احکامِ شریعت کی تاثیر اخلاقِ حسنہ سے مشروط ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین:

گذشتہ سے پیوستہ

قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ کی طبیعت مبارکہ کا بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ.

(آل عمران، 3: 159)

اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔

آیت کریمہ کا پہلا حصہ؛ ” فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَھُمۡ“ جس میں آقا ﷺ کی طبیعت بیان کی گئی، اس کے تجویدی قواعد، ان الفاظ کا مزاج و طبیعت اور ان کی تعبیری مطابقت اور ہے جبکہ دوسرے حصہ؛ ”وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ“ اس حصے کے ہر ہر لفظ اور حرف کی تجوید کا مزاج اور طبیعت اور ہے۔ حروف کے مزاج کی سائنس آقا ﷺ کے زمانے میں ایجاد نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی علمِ تجوید ایجاد ہوا تھا۔ ان دونوں حصوں کے حروف کے مزاج کی خبر تو علمِ تجوید کے قواعد بنائے جانے کے بعد سامنے آئی اور اس وقت ان میں فرق کیا گیا مگر آقا ﷺ کی طبیعت کے بیان کے لیے ان حروف کا استعمال کرنا کہ وہ حروف بھی طبیعتِ محمدی ﷺ کے عین مطابق ہیں اور آقا ﷺ کی طبیعت کو ظاہر کرتے ہیں، یہ قرآن مجید کا معجزہ ہے۔

قرآن مجید سے آقا ﷺ کی طبیعت مبارکہ کے بیان کے لیے استعمال کیے گئے حروف کی سائنس کے بیان (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن ماہ اکتوبر2025ء) کے بعد آیئے! مزید آیاتِ قرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے حروف کہ یہ سائنس مزید واضح ہوجائے گی:

1۔ سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ نےجنت کے ذکر کے تحت فرمایا:

فِیْهِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِۚ.

(الرحمن، 55: 50)

”ان دونوں میں دو چشمے بہہ رہے ہیں۔ “

لفظ ”تَجْرِیَان“ کی”ت“پر زبر، ”ج“پر جزم، ”ر“ کے نیچے زیر، ”ی“ پر کھڑی زبر اور ”نون“ کے نیچے زیر ہے۔ اس اعراب کے ساتھ لفظ تجریان کے اندر ایک روانی، بہاؤ اورتسلسل ہے۔ جس طرح چشموں میں روانی ہوتی ہے، اسی طرح اس لفظ کی ادائیگی کےاندر بھی ایک بہاؤ اور روانی ہے۔ اس لفظ میں کسی حرف پر کوئی شد نہیں ہے۔ یہ سارے حروف روانی (flow) کے حروف ہیں۔

2۔ سورۃ الرحمن میں ہی چشموں کی ایک دوسری قسم کا بھی ذکر ہے۔ ان کے اظہار کے لیے فرمایا:

فِیْهِمَا عَیۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ.

(الرحمن، 55: 66)

”ان دونوں میں (بھی) دو چشمے ہیں جو خوب چھلک رہے ہوں گے“

لفظ نَضَّاخَتٰنِ میں ”ض “ ایک ایسا حرف ہے جو بھاری آواز کے ساتھ اداکیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اس کے اوپر شد ہے یعنی اس کو دوبار پڑھا جائے گا۔ پس جب ہم ”نَضَّاخَتٰنِ“ پڑھتے ہیں تو ان حروف کی وجہ سے ایسی آواز ہمارے منہ سے نکلتی ہے جیسے کوئی چیز پھٹ رہی ہے۔ یہ اُن دو چشموں کا ذکر ہے جو بہہ نہیں رہے بلکہ زمیں کو چیر کر پھوٹ رہے ہیں۔ قرآن مجید کااعجاز ملاحظہ ہو کہ جب ایسے چشموں کا ذکر کیا جن میں بہاؤ اور روانی ہے وہاں (عَیۡنٰنِ تَجۡرِیٰنِ) ایسے حروف کا استعمال فرمایا جن کی ادائیگی میں روانی، بہاؤ اور تسلسل کا اظہار پایا جاتا ہے اور جہاں ایسے دو چشموں کا ذکر کیا جو زمیں کو پھاڑ کر پھوٹ رہے ہیں اور پھوٹنے میں چونکہ طاقت لگتی ہے، زمین پھٹتی ہے تب چشمہ نکلتا ہے وہاں (عَیۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ) ایسے حروف استعمال فرمائے جن کی ادائیگی میں ہی قوت اور طاقت کا اظہار پایا جاتا ہے۔

3۔ قرآن مجید کے اس اعجاز کی ایک اور مثال سورۃ الناس ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:

قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ. مَلِکِ النَّاسِ. اِلٰہِ النَّاسِ. مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ الۡخَنَّاسِ. الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ. مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ.

(الناس: 1۔ 6)

”آپ عرض کیجئے کہ میں (سب) انسانوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہے۔ جو (ساری) نسلِ انسانی کا معبود ہے۔ وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اللہ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ “

اس سورت کی ہر آیت کا اختتام حرف ’’س‘‘ پر ہورہا ہے۔ چوتھی اور پانچویں آیت میں حرف ’’س‘‘ تین تین مرتبہ آیا ہے۔ حرف ’’س‘‘کی ادائیگی سے Whispering (سرگوشی) کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ کسی کے کان میں جو بات ڈالی جاتی ہے، وہ وسوسہ ہوتا ہے۔ اس پوری سورت کا مضمون چونکہ وسوسہ اور خیال ہے جو سرگوشی (whispering) کے ذریعے دلوں میں ڈالا جاتا ہے، اس کے لیے حرف ’’س‘‘کی آواز اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔ پس وسوسہ کے مضمون کے بیان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ’’س‘‘ کو متعدد مرتبہ استعمال فرمایا۔ اس کے ساتھ ایک فضا پیدا ہوگئی جو whisper کو ظاہر کرتی ہے۔

قرآن مجید میں موجود حروف کی سائنس کے اس مطالعہ کے بعد آیئے! اب زیرِ بحث موضوع؛ ’’طبیعت اور شریعت کے باہمی تعلق‘‘ کے ذیل میں اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ طبیعت میں نرمی اور سختی کا پتہ کیسے چلتا ہے؟

طبیعت میں نرمی اور سختی کو جاننے کا پیمانہ

طبیعت کی نرمی یا سختی نظر نہیں آتی، وہ تو اندر ہے، پھر پتہ کیسے چلتا ہے کہ فلاں کی طبیعت نرم ہے یا سخت؟

یاد رکھیں! طبیعت کی نرمی یا سختی چہرے سے نظر آتی ہے۔ گفتگو سے نظر آتی ہے، طرزِ عمل، behavior، conduct اور dealing سے نظر آتی ہے۔ جو چیزیں نظر نہیں آتیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں دیکھنے کے مظاہر بنائے ہیں۔ بات کرتے ہوئے الفاظ کا چناؤ ظاہر کرتا ہے کہ طبیعت میں نرمی ہے یا سختی۔۔۔ ؟ اگر لفظوں کے چناؤ میں ہی سختی ہے تو طبیعت سخت ہے اور اگر الفاظ کا انتخاب نرم ہے تو یہ طبیعت کی نرمی کی طرف اشارہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی طبیعت کے بیان کے لیے (

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ. (آل عمران: 159) نرم و لطیف حروف استعمال فرماکر اسی اصول کو بیان کیا ہے۔ پس ہم بولنے کے لیے جن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہماری طبیعت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح چہرے کے تاثرات اور ہماری آنکھیں بھی بولتی ہیں اور ہماری طبیعت کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں اکثر پیر صاحبان ہر وقت غصے میں رہتے ہیں یا ان کے بیٹے غصے میں رہتے ہیں اور مریدوں کو جھڑکتے ہیں۔ وجہ پوچھی جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’’پیر صاحب بڑے جلالی طبیعت کے ہیں۔ ‘‘ یہی عمل کوئی دوسرا کرے تو یہ ’’غصہ‘‘ ہے۔ پیر صاحب چونکہ عقیدت کی جگہ ہیں، اس لیے ان کے ’’غصہ‘‘ کو بھی ’’جلال‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ یہ جلال نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پیر صاحب یا ان کے صاحبزادگان کی طبیعت کی تربیت نہیں ہوئی۔ اگر تربیت ہوجائے تو ’’جلال‘‘ نہیں رہتا بلکہ ’’جمال‘‘ آجاتا ہے۔ تربیت جلال کو جمال میں بدلنے کے لیے ہوتی ہے۔۔۔ غصہ کو معافی میں بدلنے کے لیے ہوتی ہے۔۔۔ تنگی کو وسعت میں بدلنے کے لیے ہوتی ہے۔۔۔ اور نفرت کو پیار میں بدلنے کے لیے ہوتی ہے۔

آقا ﷺ کی طبیعت مقدسہ کو قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے:

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ.

(التوبۃ، 9: 128)

”بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ “

یعنی ہماری تکلیف اور دکھ رسول اکرم ﷺ کے لیے نہایت کرب کا باعث ہے۔ اگر ہم کسی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ اذیت حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے شدید غم اور فکر کا باعث بن جاتی ہے لیکن اگر معاملہ آپ ﷺ کی اپنی ذات کا ہوتا تو آپ ﷺ کبھی پریشان نہ ہوتے۔ اپنی ذات کے دکھ اور مصیبت پر آپ ﷺ نے کبھی بے چینی یا اضطراب ظاہر نہ کیا لیکن اگر آپ ﷺ کا کوئی امتی دکھ میں ہوتا تو آپ ﷺ غمگین اور دل گرفتہ ہوجاتے۔ آپ ﷺ ہماری بھلائی اور فلاح کے لیے بے حد فکرمند اور حریص ہیں۔ آپ ﷺ اپنی ذات کی فکر نہیں کرتے بلکہ ہماری بھلائی کے لیے گہری فکر رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ کی یہ شان صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ آپ ﷺ کی رحمت تمام انسانیت کے لیے عام ہے، جبکہ مومنوں پر آپ ﷺ کی شفقت اور رحمت سب سے زیادہ نمایاں اور خاص ہے۔

طبیعتِ محمدی ﷺ کے فیض کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

مذکورہ آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ اگر طبیعتِ محمدی کا فیض لینا ہے تو اپنا نہ سوچیں، اپنے احساسات کا نہ سوچیں بلکہ دوسروں کا سوچیں۔ ہم ہمیشہ اپنے احساسات کو دیکھتے ہیں کہ ’’ہمارا کیا بنے گا‘‘۔ ہم پوری زندگی اسی سوچ میں رہتے ہیں جبکہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی طبیعت یہ ہے کہ آپ ﷺ دیکھتے کہ دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔ آپ ﷺ ہمیشہ دوسروں کی پریشانی اور مشکل کے ازالہ کے لیے فکر مند رہتے۔ تمام لوگوں کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کا فکر مندی پر مبنی یہ رویہ دوسروں کو عطا کرنے والا ایک عمل ہے۔ اگر ہماری طبیعت میں دوسروں کے لیے احساس پیدا ہوجائے، دوسروں کے لیے دردمندی پیدا ہوجائے اور ہم یہ دیکھنے لگیں کہ ہماری کسی بات سے دوسروں کے دل پر کیا گزری ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے طبیعتِ محمدی سے فیض پایا ہے۔

تصوف، معرفت اور اہلِ حق کے ہاں ایک مقام ’’فتوۃ‘‘ (generosity) ہے، جس کا معنی موافقت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جس کے ساتھ دوستی ہو، جس کے ساتھ رشتہ ہو، چاہے میاں بیوی ہوں، دوست ہوں، یا بہن بھائی، اُن کی طبیعت ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ ہماری کسی بات سے ان کی طبیعت پر ناگواری نہ ہو۔ اسی عمل اور رویہ کا حکم آپ ﷺ نے ہمیں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه.

(صحيح البخاري، كِتَاب الْإِيمَانِ، بَابُ مِنَ الإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ، ج: 1، ص: 14، رقم الحدیث: 13)

”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے، جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ “

یعنی اگر کوئی شخص اپنے لیے آرام چاہتا ہے تو دوسرے کو آرام دے۔۔۔ اپنے لیے عزت چاہتا ہے تو دوسرے کو عزت دے۔ اپنے عہدہ و منصب کو ذہن میں رکھ کر صرف اپنے لیے ہی عزت کو ہر وقت طلب نہ کرتا پھرے کہ عزت حاصل کرنا صرف میرا حق ہے بلکہ یہ سوچ دوسرے کے لیے بھی پیدا کرے کہ جو کچھ میں اپنے لیے چاہ رہا ہوں، وہ دوسروں کو بھی دوں۔ آقا ﷺ نے اسی ’’میں‘‘ کو ختم کروایا اور نرمی کی فضا پیدا کرنے کا حکم دیا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔

پس طبیعتِ محمدی ﷺ کا فیض حاصل کرنے کے لیے ہمیں دوسروں کے بارے میں سوچنا ہوگا اور اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینا ہوگا۔ اسی سے ہم دوسروں سے بھلائی اور محبت کرنے والے ہوں گے۔ جتنا کوئی شخص دوسروں کی بھلائی کا سوچنے والا ہوگا اور اُن سے محبت کرنےوالاہوگا، اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں معزز و محبوب ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ’’میں‘‘ سے باہر نکلیں۔ جب ہم اپنی ’’میں‘‘سے نکل جائیں گے تو ہماری طبیعت میں وسعت آجائے گی، بصورتِ دیگر ہم گھٹن میں رہیں گے اورگھٹن والا شخص کبھی دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کر سکتا۔ وہ ہمیشہ خود بھی مشکلات میں رہتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ جب ہم اپنی طبیعت کو اس طرح بدل لیتے ہیں، تب شریعت کے احکام پر عمل کرنا تاثیر پیدا کرتا ہے۔

ہمیشہ دوسروں کی چاہت اور مزاج کا خیال رہے

فتوۃ میں ایک تصور موافقت ہے کہ دوسروں کی طبیعت، مزاج اور چاہت مدِنظر رہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔ ؟ جب ان کی چاہت اور مزاج کا پتہ چل جائے تو بندہ ہمیشہ ان کا خیال کرے، ان کا دل کو غمزدہ نہ کرے اور ان کے انتخاب کے مطابق ان سے معاملات طے کرے۔ لیکن یہ موافقت، ساتھ چلنا اور خواہش کا احترام کرنا، شریعت کے مقابل نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو ایسی موافقت درکار نہیں ہے۔ کوئی آدمی ظلم کرتا ہے، شراب، جوا، زنا وغیرہ جیسے گناہوں میں مصروف ہے تو اس کا ساتھ نہ دیں۔ ان امور میں موافقت نہیں۔ اللہ کی نافرمانی میں فتوۃ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ قابلِ موافقت ہے۔ دوسروں کی خواہش پر اپنی خواہش کو قربان کردینا یہ فتوۃ اور موافقت ہے۔

اہلِ فتوۃ کا درجہ بلند ہوتا ہے۔ چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

1۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک صحابی نے کھانے کی دعوت دی۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ اس صحابی کے گھر تشریف لے گئے۔ میزبان نے خلوص و محبت سے تیار کیا گیا کھانا دستر خوان پر سجا دیا۔ آقا ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ کھانا تناول فرمانے لگے لیکن ایک صحابی نے کھانا کھانا شروع نہ کیا۔ آپ ﷺ نے وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ میں (نفلی) روزے سے ہوں۔ آقا ﷺ نے ان کا جواب سن کر فرمایا:

دَعَاكُمْ أَخُوكُمْ وَتَكَلَّفَ لَكُمْ ثُمَّ تَقُولُ: إِنِّي صَائِمٌ ؟ أَفْطِرُ، ثُمَّ صُمْ يَوْمًا مَكَانَهُ إِنْ شِئْتَ.

(الطبرانی، المعجم الاوسط، ج: 3، ص: 306، الرقم: 3240)

یہ کیسا روزہ ہے؟ایک آدمی نے سارا دن محنت کرکے آپ کے لیے کھانا تیار کیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں روزے سے ہوں۔ روزہ کو افطار کرو، کھانا کھاؤ اور بعد میں اس کی قضا کرو۔ یعنی یہ نفلی روزہ ہے اور دوسرے مسلمان کی خوشی کے لیے روزہ توڑ دینا عظمت ہے۔ یہی عظمت اصل میں فتوۃ ہ اور، یہی اصل معرفت ہے۔

2۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:

أَلَا أُخْبِرُكم بمَن يَحْرُمُ على النَّارِ، وبمَن تَحْرُمُ عليه النَّارُ؟ على كلِّ قريبٍ هيِّنٍ سهْلٍ.

(سنن ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللہ ﷺ ، رقم الحدیث: 2488)

’’کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کون ہے جو آگ پر حرام ہے اور کس پر آگ حرام ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! ارشاد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر وہ شخص جو دوسروں کے قریب ہو، نرم خو ہو، آسان مزاج اور سہل ہو۔ ‘‘

یعنی ان لوگوں پر دوزخ کی آگ حرام کردی گئی ہے جو اپنی طبیعت میں دوسروں کے لیے اتنے آسان اور نرم ہیں کہ لوگ ان کے قریب ہونے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ جو دوسروں کے ساتھ ہمیشہ نرمی برتتے ہیں اور رحمدلی سے پیش آتے ہیں۔

3۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

يا بنيّ، أتدرون ما المروة؟ قالوا: لا. قال: المروة أن لا تعمل في السرّ شيئاً تستحي منه في العلانية، وأن تحسنَ صحبتَك، وتُلينَ كلامَك، وتُطْلِقَ وجهَك.

(البیهقی، شُعب الإيمان، رقم الحدیث: 8059، ج 10، ص 284)

’’بیٹو! کیا تم جانتے ہو کہ مروّت (نیکی و بھلائی) کیا ہے؟انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مروّت یہ ہے کہ تم خفیہ طور پر ایسا کوئی کام نہ کرو جس پر علانیہ شرمندہ ہونا پڑے۔ اور مروت یہ ہے کہ اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اپنی گفتگو نرم رکھو اور دوسروں کے لیے اپنا چہرہ کھلا (یعنی مسکراتا) رکھو۔ ‘‘

جسے یہ خوبیاں مل گئیں اسے نیکی عطا ہوگئی۔

احکامِ شریعت کا نفع اخلاقِ حسنہ سے ممکن ہے

اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے اعلیٰ چیز طبیعت کا خلق ہے۔ اگر یہ نہیں تو ہماری عبادات بھی ناکام ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا ﷺ نے فرمایا:

أَوَّلُ مَا تَفْقِدُونَ مِنْ دِينِكُمَ الأَمَانَةَ، وَآخِرُ مَا تَفْقِدُونَ مِنْهُ الصَّلاَةَ.

(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الإیمان و النذور، باب فی الأمانة، رقم: 12385)

”تمہارے دین میں سب سے پہلے جو چیز ضائع ہوگی، وہ امانت ہے اور سب سے آخر میں جو چیز ضائع ہوگی، وہ نماز ہے۔ “

معلوم ہوا کہ نماز روزہ رکھ کر بھی وہ شخص اپنا دین ضائع کر بیٹھا جس میں امانت موجود نہیں۔

طبیعت میں اخلاق ہو تو شریعت بھی نفع دے گی اور اسی صورت شریعت پر عمل درآمد انسان کو بلند رتبہ پر پہنچائے گا۔ آقا ﷺ نے فرمایا:

الخُلُقُ الحسَنُ يُذِيبُ الخطايا كما يُذِيبُ الماءُ الجليدَ، والخُلُقُ السُّوءُ يُفسِدُ العمَلَ كما يُفسِدُ الخَلُّ العسَلَ.

(طبرانی، المعجم الکبیر، ج: 10، ص: 319، رقم الحدیث: 10777)

”اچھے اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتے ہیں، جیسے پانی برف کو پگھلا دیتا ہے اور برے اخلاق اعمال کو اس طرح بگاڑ دیتے ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ “

پس اگر ہماری طبیعت میں اچھے اخلاق پیدا ہوگئے، چہرہ مسکراتا ہوا ہوگیا، ہر وقت عفو درگزر کرنے والے ہوگئے اور طبیعت میں فتوۃ پیدا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں اور گناہوں کو اس طرح ختم کردے گا جس طرح پانی برف کو ختم کردیتا ہے۔ یہ طبیعت کا فیض ہے۔ اس کے برعکس اگر اخلاق برے ہیں، طبیعت سخت ہے، لوگوں سے غیض و غضب کا معاملہ کرتے ہیں، جلال سے بات کرتے ہیں، لوگوں سے بھلائی نہیں کرتے، دل تنگ رکھتے ہیں، دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں، کنجوسی ہے اور ظاہر و باطن میں برائی ہے تو یہ برے اخلاق ہمارے نیک اعمال کو اس طرح برباد کردیں گےجیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاثٌ: إذا حَدَّثَ كَذَبَ، وإذا وَعَدَ أَخْلَفَ، وإذا اؤْتُمِنَ خَانَ.

(بخاری، کتاب الإيمان، باب علامات المنافق)

”منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ “

اس حدیث مبارک سے واضح ہوگیا کہ خواہ کوئی شخص روزہ رکھے، نماز پڑھتا رہے، حج کرتا رہے، عمرے کرتا رہے، لیکن وہ جھوٹ بولتا ہے، وعدہ خلافی کرتا اور امانت میں خیانت کرتا ہے تو وہ منافق ہے۔ اگرچہ ساری شریعت پر عمل کرلیا مگر طبیعت نہ بدلے تو اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اگر عبادت کا عمل بھی کرتے رہیں مگر طبیعت میں بخل، جھوٹ، خیانت، تنگی، تعصب، حسد، کبر، سختی اور بگاڑ ہے تو کچھ بھی نہیں۔

اگر طبیعت بدل گئی، طبیعتِ محمدی کا حسن مل گیا تو بدن مسجد بن جائے گا۔۔۔ پہلے وہ بت خانہ تھا، اب حسنِ اخلاق کے سبب وہ عبادت خانہ بن گیا۔۔۔ پہلے انسان شیطان تھا، اب بندۂ رحمن بن گیا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کے سینے کو کھول دیتا ہے۔۔۔ اس پر انوار وتجلیات اترتی ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے عرش کا فیض نازل ہوتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب سے نوازتا اور طہارت اور پاکیزگی عطا کرتا ہے۔

پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی طبائع بدلیں، انھیں خوبصورت بنائیں اور ان میں عمدگی لائیں تاکہ شریعت کا فیض ملے اور شریعت کے انوار و فوائد نصیب ہوں۔ یہی حقیقت ِ رفاقت ہے، اسے زندگی میں اپنائیں۔ ہمیشہ دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھیں اور دوسرے کی طبیعت کو اپنی طبیعت پر ترجیح دیں، اسی سے اپنی طبیعت میں خیر آئے گی۔ اللہ رب العزت ہمارے حال پر کرم فرمائے اورہمیں ایسی طبائع اور مزاج عطا کرے جن میں مزاجِ محمدی ﷺ کا عکس نظر آئے تاکہ ہمیں حقیقی معنی میں احکامِ شریعت کا فیض اور نور نصیب ہو سکے۔