آپ کے فقہی مسائل: دارالافتاء تحریک منہاج القرآن
زیر نگرانی: مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
سوال: کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا درست طریقہ کیا ہے؟
جواب: بعض لوگوں کو کمر، گھٹنوں یا ٹخنوں وغیرہ میں تکلیف ہوتی ہے اور آج کل بوجوہ یہ صورت عام ہے، چنانچہ وہ کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں، بعض مریض نہ کھڑے ہو سکتے ہیں، نہ رکوع و سجود صحیح طریقہ سے ادا کر سکتے ہیں، وجہ بڑھاپا ہو یا کمزوری یا جوڑوں یا کمر وغیرہ کا درد، بہر صورت معذوری کی وجہ سے جو کر سکتے ہیں کریں۔ عبادات کے وہ حصے جو ادا نہیں ہو سکتے، ان میں شرعاً رعایت ہے۔ دین اسلام میں نہ تنگی ہے نہ تکلیف، اس کی بنیاد یُسر (آسانی) پر رکھی گئی ہے، یہ سہولتیں اور رعایتیں شارع کی طرف سے ہیں۔ ان سے معذوروں کو کوئی بھی محروم نہیں کر سکتا۔ ہمارے پاس اس بارے میں کثرت سے سوالات آتے ہیں۔ اس لیے مسئلہ کی وضاحت کے لئے کچھ عرض کیا جاتا ہے۔ مسئلہ کی دو صورتیں ہیں: ایک جائز، دوسری ناجائز۔
جائز صورت یہ ہے کہ معذور شخص کے سامنے پتھر، روڑا، لوہا، لکڑی وغیرہ سخت چیز ہو اور وہ اس پر سجدہ کرے، یہ بالکل جائز ہے۔ ناجائز صورت یہ ہے کہ پتھر، اینٹ تختہ اٹھا کر پیشانی کے قریب کرے اور اس پر سجدہ کرے۔ خواہ نمازی خود اٹھائے یا کوئی دوسرا۔ یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔
ان النبی ﷺ دخل علی مريض يعوده فوجده يصلی کذلک فقال ان قدرت ان التسجد علی الارض فاسجد و الا فاوم براسک.
نبی کریم ﷺ ایک بیمار کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، دیکھا کہ وہ اسی طرح نماز ادا کرتا ہے۔ فرمایا: اگر زمین پر سجدہ کر سکتے ہو تو سجدہ کرو۔ ورنہ اپنے سر سے اشارہ کرو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ دیکھا کہ وہ نماز ادا کر رہے ہیں:
و يرفع اليه عود فيسجد عليه فنزع ذلک من يدمن کان فی يده وقال هذا شئی عرض لکم الشيطان اوم لسجودک.
لکڑی اٹھائی جاتی ہے اور وہ اس پر سجدہ کرتے ہیں۔ آپ نے اس شخص کے ہاتھ سے لکڑی چھین لی اور فرمایا، یہ چیز شیطان نے تمہیں پیش کی ہے۔ سجدہ کے لیے اشارہ کرو۔
فان فعل ذلک ينظر ان کان يخفض راسه للرکوع شيئاً ثم للسجود ثم يلزق بجبينه يجوز، لوجود الايماء لا للسجود علی ذلک الشئی.
پھر اگر ایسا کر لیا تو دیکھا جائے گا، اگر مریض نے رکوع کے لئے اپنا سر کسی قدر جھکا لیا پھر سجدہ کے لیے جھکایا تو یہ جھکاؤ سجدہ کے لیے پورا ہو گیا۔ پھر اس لکڑی وغیرہ سے پیشانی چمٹا لیتا ہے، تو یہ جائز ہے کہ اشارہ پایا گیا، نہ کہ اس وجہ سے کہ اس چیز پر سجدہ ہوگیا۔
اگر تکیہ زمین پر رکھا ہے اور آدمی اس پر سجدہ کرتا ہے تو اس کی نماز درست ہے، اس حدیث پاک کی وجہ سے کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آتا ہے،
کانت لتسجد علی مرفقة موضوعة بين يديها لرمد بها ولم عينعها رسول الله ﷺ
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ میں تکلیف تھی، اپنے آگے رکھے ہوئے لکڑی کے تخت پر سجدہ کرتی تھیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا۔
یونہی تندرست آدمی شہر سے باہر سواری پر ہو اور کسی عذر کی بنا پر نیچے نہ اتر سکے، مثلاً دشمن کا خوف، یا درندے کا ڈر، یا کیچڑ گارے کی وجہ سے تو سواری پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرے، نہ رکوع کرے، نہ سجود۔ اس لیے کہ معذوری کی ان صورتوں میں نہ رکوع کر سکتا ہے نہ قیام نہ سجود۔ یہ تمام صورتیں ایسی ہیں جیسے بیماری کی معذوری۔
حدیث جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر اشارہ سے نماز ادا فرماتے تھے، اور رکوع کی نسبت سجدہ کے لیے زیادہ جھکتے تھے۔
(علامه الکاسانی، بدائع الصنائع، 1: 108)
ó علامہ ابن العابدین الشامی لکھتے ہیں :
ان کان ذلک الموضوع يصح السجود عليه کان سجودا و الافايماء.
اگر معذور نمازی کے آگے رکھی ہوئی چیز پر سجدہ درست ہے تو یہ سجدہ ہوگا۔ ورنہ اشارہ ہو جائے گا۔
(شامی، 2: 98)، (علامه ابن نجيم حنفی مصری، البحر الرائق، 2: 113)
ó عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں :
يکره لمن فرضه الايماء ان يرفع شيئاً يسجد عليه، فلوفعل و سجد عليه يعتبر موميا فی هذه الحالة.
جس پر اشارہ سے نماز ادا کرنا فرض ہے (یعنی معذور) اس کے لیے کسی چیز کو اٹھا کر اس پر سجدہ کرنا مکروہ ہے، اگر ایسا کیا اور اس پر سجدہ کر لیا تو اس حال میں اشارہ کا اعتبار ہوگا۔
(علامه عبدالرحمن الجزيری، الفقه علی المذاهب الاربعة، 1: 500)
ó اذا لم يستطع فله ان يصلی بالکيفية التی تمکنه.
جب معمول کے مطابق نماز ادا کرنے کی طاقت نہ ہو، تو جس حال میں ممکن ہو ادا کر سکتا ہے۔
(الفقه علی المذاهب الاربعة، 1: 498)
بعض سپیشل کرسیوں پر بیٹھنے کے ساتھ سجدہ کرنے کی تختی بھی لگی ہوتی ہے جس پر معذور سجدہ کے لیے پیشانی رکھتے ہیں، اگر اللہ کریم کی بارگاہ میں یہ سجدہ وضع الجبهة علی الارض کے حکم میں قبول ہوگیا۔ یعنی سجدہ نام ہے، زمین پر پیشانی رکھنے کا، تو تبھی نماز درست ہوگی۔ نہیں تو اشارہ تو پایا گیا، پھر بھی نماز درست ہوگئ۔ اسے ناجائز کہنا کسی صورت درست نہیں۔ نہ لڑائی جھگڑا اور سختی کرنے کی شرعاً گنجائش۔
صف کی ترتیب بھی شرعی عذر کی وجہ سے برقرار نہیں رہ پاتی۔ جس طرح شرعی عذر کی وجہ سے معذور پر فرائض یعنی قیام، رکوع اور سجدہ ساقط ہو جاتے ہیں، عین اسی طرح ترتیب بھی ساقط ہو جاتی ہے۔ کیونکہ معذور کی ترتیب درست رکھنے کی کوشش کی جائے تو پچھلی صفیں خراب ہوتیں ہیں۔ اس لیے معذور اپنی ترتیب قائم نہ بھی رکھ پائے اس پر معاف ہے۔ مقصد ہے کہ جو شخص جس فرض کی ادائیگی کر سکتا ہے وہ اسے بلا عذر نہ چھوڑے۔ خواہ صف کی ترتیب خراب بھی ہو جائے کوئی حرج نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا.
(البقرة، 2: 286)
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا
ایک اور مقام پر فرمایا :
مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ.
(الحج، 22: 78)
اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
بشروا ولا تنفروا، ويسروا ولا تعسروا، سکنوا. متفق عليه.
لوگوں کو خوشخبری سنایا کرو (ڈرا ڈرا کر اسلام سے) متنفر نہ کرو۔ اور آسانیاں پیدا کیا کرو، سختی پیدا نہ کرو۔ سکون دیا کرو۔
سوال: قضا نمازوں کی ادائیگی کیسے ممکن ہے؟
جواب: اگر کسی شخص نے بلوغت کے کافی عرصہ گزر جانے کے بعد نماز پڑھنا شروع کی ہو یا کبھی پڑھتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتا ہو تو اس پر لازم ہے کہ زندگی سے متعلقہ ضروری کاموں کے علاوہ سب کام چھوڑ کر نمازوں کی قضا شروع کر دے۔ وہ اس وقت تک قضاء نمازیں ادا کرتا رہے جب تک اس کے غالب گمان کے مطابق تمام قضا نمازیں ادا نہ ہو جائیں۔ اگر اس دوران اس کو موت آ گئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی بخشش ہو جائے گی۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللّهِ وَكَانَ اللّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.
(النساء، 4: 100)
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول( ﷺ ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہوگیا، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘
اور اگر کوئی شخص ایسا نہ کرسکے تو اس سے کم درجہ یہ ہے کہ ہر نماز کے ساتھ ایک یا جس قدر ممکن ہو، قضا نماز پڑھتا رہے، قضا نمازوں کے صرف فرائض اور وتر ادا کرے۔
مثلاً پورے دن کی قضا نمازیں ادا کرنی ہوں تو پھر کل بیس رکعات اس طرح ادا کرے دو فرض فجر، چار فرض ظہر، چار فرض عصر، تین فرض مغرب، چار فرض عشاء بمع تین وتر۔ اس طرح نیت کرے : ’’میں اپنی گذشتہ فجر (جو نماز ادا کررہا ہے، اس کا نام لے) کو ادا کرنے کی نیت کرتا ہوں جس کا میں نے وقت پایا اور ادا نہیں کی۔ ‘‘ ہر قضاء نماز کی اسی طرح نیت کرے یعنی دل میں ارادہ کرے، زبان سے کہنا بہتر ہے، ضروری نہیں۔
صاحب ترتیب کے لیے ضروری ہے کہ اگر اس کی کوئی نماز رہ جائے تو وہ پہلے اُس نماز کی قضاء پڑھے گا، پھر اگلی نماز ادا کرے گا۔ ایسا شخص جس کی بالغ ہونے کے بعد زندگی میں کبھی بھی اکٹھی چھ یا چھ سے زائد نمازیں قضاء نہ ہوئی ہوں، صاحب ترتیب کہلاتا ہے۔ جب بھی اکٹھی چھ یا چھ سے زائد قضاء ہو جائیں پھر وہ صاحب ترتیب نہیں رہے گا۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:
جس شخص کی نماز فوت ہو گئی تو اس کو جب یاد آئے قضا کرے اور اسے فرض وقتی پر مقدم کرے۔ اور ہمارے (یعنی احناف کے) نزدیک اصل میں قضاؤں اور فرض وقتی کے درمیان ترتیب رکھنا ضروری ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ترتیب مستحب ہے۔ ان (امام شافعی) کی دلیل یہ ہے کہ ہر فرض بذات خود اصل ہے، وہ دوسرے کے لئے شرط نہ ہوگا۔ ہماری (احناف کی) دلیل آقا علیہ السلام کا یہ فرمان ہے کہ جو شخص نماز کے وقت سو گیا یا بھول گیا اور اُس کو یاد اُس وقت آیا جب وہ امام کے ساتھ دوسری نماز پڑھ رہا ہو، تو یہ پڑھ لے جس میں موجود ہے، پھر وہ پڑھے جو اسے یاد آئی ہے پھر اس کو دوبارہ پڑھے جو امام کے ساتھ پڑھی ہے۔
اگر وقت نکل جانے کا خوف ہو تو وقتی نماز کو پہلے پڑھے، پھر فوت ہونے والی کو قضاء کرے۔ کیونکہ وقت کی تنگی، بھول جانے اور فوت شدہ (نمازوں) کی کثرت سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے، تاکہ اس کی وجہ سے وقتی نماز فوت نہ ہو جائے۔ اگر اس شخص نے تنگی وقت کے باوجود فوت شدہ کو پہلے پڑھ لیا تو جائز ہے کیونکہ فوت شدہ کو ایسی حالتِ تنگی میں پہلے پڑھنے کی جو ممانعت ہے اس کی وجہ اور ہے۔ بر خلاف اس کے جب کہ وقت میں وسعت ہو اور اس نے وقتی نماز کو مقدم کر دیا تو یہ جائز نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس نے وقتی (نماز) کو اس کے وقت سے پہلے ادا کیا جو حدیث سے ثابت ہے۔
اگر کسی کی کئی نمازیں فوت ہو گئی ہوں تو قضاء کرتے وقت ان کو ترتیب وار قضاء کرے، جیسے اصل میں واجب ہوئیں۔ کیونکہ آقا علیہ السلام جنگ خندق کے دن چار نمازوں میں مصروف رہے تو آپ علیہ السلام نے اُن کو ترتیب وار قضاء کیا۔ پھر فرمایا:
جیسے تم مجھے پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔
ہاں اگر فوت شدہ نمازیں چھ سے زائد ہو جائیں تو پھر ترتیب ساقط ہو جائے گی۔ جیسے فوت شدہ اور وقتی نماز کی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ حد کثرت یہ ہے کہ چھ نمازیں قضاء ہو جائیں یعنی چھٹی نماز کا وقت نکل جائے اور یہی جامع صغیر میں ہے۔ اگر اس سے دن رات کی نمازوں سے زیادہ فوت ہو گئیں تو جائز ہو جائے گی وہ نماز جس سے ابتداء کی تھی کیونکہ جب ایک دن رات پر زیادہ ہوئیں تو چھ ہو جائیں گی۔ اور امام محمد رحمہ اللہ سے یہ بھی روایت ہے کہ چھٹی کا وقت شروع ہوتے ہی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ قولِ اوّل ہی صحیح ہے۔ کیونکہ کثرت تو حد تکرار میں داخل ہونے سے ہوتی ہے اور یہ پہلے قول پر ہوگا۔
(ابو حسن علي بن ابي بکر المرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 1: 72، 73)
لہٰذا صاحب ترتیب کے لیے قضاء نماز کو پہلے پڑھنا ضروری ہے کہ وہ پہلے قضاء کرے اور پھر وقتی نماز پڑھے یعنی نمازوں کی ترتیب قائم رکھے اور جس کی اکٹھی چھ نمازوں سے زیادہ قضاء ہوجائیں تو اس کے لئے یہ پابندی نہیں۔