ملتِ اسلامیہ کو درپیش چیلنجز اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

اسلام دین انسانیت ہے۔ تہذیب اسلامی کی بقا اور تسلسل اسی احساس کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب بھی مسلم دنیا نے اپنے اس منصب سے روگردانی کی تو بین الاقوامی سطح پر پسماندگی و زوال اور داخلی سطح پر فرقہ واریت، فکری انتشار اور اندرونی مناقشات پیدا ہوئے۔ جس دور میں بھی اسلام کے اس مزاج سے شناسا شخصیات دعوت و ارشاد اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لیے منظر پر موجود تھیں، ملت اسلامیہ کا وقار بحال رہا۔ اس کی مثال احیائے ملت اسلامیہ کی تاریخ میں امام غزالی ہیں جن کی تصنیف احیائے علوم الدین نے اس دور میں معاصر فتنوں کے ادراک اور حل میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔ برصغیر میں ملت اسلامیہ کے احیاء کے حوالے سے شاہ ولی اللہ کی خدمات جامعیت کی حامل ہیں۔ آپ نے ایک طرف عامۃ الناس کو قرآن و سنت کی طرف راغب کرنے کی ٹھوس کاوش کی تو دوسری طرف ملکی سیاسی و انتظامی حالات کو سدھارنے کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ احیائے ملت اسلامیہ کی حالیہ تاریخ میں علامہ اقبال کی حیثیت ایک برزخی سنگ میل کی ہے کہ علامہ اقبال نے مشرق و مغرب کے فکر و فلسفہ کا مطالعہ کیا، مغرب کے اعلی تر فکری و علمی تصورات و نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا اور پھر ملت کے ناقہ بے زمام کو سوئے حرم گامزن کرنے کی جدوجہد کی۔ ایک طرف علامہ اقبال کی نظر دور جدید کی ترقی اور علمی عروج پر تھی تو دوسری طرف وہ احیائے ملت اسلامیہ کے لیے ملت کو تعلق باللہ و نسبت رسالت کی پختگی کے ذریعے اپنے اجتماعی وجود کو مستحکم کرنے کا درس دے رہے تھے۔

موجودہ دور میں عالمی سطح پر اسلام کے دینِ انسانیت کے طور پر نمائندگی کا فریضہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری انجام دے رہے ہیں۔ آج اسلام کے بین الاقوامی سطح پر ابلاغ میں کئی مقامی اور عالمی چیلنجز در پیش ہیں۔ آج وہی شخصیت اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتی ہے جو معاصر مسائل سے آگاہ ہو، دورِ نو کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قرآن و سنت سے رہنمائی لے سکتی ہو اور خود ملتِ اسلامیہ کو داخلی سطح پر درپیش سماجی، دینی اور علمی مشکلات سے بھی آگاہ ہو۔ ان ہی مشکلات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حکمتِ عملی کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:

1۔ جدید علم الکلام کی تشکیل

دورِحاضر میں عقائد کے باب میں اسلام کو درپیش چیلنج یہ ہے کہ دین عملاًآخرت کا معاملہ ہو کر رہ گیا ہے اور اس کا زندگی کے عملی معاملات سے کوئی واضح تعلق نہیں رہا۔ نتیجتاً آج عقائد؛ اوھام (Myths) اور عبادات؛ رسوم (Rituals) بن گئی ہیں اور مذہب کا عملی زندگی میں جاری اثر معدوم ہو کر رہ گیاہے۔ گزشتہ ادوار میں عقائد کو جن چیلنجز کا سامنا تھا ان میں سے اکثر و بیشتردیگر نظامِ فکرو فلسفہ کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات پر مشتمل تھے جن کا عقلی وفکری بنیادوں پر مقابلہ کیا جاتا تھا مگر دورِ حاضر کا چیلنج ہماری اپنی عملی زندگی سے جنم لے رہا ہے لہٰذاضرورت اس امر کی تھی کہ اس فتنے کے اصل اسباب کا کھوج لگایا جائے اور اس کے ازالہ کی مؤثر سبیل کی جائے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جہاں زندگی کے دوسرے میدانوں میں اصلاحِ احوال ِامت کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں وہاں آپ نے عقائد کے باب میں نمایاں فکری خدمات انجام دیتے ہوئے مسلم علم الکلام میں نئے باب کا اضافہ کیا۔ آپ نے مذکورہ بالاچیلنج کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی اصل اساس کو تلاش کیا اور اس امر کو دلائل و براہین سے بیان کیا کہ آج امتِ مسلمہ کی دینی و مذہبی زندگی پر درج ذیل پہلؤوں سے حملے ہورہے ہیں:

1۔ مادیت کا حملہ

2۔ اشراقیت کا حملہ

3۔ متنبّیت کا حملہ

4۔ معرضیت کا حملہ

مادیت کے حملے کے تحت مسلمانوں کے اذھان و قلوب کو مغربی تہذیب کی مادی اقدار کی چکا چوند سے متاثر کرکے دینی اقدار پر اعتماد کو متزلزل کیا جا رہا ہے کہ وہ اسلام کی روحانی اقدار سے برگشتہ ہو جائیں۔

اس حملے اور فتنہ کے جواب میں شیخ الاسلام نے تصوف کا زندہ، عملی اور حرکی تصور متعارف کروایا۔ نسل نو کی کثیرتعداد آپ کے دروس تصوف سے متاثر ہو کر اسلام کی روحانی اقدار کی گرویدہ ہوئی۔ ہر سال منہاج القرآن کے مرکز پر دس روزہ اعتکاف اور سالانہ روحانی اجتماع آپ کی فکری و عملی کوششوں کے عملی پیرائے کی ایک شکل ہیں جہاں سے ہر سال ہزاروں افراد روحانی تازگی لے کر واپس لوٹتے ہیں۔

اشراقیت کا فتنہ بھی اسلام کے روحانی پہلو کے بگاڑ کا باعث ہے کہ اس فتنے کے تحت شریعتِ مطہرہ سے آزاد، آزادروی پر مشتمل کھوکھلی روحانیت کو رواج دیا جا رہا ہے۔

شیخ الاسلام نے شریعت کو روحانیت و طریقت کی بنیاد کے طور پر بیان کیا جس پر آپ کے کثیر خطابات اور تصانیف شاھد ہیں۔

اسلام پر ہونے والا تیسرا بڑا فتنہ متنبیت کا ہے۔ اس سے مراد جھوٹی نبوت ہے۔ برصغیر میں قادیانیت کے فتنے کے قلع قمع کرنے میں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒکا کردار قابل ذکر ہے۔ دورِ حاضر میں جب مباہلہ کے عنوان سے قادیانیت کی طرف سے دوبارہ نسل نو کو گمراہ کرنے کی سازش کا آغاز ہوا تو آپ نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے قادیانیت کے سربراہ کو مینار پاکستان کے سائے تلے مباہلہ کی فیصلہ کن دعوت دی۔ مینار پاکستان کے سائے تلے قادیانیت کے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں ہونے والی یہ ختم نبوت کانفرنس نہ صرف قادیانیت کے فتنہ کا قلع قمع ثابت ہوئی بلکہ ملک میں موجود فرقہ وارانہ فضا میں مختلف مکاتب فکر کے اجتماع اور اتحاد امت کی علمبردار کانفرنس بھی بن گئی۔

ان فتنوں میں مؤخرالذکر معرضیت کا فتنہ سب سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے کیونکہ اسی حملہ کا اثر ہے کہ ہمارا نظامِ عقائد عملی سطح پر بے اثر اور بے روح ہو کر رہ گیا ہے۔ اس حملہ کے زیرِاثر ایسی کاوشیں ہو رہی ہیں کہ اسلام کے نام پر افرادِ امت کو حضوراکرم ﷺ سے دور کیا جا رہا ہے اور توحید سے عام معمولات ِزندگی تک سے متعلق عقائد کو ایک ایسے بگاڑ سے دوچار کر دیا گیا ہے جس کا مقصد امت کو اپنے مرکز سے دور کرنا ہے تاکہ امت کا آپ ﷺ سے قلبی، روحانی اور حبی و عشقی تعلق کمزور کردیا جائے اور اسے توحید کی حفاظت کا عنوان دے دیا گیا ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے اس فتنے کے قلع قمع کے لئے مؤثر کاوشیں فرمائیں اور عقائدِ اسلامی کو حقیقی روح کے ساتھ واضح کیا کہ آج معاشرے میں عقائد کے باب میں مناظروں اور مجادلوں کا کلچر کم و بیش ختم ہو گیا ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تعلق کی پختگی کی بات کم وبیش ہر مکتبہ فکر کے ہاں ہونے لگی ہے۔

2۔ سیرت الرسول ﷺ کی حقیقی تفہیم کی ضرورت

آج دوسرا چیلنج جس کا ہمیں من حیث الامہ سامنا ہے، وہ سیرت الرسول ﷺ کی حقیقی تفہیم سے محرومی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ صرف اہل اسلام کے لیے ہی نمونۂ عمل، اللہ رب العزت کی ہدایات کی توضیحِ کامل، قرآن حکیم کی عملی تفسیر یا احکامِ الٰہیہ کی عملی تعبیر نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک ایسا جامع نمونہ ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے فلاح اور ابدی کامیابی کی ضمانت مل سکتی ہے۔ تاہم سیرت رسول ﷺ کی پیروی کے نتائج، اثرات اور ثمرات اس بنیادی حقیقت سے متعلق ہیں کہ سیرت کی پیروی کس یقین، ارادے، عزم اور نیت کے ساتھ کی جا رہی ہے۔

جہاں تک سیرت رسول ﷺ کی پیروی اور زندگی میں مطلوبہ اثرات مرتب ہونے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ تعلیم اس انداز سے آگے بڑھائی جائے کہ اس سے قارئین میں جذبہ حبی بھی پیدا ہو اور نسبت رسالت مآب ﷺ کے استحکام کی راہ بھی نکلے۔ تاحال سیرت پر لکھی جانے والی جملہ کتب کا موضوع ’’کیا؟‘‘ تھا یعنی سیرت کے واقعات کیا ہیں؟ جب کہ دورِ حاضر کے بدلتے تقاضوں اور ضروریات کے تحت فن سیرت میں بیان اور تصنیف کی جہات کو توسیع پذیر کرنے کی ضرورت ہے۔

دورِ حاضر کا تقاضا یہ ہے کہ اب سیرت کے بیان میں ’’کیا؟‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’کیوں؟‘‘، یعنی اس واقعہ کی وجہ (Reason)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ’’کیسے‘‘، یعنی وقوع ہونے کا طریقہ کار (Mechanism) کیا تھا۔ ۔ ۔ ؟ اور’’کس لیے‘‘یعنی اس واقعہ کا مقصدِ وقوع کیا تھا؟ اسے بھی شامل کیا جائے۔

اسلام کا ابتدائی زمانہ وسعت پذیری کا دور تھا۔ اسلام کی ریاست میں توسیع ہو رہی تھی، لہٰذا ابتدائی سیرت نگاروں نے سیرت کو مغازی کے عنوان کے تحت بیان کیا۔ مغازی کا مقصد آپ ﷺ کے عہد مبارک کے غزوات، سرایا، مہمات اور اسلامی ریاست کی عسکری تنظیم و تربیت کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنا تھا۔ مغازی کے مطالعہ سے بعثت نبوی سمیت اسلامی ریاست کے قیام، توسیع، استحکام اور انتظام کے بارے میں اہم اور مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بڑی اہم اور بنیادی معلومات ہیں مگر موجودہ دور میں اسلام کو احیاء کا چیلنج در پیش ہے، لہٰذا اس دور میں سیرت نگاری کا تقاضا یہ ہے کہ ماسبق کتب سیرت کی طرح صرف حالات و واقعات کو ہی نہ بیان کیا جائے بلکہ سیرت کی روشنی میں مذکورہ چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کی سبیل بھی تلاش کی جائے۔

آج ہمیں سیرت کے واقعات میں موجود ربط اور حکمت معلوم کر کے اس کے دورِ حاضر کے حالات پر انطباق کرنے کی اہلیت حاصل کرنا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی تصانیف اور خطبات و دروس کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان میں نسبتِ رسالت مآب ﷺ کے استحکام کا رنگ ہر جا نمایاں نظر آتا ہے۔ تاہم وہ کتب جو سیرت رسول ﷺ سے متعلق ہیں، ان میں بدرجہ اولیٰ اور بتمام و کمال اس امر کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ کے ساتھ نسبت کو کس طرح سے مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ شیخ الاسلام نے ’’سیرت الرسول ﷺ ‘‘ کی تصنیف میں جن امور کو مدنظر رکھا، آیئے اُن کا سرسری جائزہ لیتے ہیں:

(1) مطالعۂ سیرت کا منہاج

شیخ الاسلام کی عہد آفریں تصنیف ’’سیرت الرسول ﷺ ‘‘ کا دو جلدوں پر مشتمل مقدمہ اپنی مثال آپ ہے۔ جس میں آپ نے سیرت رسول ﷺ کی حکمت و فلسفہ اور معاصر مسائل کے حل کے حوالے سے دورِ حاضر میں ہماری انفرادی اور قومی زندگی کے لیے سیرت کی معنویت کو بیان کیا ہے۔ اس میں سرفہرست سیرت کے مطالعے کے منہاج کا تذکرہ ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ دورِ حاضر میں سیرت کے فہم میں حائل ایک سبب نہ صرف سیرت کا ادھورا فہم ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری انفرادی اور قومی زندگی مختلف مسائل سے بھی دوچار ہے۔ اس ’’مقدمہ‘‘ میں شیخ الاسلام نے ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مطالعہ سیرت کے بنیادی اصول متعین فرمائے ہیں۔

(2) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرزِ عمل سے تائید و توضیح

ذاتِ نبوت ﷺ کے ساتھ تعلق کے باب میں فہم سیرت کے حوالے سے ’’مقدمہ سیرت الرسول ﷺ ‘‘ میں صرف بنیادی قواعد و ضوابط تک ہی بات کو محدود نہیں رکھا گیا بلکہ شیخ الاسلام نے اس کی تائید و توضیح براہ راست سیرتِ صحابہ سے فرمائی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے والے اولین خوش نصیب افراد تھے جنہوں نے نہ صرف براہ راست بارگاہِ نبوت سے فیض تربیت پایا بلکہ وہ اس نمونہ مثالی پر بھی ڈھلے جس کو آج ہم پیروی کی مثال بنا سکتے ہیں۔

(3) حضور ﷺ کے شخصی فضائل و شمائل کی معرفت

’’سیرت الرسول ﷺ ‘‘ میں شیخ الاسلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کا تعارف کرواتے ہوئے اور آپ ﷺ کی سیرت کی مختلف جہات کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ کے شخصی فضائل اور خلق کی عظمت و کاملیت کے مختلف پہلوؤں کو بھی یہاں موضوع بحث بنایا ہے۔ خلق محمدی کے معاشرتی پہلو، خلقی پہلو، حلم کے پہلو، حیا، سخاوت، صبر اور مخلوق پر رحمت و شفقت کے پہلو اور آپ کے تواضع کے پہلو کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ اور آپ کے منصب نبوت کی مختلف جہات کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کی سیرت مبارکہ صرف دینی یا مذہبی ضرورت ہی نہیں بلکہ ہمارے لیے ایک معاشرتی، سماجی، انسانی اور شخصیتی ضرورت بھی ہے یعنی ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے مثالی شخصیات کا ہونا ضروری ہے جب تک معاشرے کے افراد مثالی نہیں ہوں گے، معاشرے کی ہیئت اجتماعی مثالی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی۔ اگر افراد کو باکردار بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے ایک ایسا نمونۂ عمل ہو جس کی پیروی کر کے وہ اس معیار کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں اور معاشرے کے اہم اور فعال اجزائے ترکیبی بن سکیں۔

اس حوالے سے اگر کوئی شخصیت نمونۂ کامل ہو سکتی ہے تو وہ حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ تاہم آپ کی ذاتِ مبارکہ کے ساتھ جو تعلق استوار کرنا ہو گا وہ تعلق آپ ﷺ کے کمالات، آپ کے محاسن، فضائل اور شمائل کی معرفت حاصل کرتے ہوئے آپ کی عظمت اور بے مثلیت کا ایسا اعتراف و یقین ہے جس کے نتیجے میں ذاتِ نبوت کے ساتھ محبت اور عشق پر مبنی تعلق ہمارے ایمان و ایقان کا جزو بن جائے۔

3۔ بین المذاہب رواداری اور قیام امن

آج تیسرا بڑا چیلنج جو ہمیں بطورِ امت درپیش ہے وہ قیامِ امن ہے اور اس حوالے سے بین المذاہب رواداری کا فروغ ہے۔ تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں اس عظیم مشن کے لئے دنیا بھر میں مصروف جدوجہد ہے۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کا علمبردار ہونے، انسانی حقوق کی نشر و اشاعت اور دنیا کے ہر ملک کے لیے امن و آشتی کے پیغام کے فروغ کے سبب دنیا بھر کی اصلاحی اور اسلامی تحریکوں میں تحریک منہاج القرآن نے انفرادیت اور امتیاز حاصل کیا ہے۔ آج اس تحریک کو ملت اسلامیہ کی وہ نمائندہ تحریک سمجھا جاتا ہے جو وطن عزیز اور بیرون ممالک میں اصلاحِ احوال کے مشن کی تکمیل میں مصروف عمل ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی بصیرت و حکمت سے دورِ حاضر کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی جدوجہد کو ان خطوط پر استوار کیا:

1۔ وابستگان تحریک میں ایمان، اخلاقی برتری، عمل و کردار، تقویٰ اور اسلام کی عطا کردہ اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دیا جائے۔ ۔

2۔ فکری واضحیت سے آراستہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو راست فکر اور راست عمل کا مظہر ہوں۔

3۔ عہد حاضر کے اخلاقی، معاشی، مادی، سیاسی، سائنسی اور عسکری چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے علم کو فروغ دیا جائے اور تخلیقی علم کے کلچر کو عام کیا جائے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد صرف وطن عزیز تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار عالمی سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ تہذیبوں کے مابین مفاہمت اور مکالمے کی بات انہوں نے عالمی سطح پر اٹھائی ہے۔ ان کی جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ:

  • عالمی سطح پر حکومتوں کو باہمی افہام و تفہیم اور بات چیت کی طرف راغب کیا جائے۔
  • ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی حاصل کرکے اور ان تک حقائق پہنچائے جائیں تاکہ باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔
  • پھر ان ممالک میں ایسے عناصر سے رابطہ اور تعارف کی راہ ہموار کی جائے جن سے کلی یا جزوی اشتراکِ عمل ممکن ہے۔

دہشت گردی کی نفی، اسلامی تعلیمات کی غلط تعبیر کی مذمت اور عالمی سطح پر قیام امن کے اسلام کے کردار کو اجاگر کرنے کے سبب دنیا بھر کے اہلِ فکر و نظر نے آپ کے اس کردار کو تحسین پیش کی ہے۔

اسلامی تصورات و تعلیمات کا تحفظ بذریعہ علم و امن

شیخ الاسلام نے اسلام کے علم و دانش اور اعلیٰ تصوراتی محاذوں کے خلاف حملوں کا مقابلہ مخاصمت یا غیض و غضب کی فضا میں نہیں بلکہ تعلیم و تعلم، علم دوستی اور منطق کو فروغ دے کر کیا ہے۔ اوسلو میں13 اگست 1999ء میں بین الاقوامی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’اسلام میں جس چیز کو قابلِ ذکر طور پر انتہائی اہمیت حاصل ہے وہ اوّل و آخر ابتدا تا انتہا سوائے امن کے اور کچھ نہیں۔ کوئی چیز جو امن کے خلاف، امن کے منافی، امن سے متصادم اور امن سے متضاد ہو اس کا مطلقًا اسلامی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں اور چاہے جو کوئی بھی ہو اگر اس کے مزاج اور کردار میں دہشت گردی یا انتہا پسندی کا مادہ ہے اور وہ انسانی معاشرتی عالمی امن کے لئے خطرے کا باعث ہے تو مطلق طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا مخالف ہے۔ ‘‘

تحریک منہاج القرآن کئی سالوں سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے۔ دہشت گردی اور خود کش حملوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تحریک منہاج القرآن کے نوجوان مسلمانوں کو اعتدال پسندی کا درس دے رہے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ایسے عوامل جن سے معاشرے میں انتہا پسندی کا خطرہ ہو سکتا ہے اور نوجوان نسل (جو ابھی پختہ ذہن نہیں) انتہائی قدم اٹھا سکتی ہے، ایسی صورت حال میں اسلام کے سنہرے اصولوں پر عمل کر کے ان سے بچا جا سکتا ہے۔

خلاصۂ کلام

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تمام فورمز شیخ الاسلام کی ولولہ انگیز اتحاد آفریں قیادت میں ایسی معاشرتی ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے جو کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں، وہ دنیا بھر میں امن کو فروغ دینے کا موجب ہیں۔ وطن عزیز میں بھی آپ کی کاوش کا مطمع نظر ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جہاں ہر طرح کی تفرقہ بازی اور کشاکش کا خاتمہ کر کے باہمی ہم آہنگی اور امن و آشتی کی فضا کو فروغ ملے۔ دریں سلسلہ آپ نے درج ذیل حوالے سے جدوجہد کی:

  1. اعتقادی سطح پر اعتدال کا فروغ
  2. مذہبی سطح پر اعتدال کا فروغ
  3. سماجی سطح پر اعتدال و ہم آہنگی کا فروغ

شیخ الاسلام نے نہ صرف برصغیر بلکہ تمام عالم اسلام میں مذہبی عقیدہ و عمل میں میانہ روی پیدا کرنے کے لئے جو کارنامہ سرانجام دیا اس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے دنیا بھر کے دورے کئے، کیمونٹی سنٹر، یونیورسٹیوں اور دیگر مقامات میں خطابات اور لیکچرز دیئے جن کے ذریعے اعتدال پسند اسلام کا پرچار کیا اور مذہبی قدامت پرستی کے رحجان کی حوصلہ شکنی کی۔

تاحال ان کے ہزارہا لیکچرز تمام formats میں دستیاب ہیں جو صحیح اسلامی اقدارِ امن، رواداری، اور محبت کو فروغ دینے میں ان کی انتھک کوششوں کا بین ثبوت ہیں۔ ان لیکچرز کے علاوہ ان کی شائع شدہ تصنیفات کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن سے اسلام کے روشن اور متحمل پیغام کی اشاعت دینی اور قانونی اعتبار سے کی گئی ہے جو ان کے نقطہ نظر کی ترجمان ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک جدوجہد اور ایک فکر کا عنوان ہیں۔ جو فی زمانہ کردار و عمل ہی نہیں بلکہ سوچ و فکر اور رویّوں میں تبدیلی کے لیے مصروف جدوجہد ہیں۔ آپ کی ان کاوشوں کے اندرون ملک اور عالمی سطح پر مرتب ہونے والے اثرات آج بقائے باہمی کے اصولوں کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں ممد ہو سکتے ہیں جہاں حقوق انسانی کے تحفظ کے ساتھ امنِ عالم کی ضمانت موجود ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد کا مقصود ملت اسلامیہ کے اس کردار اور مقام کی بحالی ہے جسے فراموش کرنے کے باعث ملت مسائل سے دوچار ہے:

نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را