اسلام کے تشخص کا تحفظ اور شیخ الاسلام

شیخ عبدالعزیز دباغ

مصدر العلوم قرآن مجيدکے نزول کی برکت سے مسلمانوں پر علم و حكمت کے وه دروازے کھلے كہ امت مسلمہ چہار دانگ عالم میں رشد و ھدایت کا منبع ٹھہری اور ازمنۂ ظلمات میں غلطاں اقوام مغرب اسرار حیات کے شعور کے حصول کے لئے مسلمانوں کی طرف راغب ہوئیں۔ مغرب کے پاس 600 سال تک پڑھانے کیلئے اپنی کوئی کتاب نہیں تھی، وہ مسلمان سائنسدانوں اور محققین کی کتب کے تراجم کر کے اپنے تعلیمی اداروں میں تعلیم دیتے تھے۔ عالم انسانیت کو علم و تحقیق اور لائبریریاں قائم کرنے کی سوچ مسلمانوں نے دی۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو قرآن نے علم و تحقیق اور فہم و تدبر سے جوڑا اور وه بہترين امت قرار پائے۔

رواں صدی كے دور انحطاط میں خدمت قرآن کی عظیم سعادت اللہ تعالیٰ نے قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بخشی کہ وہ اس شعور کو بیدار کریں کہ اگر مسلمان اپنی عہد رفتہ کی شان حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ علم اور تحقیق سے اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کریں۔ شیخ الاسلام نے قرآنی تعلیمات کے فروغ کے لئے یوں تو اپنی ساری زندگی وقف کر دی مگر اس کے لئے ٹھوس اور تاریخی اقدام بھی کئے جن کی مثال نہیں ملتی۔5 ہزار سے زائد موضوعات اور 8 والیم پرمشتمل قرآنی انسائیکلوپیڈیا قرآن فہمی اور علوم القرآن کے فروغ کے حوالے سے ایک منفرد اور بے مثال خدمت ہے۔ اس قرانک انسائیکلوپیڈیا کی انفرادیت یہ ہے کہ قرآن مجید میں زیر بحث آنے والے تمام احکامات ربانی کی ایک فہرست مرتب کر دی گئی ہے، جس کی مدد سے عام پڑھا لکھا مسلمان متعلقہ موضوع تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

تعلیمات قرآن کے فروغ کے سلسلے میں آپ نے قرآن حکیم کا تفسیری اردو ترجمہ کیا اور پھر Glorious Quran کے نام سےاس کے انگریزی ترجمے کا بھی اہتمام کیا جسے اب دو دہائیاں گذر چکی ہیں۔ شیخ الاسلام نے اب اردو کی طرح قراں حکیم کا نئی نسل کی لسانی ضروریات کے پیش نظر عربی سے براہ راست انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ The Manifest Quran کے نام سے یہ عظیم ترجمہ اشاعت کے مراحل میں ہے۔

دین اسلام کے تشخص کو اجاگر کرنے اور فروغ و ابلاغ کے لئے شیخ الاسلام نے آٹھ جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا آف حدیث سٹڈیز ”الموسوعتہ القادریہ“ تالیف کر کے بھی امت کو علوم الحدیث کا انمول تحفہ عطا کیا ہے۔ اس نادر مجموعۂ علوم الحدیث کی گذشتہ چار صدیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ علوم الحدیث کی اہم ترین مدلل ومحقق ابحاث پرمشتمل یہ موسوعہ گذشتہ سات آٹھ سو سال کے ائمہ محدثین کی تصانیف کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ جسے نئے اِستشہادات اور نئے شواہد کے اضافہ جات سے مزین کرکے پیش کیا گیا ہے۔

شیخ الاِسلام نہ صرف قدیم علوم اسلامیہ پردسترس رکھتے ہیں بلکہ انہیں جدید علوم عصریہ پر بھی مہارت تامہ حاصل ہے۔ قدیم و جدید کے اس حسین امتزاج کے باعث آپ مشرق و مغرب کے مابین علمی و فکری بُعد اور فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔آپ اپنے علمی و فکری اور تجدیدی و اجتہادی کام کی ثقاہت و ثروت کی بدولت عالم عرب و عجم میں اسلامی فکر و فلسفہ کے حوالے سے مستند اور معتبر جانے جاتے ہیں۔ عصر حاضر میں ان کا وجودِ مسعود نعمتِ غیر مترقبہ اور عطیۂ الٰہی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ہمہ جہتی شخصیت ہیں اور اُن کی خدماتِ جلیلہ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ ان کی علمی و فکری جہات پر اگر الگ الگ بحث کی جائے تو کئی مجلدات درکار ہیں۔ شیخ الاسلام کی خدمات کو اُن کی 74 ویں سالگرہ کے موقع پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے میں اس مضمون میں اُن کی شخصیت اور خدمات کے درج ذیل پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا:

1۔ نسبتِ رسالت ﷺ کا فروغ

2۔ معاشرتی وحدت کا قیام

3۔ فروغِ علم

4۔ فلاحِ عام

1۔ نسبتِ رسالت کے فروغ میں شیخ الاسلام کا کردار

نسبت رسول ﷺ کے فروغ و استحکام کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشیں راہِ محبت و ادبِ مصطفی ﷺ میں ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے عشق رسول ﷺ کے فروغ کو اپنا مقصد حیات بنا کر نعرۂ حریت بلند کیا کہ آؤ درِ مصطفےٰ ﷺ کی طرف کہ اس غلامی سے جو آزادیاں جنم لیتی ہیں، دنیا والے ان کی لذت کیا جانیں۔ ’’بہ مصطفےٰ ﷺ برساں خویش را‘‘ کا نعرۂ مستانہ تحریک منہاج القرآن کے قیام کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے آیا کیونکہ ’’بہ مصطفےٰ ﷺ برساں خویش را‘‘ ہی قرآن کا منہاج ہے۔ یہ منہاج علاقائی یا مسلکی نہیں بلکہ ہمہ گیر اور آفاقی ہے۔ اس کا اطلاق صرف اہل پاکستان پر یا صرف بر صغیر کے مسلمانوں پر یا صرف اہل عرب پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر ہوتا ہے۔ اس کے معانی محدود نہیں بلکہ لامحدود ہیں۔

شیخ الاسلام دیدہ ور ہی نہیں، حکیم الامت بھی ہیں۔ مرض کی تشخیص کے بعد علاج پر کمر بستہ ہو گئے۔یہ ایک کثیر الجہتی عمل تھا۔عالمی سطح پر اسلام کے صحیح تشخص کا تحفظ اور امن عالم کی بحالی؛ نسبتِ رسالت کے فروغ میں مضمر ہے اور اس عظیم جدوجہد کے لئے میدانِ عمل، سیرت رسول ﷺ کا ادراک اور اس کی پیروی ہے۔ امت کو یہ نسخۂ کیمیا عطا کرنا ہے کہ جب تک وہ در رسول ﷺ سے اپنی نسبتِ قلبی استوار نہیں کرتے وہ نہ تو اسلام کی حقیقت کو پا سکتے ہیں نہ ایمان کی اصل کو پہچان سکتے ہیں۔

شیخ الاسلام یہ تاریخی تجدیدی ذمہ داری نبھانے کے لئے شب و روز ایک کئے ہوئے ہیں۔ مختصر عرصے میں سیکڑوں کتب تصنیف کر ڈالی ہیں۔۔۔ ہزاروں خطابات کئے ہیں۔۔۔ اور دنیا کے نوے سے زائد ممالک میں اس منہاج کے پرچار، امن عالم کے حصول اور نسبت محمدی ﷺ کو فروغ دینے کے لئے منہاج القرآن انٹر نیشنل کے سنٹرز قائم کئے ہیں۔

شیخ الاسلام ایک آواز ہےں جو چہار دانگ عالم میں گونج رہی ہے کہ مسلمانو اٹھو اور درِ رسول کے ہو جاؤ کہ نجات کی خیرات یہیں سے عطا ہو گی۔۔۔ مذاہب عالم کے ماننے والو، سن لو! اسلام نام ہی امن کا ہے۔۔۔ سیرت رسول ﷺ اٹھا کر دیکھو تاکہ تم جان سکو کہ محمد عربی ﷺ کون ہیں۔۔۔ یہ تو آپ کے نجات دہندہ ہیں۔۔۔ آؤ، ڈائیلاگ کرو۔۔۔ سنو، دیکھو، اور جو نظر آئے اس پر ایمان لاؤ کہ اسی میں تمہاری بھی نجات ہے۔ جو رسول کا ہو جاتا ہے، اللہ اس کا ہو جاتا ہے، کائنات کی ساری قوتیں اس کی ہو جاتی ہیں۔ اسلام نام ہی حب رسول ﷺ کا ہے، نسبت رسول ﷺ کا ہے، ان ﷺ کی خاطر اپنی جان کا سودا کرنے اور ان ﷺ کے ہاتھ خود کو بیچ دینے کا نام اسلام ہے۔ جو یہ کام کر گیا اس کا بیڑا تر گیا۔

2۔ معاشرتی وحدت کے قیام کے لیے شیخ الاسلام کی کاوشیں

قومی اور بین الاقوامی معاشرت میں حسن معاملات اور بقائے باہمی کے فروغ کے حوالے سے معاشرتی وحدت (Integration) کی اصطلاح بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اسے عام اور سادہ الفاظ میں اگر یوں بیان کیا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ پرامن بقائے باہمی کے ثمر کے طور پر اس معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی، انسانی اور روحانی اقدار کا اس طرح رواج پاجانا کہ ہر فردِ معاشرہ ان اقدار کو عملی طور پر اپنے اندر سموئے ہوئے مجسمِ اقدار نظر آئے۔ تمام افراد رنگ، نسل، مذہب اور علاقہ کے لحاظ سے بے شک مختلف ہوں مگر اس طرح یکجا نظر آئیں کہ وہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ جس طرح ایک گلدستہ میں لگے ہوئے مختلف رنگ اور طرز کے پھول اپنی شناخت میں الگ مگر خوشبو پھیلانے کے عمل میں یکسانیت کے حامل ہیں۔

اسلامی تعلیمات ان حالات میں ہمیں Integration کا پیغام دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف Integration کی بنیاد رکھی بلکہ اس پالیسی پر عمل فرماکر دنیا کو ایک نمونہ بھی عطا فرمایا۔ مکہ میں جب مسلمانوں کا جان و مال غیر محفوظ ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی۔ یہ ایک مسیحی ملک تھا جہاں مسیحی بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔ مہاجر مسلمانوں نے ایک عرصہ وہاں قیام کیا۔ یہ Integration کی ایک قدیم اور عظیم مثال ہے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو وہاں Integration ہی کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنایا۔ وہاں یہودی قبائل بھی آباد تھے اور عیسائی بھی۔ چنانچہ آپ نے میثاق مدینہ کی شکل میں Multicultural سوسائٹی میں Integration کی بنیاد ڈال دی۔ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا اور مدینہ کے معاشرے کو تعصبات سے پاک فرمادیا۔ یہ اسلامی Integration کی ایک عظیم مثال ہے۔

آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا مبالغہ پر مبنی نہ ہوگا کہ سیرت مصطفی ﷺ سے ملنے والی Integration کی ان خوبصورت مثالوں کی روشنی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آج مختلف ممالک اور معاشروں میں موجود ان مسائل کو اسی وقت بھانپ لیا تھا جب آپ 80ء کی دہائی کے اوائل میں تحریک منہاج القرآن کے پیغامِ امن کے فروغ کے لئے ان ممالک کے دوروں پر نکلے اور وہاں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی تنظیم سازی کا عمل شروع کیا۔ آپ نے دیکھا کہ اسلام کے بارے میں ان معاشروں میں آگہی کا فقدان ہے لہذا آج اسلام کی Scientific Interpretation کی ضرورت ہے اور اصل بنیادی اسلامی عقائد کے فروغ کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف اسلام کے بارے میں پائے جانے والے اس تاثر کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے کہ اس کے نظریات شدت پسندی یا انتہا پسندی پر مبنی ہیں اور اس میں تحمل، بردباری اور رواداری کی گنجائش نہیں اور دوسری طرف ان معاشروں کا حصہ بن جانے والے مسلمان شہریوں اور ان کے بچوں کی تربیت کی جائے تاکہ وہ ایسا طرز عمل اپنائیں جو خالصتاً اسلامی اخلاقیات کا مظہر ہو۔ ان میں اعتدال پسندی، رواداری، تحمل اور بردباری کو فروغ دیا جائے تاکہ اسلام پر اٹھائے جانے والے انتہا پسندی کے لیبل کو اتارا جاسکے اور مغربی اقوام اسلام کے صحیح تشخص کا ادراک حاصل کرسکیں اور اس کاوش کے نتیجے میں جو نظریاتی اور معاشرتی تبدیلی آئے گی اس سے ایک صحت مند اور پرامن Multicultural سوسائٹی وجود میں آئے گی جس میں Integration کی روح موجود ہوگی اور جملہ امتیازات اور تعصبات کا تدارک ہوسکے گا۔

شیخ الاسلام بحیثیت سفیر امن منہاج القرآن انٹرنیشنل کے عظیم قائد کے طور پر عالمی سطح پر سرگرم عمل ہیں۔ آپ امن و سلامتی کے فروغ کی وہ آواز ہیں جو بیک وقت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ آپ نے اپنی ہمہ جہتی سرگرمیوں کے ذریعے اس امر کو ثابت کیا کہ اسلام مذہبی جنون، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وجود میں آیا۔ اسلام دہشت گرد ہے نہ مسلمان دہشت گرد۔ اسلام دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ اسلام دہشت گردی کی ضد ہے اور جو دہشت گرد ہے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اسلام، ایمان اور احسان نام ہی محبت و اخوت اور اعلیٰ اخلاقی و انسانی قدروں کا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اسلام نہیں بلکہ غیر اسلام ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پوری مغربی دنیا میں اسلام کے اس انتہائی واضح اور موثر پیغامِ امن کو دلائل کے ساتھ ہر پلیٹ فارم پر پیش کیا ہے تاکہ سب پر واضح ہوجائے کہ اسلام رواداری اور امن کا دین ہے اور یہ پر امن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے اور تکریم انسانیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کا درس دیتا ہے، ہر طرح کی انتہا پسندی کی نفی کرتا ہے اور ناحق خون خرابے اور فتنہ و فساد کی مذمت کرتا ہے۔اسلام فلاح انسانیت کے لئے multiculturalism اورintegration پر زور دیتا ہے کیونکہ یہی بقائے باہمی کے فروغ کا عملی طریقہ ہے۔

شیخ الاسلام نے یورپ میں مسلمان Youth کو Deradicalize کرنے اور Spiritualize کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ نوجوانوں کو Focus کرتے ہوئے یورپ میں الہدایہ کیمپ (al-Hidaya)،النصیحہ کیمپ اور دیگر علمی و فکری اور روحانی سرگرمیوں کا آغاز کررکھا ہے۔ جس میں یورپ بھر سے نوجوان نسل بالخصوص شرکت کرتی ہے۔

بقائے باہمی اور حقیقی تعلیمات اسلام کے فروغ کے لیے شیخ الاسلام کے خطابات، انٹرویوز اور Talks کا ایک سلسلہ ہے جو جاری ہے اور یہ دراصل ان کا عالمی دانشوروں، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، مورخین، سفارت کاروں اور حکمرانوں کے ساتھ وہ گہرا Contactہے جس کا مقصد صرف ایک ہے کہ آنے والے وقت کا رخ امن و سلامتی اور فلاح و تکریمِ انسانیت کی منزل کی طرف موڑ دیا جائے۔

مزید یہ کہ Integrationکے عمل کو تیز کرنے اور اس کے لئے collective mind setکو وجود بخشنے کے لئے mobile librariesکے ذریعے سے مقامی آبادی تک لٹریچر پہنچانے کا کام ہو رہا ہے۔۔۔ سیمینارز، ورکشاپس، ڈسکشن گروپس اور پبلک میٹنگز کا اہتمام ہو رہا ہے۔۔۔Interfaith Dialogue کا عمل جاری ہے جس سے بین المذاہب رواداری فروغ پا رہی ہے۔۔۔ youthپر توجہ مرکوز کر کے نئی نسل کے اندر صحت مند معاشرتی رویوں کی ترویج ہو رہی ہے تاکہ مسلمان اپنے عمل کے اعلیٰ تر ہونے کے ناطے تمام افرادِ معاشرہ کے لئے پسندیدہ سمجھا جانے لگے اور یہی تو integrationکا اصل رنگ ہے۔

پرامن معاشرہ کی تشکیل کا لائحہ عمل

اس اہم کام کو سر انجام دینے کے لئے منہاج القرآن کے کارکنوں کو اپنے اوپر جس محنت کی ضرورت ہے وہ محنت شیخ الاسلام خود اپنی نگرانی میں کروا رہے ہیں۔اول دن سے ہی شیخ الاسلام عملی دعوت پر زور دیتے آئے ہیں اور کہتے چلے آ رہے ہیں کہ دعوت کا اولین مخاطب خود داعی کی اپنی ذات ہوتی ہے لہٰذا ہر کارکن کو اپنی تعمیر ذات پر بھرپور توجہ دے کر ا پنے اندر پر کشش معاشرتی رویوں کو تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔

قارئین! یہ وہ رویہ ہے جو Integrationکو کمال پر لے جاتا ہے اور معاشروں کے مابین پائے جانے والے تعصبات اور تحفظات دور ہو جاتے ہیں۔ کوئی tensionباقی نہیں رہتی اور پورا معاشرہ اعتدال پسندی اور امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ شیخ الاسلام یہ کام دنیا بھر کے مختلف معاشروں میں سر انجام دے رہے ہیں۔

منہاج القرآن انٹرنیشنل اپنے ایسے ہی پروگرام کے ساتھ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں مصروف جدوجہد ہے اور صورتحال یہ شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کہ مقامی حکومتیں اپنے اپنے معاشروں میں پائی جانے والی tensionsکو دور کرنے کے لئے MQIکے زعماء اور قائدین سے مشاورت کر کے اصلاح احوال کا لائحہ عمل وضع کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں اور یوں انہیں حالات کو خوشگوار رکھنے میں نہ صرف مدد ملتی ہے بلکہ اسلام کے حقیقی پیغام کو بھی سمجھا جانے لگا ہے۔

یہی کام اعلیٰ سطح پر بھی ہو رہا ہے اور مختلف ممالک کے تھنک ٹینکس شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی سے رابطہ میں رہتے ہیں، انھیں اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں اور حصول امن اور بقائے باہمی کے فروغ اورintegration کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے سلسلے میں رہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں۔

3۔ فروغِ علم میں شیخ الاسلام کا کردار

اسلام کے تشخص کے تحفظ اور بقائے باہمی کے جذبہ کے فروغ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کا تیسرا زریں پہلو فروغِ علم ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے تحریک منہاج القران انٹرنیشنل کی بنیاد’’علم وحکمت‘‘ اور ’’خیراًکثیراً‘‘ پر استوار کی۔ علم کا فروغ تحریک کی وہ بنیاد ہے کہ جس پر منہاج القران کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی دانست میں نہ صرف وطن عزیز پاکستان بلکہ ساری دنیا میں تحفظِ اسلام، بقائے باہمی اور امن اجتماعی کا واحد حل تعلیمِ عامہ کے ذریعے لوگوں میں پیار، محبت، اخوت اور بھائی چارے کے فروغ میں مضمر ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے شیخ الاسلام کے لئے ملک عزیز میں بنیادی سطح پر ایسے تعلیمی اداروں کے قیام کا عمل ناگزیر تھا کہ جس کے اندر پیار، محبت اور سب انسانوں کے لئے امن اور سلامتی کا درس دیا جاتا ہو۔ سکولوں اور مدرسوں میں رائج روایتی نصاب تعلیم کی بجائے ایک ایسے جدید نصاب کو متعارف کرانے کی ضرورت تھی کہ جو طالب علموں میں گروہی، طبقاتی، مسلکی سوچوں اور قدامت پسندی، (Conservatism) تعصب اور تنگ نظری کے رحجانات کی بجائے آفاقی، روحانی، ملی، اجتماعی، اجتہادی اور سائنسی نظریات اجاگر کرنے کا حامل ہو۔ جو اُن میں فراخدلی، رواداری، کشادہ دلی اور وسیع النظری پر مبنی احساسات اور جذبات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے آپ نے اپنے ہاں زیر تعلیم طالب علموں کی خصوصی تربیت فرمائی اور ان کے اندر پنہاں انسانی اقدار (Human Values) کو اجاگر کرنے پر توجہ فرمائی۔ مینجمنٹ سیاسیات، روحانیات، اقتصادیات، قانونیات، عصریات اور دین سے متعلق سائنسی مضامین عصری تقاضوں کے مطابق خود پڑھائے اور اُن کی عملی تربیت دی۔ شیخ الاسلام علم کی دنیا میں بین الاقوامی سطح پر ایک نابغۂ روزگار کی حیثیت سے جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے علاوہ امریکہ اور یورپ کی معروف یونیورسٹیوں میں اسلام اور امن عالم کے موضوعات کے حوالے سے ان کی ایک منفرد علمی پہچان ہے۔ امن عالم کے لئے ان کی مساعی جمیلہ کو ساری دنیا میں سراہا جارہا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پیار، محبت، تحمل، برداشت اور فروغِ علم کے ذریعے بقائے باہمی اور امنِ عالم کے قیام میں یقین رکھتے ہیں۔ بنا بریں اپنے مشن کی بنیاد بھی آپ نے دعوت الی الخیر، تعلق باللہ، ربط رسالت، محبت، تعظیم رسول ﷺ ، رجوع الی القرآن، فروغِ روحانیت و تصوف، اصلاحِ احوال، اتحاد اور تعلیماتِ اسلامی کی حقیقی روح سے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو آگہی اور بیداری شعور کے زیور سے آراستہ کرنے پر رکھی۔ آپ کے مشن کے فکری اور نظریاتی امتیازات میں جامعیت، خالصیت، صالحیت، انقلابیت اور آفاقیت کے بنیادی جوہر نمایاں ہیں۔

4۔ فلاحِ عامہ کے لیے شیخ الاسلام کی خدمات

دنیا میں بقائے باہمی اور قیامِ امن کے لیے انسان کو غم سے نجات دلانا ناگزیر ہے۔ بحمداللہ تعالیٰ تحریک کے شعبہ منہاج ویلفیئر فاونڈیشن کے قیام کا مقصد نوعِ انسانی سے بلا تمیز رنگ، نسل، زبان اور مذہب ہمدردی کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ یہ باہمی رواداری، بھائی چارے، اخوت اور مساوات کی فضا قائم کرنے اور تمام طبقات کو ساتھ لے کر ایک حقیقی اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لیے عملی جدو جہد ہے۔ علم، صحت اور فلاح عام کے میدان میں منہاج ویلفیئر فاونڈیشن کے کارنامے لازوال اور بے مثال ہیں۔ بہت وسیع پیمانے پر زلزلہ زدگان اور سیلاب سے تباہ ہونے والے خاندانوں کی بحالی کے منصوبوں کی تکمیل، ہر سال بے سہارا یتیم بچیوں کی اجتماعی شادیوں کے منصوبے اور لاہور میں یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت اور تعلیم اور تربیت کے لئے ایک عظیم الشان کمپلیکس ’’آغوش‘‘ کی تعمیر نبی اکرم ﷺ کا تحریک منہاج القران پر براہ راست وہ فیضان ہے جس کوشیخ الاسلام نے نبی محتشم ﷺ کے خاص احسان سے تعبیر کیا ہے۔

منہاج القران انٹر نیشنل کے تحت دنیا کے 100 ممالک کے لاتعداد مراکز اور مرکزی سطح پر قائم تحریک کے بیسیوں شعبہ جات، انتہائی منظم اور باصلاحیت تنظیمات اور ان کے تحت متعدد فورمز نہایت کامیابی سے ملک عزیز پاکستان اور دنیا بھر میں تحریک منہاج القران کے لاکھوں رفقاء وابستگان ہمہ وقت اسلامی اقدار کے تحفظ، بقائے باہمی اور قیامِ امن کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں، برکتیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کی خصوصی توجہات و عنایات اسلام کے اس بطلِ جلیل یگانۂ روزگار پر نازل ہوں۔اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو عمر خضر عطا فرمائے کہ آج کے دور میں وہ نجات دہندہ ہیں اس لئے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محبت و ادبِ مصطفی ﷺ میں گندھی ہوئی اُن کی تعلیمات ہی کے ذریعے نہ صرف بقائے باہمی اور قیامِ امن کا خواب ممکن ہوگا بلکہ دہشت گردی و انتہا پسندی کا بھی حقیقی معنی میں سدِّ باب ہوسکے گا۔