٹائے، چاہے وہ مادی ہو یا معنوی۔ یہاں الأذی سے مراد ہر وہ چیز ہے جو راستوں کی صفائی اور جمال کو متاثر کرتی ہو، جو عوامی راستوں میں حادثات یا ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ ڈالنی ہو، یا جو کسی نہ کسی طریقے سے گزرنے والوں کو نقصان پہنچا سکتی ہو۔ مثال کے طور پر، کوڑا کرکٹ، کچرا، پلاسٹک کی تھیلیاں، یا خالی بوتلیں و غیر ہ، کیونکہ یہ سب بھی نقصان دہ اور ضرر رساں سمجھی جاتی ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالی راستوں سے تکلیف دو چیزوں کو بنانے کی توفیق دیتا ہے، ان پر اللہ کی خصوصی رحمت ہوتی ہے، کیونکہ اس عمل کے ذریعے ان کی مغفرت ہوتی ہے اور وہ اللہ کے عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بينما رَجُلٌ يمشي بطريق وجد غصن شوك على الطريق فاخرہ فشكر الله له فغفر له.
(صحیح مسلم، باب بیان الشہداء، رقم الحدیث: 5049)
’’ایک شخص راستے پر چل رہا تھا، اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ دیکھی، تو اس نے اسے وہاں سے بنا دیا، اللہ تعالی نے اس کی اس نیکی کو قبول کیا اور اس کی مغفرت کر دی۔ ‘‘
علامہ نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
هذه الحديث المذكورة في الباب ظاهرة في فضل إزالة الأذى عن الطريق، سواء كان الأذى شجرة تؤدي، أو عن شؤك، أو حجرًا يعثربه، أو فدرا، أو جيفة وغير ذلك.
(النووی، شرح صحیح مسلم، ج 8، ص: 450)
’’یہ حدیث راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کے حوالے سے واضح طور پر بیان کرتی ہے، چاہے وہ ایذا دینے والا درخت ہو، کانٹوں والی شاخ ہو، کوئی پتھر جو ٹھوکر لگنے کا سبب بن رہا ہو، گندگی ہو، یا کسی مردہ جانور کی لاش ہو۔ ‘‘
3۔ انسانی صحت اور ماحول کی اہمیت
اسلام میں انسانی صحت اور تندرستی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے انسان کی صحت مند زندگی ایک صاف اور محفوظ ماحول سے جڑی ہوئی ہے، کیونکہ انسان اس ماحول میں رہ کر اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ زندگی کی بقاء کے لیے ضروری غذا، پانی اور صاف ہوا، سب اسی ماحول کے عناصر ہیں۔ اسی طرح سورج، زمین، پہاڑ، درخت، دریا اور سمندر بھی انسانی ضروریات کے لیے نہایت اہم ہیں۔ مختصر اً انسانی بقاء اور صحت کا انحصار ماحول اور اس کے اجزاء پر ہے۔ اگر ماحول محفوظ ہو گا تو انسانی صحت بھی محفوظ رہے گی۔ اسلام نے صحت کو اللہ کی عظیم نعمت قرار دیا ہے اور اس کی حفاظت کو انسان پر لازم کیا ہے۔ چند فرامین ملاحظہ ہوں:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَلَجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا
(صحیح مسلم، باب النھی عن صوم الدھر لمن تضربہ، رقم الحدیث: 2787)
’’تمہارے جسم کا تم پر حق ہے۔ ‘‘
اس لیے انسان پر فرض ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھے، کیونکہ یہ اللہ کی دی ہوئی ایک امانت اور نعمت ہے۔
2۔ ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا:
نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس: الصحة والفراغ
(صحیح بخاری، باب لاعیش الاعیش الآخرۃ، رقم الحدیث: 6412)
’’دو نعتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے صحت اور فراغت۔ ‘‘
3۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
المؤمن القوي خير وأحب إلى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنَ الضَّعِيف
(صحیح مسلم، باب فی الامر بالقوۃ وترک العجز)
’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ ‘‘
کیونکہ وہ عبادات کی انجام دہی، فرائض و سنت پر عمل، دعوت و تبلیغ اور معاشرتی خدمت جیسے کاموں میں کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ فعال اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس لیے انسانی صحت اور جان، جو اللہ کی عظیم نعمت ہیں، اس کی حفاظت کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ انسانی صحت کا تحفظ ماحول کی حفاظت کے ساتھ منسلک ہے، لہذا انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماحول کو ان منفی سرگرمیوں اور تبدیلیوں سے بچانے کی کوشش کرے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
4۔ ماحول کو آلودہ کرنا فسق ہے
اسلام میں انسان کی ذمہ داریوں میں صرف اپنی ذات کی اصلاح نہیں بلکہ دنیا اور ماحول کی بہتری کا خیال بھی شامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی حدیث بیان فرمائی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فاسق انسان کے شر سے زمین کی مخلوقات تکلیف میں رہتی ہیں اور اس کے مرنے پر وہ سب سکون پاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ گزرنے پر ارشاد فرمایا:
مستريح ومستراح منہ قالوا: يا رسول الله ما المستريح والمستراح منہ قال: العَبْدُ الْمُؤْمِنُ يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجروالدواب.
(المظهری، المفاتيح في شرح المصابیح، ج 2، ص 414)
’’یہ مستریح یا مستراح منہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: مستریح اور مستراح منہ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں سکون پاتا ہے (اس معنی کی رو سے یہ مستریح ہوگا) اور فاسق بندے کے مرنے سے اللہ کے بندے، شہر، در خت اور جانور سب سکون پاتے ہیں (اس معنی کی رو سے یہ مستراح منہ ہے)۔ ‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک وہ نیک بندہ جو اپنی وفات کے بعد دنیا کی مشقتوں، پریشانیوں اور تکالیف سے نجات پا کر اللہ تعالی کی رحمت اور رضا میں داخل ہو جاتا ہے اور دنیا کے مصائب سے چھٹکارا پا کر آرام و سکون کی منزل کو پہنچتا ہے۔ دو سر اوہ فاسق اور گناہ گار شخص ہے جس کی زندگی اس کے شر، گناہوں اور ایذارسانی سے معمور ہوتی ہے، اور اس کی موت دنیا کی دیگر مخلوقات مثلا: انسانوں، بستیوں، درختوں اور جانوروں کے لیے سکون کا باعث بن جاتی ہے، کیو نکہ اس کے زندہ رہنے سے مخلوقات کو تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے گناہوں، نافرمانیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالٰی اپنی رحمت، برکت اور بارشوں کو روک لیتا ہو جس کے نتیجے میں زمین اور اس پر بسنے والی مخلوقات مثلاً: درخت، جانور اور دیگر جاندار متاثر ہوتے ہیں یا ہلاک ہو جاتے ہیں۔ شارحین کے مطابق اس حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ایسے فاسق و گناہگار شخص کی نحوست اور بد اعمالیوں کی وجہ سے زمین پر نعمتوں کا نزول رک جاتا ہے، جس سے جانور اور نباتات تباہ ہو جاتے ہیں۔
5۔ قدرتی وسائل: مشترکہ امانت
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق، قدرتی ماحول کے کچھ عناصر انسانی معاشرے کی مشتر کہ امانت ہیں۔ کسی فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ان وسائل پر صرف اپنا قبضہ جمائے، دوسروں کو ان کے استعمال سے روکے، یا اپنی خواہشات کے تحت ان میں ایسی تبدیلیاں کرے جو انہیں نقصان پہنچائیں یا نا قابل استعمال بنا دیں۔ جو شخص ان وسائل کو بے جا استعمال کر کے دوسروں کو ان کے حق سے محروم کرتا ہے یا انہیں خراب کرتا ہے، وہ نہ صرف دوسروں کے حقوق تلف کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کا مجرم سمجھا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
المسلمون شركاء في ثلاث: في الماء، والكار، والنار، وثمنه حرام
(ابن ماجہ، السنن، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث، رقم الحدیث: 2472)
’’تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت ( ساجھے داری ) ہے: پانی ( جو بہتا ہو اور جاری ہو )، گھاس اور آگ۔ ان کی قیمت لے کر بیچنا حرام ہے۔ ‘‘
پانی سے مراد جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، جیسے بارش کا پانی، قدرتی نالے، نہریں، یادریا کا پانی۔ گھاس سے مراد جو خود رو ہو اور کسی نے اسے خاص طور پر نہ لگایا ہو۔ اسی طرح وہ لکڑیاں یا جلانے کے لیے استعمال ہونے والے پتھر مراد ہیں جو کسی کی نجی ملکیت میں نہ ہوں۔ ان وسائل کو کسی بھی صورت دوسروں کے لیے روکنا منع ہے۔ مشترکہ اور ذاتی دونوں اقسام کی اشیاء کو نقصان پہنچانے یا ان کے غلط استعمال سے بچنا لازمی ہے۔
6۔ ماحولیاتی وسائل کے استعمال میں اعتدال کی ہدایت
اسلام دنیا کے واحد دین کے طور پر نمایاں ہے جو اپنے پیروکاروں کو ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے اور اسراف و فضول خرچی سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے امتِ مسلمہ کو امتِ وسط کا لقب اسی بنیاد پر دیا ہے کہ ان کے عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اور تمام د نیادی امور اعتدال اور توازن پر مبنی ہیں۔ اسی وجہ سے، اس امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قدرتی وسائل اور ماحول کے معاملے میں بھی میانہ روی کو بر قرار رکھے۔
اسلام نے ماحول اور اس کے وسائل کے حوالے سے جو اصول پیش کیے ہیں، ان میں اعتدال کے ساتھ استعمال کی تاکید کی گئی ہے اور فضول خرچی یا بے جا استعمال کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث میں ماحول کے عناصر اور قدرتی وسائل کے استعمال کے بارے میں واضح طور پر اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرے جبکہ وہ وضو کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:
ما هذا السرف؟ فقال: أفي الوضوء إسْرَاف؟ قال: نعم، وإن كنت على نهر جار
(مسند أحمد، من مسند عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، 6: 481)
یہ کیا فضول خرچی ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یار سول اللہ ﷺ کیا وضو میں بھی فضول خرچی ہو سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں، اگر چہ تم بہتی ہوئی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔
7۔ حیوانات اور ماحولیاتی توازن
پرندے اور جانور ماحولیاتی توازان کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کی موجودگی سے قدرتی ماحول کی خوبصورتی اور دلکشی وابستہ ہے۔ اسلام نے ان مخلوقات کی حفاظت کو بھی انسان کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا، ان کی بقا اور افزائش نسل کو یقینی بنانا انسان پر لازم کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اسلام نے جو اصول اور ہدایات دی ہیں، وہ نہایت جامع اور واضح ہیں۔ ان اصولوں کے تحت ماحول کے اس اہم عنصر یعنی حیوانات اور پرندوں کی دیکھ بھال، ان کی افزائش اور بہتر نشوونما کے لیے اسلام نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوششوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے معاشرے کے ہر فرد اور طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ نے واضح ہدایات دی ہیں کہ ہر وہ جانو ریا پر ندہ جو کسی کی نگرانی میں ہو، اس کی خوراک، پانی اور دیکھ بھال کا انتظام مالک کی ذمہ داری ہے۔ اگر جانور بیمار ہو جائے تو اس کے علاج معالجے اور خوراک کا خاص بندوبست کرنا بھی لازم ہے، چاہے اس جانور سے کسی قسم کا فائدہ نہ لیا جارہا ہو۔ اگر کوئی شخص ان ضروریات کا خیال نہیں رکھتا تو وہ سخت گناہ گار ہے اور عذابِ جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عذبت امرأة في هرة حبستها حتى مانت جوعًا، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّار
(البخاری، الجامع الصحیح بخاری، باب فضل السقی الماء)
ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ کیونکہ اس نے اسے قید کر رکھا تھا اور وہ بھوک سے مر گئی، اسی جرم کی بنا پر وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی۔
یہ حدیث اس بات کی تنبیہ کرتی ہے کہ جانوروں کے ساتھ بد سلوکی یا ان کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کرنا کسی بھی صورت قابلِ معافی نہیں ہے اور یہ اللہ کے غضب کا سبب بن سکتا ہے۔ اسلام نے جانوروں کے ساتھ رحم اور ہمدردی کا برتاؤ کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے، کیونکہ انسانوں کی کئی ضروریات جانوروں پر منحصر ہیں۔ ان کے تحفظ کی ذمہ داری صرف فرد پر ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے پر عائد کی گئی ہے، تاکہ یہ سب مل کر ان کی بقا اور تحفظ کے لیے کوششیں کریں۔ اسی وجہ سے اسلام میں بعض جانوروں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ جانوروں کی حفاظت اور نسلوں کی بقا کے لیے اجتماعی سطح پر اقدامات کرنا ضروری ہے۔ ایک حدیث میں ہے:
إن النبي ﷺ نهى عن قتل أربع من الدواب: النملة والنحلہ وَالْهُدَهْد وَالصَّرَد
(سنن ابن ماجہ، کتاب الصید، باب ماینھی عن قتلہ، رقم الحدیث: 3224)
نبی اکرم ﷺ نے چار جانوروں کے قتل سے منع فرمایا ہے: چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد، اور لٹوریا چڑیا۔
اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان جانوروں کی حفاظت اور ان کی نسلوں کی بقا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے، اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو اسلام میں نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ جاندار جنہیں کھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، انہیں مارنے سے روکا گیا ہے۔ اگر یہ جانور انسان کی خوراک کا حصہ ہوتے اور ان کی حفاظت کا حکم دیا جاتا، تو بات سمجھ میں آتی لیکن یہاں ایسے جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے جو انسان کی خوراک کے لیے نہیں ہیں۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ بھی ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں۔ اگر چہ یہ جانور براہِ راست انسان کے کام نہیں آتے، لیکن ان کا ماحول میں اپنا ایک اہم کردار ہے۔ یہ جانور نہ صرف ماحولیاتی حسن کا حصہ ہیں، بلکہ یہ مضر کیڑوں اور حشرات کو ختم کر کے ماحول کو صاف رکھنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
8۔ پانی کا تحفظ اور ماحولیاتی توازن
اسلام ہر اس عمل اور سرگرمی سے روکتا ہے جو پانی، اس کے ذرائع یا اس کی قدرتی خصوصیات کو نقصان پہنچا سکتا ہو۔ اسلام نے ان افراد کو اللہ کی ناراضگی اور لعنت کا حقدار قرار دیا ہے جو پانی اور اس کے ذرائع کو نقصان پہنچا کر اسے گندا اور آلودہ کرتے ہیں۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتقوا الملاعن الثلاثة: البرازفي الموارد، وقارعة الطريق، والظل
(سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ، باب المواضع التی نھی النبی ﷺ عن البول فیھا، رقم الحدیث: 26)
’’ تین چیزوں میں پاخانہ، پیشاب کرنے سے بچو: پانی کی جگہوں، عام راستے میں اور سائے میں۔ ‘‘
موارد کے معانی اگر چہ مسافروں کے اترنے کی جگہوں کے بھی ہیں لیکن اس سے مراد وہ جگہیں بھی ہیں جہاں سے پانی نکلتا یا گزرتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے اور اسے گندا کرنے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ آپ ﷺ نے امت کو یہ بھی سکھایا کہ بہتے ہوئے پانی کو بھی پیشاب کرنے یا گندگی پھینکنے سے آلودہ نہ کیا جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ
نھی رسول اللہ ﷺ ان یبال فی الماء الراکد.
(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ وسننھا، باب النھی عن البول فی الماء الراکد)
’’رسول الله ﷺ نے بہتے ہوئے (جاری) پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔ ‘‘
علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اگر پانی کم مقدار میں ہو اور بہتا ہو تو اس میں پیشاب کرنا مکروہ تحریمی ہوتا ہے، کیونکہ اس سے پانی کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر پانی زیادہ اور جاری ہو تو اس میں پیشاب کرنے کی اجازت ہے۔ بلکہ حدیث کے الفاظ عام ہیں اور کم اور زیادہ دونوں مقداروں کو شامل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کم مقدار میں پیشاب کرنا مکروہ تحریمی ہے جب کہ پانی کی زیادہ مقدار میں پیشاب کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
خلاصۂ کلام
دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود قدرتی ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، عالمی حدت اور ماحولیاتی آلودگی نے انسانی زندگی کو سنگین خطرات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماحولیاتی مسائل اور ان کے حل کو انسانی بقا کا سب سے اہم مسئلہ تسلیم کیا جارہا ہے، اور انسانوں کو ان مسائل سے نمٹنے کے لئے جامع حکمت عملی تیار کرنی ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے ماحول کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا اور مسلمانوں کے ماحول کو نقصان دہ اثرات سے بچانے کی ترغیب دی۔ آپ ﷺ نے درخت لگانے، پانی کی بچت کرنے اور زمین کی زرخیزی کو بر قرار رکھنے کی تاکید کی تاکہ قدرتی وسائل کا تحفظ ہو سکے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ماحول کا تحفظ نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ اس کا تعلق انسانوں کی اجتماعی فلاح سے بھی ہے۔
سیرت نبوی ﷺ میں ماحول کے تحفظ کے واضح اصول ملتے ہیں۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ، اور قدرتی وسائل کا حد سے زیادہ استعمال کرنے سے بچو۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو درختوں کی بے جا کٹائی سے منع کیا، اور جنگوں کے دوران بھی ماحول کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی ہدایت کی۔ آپ ﷺ کی تعلیمات میں ہمیں یہ سکھایا گیا کہ زمین کا ہر حصہ انسان کے پاس امانت ہے اور اس کی حفاظت کر نا ضروری ہے تاکہ اگلی نسلوں کے لئے بھی یہ وسائل دستیاب رہیں۔
سیرت نبوی ﷺ کی تعلیمات کا مقصد انسان کو ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی ترغیب دینا ہے تا کہ ماحول میں کوئی فساد نہ پھیلے۔ ماحولیاتی تباہی سب کو متاثر کرتی ہے اور اس کے اثرات صرف موجودہ نسل تک محدود نہیں رہتے بلکہ مستقبل کی نسلوں کے لیے بھی چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔ ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقے کو صاف رکھے، درخت لگائے، اور قدرتی وسائل کا غیر ضروری استعمال کرنے سے بچے۔ اسلام نے ماحولیات کے تحفظ کو انسان کی ذاتی اور اجتماعی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے روز مرہ کے اعمال میں ان تعلیمات کو اپنائیں۔ سیرت نبوی اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ماحول کا تحفظ کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے اور اس کے نتائج نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی سامنے آئیں گے۔ جب مسلمان ماحول کی حفاظت کے اصولوں کو اپنے زندگیوں میں عملی طور پر اپنائیں گے، تو وہ نہ صرف اپنی دنیا کو بہتر بنائیں گے بلکہ اللہ کی رضا اور بخشش کے بھی مستحق ہوں گے۔